Monday, June 17, 2013

سوہلواں باب، پس آئینہ ، ناول، سرفراز بیگ،SARFRAZ BAIG









۱۶

ستمبر کی ۲۹ تاریخ تھی۔۔ ۲۰۰۲ میں گرمی نے اپنا پورا زور دکھایا تھااور اس سال سردی بھی ایک دم شروع ہوگئی۔ اریزو کے لوگ بہت نازک اندام ثابت ہوئے ہیں ۔اتوار کی چھٹی تھی لیکن پتا نہیں کہاں سے ٹھنڈی ہوائیںآ رہی تھیں ایسا لگتا تھا اریزو کا درجہ حرارت نقطہءِ انجماد سے نیچے گِر گیا ہے۔ جس گھر میں ہم رہتے تھے میرا مطلب ہے میں اور نیائش یہاں سردیوں کے دن بڑے سخت گزرتے تھے۔ میں سوس جانے سے پہلے یہاں سال رہ کر گیا تھا ۔سردیوں کی آمد ایسی لگتی جیسے کوئی سزا ہو کیونکہ اس گھر میں نمی اتنی زیادہ تھی کہ اگر سارا دن بھی ہیٹر چلاؤ تو گھر گرم نہیں ہوتا ۔ ہم زیادہ تر گرم کپڑے پہن کے بستر میں ہی گھسے رہتے۔آج تو کمال ہوگیا، عام طور پے اکتوبر کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں سردی شروع ہوتی اور نومبر کام مہینہ ٹھیک ہی گزرتا۔ میں نے جرابیں بھی پہن لیں، ایک ہلکا سا سویٹر بھی پہن لیا۔ نیائش میلانوں گیا ہوا تھا اور ثقلین کو شاید شام کو آنا تھا ۔ باہر دھوپ تھی لیکن ٹھنڈی ہوا ایسے محسوس ہورہی تھی جیسے جسم کو چیر کے آگے نکل جائے گی۔ میں نے کھڑکیاں اور دروازے مضبوطی سے بند کردیئے لیکن پھر بھی نہ جانے کہاں سے ٹھنڈی ہوا آرہی تھی۔ پورا گھر برف کی طرح ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ دیواروں کو ہاتھ لگاؤ تو ایسا لگتا جیسے برف کی سل کو ہاتھ لگا دیا ہو۔ اٹلی میں چونکہ گھروں کے فرش ماربل کے ہوتے ہیں اس لیئے جیسی ہی سردی پڑتی ہے یہ ماربل کے فرش برف کے تختے بن جاتے ہیں۔ اٹلی میں فرش پے قالین بچھانے کا رواج نہیں اور ویسے بھی حفظانِ صحت کے اصولوں کے خلاف ہے۔ جس گھر میں ایک دیوار سے دوسری دیوار تک قالین بچھا ہو یعنی وال ٹو وال کارپٹ ہو وہاں طرح طرح کی بیماریاں جنم لیتی ہیں اور خاص کر گرم ملکوں میں قالین سخت نقصان دہ ہوتا لیکن لوگ بنا سوچے سمجھے نہ تو گھر موسم کے مطابق بناتے ہیں نہ ہی گھر کی آرائش اور زیبائش میں اس چیز کا خیال رکھتے ہیں۔
آج اریزو میں سان دوناتو(san donato) ہسپتال کے پاس گراؤنڈ میں کرکٹ میچ بھی تھا ۔ وہاں تین ٹیمیں اکھٹی تھیں۔ ایک ٹیم بنگالیوں کی تھی دو ٹیمیں پاکستانیوں کی تھیں۔ ثقلین نے مجھے بتایا تھا کہ ونہی جائے گا ۔د ل تو میرا بھی چاہ رہا تھا لیکن سردی اتنی تھی کہ باہر نکلنے کی ہمت نہیں تھی۔ میں ناشتہ کرکے فارغ ہوا تو ٹی و ی آن کیا اور کمبل میں گْھس گیا۔ بڑی مشکل سے خودکو کمبل میں محفوظ کیا تھا کہ گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نہ اٹھا لیکن دوبارہ گھنٹی بجی اور کسی کی
آواز بھی آئی، ’’فرشتہ صاحب‘‘۔
اب مجھے اٹھنا پڑا۔ میں نے دروازہ کھولا اور دوبارہ آکے کمبل میں گھس گیا۔میں نے سوچا جو بھی ہوگا وہ اندر آجائے گا۔ دروازے میں
آکے کوئی کھڑا ہوا اور اونچی آواز میں کہا، ’’اسلام وعلیکم فرشتہ صاحب ‘‘۔
میں نے مْڑ کے دیکھا تو ثقلین کھڑا تھا۔ میں نے کہا، ’’کیا مسئلہ ہے۔ آج بہت سردی ہے ۔میں کہیں نہیں جاؤں گا‘‘۔
’’فرشتہ تم بھی عجیب آدمی ہو ،وہ تم کیا کہتے ہو ،مراثی کے ٹو مارکہ سگرٹ کی ڈبی نہیں لیتے کیونکہ اس پے پہاڑ بنا ہوا ہوتا ہے۔ انہیں پہاڑ دیکھ کے ہی سردی لگ جاتی ہے۔ یہ ہوائیں سائیبیریا سے آرہی ہیں ۔ایک دو دن بعد موسم معمول پے آجائے گا۔چلو کپڑے پہنو، آج کرکٹ کا میچ ہے۔ تم کیا حاملہ عورتوں کی طرح کمبل میں گھسے ہوئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ثقلین تم بہت تیز ہوگئے ہو۔ خیر تم بیٹھو، میں ابھی تیار ہوکر آتا ہوں‘‘۔
میں نے جلدی سے کپڑے بدلے اور ثقلین کے ساتھ ہولیا۔ نیچے کسی کی گاڑی کھڑی تھی۔ ثقلین نے میرا تعارف کروایا۔ ’’یہ فرشتہ صاحب ہیں‘‘۔ اس آدمی نے جو ڈرائیونگ سیٹ پے بیٹھا تھا اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور کہا، ’’مجھے تسلیم کہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیوں کہتے ہیں‘‘۔
ثقلین بولا، ’’تسلیم صاحب برا مت مانئے گا فرشتہ صاحب کی عادت ہی کچھ ایسی ہے۔ آپ کو راستے میں بتایا تھا‘‘۔
تسلیم بولا، ’’اوجی کوئی بات نہیں، میں خود بھی بڑا مخولیہ ہوں‘‘۔ تسلیم نے گاڑی سٹارٹ کی اور ہم چند لمحوں میں سان دوناتو(san donato) ہسپتال کے پاس گراؤنڈ میں تھے۔ جس کو ان دنوں کرکٹ گراؤنڈ کا نام دیا گیا تھا۔ یہ کپ ٹینس بال سے کھیلا جارہا تھا اس لیئے کسی قسم کے پیڈز کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم لوگ ایک بڑے سے درخت کے نیچے جاکے بیٹھ گئے۔ وہاں اور بھی لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ پندرہ پندرہ اوورز کے میچ تھے۔ ایک میچ ختم ہوتا تو دوسرا شروع ہوجاتا ۔ ایک بندہ کمنٹری کررہا تھا اور ایک لڑکا امپائرنگ کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ اس کی آواز اتنی اونچی تھی کہ پورے گراؤنڈ میں اسی کی آواز گونج رہی تھی۔ تسلیم کوئی کاروبار کرتا تھا لیکن کیا کاروبار کرتا تھا یہ میں نہیں جانتا تھا۔میچ کے دوران جب وقفہ ہوا تو اس نے چند خاص بندوں کے لیئے دوپہر کے کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا اور خوش قسمتی سے ان چند خاص بندوں میں میں بھی تھا۔ دوپہر کے کھانے کے لیئے تسلیم نے ڈونر کباب کا انتظام کیا ہوا تھا۔ کھانے کے بعد میچ دوبارہ شروع ہوئے۔ شام کو ٹورنامنٹ ختم ہوا ۔ اریزو کی ٹیم نے کپ جیتا ،ایسا لگتا تھا جیسے سارا کچھ پہلے طے کیا گیا تھا۔
گراؤنڈ سے فارغ ہوئے تو تسلیم ہمیں گھر چھوڑنے آیا۔ ثقلین میرے ساتھ ہی آگیا۔ آج ثقلین نے چائے کی فرمائش کی۔ چائے پے کے اس نے اجازت چاہی۔ میں نے اصرار نہیں کیا۔ وہ اگلا باب لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے ایسا لگا جیسے مجھے کوئی جھنجوڑ ررہا ہے ۔میں ہڑبڑا کے اٹھا ۔میرے سامنے رضا کھڑا تھا۔ اس کا مطلب ہے باغ میں لیٹے لیٹے میری آنکھ لگ گئی تھی۔
