Sunday, June 16, 2013

پیرس، سائیں انترنیٹ، ناول، سرفراز بیگ، PARIS








پیرس

آدم اور داؤد نے ہاتھ میں CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتایعنی اٹلی کا شناختی کارڈ) لیئے اور دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے۔ ان دونوں کی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ کوئی بھی یہ اندازہ نہیں کرسکتاتھا کہ یہ اصلی ہیں یا نقلی۔ اس CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتا) کا فائدہ یہ تھا کہ پانچ سال تک استعمال کیا جاسکتا تھا۔ کیونکہ اس پر جو تاریخِ انقضاء تھی وہ پانچ سال بعد کی تھی۔ انھیں گھر سے نکلے قریباًتین سال ہوچکے تھے۔اس دوران کبھی بھی مربوط طریقے سے سفر نہ کرسکے تھے۔ لیکن اس CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتا) کی بدولت وہ پورے
طمطراق کے ساتھ سفر کرسکتے تھے۔ انھوں نے اپنا سامان تیار کیا۔ اس طرح پہلی دفعہ ہواتھا کہ وہ بنا کسی ایجنٹ کے سفر کر رہے تھے۔ انھیں اگر ڈر تھا تو وہ بھی اریزو ریلوے سٹیشن کا کیونکہ شام کے وقت وہاں کافی پولیس ہوتی۔
دونوں نے ٹکٹ پہلے سے ہی خرید کر لیئے تھے، کیونکہ یہ ٹرین رات کو چلتی اور صبح آٹھ بجے GARE DE LYON ( گاغ دی لی اون، پیرس کا ایک بڑا ریلوے سٹیشن) پہنچتی۔ اس کے لیئے COUCHETTE ( کوشیت، برتھ) کی بکنگ پہلے سے کروانی پڑتی ہے۔ انھیں تمام تفصیل سمجھا دی گئی تھیں۔ کیسے وہ اریزو سے FIRENZE ( فیرینزے، فلورنس) جائیں گے اور وہاں سے ٹرین بدلنی ہوگی ۔ اپنا ٹکٹ اور CARTA D'IDENTITA(کارتا دی ایدن تیتا) ٹی ٹی کو دے دیں گے اور پھر couchette (کوشیت،برتھ)پے جاکے سوجائیں گے لیکن یہ ضروری نہیں جیسے ان کا دل چاہیں کریں۔
دونوں ٹھیک شا م سات بجے اریزو ریلوے سٹیشن پر تھے۔انھیں، تکمیل بانڈے، لالہ بشیر، اور چند دوسرے پاکستانی سٹیشن پر چھوڑنے آئے تھے۔ٹرین کا وقت ہو چلا تھا۔ دونوں نے سب کو خدا حافظ کہا اور اپنے bags(اسباب)گھسیٹتے گھسیٹتے سیڑھیاں اترنے لگے۔ ٹکٹ punch ( یورپ مین جب آپ ٹکٹ خریدتے ہیں تو اسے پلیٹ فارم پے لگی ہوئی مشین سے گزارنا پڑتا ہے یاپنچ کرنا پڑتا ہے پھر آپ ٹرین میں سوار ہوتے ہیں، پنچ) کیا اور اپنے مطلوبہ binario ( بیناریو،اطالوی زبان میں پلیٹ فارم کو بیناریو کہتے ہیں، پلیٹ فارم) پر پہنچ گئے۔ ان کی ٹرین آدھا گھنٹہ لیٹ تھی۔ اٹلی کی ٹرینیں اکثر وقت پر نہیں آتیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کبھی کبھی ٹرین وقت سے پہلے آجاتی ہے۔یہی حال
بسوں کا بھی ہے۔ آدم اورداؤد کے لیئے یہ کوئی اچمبھے کی بات نہ تھی۔ دونوں پاکستانی تھے۔ پاکستانی ٹرینوں اور بسوں کا اس سے بھی برا حال ہے۔
ٹرین لیٹ ہونے کی وجہ سے انھیں صرف اتنی پریشانی لاحق تھی کہ کہیں دھر نہ لیئے جائیں اور دوسری وجہ ، جو ٹرین انھوں نے پیرس کے لیئے بدلنی تھی اس کے چھوٹ جانے کا ڈر تھا۔
دونوں نے احتیاطً couchettes ( کوشیتز، برتھیں)بھی علیحدہ علیحدہ reserve ( محفوظ یعنی ریزرو)کروائیں تھیں۔ کئی دفعہ ٹی ٹی تین چار غیرملکیوں کو ایک ہی کیبن میں دیکھ کر شک میں مبتلا ہوجا تاہے۔ ٹی ٹی کا کام ٹکٹ چیک کرنا ہوتا ہے یاکوئی مسافر غلطی سے کسی غلط کیبن میں تو نہیں چلا گیا۔ کاغذات کی جانچ پڑتال سرحدوں پے متعین پولیس کرتی ہے۔
ابھی وہ دونوں نہ جانے کن سوچوں میں گم تھے کہ firenze (فیرینزے) فلورنس جانے والی ٹرین پلیٹ فارم نمبر چار پر آکر رکی۔دونوں نے نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ درجہ دوم میں bags (اسباب) سنبھالتے داخل ہوگئے۔ جیسے ہی آکر سیٹوں پر بیٹھے انھیں تھوڑا سا سکون ملا۔پریشانی بھی تھی۔ جب تک اپنی منزلِ مقصود تک نہ پہنچ جاتے۔ یہ ڈنکی دوسری دونوں ڈنکیوں سے مختلف تھی۔ اس میں دونوں اپنے اپنے ایجنٹ خود تھے اور پہلی دفعہ بالکل آزاد تھے۔ ان پر کسی قسم کا کوئی بوجھ نہیں تھا۔ ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چل پڑی۔ آدم حسبِ عادت کھڑکی سے باہر سے باہر دیکھنے لگا۔ہلکا ہلکا اندھیرا ہوچلا تھا لیکن باہر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ regional (ریجنل) ٹرین تھی۔ سارے چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں پر رکتی رہی۔MONTEVARCHI(مونتے وارکی), SANGIOVANNI VALDARNO (سانجووانی والدارنو), FIGLINE(فلی نے), CAMPO DI MARTE (کامپو دی مارتے) اور آخری سٹیشن تھا FIRENZE SANTA MARIA NOUVELLA (S.M.N.) (فیرینزے سانتا ماریا نوویلا،ایس۔ایم ۔این۔) ۔جہاں سے انھوں نے پیرس کے لیئے ٹرین بدلنی تھی۔ دونوں ٹرین سے اترے اور اپنا سامان گھسیٹتے ہوئے میکڈونلڈ کے اندر داخل ہوئے۔ دونوں نے میکڈونلڈ میں فش فی لے برگر کا آڈر دیا۔ حسبِ رواج انھیں انتظار کرنا پڑا کیونکہ یہ واحد برگر ہے جو میکڈونلڈ والوں کے پاس تیار نہیں ہوتا۔یہ یا تو سفید گوشت کھانے والے کھاتے ہیںیا مسلمان اسے حلال تصور کرکے کے کھاتے ہیں۔تھوڑی دیر میں کاؤنٹر پر ایک لڑکی نے آکر آواز دیا، "fillet fish burger" (فی لی فش برگر،یعنی مچھلی کے چھوٹے چھوٹے تیل میں تلے ہوئے ٹکڑے جو بند ،جس کا صحیح تلفظ بن ہے میں بند ہوتے ہیں)۔آدم کاؤنٹر پے گیا تو اس نے دونوں لفافے اس کے ہاتھ میں تھما دیئے حالانکہ آدم امید کررہا تھا کہ trays(ٹریز) میں رکھ کر لائے گی۔ دونوں کو بڑا عجیب لگا، آدم نے اٹالیں میں
کہا،"possiamo mangiare qui"? ( پوسی آمو منجارے کوای یعنی کیا ہم یہاں بیٹھ کر کھا سکتے ہی) وہ منحنی سی محترمہ کہنے لگی،"si,si----certo" ( (سی سی ۔۔۔چیرتو یعنی ہاں ہاں ۔۔۔۔کیوں نہیں) اور وہ دوسرے گاہکوں کو دیکھنے لگی۔
اطالوی لوگ گاہک کی بالکل عزت نہیں کرتے۔ اس میں ان کا کوئی قصور نہیں۔ انھیں پتا ہے کہ دنیا میںُ ُٓٓپائے جانے والی فائن آرٹ سے متعلق چیزوں کی ستر فیصد (70%) تعداد اٹلی میں ہے۔سیاحت اٹلی کی صنعت ہے۔ صرف PISA TOWER (پیسا مینار)ہی اپنا ثانی نہیں رکھتا۔پوری دنیا سے ہر سال لاکھوں لوگ اسے دیکھنے آتے ہیں۔اٹلی کے بارے میں سیاح کہتے ہیں، "every stone has histroy" یعنی یہاں کا ہر پتھر کی کوئی نہ کوئی تاریخ ہے۔
دونوں اپنا اپنا لفافہ تھامے اوپر والے ہال میں آکر بیٹھ گئے۔ دونوں کھاتے ہوئے ٹی وی سکرین پر ٹرینوں کے اوقات بھی دیکھ رہے تھے۔ ان کی ٹرین کی روانگی میں ابھی تھوڑا قت تھا۔
FIRENZE SANTA MARIA NOUVELLA (فیرنزے، سانتا ماریا نوویلا) ریلوے سٹیشن کے سولہ پلیٹ فارمز ہیں لیکن پلیٹ فارم نمبر دس اے، دس بی، گیارہ اے اور گیارہ بی EUROSTAR , EUROCITY ( یورو سٹار، یورو سٹی یعنی تیز ٹرینوں کے نام جو یورپ میں آمد و رفت کے لیئے استعمال ہوتی ہیں) کے لیئے مختص ہیں۔FIRENZE ( فیرنزے فلورنس) سے بسیں بھی دوسرے یورپی ممالک کو جاتی ہیں لیکن ٹرین کا سفر قدرے آرام دہ ہوتا ہے۔
دونوں میکڈونلڈ سے نکلے اور گیارہ نمبر پلیٹ فارم پر آگئے۔ ان کی مطلوبہ ترین آچکی تھی۔ دونوں دوسرے درجے کے ڈبوں میں اپنی اپنی سیٹ اور برتھ تلاش کرنے لگے۔ ہر بوگی کے اندر چھ چھ سات سات کیبن تھے اور ہر کیبن میں چھ چھ COUCHETTE ( کوشیتز، برتھ) تھے۔ تین ایک
طرف اور تین دوسری طرف۔آدم نے اپنا برتھ نمبر دیکھا اور داؤد اپنا نمبر ڈھونڈنے لگا۔ اوپر والی برتھ آدم کی تھی۔۔داؤد نے بھی اپنی برتھ تلاش کرلی تھی۔وہ اپنا سامان رکھ کر آدم کے پاس آگیا۔ دونوں مستقبل کے بارے میں سوچنے لگے۔ ان تین سالوں میں ہر بات کے اتنے عادی ہوچکے تھے کہ انھیں کچھ بھی عجیب نہیں لگتا تھا۔ شروع شروع میں جو باتیں سن کر دل خون کے آنسو روتا تھا ،اب وہ باتیں معمولی لگتی تھیں۔ داؤد، آدم سے کہنے لگا،’’یار آدم بہت ہوگئی۔ میں تو پیرس جاتے ہی ، اگر کوئی لڑکی قابو آگئی تو شادی کرلوں گا ورنہ پیپر میرج کرلونگا ‘‘۔ آدم کہنے لگا، ’’اور ببلی‘‘۔داؤد نے کہا،’’ یار ببلی تو ببلی ہے۔ ویسے بھی اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اسلام میں اور بھی تو بہت ساری باتیں ہیں۔۔۔۔مثلاً ، نماز پڑھنا،سؤر نہ کھانا، شراب نہ پینا، زنا نہ کرنا۔لیکن ہم مردوں کو اسلام کی صرف ایک یہی بات کیوں یاد رہ جاتی ہے‘‘۔ داؤد کہنے لگا،’’یار بحث نہیں چلے گی۔ اب ہمیں اپنے خیالات بدلنے پڑیں گے۔ آخر کب تک ہم ایجنٹوں کے چکر میں پڑے رہیں گے‘‘۔آہستہ آہستہ آدم کے کیبن میں لوگ اپنی اپنی نشستوں پر آنے لگے اور ان دونوں کو اپنی محفل برخاست کرنی پڑی۔داؤد اٹھ کر چلا گیا۔آدم اس کے پیچھے پہچھے ہولیا۔ اس کا کندھا پکڑ کر کہنے لگا،’’ارے تم تو ناراض ہوگئے‘‘۔تو کہنے لگا، ’’نہیں ،ایسی کوئی بات نہیں۔لوگ اپنی اپنی نشستوں پر آگئے ہیں۔ اس لیئے مجھے اچھا نہیں لگا‘‘۔ ’’تو چلو ہم داخلی دروازے کے پاس کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘۔ دونوں وہاں کھڑے ہوکر باتیں کرنے لگے اور ٹرین نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔جیسے ہی ٹرین چلی ٹی ٹی نے آکر نئے مسافروں سے ٹکٹ مانگنے شروع کر دیئے۔ آدم اور داؤد نے تکمیل بانڈے کی ہدایت کے مطابق CARTA D'IDENTITA(کارتا دی ایدن تیتا) میں ٹکٹ اور couchette( کوشیتز یعنی برتھ) کی reservation (ریزرویشن) رکھ کر ٹی ٹی کو تھما دی۔ اس نے اور لوگوں کے کاغذات کے ساتھ ان کے کاغذات بھی رکھ لیئے۔ دونوں کی جان ہتھیلی پر تھی۔ جب تک وہ سرحد نہ پار کرلیتے تب تک انھیں
سکون نہیں مل سکتا تھا۔ خیر چند لمحے سوچنے کے بعد بھول گئے۔ کافی دیر ٹرین چلتی رہی۔ آدم نے باہر جھانک کر دیکھا۔BOLOGNA (بلونیا)کا ریلوے سٹیشن تھا۔ کئی اور سواریاں ٹرین میں داخل ہوئیں اور ٹرین پھر چل پڑی۔ اس طرح PARMA (پارما اٹلی کا ایک شہر)کا سٹیشن بھی گزرگیا۔ آدم اور داؤد کو داخلی دروازے کے پاس کافی دیر ہوچلی تھی۔ ٹرین پھر ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔آدم نے سٹیشن کا نام پڑھا PIACENZA (پی آچینسا)۔چند ایک سواریاں داخل ہوئیں۔
ایک لڑکی ٹوٹی پھوٹی اٹالین میں آدم سے کچھ پوچھنے لگی۔ آدم کے کچھ پلے نہ پڑا۔ آدم نے جان چھڑاتے ہوئے کہا، "no capito italiano" (نو کپیتو اطالی آنو یعنی اطالوی نہیں جانتا)۔ حالانکہ وہ اچھی خاصی اٹالین سمجھتا تھا۔ تو وہ کہنے لگی، ’’کیا آپ انگریزی بول سکتے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی‘‘۔ جیسے ہی جی کی آواز آئی اس محترمہ نے دوسرا سوال کردیا، ’’کیا آپ مجھے بتانا پسند کریں گے یہ کیبن کہاں ہے۔ میں پیرس جا رہی ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی کیوں نہیں‘‘۔ آدم نے نمبر پڑھتے ہوئے کہا، ’’میرا کیبن بھی یہی ہے‘‘۔ ’’بہت بہت شکریہ۔کیا آپ بھی پیرس جارہے ہیں‘‘؟ آدم،’’جی ، میں اور میرا دوست۔ میرا نام آدم خان چغتائی ہے اور یہ داؤد انصاری ہیں‘‘۔
محترمہ، ’’میرا نام TCKNIP MALCOVICH(تاکنپ میلکووچ) ہے۔ میں CROATSIA (کروآ شیا)کی رہنے والی ہوں‘‘۔
آدم،’’ہم پاکستانی ہیں‘‘۔
تاکنپ، ’’پاکستان کہاں سے؟ کراچی یا اسلام آباد یا لاہور‘‘؟
آدم کے لیئے بڑی حیرت کی بات تھی کہ کروآشیا کی رہنے والی لڑکی پاکستان کے بارے میں جانتی ہے۔آدم نے کروآشیاکا ذکر ALLIANCE FRANCAISE (آلیانس فغانسیز)میں سنا تھا۔ ان کا استاد انھیں یوگوسلاویہ اور چیکوسلاویہ کے بارے میں تباتا کرتا تھا کہ یہ لوگ قبیلوں میں آباد
ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ ملک ٹوٹ کر کئی چھوٹے چھوٹے ممالک میں منقسم ہوگئے۔
آدم ،’’ہم لوگ راولپنڈی کے رہنے والے ہیں۔ یہ ہمارے دارلحکومت اسلام آباد سے قریباً تیرہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ لیکن مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ آپ پاکستا ن کے بارے میں کیسے جانتی ہیں۔ میرا مطلب ہے کراچی، لاہور اور اسلام آباد ‘‘۔
تاکنپ، ’’میں اطالویوں کی طرح موٹے دماغ کی نہیں ہوں۔ میں کئی زبانیں جانتی ہوں۔ اطالوی لوگ تو اطالوی زبان کے علاوہ کوئی دوسری زبان بولنے پڑجائے ،تو پریشان ہو جاتے ہیں۔ان کی معلومات عامہ بھی بہت بری ہوتی ہے‘‘۔
آدم، ’’لیکن اٹلی بہت خوبصورت ہے ان کی تاریخ، ادب، فنِ تعمیر ، مصوری اور سب سے بڑھ کر اطالوی لڑکیاں۔ خدا نے انھیں بہت حسن دیا ہے۔ میرا خیال ہے خدا نے مناظر فطرت سے شاعری کی اور اس کو اٹلی کانام دیا ‘‘۔
تاکنپ،’’آدم، آپ اٹلی کی خوبصورتی سے مرعوب ہوگئے ہیں، بلکہ میں کہوں گی مغلوب ہوگئے ہیں‘‘۔
آدم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا،’’کیا آپ پڑھتی ہیں؟ یا فرانس کام کے سلسلے میں جارہی ہیں‘‘؟
تاکنپ، ’’اصل میں ،میں نے جرمن ادب میں ڈگری کی ہے۔ میں زبان و ادب کی استاد بھی بن سکتی تھی،لیکن مجھے یہ کام پسند نہیں۔ ویسے فرانس میں کام کے سلسلے میں جارہی ہوں‘‘۔
آدم اس کے جواب سے بڑا حیران ہوا کیونکہ اس نے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ کتنا پڑھی لکھی ہیں۔خیر آدم نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا،’’آپ جرمن ادب میں کس کو پسند کرتی ہیں‘‘۔
تاکنپ،’’آپ جانتے ہیں سب سے مشہور گوئٹے ہیں۔لیکن مجھے GUNTER GRASS (گنٹر گراس) بہت زیادہ پسند ہیں‘‘۔
آدم،’’میں بھی انھیں پسند کرتا ہوں۔میں نے ان کا TIN DRUM ( ٹن ڈرم، گنٹر گراس کے ناول
کا نام) پڑھا ہے۔لیکن انگریزی میں۔حقیقت میں بہت اچھا ہے‘‘۔
تاکنپ،’’آپ کیا کرتے ہیں؟ کام کرتے ہیں یا پڑھتے ہیں؟‘‘
آدم اپنے دماغ کی hard disc (ہارڈ ڈسک ) میں پروگرام بنارہا تھا کہ کیا بتائے۔ کچھ ایسا بتائے کہ جھوٹ نہ لگے اور آدم کی ذات کی نفی بھی نہ ہو۔ اس سے پہلے وہ گلو ب جتنیکوف (GLOGJATNIKOF) ،مہ جبیں قزلباش، نادر بلوچ اور فریدرکا سے اس طرح کے جھوٹ بول چکا تھا اور ان سے اس کی دوبارہ ملاقات ہونے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیئے اس نے کہہ دیا ، ’’میں نے پاکستان میں فلسفے میں ڈگری کی ہے اور فرنچ زبان و ادب میں ڈپلومہ کیا ہے۔ میں پیرس پڑھنے آیا ہوں اور میرا دوست اپنے تیار کردہ ملبوسات کی مارکٹنگ کرنے آیا ہے۔ ہم دونوں اٹلی کی سیر کرنے آئے تھے۔اب واپس جارہے ہیں‘‘۔
تاکنپ،’’بہت خوب،تو آپ فرنچ بھی بول لیتے ہیں "vous parlez fran231aise"(وو پاغلے فغانسیز یعنی آپ فرنچ بولتے ہیں)۔
آدم ، "bien sur et vous? (جی بالکل ، اور آپ؟)
تاکنپ، ’’نہیں مجھے فرنچ نہیں آتی۔ ایک دو لفظ جانتی ہوں۔ ویسے میں جرمن روانی سے بول سکتی ہوںich spreche deuch sehr gut (میں جرمن بہت اچھی بول سکتی ہوں)‘‘
آدم ،’’آپ پیرس کیوں جا رہی ہیں‘‘۔
تاکنپ،’’اصل میں، میرے دوست وہاں رہتے ہیں۔ میں ان سے ملنے جارہی ہوں۔ وہ وہاں مشہور مصوروں کی تصاویر بیچتے ہیں۔ میرا بھی ارادہ ان کے ساتھ کام کرنے کا ہے۔ اس کام میں اچھی بچت ہوجاتی ہے۔ہم لوگ مختلف مشہور مصوروں کی مصوری کے اعلیٰ نمونے بیچتے ہیں۔ جیسا کہ اٹلی، فرانس، ہالینڈ، ساؤتھ امریکہ وغیرہ‘‘۔
آدم ،’’مثال کے طور پے کس طرح کی مصوری، frescoes, impressionism, surealism, realism, romanticism, dadaism, gothic, یا
renaissance paintings"(فریسکوز، امپریشن ازم، سوریئل ازم، ریئل ازم، رومینٹیسزم، ڈاڈا ازم، گوتھک، نشاۃِ ثانیہ کی مصوری)
تاکنپ،’’آپ نے تو بہت سارے سوالات ایک ساتھ کر ڈالے۔ آپ کو سچ بتاؤںآدم ،مجھے مصوری کے بارے میں زیادہ علم نہیں۔ ہم نقل کی ہوئی مصوری بیچتے ہیں۔جیسا کہ VAN GOGH, PAUL GAUGAN,RENOIR, CEZANNE, MATISSE, ROHTKO,KLEE,MIRO ,FRIDA KOEHLO (وین گوغ، ماتس، سیزان، غانوآغ، پال گوگاں،فریدا کوہلو، روتکو، کلے، میرو)وغیرہ۔یہ سب تقریباًدو سو سال پر محیط ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں،انیسویں اور بیسویں صدی کی مصوری‘‘۔
آدم،’’میں نشاۃِ ثانیہ کے مصوروں کے بارے میں تھوڑا بہت جانتا ہوں۔ جیسا کہ LEONARDO DA VINCI,MICHELANGELO, RAFFEALLO, GIOTTO, CARAVAGIO (لیوناردو دا ونچی، میکل آنجلو، رافیلو، جوتو، کاراواجو) وغیرہ‘‘۔
تاکنپ۔ ’’آدم کیا پاکستان میں مصور ہوتے ہیں،کیونکہ جہاں تک مجھے علم ہے، پاکستان اسلامی ملک ہے اور اسلام میں جاندار چیزوں کی تصویریں بنانا منع ہے۔ خاص کر انسانی شکلیں‘‘۔
آدم ،’’ نہیں،نہیں یہ سچ نہیں ہے ۔یہ سچ ہے کہ ہمارا مذھب ہمیں اجازت نہیں دیتالیکن یہ سچ نہیں ہے کہ پاکستان میں مصور نہیں ۔ہمارے ہاں فائن آرٹ کالجز ہیں۔جہاں آپ مصوری ، مجسمہ سازی، ظروف سازی اور کپڑوں کی نگارش وغیرہ سیکھتے ہیں۔ ویسے میں آپ کے علم میں اضافہ کرتا چلوں پاکستان کے مشہور مصور اور مجسمہ ساز صادقین نے اپنی ساری زندگی اسی کام میں صَرف کردی۔ آپ بہت بڑے خطاط تھے۔ اس کے علاوہ عبد ا لرحمٰن چغتائی، استاد اللہ بخش، آزر زوبی، گل جی، امین گل جی وغیرہ۔ آپ کو پتا ہے میری پسندیدہ پاکستانی تصویر کون سی ہے۔ استاد اللہ بخش کی طلسمِ ہوش ربا۔ہمارے ہاں خطا ط بھی ہیں جن میں رشید بٹ کا نام بہت نمایاں ہے‘‘۔
تاکنپ،’’مجھے بالکل پتا نہیں تھا۔ ویسے مصوری کے علاوہ آپ کا پاکستانی سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے۔ آپ کی پرائم منسٹر بینظیر کے بارے میں میں نے پڑھا۔ آپ کا کیا خیال ہے۔ بڑی بارعب ، پر وقار اور خوبصورت خاتون ہیں۔ان کی حکومت پچھلے دنوں ختم ہوگئی یا ختم کردی گئی‘‘۔
آدم،’’آپ کو سچ بتاؤں،مجھے سیاست کے بارے میں بہت کم علم ہے‘‘۔
ابھی وہ گفت و شنید میں مصروف تھے کہ ٹرین ایک ریلوے سٹیشن پے آکر رکی۔آدم نے جھانک کر دیکھا۔TORINO (تورینو اٹلی کا ایک شہر)ریلوے سٹیشن تھا۔ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی تھی،۔آدم نے تاکنپ سے کہا، ’’کیبن میں چلیں‘‘۔ وہ کہنے لگی،’’ہاں ہاں میں بھی تھک گئی ہوں اور مجھے ٹھند بھی لگ
رہی ہے‘‘۔ دونوں نے آہستگی سے اپنے کیبن کا دروازہ کھولا اور اپنی اپنی برتھ پر جاکر لیٹ گئے۔تاکنپ کوتو شاید جلدیہی نیند نے آگھیرا لیکن آدم جاگتا رہا۔وہ سب کے بارے میں سوچنے لگا۔ انھیں گھر سے نکلے ہوئے تین سال ہو چلے تھے۔ اور وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ آدم کو بالکل ایسے لگا جیسے کل کی بات ہو۔ جب بھی وہ ڈنکی لگاتے، سرحد پارکرتے۔آدم یہی سوچتا،اگر پکڑا گیا تو واپس بھیج دیا جاؤں گا۔ کیامنظر ہوگا۔نجمہ بیگم، نادیہ بہرام کھرل، مہ جبین قزلباش، گلوب جتنیکوف، فریدرکا اور اب تاکنپ۔ ہر شخص خواہ عورت ہو یا مرد۔ ایک نیا فسانہ اور داستان سنارہا تھا۔ اس کے لیئے یہ بھی ایک علم تھا۔ شاید اسی کو ANTHROPOLOGY (علم البشریات ) کہتے ہیں۔ وہ اس انتظار میں تھاکہ کب بارڈر پولیس آئے گی ۔ انھیں چیک کرے گی اور ان پے لٹکی ہوئی تلوار یا تو گر جائے گی یا ان کے بدن کو چیرتی ہوئی گزر جائے گی۔وہ اپنے آ پ کو یہی یقین دلاتا رہا کہ وہ جاگ رہا ہے لیکن اسے پتا ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
جب تک ٹرین چلتی رہے ۔ٹرین کے ہچکولوں کی وجہ سے آپ کی آنکھ لگی رہتی ہے۔ جیسے ہی رکتی ہے آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے۔لیکن مسافروں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں۔ کچھ تو گھوڑے گدھے بیچ کر سوتے ہیں اور کچھ ہلکی سی آہٹ سے جاگ جاتے ہیں۔ آدم ہلکی آہٹ پے جاگ جانے والوں میں سے تھا۔ اس کے علاوہ ڈر اور خوف بھی تھا۔ ایک جھٹکے کے ساتھ ٹرین پھر رکی۔ آدم پیشاب کرنے کے بہانے اٹھا، صرف یہ دیکھنے کے لیئے کہ کون سا سٹیشن ہے۔ اگر سٹیشن نہیں تو بارڈر پولیس چیک کرنے کے لیئے داخل ہوئی ہے۔اس نے سٹیشن کا نام پڑھنے کی کوشش کی۔ باہر تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ ایک نیا منظر تھا۔ LYON ( لیون، فرانس کا ایک شہر) پڑھتے ہی اس کے دل میں خوشی کا سیلاب امڈ آیا۔ اس کی آواز جیسے رک سی گئی ہو۔اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔بات ہی خوشی کی تھی۔وہ بنا کسی مصیبت کے فرانس داخل ہوگئے تھے۔ وہ سوچنے لگاان کے CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتا)نے کام کر دکھایا۔آدم پھر آکر لیٹ گیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے فرانس کے بارے میں بہت کچھ پڑھا تھا یہ پہلا
ملک تھا، جہاں کی زبان اسے پہلے سے ہی آتی تھی۔لیکن اس کے دماغ کے کسی نہاں خانے میں خیال جاگا اگر مہ جبیں قزلباش مل گئی۔ پھر اس نے خیال کو چھٹک دیا۔اول تو تین سال ہوچکے تھے اور ویسے بھی پیرس بہت بڑا شہر ہے۔ پہلے آدم کو پریشانی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی، اب خوشی کی وجہ سے ۔وہ پھر داخلی دروازے والے جگہ آکے کھڑا ہوگیا۔ عام طور پے یہ جگہ سگرٹ پینے والوں کے لیئے مختص ہوتی ہے۔لیکن پابندی نہیں ہوتی ، کوئی بھی کھڑا ہوسکتا ہے۔
باہر ہلکی ہلکی روشنی ہوچلی تھی۔ لوگ ایک ایک کر کے آتے اور کندھے پے تولیہ اور دانتوں کا برش ہاتھ میں لیئے واش روم (ٹرین کے اندر چھوٹا سا غسل خانہ جو غسل خانے کی بنیادی ضروریات پوری کرتا ہے) کی طرف چلے جاتے ۔ ٹرین کی رفتار میں اضافہ ہوچکا تھا۔فرانس کی ریلوے لائن ، اٹلی کی نسبت بہتر ہے۔اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اٹلی ، سارا کا سارا، پہاڑی علاقہ ہے۔ اونچے نیچے راستے ہیں۔راستے میں بے شمار سرنگیں آتی ہیں۔ ان کانظام بھی ذرا پرانا ہے۔اس کے بر عکس، فرانس کا علاقہ پہاڑی تو ہے لیکن اتنا پیچیدہ نہیں اور ان کی ریلوے لائن بھی بہتر ہی نہیں بلکہ بہترین ہے۔
آدم نے ٹرین میں نصب شدہ نقشے میں دیکھا۔ اگلا سٹاپ DIJON (دیجوں فرانس کا شہر) تھا۔اور اس کے بعد پیرس۔ ابھی وہ پڑ ہی رہا تھا، کسی نے کندھے پے ہاتھ رکھا، وہ ڈر گیا، شاید پکڑا گیا ہے۔لیکن مڑ کے دیکھا تو ٹی ٹی تھا۔ اس کے ہاتھ میں اس کا CARTAD'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتااور ٹکٹ پکڑاتے ہوئے کہنے لگا،’’ "dove tuo amico" (تمھارا دوست کدھر ہے)۔آدم نے اپنا کارڈ اور ٹکٹ پکڑتے ہوئے کہا، "in sua cabina" (اپنے کیبن
میں)۔ یہ سن کر ٹی ٹی نے کہا، "va bene" (ٹھیک ہے)۔ ڈیجون ریلوے سٹیشن پے کافی لوگ اتر گئے اور ٹرین رکنے کی وجہ سے داؤد کی آنکھ بھی کھل گئی تھی۔ویسے بھی وہ اپنی نیند پوری کرچکا تھا۔ وہ آکر داخلی دروازے میں کھڑا ہوگیا۔ پہلا کام جو اس نے آکر کیا وہ تھا سگرٹ سلگانا۔سگرٹ پیتے پیتے اس کی نظر آدم پر پڑی۔ اس کو مخاطب کرکے کہنے لگا،’’یار تم بھی عجیب آدمی ہو، جب کسی لڑکی سے بات چیت کرتے ہو تو یہ بھول ہی جاتے ہو کہ تمھارے ساتھ بھی کوئی کھڑا ہے۔میں تو تمھاری گفتگو سے اکتا کر جاکے سوگیا تھا‘‘۔آدم نے اس کاہاتھ آہستگی سے دباتے ہوئے کہا، ’’میری جان ہم لوگ فرانس میں ہیں۔ اب تھوڑی دیرلگے گی اور پیرس آجائے گا‘‘۔داؤد نے کہا، ’’اصلی یورپ تو اب آیا ہے۔ اب دیکھنا کام ہی کام اور پیسہ ہی پیسہ ہوگا۔میرے خدا نے چاہا تو تمام خواب پورے کرونگا‘‘۔’’کیا مجھے ایک سگرٹ مل سکتاہے‘‘۔آدم نے مڑ کر دیکھا تو تاکنپ کھڑی تھی۔داؤد نے کہا،’’کیوں نہیں‘‘۔ اس نے MARLBORO (مارلبورو، سگریٹ کی ایک برانڈ کا نام)کی ڈبی اس کے سامنے کردی۔اس نے ایک سگرٹ لیا ، داؤد نے آگے بڑھ کر سلگا دیا۔اس نے ،’’شکریہ‘‘ کہااور بکھری زلفوں کو سنوارنے لگی۔ سفر کے دوران انسان کی نیند بری طرح مجروح ہوتی ہے ۔سر میں شدید درد رہتاہے۔جس کا علاج بھرپور نیند ہی ہوتی ہے۔لیکن کوئی اسے سگرٹ کے نشے سے دور کرتا ہے ۔کوئی کافی سے اور کوئی چائے سے۔اکثر اوقات لوگ aspirin (ایسپرین) یا paracetamol (پیراسیٹامول) سے تکلیف رفع کرتے ہیں۔ حالانکہ دونوں نشہ آور ادویات ہیں لیکن aspirin ،paracetamol (ایسپرین ،پیراسیٹامول)سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے۔
سگرٹ پینے والوں کی الگ دنیا ہوتی ہے۔ دنیا کے کسی خطے کے بھی ہوں۔ زبان آتی ہو یا نہ آتی ہو۔جب انسان کو ا س کی طلب محسوس ہوتی ہے تو وہ کچھ نہیں سوچتا کہ وہ سگرٹ جس سے مانگ رہا ہے ۔وہ کون ہے
نکوٹین اور کیفین ، یہ دونوں جب انسانی خون میں شامل ہوجاتی ہیں تو ان سے پیچھا چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک نشے کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔یہ اور بات ہے اگر کوئی چائے کافی یا کوکا کولا پیئے تو یہ چیزیں کسی کی آنکھوں میں نہیں کھٹکتیں۔ لیکن سگرٹ کو ایک لعنت تصور کیا جاتا ہے۔ حالانکہ nicotine(نکوٹین)،caffeine (کیفین)، coccaine(کوکین)، morphine(مورفین)herion( ہیروئن) سب alkaloid (آلکلوئڈ) ہیں۔ بلکہ کیفین،نکوٹین سے بھی زیادہ مہلک ہوتی ہے۔
دھوئیں کے مرغولے لوگوں کو برے لگتے ہیں جبکہ چائے اور کافی کی چسکیاں سب کو بھاتی ہیں۔ اس آدمی کے دماغ کی داد دینے چاہیئے جس نے سگرٹ ایجاد کیا۔
تاکنپ نے آدم کو جھنجوڑا، ’’کیا سوچ رہے ہو آدم؟ تم سگرٹ نہیں پیتے‘‘؟
آدم ،’’نہیں میں نے کبھی سگرٹ نہیں پیاء،مجھے ایک اور نشہ ہے، چائے کا۔جس کی طلب مجھے بڑی شدت سے ہورہی ہے‘‘۔
تاکنپ،’’ تم کافی پی لو‘‘۔
آدم،’’نہیں۔۔۔میں ٹھیک ہوں۔ میں ایسپرین یا پیراسیٹامول لے لوں گا‘‘۔
ٹرین کی رفتا ر کم ہونی شروع ہوئی۔ آدم کو اندازہ ہوا کہ پیرس کی مضافات میں ٹرین داخل ہونا شروع ہوگئی ہے۔داؤد کو ٹی ٹی ڈھونڈتا ڈھونڈتا اس کے پاس آگیا او ر اس نے اس کا CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتا) اور ٹکٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا۔ داؤد نے جلدی سے تھاما اور کہا، ’’شکریہ‘‘۔تاکنپ نے جلدی جلدی اپنا پتہ کاغذ پے لکھا اور آدم کو دیتے ہوئے کہنے لگی،’’یہ میرا پتہ ہے۔ میں اپنے دوستوں ہاں ٹھہروں گی۔ اگر جب بھی آپ کا MUSEE DU LOUVRE ( میوزے دو لووغ ، پیرس کا سب سے بڑا میوزیئم)جانے کا ارادہ ہوا تو مجھے فون کر دیجئے گا ۔ یہ میرا
موبائیل نمبر ہے۔ پتا نہیں پیرس میں کام بھی کرے گا کے نہیں۔آپ اپنا نمبر مجھے دے دیجئے۔اگر مجھے کبھی فرصت ملی تو میں آپ کو فون کردوں گی‘‘۔
آدم بغلیں جھانکنے لگاکیونکہ اس نے جھوٹ بولا تھا، ’’میں آپ کو فون کردونگا۔فی الحال میرا کوئی رابطہ نمبر نہیں‘‘۔
گاڑی کی رفتا ر میں جیسے جیسے کمی واقع ہورہی تھی آدم اور دادؤ کی پریشانی میں اضافہ ہورہا تھااور خوشی بھی ہورہی تھی۔انھوں نے پیرس کے بارے میں سنا تھا کہ پریوں کا شہر ہے۔ یہاں کی سڑکیں شیشے کی ہوتی ہیں۔ یہاں کی ہواؤں میں اک خاص نشہ ہوتا ہے۔یہاں کے دن اور رات دونوں جاگتے ہیں۔پیرس اسم صفت کی حیثیت رکھتا ہے۔پیرس علم و ادب کا شہر ہے۔ یہاں EIFFEL TOWER (آئیفل ٹاور)ہے۔
داؤد کی ماں ایک دن راجہ بازار سے ایک چھوٹا سا پاوڈر کا ڈبہ لائی تھی۔ اس کے اندر بڑا نرم و گداز، روئی کے گالے جیسا پاوڈر لگانے والاپف رکھا تھا۔اس کی ماں کو وہ ڈبہ اتنا پسند آیا کہ اسے کبھی بھی نہ پھینکا۔بازار سے سستا سا کوئی بھی پاوڈر کا ڈبہ لاتی اور جب اس PONDS (پونڈز) کے ڈبے میں پاوڈر ختم ہوجاتا،جس میں وہ نرم و گداز روئی کے گالے جیساپف تھا، اسے دوبارہ بھر دیتی۔ اب وہ کافی گِھس چکا تھا۔اس ڈبے پر تین شہروں کے نام لکھے ہوئے تھے۔PARIS,LONDON,NEWYORK (پیرس ،لنڈن ، نیویارک)۔ داؤد تو شاید اس وقت سے دل ہی دل میں یہ خواہش لیئے بیٹھا تھاکہ وہ اس ڈبے پے لکھے ہوئے تینوں شہر دیکھے گا۔ پیرس وہ پہنچنے والا تھا۔اسے بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے تین سال بعد وہ پہلی دفعہ یورپ میں داخل ہورہا ہے۔وہ یہ سوچتے لگا۔ یہی وہ یورپ ہے جس کے وہ خواب دیکھا کرتا تھا۔ کیونکہ اٹلی یونان وہ دیکھ آیا تھا۔وہ برِ اعظم یورپ میں تو ضرور تھے لیکن ان میں وہ بات نہ تھی۔جس کا تصور وہ لے کر چلا تھا۔پیر کی تو بات ہی الگ تھی۔
ٹرین جھٹکے کے ساتھ رکی۔ بہت بڑا ریلوے سٹیشن تھا۔GARE DE LYON ( گاغ دی لیون،پیرس کا بڑا ریلوے سٹیشن)۔سب لوگ آہستہ آہستہ ٹرین سے اترنے لگے۔ آدم اور داؤد کو کوئی جلدی نہ تھی۔ وہ یہی چاہتے تھے تاکنپ چلی جائے تو پھر ٹرین سے اتریں۔اس طرح اسے پتا بھی نہ چلے
گا کہ وہ کہاں جارہے ہیں اور ان کی خلاصی بھی ہوجائے گی۔ٹرین کی دوستی ٹرین تک ہی ہوتی ہے۔ ٹرین میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ ابھی وہ دونوں اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ تاکنپ ان کو خداحافط کہہ کر چلتی بنی اور جاتے جاتے فون کرنے کا کہہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
GARE DE LYON (گاغ دی لیون، پیرس کا بڑا ریلوے سٹیشن) ان کے لیئے نئی دنیا تھی۔ اس سے پہلے دونوں کو کبھی METRO ( میٹرو یعنی زیرِ زمین ٹرین) میں سفر کرنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔ روم میں زیرِ زمین ٹرین تھی لیکن انھیں اس میں سفر کرنے کا کبھی موقع ہی نہ ملا ۔ ریلوے سٹیشن پے سارے سائن بورڈز فرانسیسی زبان میں تھے۔آدم پڑھ سکتا تھالیکن چیزیں بالکل نئی تھیں۔ GARE DE LYON کی عمارت پرانے طرز کی ہے۔ یہاں سے ایک ہی میٹرو (زیرِ زمین ٹرین) گزرتی ہے۔لیکن بہت مشہور ہے۔ میٹرو نمبر ۱ جو CHATEAU DE VINCENNES (شاتو دی وینساں) سے چلتی ہے اور GRANDE
L'ARCH DE LA DEFENSE (غاند لاخک دا لا دیفانس) پے اختتام پذیر ہوتی ہے۔۔ اس کے علاوہ یہاں پر RER (A) (پیرس کی ایک ایسی ٹرین جو پیرس کے مضافات میں پہچاتی ہے) کا بھی سٹاپ ہے۔جو BOISSY ST.LEGER (بو آسی ساں لیے) سے شروع ہو کر SAINT GERMAIN-EN-LAYE (ساں ییغماں آں لیئے)
ُ پے اختتام پذیر ہوتی ہے۔ فرانس میں ریلوے لائن کا افتتاح ۱۸۴۹ میں اِسی میٹرو نمبر ۱ سے ہی ہوا تھا۔
آدم قطار میں کھڑا ہوگیا کہ میٹرو کے دو ٹکٹ خرید سکے۔ جیسے ہی اس کی باری آئی اس نے فرنچ میں کہا، "je voudrais deux billets, s'il vout plait" (اگر آپ کو ناگوار نہ گزرے تو مجھے ایک دو ٹکٹ دینا پسند کیجئے گا)۔کھڑکی کے اندر بیٹھا آدمی بڑا حیران ہوا کہ یہ لکھنوی فرنچ کہاں سے آگیا۔ غور سے آدم کی شکل دیکھنے لگاکہ شکل سے فرنچ لگتا نہیں خیر اس نے سبز رنگ کے دو ٹکٹ دیئے اور باقی پیسے واپس کردیئے۔
آدم اور داؤد نے اس طرح کا ٹکٹ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اٹلی لوگ آکر بتاتے کہ پیرس میں میٹرو چلتی ہے۔کس طرح بدلنی پڑتی ہے۔ لیکن اب ان کے ذہن سے سب کچھ غائب ہوچکا تھا۔ ان دونوں کو کچھ سمجھ نہیںآرہا تھا کہ کیا کریں۔ آدم نے بہتر یہی سمجھاکے فرنچ کے بجائے انگریزی میں پوچھا جائے۔بہت بڑا ریلوے سٹیشن تھا۔ کافی چہل پہل تھی۔ آدم نے ایک آدمی سے پوچھا، "excuse me, we would like to go strasbourg st .denis.could you please tell us that which metro will go there" (معاف کیجئے گا ،ہم سٹراسبورگ سینٹ ڈینس جانا چاہیں گے۔ کیا آپ ہمیں بتانا پسند کریں گے کہ وہاں کون سی میٹرو جاتی ہے)۔ وہ شخص چھوٹا سا میٹرو کا نقشہ کھول کر دیکھنے لگا اور انھیں اشارے سے بتانے لگا۔ جس طرح اس نے سمجھایا تھا وہ کچھ اس طرح تھا کہ بنا یاد رکھے بن نہ آوے تھے۔ یعنی یہاں سے میٹرو نمبر ۱ پر بیٹھو، لیکن یاد رہے ، دھیان سے دیکھنا کہ تم لوگ CHATEAU DE VICENNES (شاتو دی ونساں،پیرس کی میٹرو نمبر ۱ کے ایک طرف کے آخری سٹاپ کا نام)والی طرف نہیں جارہے ہو۔ راستے میں CHATALET (شتلے، پیرس کے سنٹر میں ایک ایسی جگہ جہاں کافی رونق رہتی ہے) کا سٹاپ آئے گا۔ وہاں اتر جانا۔ باقی CHATALET(شتلے) جاکر پوچھ لینا۔ دونوں اپنا اسباب گھسیٹتے ہوئے بجلی کی سیڑھیوں کی طرف آئے ۔ میٹرو دیکھ کر انھیں ایسا لگا رہا تھا جیسے وہ آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔ حالانکہ لوگ پاکستان میں کہتے ہیں، ’’جنے لور نئی ویکھیا او جمیا ای نئی‘‘ ۔لیکن پیرس کے بارے میں بھی ایسا کہہ سکتے ہیں۔ اتنے حالات و واقعات گزرنے کے بعد وہ یہی سمجھ رہے تھے کہ دنیا کے ذہین ترین انسان بن چکے ہیں۔ دونوں سیڑھیاں اتر کر نیچے آئے۔ تھوڑی تھوڑی گرمی ہو چلی تھی۔۔ نیچے دو directions (سمعتیں) تھیں۔ایک کا آخری سٹاپ CHATEAU DE VICENNES (شاتو دی ونساں) تھا دوسری کا LA DEFENSE (لادیفانس) ۔انھوں نے LA DEFENSE (لادیفانس) والی ڈائرکشن (سمت) کا رخ کیا۔ دونوں پلیٹ فارم پے میٹرو کا انتظار کرنے لگے۔
ان کی مخالف سمت سے CHATEAU DE VICENNES (شاتو دی ونساں) والی ڈائرکشن کے مسافر کھڑے تھے۔ ٹرین آکر رکی۔ چشمِ زدن میں ان کی مخالف سمت والا پلیٹ فارم ایسے خالی ہوگیا جیسے دریا کی لہریں کنارے پے آکر سب کچھ ساتھ لے جاتی ہیں۔ابھی وہ اس منظر پے غور کر ہی رہے تھے کہ ان کی میٹرو بھی آگئی۔ میٹرو کے سارے دروازے کھلے۔ نہ چڑھنے والوں نے اترنے والوں کا انتظار کیا اور نہ ہی اترنے والوں نے چڑھنے والوں کا۔یہ دونوں بھی سوار ہوئے۔میٹرو کے اندر تمام سٹیشنوں کے نام لکھے ہوئے تھے کہ جہاں جہاں اس نے رکنے تھا۔پہلا سٹاپ BASTILLE (بستی تھا۔یہ لفظ بس ٹل ہے لیکن فرنچ میں بستی ہی اس کا تلفظ ہے) آیا۔آدم نے فرانس اور فرانسیسی انقلاب کے بارے میں بہت کچھ پڑھا ہوا تھا۔ فرانس کی تاریخ میں BASTILLE (بستی ) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔پھر ST. PAUL اور HOTEL DE VILLE (ساں پال اور اوتیل دی ول) آیا۔ اس کے بعد آدم اور داؤد کا سٹاپ تھا۔ جہاں سے انھوں نے میٹرو بدلنی تھی۔CHATALET (شتلے) جب میٹرو شتلے آکر رکی تو دونوں اتر گئے۔آدم کو ڈائرکشن والی بات یاد تھی۔ وہ نقشے پر دیکھنے لگا PORTE DE CLIGNANCOURT , PORTE D'ORLEANS (پوخت دی کلیناکوخت، پوخت دوغ لی آں) والی میٹرو ان کے لیئے بہتر تھی۔ دونوں PORTE DE CLIGNANCOURT (پوخت دی کلینا کوخت)
کی طرف بھاگے۔ پلیٹ فارم پر پہنچ کر انتظار کرنے لگے ۔ بالکل غار نماں سرنگیں بنی ہوئی تھیں۔ میٹروز آتیں اور چلی جاتیں۔ ان کی میٹرو چند منٹ بعد آگئی۔ میٹرو میں داخل ہوتے آدم سیٹ پر بیٹھ گیالیکن جیسے ہی اس کی نظر ایک بوڑھے شخص پر پڑی اس نے سیٹ خالی کردی۔ اس بوڑھے شخص کو بہت برا لگا۔ آدم کو حیرت ہوئی کیسا عجیب آدمی ہے۔ چند لمحوں بعد ان کا سٹاپ آگیا۔ STRASBOURG ST. DENIS (سٹراسبورگ سینٹ ڈینس) ۔ دونوں جلدی جلدی میٹرو سے باہر نکلے ۔سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے میٹرو سٹیشن سے باہر آگئے۔ باہر نکلے تو عجیب ہی منظر تھا۔ چاروں طرف چھ چھ سات سات منزلہ عمارات۔ قریباً سو سو سال پرا نی ہونگی یا شاید اس سے بھی زیادہ ۔ وہ لوگوں سے پوچھتے پوچھتے PASSAGE BRADY (پساج براڈی) پہنچے۔ داخل ہوتے ہی کیا دیکھتے ہیں۔ لوہے کا ایک بڑا سا دروازہہے جو اتنے عرصے سے کھلا ہے کہ اب اگر بند کر نے کی کوشش کی جائے تو گر کے ٹوٹ جائے گا۔ ایک طرف بار bar ہے دوسری طرف گند وغیرہ پھینکنے والے دو بڑے بڑے ڈبے پڑیں ہیں۔ ان ڈبوں کو ڈبوں کے بجائے ڈرم کہاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ مزید آگے آئیں تو دالان نماں جگہ پے شراب کے نشے میں مدہوش ایک دو افریقی ، دو عدد گورے (کسی بھی یورپی ملک کے ہوسکتے ہیں یا فرنچ بھی) اور ایک شکل صورت سے ہندوستانی نظر آتا ہے۔
دونوں اپنے اپنے سامان کو گھسیٹتے چلتے چلے گئے۔ PASSAGE BRADY (پساج براڈی ) کی حالت دیکھ کر آدم کو ایسا لگا جیسے رتہ امرال کے پرانے مکانوں میں آگیا ہو۔۔ جن کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آج یا کل گر جائیں گے۔ PASSAGE BRADY (پساج براڈی) کے دونوں اطراف میں چھوٹے چھوٹے کئی انڈین، پاکستانی ریستوران ہیں۔ جو PASSAGE BRADY (پساج براڈی) کے آخری سرے تک چلے جاتے ہیں۔ اس کے اختتام پر ایک کونے میں نائی کی دوکان ہے دوسرے کونے پر مہنگے اور designer clothes (ڈیزائنر کپڑوں) کی دوکان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں نائی کی دوکان پے بیٹھ کر ریستوران کے کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔ جس نائی کی دوکان پے یہ لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہ انڈین آدمی تھا۔کہنے لگا،’’اپنے دوست کو فون کر دو‘‘۔ آدم نے کہا،’’ہم نے فون کیا ہے لیکن پتا نہیں کوئی اٹھا نہیں رہا۔ اس لیئے ہم یہاں آگئے‘‘۔ آہستہ آہستہ ریستوران کھلنے شروع ہوئے اور PASSAGE BRADY (پساج براڈی) ایک عجیب منظر پیش کرنے لگا۔ آدم اور داؤ د کو ایسے لگا جیسے وہ پاکستان کے کسی بازار میں گھوم رہے ہوں۔کرسیاں،میز لگنے شروع ہوئے۔ کوئی لڑکا ٹائی باندھ رہا ہے تو کوئی جوتوں کو دیکھ رہا ہے کہ صاف ہیں یا نہیں۔کچھ شیشے صاف کررہے ہیں۔ ایک لڑکے نے تانبے کے بڑے بڑے ہاتھی لاکر باہر رکھ دیئے اور انھیں چمکانے لگا۔ اس کے ساتھ والے ریستوران کے باہر لکشمی کی مورتی تھی۔
دور سے احترام الحق بٹ آتا دکھائی دیااور آتے ہی کہنے لگا،’’آپ کو تکمیل بانڈے نے بھیجا ہے‘‘۔ دونوں نے ہاں میں سر ہلایا۔ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’مجھے احترام الحق بٹ کہتے ہیں‘‘۔آدم نے گرمجوشی سے کہا، ’’جی میرا نام آدم خان چغتائی ہے‘‘۔ داؤد نے بھی اپنا تعارف کروایا،’’جی میرا نام داؤد انصاری ہے‘‘۔بٹ کو عجیب سا محسوس ہوا کیونکہ اس کا جتنے بھی پاکستانیوں سے پالا پڑا تھا، کوئی ملک تھا، کوئی چودھری ۔ اس کے علاوہ کھگے، پنڈھر، قریشی،لیکن چغتائی اور انصاری اس کے لیئے نئے تھے۔ یہ اس نے پہلی دفعہ سنے تھے۔ اس نے سوال کیا،’’آپ دونوں کہاں کے ہیں‘‘۔دونوں نے مل کر جواب دیا،’’جی راولپنڈی کے‘‘۔ وہ کہنے لگا،’’گاؤں کون سا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی ہمارا کوئی گاؤں نہیں۔ہم خاص راولپنڈی شہر کے ہیں‘‘۔یہ دونوں عادی ہوچکے تھے اس لیئے پہلے سے تیار تھے کہ اگلہ سوال کیا ہوگا۔ اس نے پھر متجسس ہوکر پوچھا، ’’پر کوئی گاؤں تو ہوگا۔ جہاں تمھاری زمینیں وغیرہ ہیں‘‘۔ داؤد نے جواب دیا، ’’جی ہمارا کوئی گاؤں نہیں نہ ہی ہماری کوئی زمین ہے ۔نہ ہی مربعے ہیں‘‘۔
بٹ صاحب نے مزید سوال کرنا منساب نہ سمجھا اور انھیں کہنے لگا،’’آؤ میرے ساتھ ریستوران میں ، پہلے ناشتہ کرلو کیونکہ تم نے کچھ بھی نہیں کھایا ہوگا۔۔ پھر چاہو تو یہیں رک جانا، چاہو تو گھر چلے جانا۔ یہیں پاس ہی میرا گھر ہے‘‘۔ وہ دونوں کو ایک چھوٹے سے ریستوران میں لے گیا۔ان کا سامان ایک کونے میں رکھ دیا اوریہ تنگ و تاریک سیڑھیاں طے کرتے اوپر کی منزل پے چلے گئے۔یہ ریستوران کا پچھلا حصہ تھا۔ جہاں سے صرف سامان وغیرہ لایا جاتا تھا یا خاص اپنے بندوں کے لیئے استعمال کیا جاتا تھا۔ آپ اسے چور راستہ بھی کہ سکتے ہیں۔انھوں نے دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے آواز آئی، ’’کون‘‘۔بٹ نے کہا، ’’میں ہوں اور ساتھ دو مہمان بھی ہیں‘‘۔ دونوں کچن میں داخل ہوئے۔ جس آدمی نے دروازہ کھولا۔ دبلا پتلا سا تھا۔دروازہ کھولنے کے بعد اپنے کام میں لگ گیا۔ ایک بڑی سی کڑاہی میں ڈوئی ہلا رہا تھا۔ بٹ صاحب کہنے لگے، ’’یہ آدمی بھی پنڈی کا ہے۔ پنڈی کے پاس کوئی گاؤں ہے جھمٹ،وہاں کا رہنے والا ہے۔عظیم بیگ نام ہے۔ہم سارے اسے بیگ کہہ کر بلاتے ہیں‘‘۔ بٹ نے بیگ کو بلا کر کہا، ’’بیگ صاحب ، یہ ہمارے مہمان ہیں۔ انھیں ناشتہ کراؤ۔ پنیر نان اور کڑک سی چائے۔ اچھا میں چلتا ہوں۔میں نے ہال ترتیب دیناہے۔ناشتہ کرکے نیچے آجانا۔ جو بھی ارادہ ہوامجھے بتا دینا۔ گھر جانا ہوا گھر چلے جانا۔ یہاں رکنا ہوا ،یہاں رک جانا‘‘۔
پنیرنان (nan fromage) فرانس میں پاکستانیوں کی اپنی ایجاد ہے۔ ان دونوں نے پہلے کبھی نہیں کھایا تھا۔بیگ نے دو نان تیار کیئے۔ساتھ رات کا بچا ہوا سالن اور چائے پیش کی۔دونوں نے پنیر نان بڑے شوق سے کھایا۔ آدم کو خوشی ہوئی کہ اسے ایک مغلیہ خاندان کا آدمی نظر آیا۔جب اس نے عظیم بیگ کو بتایا کہ وہ بھی مغل ہے تو وہ اس بات کو ماننے کے لیئے تیار ہی نہیں تھا کہ چغتائی اور خان ،مغلوں کی شاخ ہیں۔ وہ کہنے لگا،’’بیگ، مرزا(میرزا) اور مغل ہی صرف مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔آدم نے بتایا، ’’بیگ، مغل ،مرزا، میرزا،اور برلاس ، مغلوں کے مختلف خطابات
ہیں۔ جبکہ چغتاء، چنگیز خان کے بیٹے کا نام تھا۔اس مناسبت سے چغتائی اور خان بھی مغلیہ خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ‘‘۔ جب عظیم بیگ کڑاہی میں ڈوئی چلارہاتھا ،تو آدم کو ایسے لگا جیسے تین سو سال حکومت کرنے والے مغلیہ خاندان کی قسمت پے ڈوئی پھر گئی ہو۔
ناشتے کرنے کے بعد دونوں نیچے آگئے ۔ اب PASSAGE BRADY (پساج براڈی) میں کافی رونق تھی۔ سارا PASSAGE BRADY (پساج براڈی)ایسے سجادیا گیا تھا۔جیسے طوائفیں اپنے گاہکوں کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے سائن بورڈز لگے ہوئے تھے۔ ان پے لکھے ہو ا تھا menu midi 49ff (دوپہر کا کھانا ۴۹ فرنچ فرانک میں)۔اکا دکا ریستوانوں کے باہر لڑکے کھڑے آواز بھی لگا رہے تھے، "allez monsieur, menu midi 49, menu midi 49. c'est le meilleur restaurant dans le passage, s'il vout plait" (آئے جناب ،دوپہر کا کھانا ۴۹ فرانک میں،دوپہر کا کھانا ۴۹فرانک میں۔یہ پساج کا سب سے بہتر ریستوران ہے۔مہربانی فرما کر)۔
آدم کو اپنے کانوں پے بالکل یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کیا یہ پیرس ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بٹ صاحب ، دوپہر کو دونوں کو ساتھ لے کر گھر کی طرف ہولیئے۔ یہ لوگ دوبارہ اپنے سامان سمیت STRASBOURGE ST. DENIS (ستراسبورگ سینٹ ڈینس) والی میٹرو کے سٹاپ پے کھڑے تھے۔جیسے ہی میٹرو آئی یہ اس میں سوار ہوگئے۔ REPUBLIQUE (ریپبلک ،پیرس کی میٹرو کے ایک سٹاپ کا نام) اتر کر انھوں نے میٹرو بدلی۔ گیارہ نمبر میٹرو کا دوسرا سٹاپ ، ان کا سٹاپ تھا، جہاں انھوں نے اترنا تھا۔بٹ صاحب کہنے لگے، ’’بس دو سٹاپ اور ہیں۔ BELLEVILLE (بَیل وِیل ) اتر جائیں گے۔ وہاں سے دو قدم کے فاصلے پے میرا گھر ہے۔ آدم اور داؤد کو گھر کا تجسس
بہت زیادہ تھا۔جیسے ہی وہ میٹرو سٹیشن سے باہر آئے۔ چوراہے کے ساتھ والی سڑک پے ہولیئے۔ آدم کو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ سڑکوں کے ساتھ فٹ پاتھ کے بالکل ساتھ ساتھ ، تھوڑے تھوڑے وقفے سے صاف پانی نکل رہا ہے اور تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بوری نماں چیزیں پڑی ہوئی ہیں۔خیر اس نے کوئی سوال نہ کیا۔ اٹلی بہت خوبصورت تھا۔ لیکن پیرس کی خوبصورتی اپنی ہی طرز کی تھی۔بڑی سڑک پے چلتے چلتے یہ لوگ ایک تنگ گلی میںآگئے۔ ایک بوسیدہ اور سیلن زدہ عمارت کی سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ آدم نے جب سیڑھیوں کی گرل کو ہاتھ لگایا، جس رفتار سے اس کا ہاتھ گیا تھا اسی رفتار سے واپس آگیا۔گرل گیلی اور زنگ آلود تو تھی ہی ،ساتھ ساتھ بدبودار بھی تھی۔سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے آخری منزل پے آگئے۔ انھوں نے سوچا اوپر کوئی تین چار کمروں کا گھر ہوگا۔ جب آخری منزل پے پہنچے تو حیران رہ گئے۔ دروازے کے باہر دس بارہ مختلف رنگ و نسل کے جوتے پڑے ہوئے تھے۔بٹ صاحب نے تالا کھولنا چاہا لیکن دروازہ پہلے سے ہی کھلا ہوا تھا۔ اندر سے آواز آئی، ’’آو آؤ بٹ صاحب،نویں پرونھڑیں آگئے‘‘۔ وہ آدمی جلدی جلدی ان کے بیٹھنے کا انتظام کرنے لگا۔ بٹ صاحب غسل خانے میں گھس گئے۔
آدم کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ اسے فرنچ میں ATTIQUE (آٹک، یعنی آخری منزل پے نیچی چھت والا کمرہ یا مکان۔عام طور پے ان کرایہ کم ہوتا ہے)کہتے ہیں۔اس کی چھت بالکل اس طرح تھی جس طرح کی چھت وہ بچپن میں سکول کی ڈرائنگ کی کاپی میں بنایا کرتا تھا۔دونوں طرف سے جھکی ہوئی اور اس چھت میں دو عدد کھڑکیاں بھی تھیں جو نیم واں تھیں۔ کمرہ کیا تھا،پورا عجائب گھر تھا۔کمرے کے اندر باورچی خانہ ،اس کے ساتھ غسل خانہ۔کمرے کے وسط میں ایک عدد بڑا پلنگ پڑا تھا۔اس پر طرح طرح کی نمود و نمائش کی چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ایک کونے میں ٹی وی، وی سی آر اور کیسٹ پلیئر پڑا ہوا تھا۔اس کے اوپر بے شمار وڈیو فلمیں اور آڈیو کیسٹیں پڑی ہوئی تھیں۔چھت کی ڈھلوان کی طرف جہاں دو عدد کھڑکیاں تھیں، کھڑکیوں کے ذرا نیچے ایک عدد چادرتان کر اس چھوٹے سے کمرے کے اندر ایک اور چھوٹا سا کمرہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔اس چادر کی پچھلی طرف ایک سرے سے دوسرے تک گدے بچھے ہوئے تھے۔ کہاں اریزو کے کھلے کھلے ہوا دار گھر اور کہاںیہ چھوٹا سا کمرہ جیسے مرغیوں کا دڑبا۔ جب انسان کے پاس کوئی متباد ل راستہ نہ ہو،گنجائش نہ ہو تو چپ رہنا پڑتا ہے۔سہنا پڑتا ہے خاص کے جب انسان نے اپنی زندگی کا راستہ خود چنا ہو۔ نہ تو یورپ والے کسی کو مجبور کرتے ہیں کہ لوگ یہاں آکر چھوٹے چھوٹے کمروں میں دس دس آدمی رہیں نہ ہی ہر شخص کے حالات اتنے برے ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح کی زندگی گزارے۔ یہ تو دیکھا دیکھی کا معاملہ ہے۔ بھیڑ چال ہے۔اگر کسی علاقے کا کوئی شخص یورپ آجاتا ہے ۔واپسی پر رنگ برنگے چشمے، یورپی انداز کے کپڑے، credit cards (کریڈٹ کاڑدز) اور یورپ کی آزاد زندگی کے ہیجان انگیز قصے سناتا ہے تو جس علاقے کا بھی وہ رہنے والا ہو، خواہ وہ گاؤں ہو یا شہر، سب لڑکے بالے اپنی اپنی اوقات کے مطابق زمین جائیداد بیچ کر ،ادھار لے کریورپ آجاتے ہیں اور یہاں آکرپتا چلتا ہے کہ زبان ، تہذیب، شناخت ،سب کچھ بدل جاتا ہے۔بالکل ایسا ہی داؤد اور آدم کے ساتھ ہورہا تھا۔
لیکن پیرس کا ماحول اٹلی کے مقابلے میں تھوڑا سا بہتر تھا۔ لوگوں میں تھوڑا بہت شعور تھا۔آدم اور داؤد کواس آدمی نے چائے پلائی، جس نے ان کا پرتپاک استقبال کیا تھا۔بٹ صاحب نہا کر سوگئے۔ آدم اورداؤد بھی اس حجرہ نماں جگہ میں داخل ہوئے۔ دونوں تھکے ہوئے تھے اس لیئے دونوں کی آنکھ لگ گئی۔ شام کو جب دونوں کی آنکھ کھلی تو گھر میں کوئی نہیں تھا۔گھر کیا تھا مرغیوں کْھڈلہ تھا۔جسے کمرے کا نام دیا گیا تھا۔جگہ جگہ کپڑے بکھرے ہوئے تھے۔غسل خانے میں ایک چیز اٹلی اور یونان کے مقابلے میں مختلف تھی ۔سب کے اپنے اپنے tooth brushes (دانتوں کے برش)ارو ریزرز علیحدہ علیحدہ پڑے ہوئے تھے۔ چند عدد perfumes (پرفیوم) اور eau di toilettes (یو ڈی توئیلت) کی شیشیاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔چند خالی اور چند ادھ بھری۔یہیں نہانے کی جگہ تھی اور ساتھ ہی اجابت کرنے کے لیئے WC (ڈبلیو سی) بھی لگی ہوئی تھی۔ باتھ روم اتنا چھوٹا تھاکہ اگر آپ سیدھے کھڑے ہوں تو آپ کا سر چھت سے ٹکرا جائے۔ کمرے کے اندر کھانا پکانے والا چولھا (cooker) اور بالکل اس کے ساتھ کپڑے دھونے والی مشین لگی ہوئی تھی۔ایک کونے میں wash basin (واش بیسن) تھا۔ جہاں برتن دھونے کا انتظام تھا۔ کسی چیز کی کمی نہ تھی۔روٹی پکانے کا رواج بالکل نہیں تھا کیونکہ سب ریستورانوں پے کام کرتے۔ کبھی کبھی سالن پکالیتے تو بازار سے baguette (باگت، فرانس کی لمبی سی روٹی)لے آتے۔
دونوں یہ نہیں جانتے تھے کہ انھیں کیاکرنا ہے۔ داؤد کہنے لگا، ’’یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دیں گے‘‘۔ آدم نے کوئی جواب نہ دیا۔دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ ایک نوجوان اندر داخل ہوا۔ اس کی پتلون بلکہ jeans (جینز) جو جگہہ جگہہ سے پھٹی ہوئی تھی۔ فوجیوں کی طرح کے لانگ بوٹ پہنے ہوئے تھا لیکن رنگ ان کا کالے کے بجائے مٹیالا تھا۔ شکل سے بہت زیادہ تھکا ہوا لگتا تھا۔اندر داخل ہوتے ہی اس نے جلدی جلدی جوتے اتارنے شروع کیئے لیکن اس کی کوشش یہی تھی کہ جوتوں سے پہلے پتلون اتار دوں لیکن ایسا ممکن نہیں تھا۔وہ سلام دعا کیئے بغیر ہی غسل خانے میں گھس گیا۔ آدم اورداؤد کو بالکل برا نہیں لگا۔ اب وہ کافی حد تک ان باتوں کے عادی ہوچکے تھے۔وہ جانتے تھے ،تھوڑی دیر چپ رہ کر وہی سوال گا۔’’پچھوں کتھے دے او؟ پنڈ کیڑا جے؟‘‘۔ تولیئے سے بال سکھاتے ہوئے وہ نوجوان غسل خانے سے باہر آیا (جسے عرفِ عام میں واش روم کہتے ہیں) اور پاجامہ سا پہن کر اِدھر اْدھر گھومنے لگا۔ آدم نے ڈھیٹ بن کر سکوت توڑا،’’جناب پیاز وغیرہ بتائیں کہاں ہے میں کھانا بنادوں‘‘۔ اس نے کہا ،’’نہیں رہے دو میں خود بنادوں گا‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم اور داؤد کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ چندماہ ، پیرس میں بنا کام کیئے آسانی سے رہ سکتے تھے۔ اس میں کاپی کا خرچہ ، میٹرو کا آنے جانے کاٹکٹ۔لیکن جب بھی وہ خرچے کی بات کرتے بٹ صاحب انھیں ٹوک دیتے ۔بٹ صاحب نے داؤد کے لیئے برتن دھونے کا کام ڈھونڈ لیا اور بتایا کہ بڑے شیف(شیف فرنچ میں بڑے باورچی کو کہتے ہیں لیکن اب یہ ہر زبان میں استعمال کیا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے)کی مدد بھی کرنی ہوگی۔اور آدم کو چونکہ فرنچ آتی تھی اس کے لیئے بٹ صاحب نے ویٹر (waiter) کی نوکری ڈھونڈلی۔بٹ صاحب نے انھیں سختی سے منع کیا کہ’’ کسی کو مت بتانا ، تمھارے پاس کاغذ نہیں۔یہی کہنا اٹلی کے کاغذات ہیں۔ وہاں کام نہیں ملتا اس لیئے یہاں آگئے ہیں۔یہ CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدنتیتا) ہر وقت اپنی جیب میں رکھنا۔ پولیس اگر روکے تو بلا جھجک دکھا دینا۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ فرنچ پولیس کمپیوٹر میں چیک کرے۔کسی سے زیادہ بات یا مذاق نہیں کرنا۔ جو بھی پوچھے یہی بتانا ، بٹ صاحب ہمارے رشتہ دار ہیں اور ہم دونوں کو یورپ آئے کافی عرصہ ہوچکا ہے۔جب تک تم لوگوں کو پہلی تنخواہ نہیں مل جاتی۔نہ تم لوگوں نے گھر کا کرایہ دینا ہے نہ ہی کھانے کا خرچہ اور میٹرو کا پاس میں بنوا دونگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میں پیرس آیا تھا۔ہم لوگ ’’پاکستانی چوک‘‘ (پیرس میں ایک جگہ جہاں مختلف ملکوں کے لوگ دیہاڑی لگانے کے لیئے کھڑے ہوتے تھے ۔ایک کونہ پاکستانیوں کے قبضے میں تھا اس کا نام پاکستانی چوک پڑ گیا)میں جاکر کھڑے ہوجاتے تھے۔ وہیں پے پیشہ کرنے والی عورتیں بھی کھڑی ہوتیں۔STRASBOURGE ST.DENIS (ستراسبورگ سینٹ ڈینس) آج بھی اتنا ہی مصروف روڈ ہے جتنا دس سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ یہاں کا زیادہ تر کاروبار یہودیوں کے پاس ہے۔ وہ کپڑے کی گانٹھے اٹھانے کے لیئے ہمیں آواز دے کر بلالیتے۔ بالکل اس طرح، جس طرح پاکستان کے بڑے شہروں میں کسی مصروف چوک پے مزدور، رنگ کے ڈبے، برش اور اپنے اپنے اوزار لے کے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان میں راج بھی ہوتے ہیں اور مزدور بھی۔ اِنھیں لوگ آواز دے کر بلالیتے ہیں۔ بالکل وہی منظر ہوتا تھا۔ خیر یہ تو پرانی باتیں ہیں۔ویسے پیرس کا ماحو ل بالکل مختلف ہے‘‘۔آدم کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’آدم صاحب آپ تو بڑے خوش قسمت ہیں کہ آپ نے فرنچ پاکستان میں سیکھی ہے۔ یہاں لوگوں کو دس دس ، پندرہ پندرہ سال ہوگئے ہیں لیکن فرنچ نہیں بول سکتے۔ خیر یہ ان کی اپنی نااہلی ہے‘‘۔ لیکچر جاری رکھتے ہوئے بولے، ’’کسی کو اپنا راز مت دینا۔میٹرک پاس ہو تو بی اے پاس بتاناکسی کو یہ مت بتانا کہ تم غربت سے تنگ آکر یا پیسے کمانے آئے ہو۔ کوئی بھی بہانہ ، کیسا بھی جھوٹ گھڑ لینا۔۳۰۷ کا مقدمہ ہوگیا تھا۔ گھر والے زبردستی شادی کررہے تھے۔ یورپ آنے کا شوق تھا‘‘۔آدم نے کہا،’’ہمیں جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔بٹ صاحب کو تو جیسے سر سے پاؤں تک آگ لگ گئی ہو لیکن انھوں نے ظاہر نہ ہونے دیا۔کہنے لگے، ’’یہ ضروری ہے ورنہ لوگ تمھیں جینے نہیں دیں گے۔PASSAGE (پساج براڈی ) میں جتنے بھی لوگ کام کرتے ہیں۔سب کے رشتہ دار ،منسٹر، ایم این اے ،چیئرمین اور پی ایم ہیں کوئی ہیں۔ کوئی کسی سے کم نہیں۔ ان میں سے کوئی بھی یہ نہیں کہتا کہ وہ معمولی آدمی ہے لیکن ساڑھے تین ہزار فرانک کے لیئے لوگوں کے جوٹھے اور گندے برتن صاف کرتے ہیں۔جب ان کو کاغذ مل جاتے ہیں تو وہاں جاکے کہتے ہیں کہ ہم تو اپنا کاروبار کرتے ہیں۔خاص کر جب کوئی لڑکاپیرس سے پاکستان جائے تو اس کا استقبال شہزادے کی طرح کیا جاتا ہے۔وہ لوگ جو کبھی اپنی بیٹی کی جوتی تک دینے کو راضی نہیں ہوتے وہ گھر آکر رشتے کی بات چلاتے ہیں۔ لڑکے کو پچکارتے ہیں۔تم لوگوں نے تو دیکھ ہی لیا ہے۔ میں کس طرح کے گھر میں رہتا ہوں اور ساتھ میں دو لڑکے اوربھی ہیں۔ جانتے ہو اس دڑبے کا کتنا کرایہ ہے۔ ڈھائی ہزار فرانک۔پانی ،بجلی اور گیس کا بل ملا کر چار ہزار فرانک تک چلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میٹرو کا ٹکٹ، کھانا، پینا، کپڑا لتا۔ ہمیں ہر ماہ پاکستان خرچہ بھی بھیجنا ہوتا ہے۔خود بھوکے رہ لیں گے لیکن انھیں خرچہ ضرور بھیجنا ہے۔ ہمیں کام چھوٹ جانے کا ڈر اس لیئے نہیں ہوتا کہ ہم کھائیں گے کہاں سے، بلکہ اگر ایک مہینہ کام نہ کیا تو پیچھے والے بھوکوں مر جائیں گے۔ہماری زندگی عرب ممالک والے پاکستانیوں سے مختلف ہوتی ہے۔وہ تو اسلامی ممالک میں رہتے ہیں۔سال کے سال اپنے ملک چکر بھی لگا لیتے ہیں۔ہم لوگ میٹھی جیل میں رہتے ہیں۔ پکڑے جانے کا ڈر،کام چھوٹ جانے کا ڈر، اگر ڈیپورٹ ہوجائیں تو نہ وہاں کے رہتے ہیں اور نہ یہاں آسکتے ہیں۔ اس لیئے موقع ملے تو کاغذات بناؤ۔ ریستوران کے شعبے میں لڑکیوں سے دوستی کرنے کے کافی مواقع ملتے ہیں۔اپنے اپنے برتھ سرٹیفیکیٹ،ان میرڈ سرٹیفیکیٹ ااور کیریکٹر سرٹیفیکیٹ (birth certificate, unmarried certificate, character certificate) پاکستان کے فارن آفس (foreign office) سے تصدیق شدہ، منگو اکر رکھ لو۔ کسی وقت بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ کئی دفعہ ان چھوٹی چھوٹی قباحتوں کی وجہ سے انسان کو کاغذات ملتے ملتے رہ جاتے ہیں۔اچھا اب میں چلتا ہوں۔مجھے کام شروع کرنا ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پساج براڈی (passage brady) میں آدم سفید قمیص، کالی پتلون اور کالی ٹائی باندھے کھڑا menu midi 49,menu midi 49 (مینو مدی ۴۹ فرانک، مینو مدی ۴۹ فرانک) کی آواز لگا رہا تھا ۔گیارہ بجے سے لیکر دن کے ڈیڑھ ، دو بجے تک یہی سلسلہ رہتا اور اکا دکا ہی گاہک آتے ۔ غیر ملکی سیاح گزرتے، لیکن کم ہی ایسا ہوتا کوئی دھیان دیتا۔ جب گاہک وغیرہ نہ ہوں تو باہر کھڑے لڑکے آپس میں چھیڑخانی کرتے۔ آدم کو بھی بھپتی کسی گئی لیکن اس نے جواب نہ دیا۔ اس پساج میں کئی لڑکے انھیں اریزو کے بھی مل گئے۔ ان میں سے کئی دوپہر کا کھانا کھانے بھی آتے۔کچھ پیرس کام کرنے آتے ۔کچھ اپنے کسی عزیز سے ملنے آتے۔
یہاں بھی لوگ علاقے کے حساب سے کام کررہے تھے۔جہلم کے لوگ ریستورانوں کے شعبے میں تھے۔ سرگودھا اور منڈی بہاؤالدین کے لوگ رنگ کے ٹھیکے لیتے، کوئی بجلی کا ٹھیکہ لیتا ۔پنڈی ،گجرخان، روات اور جھمٹ کے لوگ مختلف شعبوں میں تھے لیکن ان میں زیادہ تر STRASBOURGE ST. DENIS (ستراسبورگ سینٹ ڈینس) پے یہودیوں کی دوکانوں پے سیلز مین کا کام کرتے تھے۔ آدم کو اپنی اس یورپ یاترا میں سندھ اور بلوچستان کے بہت کم لوگ نظر آئے۔ سندھ کا کوئی ایک آدھ آدمی مل ہی جاتا لیکن بلوچستان کے کسی آدمی سے اس کا واسطہ نہ پڑا تھا۔
داؤد اوپر بڑے باورچی (شیف) کی مدد کراتا اور ساتھ ساتھ برتن دھونے کا کام بھی کرتا۔ اب وہ روتا نہیں تھا۔اب اسے یقین ہوچلا تھاکہ یورپ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اصل رش (گاہکوں کی بھیڑ)شام کو ہوتا۔خاص کر جمعہ ، ہفتہ اور اتوار مصروف ترین دن گزرتے۔ یہ داؤد کو برتن دھونے سے فرصت ملتی نہ ہی آدم کو گاہکوں کی سیوا سے۔دونوں کی تنخواہ تقریباً برابر ہی تھی۔کبھی کبھی بخشش (ٹپ) بھی مل جاتی۔ وہ گھر پیدل ہی آتے جاتے کیونکہ passage brady (پساج براڈی) سے belleville (بیل ول )آنے کے لیئے بمشکل آدھا گھنٹہ چلنا پڑتا۔ گپ شپ کرتے کرتے وہ کام پے چلے جاتے ۔ دونوں کی قسمت اچھی تھی۔ انھیں کسی نے کنٹرول (جامہ تلاشی لینا یا کاغذات کی بابت پوچھنا۔پورپ کے تمام ممالک میں پولیس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی شخص سے جس پے انھیں شک ہو ،کاغذات کا پوچھ سکتے ہیں سوائے انگلستان کے۔۔ وہاں اس قسم کا سوال کرنے کی پولیس کو اجازت نہیں)سوموار والے دن دونوں کی چھٹی ہوتی ۔ چند ماہ کام کرنے کے بعد آد م اور داؤد ، دونوں اپنے اپنے شعبے میں طاق ہوگئے تھے۔ کہاں تو برتن دھونا داؤد کو عذاب لگتا تھا اور کہاں ڈھیروں برتن دھونا اس کے لیئے معمولی بات تھی اور ساتھ ساتھ مختلف ہانڈیاں (کریاں اورانڈین ،پاکستانی ڈشز)بنانے کا کام بھی سیکھ رہا تھا۔بڑا باورچی اس کی بالکل مدد نہ کرتا۔ لیکن آدم رات کو باورچی خانے کی صفائی کرنے کے بعد سارے مصالحوں کے ڈبے سلیقے سے رکھتا اور اندازہ لگا لیتاکہ کتنا مصا لحہ استعمال ہوچکا ہے۔ دوسرے دن جب بڑا باورچی آتا تو مصالحے استعمال کرتا اور داؤد ڈبوں کی گہرائی سے اندازہ لگا لیتا کہ کتنے مصالحے استعمال کرتا ہے۔ ۔ اس کی یہ ترکیب کامیاب رہی اور بڑا باورچی یہی سمجھتا رہا کہ داؤد نے کچھ نہیں سیکھا، کیونکہ بڑا باورچی ہمیشہ مصالحے چھپا کر استعمال کیا کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین چار سال یورپ میں دھکے کھانے کے بعد داؤد کی عقلِ سلیم میں یہ بات آچکی تھی کہ زندگی اسی کو کہتے ہیں۔لیکن آدم وہی اپنے اصول لیئے چل رہا تھا۔سیاسی پناہ سے ملک و قوم کی بدنامی ہوتی ہے۔اور پیپر میرج (paper marriage) سے انسان کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ آخر کار آدم کو اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے، کیونکہ وہ کام کے دوران گاہکوں سے مباحثے کیا کرتا۔ ریستوران کے مالک کو بہت غصہ آتا کیونکہ اس سے کام میں خلل پڑتااور سروس (یہاں سروس کامطلب ہے ریستوران میں گاہکوں کوکھانا پیش کرنا)بھی آہستہ ہوجاتی۔ خاص کر جمعے اور ہفتے والے دن ۔ اسے ریستوران کے مالک نے کئی دفعہ ٹوکا بھی لیکن آدم عادت سے مجبور تھا۔ پھر ریستوران کے مالک نے بٹ صاحب کو شکایت کی۔ آدم ایسا جان بوجھ کر نہ کرتا۔ لیکن جیسے ہی اسے پرخلا بات نظر آتی وہ اسے پر کرنے کی کوشش کرتا۔ وہ اس بات کو ماننے کے لیئے کبھی بھی تیار نہ ہوتا کہ پاکستان، ہندوستان کا حصہ ہے۔ بلکہ پاکستان کی اپنی پہچان ہے۔وہ گاہکوں کو نقشے بنا بنا کے دکھاتا۔ اسے پاکستانی سیاست دانوں اور پاکستانی سیاسی نظام سے سخت نفرت تھی لیکن پاکستان سے نہیں۔پاکستان کو دنیا کے نقشے پے ایک آزاد ، خود مختار اور دنیا کے بے شمار ملکوں سے بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا۔ بحث کا آغاز صرف اس بات سے ہوتا، جب کوئی گاہک کہتا، ’’پاکستان کہاں ہے‘‘۔سب کہتے ہندوستان کے ساتھ یا ہندوستان کا کوئی صوبہ ہوگا۔بس پھر بحث شروع ہوجاتی۔ آدم اپنی گفتگو کا آغاز اس بات سے کرتا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے۔ اسے دنیا کے نقشے پے آئے ہوئے پچاس سا ل ہوچکے ہیں۔لیکن لوگ اس بات سے ابھی تک نابلد ہیں۔ بالکل اسی طرح، جس طرحCZECKOSLAVIA (چیکو سلاواکیہ) اور YUGOSLAVIA (یوگوسلاویہ) ٹوٹ کر کئی ملکوں میں منقسم ہوچکے ہیں مثلاً MAKENDONIJA (MACEDONIA),JUGOSLAVIJA (YUGOSLAVIA), BOSNIA HERCEGOVINA, HRVATSKA (CROATIA), SLOVENIJA (SLOVENIA) CZEC REPUBLIC, MONTENEGRO (مقدونیہ،یوگوسلاویہ، بوسنیا ہیرزگووینیا، کروآتشیا، سلووینیا، چیک ریپبلک مونتے نیگرو)۔ اس کے علاوہ LATVIA, BELARUS, ESTONIA, LITHUANIA,ALBANIA (لیتویا، بیلارس، ایستونیہ، لتھوینیا، البانیہ )بھی آزاد ملک ہیں۔
یہ خلافتِ عثمانیہ کے ان دنوں کی اسلامی ریاستیں ہیں جب یہ لوگ چھوٹے چھوٹے قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔جس کی طاقت زیادہ ہوتی وہ ان کو اپنے قبضے میں کرلیتا۔
بات پاکستان سے شروع ہوتی اور یورپ کی سیاست تک آپہنچتی۔آدم گفتگو جاری رکھتا۔ ساتھ ساتھ سروس بھی جاری رہتی۔
آدم گفتگو کا سلسلہ جہاں سے توڑتا وہیں سے پھر شروع کرتا۔ جس کے پاس طاقت زیادہ ہوتی ۔وہ ان کو قبضے میں کرلیتا۔کبھی ہنگری کا بادشاہ، کبھی رومانیہ کا بادشاہ، کبھی آسٹریاء کا تو کبھی بلغاریہ کا۔
چودھویں صدی میں جب سلطنتِ عثمانیہ نے ان ریاستوں کا رخ کیا ، تو بہت سے یہودی اور عیسائی اپنی زمینیں اور جائیدادیں بچانے کے لیئے مسلمان ہوگئے۔ حالانکہ فتوحات کے دوران انھوں نے کسی پر مذھب بدلنے کی پابندی نہ لگائی تھی۔لیکن یہودی اور عیسائی ، غیر مسلموں کو جو ٹیکس دینا پڑتا تھا اس سے بچنے کے لیئے مسلمان ہوجاتے۔
جبکہ خلافت عثمانیہ کے کئی سلطانوں نے سیاسی بنیادوں پر مذھب کو بالاءِ طاق رکھتے ہوئے عیسائی لڑکیوں سے شادیاں کیں۔جن میں چند ایک سیاسی طور پے بڑی اہم ثابت ہوئیں۔
سلطان اْوریان نے بازنظینی(BYZANTINE) بادشاہ JOHN VI CONTAZUZENUS (جان ششم کونتازوزینس) کی بیٹی THEODORA (تھیوؤڈورا)سے شادی کی۔ THEODORA (تھیوؤڈورا) اور سلطان اْوریان کے بیٹے مراد اول نے بازنطینی (BYZANTINE) و بلغاریہ کی شہزادی سے شادی کی۔بہزاد اول نے SERBIA (سربیاء)کے شہزادے LAZAR (لازار) کی بیٹی DESPINA (ڈیسپینا) سے شادی کی۔یہ شادیاں عیسائیوں کو مسلمانوں کے درباروں تلک لے آئیں۔یہ لوگ یہ صرف درباروں میں آگئے بلکہ دربارِ خاص کے ارکان بن گئے۔
گفتگو کا موضوع گھوم پھر کرکہیں اور چلا جاتا۔آدم کا بنیادی مقصد سیاست اور مذھب کو علیحدہ علیحدہ کرناہوتا کیونکہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ مسلمانوں نے اسلام کو بنیا د بنا کر ایک آزاد ملک کا خواب دیکھا تھالیکن پسِ آئینہ ان کامقصد کچھ اور ہی تھا۔یعنی جہاں جہاں ، جب جب انسان کو مذھب سے فاعدہ اٹھانے کا موقع ملا اس نے اٹھایا۔خواہ وہ خلافتِ عثمانیہ ہو یا تحریکِ پاکستان۔یورپ کی سیاست پے بیلاگ تبصرہ کرتے کرتے آدم ہندوستان کی طرف واپس آجاتا۔ پھر کہنا شروع کرتا ، یہ بات درست ہے کہ پاکستان ، بنگلا دیش، نیپال، بھوٹان، برما، ہندوستان ،تبت۔یہ سارے ممالک برِ صغیر پاک و ہند کا حصہ ہیں۔ لیکن ہر حصے کی اپنی پہچان ہے۔ ہر ملک نے اپنا نام پانے کے لیئے اس کی قیمت چکائی ہے۔بالکل اسی طرح برِ صغیر پاک و ہند کے لوگوں نے بھی اپنی آزادی کی قیمت چکائی ہے۔ملکی تحریکوں کے علاوہ جہاں جہاں تاجِ برطانیہ کا جھنڈا لہراتا تھا۔وہاں وہاں ، مسلمانوں، ہندوؤں،سکھوں، بدھ مت کے پیروکاروں اور نیپالی گورکھوں نے اپنا خوں بہایا۔پہلی جنگِ عظیم میں مسلمانوں کے خلاف مسلمانوں کو لڑوایا گیا۔اور آزادی کا جھوٹا وعدہ کیا گیا۔ دوسری جنگِ عظیم میں اس قیمت پر آزادی دینے کا وعدہ کیا گیا کہ تمام ہندوستانی( جن میں پاکستانی ،ہندوستانی، بنگالی، نیپالی سب شامل تھے) ہمارے لیئے جنگ کریں۔بے شمار لوگوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ آج یورپ کے قبرستانوں میں کتنی ماؤں کے لال ، بہنوں کے بھائی، عورتوں کے سہاگ سو رہے ہیں۔
آج جب یورپیئن (EUROPEANS) ہندوستانیوں، پاکستانیوں اور بنگالیوں کو عجیب نظر سے دیکھتے ہیں تو یہ ان کی کم ظرفی ہے۔ دوسری جنگِ عظیم میں جب جرمن فوجیں یورپ میں دندناتی پھر رہیں تھیں تب محاذ پر ہندوستانی، پاکستانی، بنگالی اور نیپالی اپنی جانیں قربان کررہے تھے۔ انگریز تو صرف پیچھے سے حکم چلاتا تھا۔ خواہ وہ ملک اٹلی ہو یا فرانس، مصر ہو یا روس۔ یورپ کی نوجوان نسل تاریخ کو صحیح طرح نہیں ٹٹولتی۔ انھیں تو یہی پتا ہے کہ امریکہ نے انھیں ہٹلر کے چنگل سے نجات دلائی۔ حالانکہ امریکی فوجی تو روسی فوج کو روکنے کے لیئے آئے تھے۔ کیونکہ جیسے ہی ایک طرف سے جرمن فوجوں کا انخلاء شروع ہوا دوسری طرف سے روسی فوجوں نے یورپ میں داخل ہونا شروع کردیا تھا۔۔ آج یورپیئن بڑے آرام سے کہہ دیتے ہیں WHERE IS PAKISTAN? DOVE PAKISTAN, PAKISTAN EST OU? (پاکستان کہاں ہے؟)۔ اگر اپنے باپ دادا سے جا کے پوچھے تو وہ انھیں بتائیں گے کہ ہندوستانی، پاکستانی، بنگالی اور نیپالی پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہاں آئے تھے۔ سب کے سب واپس نہیں گئے۔زیادہ تر نے اپنی جانیں گنوائیں۔ کئی دفعہ تو ایسا بھی ہوا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد ان فوجیوں کو واپس بھیجنے کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے وہیں گولی مار دی گئی اور شہادت کی مہر لگا دی گئی یا گمنام و گمشدہ کی فہرست میں ڈال دیا گیا۔وہ انھیں بتائیں گے کہ ہم لوگ اجنبی نہیں۔
یہ باتیں گاہکوں کو تو بہت دلچسپ لگتیں لیکن ریستوران کے مالک کو نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم نے اپنا کاروبار شروع کردیا تھا۔ARC DI TRIOMPHE (آرک دی تریونف،یعنی فتح کی محراب) کے پاس وہ اپنا ٹیپ ریکارڈررکھے Dancing couple (ناچنے والے ایک جوڑے کا کھلونا جو بچوں کے کارٹون mickey mouse مکی ماوس کا سا بنا ہوتا تھا)بیچتا۔اس کے علاوہ spiderman (سپائیڈرمین)۔ اگست کے مہینے میں سیاحوں کو بہت رش ہوتا ۔ اس میٹرو کا نام بھی arc di triomphe (آرک دی تریونف یعنی آزادی کی محراب) رکھا گیا ہے۔ویسے اس آرک کو CHARLES DE GAULE ETOILE (چارلس ڈیگال اتوآل) بھی کہتے ہیں۔اس آرک دے تریونف سے بارہ سڑکیں نکلتی ہیں۔ جس طرح فیصل آباد کا گھنٹہ گھر آٹھ بازاروں کے درمیان ہے۔
اس میٹرو سے سیاحوں کے ریلے کے ریلے نکلتے ہیں۔باہر نکلتے ہی آپ کی نظر آرک دی تریونف پر پڑتی ہے۔اس کے ارد گرد ایک ستارہ بنا ہوا ہے اور بارہ سڑکیں گزرتی ہیں۔
AVENUE DE FRIEDLAND,AVENUE HOCHE, AVENUE DE WAGRAM MACMOHAN,AVENUE CARNOT, AVENUE DE LA GRANDE ARMEE, AVENUE D'IENE, AVENUE KLEBER, AVENUE MARCEAU اور آخر میں پیرس کی بلکہ فرانس کی سب سے مشہور سڑک AVENUE DES CHAMPS ELYSEES (ایوینیو دے شانز ایلیزے) ہے۔
آدم اس مشہور ایونیو کی نکڑ پر ایک بہت بڑی شیشوں والی عمارت کے باہر کھڑا spiderman (سپائیڈر مین)،ڈانسنگ کپل بیچتا۔ اس کے پاس دونوں کھلونوں کی دو قسمیں ہوتیں۔ ایک ، ایک نمبر اور دوسرا دو نمبر۔ یعنی ایک اصلی اور دوسرا نقلی۔ سستا اور نقلی تھوڑی دیر بعد خراب ہوجاتا۔
جیسے ہی ٹورسٹ پاس آتے وہ آواز لگاتا۔انگریزی میں بھی ، فرنچ میں بھی۔dix franc, dix franc, ten franc ten franc(دِس فرانک لیکن فرنچ میں آخری لفظ کو نہیں بولا جاتا اس لیئے آواز دی کی ہی آتی ہے)۔ اور ساتھ ساتھ ، وہ spiderman (سپائیڈرمین) جو نیچے آجاتا اس کو اٹھاکر جتنی اونچائی تک پھینک سکتا ، پھینکتا اور اس طرح کے کئی سپائیڈرمین شیشے کی اس عمارت سے نیچے گر رہے ہوتے ۔ ان کے ہاتھوں اور پاؤں پے اس طرح کا مٹیرئل لگا ہوا تھا جو چپک جاتا لیکن اوپر کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے بقیہ حصہ نیچے آجاتا۔ اور اس طرح دور سے ایسا لگتا جیسے کوئی چیز نیچے کی طرف آرہی ہے۔ جب دس بارہ سپائیڈرمین نیچے کو آرہے ہوتے تو بالکل ایسا لگتا جیسے فوج جنگی مشقیں کررہی ہو۔وہ اکیلا نہیں تھا۔اس کے آس پاس ایک دو اور پاکستانی ،مراکشی، اور بنگالی تھے۔ کوئی ماروں بیچ رہا ہوتا، کوئی مونگ پھلی کے پیکٹ، تصویریں اور چھتریاں لیئے گھوم رہا ہوتا۔ کئی سیاح بڑے تمسخرانہ انداز میں ان کو دیکھتے۔ جب انھیں پتا چلتا کہ ہندوستانی اور پاکستانی ہیں۔ وہ کہتے، ’’ان کے ملکوں میں کتنی غربت ہے کہ ان کے نوجوانوں کو یورپ میں اس طرح کے کام کرنے پڑتے ہیں اور نیوکلئیر وار اور ہائیڈروجن بومب کی بات کرتے ہیں۔ آدم نے ایک فولڈنگ سٹول رکھا ہوا تھا ۔ وہ مداریوں کی طرح اسے جھٹ سے کھولتا اور بیٹھ جاتا ۔جب گاہک آتے تو آواز لگانے لگتا۔ یہاں اسے صرف پولیس کا ڈر ہوتا۔ خاص کر ترچھی ٹوپیوں والے۔ وہ بہت ہی خطرناک تھے۔ کام تو مشکل تھا لیکن یہاں اسے لمبے لمبے لیکچر دینے والا کوئی نہیں تھا۔نہ ہی کوئی ٹوکنے والا تھا۔ اسے ایسا لگتا ، وہ کھلی فضا میں سانس لے رہا ہے۔
آج وہ اپنے فولڈنگ سٹول پے بیٹھے بیٹھے خیالوں کی وادی میں چلا گیا۔ کیسے وہ JEAN PAUL SARTRE (یاں پال ساخت) کے فلسفے existantialism (ایگ زس ٹین شیئل ازم یعنی نظریہ ءِ وجودیّت) پے بحث کیا کرتا تھا۔ یونانی فلسفیوں، اطالوی فلسفیوں، جرمن فلسفیوں، فرانسیسی فلسفیوں اور برطانوی فلسفیوں پے اسے کتنا ملکہ حاصل تھا۔ایک سال تو رہ گیا تھا۔ وہ ماسٹرز کر لیتا ۔اسے ماہر شرقیات کے علاوہ ماہر غربیات کو بھی پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ ایک طرف ،ارسطو، افلاطون،دانتے، مونٹائین، بیکن ،وولٹیغ (voltaire) ، غوسو (روسو) مارکس، رسل اور ساخٹ (سارتر) تھے اور دوسری طرف امام غزالی، جلال الدین رومی، جامی، فارابی، بو علی سینا، ابنِ رشد، ابنِ خلدون، عمر خیام اور امام واصق جیسے جید علماء تھے۔ جنھوں نے یورپ میں نشاۃِ ثانیہ لانے میں مدد کی ۔ جن کی فلسفیانہ بنیادوں پر چل کر فرانس نے اپنے جدید فلسفے کی بنیاد رکھی۔ ہے ابنِ یقضان، محمد طفیل نامی ہسپانوی مسلمان کا ناول آگے چل کر DANIEL DEFOE (ڈینیئل ڈیفو ) کا روبنسن کروسو بنا۔ سپین کی لغت کو مرتب کرنے والے بھی مسلمان تھے۔ لاطینی زبان میں حروفِ تنکیر کو متعارف کروانے والے بھی مسلمان ہی تھے
وہ کئی دفعہ سوچتا کہ وہ SAINT GERMAIN DU PRES (سینٹ جرمن دو پخے ،پیرس کی ایک مشہور گلی کانام) کی CAFE DEUX MAGOTS (کیفے دوز میگو، پیرس کی ایک مشہور کیفے ) یا CAFE DU FLORE (کیفے دو فلوغ، پیرس کی ایک مشہور کیفے) پے بیٹھاہے۔ اس کی ملاقات JEAN PAUL SARTRE (سارتر) اور SIMON DE BEAUVOIR (سمن دی بوواغ) سے ہوجاتی ہے۔ان دنوں ان کیفیز پے JEAN PAUL SARTRE اور SIMON DE BEAUVOIR کے علاوہ ALBERT CAMUS, APOLLINAIRE, PREVERT, PICASSO, ALAIN DELON, BRIGITTE BARDOT, ANDRE GIDE, FERNAND LEGER, ANDRE BRETON اور ERNEST HEMINGWAY(یاں پال ساخت، سمن دو بوواغ، کیمو، آپولی نیغ، پخے ویخت، پکاسو، ایلن دلوں، بغجت باغدو، آندغے ید، فیغناند لیجے، ارنسٹ ہیمنگوے، آندغے بغیتن) بھی آیا کرتے تھے۔ لیکن CAFE DEUX
MAGOTS (کیفے دو ماگو)پے JEAN PAUL SARTRE (یاں پال ساخت )اور SIMON DE BEAUVOIR(سمن دو بوواغ) چالیس سال تک ایک ہی میز پر اپنے پیار کی پینگیں بڑھاتے رہے۔ دونوں نے شادی نہیں کی لیکن اپنے اپنے ادب کے طبقہ ءِ فکر میں دونوں کی کوشش کرتے رہے۔ ساخت (سارتر)نے اپنی ساری زندگی existantialism (نظریہ ءِ وجودیّت)کے لیئے صرف کردی، جبکہ SIMON DE BEAVOIR (سمن دی بوواغ)نے عورتون کی نفسیات اور ان کے حقوق کی بحالی کے لیئے اپنی ساری زندگی وقف کردی۔
"attention monsieur! papier s'il vous plait" (خبردارجناب ! مہربانی فرما کر کاغذات دکھائیئے )یہ آواز سنتے ہی آدم خیالوں کی دنیا سے حقیقی دنیا میں آگیا۔پولیس والے کھڑے تھے،۔ آدم نے جلدی سے اپنا CARTA D'IDENTITA(کارتا دی ایدن تیتا) دکھایا انھوں نے اپنی تسلی کر کے واپس کردیا۔ لیکن آدم کا سارا سامان ، حتیٰ کہ فولڈنگ سٹول بھی ساتھ لے گئے۔ عام طور پے جب چھاپا پڑتا تو یہ لوگ سامان اٹھا کر گلیوں میں بھاگ جایا کرتے لیکن آج کسی کو موقع نہ ملا۔ آدم کے ہاتھ میں پولیس والوں نے پرچی تھما دی اور کہنے لگے جرمانہ ادا کرکے سامان لے جانا۔ اس نے پرچی ساتھ رکھے ہوئے کوڑے کے ڈبے میں ڈال دی۔آدم تو اسی میں خوش تھا کہ اسے پکڑ کر تھانے نہیں لے گئے تھے۔ ورنہ تو لینے کیدینے پڑجاتے۔وہ پیرس کی سب سے شاندار سڑک پے کام کرتا تھا۔ CHAMPS ELYSEES (شانز اے لیزے۔ یعنی ELYSIAN FIELDS ایلیزین کے کھیت)۔جیسے کراچی میں لالو کھیت ہے۔
کسی دور میں یہاں یقیناًلہلہاتی فصلیں ہوتی ہونگی۔ NAPOLEAN (نیپولئین) نے ۱۸۰۶میں پیرس کے مشہور ماہرِ تعمیرات CHALGRIN JEAN FRANCOIS (شالغن یاں فرانسوا) کو ایک محراب کا نقشہ بنانے کو کہا۔ پندرہ اگست ۱۸۰۶ کو اس محراب کی بنیاد رکھی گئی۔ اور اس کانقشہ بالکل روم میں سلطنتِ روما کے دور کی تعمیر کردہ محراب سے متاثر ہوکر بناگیا۔اور فرانسیسی ادب کے مشہور شاعر، ادیب، افسانہ نگار VICTOR HUGO (وکٹغ ہیوگو) NOTRE DAME DU PARIS, LES MISERABLE (نوٹخ دام دو پاغی، لے مزے غابل وٹر ہیگو کے دو مشہور ناولوں کے نام )کے خالق کا مقبرہ بھی یہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین چار سال کی دوستی میں آدم اور داؤد کے درمیان آج تک دراڑ نہ آئی تھی۔ لیکن جب سے یہ دونوں پیرس آئے تھے۔ داؤد مضمحل و مضطرب رہنے لگا۔ احترام الحق بٹ نے داؤد کے دماغ میں یہ بات بٹھا دی تھی کہ اگر زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو آدم سے پیچھا چھڑا لو۔ نہ تو وہ خود کامیاب ہوگا نہ ہی تمھیں کچھ بننے دے گا۔ بٹ صاحب کا فلسفہ زندگی یہ تھا کہ جو لوگ تھوڑے زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں ان کے دماغ کے پیچ ڈھیلے ہوجاتے ہیں ہر وقت اصولوں کی باتیں کرتے ہیں۔
داؤد کو تو جیسے بہانہ چاہیئے تھا۔ اسے کی امیر بننے کی خواہش شدت اختیار کر گئی۔ پیرس کی روشنیوں اور خوشبوؤں نے اس کی آنکھوں کو خیرہ کردیا تھا۔اب وہ DRAWIDIAN (ڈراویڈین) کا بڑا شیف ، یعنی بڑا باورچی بن چکا تھا۔ وہ مکمل کام سیکھ چکا تھا۔ مختلف ہانڈیاں (
کریاں)، تندور کا کام ، پنیر نان، چٹنیاں، گلاب جامن،ہر چیز اس نے اپنے شوق سے سیکھی تھی۔ اسکا باپ بھی تو یہی کام کرتا تھا۔ دہی بڑھوں کا۔لیکن دونوں میں فرق پیسے کا تھا۔ داؤد تقریباً اسی نوے ہزار روپے کمال لیتا۔ اس کے علاوہ ٹپ (بخشش ) بھی سب میں تقسیم ہوتی۔ کبھی ملتی کبھی نہ ملتی۔ کھانا پینا ریسیتوران میں ہی ہوتا (گو کے چھپ کے کھاتے ) لیکن اس عرصے میں وہ سارے گر سیکھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احترام الحق بٹ کو جیسے ہی دس سال کا CARTE SEJOUR (کارتے سجوغ) ملا وہ اپنا ریستوران کھولنے کے لیئے ہاتھ پاؤں مارنے لگا۔ وہ اپنی اسکیم میں پوری طرح کامیاب ہوچکا تھا۔کیونکہ ریستوران چلانے کے لیئے سب سے ضروری چیز ہوتی ہے ایک عدد اچھا باورچی ،جسے پیرس کی زبان میں شیف کہا جاتا ہے۔باقی ویٹرز، نائب باورچی (اسسٹنٹ باورچی) اور برتن دھونے والے تو آسانی سے مل جاتے ہیں۔
کْک (شیف) اس نے تیار کرلیا تھا۔ احترام الحق بٹ کا ارادہ تھا کہ داؤد کی بھی پیپر میرج کراکے اسے CARTE SEJOUR (کاخت سجوغ) ملنے پر ریستوران کا مالک اسے بنا دے۔ خود shomage (شوماج،بیروزگاری الاؤنس ) پے گزارا کرے ۔ لیکن ریستوران کا کرتا دھرتا وہ خود ہی ہو۔کیونکہ داؤد کو کاغذی کاروائیوں کا کچھ نہیں پتا تھا۔ اول تو اسے زبان ہی نہیں آتی تھی۔اور دوسرا اس کے اندر اتنا اعتماد و بھروسہ ہی نہیں تھاکہ وہ دفتری موشگافیاں سمجھ سکتا۔اسی بات پے آدم کو اختلاف تھا کہ اس نے نہ زبان سیکھی، نہ ہی کاغذی کاموں کو سمجھا۔جب بھی کوئی ضرورت پیش آتی کسی نہ کسی کو ساتھ لے کر جاتا۔ حتیٰ کہ ڈاکخانے سے پارسل ، رجسٹرڈ خط لانے کے لیئے بھی اسے کسی نہ کسی کی ضرورت پڑتی۔اس کے برعکس آدم کو کوئی دقت نہ پیش آتی۔وہ بالکل ایسے محسوس کرتا جیسے وہ کئی سالوں سے پیرس میں آباد ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احترام الحق نے پساج براڈی میں مل ملاکر دوسال کے ٹھیکے پر ایک پرانا ریستوران لے لیا۔اس نے داؤد کو ریستوران کا بڑا باورچی مقرر کیا اور اسے یہی باور کرانے کی کوشش کرتا رہا کہ ریستوران اْسی کا ہے۔ داؤد پاکستان پیسے نہیں بھیجتا تھا، کیونکہ اس کے والد نے اسے کہہ رکھا تھا، بیٹا اپنی زندگی بناؤ، کیونکہ ان کا کام اچھا چل رہا تھا۔ اب تک اس نے جو رقم کمائی تھی۔ پس انداز تھی۔ اس ریستوران میں ساٹھ ہزار فرانک داؤد نے بھی شامل کیئے باقی رقم کا انتظام احترام الحق بٹ نے کیا اور کچھ رقم انھوں نے بینک سے قرض لی۔ داؤد کو صرف کاغذات کا مسئلہ تھا۔ یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ بٹ نے CARTE SEJOUR (کاخت سجوغ) ملتے کے بعد MARIE ANTOINE (میری انتو آن) کو طلاق دے دی تھی۔ بٹ کا خیال تھا کہ MARIE ANTOINE(میری انتو آن) کی شادی داؤد کے ساتھ کردی جائے۔وہ اس کام کے لیئے راضی تھی۔کیونکہ اسے پیسوں سے غرض تھی۔ اس کا تو
پیشہ ہی یہی تھا۔ وہ ایسی نہ تھی۔نشے کی لت نے اسے ایسا بنا دیا تھا۔
احترام الحق بٹ نے وکیل سے بات کی تو وکیل کہنے لگا، چونکہ داؤد انصاری ، فرانس میں لیگل طور پے داخل نہیں ہوا، یعنی ویزا لے کے داخل نہیں ہوا۔ اس لیئے اسے پہلے سیاسی پناہ کی درخواست دینی ہوگی۔ یہ کیس چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلتا۔ جیسے ہی یہ درخواست داخل دفتر کرائے گا، ہم لوگ رجسٹرار آفس میں شادی کی درخواست دے دیں گے۔۔ اس دوران یہ اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ، کیرکٹر سرٹیفیکیٹ، اور ان میرڈ سرٹیفیکیٹ (birth certificate, character certificate, unmarried certificate) اپنے ملک کے فارن آفس سے تصدیق کرواکے منگوا لے۔باقی میں سنبھال لوں گا۔ داؤد نے کہا یہ تینوں کاغذ تو میرے پاس پہلے سے موجود ہیں۔۔ اس نے وکیل کو تینوں کاغذ دکھاتے ہوئے کہا۔وکیل نے تینوں کاغذوں کی تاریخ اجراء دیکھی اور کہنے لگا، ان کی معیاد چھ مہینے تک ہوتی ہے اور جب تک ہماری کاغذی کاروائی مکمل ہوگی تب تک ان کی مدت گزر جائے گی۔ یہ پہلے ہی تین ماہ پرانے ہیں۔داؤد بالکل کٹھ پتلی کی طرح بٹ صاحب کے اشاروں پے ناچ رہا تھا۔لیکن آدم کی چھٹی حِس اسے کہہ رہی تھی کہ داؤد کے ساتھ یقیناًکچھ ہونے والا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی کے ساتھ اتنا بے لوث نہیں ہوسکتا۔ وہ بھی بنا کسی مقصد و مطلب کے ۔ لیکن داؤد کی سرد مہری کی وجہ سے آدم چپ رہا۔اس
نے کچھ نہ کہا۔اگر وہ بولتا تو سلام دعا سے بھی جاتا۔ بٹ صاحب نے آدم کو ویٹر کی نوکری کی پیش کش کی ۔آدم نے انکا ر کردیا۔ اول تو داؤد کو پیش کش کرنی چاہیئے تھی اور دوئم ، داؤد نے اس معاملے میں اس سے کوئی مشورہ نہیں کیا تھا۔آدم کو خطرے کی بو آرہی تھی۔ اس کے دوست اور شریف آدمی کا نقصان ہونے والا تھا۔لیکن حالات کچھ اس طرح کے تھے کہ وہ اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔داؤد کی آنکھوں کے آگے دولت کمانے کی اور بڑا آدمی بننے کی پٹی بندھ چکی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment