Sunday, June 16, 2013

لال کرتی، سائیں انٹرنیٹ، ناول، سرفراز بیگ، LAL KURTI







لال کرتی
آدم کو کسی نے کندھا ہلا کر جگایا۔ وہ سمجھا باجوہ کام کے لیئے اٹھارہا ہے۔ لیکن اس کا خیال غلط نکلا،کیونکہ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ اس کے سامنے درمیانی عمر کی ایک عورت کھڑی تھی۔ آدم کی آنکھ کھلتے ہی پوچھنے لگی، ’’جی کس سے ملنا ہے ‘‘۔ آدم کو لگا، جیسے وہ کسی غلط گھر کے باہر بیٹھا ہے۔متجسس ہوکر پوچھنے لگا، ’’جی خاقان خان صاحب کا گھر یہی ہے‘‘۔ وہ محترمہ سمجھیں شاید کسی کام کے سلسلے میں آیا ہے۔کہنے
لگیں، ’’جی یہی ہے۔لیکن خاقان صاحب تو شام کو آئیں گے‘‘۔ آدم سے رہا نہ گیا ،کہنے لگا، ’’جی میں ان کا بیٹا ہوں۔آدم خان چغتائی۔انگلینڈ سے آیا ہوں‘‘۔ محترمہ تھوڑی سی کھسیانی ہوگئیں اور بولیں، ’’معاف کرنا بیٹا، میں نے پہچانا نہیں‘‘۔ آدم صورت حال سمجھ گیا۔یہ اس کے باپ کی نئی بیوی ہے۔ آدم کو اس کے منہ سے بیٹا لفظ بڑا عجیب سالگا۔آدم سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔پھر پوچھا، ’’میرے چھوٹے بہن بھائی نظر نہیں آرہے‘‘۔محترمہ نے تالا کھولا اور آدم کا بازو پکڑ کر کہنے لگیں، ’’اندر آؤ سب بتاتی ہوں‘‘۔ آدم نے سوٹ کیس گھسیٹا اور گھر کے اندر داخل ہوا۔ آدم پانچ سال بعد اس گھر میں داخل ہورہا تھا۔ دیواروں سے پلستر اکھڑا ہوا،پردوں کی بری حالت، سامان ٹوٹاپھوٹا۔ گھر کی حالت سے وحشت ٹپک رہی تھی۔ آدم کی آنکھوں سے آنسو تو نہ جاری ہوئے لیکن دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔اس کی
چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ کچھ گڑ بڑ ہے۔آدم نے پھر پوچھا، ’’میرے چھوٹے بہن بھائی کدھر ہیں‘‘؟ آدم کوایسا لگا،جیسے وہ محترمہ کچھ چھپا رہی ہیں۔خیر انھوں نے بتانا شروع کیا، ’’تمھارے جانے کے بعد دونوں بہن بھائی کھوئے کھوئے رہتے۔عمر میں بھی چھوٹے تھے۔ جب میں آئی تو ان کی بھرپور دیکھ بھال کرتی تھی۔لیکن میں ٹھہری سوتیلی ماں۔ مجھے اپنا دشمن تصور کرتے تھے۔ ابلق خان چغتائی ، تمھارے چھوٹے بھائی نے ہیروئن پینی شروع کردی اور نفیسہ خانم تمھاری چھوٹی بہن جو بمشکل پندرہ سال کی ہے ۔ گھر سے بھاگ گئی اور اپنی پسند کی شادی کرلی ہے۔ ابلق اب بھی گھر کے پاس جو میدان ہے ۔وہاں کسی کونے میں ہیروئن پی رہا ہوگا‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’اور نفیسہ کہاں رہتی ہے‘‘۔ آدم کی سوتیلی ماں بولی، ’’وہ اپنے خاوند کے ساتھ سرونٹ کواٹر میں رہتی ہے۔ اس کا خاوند کچہری میں لوگوں کی درخواستیں لکھتا ہے۔دونوں کی اچھی گزربسر ہوجاتی ہے۔ ہم لوگ بھی کبھی کبھی مدد کردیتے ہیں‘‘۔آدم نے کہا، ’’آپ نے ابلق کو کبھی روکا نہیں۔ خاقان صاحب نے بھی کبھی منع نہیں کیا‘‘۔ وہ محترمہ کہنے لگیں، ’’بیٹا ان کو اپنے چکروں سے فرصت ملتے تو تب نا۔ نئی نئی عورتوں کے چکر میں رہتے ہیں۔ انھیں بچوں کی کیا پرواہ ہے‘‘۔ آدم نے طنز بھرے لہجے میں کہا، ’’اور آپ ان کی نئی نویلی دلہن ۔آپ نہیں منع کرتیں‘‘۔ تو وہ کہنے لگیں، ’’میری کہاں سنتے ہیں۔پہلے پہل میں منع کیا کرتی تھی۔لیکن اب آہستہ آہستہ میں نے بھی ہتھیار پھینک دیئے ‘‘۔ آدم نے گھر پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’میں آپ کو ہر ماہ ڈرافٹ بھیجتا رہا ہوں۔گھر کی کیا حالت بنا رکھی ہے‘‘۔ محترمہ کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا جواب دیں، بولیں،’’سارے پیسے تمھارے ابا بینک سے نکلوا کے ہفتے کے اندر ہی اڑادیتے ہیں۔انھیں تو پتا بھی نہیں کہ تم واپس آگئے ہو‘‘۔آدم نے مزید سوال کرنا مناسب نہ سمجھا۔ وہ صرف اتنا کہہ کر باہر چلا گیا، ’’میں ذرا ابلق کو دیکھ آؤں‘‘۔
آدم کو بالکل ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کا دل پھٹ جائے گا۔ وہ بنا کچھ کھائے پیئے باہر آگیا اور ابلق خان کو ڈھونڈنے لگا۔ وہ پان سگرٹ کا کھوکھا(چھوٹی سی دوکان عام طور اس کی چھت پکی نہیں ہوتی)جو کبھی پانچ سال پہلے چھوٹا سا ہوا کرتا تھا۔ اب مکمل طور پے کریانہ سٹور بن چکا تھا۔ آدم نے دوکاندار سے ابلق کا پوچھا تو کہنے لگا، ’’وہ کونے میں دیکھ رہے ہو۔وہی ہوگا‘‘۔آدم بھاگتا ہوا اس کے پاس پہنچا۔ ابلق کی حالت دیکھ کر اسے غصہ نہ آیا بلکہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہونے لگے۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔ ۔آدم نے اٹھا کر گلے لگا لیا۔ اور کہنے لگا، ’’میرے بچے کیا حالت بنا لی ہے اپنی، چل گھر چل‘‘۔ ابلق پہچانتے ہوئے بولا، ’’بھائی جان آپ ! ۔۔۔۔آپ کب آئے‘‘۔آدم نے کہا، ’’بیٹا ابھی آیا ہوں‘‘۔ابلق نے کہا، ’’بھائی جان بڑی دیر کردی، نفیسہ کی کوئی غلطی نہیں۔وہ سوتیلی ماں ہے نا وہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔۔۔اس پے بڑا ظلم کرتی تھی۔ زبردستی اْس کی شادی اپنے بھائی سے کرنا چاہتی تھی۔ وہ بھاگ کر نہیں گئی ۔ اس نے نکاح کیا ہے ۔مجھے مارتی ہے تو میں باہر بھاگ آتا ہوں۔ یہ دوائی ہے نا، اس کو پینے کے بعد سب بھول جاتا ہوں۔ بھائی جان آپ کے پاس تھوڑے سے پیسے ہوں گے۔ مندری خان نے بڑی مہنگی کردی ہے‘‘۔ آدم نے کہا،’’گھر چلو میرے بچے، تمھیں سب کچھ ملے گا‘‘۔ ابلق رونے لگا، اور روتے روتے بولا، ’’نہیں بھائی جان ، میں گھر نہیں جاؤں گا۔ ماں مجھے مارے گی۔ اس کے مہمان ملنے آتے ہیں تو مجھے مار کر بھگا دیتی ہے‘‘۔ آدم نے تسلی دیتے ہوئے کہا، ’’ڈرو نہیں،میں آگیا ہوں۔اب تمھیں کوئی کچھ نہیں کہے گا‘‘۔ ابلق نے کہا، ’’سچ بھائی جان‘‘۔آدم نے یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’ہاں ہاں، یقین کرو۔ بس تم اچھے بچے بن جاؤ‘‘۔ ابلق نے جسم کو سکیڑتے ہوئے کہا، ’’بھائی جان بڑی طلب ہورہی ہے۔میرے جسم میں سوئیاں چبھ رہی ہیں۔ تھوڑی سی لے دیں‘‘۔ آدم، ابلق کو بہلا پھسلا کر گھر لے آیا۔اس کی سوتیلی ماں آدم کے تیور دیکھ کر بھانپ گئی، کہ ابلق نے سب بتادیا ہے۔ پہلے سے محتاط ہوکر بولی، ’’بیٹا اس کی کسی بات پے یقین نہ کرنا۔ یہ نشے میں کچھ بھی بک دیتاہے۔ جب اس کا نشہ ٹوٹا ہے تو کسی کا لحاظ نہیں کرتا۔ میرے سارے زیورات بیچ آیا ہے‘‘۔آدم نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا، ’’اس گھر میں کوئی کھانے کا انتظام بھی ہوتا ہے یا ریستوران سے لانا پڑے گا‘‘۔ سوتیلی ماں کہنے لگی، ’’بیٹا گھر میں پکانے کو کچھ نہیں۔ تمھارے ابا خرچہ ہی نہیں دیتے‘‘۔ آدم اس بات کو تو بھول ہی گیا کہ وہ ڈیپورٹ ہوکر آیا ہے۔ وہ ان حالات کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ وہ سر جھکائے سوچ رہا تھا کہ دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ آدم کے والد صاحب تھے۔ خاقان خان چغتائی۔ اندر آتے ہی آدم سے ملے اور کہنے لگے، ’’میرے لیئے ٹائیاں لائے ہو، کتنی قمیصیں لائے ہو۔سوٹ بھی لائے ہو‘‘۔ آدم نے سوٹ کیس کھول کر ان کے سامنے الٹ دیا۔ آدم کے میلے کپڑے، شیونگ کٹ اور بیس پچیس کتابیں۔ اس کے ابا کہنے لگے، ’’یہ کیا ہے۔شاپنگ نہیں کی۔چلو یہاں سے خرید لیں گے۔ اسلام آباد میں آجکل C AND A ,NEXT ,MARKS AND SPENCER (سی ایند اے، نیکسٹ، ماکس اینڈ سپینسر) سب بڑے بڑے ڈیزائینر کے سٹور کھل گئے ہیں۔ سب میرے جاننے والے ہیں۔ وہاں سے خرید لیں گے۔ وہاں کریڈٹ کارڈ بھی چلتا ہے‘‘۔آدم کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ اس نے جَھلا کر کہا، ’’اور رات کو کھائیں گے کیا‘‘۔ خاقان صاحب نے آدم کی بات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کہا، ’’میں تو کھا آیا ہوں۔ آج دفتر میں میٹنگ تھی‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’اور گھر میں آپ کی بیوی اور بیٹا، ان کے بارے میں کیا خیال ہے‘‘۔ خاقان صاحب نے بڑی متانت سے جواب دیا، ’’صبح بیس روپے دے کر گیا تھا۔ کچھ پکالیتے۔ اب میں کمائی کروں یا گھر کا خیال رکھوں‘‘۔ آدم نے مزید بحث کرنا فضول سمجھا اور ابلق کو ساتھ لے کر کریانہ سٹور سے ضرورت کی اشیاء لینے چلا گیا۔دوکاندار کو پاؤنڈ دکھائے اور بتایا کہ کل تبدیل کروا کے اس کا تمام حساب بیباک کردے گا۔ گھر آکراس نے آٹا گوندھا، اس کے بعد سالن پکایا۔ آخر میں روٹی پکانے لگا تو اس کی سوتیلی ماں آگئی، ’’پتر میں پکاتی ہوں‘‘۔ آدم نے طنز بھرے لہجے میں جواب دیا، ’’نہیں نہیں۔۔۔،آپ کھانا کھانے میں ہمارا ساتھ دیجئے گا۔ اور آپ یہ مجھے پتر وغیرہ نہ کہا کریں۔آدم کہہ لیا کریں۔آپ میرے والد صاحب کی بیوی ضرور ہوسکتی ہیں لیکن میرے ماں نہیں‘‘۔ آدم کو ایسا لگا جیسے وہ اب پردیس میں آگیا ہے۔حالانکہ یہ وہی جگہ اور ملک تھا جسے وہ پانچ سال پہلے چھوڑ کر گیا تھا۔ اس کے باپ نے اس سے بالکل نہ پوچھا۔ کہاں سے آرہے ہو؟کیسے ہو؟ یورپ کے کاغذات بنا لیئے کہ نہیں؟کن حالات میں زندگی گزاری؟ انھیں تو اپنی ٹائیوں اور سوٹوں کی فکر تھی۔رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد آدم نے ابلق کو ساتھ لیا اور نفیسہ کے گھر چلا گیا۔ ان کے گھر کے پاس ایک سکول تھا۔ اس کی پچھلی طرف چھوٹے چھوٹے کچے گھر بنے ہوئے تھے۔ وہاں رہتی تھی۔ آدم نے ٹوٹے پھوٹے گھر کو دیکھا۔ آدم نے ٹاٹ ہٹا کر دروازے پے دستک دی۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھلا اور ٹاٹ کو ہٹاتے ہوئے ایک نوجوان باہر آیا۔آدم نے سر سے پاؤں تک لڑکے کا جائزہ لیا۔ بیس یا بائیس سال کا نوجوان تھا۔ گورا چٹا، چہرے پر گھنی داڑھی اور داڑھی کے بال چہرے پر اس طرح پھیلے ہوئے تھے کہ آنکھوں کے قریب تک آئے ہوئے تھے۔ قد درمیانہ تھا۔ شکل و صورت سے مری یا کشمیر کے کسی گاؤں کا لگتا تھا۔ باہر آتے ہی کہنے لگا، ’’جی کس سے ملنا ہے‘‘۔ آدم مسکرادیا، کیونکہ اس کا بہنوئی اس سے مخاطب تھا۔ اس نے دوبارہ تھوڑے تیور بگاڑ کر کہا، ’’کس سے ملنا ہے‘‘۔ آدم نے جواب دیا، ’’جی آپ ہی سے ملنا ہے‘‘۔ اس نے تنک کر جواب دیا، ’’لیکن میں گھر پے کام نہیں کرتا۔آپ صبح کچہری آجائیئے گا‘‘۔ آدم نے اپنا تعارف کروایا، ’’جی میں نفیسہ کا بھائی، آدم خان چغتائی ہوں اور آج ہی لندن سے آیا ہوں۔کیا میں اپنی بہن سے مل سکتا ہوں‘‘۔ ابلق شرم کے مارے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ اِس پر اْس شخص کی نظر نہ پڑی تھی ورنہ اتنی مشکل نہ پیش آتی۔اس شخص کو تمام سوالوں کے جواب مل گئے اور بڑے تپاک سے خیرمقدم کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’آپ باہر کیوں کھڑے ہیں بھائی جان۔۔۔۔اندر آئیں نا‘‘۔۔۔۔۔نفیسہ کو آواز دیتے ہوئے، ’’نفیسہ دیکھو تو تمھارے بھائی جان آئے ہیں۔ جن کا تم اکثر ذکر کیا کرتی ہو‘‘۔
اسی اثناء آدم اور ابلق ٹاٹ کا پردہ اٹھا کر اندر داخل ہوئے۔لال اینٹوں کا ٹوٹا پھوٹا فرش، ایک کونے میں پانی رکھنے کا ٹین کا ڈرم تھا۔ اس کے نیچے میلے برتن رکھے تھے۔ جن پر مکھیاں بھن بھنا رہی تھیں۔ نفیسہ جلدی جلدی دوپٹہ سنبھالتی دروازے تلک آئی اور آتے ہی آدم سے لپٹ گئی اور لپٹتے ہی بولی، ’’بھائی جان مجھے معاف کردیں۔میں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ جس سے آپ کی، ماں باپ کی اور ہمارے خاندان کی بدنامی ہو۔ عباسی صاحب بہت اچھے آدمی ہیں۔ میرا بڑا خیال رکھتے ہیں۔ آپ نے بھی تو ہم سے ناطہ توڑ لیا تھا۔ ابلق کو دیکھئے،بے چارہ نشہ کرتا ہے‘‘۔نفیسہ کی روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ آدم نے کہا، ’’میری بچی چپ کر‘‘۔ وہ دوپٹے سے آنسو پونچتے ہوئے کہنے لگی، ’’میں کھانا بناتی ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’نہیں،۔۔۔۔۔۔ہم کھانا کھا کر آئے ہیں‘‘۔ تو نفیسہ کہنے لگی ،’’تو پھر چائے بناتی ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کوئی تردد نہیں کرنا۔میرے ساتھ تم اور عباسی صاحب گھر چلو۔وہاں چل کر خوب باتیں کریں گے اور چائے بھی پیئیں گے اور جب تک میں پاکستان ہوں۔آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی رہیں گے‘‘۔ عباسی اور نفیسہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے لگے۔ آدم نے دونوں کے چہروں کا جائزہ لیا۔ ان کے چہرے پڑھتے ہوئے کہنے لگا، ’’آپ لوگ بالکل فکر مت کریں۔ آپ نے کوئی جرم نہیں کیا۔ نکاح کیا ہے۔ اسلام میں زبردستی نکاح یا شادی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور تم دونوں نے یہ نکاح اپنی خوشی سے کیا ہے۔ کسی بھی شادی میں سب سے اہم بات ہوتی ہے، لڑکالڑکی خوش رہیں‘‘۔
یہ چاروں لوگ رات کو جب گھر پہنچے تو آدم کے والد اور اس کی سوتیلی ماں دونوں ہکا بکا رہ گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن ناشتہ کرنے کے بعد آدم اپنے چھوٹے بھائی ابلق خان کو لے کر مختلف منی چینجرز کے پاس گیا۔ اسے کسی نے بتایا کہ مال پلازہ میں بہت سے منی چینجرز منتقل ہوگئے ہیں۔ وہاں پاؤنڈ کی اچھی قیمت مل جائے گی۔ آدم پیسے تبدیل کرواکے کشمیر روڈ پے چلتا چلتابینک روڈ پے آگیا۔ وہی دوکانیں، وہی سڑکیں، وہی بجلی کے کھمبے۔جابجا کچرا بکھرا ہوا تھا۔ بالکل اس طرح جس طرح ویسٹ اینڈ اور شتلے (پیرس میں ایک مصروف جگہ) کے علاقے میں ویک اینڈ کے دنوں میں سڑکوں پے جابجا بیئر کے کین، ٹن اور بوتلیں بکھری پڑی ہوتی ہیں۔بالکل غدر مچا ہوتا ہے۔
آدم کا اس شہر میں کوئی دوست نہ تھا۔ ابلق کے ساتھ اس کی زیادہ ہم آہنگی نہ تھی۔ وہ دونوں پیدل چلتے چلتے انوار کیفے پے آگئے۔ جہاں کبھی ایک کمرہ نماں چھوٹا سا ریستوران ہوا کرتا تھا۔ جہاں آدم اور داؤد پہلی دفعہ ملے تھے۔جہاں اس نے پہلی دفعہ گھریلوں حالات سے گھبرا کر ملک سے باہر جانے کا سوچا تھا۔ اب یہ کمرہ نماں چھوٹا سا ریستوران بہت بڑے ریستوران میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ابلق اور آدم ،دونوں نے انوار کیفے سے چائے پی اور گھر کی راہ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوپہر کے کھانے کے بعد آدم نے ابلق سے کہا، ’’ہم دونوں لال کرتی جائیں گے۔ وہاں میرا بہت اچھا دوست رہتا ہے‘‘۔ ابلق کہنے لگا، ’’ٹھیک ہے بھائی جان‘‘۔
نفیسہ خانم کے آنے سے گھر میں رونق ہوگئی تھی۔ آدم کی سوتیلی ماں بجھ سی گئی تھی۔ کیونکہ اس کی تمام ترکیبیں ناکام ہوگئی تھیں۔ اور مہمانوں کا سلسلہ بھی بند ہوگیا تھا۔ آدم کے والد کا رویہ وہی تھا۔ بس انھیں وقت پے روٹی ،کپڑے تیار، جوتے پالش چاہیئے ہوتیتھے۔ ان کے د ل میں کبھی خیال نہ آیا کہ نفیسہ ان کی سگی اولاد ہے۔ ان کا بیٹا ڈیپورٹ ہو کر آیا ہے۔ اس کے ارادے کیا ہیں؟اس کی شادی کردوں۔بس ٹائی ، قمیص اور سوٹ کی بات کرتے۔ آدم ان پانچ سالوں میں رنگ رنگ کے لوگوں سے مل چکا تھا۔اب اسے یہ چیزیں عجیب نہیں لگتی تھیں۔
دونوں بھائی صاف ستھرے کپڑے پہن کر لال کرتی روانہ ہوئے۔ ٹیکسی میں ابلق کو آدم سمجھاتا رہا ، کیا کرنا ہے،کس طرح تمھارا مستقبل بہتر ہوسکتا ہے۔ باتوں باتوں میں دونوں کو پتا ہی نہ چلا کہ لال کرتی آگیا ہے۔ آدم اس سے پہلے داؤد کے گھر کبھی نہیں آیا تھا۔ اس کے ذہن میں یہی تھا۔ دہی بڑے کی جو بھی ریڑھی(ٹھیلا، یا خوانچہ) ہوگی، انھیں کی ہوگی۔ لال کرتی بازار میں ایک پان کی دوکان تھی۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہاں کئی اقسام کے پانوں کے نام لکھے ہوئے تھے اور دوکان اتنی چھوٹی کہ بمشکل ایک آدمی بیٹھ سکتا تھا۔ اس کے باوجود بھی اس کے پاس گاہکوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ آدم نے ا س پان کے کھوکھے والے سے پوچھا،تو کہنے لگا، ’’وہ جو سامنے ریستوران دیکھ رہے ہیں نا آپ۔وہ انھیں کا ہے‘‘۔ آدم کے ذہن میں دہی بڑوں کی ریڑھی(ٹھیلایا خوانچہ) کا تصور تھا۔لیکن یہاں تو تین منزلہ عمارت تھی۔ آدم اور ابلق تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے ،وہاں پہنچے۔ دونوں ریستوران میں داخل ہوئے۔ ریستوران کے کاؤنٹر پے ایک بزرگ بیٹھے ہوئے تھے۔ رنگ گندمی، منہ پان پان چبا چبا کے سرخ ہوچکا تھا ۔کیونکہ وہ اس وقت بھی پان چبا رہے تھے۔اور آدم صاف محسوس کرسکتا تھا کہ وہ چھالیئے کے چھوٹے چھوٹے ذرے جو ان کے دانتوں کی ریخوں میں پھنس گئے تھے ان کو زبان کی مدد سے نکال رہے تھے اس لیئے آدم کی نظر ان کے منہ کے اندر بھی معائنہ کرگئی۔ سرپے قراقلی ٹوپی(شاید انھیں آج تک کسی نے بتایا ہی نہیں تھا کہ قراقلی ٹوپی پہننا کتنا بڑا ظلم ہے کیونکہ یہ بھیڑ کے اس بچے کی بنتی ہے جو اپنے لڑکپن یا بچپنے سے ابھی باہر نہیں آتا۔اگر وہ اس حقیقت سے آشکارہ ہوتے تو اپنی قراقلی ٹوپی کو اٹھا کے سڑک پے پھینک دیتے)۔انتہائی نفیس اورصاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس ، چہرہ نورانی اور اس پے سفید داڑھی ان کی شخصیت کو مزید پروقار بنا رہی تھی۔بس پان کی وجہ سے تھوڑا غیر مناسب تھالیکن یہ لت انھیں اس وقت پڑی تھی جب بہت چھوٹے تھے اور سخت سردی میں کام کے دوران جب ان کی ٹانگیں اکڑ جایا کرتیں لیکن اپنے مشن کو پورا کرنے کے لیئے اپنے جسم کو تکلیف دیتے لیکن اس تناؤ کا حل چائے اور پان تھا۔
جیسے ہی ابلق اور آدم نے ریستوران کے اندر قدم رکھا تو بالکل اہلِ زبان کے تلفظ میں کہنے لگے، ’’جی فرمائیئے۔ آپ کو کس سے ملنا ہے‘‘۔ آدم پے اس بزرگ شخصیت کا سحر طاری ہوگیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا، ’’بیٹا آپ کو کس سے ملنا ہے‘‘۔ آدم کا سحر ٹوٹا اور کہنے لگا ،’’جی میں آدم خان چغتائی ہوں اور یہ میرے چھوٹے بھائی ہیں،ابلق خان چغتائی اور آپ یقیناًداؤد انصاری کے والدصاحب ہیں۔ جیسا اس نے بتایا تھا آپ اس سے دبنگ شخصیت کے مالک ہیں‘‘۔اگر یہی تعریف کسی اور کی کی جاتی تو وہ پھول کر کپا ہوجاتا لیکن انصاری صاحب یہ تعریف سن کر مزید عجز و انکساری کا مظاہرہ کرنے لگے اور حلیم انداز میں بولے، ’’بیٹا کہاں سے آئے ہیں آپ، یہیں لال کرتی میں ہی رہتے ہیں‘‘۔ آدم نے اصلیت بھانپتے ہوئے کہا، ’’جی در اصل آپ نے مجھے پہچانا نہیں۔ میں اور داؤد پاکستان سے ایران، ترکی، یونان، اٹلی اور فرانس سفر سفر کرتے کرتے اکٹھے پیرس تک پہنچے تھے۔ داؤد پیرس ہی رک گیا اور مجھے انگلستان جانا پڑگیا۔ داؤد کے والد صاحب نے جب یہ سنا تو کاؤنٹر سے اتر کر باہر آئے اور آدم کو گلے لگالیا اور کہنے لگے، ’’بیٹا معا ف کرنا میں نے پہچانا نہیں تھا۔ کیونکہ روز کوئی نا کوئی لڑکا آجاتا ہے، داؤد کا پتہ پوچھنے۔ہر کسی کو باہر جانا ہے۔ میں تو داؤد کے پردیس جانے کے بھی خلاف تھالیکن اسے شوق تھا۔ تم سناؤ، کاغذات وغیرہ بن گئے۔ داؤد ہمیشہ تمھارا ذکر کرتا ہے۔ بڑے خوش قسمت ماں باپ
ہیں، جن کی تم اولاد ہو۔تم آنے سے پہلے داؤد سے مل کر آئے ہو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی نہیں وہ پیرس میں ہے اور میں لندن میں ۔ میں جتنا عرصہ لندن رہا، داؤد سے رابطہ ہی نہیں رہا۔میں نے کئی دفعہ فون کرنے کی کوشش کی لیکن میرا خیال ہے اس کا فون نمبر بدل گیا ہے۔ بزرگو، آپ کو تفصیل کیابتاؤں۔قصہ مختصر یہ ہے کہ مجھے انگلستان والوں نے ڈیپورٹ کردیا ہے۔ دو دن ہوگئے آئے ہوئے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کروں‘‘۔
انصاری صاحب نے ڈھارس بندھانے والے انداز میں کہا، ’’بیٹا بالکل فکر مت کرو۔ تم پڑھے لکھے ہو۔کوئی نا کوئی نوکری مل ہی جائے گی۔ اور اگر چاہو تو یہ ریستوران سنبھال لو۔ یہ بھی تمھار اپنا ہی ہے۔ اللہ کا دیا بہت کچھ ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’میں بھی یہی سوچ رہا ہوں،کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردوں‘‘۔ انصاری صاحب نے ابلق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’بیٹا تمھارا چھوٹا بھائی بڑا کمزور ہے۔ بیمار ہے کیا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کچھ نہیں۔بس ویسے ہی، اسے بھوک نہیں لگتی۔ یہ کچھ کھاتا ہی نہیں‘‘۔ انصاری صاحب کہا، ’’بیٹا ہمیں خدمت کا موقع کب دے رہے ہو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی کیا مطلب‘‘۔انصاری صاحب نے کہا، ’’میرا مطلب ہے اپنے گھروالوں کو ساتھ لے کر آؤ۔ اکٹھے کھانا بھی کھائیں گے اور گپ شپ بھی رہے گی‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی ضرور ۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں نہیں، آپ فون کر کے بتا دیجئے گا۔ ہم لوگ حاضر ہوجائیں گے‘‘۔ انصاری صاحب نے کہا، ’’بیٹا یہ یورپ تھوڑی ہی ہے ۔جب چاہو آجا ؤ۔ تمھارا اپنا گھر ہے۔ یہ پتا لکھ لو‘‘۔آدم نے کہا، ’’جی نہیں اس کی کوئی ضرورت نہیں۔آپ کے گھر کا پتا اور فون نمبر میرے پاس ہے۔ اچھا انکل خدا حافظ‘‘۔ انصاری صاحب نے کہا، ’’ارے چائے تو پیتے جاؤ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کھانا بھی کھائیں گے اور چائے بھی پیئیں گے۔ جب آپ کے ہاں آئیں گے‘‘۔ انصاری صاحب نے کہا، ’’جیسی تمھاری مرضی‘‘۔
آدم واپسی پے سوچتا آیا۔ کتنی عجیب بات ہے۔ میرے باپ نے مجھ سے پوچھا تک نہیں کہ میں کیسے آیا ہوں۔کاغذات کا کیا بنا۔ شادی کا کوئی ذکر، کوئی کاروبار کی بات۔ بس اپنے کپڑوں اور کھانے پینے کی فکر تھی انھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے آدم آیا تھا ان کا گھر چھوٹی سی جنت بن گیا تھا۔ لیکن ساتھ ساتھ چند لوگوں کے لیئے دوزخ بھی بن گیا تھا۔
نادیہ بہرام کھرل کوپتا چل چکا تھا کہ آدم آیا ہوا ہے۔ وہ آدم کو آتے جاتے کئی دفعہ دیکھ چکی تھی۔ لیکن ملاقات تو دور کی بات ، دونوں کی فون پر بھی بات چیت نہ ہوئی تھی۔ آدم تو آتے ہی گھریلومسائل کو حل کرنے میں لگ گیا تھا۔ بڑی دوڑ دھوپ کے بعد اس نے گھر کی ٹیلیفون لائن بحال کروائی۔ جیسے ہی لائن بحال ہوئی اس نے نادیہ کا فون نمبر ملایا۔ آدم کے دل پے لکھا ہوا تھا۔ آدم کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ وہ چونکا، کسی نے ،’’ہیلو‘‘ کہا۔آدم آواز پہچان گیا اور کہنے لگا، ’’آدم بولا رہا ہوں‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’جی فرمائیے، فرصت مل گئی آپ کو۔پانچ سال بعد آئیں ہیں۔اتنے دن ہوگئے ہیں اور آج فون کررہے ہیں‘‘۔آدم نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’تم فون کردیتی نا‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’میں نے کئی دفعہ کوشش کی ، میرا خیال ہے تمھارا فون خراب تھا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ہاں، آج ہی ٹھیک ہوا ہے‘‘۔نادیہ نے آدم کو تنگ کرتے ہوئے کہا، ’’میرے لیئے کیا لائے ہو‘‘۔ آدم سمجھ گیا، نادیہ کس انداز میں بات کررہی ہے۔ اس نے بھی چھیڑنے کے سے انداز میں کہا، ’’وہی جو ایک مرد ،ایک عورت کو دے سکتا ہے‘‘۔ نادیہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’stupid ,fool (سٹوپڈ ،فول ) بکواس نہ کرو، ورنہ ڈنڈے ماروں گی۔ یورپ جاکر خراب ہوگئے ہو‘‘۔ آدم نے پینترا بدلا،کیونکہ فون پے بات کرتے آپ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں سکتے ۔اس لیئے پینترا بدلنا اور چہرے کے تاثرات بدلنا دوسرے طرف سننے والے کے لیئے اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا، ’’تم غلط سمجھ رہی ہو، میں تو دل کی بات کررہا تھا۔ اچھاخیر چھوڑو
ان مہین مہین چٹکیوں کو، یہ بتاؤملاقات کررہی ہو۔ تمھاری شکل دیکھے مدت بیت چکی ہے۔ پانچ سال پہلے تم بچی تھیں‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’اب بھی ویسی ہی ہوں‘‘۔آدم نے کہا، ’’میں عادت کی بات نہیں کررہا ہے‘‘۔نادیہ نے کہا، ’’تم پھر مذاق کرنے لگے‘‘۔آدم نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا، ’’پھر کب اور کہا مل رہی ہو‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’میں سوچ کر بتاؤ ں گی‘‘۔ آدم نے تو ازراہِ تفنن کہا تھا۔اسے تو اس جواب کی توقع ہی نہیں تھی۔کہنے لگا ،’’اور تمھارے ابا کا کیا ہوگا‘‘۔ نادیہ کہنے لگی ،’’وہ میں سنبھال لوں گی۔ کوئی نا کوئی ترکیب نکال لوں گی‘‘۔ آدم نے متحیر ہو کر کہا، ’’بڑی تبدیلی آگئی ہے‘‘۔نادیہ نے پراعتماد انداز میں کہا، ’’اب میں بڑی ہوگئی ہوں۔گریجوئیٹ ہوں‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’کیا کررہی ہو۔۔۔۔۔آجکل‘‘؟ نادیہ نے کہا، ’’آجکل۔۔۔۔۔۔اسلام آبادجاتی ہوں۔ COMPUTER SCIENCES (کمپیوٹر سائینسسز) میں پوسٹ گریجوئیشن کررہی ہوں۔ تم سناؤ، کوئی پڑھائی وغیرہ کی یا گوروں کے برتن مانجتے رہے ہو‘‘۔ آدم نے جل بھن کر جواب دیا، ’’نہیں گوروں کے کتے نہلاتا رہا ہوں‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’آدم چلتی ہوں،کوئی آگیا ہے‘‘۔
اور اس طرح گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ آدم نے دروازہ کھولا۔سامنے کیا دیکھتاہے۔نجمہ بیگم کھڑی ہیں۔ پانچ سال بعد ان کے چہرے پے مزید نکھار آگیا تھا۔ بس تھوڑی موٹی ہوگئی تھیں۔آدم نے کہا،’’آئیں،تشریف لائیں‘‘۔ اپنی سوتیلی ماں اور بہن کو آواز دی۔اس کی ماں نے بڑے تپاک سے نجمہ بیگم کا استقبال کیا۔ اس کی ماں تو نجمہ بیگم سے باتیں کرنے میں مصروف ہوگئی اور نفیسہ چائے بنانے لگی۔نفیسہ نے چائے آدم کے ہاتھ بھیجی۔نجمہ بیگم نے جب آدم کو چائے کی ٹرے تھامے دیکھا جس میں چائے کے ساتھ بڑے قرینے سے بسکٹ بھی سجائے گئے تھے۔ کہنے لگیں، ’’اس کی بھی اب شادی کردیں۔ بیوی آجائے گی تو گھر سنبھال لے گی‘‘۔ آدم کی سوتیلی ماں نے کہا، ’’بات دراصل یہ ہے کہ آدم مجھے کام کرنے ہی نہیں دیتا اور نفیسہ ‘‘ وہ کوئی بات نہ بنا پائیں تو بات بدل کر کہنے لگیں، ’’اور لڑکی تو یہ خود پسند کرے گا۔ہماری پسند اسے کہاں پسند آئے گی‘‘۔ آدم نے گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا، ’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں‘‘۔ نجمہ بیگم نے آدم کی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھا، ’’ہاں ہو کوئی پیاری سی، لولیٹا، یا ڈوولی‘‘۔ آدم نے نجمہ بیگم کے پائے کا جواب دیا، ’’خیر MADAM BOVARY (مادام بوواری) یا LADY CHATTERLY (لیڈی چیٹرلی) بھی چلے گی‘‘۔ آدم کی اس بات کا مطلب کسی کو نہ سمجھ آیا۔نجمہ بیگم نے اپنی خفت مٹانے کے لیئے کہا، ’’آدم ہمارے ہاں کھانا کھانے کب آرہے ہو‘‘۔ آدم نے بڑے مؤدّبانہ انداز میں جواب دیا، ’’جب آپ چاہیں‘‘۔ نجمہ بیگم نے کہا، ’’آج رات کا کھانا کیسا رہے گا‘‘۔ آدم نے کہا،’’آج رات تو نہیں کل دوپہر کو ٹھیک رہے گا‘‘۔وہ ابلق اور نفیسہ سے مشورہ لینے کے انداز میں مخاطب ہوا،’’کیا خیال ہے، نفیسہ اور ابلق‘‘۔ نفیسہ نے کہا، ’’جیسے آپ کی مرضی بھائی جان۔ کل عباسی صاحب کو بھی چھٹی ہے‘‘۔ آدم نے نجمہ بیگم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’تو ٹھیک ہے کل دوپہر کا کھانا‘‘۔ نجمہ بیگم بہت خوش تھیں۔کہنے لگیں،’’اچھا اب چلتی ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’آئیں میں آپ کو دروازے تلک چھوڑ دوں‘‘۔ آدم اٹھا اور نجمہ بیگم کو دروازے تک چھوڑنے آیا۔ جس علاقے میں یہ لوگ رہتے تھے ۔یہاں کا ماحول تھوڑا آزاد تھا۔ کسی کو کسی سے کوئی سروکا نہیں تھا۔ ہر کوئی اپنی اپنی زندگی گزار رہا تھا لیکن پھر بھی لوگوں کو اپنے تئین تجسس رہتا کہ کس گھر میں کیا ہورہا ہے۔کون سی لڑکی کس لڑکے کو پسند کرتی ہے۔ یہ ساری کہانیاں کریانہ سٹور والے کو پتا ہوتیں۔
چلتے چلتے نجمہ بیگم ، آدم سے کہنے لگیں، ’’لولیٹا سے ملاقات ہوئی‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ابھی تک تو نہیں۔لیکن وہ کہتی ہے کہ چند دنوں بعد بتاؤں گی‘‘۔ نجمہ بیگم کہنے لگیں، ’’آدم پھر کہتی ہوں۔سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں اس سے پیار کرتا ہوں‘‘۔نجمہ بیگم نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’پانچ سال تک تمھارا پیار چھٹی پر تھا۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘۔ آدم نے کہا، ’’یہ بات نہیں ہے۔ بس وہاں کے جھمیلوں سے کبھی فرصت ہی نہیں ملی۔بڑی لمبی کہانی ہے‘‘ نجمہ بیگم نے بڑے ملائمت بھرے لہجے میں کہا، ’’میرے ساتھ چلو۔بلکہ رات میرے ہاں ہی سو جاؤ‘‘۔ آدم نے ڈرتے ہوئے کہا، ’’اور قدوس صاحب۔آپ کے بیٹا،بیٹی‘‘۔ نجمہ بیگم نے آدم کو راضی کرنے والے انداز میں کہا، ’’ان کی تم فکر نہ کرو۔ قدوس صاحب اسلام آباد میں پلازہ بنا رہے ہیں۔ہفتے یا اتوار کو آتے ہیں۔ وہیں اسلام آباد میں ہی گھر کرائے پر لے رکھا ہے۔ بیٹا میرا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پڑھتا ہے۔ وہیں ہاسٹل میں رہتا ہے۔ اور بیٹی کو فائن آرٹس سے ہی فرصت نہیں۔ وہ فائن آرٹس میں بی اے کررہی ہے‘‘۔ آدم نے بہانے تراشتا رہا اور نجمہ بیگم اس کو ہر بہانے کا مربوط جواب دیتی رہیں۔آدم نے پھر پوچھا، ’’اور ملازم‘‘۔ نجمہ بیگم نے کہا، ’’وہ اپنے اپنے کواٹرز میں ہوتے ہیں‘‘۔ باتوں کے دوران آدم کو پتا ہی نہ چلا کہ نجمہ بیگم کا گھر آگیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ بیگم نے اپنا سارا گھر بڑے قرینے سے سجایا ہوا تھا۔ اتنا صاف ستھرا، جیسے کسی فلم کا سیٹ لگا ہوا ہو۔ نجمہ بیگم نے سب کی جی جان سے عزت کی، کیونکہ وہ جنون کی حد تک آدم کے عشق میں مبتلاء تھی۔ اسے معاشرہ اجازت نہیں دیتا تھا۔ اب تو اس کے بچے بھی جوانہوچکے تھے۔ لیکن دل اس کا آج بھی پندرہ سال کی لڑکی کی طرح جوان تھا۔ اگر اسے معاشرہ اجازت دیتا تو وہ گھر بار، زیور، زمین جائیداد چھوڑ کر آدم کو اپنا لیتی ۔لیکن اس کے اپنانے سے کیا ہوتا تھا۔ آدم تو اپنا دل کسی اور کو دے بیٹھا تھا۔
آدم کو نجمہ بیگم کی بیٹی سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا کیونکہ وہ فائن آرٹس کی طالبہ تھی۔ یہ سب لوگ ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سیڑھیو ں کی طرف سے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔آدم نے مڑ کے دیکھا۔ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی ہلکے آسمانی رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس سیڑھیاں طے کرتی آرہی تھی۔جیسے کوئی خوبصورت غزال جنگل میں چوکڑیاں بھر رہا ہو۔ جیسے شراب کا جام لبا لب بھرا ہوا ہو اور ذرا سی غلطی سے چھلک جائے گا۔آدم کے دماغ میں سارا برلاس، نادیہ بہرام، مہ جبین ۔سب کی فلم چلنے لگی۔ وہ ان سب سے اس کا موازنہ کرنے لگا۔ لیکن اسے سب سے خوبصورت اس وقت نجمہ بیگم کی بیٹی لگ رہی تھی۔ اس نے قریب آتے ہی سب کو باری باری ، سلام و آداب کیا۔پھر آدم سے کہنے لگی، ’’سر ۔۔۔۔السلام و علیکم‘‘۔ آدم نے کہا، ’’و علیکم السلام۔لیکن اب میں آپ کا استاد نہیں رہا۔ اب تو آپ خود بھی اچھی خاصی پڑھ لکھ گئی ہیں‘‘۔امراء قدوس نے کہا، ’’لیکن سر۔۔۔۔حضرت علیؓ کا قول ہے کہ جس نے آپ کو ایک لفظ بھی سکھایا وہ آپ کا استاد ہے۔ آپ نے تو ہمیں کافی کچھ سکھایا ہے‘‘۔آدم نے کہا، ’’آپ اب کافی سمجھدار ہوگئی ہیں۔سنا ہے آپ فائن آرٹس پڑھ رہی ہیں۔ فائن آرٹس میں بی ا ے کرنے کے بعد کیا ارادہ ہے۔ ایم ۔ایف۔ اے۔ بھی کرنا ہے یا‘‘۔ آدم ابھی بات مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ امراء بول پڑی، ’’جی بالکل ۔میرا خیال ہے میں مزید پڑھنے کے لیئے اٹلی یا فرانس جاؤں۔اگر انگلینڈ میں داخلہ مل جائے تو اور بھی اچھا ہے۔ ROYAL ACADEMY OF FINE ARTS LONDON (روئیل اکیڈمی آف فائن آرٹس، لنڈن) میں داخلہ ذرا مشکل ہے۔ لیکن میں خوب محنت کر رہی ہوں۔ یہاں پے فائن آرٹ کی کوئی قدر نہیں۔ لے دے کے N.C.A. (NATIONAL COLLEGE OF FINE ARTS LAHORE) (این سی اے، نیشنل کالج آف فائن آرٹس، لاہور) رہ جاتا ہے۔ لیکن وہاں پے بڑی کم گنجائش ہوتی ہے۔ بنا سفارش کے داخلہ ہی نہیں ملتا،حالانکہ فائن آرٹ کے طالب علموں کی جانچ تو میرٹ پے کرنی چایئے نہ کہ سفارش پے۔ فن تو خدا کی دین ہوتا ہے سکول کالج میں تو آپ کی تراش خراش کی جاتی ہے ‘‘۔آدم کو امراء سے گفتگو کرنا دلچسپ لگا، کہنے لگا، ’’آپ کا ارادہ کس شعبے میں جانے کا ہے۔FRESCOES,OIL PAINTING, DADAISM, COBRA, SUREALISM,IMPRESSIONISM, CUBISM, ABSTRACT ART, REALISM, یا SYMBOLISM (فریسکو، آئل پینٹنگ، ڈاڈاازم، کوبرا، سوریئل ازم، انمپریشن ازم، کیوب ازم، تجریدی آرٹ ، ریئل ازم یا سنمبل ازم) کی طرف جانے کا ارادہ ہے‘‘۔امراء نے کہا، ’’ذاتی طور پے میں VAN GOGH SCHOOL OF ARTS (وین گوگغ سکول آف آرٹ) کو پسند کرتی ہوں۔لیکن میںLEONARDO DA VINCI (لیوناردو دا ونچی ) سے بھی متاثر ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’میں نے LEONARDO DA VINCI (لیوناردو دا ونچی) کی بنی ہوئی کافی تصاویر دیکھی ہیں۔خاص کر la gioconda (لا جوکوندا) میرا مطلب ہے MONALISA (مونا لیزا)‘‘۔ امرا نے متجسس ہوکر پوچھا، ’’سر، ۔۔۔۔آپ کا خیال ہے اس تصویر کے بارے میں ، وہ محترمہ مسکرا رہی ہیں یا اداس ہیں‘‘۔ آدم نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے تو دیکھنے کی حد تک شوق ہے۔جہاں تک ناقدانہ رائے پیش کرنے کاسوال ہے ۔میں کیا کہہ سکتا ہوں‘‘۔امراء ،’’نے کہا، ’’سر،۔۔۔۔۔میں نے پڑھا ہے کہ دا ونچی نے جس فوجی کی بیوی کی تصویر بنائی تھی وہ اس سے خوش نہیں تھی۔ اس لیئے فوجی نے اپنی بیوی کو خوش کر نے کے لیئے اس وقت کے مشہور مصور سے اس کی تصویر بنوائی تانکہ وہ اس کے چہرے کی مسکراہٹ واپس لا سکے۔ لوگ کہتے ہیں مونا لیزا مسکرا رہی ہے۔لیکن میرا خیال میں اس کی مسکراہٹ کے پیچھے بیشمار غم چھپے ہیں۔ جس کا اظہار وہ اپنی پراسرار مسکراہٹ سے کررہی ہے‘‘۔آدم نے کہا، ’’میں نے ایک چیز دیکھی ہے ۔مونا لیزا کی بھنویں نہیں ہیں‘‘۔ امراء نے کہا، ’’سر۔۔۔۔میں بھی ایک ایسی ہی تصویر بنا رہی ہوں،جس میں ایک عورت ناخوش دکھائی گئی ہے۔ اب تک مکمل نہیں ہوئی۔ آج کے دور میں کتنی مونا لیزائیں ہیں جو اپنے شوہروں کو دیکھ کر مسکرا دیتی ہیں۔مادام بوواری اور لیڈی چیٹرلی بھی تو اسی سلسلے کی کڑی ہیں‘‘۔
آدم ،امراء کا اشارہ سمجھ گیا۔جس طرح والدین اپنے بچوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن وہ بہت کچھ جانتے ہوئے بھی بچوں کی بہت سی باتیں نظر انداز کر دیتے ہیں بالکل اسی طرح بچے
بھی اپنے والدین کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں لیکن اپنے والدین کا احترام، تہذیب، معاشرتی اقدار ان کے آڑے آتی ہیں۔ اس لیئے بچے اپنے بڑوں اور والدین کی بہت سی باتیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔
نجمہ بیگم معاملے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے بولیں، ’’ارے آدم اور لوگ بھی بیٹھے ہیں،امراء بیٹا آپ پینٹنگ پے پھر کبھی بات کرلیجئے گا‘‘۔ امراء نے منہ بسورتے ہوئے کہا، ’’ٹھیک ہے ماما‘‘۔ اس کے بعد امراء اور آدم میں کوئی بات چیت نہ ہوئی۔سب لوگ اِدھر اْدھر کی باتیں کرنے رہے۔کھانا کھانے کے بعد سب نے اجازت طلب کی۔ آدم بھی سب کے ساتھ ہو لیا۔ نجمہ بیگم نے آدم کو بلایا، ’’آدم رک جاؤ ، تمھیں میں گھر کی دوسری منزل دکھاتی ہوں۔ یہ تمھارے جانے کے بعد بنی ہے‘‘۔ آدم
،نجمہ بیگم کے ساتھ چل پڑا اور ساتھ ہی گھر والوں کو کہہ دیا کہ ’’میں ان کے گھر کی دوسری منزل دیکھ کرآتا ہوں‘‘۔
دونوں تیز تیز سیڑھیاں طے کرتے دوسری منزل تک پہنچے۔ نجمہ بیگم ،آدم کو کمرے دکھانے لگیں۔ نجمہ بیگم اور قدوس صاحب کی خواب گاہ بہت خوبصورت تھی۔ آدم کو آنا کی یاد آگئی۔ جس کے ساتھ اس نے پیرس کے مضافات میں اس کے گھر کی خواب گاہ میں ایک خوبصورت رات گزاری تھی۔خواب گاہ یہ بھی بری نہیں تھی۔
در حقیقت نجمہ بیگم ، آدم کو رات کا پروگرام سمجھانے کے لیئے ساتھ لائی تھیں، کہ وہ کس طرح رات کو داخل ہوگا۔کون سا دروازہ کھلا چھوڑ دیں گی۔ اور کس وقت آنا ہوگا۔ آدم ، نجمہ بیگم کے گھر کی دوسری منزل دیکھ کر واپس لوٹ آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو ٹھیک وقت پے وہ نجمہ بیگم کے گھر پے موجود تھا۔ آدم جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، نجمہ بیگم تو جیسے تیار کھڑی تھیں۔ اس نے آدم کو دیکھتے ہی تمام کپڑے اتار دیئے اور ننگ دھڑنگ اس کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ آدم پے بھی جیسے کسی نے جادو کردیا تھا۔ اس نے جھٹ پٹ کپڑے اتارے ۔ دونوں نے کئی دفعہ پیاس مٹائی۔ جب پیار کرتے کرتے تھک گئے تو نڈھال ہوکر ایک طرف ہوگئے۔ پھر دونوں رات گئے تک باتیں کرتے رہے۔ نجمہ بیگم کہنے لگیں ،’’مجھے پتا ہے میری بیٹی میرے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتی۔ اسے مجھ پے شک نہیں یقین ہے ۔ اس لیئے وہ تمھے کہہ رہ تھی کہ دنیا میں کتنی ہی مولیزائیں ہیں‘‘۔ باتوں باتوں میں دونوں کی آنکھ لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو آئے ہوئے کئی دن ہوچکے تھے۔ لیکن وہ طے نہیں کرپایا تھا کہ کیا کرے ۔جو بھی ملتا یہی کہتا، یہاں کچھ نہیں رکھا۔ تم وہاں شادی کرلیتے۔ پیپر میرج کرلیتے ۔سیاسی پناہ کی درخواست ہی دے دیتے۔ واپس آنے کی کیا ضرورت تھی۔ لوگ تو پانچ پانچ ،چھ چھ لاکھ روپے دیکر یورپ جاتے ہیں۔ اور امریکہ کا ریٹ تو پندرہ لاکھ تک پہنچ گیا ہے۔ پہلے پہل بنا پاسپورٹ کے کینیڈا جانے والی پروازوں پے لو گ کسی طریقے سے چلے جایا کرتے تھے۔ لیکن بہت سی ایئرلائنوں کو بھاری جرمانے ہوئے ہیں۔ اس لیئے اب یہ سلسلہ بند ہوگیا ہے۔
آدم نے محسوس کیا کہ پانچ سال یورپ میں رہنے کے بعد اس کے اندر بھی کافی تبدیلیاں آچکی ہیں۔ یورپ میں اگر آپ کسی چیز کی قیمت ادا کرتے ہیں تو آپ کو وہ سہولت مہیاء کی جاتی ہے۔ جیسا کہ بجلی، گیس، وغیرہ۔جبکہ پاکستان میں لوڈ شیڈنگ نہ صرف بجلی کی بلکہ گیس کی بھی۔ بنیادی ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت ہے۔ انسانوں کو پیسے کے ترازوں میں تولا جاتا ہے۔اس پانچ سال کے عرصے میں پاکستان میں ایک نئی تہذیب نے جنم لیا۔ STATUS, PROTOCOL, PAJERO, CLASHANICOF (سٹیڑس، پروٹوکول، پجیرو، کلاشنیکوف)۔
گھر کے ماحول سے بڑا مایوس ہوا۔ گھر میں کوئی بھی فرد ایسا نہ تھا جو قابلِ ستائش ہوتا۔ بھائی کو ہیروئن کی لت لگ گئی تھی۔ بہن نے بھاگ کر شادی کرلی تھی۔ اس کی نام نہاد سوتیلی ماں پراسرار شخصیت کی مالک تھی۔ والد صاحب اپنے سوٹوں ٹائیوں اور قمیصوں کی دنیا میں گم تھے۔ گھر کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ حالانکہ وہ ماہوار خرچہ بھیجتا تھا۔ آدم جانتا تھا نہ اس کے بھائی کا قصور ہے نہ ہی اس کی بہن کا۔ کوئی منع کرنے والا ہی نہیں تھا۔ سر پے شفقت کا ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں تھا۔ ماں سوتیلی تھی۔ باپ کو اپنے معاشقوں سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔
وہ جو پیسے ساتھ لایا تھا۔ ان کو بڑی رقم تصور کرتا تھا۔ لیکن جو لوگ پہلے لاکھوں کی باتیں کرتے تھے۔ اب کروڑوں کی باتیں کرنے لگے تھے۔ دوکانوں کی پگڑیاں اور زمینوں کے دام آسمان سے باتیں کرنے لگے تھے۔ پْر آسائش زندگی گزارنے کے لیئے ایک ہی طریقہ تھا کہ ناجائز ذرائع سے پیسہ کمایا جائے۔ لیکن پاکستان میں تو اس کے لیئے ناجائز ذرائع سے پیسہ کمانا مشکل تھا۔ پہلے سے ہی بڑی مچھلیاں موجود تھیں۔ امیر آدمی ،امیر سے امیر تر ہورہا تھا اور غریب آدمی غریب سے غریب تر ہورہا تھا۔ پیسے کی اس غیر منصفانہ تقسیم سے لوگوں میں عجیب قسم کی ابتری پھیلی ہوئی تھی۔
آدم کی نظر میں انصاری صاحب سے مناسب آدمی کوئی نہیں تھا۔اس نے سوچا ان سے مشورہ کرنا چاہیئے۔ ویسے بھی سارے گھر والے انصاری صاحب کے ہاں دعوت پے بلائے گئے تھے۔ آدم آجکل اسی ادھیڑ بن میں تھا ۔دوسری طرف آدم کے آنے سے گھر کے افراد میں مثبت تبدیلی بھی آئی۔ ابلق نے ہیروئن پینی تقریباً چھوڑ دی تھی۔ آدم کے بہنوئی ، عباسی صاحب نے درخواستیں لکھتے لکھتے کچہری میں زمین جائیداد کا حساب کتاب بھی شروع کردیا تھا۔ لوگوں کے خسرے اور کھتونیاں نکلوانے میں ان کی مد کرنے لگے ۔ نفیسہ بیگم کے چہرے پے رونق آگئی۔ سب کو ایسا لگا جیسے کوئی مسیحا آگیا ہو۔ اگر خوش نہیں تھے تو آدم کے والد صاحب اور اس کی سوتیلی ماں کیونکہ گھر کے تمام اخراجات آدم نے اپنے ہاتھ میں لے لیئے تھے۔ آدم کے والد صاحب نے ایک دو دفعہ پوچھا بھی بیٹا واپس کب جاؤ گے،لیکن آدم ٹال گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک وقت پے سب لوگ انصاری صاحب کے گھر پہنچ گئے۔ آدم کا استقبال بالکل اس طرح کیا گیا جس طرح کوئی وی ۔آئی۔ پی۔ ہوتا ہے۔ آدم نے باری باری سب کا تعارف کروایا، ’’میرے والدصاحب ، والدہ، چھوٹی بہن، میرے بہنوئی اور میرا چھوٹا بھائی‘‘۔ عام طور پے انصاریوں کے ہاں سخت پردے کا رواج ہوتا ہے اور ان کی عورتیں نامحرم کے سامنے کبھی نہیں آیا کرتیں۔آدم چونکہ یورپ سے آیا تھا۔اس لیئے کسی عورت نے پردہ نہیں کیا۔ آدم کو تجسس ہورہا تھا کہ ببلی کے بارے میں پوچھے کیونکہ وہ ببلی کی تعریفیں سن سن کر پاگل ہوگیا تھا۔ ایران، ترکی، یونان، اٹلی اور فرانس پہنچنے تک داؤد ، ببلی کی تعریفیں کرتا آیا تھا۔ آدم سے رہا گیا۔اس نے پوچھ ہی لیا، ’’انکل،داؤد پچھلے سال پاکستان آنے کا کہہ رہاتھا۔ اس کی شادی وغیرہ کا سوچا کہ نہیں‘‘۔حالانکہ آدم جانتا تھا کہ داؤد کی شادی ہوچکی ہے ۔یہ سوال اس نے جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے کیا تھا۔ انصاری صاحب بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے، ’’آدم بیٹاتمھیں نہیں پتا۔میں سمجھا تمھیں پتا ہوگا۔ پچھلے سال جب داؤد آیا تو ہم نے اس کی شادی اس کے چچا کی لڑکی سے کردی،یعنی میں نے اپنے چھوٹے بھائی کی بیٹی ،اپنی بھتیجی سے کردی۔(انصاری صاحب ،آدم کو مفصل اس لیئے بتا رہے تھے کیونکہ ان کے ذہن میں یہی تھا کہ آدم اس تمام قصے سے نابلد ہے)دو ماہ رہ کر گیا تھا۔ بڑی رونق لگی رہی۔ وہ کہہ رہا تھا ۔وہاں کے ضروری کاغذات سے فراغت پانے کے بعد ببلی کو بھی بلوا لے گا۔ بیٹا مجھے تو بتاتا ہی کچھ نہیں۔ اب بھی میرے سامنے کھانا کھانے سے شرماتا ہے۔ ساری باتیں اپنی ماں کو بتاتا ہے۔ داؤد کی چھوڑو، اب تو بیٹا تمھاری شادی ہونی چاہیئے‘‘ آدم کے والد صاحب کو مخاطب کرکے کہنے لگے، ’’کوئی لڑکی دیکھی ہے اپنے بیٹے کے لیئے‘‘۔ خاقان صاحب نے کہا، ’’انصاری صاحب ہمارا زمانہ تھوڑی ہی ہے۔ لڑکی بنا دیکھے ہی شادی کرلی۔ یہ جسے پسند کرے گا ۔اسی سے اس کی شادی کریں گے۔ ویسے بھی میرا خیال ہے یہ واپس یورپ چلا جائے۔ یہاں کیا رکھا ہے‘‘۔ یہ بات سنتے ہی انصاری صاحب کو جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔بڑے طمطراق سے بولے، ’’کیوں چغتائی صاحب یہاں کیا نہیں ہے؟ اپنا مذھب ہے،زبان ہے، لباس ہے، پہچان ہے، تہذیب ہے ۔وہاں یورپ میں کیا ہے ۔یہ لوگ آذان تک تو سن نہیں سکتے ۔حلال گوشت اور دوسری چیزیں تو دور کی بات ہے۔ اور ویسے بھی اپنے ملک کی روکھی سوکھی روٹی ،پردیس کی چپڑی ہوئی روٹی سے بہتر ہے۔ میں تو داؤد کو اب بھی کہتا ہوں،واپس آجاؤ۔ لیکن اس پے امیر آدمی بننے کا بھوت سوار ہے۔ کہتا ہے، اسلام آباد میں بہت بڑا گھر بناؤں گا‘‘۔خاقان صاحب نے بڑے تحمل سے جواب دیا، ’’آپ کی بات ٹھیک ہے انصاری صاحب ،لیکن ملک میں یہ جو بیروزگاری بڑھ رہی ہے ۔کتنے ہی پڑھے لکھے نوجوان سڑکوں پے مارے مارے پھرتے ہیں‘‘۔ انصاری صاحب نے اس دفعہ ذرا نرمی سے جواب دیا، ’’تو محنت مزدوری کریں۔جب تک کوئی مناسب نوکری نہ ملے ۔سڑکوں پے مارے مارے پھرنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ ہمارے پاس کیا تھا۔ ؟ جب میں نے دہی بڑوں کی ریڑھی لگانا شروع کی تھی تو میرے پاس کیا تھا۔ آج وہی آدمی جس کو میں اپنے ٹھیئے کا کرایہ دیا کرتا تھا۔میں نے نہ صرف تھڑا بلکہ دوکان بھی خرید لی۔ اب اللہ کا بڑا کرم ہے۔ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی رنگ لائی۔اور سب سے بڑھ کے خدا نے اپنی رحمت سے نوازا‘‘۔ خاقان صاحب اپنے مؤقف پے قائم تھے۔ کہنے لگے، ’’ٹھیک ہے انصاری صاحب ، لیکن آجکل ریڑھی لگانے کے لیئے بھی ٹھیک ٹھاک پیسہ چاہیئے‘‘۔ یہ نہ ختم ہونے والی بحث اپنے عروج پر تھی کہ آدم کو داؤ د کی ماں نے ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ آدم بزرگوں سے اجازت لے کر ان کے پاس گیا اور کہنے لگا، ’’جی ماں جی‘‘۔ کہنے لگیں، ’’بیٹا یہ میری بہو ہے۔ اسے تم سے ملنے کا بہت شوق تھا۔ داؤد جتنے دن بھی رہا۔تمھاری تعریفیں کرتا رہا‘‘۔ آدم نے سر اٹھا کر آداب کیا۔اس کے سامنے دؤاد کے خوابوں کی شہزادی کھڑی تھی۔ جواب میں داؤد کی بیوی ، ببلی نے کہا، ’’وعلیکم السلام بھائی جان‘‘۔اس نے چھوٹ موٹ شرماتے لجاتے ہوئے کہا، ’’بھائی جان ، داؤ د آپ کی بہت تعریف کرتے ہیں۔کہتے ہیں۔آجکل کے دور میں آپ جیسے انسان بہت کم ہوا کرتے ہیں‘‘۔ آدم نے عاجزی و انکساری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ سب اس کی اعلیٰ ظرفی ہے۔ وہ بھی آپ کی بہت تعریف کرتا ہے۔ایران سے لے کر فرانس تک جتنا عرصہ بھی ہم اکٹھے رہے۔وہ آپ ہی کے گن گاتا رہا‘‘۔ یہ سنتے ہی وہ شرماکر چلی گئی۔آدم نے داؤ د کی ماں سے پوچھا، ’’ماں جی یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔ببلی تو بقول داؤد کے ،بڑی مغرور ہوا کرتی تھی اور داؤد کے چچا نے آپ لوگوں کے ساتھ کافی زیادتیاں بھی کیں‘‘ ۔داؤد کی والدہ کہنے لگیں، ’’بس بیٹا کچھ نہ پوچھو، سب خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے ۔وہ ہر چیز پر قادر ہے۔داؤد کی چھوڑو،تم اپنی سناؤ۔ تمھارا کیا ارادہ ہے شادی کے بارے میں۔اب تمھاری عمر ہے‘‘۔ آدم نے بڑی سادگی سے کہا، ’’ماں جی کچھ سمجھ ہی نہیں آرہی‘‘۔داؤد کی والدہ نے کہا، ’’بیٹا میں سب جانتی ہوں۔ تم چاہو تو میں لڑکی کے باپ سے بات کروں۔ اگر وہ نہ مانے تو کوئی اور لڑکی دیکھ لیں گے۔تمھارے لیئے لڑکیوں کی کمی ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’آپ درست فرماتی ہیں لیکن میرے پاس کچھ بھی نہیں۔ نہ اپنا گھر، نہ کاروبار، چھوٹا بھائی ہے۔کوئی سیدھا راستہ دکھائی نہیں دے رہا‘‘۔ ماں جی نے بڑی شفقت اور پیار سے کہا، ’’بیٹا شادی کرلو، باقی مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ماں جی سچ پوچھیں تو ابھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں۔دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘‘۔ انصاری صاحب کی بارعب آواز سنائی دی، ’’ارے بھئی سب آجاؤ،کھانا چن دیا گیا ہے۔آدم کو بلاؤوہ کہاں ہے‘‘۔
ایک ایک کرکے سب دسترخوان پر آکر بیٹھ گئے۔ کھانے کے دوران ہر موضوع پے گفت و شنید ہوئی۔انصاری صاحب اور چغتائی صاحب میں خوب مباحثہ ہوا اور دونوں کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ کھانے کے بعد انصاری صاحب نے سب کو اپنے ہاں رکنے کو کہا، لیکن آدم نے منع کردیا۔ انصاری صاحب نے زیادہ اسرار نہ کیا اس لیئے داؤد کے چھوٹے بھائی سوزوکی کیری میں انھیں گھر تک چھوڑنے آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون کی گھنٹی بجی اور بند ہوگئی۔ آدم کی آنکھ کھل گئی۔ گھڑی دیکھی تو صبح کے دس بج چکے تھے۔ آدم کی بہن نفیسہ خانم نے بتایا ،بھائی جان پہلے بھی دو تین دفعہ اس طرح گھنٹی بجی ۔ میں نے اٹھایا تو کسی نے بنا بولے ہی بند کردیا۔ آدم سمجھ گیا کہ کس کا فون ہے۔ اس نے فون نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ’’ہیلو‘‘۔ آدم نے جواب دیا، ’’آدم بول رہا ہوں‘۔ نادیہ نے غصے سے کہا، ’’کہاں ہو تم ، صبح سے فون کر رہی ہوں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ہم لوگ رات کو دعوت پر گئے ہوئے تھے۔ اس لیئے رات دیر سے لوٹے اور رات آنکھ بھی دیر سے لگی‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’اچھا میری بات غور سے سنو۔کیا تم اسلام آباد آسکتے ہو‘‘؟ آدم نے تجسس بھرے لہجے میں پوچھا، ’’کہاں‘‘؟ نادیہ نے کہا، ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘۔آدم نے متحیر ہوکر پوچھا، ’’یہ کہاں ہے؟ کسی دواخانے کا نام ہے‘‘؟ نادیہ نے اپنے خاص انداز میں کہا، ’’stupid ,fool (سٹوپڈ ، فول) اسلام آباد کی سب سے موڈرن یونیورسٹی ہے‘‘۔ آدم نے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’اس کا آغاز کب ہوا ۔یقیناًقرشی اور احمد والے بھی اپنی اپنی یونیورسٹیوں کا آغاز کریں گے‘‘۔ نادیہ بات کا تفنن پن سمجھتے ہوئے کہنے لگی، ’’مذاق چھوڑو۔امیریکن سنٹر کے بالکل سامنے نئی یونیورسٹی بنی ہے۔ اس کی پچھلی طرف کینٹین ہے۔میں وہاں ملوں گی۔تم بالکل اس طرح گزرنا۔ جیسے اپنی ایئر ٹکٹ کا پتا کرنے آئے ہو اور تم سے کوئی پوچھے تو کہنا تم میرے ابو کے دوست کے بیٹے ہو اور لندن ، پیرس یا اٹلی میں پڑھتے ہو۔ یہ باتیں اچھی طرح یاد رکھنا اور ذرا ڈیسنٹ سے کپڑے پہن کر آنا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’لیکن آنا کب ہوگا۔ وقت بھی تو بتاؤ‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’ساڑھے بارہ بجے۔ ٹھیک‘‘۔ دوسری طرف سے رسیور چونگے پر رکھ دیا گیا تھا۔ آدم نے اپنی بہن سے کہا، ’’جلدی جلدی ناشتہ تیار کرو۔مجھے ضروری کام سے اسلام آباد جاناہے‘‘۔ نفیسہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن گئی۔ وہ جانتی تھی کہ بھائی جان کہاں جارہے ہیں۔
آدم نے جلدی جلدی تیاری مکمل کی۔ کالی پتلون۔ سکن ٹائٹ کالی ٹی شرٹ۔ مٹیالے رنگ کا کوٹ،حالانکہ کوٹ کا موسم نہیں تھا۔ رنگ و خوش بو میں بس کر منزل کی طرف رواں دواں ہوا۔ ٹیکسی میں بیٹھتے ہوئے سوچتا رہا کہ کیا بات کرے گا۔ پہلی ملاقات ہے۔ آج تک لولیٹا سے اس طرح ملاقات نہ ہوئی تھی۔ آمنے سامنے بیٹھ کے بات کرنا اور ٹیلی فون پے بات کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔
ٹیکسی کے ڈرائیور نے پوچھا، ’’باؤ جی ، چائینہ چوک اترنا پسند کریں گے یا امریکن سنٹر کے سامنے اتاروں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’نہیں نہیں، بس چائینہ چوک ہی اتاردو‘‘۔ آدم نے پیسے ادا کیئے اور امریکن سنٹر کی مخالف سمت میں عمارتوں کے برآمدوں میں چلنا شروع کردیا۔ چلتا چلتا وہ ہمدرد یونیورسٹی کے پاس پہنچا۔ اسے اپنی آنکھوں پے یقین نہ آیا۔ لڑکے لڑکیاں ، ایک ایک ،دودو کی ٹولیوں میں بیٹھے ،خوش گپیوں میں محو ہیں۔ یونیورسٹی کی بغلی سیڑھیاں اترتا آدم ، کینٹین کے باہر رکھی کرسیوں پے جا بیٹھا۔ آس پاس بیٹھے لڑکے لڑکیاں اسے دیکھنے لگے۔ جیسے وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو۔ چند ایک نے فقرے بھی کَسے۔آدم چپ کر کے سنتا رہا۔ وہ بھی کالج و یونیورسٹی کے اس دور سے گزر چکا تھا۔ وہ تو اِن سے زیادہ شرارتی تھا۔ آدم سرجھائے بیٹھا تھا کہ سامنے سے نادیہ بہرام کھرل آتی دکھائی دی۔ اس کے ساتھ اس کی دو سہیلیاں اور ایک لڑکا بھی تھا۔ آدم کو دیکھتے ہی دور سے چلائی، ’’ہائے آدم کیا حال ہیں۔ آپ یہاں کیسے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’بس ادھر سے گزر رہا تھا۔سوچا چائے پی لوں۔ یونیورسٹی کی کینٹین ہے ،یہاں چائے اچھی ملے گی‘‘۔ نادیہ اور اس کی سہیلیاں کرسیاں کھینچ کر آدم کے پاس بیٹھ گئیں۔نادیہ نے پوچھا، ’’کچھ کھانے کا ارادہ ہے یا صرف چائے ہی پینی ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’نہیں صرف چائے چلے
گی‘‘۔
نادیہ نے اپنی سہیلیوں کو سناتے ہوئے کہا، ’’اصل میں آدم میرے والد صاحب کے دوست کے بیٹے ہیں۔ لندن سے آئے ہیں۔ پہلے وہاں پڑھتے تھے۔آجکل اپنا کاروبار کرتے ہیں۔ ان دنوں چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے ہوئے ہیں‘‘۔ آدم اتنا جھوٹا تعارف سن کر پریشان ہوگیا،کیونکہ نہ ہی وہ پڑھنے گیا تھا،نہ ی کاروبار کرتا تھا، نہ ہی وہ چھٹیاں گزارنے آیا تھا۔ بلکہ وہ تو ڈیپورٹ ہو کر آیا تھا۔
لندن کا سننا تھا کہ آس پاس بیٹھے سب لڑکے لڑکیوں کے کان کھڑے ہوگئے اور نادیہ کی سہیلیاں ایک دم موم بن کر پگھل گئیں۔آدم سے طرح طرح کے سوال کرنے لگیں۔ نادیہ بھی کالی شلوار قمیص میں سب میں بہت نمایاں لگ رہی تھی۔ اور اس کے سپیشل کونمپلیکشن کے ساتھ یہ رنگ اور بھی جچ رہا
تھا۔ آدم تو خاص طور پے اسے دیکھنے اور ملنے آیا تھا۔ نادیہ خاموش بیٹھی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ بنا بات کیئے بہت سی باتیں کر رہی تھی۔ وہ خاموش اس لیئے تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی کو شک ہوجائے کہ آدم یہاں اچانک نہیں بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آیا ہے۔ آدم بظاہر تو نادیہ کے دوستوں سے باتیں کررہا تھا لیکن اس کی نظر اور ذہن نادیہ کی طرف ہی تھا۔ وہ کالے کپڑوں میں غضب ڈھا رہی تھی۔ اور آدم تصور ہی تصور میں خود کو اس کا مجازی خدا تصور کرنے لگا۔
نادیہ ،آدم اور اس کے دوست بہت دیر تک اِدھر اْدھر کی باتیں کرتے رہے۔ اس دوران نادیہ کی بریک ختم ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اجازت طلب کرتی، آدم نے اجازت طلب کی کیونکہ وہ چائے پی چکا تھا۔ اس نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’او کے ، نادیہ میں چلتا ہوں کیونکہ مجھے ایئر ٹکٹ کا پتا کرنا ہے۔آپ لوگوں سے مل کر بڑی خوشی ہوئی‘‘۔ آدم کا دل تو نہیں چاہتا تھا کہ وہ نادیہ کو چھوڑ کر جائے لیکن نادیہ کا بھرم بھی تو رکھنا تھا۔ آدم سر جھکائے اپنی خوبرو حسینہ کو الوداع کہہ کر چلا آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نجمہ بیگم کی خواہش تھی کہ آدم ان کی بیٹی امراء سے شادی کرلے۔ اس نے اپنی بیٹی سے بھی پوچھ لیا تھا۔ اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن مسئلہ آدم کا تھا۔ وہ نادیہ سے عشق میں بری طرح گرفتار تھا۔ جب سے وہ آیا تھادونوں کا معاشقہ تیزی سے پروان چڑھ رہا تھا۔ اس دوران عید الاضحی قریب آگئی۔آدم نے اپنی زندگی کی خوبصورت ترین چاند رات منائی۔
ہوا کچھ اس طرح کہ چاند رات کو نادیہ نے بہت بڑا خطرہ مول لے کر آدم کو گھر بلا لیا۔ آدم چوڑیاں اور مہندی لے کر پہنچ گیا۔
آدم نے اپنے ہاتھوں سے نادیہ کی گوری گوری بانہوں میں چوڑیاں پہنائیں۔اور اس کے خوبصورت ہاتھ مہندی لگانے کے لیئے تھام لیئے اور خود پے قابو نہ رکھ سکا۔ اس نے نادیہ کو اپنی بانہوں میں لے لیا۔ نادیہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے سینے سے لگ گئی۔ کیونکہ وہ آدم سے پیار کرنے لگی تھی۔ دونوں کے دل اتنی تیزی سے دھڑک رہے تھے۔ایسا لگتا تھا، کسی لمحے بھی فرطِ مسرت سے پھٹ جائیں گے۔ آدم نے بڑے پیار سے نادیہ کا منہ اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اپنے ہونٹ نادیہ کے ہونٹوں پے ثبت کردیئے۔ آدم پوری دنیا کی خاک چھان آیا تھا۔ لیکن جتنا سکون و آرام اسے نادیہ کی بانہوں میں ملا تھا اور کہیں نہ ملا۔جو مٹھاس نادیہ کے ہونٹوں میں تھی۔ دنیا کی کسی شیرینی میں نہ تھی۔ نادیہ دنیا جہان کی چتر چالاک ، لوگوں کو اپنی جوتی کی نوک پے رکھنے والی، آدم کی بانہوں میں آکر سب کچھ بھول گئی۔ اچانک ہلکی سی آہٹ ہوئی۔ نادیہ کے والد نیند میں کچھ بڑ بڑا رہے تھے۔ آدم کا رادہ تو کچھ اور تھا لیکن نادیہ نے منع کردیا۔ سرگوشی والے انداز میں کہا، ’’شادی کے بعد‘‘۔آدم نے کہا،’’تو اس کا مطلب ہے تم بھی مجھ سے پیار کرتی ہو‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’بہت پہلے سے۔ لیکن ڈرتی تھی۔ جب تم چلے گئے تو مجھے اس بات کا احساس ہواکہ میری زندگی میں کوئی چیز کم ہوگئی ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’تم نے فون پے کبھی نہیں میرا مطلب ہے۔ نہ ہی تم نے خط لکھ کر اس کا اظہار کیا‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’مجھے تمھارے حالات کا علم تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ تم اپنا مستقبل برباد کرو۔ اب جب تم واپس آگئے تو میں خود کو روک نہ سکی‘‘۔ آدم نے کہا، ’’لیکن یہ کیسے ممکن ہے ۔ تمھارے والد صاحب کبھی نہ مانیں گے‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’میں جانتی ہوں۔میں خود ان سے بات کروں گی۔ اگر نہ مانے تو بھاگ جاؤں گی۔ میں تنگ آگئی ہوں اس زندگی سے ۔ سر سے پاؤں تک جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ میں چاہوں تو امیر سے امیر آدمی سے شادی کرسکتی ہوں لیکن مجھے تم جیسا سچا اور کھرا انسان چاہیئے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’میرے پاس تمھیں دینے کے لیئے کچھ بھی نہیں۔میں درمیانے طبقے کاانسان ہوں۔ ساری زندگی مسائل میں گزر جائے گی‘‘۔ نادیہ نے یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’میں گزارا کر لوں گی۔ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کر لوں گی ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ٹھیک ہے ۔میں پھر اپنے امی ابو کو کہتا ہوں، وہ رشتے کی بات چلائیں‘‘۔ نادیہ نے ایک دم سے کہا،’’ابھی نہیں۔ جب میں تعلیم مکمل کرلوں گی۔ میں خود اپنے پاپا سے بات کروں گی۔ ‘‘۔ آدم نے متجسس ہوکر پوچھا، ’’کتنے سال لگیں گے،تمھاری تعلیم مکمل ہونے میں‘‘۔ نادیہ نے کہا، ’’کم از کم دوسال ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اور میں دوسال کیسے گزارا کروں گا‘‘۔ نادیہ نے ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’یہ مجھے نہیں پتا،انتظار تو بہرحال تمھیں کرنا ہوگا۔آدم اب تم جاؤ۔ پھر بات کریں گے‘‘۔ نادیہ نے آدم کا منہ چوما اور دروازے تلک چھوڑنے آئی۔ بڑی حسرت سے آدم کو جاتے ہوئے دیکھنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کے گھر والے جب بھی شادی کی بات کرتے ،وہ ٹال جاتا۔ انصاری صاحب نے بھی کئی دفعہ پوچھا اور نجمہ بیگم بھی اکثر اس موضوع پے گفتگو کرتیں۔ اس کی چھوٹی بہن نفیسہ بھی بہانے بہانے سے پوچھتی ۔لیکن آدم اس موضوع پے گفتگو کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ آدم کو تو دو سال کا عرصہ گزارا تھا۔ آدم کو آئے ہوئے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے۔ آدم اور نادیہ کا عشق اپنے عروج پر تھا۔ اب تو لوگوں کو بھی پتا چلناشروع ہوگیا تھا۔
لیکن ایک دن اچانک نادیہ کا فون آیا اور آدم کے سپنوں کا محل چکنا چور ہوگیا۔ اسے اپنے عشق کا جنازہ نکلتا دکھائی دیا۔ نادیہ نے فون پر اسے کہا، وہ اسے ہمیشہ کے لیئے بھول جائے کیونکہ وہ اس کے ساتھ شادی نہیں کرسکتی۔ ۔پیار وہ اب بھی کرتی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی۔ لیکن شادی نہیں کرسکتی۔ آدم نے بہت کریدہ، وجہ جاننے کی کوشش کی لیکن نادیہ نے بتانے سے انکا رکردیا۔ آدم تو جنون کی حد تک نادیہ کے عشق میں گرفتار تھا۔ وہ تو اس کی دوستی میں ہی خوش تھا۔
جب سے اسے یہ فون آیا تھا۔ اسے راولپنڈی شہر کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ ایک ایک لمحہ اسے سال کے برابر لگتا تھا۔ اس نے دوبارہ یورپ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ وہ ڈیپورٹ ہو کر آیا تھا۔ اس لیئے ایمبیسیوں کے چکر لگانا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے کئی ایجنٹوں سے بات کی۔ ہر کوئی مختلف ریٹ بتاتا اور گارنٹی بھی نہیں تھی۔ اگر پیسے لے کر بھاگ جاتے تو وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا۔ آدم نے سوچا کیوں نہ اے۔ بی۔ سی۔ صاحب سے بات کی جائے۔ اس نے اے۔ بی۔سی۔ صاحب کے موبائیل نمبر پے فون کیا اور ان کے ساتھ ملاقات کا وقت طے کیا۔ انھوں نے اسلام آباد کی ٹریول ایجنسی کا پتہ بتایا کہ وہاں پہنچ جانا۔
آدم وقتِ مقررہ پے وہاں پہنچ گیا۔ اے۔بی۔سی۔ صاحب اس کا انتظار کررہے تھے۔ وہ اسے طباق ریستوران لے گئے۔ کھانے کا آرڈر دیا اور کہنے لگے ،’’بیٹا اتنے دنوں بعد یاد کیا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’بس انکل پانچ سال بعد آیا ہوں۔ رشتے داروں سے میل ملاقات کرتا رہا ہوں۔ اور پھر عید آگئی۔ دوماہ کا پتا ہی نہیں چلا‘‘۔اے۔۔بی۔سی۔صاحب نے کہا، ’’اب کیا سوچا ہے‘‘۔ آدم نے ٹھنڈی آہ بھرکے کہا، ’’واپس جانا چاہتا ہوں‘‘۔ اے۔بی۔سی۔ صاحب نے بڑے وثوق سے کہا، ’’میں جانتا ہوں۔جو شخص ایک دفعہ یورپ کا پانی پی لے وہ یہاں نہیں رہ سکتا‘‘۔ آدم کا دل ٹوٹ چکا تھا اس نے درد بھرے انداز میں کہا، ’’یہ بات نہیں، بات دراصل یہ ہے کہ یہاں جھوٹ فریب بہت ہے۔ میں اپنے ملک سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن جانے کیوں اب میرا یہاں دم گھٹتا ہے۔ یورپ میں کاغذ نہ ہونے کا ڈر رہتا ہے۔ اس کے علاوہ کئی طرح کے ڈر رہتے ہیں‘‘۔ اے ۔بی۔سی۔صاحب نے کہا، ’’بیٹا مجھے کہنا تو نہیں چاہیئے لیکن تم یورپ میں، میرا مطلب ہے لندن میں کسی پاکستانی خاندان میں شادی کرلیتے۔اگر یہ نہیں ممکن تھا تو سیاسی پناہ کی درخواست ہی دے دیتے‘۔ آدم نے کہا، ’’بس انکل غلطی ہوگئی۔اب اگر گیا تو ایسا ہی کر وں گا اور واپس کبھی بھی نہیں آؤنگا‘‘۔ اے۔بی۔سی۔ صاحب نے آدم کی تکلیف کو بھانپتے ہوئے کہا، ’’لگتا ہے بیٹا، ان دو ماہ میں بہت دکھ دیکھے ہیں‘‘۔ آدم نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ’’انکل بڑی لمبی کہانی ہے۔ خیر آپ بتائیں، کیا طریقہ اختیار کیا جائے‘‘۔ اے۔ بی۔سی ۔صاحب اصل موضوع کی طرف واپس آگئے اور بولے، ’’بیٹا آجکل ویزہ ملنا تو بہت مشکل ہے۔ لیکن اگر برٹش پاسپورٹ مل جائے ،مگر فریش ہونا چاہیئے۔(یعنی جس کو جاری ہوئے بہت کم عرصہ گزرا ہو،یک یا دوماہ زیادہ سے زیادہ سال)اس پے تصویر بدل کر جاسکتے ہو۔ بس تمھیں چڑھائی دینی پڑے گی‘‘۔ آدم نے کہا، ’’کتنی چڑھائی دینی پڑے گی‘‘۔ ہر شہر کا مختلف حساب کتاب ہے‘‘۔ آدم نے کاروبار ی انداز میں کہا، ’’پاسپورٹ اور پی سی(تصویر کی تبدیلی) پے کتنا خرچہ آئے گا‘‘۔ اے۔ بی۔ سی۔صاحب نے کہا، ’’یہ تو کاپی پر منحصر ہے۔ کم از کم ایک لاکھ روپیہ خرچہ آئے گا‘‘۔آدم نے کہا، ’’انکل رقم کچھ زیادہ نہیں‘‘۔ اے۔بی۔سی۔ صاحب نے کہا، ’’بیٹا رقم کوئی میری جیب میں تو جائے گی نہیں۔یہ تو سسٹم بن گیا ہے۔ ہاں ایک طریقہ اور ہے۔ تمھاری چڑھائی کی رقم بچ جائے گی۔ لیکن رسک سارا تمھارے سر ہوگا۔ اگر تم برٹش پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ اسی نام کا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنو ا لو۔تو ایران سے ترکی اور ترکی سے بائی ایئر فرانس چلے جانا۔ وہاں سے آگے نکلنا آسان ہوتا ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’میرا خیال ہے انکل دوسرا والا طریقہ ٹھیک ہے‘‘۔ اے۔بی۔سی۔صاحب نے کہا، ’’تم اس طرح کرو اپنی بارہ عدد تصاویر لیکن مختلف ہونی چاہیئیں،مجھے دے دو۔باقی مجھ پے چھوڑ دو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’انکل ایک بات پوچھو، اگرآپ کو برا نہ لگے تو‘‘۔ اے۔بی۔سی۔ صاحب نے کہا، ’’ہاں پوچھو‘‘۔آدم نے پوچھا، ’’انکل آپ کو مجھ سے اتنی ہمدردی کیوں ہے‘‘؟ اے ۔بی۔ سی۔صاحب کاروباری آدمی تھے۔ پینترا بدل کر کہا، ’’بس بیٹاکیا بتاؤں۔پہلی دفعہ جب تمھیں دیکھا تو رحم آگیاتھا۔ اس لیئے تو تمھاری کم پیسوں میں خلاصی کرادی۔ورنہ اب تک تم سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ خیر چھوڑو ان باتوں کو ۔اسلام آباد میں ایک فوٹو گرافر ہے‘‘۔ اس کا وزیٹنگ کارڈ دیتے ہوئے۔’’اسے میرا کہنا کہ اے۔بی۔سی۔صاحب نے بھیجا ہے۔ وہ تصاویر اچھی بناتا ہے۔ وہ خاص قسم کا فوٹو پیپر استعمال کرتا ہے۔ جو یورپ میں استعمال ہوتا ہے۔ ایک تو تصویر بدلنے میںآسانی ہوتی ہے اور دوسرا جب پاسپورٹ مشین میں سکین ہوتا ہے تو شک گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ باقی رہا سوال انگریزی اور حلیئے کا۔تم ہر لحاظ سے پرفیکٹ ہو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اور پیسوں کا حساب کتاب کیا ہوگا‘‘۔ اے۔بی۔سی۔صاحب نے کہا،’’اس کی تم بالکل فکر مت کرو۔تمام رقم ،دو عدد پاسپورٹ، شناختی کارڈ بلکہ ایران کا ویزہ بھی ۔یہ چیزیں مکمل ہونے کے بعد تم سے رقم لی جائے گی۔ تمھیں جلد از جلد تصاویر پہنچانی ہوں گی۔یہ ٹریول ایجنسی کا پتہ ہے۔ یہاں فلاں شخص ہے۔ اس کو تصاویر دے دینا۔ تصاویر ملتے ہی پندرہ بیس دن لگیں گے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’شکریہ انکل۔میں تو دلبرداشتہ ہوچلا تھا‘‘۔ اے۔بی۔سی۔صاحب نے عاجزانہ انداز میں کہا، ’’بس بیٹا دعا کردیا کرنا۔ اچھا اب میں چلتا ہوں۔گھر جاکے تھوڑاسا آرام کروں گا۔ کیونکہ رات کی ڈیوٹی ہے‘‘۔ آدم اور اے۔بی۔سی۔صاحب دروازے تلک ساتھ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کے پاس برٹش پاسپورٹ تھا۔ اس پر پاکستان کا ویزہ بھی لگا ہوا تھا۔ جو لندن سے پاکستانی ایمبیسی نے جاری کیا تھا۔ اس پاسپورٹ پے IN (ان، یعنی پاکستان داخل ہونے کی مہر ) بھی لگی ہوئی تھی۔ اس پرآدم کی تصویر لگی ہوئی تھی۔ عمر بھی اس کی عمر کے قریب ترین تھی۔ اس کے علاوہ اسی نام کا پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ ،اور پاکستانی پاسپورٹ پے ایران کا ویزہ بھی تھا۔وہ یہ سارے کاغذات دیکھ کر حیران رہ گیا۔صرف ان کاغذات پے آدم کا نام نہیں تھا۔ وہ سوچنے لگا پانچ سالوں میں ہمارے ملک نے کتنی ترقی کرلی ہے۔ اس نے کچھ رقم اپنے بہنوئی کو دی۔گھر کا خرچ اور ایڈوانس کرایہ اپنے والد صاحب کو دیا۔ باقی جو رقم بچی اس نے انصاری صاحب کے حوالے کردی۔ اور انھیں ہدایت کی کہ میرے چھوٹے بھائی ابلق کا خیال رکھیئے گا۔ اس کی تعلیم و تربیت پے خرچ کیجئے گا۔ کیونکہ اب اس کا پاکستان واپس کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ سب نے آدم کو روکاسوائے آدم کی سوتیلی ماں اور اس کے والد صاحب نے۔نجمہ بیگم کو پتا چلا تو بہت ناراض ہوئیں۔ امراء حیران رہ گیء۔ نادیہ کو فون کیا، تو کہنے لگی، ’’اس طرح ناراض ہوکر مت جاؤ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اگر تم شادی کے لیئے اب بھی ہاں کہہ دو تو رک جاؤں گا‘‘۔ لیکن نادیہ اسے کیسے بتاتی ۔اس نے بھی چپ سادھ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم نے ٹرین کا ٹکٹ لیا اور کوئٹہ روانہ ہونے کے لیئے ایک دفعہ پھر راولپنڈی ریلوے سٹیشن پے پہنچا۔ اس دفعہ اسے بہت سے لوگ الوداع کرنے آئے۔ اس کے بہن بھائی، بہنوئی، امی، ابو، انصاری صاحب۔ان کے بچے۔ حتیٰ کہ نجمہ بیگم اور امراء بھی آئیں۔
آدم کی ٹرین کا وقت ہوچلا تھا۔ وہ ٹرین میں سوار ہوا۔اپنا سامان رکھا۔ ٹرین نے پلیٹ فارم سے آہستہ آہستہ کھسکنا شروع کیا۔ اور پھر رفتار تیز ہوگئی۔
آدم نے سارا سفر روتے روتے کاٹا ۔پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ جب آنکھ کھلی تو ٹرین کوئٹہ ریلوے سٹیشن پر کھڑی تھی۔ اسے اب بھی ڈر تھا۔کہیں،پکڑا نہ جاؤں۔کوئٹہ پہنچتے ہی اسے نادر بلوچ کاخیال آیا۔ لیکن اس دفعہ صورت حال کچھ اور تھی۔ وہ مطلوبہ بس میں بنا کسی کے بات کیئے اپنے خیالوں میں مگن خاموش بیٹھا رہا۔ بارڈر پولیس نے سب کے ویزے چیک کیئے اور بس پھر چل پڑی ۔پہلی دفعہ جب وہ آیا تھا تو داؤد ساتھ تھا۔ اب بالکل اکیلا تھا۔ اس نے دوران سفر کسی سے بات چیت نہ کی۔ ایران پہنچ کر وہ ایک درمیانے سے ہوٹل میں رات گزرانے کے لیئے ٹھہرا۔ ایک د ن تہران رہ کر استنبول کی ٹکٹ لی۔ پہلی دفعہ جب وہ آیا تھاتو کئی جگہوں کو دیکھنے کا ارمان اس کے دل ہی میں رہ گیا تھا۔ لیکن اس دفعہ اس کا دل بجھ سا گیا تھا۔ اس کا دل نہ کسی سے بات کرنے کو چاہتا نہ ہی تاریخ کے بارے میں جاننے کا کوئی سوال جنم لیتا۔ اب تو ایک ہی خواہش تھی کہ جلدی سے پیرس یا لندن پہنچتے ہی اپنی نئی زندگی کا آغاز کرے۔
خیالوں میں محو تھاکہ بس چل پڑی ۔یہ سفر کافی لمبا تھا۔ سارے راستے آدم سوچتا گیا۔ جو جو واقعات اس کی زندگی میں اب تک گزر چکے تھے ان کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے چلنے لگی۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ کسی نے آکر اسے جگایا۔وہ بس سے نیچے اترا۔انتہائی تسلی سے امیگریشن والوں کو دونوں پاسپورٹ تھمادیئے۔ وہ کافی دیر تک الٹ پلٹ کردیکھتے رہے۔پھر اپنی تسلی و تشفی کرنے کے بعد آدم کو دونوں پاسپورٹ واپس کردیئے۔ یہ سب سے مشکل مرحلہ تھا۔جو بخیر و عافیت گزر گیا۔ آدم دوبارہ اپنی نشست پر آکر براجمان ہوگیا۔ بس پھر چل پڑی ۔ آدم کوئی سروکار نہیں تھا کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ بس میں کون سے مسافر ہیں۔آس پاس راستوں پے کون کون سے پھل پھول اگے ہوئے ہیں۔ اور کون کون سے شہر گزر چکے ہیں۔ آرٹ، ادب، تاریخ اور فلسفہ سب بھول چکا تھا۔ وہ گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں جتنا سوچتا اس کا دل اتنا ہی بجھتا جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم استنبول کے اتاترک ایئر پورٹ پے بیٹھا اپنے جہاز کا انتظار کررہا تھا۔اسے ٹکٹ خریدنے میں بالکل دقت پیش نہ آئی۔ بس ٹریول ایجنسی والے نے دونوں پاسپورٹ دیکھے اور فوٹو کاپیاں اپنے پاس رکھ لیں۔
آدم انتظار گاہ میں منہ کے سامنے رسالہ رکھ کے پڑھنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ لیکن اس کادماغ کچھ اور سوچ رہا تھا۔ پانچ سال پہلے وہ کشن سنگھ جٹلہ کے پاس اشکدر کے علاقے میں رہا تھا۔ وہ اور داؤد استنبول کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے۔ پیسے ختم ہوچکے تھے ۔ اور اب وہ کتنے آرام سے جہاز میں بیٹھ کر یورپ میں داخل ہوگا۔ کیسی عجیب بات ہے۔ کہاں وہ تذلیل و تضحیک اور کہاں یہ عزت و احترام۔
آدم کا ضمیر اب مردہ ہوچکا تھا۔ اس کے اصول ، انسانیت ، احساسات ، سب کی موت واقع ہو چکی تھی۔ اب تو اس نے اپنی زندگی کی کشتی کو وقت کے دھارے پے چھوڑ دیا تھا۔ اب وہ پیپر میرج کرنے کو بھی تیار تھا۔بینکرپٹسی(دیوالیہ) کرکے بہت سا پیسہ کمانے کو بھی تیار تھا۔
بورڈنگ کی اناؤنسمنٹ ہوئی۔آدم بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج میں انتظار کرنے لگا۔ اسی اثناء سکرین پے لکھا ہواآگیا کہ کس نمبر کے دروازے پے ان کا جہاز کھڑا ہے۔ سب مسافر وں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور مطلوبہ دروازے کی طرف چل پڑے۔ کاؤنٹر کے دونوں طرف ایئر فرانس کے عملے کی کی دو فرانسیسی محترمائیں کھڑی تھیں۔ ہر مسافر کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں اور ساتھ ساتھ BONJOUR, BONJOUR,BONJOUR (بوںیوغ، یعنی اچھا دن مبارک ہو) بھی کہتی جارہی تھیں۔انھوں نے صرف بورڈنگ کارڈ پے نظر ڈالی اور آدم کو بھی BON VOYAGE (اچھا سفر ،یعنی سفر مبارک ہو) اور BONJOUR (بوںیوغ، یعنی اچھا دن مبارک ہو) کہہ کرجانے دیا۔ اور دوسرے مسافروں کی طرف متوجہ ہوئیں۔ آدم کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ تمام مراحل سے اتنی آسانی گزر جائے گا۔
ایئر فرانس کے جہاز پے قدم رکھتے ہی اسے سکون ملا۔ اس نے دل میں پکا ارادہ کرلیا تھا ۔اگر پکڑا بھی گیا۔ تو پیرس کے ایئر پورٹ پر ہی سیاسی پناہ کی درخواست دے دے گا۔ اب اسے یہ بالکل برا نہیں لگ رہا تھا۔ اس کے تمام اصولوں کی موت واقع ہوچکی تھی۔
جہاز کی سلائیڈ پے لکھا ہوا آیا۔پہلے فرنچ میں پھر انگریزی میں "FASTEN YOUR SEAT BELTS" (یعنی اپنی نشست پے لگی بیلٹ باندھ لیں)۔بتی جلتی بجھتی رہی۔ جہاز نے رینگنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ اس کی رفتار میں اضافہ ہوتا گیا۔اور ایک دم سے جہاز اوپر کو اٹھا، آدم کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ کھڑکی سے پہیوں کو اندر جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ آدم کی دماغی حالت بڑی عجیب ہورہی تھی۔ کبھی وہ ہیڈفون لگا کر موسیقی سنتا۔اپنی سیٹ کی ہتھی پے لگے بٹنوں کو دبا کر چینل بدلتا۔اسے کچھ بھی اچھا نہیں لگا رہا تھا۔ پھر جہاز میں لگی ہوئی سکرین پے چلنے والی فلم دیکھنے لگا۔ ایئر ہوسٹس نے انگریزی اور فرنچ دونوں زبانوں میں آدم سے پوچھا کہ اسے کچھ چاہیئے۔لیکن پاسپورٹ کی مناسبت سے اس نے انگریزی میں جواب دینا پسند کیا۔ حالانکہ وہ فرنچ میں بھی جواب دے سکتا تھا۔ کبھی کبھی انسان کو چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے بڑی مصیبت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ وہ اب ایسی کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چارلس ڈیگال ایئر پورٹ پے ہر وقت مسافروں کا ہجوم رہتا ہے۔ کئی جہاز ٹیک اوف کر رہے ہوتے ہیں اور کئی جہاز لینڈ کررہے ہوتے ہیں۔ آدم جہاز سے نکلتے ہی EUROPEAN COMMUNITY (یوریپئن کمیونٹی) والی قطار میں لگ گیا۔ جو بھی مسافر امیگریشن کاؤنٹر پے جاتا ،اپنا تصویر والا صفحہ امیگریشن افسر کو دکھاتا اور آگے چل دیتا۔ آدم نے بھی دیگر مسافروں کی طرح کیا۔تصویر والا صفحہ کھول کر پاسپورٹ ہاتھ میں پکڑ لیا۔ امیگریشن افسر کو وہ والا صفحہ دکھایا۔اس نے اچٹتی نگاہ ڈالی اور شکریہ کہہ کر واپس کردیا۔آدم نے مسکراتے ہوئے پاسپورٹ اپنے کوٹ کی جیب میں رکھا اور سامان والی بیلٹ کے پاس ٹرالی لے کر کھڑا ہوگیا۔ جلدی سے اپنا سامان پہچانا اور ٹرالی پے رکھ کر اسے دھکیلتا ہوا RER B (آر ای آر بی) کی ڈائرکشن ڈھونڈنے لگا۔آدم نے مشین سے ٹکٹ نکالا اور RER B (آر ای آر بی) کے پلیٹ فارم پے پہنچ گیا۔ ہر آدھے گھنٹے کے بعد ٹرین آتی تھی۔ جب ٹرین آئی تو مسافروں سے کچھا کھچ بھری ہوئی تھی۔ آدم نے ٹرالی سے اپنا سامان اٹھایا اور جلدی سے ٹرین میں سوار ہوگیا۔ اسے پیرس کی ٹرینیں اور میٹرو تقریباً زبانی یاد تھیں۔ کس جگہ سے کہاں جانا ہے۔ کہاں سے تبدیل کرنی ہے۔ ٹرین فراٹے بھرتی جارہی تھی۔آدم نے کئی دفعہ اپنے آپ کو چٹکی کاٹ کر دیکھا کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا۔لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھی۔ اس کی قسمت اس کا ساتھ دے رہی تھی۔ حالانکہ اس کے تمام کاغذات جعلی تھے۔ اسے کوئی دقت پیش نہ آئی تھی۔ اس نے احتیاطً پیرس کے کسی دوست کا نمبر جیب میں نہیں رکھا تھا۔ کیونکہ پساج براڈی جاکر اسے سب کے بارے میں معلومات مل سکتی تھیں۔ اور اسے ملنا بھی کس کو تھا۔ داؤد ہی سے تو ملنا تھا۔ یا RUE DI RIVOLI (غیو دی غیوولی) پے جو antique shop (اینٹیک شاپ) تھی وہاں پے آنا سے ملنا تھا۔ اسے بھی دوکان پر جاکر مل سکتا تھا۔ ٹرین GARE DU NORD (گاغ دو ناغد، یعنی شمالی ریلوے سٹیشن) پے آکر رکی۔ آدم یہاں سے میٹرو پر سوار ہوا اور CHATEAU D'EAU (شتو دو) آگیا۔ یہاں سے پساج براڈی کا پیدل ہی کا راستہ تھا۔ وہ سامان گھسیٹتاہوا پساج براڈی میں داخل ہوا۔
تمام ریستورانوں کے لڑکے اپنے اپنے ریستورانوں کو آراستہ کر کے گاہکوں کے انتظار میں باہر کھڑے تھے۔ آدم پساج کے بالکل درمیان میں کھڑا تھا۔ آدم کی coiffeur (کوفغ، فرنچ میں نائی یا ہیر ڈریسر کو کوفر کہتے ہیں لیکن اس کا فرنچ تلفظ کوفغ ہے)سے بڑی دوستی تھی۔ وہ دوکان میں گھس گیا۔ اس نے تھوڑی دقت کے بعد پہچان لیا۔ آدم نے اپنا سامان ایک کونے میں رکھا اور اس سے گپ شپ لگانے لگا۔ پھر داؤد کا پوچھا تو نائی یعنی کوفغ کہنے لگا، ’’داؤد نے ایک آدمی کے ساتھ مل کر OPERA (اوپیرا، پیرس کی ایک مشہور جگہ)میں اپنا ریستوران شروع کیاہے‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’اور پساج والا ریستوران‘‘۔کوفغ، یعنی نائی نے کہا، ’’اس کا ٹھیکہ ختم ہوگیا تھا۔ مالک کو واپس کردیا‘‘۔ آدم نے کہا،’’احترام الحق بٹ‘‘۔ کوفغ، (نائی) نے کہا، ’’وہ سنا ہے کینیڈا چلا گیا ہے۔ داؤد اور بٹ نے مل کر‘‘۔ ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کرپایا تھا کہ آدم نے روک دیا، ’’بس بس میں سمجھ گیا۔ آپ ایسا کریں مجھے داؤد کے ریستوران کا نمبر دیں اور پتہ بھی لکھ دیں‘‘۔ کوفغ(نائی) نے کاغذ پے پتہ اور فون نمبر لکھا اور چائے کا بھی کہہ دیا۔ آدم چائے کے لیئے کیسے نہ کرسکتا تھا۔ چائے پیتے پیتے آدم کو خیال آیا،کیوں نا داؤد کو فون کرلیا جائے۔ اس نے کوفغ(نائی) کی دوکان سے ہی داؤد کا نمبر ملایا۔ پہلے تو موبائیل بند ہونے کا میسج سنائی دیتا رہا۔ پھر اچانک کوفغ(نائی ) کے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ کوفغ (نائی ) نے رسیور اٹھایا۔ دوسری طرف داؤد بول رہا تھا۔ کوفغ(نائی) نے رسیور آدم کو تھما دیا۔آدم نے رسیور تھامتے ہوئے کہا، ’’داؤد، آدم بول رہا ہوں‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’کہاں سے بول رہے ہو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’پساج براڈی سے بول رہا ہوں‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’جلدی سے OPERA (اوپیرا) آجاؤ۔بلکہ وہیں رکو میں تمھیں لینے آتا ہوں‘‘۔
آدم چائے پی کر آس پاس ریستورانوں پے کام کرنے والے لڑکوں سے ملنے لگا۔ پانچ سالوں میں تمام ریستورانوں کے نام بدل چکے تھے لیکن مالکان وہی تھے۔ کوئی لڑکا ایسا نہیں تھا جو پرانا ہو۔ سب بدل چکے تھے۔ آدم بھی چند سال پہلے یہاں کھڑا ہوکر آواز لگایا کرتا تھا۔ آدم کا سٹیٹس اس وقت بھی الیگل تھا اور آج بھی۔فرق صرف اتنا تھا پہلے اس کے اصول تھے۔ وہ انھیں اصولوں کے مطابق زندگی گزارتا تھا۔ لیکن اب ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
داؤد کا ذکر اس نے جس سے بھی کیا سب نے اسے صاحب کہہ کر پکارا کیونکہ وہ اب PATRON (پیتخوں، یعنی مالک) بن چکا تھا۔
داؤد تیز تیز ڈگ بھرتا چلا آرہا تھا۔ وہ بالکل پہچانا نہیں جارہا تھا۔ رنگ نکھرا نکھرا،خوبصورت کوٹ پتلون، بہترین ٹائی۔اس پے لمبا سا اور کوٹ۔ ایک ہاتھ میں بریف کیس،دوسرے ہاتھ میں موبائیل فون،دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں سونے کی موٹی موٹی انگوٹھیاں۔بالکل ڈون لگ رہا تھا۔ قریب آتے ہی بریف کیس زمین پر رکھا اور آدم کو گلے لگا لیا۔پساج براڈی والے حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ یہ کیا ہورہا ہے۔ کیونکہ جب سے داؤد نے پساج سے ریستوران چھوڑا تھا وہ کسی سے نہیں ملتا تھا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اس کے پاس کافی پیسہ آچکا تھا اور دوسری وجہ تھی داؤد اور بٹ نے مل کر خود کو دیوالیہ ظاہر کیا تھا۔جس سے ان دونوں نے پیسہ تو بہت کمایا لیکن بہت ساری ناراضگیاں بھی مول لیں۔ بٹ اور داؤد آپس میں بھی ناراض ہوگئے تھے۔ اس لیئے بٹ اپنا حصہ لے کر کینیڈاچلا گیا تھا اور داؤد نے کسی کے ساتھ مل کر OPERA (اوپیرا) میں ایک مہنگا ریستوران خرید لیا تھا۔ آدم کے گلے لگتے ہی رونے لگا۔ دونوں باتیں کرتے کرتے پساج کے باہر کھڑی چمکیلی گاڑی کے پاس پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment