Sunday, June 9, 2013

بڑا گھر، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ




بڑا گھر

چھوٹا سا کمرہ فائلوں سے اَٹا پڑا تھا۔ میز پر دو تین فون پڑے ہوئے تھے۔ ایک طرف پلاسٹک
(plastic)
کی ٹرے
(tray)
پڑی ہوئی تھی۔ جس پر ’’ان‘‘
(in)
لکھا ہوا تھا اور دوسری ٹرے
(tray)
الماری کے اوپر پڑی ہوئی تھی جس پر ’’آؤٹ‘‘
(out)
لکھا ہوا تھا۔ جمیل اور ارشد دونوں کمرے کا معائنہ اس طرح کررہے تھے جس طرح سپیشل پولیس
(special police)
والے کسی مشتبہ جگہ کا معائنہ کرتے ہیں۔ وہ اچھے اور بے تکلّف دوست تھے لیکن وہ وکیل کے کمرے میں اس طرح خاموش بیٹھے تھے جس طرح کسی میت یا فوتگی پر بچوں کو شرارت کرنے سے منع کردیا گیا ہو۔
ابھی دونوں انھی خیالات میں غلطاں و پنہاں تھے کہ دروازے کے ہینڈل
(handle)
کا کسی نے کان مروڑا اور کوئی صاحب اندر داخل ہوئے۔ مٹیالے رنگ کے بہت ہی نفیس ڈبل بریسٹ سوٹ
(double bressed suit)
میں ملبوس اور انتہائی عمدہ انداز میں ٹائی باندھے ہوئے تھے۔ مردانہ وجاہت سے بھرپور لیکن مونچھوں کے بغیر اس میں کمی واقع ہوگئی تھی۔ یہ جمیل اور ارشد کا اپنا خیال تھا۔ جیسے ہی وہ محترم یعنی بھٹی صاحب کرسی پر براجمان ہوئے، جمیل نے اپنا مدعا بیان کیا۔
’’بھٹی صاحب! یہ میرے عزیز ہیں، ارشد۔ معاشی بدحالی سے تنگ آکر اپنے ملک سے بھاگنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور یہاں پر سیاسی پناہ کی درخواست دینا چاہتے ہیں‘‘۔ بھٹیصاحب نے چند ایک سوالات کئے اور ارشد صاحب کی علمی قابلیت سے متاثر ہوئے اور جمعرات کے دن کا وقت دیا۔ دونوں دوست جمیل اور ارشد سیڑھیوں سے اترتے ہوئے نیچے آگئے اور اس دوران دونوں اپنے اپنے خواب بُنتے رہے۔ آخر میں اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
ژ
جمعرات کو ارشد اکیلا ہی بھٹی صاحب کے کمرے میں حاضر ہوا اور جملہ کاغذات، جو سیاسی پناہ سے متعلق تھے، ان کے حوالے کئے۔ بھٹی صاحب نے کاغذات کو اُلٹ پلٹ کے دیکھا، جن میں گھر کا پتہ، ایک عدد بجلی کا بِل (جو کہ یہ ثابت کرتا تھا جس شخص نے گھر کا پتہ دیا ہے وہی شخص اس گھر میں رہ رہا ہے یا کوئی اور)، اس کے علاوہ چند صفحات کا بیان قلمبند کیا ہوا تھا، جو کہ فرنگیوں کی زبان میں یعنی انگریزی میں تھا۔ اسی اثناء بھٹی صاحب نے اپنی سیکرٹری کو بلوایا، جوجاتی بہار کے چند لمحات کی طرح خوبصورت تھی۔ ہندوستانی، پاکستانی اور انگریزی کے میلان سے وجود میں آنے والی اس نئی کریؤل
(creole)
یا پجن
(pidgin)
کہہ لیجئے، میں بولتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور ٹرین سٹرائک
(train strike)
کے بارے میں بتانے لگی۔ اسی لیے وہ کسی کی گاڑی لے کر آئی تھی۔ بھٹی صاحب اِس محترمہ کو اپنے کلائنٹ
(client)
ارشد کی تفاصیل بتانے لگے کہ موصوف پڑھے لکھے آدمی ہیں اور بعض مجبوریوں کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے سیاسی پناہ لینا چاہتے ہیں اور فیس بھی ادا نہیں کرسکتے، اس لیے گرین فارم
(green form)
(گرین فارم ایک ایسا فارم ہے جس پر دستخط کرنے سے آپ کو انگلستان میں وکیل کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے۔ وکیل کو اور جو بھی ہوم آفس تک آپ کے ہمراہ جاتا ہے یا جتنی دفعہ بھی ہوم آفس جانا پڑتا ہے انگلستان کی گورنمنٹ اس وکیل کو ایک ایک پائی ادا کرتی ہے) پر ان کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔
جس انداز سے وہ محترمہ اندر داخل ہوئی تھیں اسی انداز سے جھومتی ہوئی ارشد کو اپنے کمرے میں لے گئیں۔ ارشد کے کاغذات الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں اور پھر گرین فارم
(green form)
پر دستخط کروائے اور اس کے بعد اپنے ادارے کا فارم سائنکروایا۔ اسی دوران ایک فربہ اندام محترم اندر داخل ہوئے جو انگریزی چبا چبا کر بول رہے تھے یا شاید ان کا انداز ہی اس طرح کا تھا۔ کپڑوں کی میچنگ
(matching)
اتنی عجیب تھی کہ بیان سے باہر۔ انتہائی پرانے انداز کی ٹائی اور قمیص خانے دار یعنی چیک
(check)
والی، پتلون اس انداز سے باندھے ہوئے تھے جیسے کوئی ہاتھی کے پیٹ پر سختی سے بیلٹ باندھ دے۔ اور اس طرح سختی سے بیلٹ باندھنے کی وجہ سے اِن موصوف کا پیٹ دو حصوں میں تقسیم ہوگیا تھااور اس طرح لگتا تھا جیسے ان کے دو پیٹ ہیں۔ ان کی باتوں سے اس بات کا اندازہ ہوتا تھا جیسے سارے لندن کا بوجھ ان ہی کے کاندھوں پرہے اور پورے لندن میں ان سے ذمہ دار آدمی کوئی نہیں۔ وہ ارشد کے ضروری کاغذات کی فوٹو کاپی
(foto copy)
کرنے لگے اور اسی دوران ان محترمہ سے گفت و شنید بھی کرتے رہے۔ ارشد کسی ماہر ڈیٹیکٹو (

detective)
کی طرح کمرے کا معائنہ کررہا تھا۔ ایک الماری تھی جس میں ایک ہی طرح کی بیس یا تیس کتابیں پڑی ہوئی تھیں جن پر صرف سالوں کا فرق تھا۔ اور چند ایک کتابیں ادب پر بھی تھیں جن میں پکاسو
(Picasso)
، شیکسپیئر
(Shakespear)
، جین آسٹن
(Jane Austin)
کے چند ناول تھے۔ ایک طرف فوٹو کوپیئر
(foto copier)
تھا۔ چند عدد کرسیاں اور ٹیلی فون۔
اسی دوران ان محترمہ کا موبائل فون بجنے لگا اور وہ محترمہ محوِ گفتگو ہوگئیں۔ یہ سارا وقت ارشد پر اضطراری کیفیت طاری رہی۔ وہ اپنی مترنم آواز کا جادو جگارہی تھیں جیسے جلترنگ بج رہا ہو۔ موبائل فون پر گفتگو کا سلسلہ منقطع کرنے کے بعد وہ دوسرا فون گھمانے لگیں۔ اس دوران کمرے میں لوگ آتے رہے جاتے رہے اور وہ محترمہ دوسرے یعنی آنے والے دن کی بڑے گھر کی یعنی یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن
(United Kingdom of Great Britian)
کے ہوم آفس
(Home Office)
کی اپوائنٹمنٹ
(appointment)
طے کرنے لگیں۔ ایک محترمہ، جن کا نام ماہ لقا تھا، وہ ایک بجے بروز جمعہ کے لیے تیار ہوگئیں اور دفتر کے پتے پر ملاقات کا طے کرکے خدا حافظ کہہدیا۔
ژ
ارشد پونے ایک بجے بھٹی لاء سنٹر میں موجود تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوا اس کی نظر ایک منحنی سی محترمہ پر پڑی جو اُردو اس انداز سے بول رہی تھیں جس طرح آپ ٹرانسلٹریشن (
transliteration)
کریں تو لفظ لکھیں تو انگریزی میں بولے جائیں لیکن مطالب اُردو میں ہوں گے۔ اسی طرح وہ محترمہ وربل ٹرانسلٹریشن
(verbal transliteration)
کئے جارہی تھیں۔ جیسے ’’کریں گے‘‘ کو ’’کرین گے‘‘ انگلش فونیٹیکل انپمریشن
(English pheonetical impression)
اُردو پر چھایا ہوا تھا۔ خیر انہوں نے، جن کا نام ماہ لقا تھا، ارشد کا سرتا پا جائزہ لیا اور کچھ اس طرح شکل بنائی جیسے منہ میں کڑوا بادام آگیا ہو۔ اور سیڑھیاں اترتے اترتے ارشد کو سمجھانے لگیں کہ وہاں بڑے گھر یعنی ہوم آفس
(Home Office)
میں کیا ہوگا۔ وہ محترمہ دورانِ سفر بھی اس طرح لیے دیئے رہیں جس طرح کوئی براہمن، اچھوت کے ساتھ کسی مجبوری کے تحت سفر کررہا ہو۔ خدا خدا کرکے دونوں کروئیڈن
(Croydon)
پہنچے اور ٹیوب سٹیشن
(tube station)
سے نکلنے کے بعد دونوں مختلف گلیوں اور شاہراہوں سے گزرتے ایک بڑی بلڈنگ کے اندر داخل ہوئے۔ محترمہ بڑے گھر یعنی ہوم آفس
(Home Office)
کے تمام عملے سے بخوبی واقف تھیں۔ اسی دوران ان محترمہ کی ملاقات ایک انگریز سے ہوگئی اور وہ اس سے گفتگو میں مصروف ہوگئیں اور ارشد کو اپنے کمتر ہونے کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا۔ وہ سوچنے لگا، یہاں بھی گوری چمڑی والا کالی چمڑی والے کو مات دے گیا۔ خیر یہ لوگ دوسری منزل پر پہنچے اور اس لائن
(line)
میں کھڑے ہوگئے جس میں مطلوبہ کاغذات جمع کروانے تھے۔ ارشد، محترمہ کی بتائی ہوئی قطار میں کھڑا ہوگیا اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ محترمہ نے ارشد کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے قریب آکر اپنے خاص انداز کے اُردو تلفظ میں کہا، ’’جب تمھاڑی باڑی آئے گی مین پاش آجاؤن گی‘‘ (جب تمہاری باری آئے گی میں تمہارے پاس آجاؤں گی)۔
ارشد متعلقہ آدمی یا شاید افسر کے سامنے تھا۔ وہ محترمہ بھی حاضر ہوئیں۔ اس گورے کو کیس کی تفصیل بتانے لگیں اور ارشد اپنی ٹپیکل
(typical)
پاکستانی انگریزی میں بلکہ انگریزی کے پاکستانی تلفظ میں اپنی تفصیل بتانے لگا، جو انگریز کے پلے نہ پڑی اور وہ محترمہ انٹرپریٹر
(interpreter)
کے فرائض انجام دینے لگیں، جس مقصد کے لیے وہ ساتھ آئی تھیں اور ان کو اسی کام کے پیسے بھی ملے تھے۔ تمام تفاصیل سننے اور نوٹ کرنے کے بعد گورے نے کہا کہ ابھی آپ کو بلاتے ہیں۔ آپ کے فنگر پرنٹس
(finger prints)
لیے جائیں گے۔
ارشد اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ لال رنگ کے سائن بورڈ
(sign board)
یا آپ اسے الیکٹرانک ڈسپلے مشین
(electronic display machine)
کہہ لیں، پر نمبر آرہے تھے۔ ارشد اپنے خیالوں میں محو تھا اور وہ محترمہ اس گورے سے گفت و شنید میں مصروف تھیں۔ پھر سحر ٹوٹا اورارشد کی باری آئی۔ پہلے ہاتھ دھونے کے لیے کہا گیا، اس کے بعد دونوں
ہاتھوں کی انگلیوں اور انگوٹھو ں کے پرنٹس
(prints)
لیے گئے۔ اس کے بعد ارشد کو دوبارہ ہاتھ دھونے کے لیے کہا گیا۔ ارشد سمجھا شاید پھر سے فنگر پرنٹس (
finger prints)
لیے جائیں گے لیکن ہاتھوں کی اس دوبارہ دھلوائی کے بعد اس سے کہا گیا کہ تم اس مرحلے سے بخوبی گزر گئے۔ اس کے ہاتھ میں نیلے رنگ کی ایک پرچی تھمادی گئی۔ کچھ لوگوں کے ہاتھ میں گلابی رنگ کی پرچی تھی۔ نیلی پرچی والے، کیس جمع کروانے آئے تھے اور گلابی پرچی والے یا تو پاسپورٹ واپس لینے آئے تھے یا کوئی بھی ٹریول ڈاکومنٹس
(travel documents)
واپس لینے آئے تھے۔ مختلف کاؤنٹر
(counter)
بنے ہوئے تھے۔ ایک ایک کر کے لوگوں کو بلایا جارہا تھا۔ اسی طرح لال رنگ کے سائن بورڈ
(sign board)
پر مختلف نمبر چل رہے تھے۔ ارشد حسبِ معمول اس طائرانہ مشاہدے میں مصروف تھا کہ ارشد کا نمبر آگیا۔ وہ محترمہ بھی ساتھ ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ نمبر دیکھتے ہی ارشد کو ساتھ لیا اور متعلقہ کاؤنٹر پر پہنچ گئیں۔ ارشد نے اپنے سارے ڈاکومنٹس، تصاویر اور متعلقہ کاغذات کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو پیش کئے اور ان صاحب نے اس کے تمامکاغذات پاس رکھ لیے اور اس کے ہاتھ میں ایک کاغذ کا ٹکڑا پکڑا دیا جس پر انٹر ویو
(interview)
کی تاریخ لکھی ہوئی تھی اور وقت بھی درج تھا۔ تین دن بعد کی تاریخ تھی۔ وہ محترمہ، ارشد اور گورا تینوں نے واپسی کا سفر باندھا اور یہ تینوں تیز تیز ڈگ بھرتے ہوئے ٹیوب سٹیشن
(tube station)
کی طرف قدم بڑھانے لگے۔ جیسے ہی ٹرین میں سوار ہوئے ارشد کو پتا چلا جسے وہ رقیبِ رو سیاہ سمجھ رہا تھا، یعنی گورا، وہ محترم بھی انگریزی انداز کی اُردو بول رہے ہیں اور گفتگو پرتوجہ دینے کے بعد پتا چلا کہ محترم گورے نہیں بلکہ ان کی رگوں میں کسی ایشیائی کا خون دوڑ رہا ہے۔
بلیک فرائر پہنچنے
(Black Friar)
پر ان محترمہ نے ارشد کو خدا حافظ کہا اور بڑے گھر یعنی ہوم آفس
(home office)
پر درج شدہ وقت اور تاریخ پر انہیں ملنے کو کہا اور بھٹی لاء والوں کو بھی اطلاع کرنے کو کہا۔ اس کے بعد وہ گورے کے ساتھ، میرا مطلب ہے، ایشیائی گورے کے ساتھ روانہ ہوگئیں۔ ارشد غلطاں و پنہاں انسانوں کے ہجوم میں گم ہوگیا۔
ژ
ارشد نے سب سے پہلے بھٹی لاء کے دفتر میں قدم رنجہ فرمائے اور تفاصیل جاننے کے بعد بڑے گھر یعنی ہوم آفس
(home office)
کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچنے پر پتا چلا کہ وہ محترمہ، ماہ لقا تو ابھی پہنچی ہی نہیں۔ وہ دوسری منزل پر اپنے کاغذات لیے کھڑا تھا اور ساتھ ساتھ ’’کلنگ می سوفٹلی‘‘
(killing me softly, a song by fugees)
گائے چلا جارہا تھا، لیکن انتہائی دھیمی آواز میں کہ کوئی سن نہ لے۔ ویسے بھی چند شعروں کے علاوہ اسے آج تک سمجھ ہی نہ آئی اور نہ ہی وہ گانے میں ماہر تھا اور آواز بھی کوئی خاص نہ تھی۔ جس محترمہ نے اس کی درخواست کا اندراج کرنا تھا اس کے کانوں میں جب اس گانے کی دھن سنائی دی تو وہ بھی ارشد کے ساتھ گنگنانے لگی۔ اس نے شایدلپسنگ
(lipsing)
سے سمجھ لیا تھا کہ ارشد کیا گارہا تھا۔ وہ محترمہ بھی شاید اس گانے سے لگاؤ رکھتی تھیں۔ ارشد کو بتانے لگیں کہ یہ گانا ساٹھ کی دھائی میں بلکہ ستّر کے اوائل میں روبرتا فلیک
(Roberta Flac)
نے گایا تھا اور اب فیوجیز
(Fugees)
نے اس گانے کودوبارہ گا کر دوبارہ زندہ کردیا ہے۔ لیکن میرا خیال ہے روبرتا فلیک
(Roberta Flac)
نے اس کو زیادہ اچھے انداز میں گایا تھا۔
اس محترمہ نے ارشد کو تیسری منزل پر بھیج دیا۔ جب ارشد وہاں پہنچا تو اسے ایک کمرے میں جانے کو کہا گیا۔ اس نے اپنا نام پتہ لکھوایا اور متعلقہ کاغذات بھی کاؤنٹر پر دکھائے۔ کاؤنٹر
(counter)
پر موجود خاتون نے ارشد کو بیٹھنے کو کہا اور باری آنے پر بلانے کوکہا اورانٹرپریٹر
(interpreter)
کا پوچھنے لگیں، سولیسٹر
(solicitor)
کا بھی پوچھا۔ ارشد کنفیوشن
(confussion)
میں اس کے سوالوں کے جواب دینے لگا۔ پھر آکرکے پلاسٹک کی کرسیوں پر بیٹھ گیا اور اپنی باری اور وکیل، میرا مطلب ہے، وکیلنی کا انتظار کرنے لگا۔ جس ہال میں وہ بیٹھا ہوا تھا اس کاحسبِ عادت معائنہ بھی کرنے لگا۔ ایک تو وہ جگہ تھی جہاں ارشد بیٹھا ہوا تھا اور اس ہال کے ارد گرد چھوٹے چھوٹے کئی کمرے بنائے گئے تھے۔ کمرے اس نوعیت اور ساخت کے تھے کہ صاف دکھائی دیتا تھا کہ کس کمرے میں کیا ہورہا ہے اور کون بیٹھا ہے۔ ارشد کے اس معائنے کا تسلسل اس وقت ٹوٹا جب وہ محترمہ تشریف لائیں، یعنی ماہ لقا، اس کی وکیلنی۔ اور آتے ہی ارشد کو سمجھانے لگیں، اپنے دیر سے آنے کے لیے معذرت کرنے لگیں، ’’سوری
(sorry)
میں ذرا لیٹ
(late)
ہوگئی‘‘۔ پھر ارشد کا نام پکارا گیا اور گوری چٹی محترمہ اسے اپنے ساتھ کمرے میں لی گئیں۔ جس کے سینے پر کسی اسلامی نام کی چھوٹی سی پلیٹ
(name plate)
لگی ہوئی تھی۔ کس ملک کی رہنے والی تھیں پتا نہ چلا۔
اب کمرے میں مترجم، وکیلنی، امیگریشن
(immigration)
آفیسر اور ارشد یہ چار لوگ تھے۔ یعنی تین خواتین اور ایک مرد۔ ان گوری چٹی محترمہ نے ارشد سے سوالات پوچھنے شروع کئے جو کہ تینتیس (۳۳) کے قریب تھے۔ مترجمہ، ان گوری چٹی محترمہ کے انگریزی الفاظ و تراکیب کا اس طرح ترجمہ کرتیں جس طرح کیڈبری
(Cadbury)
کی مشین میں پیسے ڈالیں تو پیسوں کے بدلے چوکلیٹ
(choclate)
نکل آئے۔ اسمترجمہ کے منہ سے اُردو و پنجابی کے الفاظ و جملے اس طرح نکلتے جیسے کوئی پرنٹنگ مشین
(printing machine)
بڑے سلیقے سے چھپائی کررہی ہو۔ ارشد اپنے دماغ کی پٹاری سے سوالات کے جوابات بناتا جاتا اور نکالتا جاتا جو کہ سرا سر تمام کے تمام جھوٹ پر مبنی تھے۔ ان کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔
اپنے علمی و ادبی تجربے کی بنا پر وہ تمام سوالات کے جوابات دیتا جارہا تھا۔ اس کے بعد ان سوالات کے متعلق مزید سوالات کرنے کے بعد ارشد کی خلاصی ہوئی۔ اس کے بعد ارشد کو اس کی وکیلنی نے یعنی جن کا نام ماہ لقا تھا، ساتھ لیااور ایک اور جگہ لے آئیں۔ ارشد چونکہ اس عمارت کی بھول بھلیوں سے نابلد تھا اس لیے وہ نہ جان سکا کہ وہ کن کن راہوں اور بھول بھلیوں سے گزر کر یہاں تک آیا تھا۔ اب یہ دونوں جس جگہ وارد ہوئے تھے اس کمرے میں ایک انگریز اور کوئی دوسری محترمہ بطور مترجمہ موجود تھیں۔ اب کمرے کو بند کردیا گیا۔ ایک مختصر سا انٹرویو ریکورڈ
(interview record)
کیا گیا۔ ارشد کو وہ انٹرویو
(interview)
سنوایا گیا۔ اس کے بعد وہ کیسٹ
(casette)
ٹیپ ریکارڈر
(tape recorder)
سے نکال کر ارشد کے کیس یعنی اس کے کاغذات کے ساتھ نتھی کردی گئی۔ ارشد کے ہاتھ میں ایک خاکی لفافہ تھمادیا گیا۔ جس پر اس کی فوٹو، فنگر پرنٹس
(finger prints)
اور درخواست جمع کروانے کی تفاصیل لکھی ہوئی تھیں۔ وہ کتنے عرصے تک اس ملک میں رہ سکتا ہے یہ کیس کی نوعیت پر منحصر تھا۔ اور ہے لیکن سب سے زیادہ جس بات نے ارشد کو دھچکا دیا وہ یہ کہ اس کاغذ
کے اوپر چند سطور لکھیں تھیں۔ وہ یہ کہ چھ مہینے تک کام کی اجازت نہیں۔ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیلے گئے تھے کہ اسے انشورنس نمبر مل جائے گا اور وہ کوئی اچھا کام ڈھونڈ لے گا یا کم از کم سوشل سیکیورٹی ملے گی۔ وہ بھی وہ کلیم نہیں کرسکتا تھا۔

No comments:

Post a Comment