رضا بولا،’’چلو چلیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کہاں‘‘
کہنے لگا، ’’کچھ کھاتے ہیں بھوک لگ رہی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں تو کھانے پینے کی چیزیں بہت مہنگی ہیں ‘‘۔
وہ بولا ،’’میں کب کہہ رہا ہوں کہ میکڈونلڈ چلتے ہیں۔ میرے ساتھ ازیل ہائم چلو‘‘۔
میں نے کہا، ’’چلو‘‘۔ ہم دونوں سٹڈ ہاوس سترازے پے چلتے چلتے باہن ہوف پلاٹز آگئے۔ یہاں سے جو بس اووربیول جاتی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیئے رکتی تھی وہ اندستری سے ہو کر جاتی تھی بلکہ وہاں اس کا سٹاپ تھا۔ ہم دونوں بس میں سوا رہوئے۔ چند لمحوں میں اندستری سٹاپ آگیا۔ ہم دونوں بس سے اتر کے سڑک کے کنارے چلنے لگے۔ سڑک کے ایک کونے میں ازیل ہائم کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ رضا کی ازیل ہائم ہماری ازیل ہائم سے بالکل مختلف تھی۔ یہ ایک کھلی سی جگہ پے عارضی طور پے بنائی گئی تھی۔ جیسے کسی نے بڑے بڑے کنٹینر کہیں سے لاکر رکھ دیئے ہوں۔ یہ لکڑی کی ایک لمبی سی عمارت بنی ہوئی تھی۔ اس کے دونوں طرف کھلی جگہ تھی۔ مختلف ملکوں کے لوگ باہر دھوپ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک طرف پلاسٹک کی تار لگی ہوئی تھی۔ اس پے رنگ برنگی کپڑے سوکھنے کے لیئے لٹکے ہوئے تھے۔
رضا کہنے لگا، ’’کیا دیکھ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ عمارت دیکھ رہا ہوں۔ ایسا لگتا ہے جیسے لکڑی کے بکسے بنے ہوئے ہیں۔ جب چاہو اٹھا کے دوسری جگہ رکھ دو‘‘۔
رضا بولا، ’’پہلی دفعہ مجھے بھی عجیب لگا تھا ۔لیکن چند دنوں میں اس جگہ کا عاد ی ہوگیا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک کمرے میں کتنے بندے ہوتے ہیں‘‘۔
کہنے لگا،، ’’ایک کمرے چار بندے ہوتے ہیں ۔کمرے کے دونوں اطراف میں اوپر نیچے بستر لگے ہوئے ہیں۔بلکہ تم خود چل کے دیکھ لو‘‘۔
ہم دونوں ازیل ہائم میں داخل ہوئے۔ درمیان میں راہ داری بنی ہوئی تھی ۔ دونوں طرف ہسپتال کی طرح کمرے تھے۔ کمروں کے پچھلی طرف کھڑکیاں تھیں۔ ایک کونے میں مشترکہ کچن بنے ہوئے تھے اور دوسرے کونے میں مشترکہ باتھ بنے ہوئے تھے۔ یہ ازیل ہائم ہماری ازیل ہائم سے کافی بہترتھی۔
میں نے رضا سے پوچھا، ’’تمہیں بھی ۴۵ سوس فرانک ملتے ہیں ہفتے بعد‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں ہمیں تو مہینے بعد چار سو سوس فرانک ملتے ہیں۔ ایک دو لڑکے تو کچھ بچا کے اپنے ملک بھی بھیجتے ہیں‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا ۔اتنی تھوڑی سی رقم سے یہ پیسے بچا بھی لیتے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’تم کمرے میں بیٹھنا پسند کرو گے یا باہر دھوپ میں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر کچھ کھانے کا انتظام کرنا ہے تو کھانا کچن میں ہی تیار کرکے ونہیں کھالیں گے۔ اس کے بعد دھوپ میں بیٹھ جائیں گے‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’بہت اچھا خیال ہے‘‘۔
رضا نے چاول اور گوشت ملا کے کوئی چیز بنائی۔ کھانا بالکل پھیکا تھا لیکن میں بھوک لگی ہوئی تھی اس لیئے میں بڑے شوق سے کھایا۔ کھانے کے بعد اس نے قہوہ پیش کیا۔ قہوہ کے پیالیاں لیے کر ہم باہر چھتریاں سی بنی ہوئی تھیں وہاں آکر بیٹھ گئے۔
میں نے کہا، ’’رضا ، پاکستان اور ایران کی سرحد ملتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے کبھی بھی ایران جانے کا اتفا ق نہیں ہوا‘‘۔
رضا بولا، ’’میں تو پاکستا ن کئی دفعہ گیا ہوں۔ وہاں کوئٹہ میں میرا ایک دوست ہوتا ہے اس کے ہاں جاتا تھا‘‘۔
’’کیسے دن گزر رہے ہیں یہاں ‘‘۔
’’ٹھیک گزر رہے ہیں۔ ایک انٹرویو تو وہاں کرائس لنگن میں ہوا تھا اب دوسرا انٹرویو ہونا ہے۔ اس کے بعد پتا چلے گا کہ کیا ہوگا۔ ابھی تو انتظار کررہا ہوں۔ تم سناؤں تم شب و روز کیسے گزارتے ہو‘‘۔
’’صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے‘‘
’’شاعری شروع کردی ہے‘‘۔
’’کیا کریں وقت ہی نہیں گزرتا۔ اگر یہ کام کی اجازت دے دیتے تو شاید اچھا وقت کٹ جاتا لیکن یہاں تو وقت گزرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ صبح ہوتی تو ناشتے کے بعد ونٹرتھور کا رخ کرتا ہوں۔ لائبریری چلا جاتا ہوں ،لاگر ہاؤس چلا جاتا ہوں، مارکیٹ گازسترازے پے چکر لگاتا رہتا ہوں اور تم‘‘۔
’’میں بھی کچھ ایسی ہی زندگی گزاررہا ہوں۔ زیادہ وقت لائبریری میں گزر جاتا ہے۔ کتابوں میں محو رہتا ہوں۔ یہاں ایک دو ایرانی اور ہیں ان سے ایرانی سیاست پے بات ہوتی ہے۔ کبھی کبھی مسلمانوں کی بدحالی پے بھی بات ہوتی ہے۔ اس وقت تو پوری دنیا مسلمانوں پے تنقید کررہی ہے۔ بالکل ایسے جیسے ہٹلر یہودیوں کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ گیا تھا۔ اس نے پچاس لاکھ سے بھی زیادہ یہودیوں کو مارا ہے‘‘
’’لیکن مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ‘‘۔
’’مسلمانوں کو اتنا بدنام کردیا گیا ہے کہ ان کو مارنے کی ضرورت ہی نہیں‘‘۔
’’اس میں مسلمانوں کی اپنی بھی غلطی ہے‘‘۔
’’اتنی مسلمانوں کی غلطی نہیں جتنی ویڈیو کریسی کی غلطی ہے۔ آج کے دور میں میڈیاء نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ جب چاہیں ،جس وقت چاہیں،جو چاہیں ٹی وی چینل کے ذریعے دکھاسکتے ہیں اور دکھاتے ہیں‘‘۔
’’ رضا آپ بتا رہے تھے کہ آپ مٹیریل انجینیئر ہو۔ آپ توجانتے ہوں گے کہ کوئی عمارت کیسے گر سکتی ہے‘‘۔
’’بالکل جانتا ہوں‘‘۔
’’یہ ٹون ٹاور کیسے گرے ہیں۔آپ کے خیال میں جہازوں کے ٹکرانے سے گرے ہیں‘‘۔
’’جہاں تک میرا علم ہے ۔میں نے جتنا بھی پڑھا ہے۔ میں انجینیئرنگ یونیورسٹی میں پڑھاتا بھی رہا
ہوں۔ اخباروں میں مضامین بھی لکھتا رہا ہوں ۔میرے علم کے مطابق یہ جہازوں کے ٹکرانے سے نہیں گرے‘‘۔
’’تو پھر اصل کہانی کیا ہے‘‘۔
’’اس کے لیئے سب سے پہلے تو ہمیں یہ پتا ہونا چاہیئے کہ کوئی عمارت کیسے تعمیر کی گئی ہے۔ اس میں کیا میٹیریل استعمال کیا گیا۔ کتنی بلندی پے جاکے کسی مٹیریل پے ہوائی دباؤ کا کیا اثر ہوتا ہے۔ اس کا میلٹنگ پوائنٹ کیا ہے، اس کا فریزنگ پوائنٹ کیا ہے۔ کتنے درجہ حرارت پے وہ سکڑتا ہے ،کتنے درجہ حرارت پے وہ پھیلتا ہے‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے یہ تو بہت مشکل کام ہے‘‘۔
’’ہاں ہے تو۔ جوکمپنیاں سکائی سکریپرز بناتی ہیں ۔ وہ ان تمام چیزوں کو ذہن میں رکھ کے عمارت کی بنیاد رکھتی ہیں ۔ جیسے دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں ان کے پاس پیسہ تو ہے لیکن وہ سکائی سکریپرز تعمیر نہیں کرتے کیونکہ ان ملکوں کی جغرافیائی حالت ایسی نہیں ہوتی کہ وہاں اونچی عمارات موسمی آفات کا مقابلہ کرسکے۔ ان میں سے ایک ملک اٹلی بھی ہے۔ وہاں پے زمین کے نیچے بیشمار آتش فشاں چھپے ہوئے ہیں‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے ٹون ٹاورز بنانے سے پہلے اس پے پوری تحقیق کی گئی ہوگی‘‘۔
’’بالکل ۔ٹون ٹاور ز میں جو میٹریل استعمال کیاگیا اس میں ایلمونیم ، سٹیل ،سیمنٹ اور شیشہ شامل ہے‘‘۔
’’اس کا آرکیٹیکٹ کون تھا‘‘۔
’’۱۱۰ منزلہ جڑواں عمارت ایک جاپانی نژاد امریکن آرکیٹیکٹ مینورو یاماساکی (menorama yamasaki)نے ڈیزائن کی۔ اس کے علاوہ ایمری روتھ(Emery roth) نے بھی اس کے
مددگار کی خدمات انجام دیں۔ اس عمارت کو بنانے کے لیئے ٹیوب فریم کا استعمال کیا گیا جو فضلر خان ایک بنگالی نژاد امریکی نے متعارف کروایا تھا‘‘۔
’’تم مٹیریل کے بارے میں بتا رہے تھے‘‘۔
’’میں اسی طرف آرہا ہوں ۔اسی وجہ سے تو میں نے ایران چھوڑا ہے۔ پہلے سٹیل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ سٹیل ایک الوئے ہے۔ الوئے دو زچیزوں سے مل کے بنتا ہے۔ اس میں آئرن اور کاربن پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ میگنیز، کرومیئم، وینیڈیئم اور ٹنگسٹن بھی اس کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یہ ۱۳۷۵ ڈگری سینٹی گریڈ پے میلٹ ہوجاتا ہے(پے پگھل جاتا ہے)۔ یہ عمارتیں بنانے کے لیئے استعمال ہوتا ہے۔
ایلمونیم ،یہ دھات کی وہ قسم ہے جو دنیا میں آٹھ فیصد پائی جاتی ہے ۔اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کو کئی اشکال میں ڈھالا جاسکتا ہے۔ اس سے جہاز بنتے ہیں، عمارتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ا س کا میلٹنگ پوائنٹ ۳۲،۶۶۰ ڈگری سینٹی گریڈ ہے اور اس کا بوئیلنگ پوائنٹ ۲۵۱۹ ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
ان دو چیزوں کا استعمال ورلڈ ٹریڈ سنٹر میں کثرت سے کیا گیا۔ اس کے علاوہ جو تیسری چیز استعمال ہوئی ہے وہ ہے شیشہ۔ سیمنٹ اور ریت تو کسی بھی عمارت کو بنانے کا بنیادی جز ہے‘‘۔
’’ان ساری باتوں باتوں کا نائن الیون سے کیا تعلق ہے‘‘۔
’’میں نے تمہیں بتایا نا کہ میں نے اسی وجہ سے ایران چھوڑا۔ وہاں ایران کی حکومت نے ایک کمیشن بٹھایا تھا کہ ورلڈ ٹریڈسنٹر کے گرنے کی اصل وجہ دریافت کی جائے۔ میں نے اپنی تحقیق شروع کردی۔ میں نے بہت سارے حقائق اکھٹے کیئے۔ سارہ مسودہ تیار کرکے کمیشن کے پاس لے کے گیا۔ اس دن کے بعد میرا جینا حرام ہوگیا۔ مجھے اپنی جان بچانے کے لیئے ایران چھوڑنا پڑا‘‘۔
’’آپ کے مسودے میں ایسا کیا تھا‘‘۔
’’یہی تو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ میں ایک مٹیریل انجینئر ہوں۔ میں نے اس عمارت کے بارے میں پڑھنا شروع کیا۔ کس نے تعمیر کی، کس کو ٹھیکہ ملا۔ا س کی ونچائی کتنی ہے ، اس کی تعمیر کب شروع ہوئی ۔ ان سارے سوالوں کا جواب مجھے گوگل سرچ انجن سے مل گیا۔ میں چونکہ مٹیریل انجینئر ہوں اس لیئے مجھے اس کے بنانے کے بارے میں فوراً سمجھ آگیا‘‘۔
’’آپ کے خیال میں اس بلڈنگ کے گرنے کی اصل وجہ کیا ہے۔ اس میں مسلمان ملوث ہیں۔ ہم لوگ دہشت گرد ہیں‘‘۔
’’فرشتہ تمہارے اندر خامی یہ ہے کہ تم ایک ساتھ کئی سوال کردیتے ہو۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تم اس واقعے سے مذاہب کو نکال دو کیونکہ اس بلڈنگ میں ہر ملک، رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ کام کرتے تھے۔ تم یہ سوچو کو ان کے گرنے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا۔یہ عمارتیں کب گریں‘‘۔
’’گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ منگل کے دن‘‘۔
’’تمہیں وقت یاد ہے‘‘۔
’’مجھے ٹھیک سے یاد نہیں‘‘۔
’’میں بتاتا ہوں۔ نارتھ ٹاور کے ساتھ بقول ایف بی آئی کے پہلا جہاز جو کہ ہم نے دیکھا بھی صبح ۴۵:۸ پے ٹکرایا۔ دوسرا جہاز ۰۳:۹ پے ٹکرایا۔ ایف بی آئی والوں کا کہنا ہے کہ جہازوں کے ٹکرانے سے ان عمارتوں میں آگ لگ گئی اور یہ عمارتیں گر گئیں اور تین ہزار امریکنوں کے جانیں ضائع ہوگئیں۔ نارتھ ٹاور میں جو آگ لگی وہ کم خطرناک تھی بانسبت ساوتھ ٹاور کے۔ ساؤتھ ٹاور کو گرنے میں چھپن منٹ لگے اور یعنی ۱۱۰ منزلہ عمارت کو گرنے میں چھپن منٹ لگے جبکہ نارتھ ٹاور کو گرنے میں ایک گھنٹہ اور چوالیس منٹ لگے۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ یہ دونوں عمارتیں زمین بوس ہوئی ہیں ۔ان کا کوئی بھی حصہ آس پاس نہیں گرا۔ تم نے کئی دفعہ فلموں میں دیکھا ہوگا جب کسی عمارت کو گراکے نئی عمارت بنانی ہو تو اس کے نیچے ایک ایکسپلوسف میٹریل(آتش گیر مادہ) رکھا جاتا کہ وہ عمارت جہاں ہوتی ہے ونہی پے دھڑام سے نیچے آجاتیہے۔ یہ عمارتیں بھی ایسے ہی نیچے آئیں ۔جہازوں کے ٹکرانے سے یا آگ لگنے سے بہت بھی تباہ ہوتیں تو چھ یا سات منزلیں تباہ ہوتیں۔ پوری عمارت نہیں ۔تم اگر ان عمارتوں کے میں جہاز ٹکرانے کی ویڈیو دیکھو تو تمہیں ایسے لگے گا جیسے کوئی چیز ٹکرائی ہے اور اس کے بعد دھواں یہ دھواں پیدا ہوجاتا ہے۔ یہیں پے پتا نہیں چلتا کہ عمارتیں کب دھڑام سے نیچے آئیں‘‘۔
’’تو اس کا مطلب ہے جہازوں کے ٹکرانے سے اس کا میٹریل میلٹ نہیں ہوا‘‘۔
’’تمہیں میں نے پہلے میٹریل کے بارے اسی لیئے بتایا تھا کہ سٹیل اور ایلمونیم کا میلٹنگ پوانٹ کیا ہوتا ہے۔ جہازوں کے ٹکرانے سے اتنا زیادہ درجہ حرارت نہیں پیدا ہوتا یا یوں کہنا چاہیئے کہ جو بھی چیز ٹکرائی ‘‘
’’لیکن تین ہراز بندے مر گئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے‘‘۔
’’اس کی وجہ ان عمارتوں سے گرنے والا شیشہ بھی ہے۔ لیکن جب یہ واقعہ پیش آیا ایک عجیب سی بھگڈر مچ گئی ۔بے شمار لوگ اس ناگہانی آفت کے لیئے تیار نہیں تھے۔ کسی کو سمجھ نہ آئی کہ کیا کرے ۔بے شمار لوگ اس وجہ سے حادثے کا شکار ہوئے‘‘۔
’’اس وقت جارج دبلیو بش کیا کررہا تھا ‘‘۔
’’وہ کسی تقریب میں تھا۔ اسے جب بتایا گیا کہ یہ واقع پیش آیا تو ،وہ اپنے مشیروں سے پوچھنے لگا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے تو انہوں نے کہا کہ یہ الزام الاقاعدہ کے سر منڈھنا ہے۔اس نے ایسا ہی کیا اور مزے کی بات کہ انہوں نے جرم قبول بھی کرلیا‘‘۔
’’تو حادثے میں ہلاک ہونے والوں کا کیسے پتا چلا‘‘۔
’’تمہیں پتا نہیں اس بات کا علم ہے کہ نہیں کہ یورپ میں کام کرنے والے لوگ دو طرح ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ایک اگر کام کے دوران بیمار ہوجائیں تو ان کو ٹیکس آفس جب تک وہ بیمار رہتے ہیں تنخواہ دیتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا ٹیکس کام کے دوران حادثے کے لیئے کٹتا ہے۔ حادثے کی صورت میں یا ہلاک ہونے کی صورت میں ایک معقول رقم اس کے لواحقین کو دیتا۔ اس کے علاوہ یورپ میں جس گھر میں آپ رہتے ہیں یا کام کرتے ہیں۔ اس کی دیکھ بھال کے لیئے لوگ پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹھیکہ دیتے ہیں ۔وہ اس کام کے لیئے کرایہ دار سے یا اگر آپ مالک مکان ہے تو آپ سے بہت تھوڑی سی رقم ہر مہینے لیتے ہیں۔ اس میں عمارت یا گھر کی مینٹینس کے علاوہ وہ اس کی انشورنس بھی کراتے ہیں۔ اگر وہ عمارت گرجائے، اس کا کوئی پائپ ٹوٹ جائے تو انشورنس کمپنی آپ کا نقصان پورا کرتی ہے۔ امریکہ میں تھوڑا مختلف ہے۔ وہاں اگر آپ کام کرتے ہیں تو آپ کو میڈیکل کے لیئے اور بیماری کے لیئے پرائیویٹ طور پے انشورنس کروانی پڑتی ہے۔ انشورنس کمپنی آپ کے میڈیکل کے بل ادا کرتی ہے اگر کام ختم ہوجائے تو آپ کو کچھ رقم ملتی رہتی ہے۔ عمارتوں کے لیئے یورپ کی طرح کا رواج ہے۔ سکائی سکریپرز کی تو تین طرح انشورنس ہوتی ہے۔ اس میں وہ آگ ، زلزلہ ، سیلاب اور دیگر ناگہانی آفات کا شکار ہونے والوں کی مدد کرتے ہیں۔ اگر ٹون ٹاور گرے ہیں تو اس کے انوسٹرز کو کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ انشورنس کمپنی ایک ایک پائی چکائی ہے اور اس سے اس طرح کی عمارتیں دوبارہ کھڑی کی جاسکتی ہیں۔اگر کوئی نقصان ہوا تو وہ جانی ہے۔ اس عمارت میں روز لاکھوں لوگ آتے جاتے تھے۔ جتنے بھی لوگ وہاں کام کرنے جاتے اگر وہ ایک کانٹریکٹ کے تحت کام کرتے تھے تو ان کو اس حادثے میں ہلاک ہونے کے انشورنس کمپنی نے پیسے دیئے ہوں گے‘‘۔
’’میں یہ سوچ رہا ہوں کہ تم نے یہ ساری معلومات کہاں سے حاصل کی ہیں‘‘۔
’’میں نے انجینیئرنگ کی ڈگری ایران سے حاصل کی اس کے بعد میں فرانس پڑھنے گیا تھا۔ وہاں دوسال رہا۔ پڑھائی کے دوران مجھے چار گھنٹے کام کی بھی اجازت تھی۔ وہاں کے رہن سہن کے بارے میں بہت کچھ پتا چلا۔اس کے علاوہ ایک سال میں نے نیویارک میں گزارا‘‘۔
’’تو ساری دنیا مسلمانوں کے خلاف کیوں ہے‘‘۔
’’دنیا مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ جن مسلما ن ملکوں میں تیل نکلتا ہے وہ ان کے لیئے پروگرام بناتی ہے۔ اس دنیا کے نظام کو حکومتوں کے صدور نہیں چلاتے بلکہ ایجیسنیاں چلاتی ہیں، ہر ملک کے اندر مختلف سیاسی لابیز ہوتی ہیں۔ یہ دنیا شطرنج کی بساط کی طرح ہیں۔ پرائم منسٹر، جنرل، بادشاہ،صدر یہ لوگ شطرنج
کے مہرے ہوتے ہیں ۔ا ن کو چلانے والا کوئی اور ہوتا ہے۔ تم امریکہ جاکے کسی سے کہو کہ بش کیسا انسا ن ہے تو تمہیں نوے فیصد لوگ اسے برا کہتے نظر آئیں گے لیکن جب الیکشن ہوتے ہیں وہ شخص جیت جاتا ہے جسے لوگ برا کہتے ہیں‘‘۔
’’ان ٹون ٹاورز کے گرنے سے سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوا‘‘۔
’’سب سے زیادہ فائدہ امریکہ کو ہوا۔ یہاں پے تھوڑی سی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے۔ تمہیں شاید یہ نہیں پتا کہ اسامہ بن لادن پہلے امریکن سی آئی اے کے لیئے کام کرتا تھا۔ اس کو انہوں نے روسیوں کے لیئے تیار کیا تھا۔ وہ سعودی عرب کے پیسے سے اور امریکی اسلحے سے مجاہدین کی مدد کرتا رہا اور مجاہدین روسی فوجیوں کے خلاف لرٹے رہے۔ آخر کار روسی فوجوں کا انخلاء ہوگیا۔ اب وہ مجاہدین یہی سوچ رہے تھے کہ امریکہ یہ بنجر اور ویران ملک انہیں دے کے چلا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ امریکن جہاں بھی اپنا بندا بھیجتے ہیں ہمیشہ اس کو ختم کرنے کے لیئے ایک بندا علیحد ہ سے تیار رکھتے ہیں۔ اسامہ بن لادن کو بھگانے کے لیئے ایک تو انہوں نے میڈیاء کے ذریعے بہت زیادہ پراپوگنڈا کیا اس کے علاوہ انہوں نے حامد کرزائی کو تیار کیاہوا تھا۔ جیسے ہی ٹون ٹاورز گرے۔ اس سے ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی سات اکتوبر کو افغانستان میں امریکی فوجیں داخل ہوگئیں۔ دسمبر میں جرمنی میں حامد کرزائی نے آزاد افغانستان کے صدر کا حلف اٹھایا۔ حامد کرزائی کو سی آئی اے نے سٹینڈ بائی رکھا ہوا تھا۔ یہ ساری کڑیاں ملائی جائیں تو ساری کہانی کھل کے سامنے آجاتی ہے‘‘۔
’’رضا میں آج تک یہی سمجھتا رہا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ انہوں نے معصوم انسانوں کی جان لی ہے۔ لیکن میں ساتھ ساتھ یہ بھی سوچتا تھا فلسطین میں روز کتنے ہی بچے ،بوڑھے، عورتیں ،جوان شہید ہوجاتے ہیں،کشمیر میں کتنے سالوں سے مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے۔ ان کے بارے میں کبھی کسی کو خیال نہیں آیا‘‘۔
’’اگر آج کشمیر میں تیل نکل آئے، ہیروں کی کانیں دریافت ہوجائیں یا وہاں سے یورینیم ،پلوٹونیم نکلنا شروع ہوجائے تو وہاں پے اگلے دن امریکی فوجیں پہنچ جائیں گی‘‘۔
میں نے کہا’’ یہ تو ہے‘‘۔ میں نے موبائیل پے وقت دیکھا تو بہت دیر ہوچلی تھی۔ میں نے رضا سے کہا، ’’اب میں چلتا ہوں۔ ذرا ہاوس ماسٹر کو شکل دکھا دوں۔ ویسے تو وہ اس وقت نہیں ہوگا لیکن کسی نا کسی کی ڈیوٹی ضرور ہوتی ہے‘‘۔
رضابولا، ’’تم روز لائبریری آتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں ،اپنی میل دیکھنے ضرور آتا ہوں۔ اس کے بعد سوچتا ہوں تھوڑی دیر کے لیئے جم جایا کروں گا۔ جرمن زبان سیکھنے کا بھی سوچ رہا ہوں‘‘۔
رضا بولا، ’’جرمن زبان کی کلاسسز تو اگست کے آخر میں شروع ہونگی ۔ آج کل سکول بند ہیں۔ میں بھی زبان سیکھنی شروع کروں گا کیونکہ زبان کے بغیر گزارا نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں جن کنٹونوں میں جرمن بولی جاتی ہے وہاں تو بغیر جرمن کے آپ گونگے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’کل اگر لائبریری آئے تو مجھ سے ضرور ملاقات کرنا۔ اگر کبھی بوریت ہو تو ہماری ہائم میں آجایا کرو۔ راستے میں ہی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’رضا میری ابھی تسلی نہیں ہوئی ۔جس موضوع پے ہم گفتگو کررہے تھے وہ ابھی جاری ہے۔ میں ضرور آیا کروں گا۔ویسے تم میرا موبائیل نمبر لکھ لو‘‘۔ رضا کو میں نے اپنا موبائیل نمبر لکھ کے دیا۔وہ مجھے بس سٹاپ تک چھوڑنے آیا۔
میں جب ازیل ہائم پہنچا تو وہاں گلبدین میرا انتظار رکررہا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے گا، ’’فرشتہ تم نے میرے ساتھ جانا ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’کہاں‘‘؟
کہنے لگا، ’’کرپال سنگھ نے بلایا ہے۔ وہ کہہ رہا تھا فرشتہ صاحب کو ضرور لانا ۔آج میں خاص طور پے ان کے لیئے جلیبیاں بنارہا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’جانا کہاں ہوگا‘‘۔
وہ بولا، ’’پہلے ونٹر تھور تو چلو ۔وہاں سے جو لوکل ٹرین زیورک جاتی ہے وہ ان کی ازیل ہائم پے رکتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن میرے پاس تو ٹکٹ ہی نہیں‘‘۔
وہ بولا، ’’یہی ٹکٹ چل جائے گا۔ اگر ٹکٹ چیکر نے کچھ کہا بھی تو تم یہ ظاہر کرنا کہ تمہیں زبان نہیں آتی اس طرح وہ تمہیں چھوڑ دے گا۔ اگر پھر بھی تنگ کرے تو اسے ہاوس وائس دکھا دینا۔ پھر وہ تم سے کچھ نہیں پوچھے گا‘‘۔
میں دل میں سوچنے لگا، ’’گلبدین جتنا بیوقوف نظر آتا ہے اتنا ہے نہیں۔ میں ابھی ابھی بس پے بیٹھ کے اووربیول آیا تھا اور مجھے ہائم پہنچتے ہی گلبدین ونٹرتھور لے آیا۔ شام کے چھ بجے ہوں گے۔ ہم دونوں ونٹرتھور ریلوے سٹیشن پے زیورک جانے والی ٹرین کا ا نتظار کرنے لگے۔ ایک دو ٹرینیں سٹیشن پے آکے رکیں لیکن گلبدین نے کہا یہ وہاں نہیں رکیں گی۔ اس لیئے ہم ان میں سے کسی ٹرین پے بھی نہ بیٹھے۔ پھر ایک ٹرین آئی تو ہم اس میں سوار ہوگئے ۔یہ ٹرین سارے چھوٹے چھوٹے سٹیشنوں پے رکنے والی ٹرین تھی۔ دوسرا سٹاپ ہمارا تھا۔ ریلوے سٹیشن کا نام میں نہ پڑھ سکا۔ عجیب ویران سا ریلوے سٹیشن تھا۔مجھے تو کوئی چھوٹا سا گاؤں لگتا تھا۔ ہم دونوں ریلوے سٹیشن کے سب وے سے نکل باہر سڑک پے آئے۔ سڑک کے اس پار ایک بوسیدہ سی عمارت نظر آئی۔ اس کے باغ میں بچوں کے جھولے لگے ہوئے تھے۔ کھڑکیوں کے سامنے ،باہر کی طرف تارے لگی ہوئی تھیں اور ان پے کپڑے سوکھنے کے لیئے لٹکائے گئے تھے۔ ایک دو بچے جھولوں پے کھیل رہے تھے۔ مجھے گلبدین کہنے لگا ،’’یہاں شاہ صاحب بھی ہوتے ہیں۔ ایک اور پاکستانی بھی ہوتا ہے جس کو تم نے بینک میں کھری کھری سنائی تھیں۔اس کے علاوہ ان کے کمرے میں ایک بنگالی ہوتا اور کرپال سنگھ ‘‘۔
میں نے کہا، ’’تفصیل کا بہت شکریہ‘‘۔
ہم دونوں ازیل ہائم میں داخل ہوئے۔ یہ جگہ ہماری ازیل ہائم سے بالکل مختلف تھی۔ یہاں داخلی دروازے پے ایک چھوٹا سا کمرہ بنا تھا۔ اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ہماری طرف دیکھا ۔ گلبدین نے اسے چاؤ، چْس کہا اور آگے کو چل دیا۔ چند سیڑھیاں چڑھ کے ہم پہلے فلورپے آگئے۔ راستے میں دیوار کے ساتھ ایک ٹیلی فون لگا ہوا تھا اور اس کا رسیور شا ہ صاحب کے ہاتھ میں تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی شاہ صاحب نے ہاتھ اشارے سے ہمیں اوپر جانے کہا۔ ہم دونوں کوریڈور میں داخل ہوئے۔ اس کوریڈور دونوں اطراف میں کمرے بنے ہوئے تھے۔ مجھے گلبدین نے بتایا کہ نیچے وہ لوگ رہتے ہیں جومیاں بیوی ہیں اور جن کے بچے ہیں اور اوپر وہ لوگ رہتے ہیں جو یہاں اکیلے آئے ہیں۔ ہم کوریڈور کے اختتام پے پہنچے تو وہاں سیڑھیاں تھیں۔ پرانی اور بوسیدہ سیڑھیوں کی لکڑی کی ریلنگ بتا رہی تھی کہ یہ عمارت بہت زیادہ استعمال ہوچکی ہے۔ ہم دونوں دوسری منزل پے پہنچے تو یہاں بھی دونوں اطراف میں کمرے بنے ہوئے تھے۔ تیسرا کمرہ شاہ صاحب کا تھا ،جہاں کرپال سنگھ ،ایک بنگالی اور وہ شخص رہتا تھا جس نے مجھے بینک کے اندر موزیک دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہاں سے تیل نکل آیا ہے۔ ہم دونوں جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئے وہ شخص جس نے مجھ سے کہا تھا تیل نکل آیا ہے اس کو تو زیادہ خوشی نہ ہوئی لیکن بنگالی نے ہمارا بڑے تپاک کے استقبال کیا۔ میں نے سب کو سلام دعا کی۔ میں نے پوچھا، ’’وہ کرپال سنگھ کدھر ہے۔ ہم لوگ جلیبیاں کھانے آئے ہیں‘‘۔
بنگالی بولا، ’’تم لوگ نیچے چلو۔ وہاں کھانا تیار ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’ابھی تو سات بھی نہیں بجے‘‘۔
وہ بولا، ’’پہلے کھانا کھائیں گے۔ سردار جی نے سرسوں کا ساگ بنایا ہے اور ساتھ مکئی کی روٹی بنائی ہے۔ مکھن وغیرہ بھی لگایا ہے۔ اس نے کہا تھا مہمان جیسے ہی آئیں انہیں نیچے لے آنا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو چلیں‘‘۔
ہم لوگ ازیل ہائم کی پچھلی طرف ایک چکر نماں سیڑھیاں تھیں ان کے ذریعے نیچے اتر گئے۔ اس ازیل ہائم کا کچن تہہ خانے میں تھا۔ ہم لوگ جیسے ہی تہہ خانے میں داخل ہوئے ۔ یہاں بے شمار ریفریجریٹر پڑے ہوئے تھے اور درمیان میں تھوڑے تھوڑے وقفے سے بجلی سے چلنے والے چولہے لگے ہوئے تھے ۔ہر چولہے پے پکانے کے لیئے چار چار برنر لگے ہوئے تھے۔ ایک چولہے پے کرپال سنگھ کچھ تیار کررہا تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا، ’’جی آیا نو۔ تم نے بہت اچھا کیا کہ تم آگئے۔ مجھے گلبدین کہہ رہا تھا شاید تم نہ آؤ‘‘۔
میں نے کہا، ’’سردار جی جلیبیاں اگر آپ کوسوئٹزرلینڈ میں ملیں تو اس سے بڑی اور کیا بات ہوگی۔ اس پے مجھے جب پتا چلا کہ آپ نے سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی بنائی تو میری بھوک جاگ گئی‘‘۔
’’چلیں کھانا تیار ہے‘‘۔
کچن کے ایک کونے میں لکڑی کے لمبے لمبے بینچز لگے ہوئے تھے جس طرح کی کرائس لنگن میں تھے اور ان کے درمیان میزیں لگی ہوئی تھیں۔ سرسوں کا ساگ ،اس میں مکھن کا پیڑا، لال مرچوں کے پیلے پیلے بیج بھی اوپر نظر آرہے تھے۔ مکئی کی روٹی پے بھی مکھن لگا ہوا تھا۔ میں نے پہلا نوالا لیا تو بہت زیادہ مرچیں لگیں لیکن سرسوں کا ساگ اتنا مزیدار تھا کہ میں کھاتا چلا گیا۔ مکئی کی روٹی بھی بہت مزیدار تھی۔ کرپال سنگھ بولا، ’’ابھی جلیبیاں بھی بنانی ہیں۔ اس کے لیئے جگہ رکھنا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’سردار جی آپ فکر نہ کریں۔ گلبدین اور اس بنگالی نے کھانے کے دوران کوئی بات نہ کی جبکہ شاہ صاحب جو فون ختم کرکے آچکے تھے اور وہ شخص جس نے مجھے تیل والی بات کی تھی وہ کچھ نا کچھ
کہتے رہے۔
جب کھانا کھاچکے تو اس بنگالی نے ساری برتن سمیٹ دیئے۔ میں نے کرپال سے کہا، ’’سردار جی کھانا بہت مزیدار تھا۔ میں نے اس طرح کا سرسوں کا ساگ اپنی پوری زندگی میں نہیں کھایا‘‘۔
کرپال سنگھ بولا، ’’تمہیں جلیبیاں بھی پسند آئیں گی‘‘۔
مجھے ایک بات کا تجسس تھا کہ یہ کرپال سنگھ جلیبیاں کیسے بنائے گا۔ اس نے سامان تیار کیا ہوا۔ایک کڑاہی نماں چیزمیں تیل گرم تھا۔ ایک بڑی سی دیگچی میں اس نے شیرہ تیار کیا ہوا تھا۔ ایک کونے میں ایک پلاسٹک کی بوتل پڑی ہوئی تھی۔ ایک دیگچی میں کوئی محلول سا پڑا ہوا تھا۔ اس نے وہ محلول اس پلاسٹک کی بوتل میں بھرا جس کے سرے پے ایک نلکی سی لگی ہوئی تھی۔ اس نے گرم تیل میں اس بوتل کو اوپر کرکے دبانا شروع کردیا۔ تیل میں گول گول دائرے بننے لگے۔ جب یہ چھلے سے تھوڑے براؤن ہونے لگتے تو چمٹے سے پکڑ کے ان چھلوں کو اس شیرے میں ڈبو دیتا۔ پھر دو تین دفعہ ان کو اندر باہر کرکے ایک پلیٹ میں ٹشو پیپر رکھا ہوا تھا اس کے اوپر رکھتا گیا۔ وہ بولا، ’’گرم گرم کھاتے جاؤ۔ ٹھنڈی ہوگئیں تو مزہ نہیں آئے گا‘‘۔
میں گرم گرم جلیبی کا ایک چھلا سا اٹھایا۔ چھلا جیسے ہی منہ میں رکھا میرا منہ جل گیا۔ میں نے چھلا واپس رکھدیا لیکن باقی سارے کھاتے رہے ۔وہ شاید گرم گرم جلیبیاں کھانے کے عادی تھے۔ تھوڑے توقف کے بعد میں وہی چھلا اٹھایا اور کھاگیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں پنڈی کے مشہور حلوائی گراٹو کی جلیبیاں سوس میں کھا رہا ہوں۔ میں نے کرپال سے کہا، ’’سردار جی آپ نے گراٹو کی یاد تازہ کردی۔ ہمارے پنڈی میں مری روڈ پے ایک جلیبیوں والا ہے ۔پوری پنڈی میں اس کی جلیبیاں مشہور ہیں ۔ویسے تو جلیبیاں مالٹئی رنگ کی ہوتی ہیں لیکن وہ بنا رنگ کے بناتا ہے۔بالکل ایسی جیسی آپ نے بنائی ہیں‘‘۔
کرپال بولا، ’’تم پنڈی کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں‘‘۔
کرپال بولا، ’’میرا دادا باغ سرداراں پیدا ہوا تھا ۔میں ایک دفعہ پاکستان گیا تھا بیساکھی کا میلہ تھا۔ ہم لوگ حسن ابدال گئے تھے ۔پنچہ صاحب یاترا کرنے تو ہم لوگوں نے چند دن پنڈی بھی قیام کیا تھا۔ میں نے اپنے دادے کا گھر بھی دیکھا جہاں وہ پیدا ہوا تھا۔ اب وہاں کوئی اوررہتا ہے۔ اتنے مکان بن گئے ہیں کہ وہ جگہ پہچانی ہی نہیں جاتی‘‘۔
میں نے کہا، ’’سردار پنڈی شہر کی آبادی بہت بڑھ گئی۔ جب سے اسلام آباد دارالحکومت بنا ہے ۔پنڈی میں پورے پاکستان سے لوگ آکر آباد ہوئے ہیں۔ کیونکہ اسلام آباد میں گھر بہت مہنگے ہیں‘‘۔
کرپال پنڈی کی یادیں بھی تازہ کرتا رہا۔ جلیبیاں بھی بناتا رہا۔ ہمیں نہیں پتا کہ ہم لوگ کتنی جلیبیاں کھا گئے۔ جلیبیاں کھاکے ہم لوگ گپ شپ لگاتے رہے ۔ساڑھے نوبجے گلبدین بولا، ’’اب ہمیں چلنا چاہیئے کیونکہ اب دو ہی ٹرینیں ونٹرتھور جائیں گی۔ اس کے بعد بس بھی پکڑنی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’گلبدین تم نے زندگی میں پہلی دفعہ کوئی اچھی بات کی ہے‘‘۔
ہمیں رکنے کے لیئے کسی نے نہ کہا کیونکہ ازیل ہائم کے قانون بڑے سخت تھے۔ کسی مہمان نے رات رکنا ہو تو ، جس کے ہاں رکنا ہوتا اس کو بتانا پڑتا تھا۔ بہت زیادہ انکوائری ہوتی ۔ہماری ازیل ہائم کا بھی یہی اصول تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ونٹر تھور لائبریری میں اپنی میل دیکھ رہا تھا۔ میں میل دیکھ کے حیران ہوگیا۔ پیٹر کی میل تھی۔ اس میں ا س کا فون نمبر لکھا ہوا تھا اور یہ پیغام تھا کہ وہ میرا نٹر ویو کرنا چاہتا ہے۔میں بڑا حیران ہوا کہ میرے ای میل کا اس نے نہ صرف جواب دیا بلکہ وہ میرا نٹر ویو بھی کرنا چاہتا ہے۔ میرا ایک انٹرویو کرچکا تھا جس میں میرا اور اس نائیجیرین کا انٹرویو ہوا تھا۔ میں نے میل کے جواب میں لکھ دیا جب بھی وہ انٹر ویو کرنا چاہے کرلے کیونکہ ہم لوگ تو فارغ ہی ہوتے ہیں۔ نیچے میں نے اپنا موبائیل نمبر بھی لکھ دیا کیونکہ مجھے یہ یاد ہی نہ رہا کہ میں نے اس کو اپنا فون نمبر دیا تھا کہ نہیں۔ پیٹر کا فون نمبر اس کے کارڈ پے بھی لکھا ہوا تھا ۔ مجھے رضا سے بھی ملنا تھا لیکن وہ آج وہ نہیں آیا تھا۔ میں نے موبائیل کو جیب سے نکال کے کئی دفعہ دیکھا کہ شاید کسی کا فون آیا ہو لیکن میں نے اپنا نمبر کسی کو دیا ہی نہیں تھا تو کوئی فون کیسے کرتا۔
لائبریری سے نکل کے میں لاگر ہاوس چلا گیا۔ وہاں پے جم میں تھوڑا ساوقت گزارا۔ جم سے باہر نکلا تو میرا موبائیل فون بجنے لگا۔ میں بڑا حیران ہوا کہ مجھے کس نے فون کردیا۔ میں نے انگریزی اندازمیں ہیلو کہا۔دوسری طرف سے جواب آیا کہ میں پیٹر بولا رہا ہوں۔ میں نے ابھی تمہاری میل دیکھی ہے۔ کل تم کیا کررہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہم نے کیا کرنا ہوتا ہے، میں فارغ ہوں‘‘۔
اس نے جواب دیا، ’’میں تمہارا اکیلے انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔ تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ‘‘۔
وہ بولا، ’’کل اگر ساڑھے گیارہ بجے تم سٹیشن پے آجاؤ یا کوئی جگہ جو تمہیں پسند ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’سٹڈ کرخے یعنی سٹی چرچ کے پچھلی طرف ایک کیفے ہے وہ مجھے بہت پسند ہے۔ تمہیں پتا ہوگا، کیفے ساتز کا‘‘۔
وہ بولا، ’’تو ٹھیک ہے کل ساڑھے گیارہ بجے وہا ں ملتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
فون بند ہوگیا۔ میں نے فون جیب میں رکھا۔ اور بس سٹاپ پے آگیا کیونکہ مجھے ازیل ہائم جانا تھا۔ میں پیٹر کے بارے میں سوچنے لگا۔ وہ میرا کیا انٹرویو کرے گا۔ کیا سوال کرے گا۔ مجھ سے اسلام کے بارے میں بھی سوال کرے ، ہوسکتا گیارہ ستمبر کے بارے میں بھی پوچھے۔پاکستان کے بارے میں تو کچھ نا کچھ جانتا ہوں لیکن موجودہ سیاست کے بارے میں تو میں کچھ نہیں جانتا۔ پیٹر اگر رضا کا انٹر ویو کرتا تو اسے بہت زیادہ معلومات ملتیں۔بس آئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ بس جب ٹیکنیکم سترازے پے رکی تو وہاں سے رضا بھی بس میں سوار ہوا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی پوچھا، ’’آغائی آج آپ لائبریری میں نہیں نظر آئے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میں آج ڈاکٹر کے پاس گیا تھا۔ میری کمر میں درد تھا۔ انہوں نے ایکسرے کیا ہے۔دیکھو سکیننگ(scanning) میں کیا نظر آتاہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آغائی میرے ساتھ چلو۔ذرا گپ شپ رہے گی‘‘۔
ہمارا بس کا پاس ونٹر تھور اور اس کے آس پاس علاقوں کے لیئے چلتا تھا لیکن ایک خاص زون کے بعد زیادہ پیسے دینے پڑتے تھے۔ بس اندستری بھی رکی لیکن رضا بس سے نہ اترا۔جب میں نے اسے ساتھ چلنے کو کہا تھا تو اس نے جواب نہیں دیا تھا میں سمجھا شاید اتر جائے گا لیکن وہ میرا ساتھ ہی جارہا تھا۔ بس جب اوور بیول رکی تو میں نے رضا سے کہا، ’’آغائی ہمارا سٹاپ آگیا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’یہ کیسا ویرانہ ہے۔ آس پاس تو کچھ بھی نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’آغائی بس سٹاپ کے ساتھ پٹرول پمپ ہے۔اس کے ساتھ چھوٹی سی دوکان ہے۔ ہر طرف شاہراہیں ہیں۔ ہم دونوں سڑک پار کرکے اس طرف جائیں گے‘‘۔
رضا بولا، ’’میرا مطلب ہے آس پاس کوئی عمارت نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’آگے چل کے آپ کو مزید بہتر منظر نظر آئے گا‘‘۔
ہم دونو ں نے سڑک پار کی۔ یہاں سوس میں ایک چیز بہت اچھی تھی کہ آپ نے جیسے ہی سڑک پار کرنے کا ارادہ کیا ہے اور قدم زیبرا کراسنگ پے رکھا تو گاڑیاں دور سے ہی اپنی سپیڈ آہستہ کرلیتی جبکہ اٹلی میں جب آپ زیبرا کراسنگ کے اوپر پیر رکھتے ہیں تو آنے والی گاڑیوں کا یہی دل چاہتا ہے کہ نہ رکیں لیکن وہ کئی دفعہ آپ کے قدموں کے پاس آکے بریک لگاتے ہیں اور گاڑی کے ٹائروں کی چیں کی آواز آتی ہے۔ اٹالین لوگوں کا زیبرا کراسنگ پے گاڑی روکنے کو بالکل دل نہیں چاہتا لیکن وہ گاڑی اس لیئے روکتے ہیں کیونکہ لائسنس چھن جانے کا ڈر ہوتا ہے۔ اگر انہیں یہ ڈر نہ ہو تو وہ لوگوں کو گاڑی کے نیچے کچل کے چلتے بنے۔ ہم دونوں اپنے خیالوں کے مگن ازیل ہائم کی طرف جارہے تھے۔ رضا میرے ساتھ ساتھ تھا وہ آس پاس کے مناظر کو غور غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک طرف ای بی بی کا دفتر تھا ایک طرف مکئی کے کھیت تھے۔ ہم جیسے ہی ازیل ہائم پہنچے تو بہت سارے افریقن لڑکے باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہماری ازیل ہائم میں ہر وقت رونق رہتی تھی۔ میں نے رضا کو اپنے ساتھ اندر جانے کو کہا۔ وہ کہنے لگا، ’’یہ کیسی جگہ ہے ۔ایسا لگتا ہے انسان قبر کے اندر جارہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آغائی کیا کریں ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں‘‘۔
وہ بولا، ’’ہاںیہ تو ہے۔ چلو تین چار مہینے انتظار کرو ۔جب پکی کرائس مل جائے گی تو کام کی بھی اجازت ہوگی۔ جب کام کرنے لگے تو اپنی مرضی کی جگہ پے رہنا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں تو ایک ایک دن سالوں کی طرح لگتا ہے آپ کہتے ہیں کہ تین چار مہینے‘‘۔
میں جیسے ہی اندر داخل ہوا تو سبینا نے مجھے راستے میں روک لیا۔کہنے گی، ’’تمہارا پارسل آیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے کس نے پارسل بھیج دیا‘‘۔
کہنے لگی، ’’کرائس لنگن سے آیا ہے‘‘۔
اس نے میری ہاتھ میں خاکی رنگ کا پھولا ہوا لفافہ تھمادیا۔
رضا بولا، ’’بڑی حیرت ہے کرائس لنگن سے پارسل آیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے بھی حیرت ہے ‘‘۔
پھر ایک دم مجھے خیال آیا کہ مجھے کیتھرین ملی تھی ۔ہوسکتا ہے اس نے کوئی چیز بھیجی ہو۔میں نے پارسل کھولا تو بڑا حیران ہوا۔ اس میں میرا پرانا موبائیل فون تھا جو میں باہن ہوف سترازے پے واقع انٹر نیٹ کیفے پے چھوڑ آیا تھا۔ میں اس سوس آدمی کی ایمانداری پے بڑا حیران ہوا۔ پھر میں نے رضا کو ساری کہانی شروع سے آخر تک سنائی کہ کس طرح میں انٹر نیٹ کیفے پے اپنا موبائیل چھوڑ کے ازیل ہائم ڈھونڈھنے نکلا تھا۔ اس سے میں نے کہا تھا میں موبائیل بعد میں لے جاؤں گا۔ پھر کئی دن گرز گئے ۔میں کرائس لنگن سے ونٹرتھور اور پھر اووربیول آگیا۔ مجھے یہ موبائیل وہا ں چھوڑے سترہ دن ہوچلے تھے۔ پھر مجھے کرائس لنگن والی نرس ملی میں نے اس سے دو دن پہلے ونٹرتھور بازار میں ملا تھا اور اس سے کہا تھا کہ اس طرح میں اپنا موبائیل بھول آیا تھا۔ میں حیران اس لیئے ہوں کیونکہ اس آدمی نے میرا موبائیل پاس رکھا ہوا تھا اور اس نے کیتھرین کو دے دیا اور اس نے مجھے پارسل بھی کردیا۔ اب میرے پاس دو موبائیل فون تھے۔
رضا بولا، ’’یہ تو پرانا ماڈل ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس میں میری پرانی سم ہے۔اس میں ضروری فون نمبر ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’موبائیل کو چھوڑو ، یہ بتاؤ کہ کھانے میں کیاہے‘‘۔
میں نے کہا،’’آغائی ہم کھانا میں مرچیں استعما ل کرتیں ہیں آپ مرچوں والا کھانا کھا لیں گے‘‘۔
وہ بولا ،’’کوئی مسئلہ نہیں ۔میں انڈین اور پاکستانی کھانا بڑے شوق سے کھاتا ہوں‘‘۔
میں نے فرج کھول کے دیکھا ۔فرج میں سالن بھی پڑا ہوا تھا اور روٹیاں بھی پڑی ہوئی تھیں۔ میں دونوں چیزوں کو گرم کیا۔ ساتھ پیپسی کی بڑی بوتل رکھی، دہی بھی رکھا۔ منرل واٹر کی بوتل بھی رکھی۔ رضا کھانے کے دوران بولا، ’’تمہیں سوس آئے ہوئے تھوڑے دن ہوئے ہیں لیکن تم نے یہاں اچھی سلام دعا پیدا کرلی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’رضا میں پاکستان میں ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ میرا کام ہی باتیں کرنا تھا۔ لوگوں کو پاکستان کے تاریخ بتاتا تھا، بدھ ازم کے بارے میں بتاتا تھا۔ ہندوؤازم کے بارے میں بتاتا تھا۔میں نئے لوگوں سے گھلنے ملنے میں بالکل بھی دیر نہیں لگاتا۔ ا ب کل میرا انٹرویو ہے۔ ونٹرتھور سے ایک اخبار نکلتا ہے ڈیر لانڈبوتے ۔جس میں میرا پہلے بھی انٹرویو چھپا تھا۔ وہی صحافی میرا دوبارہ انٹرویو کرنا چاہتا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’وہ کوئی بھی سوال کر ے تو سوچ سمجھ کے جواب دینا۔ اگر گیارہ ستمبر کے بارے میں سوال کرے
تو کوئی جواب نہ دینا نہ ہی یہ بتانا کہ میں نے تمہیں کچھ بتایا ہے۔ یہ یورپیئن صحافی بندے کے منہ میں اپنی مرضی کی بات ڈالنے کے ماہر ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’آغائی آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اپنی معلومات کے لیئے آپ سے اس موضوع پے گفتگو کرتا ہوں۔ مجھے بھی پتا ہے کہ ایک سیاسی پناہ گزین کے بات اگر سچ بھی ہوتو اس پے کوئی یقین نہیں کرے گا‘‘۔
میں نے کہا آغائی باہر چل کے گپ شپ لگاتے ہیں۔ اگر آپ کا قہوہ پینے کا موڈ ہو تو میں قہوہ بنا کے لاتا ہوںیا چائے چلے گی‘‘۔
رضا بولا، ’’میں تو چائے پیؤں گا لیکن میٹھا کم ہونا چاہیئے‘‘‘۔
میں نے جلدی سے چائے بنائی اور ہم دونوں چائے کے کپ لے کے باہر آگئے۔ ازیل ہائم کے پچھلی طرف دھوپ نہیں آتی تھی۔ یہاں پے اتنا سبزہ تھا کہ اتنی گرمی میں بھی جب ہلکی سی ہوا چلتی جو جسم میں ٹھٹھری محسوس ہوتی۔ میں نے کہا، ’’آغائی اس دن بات ادھوری
رہ گئی تھی۔ ہم لوگ گیارہ ستمبر کے بارے میں بات کررہے تھے‘‘۔
رضا بولا، ’’یہاں کوئی کیمرہ تو نہیں لگا ہوا یا کسی قسم کا مائیک ۔ایک بات کا دھیان کیا کرو جب اس طرح کے موضوع پے بات کیا کرو تو بہت احتیاط کیا کروکیونکہ ان دنوں اس موضوع پے بات کرنا بہت خطرناک ہے۔ خاص کر جب بندے نے سیاسی پناہ کی درخواست دی ہو اور ہاں ازیل ہائم کے عملے سے اس موضوع پے کبھی بات نہ کرنا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اتنی عقل تو مجھ میں ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’تم نے کبھی ٹیمپلر نا ئٹس(templar knights کے بارے میں سنا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں‘‘۔
وہ پھر بولا، ’’سوانورولا (savonarola)کے بارے میں‘‘۔
میرا جواب نہیں میں تھا لیکن میں نے پوچھا، ’’ٹیمپلر نائٹس(templar knights) اور سوانارولا (savonarola)کا نائن الیون اور دہشت گردی سے کیا تعلق ہے‘‘۔
وہ بولا،’’تعلق ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیسے‘‘۔
وہ بولا، ’’میں نے ٹون ٹاور کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ سوچی سمجھی سکیم کے تحت گرائے گئے تھے ۔ اس بات کو وجہ بناتے ہوئے افغانستان میں امریکی فوجیں داخل کی گئی تھیں۔ ایک ایسے ملک میں امریکی فوجوں کا بھیجنا جہاں پے جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ وہاں کئی سال تک فصلیں نہیں اگیں گی یا شاید کبھی بھی نہ اگیں۔وہاں پے فوجیں بھیجنے کا مقصد اور ساراڈرامہ رچانے کا مقصد کیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن آغائی آپ نے یہ نہیں بتایا کہ سوانا رولا اور ٹیمپلر نائٹس اس سارے قصے سے کیا تعلق ہے۔ امریکی فوجیں تو طالبان کا قلقمہ کرنے آئی تھیں‘‘۔
ابھی وہ مزید کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ رضا کا موبائیل فون بجنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment