Sunday, June 9, 2013

انٹلیکچوئیل، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


انٹلیکچوئل

مجید گجرانوالہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا تھا۔ گاؤں کے چھوٹے سے سکول میں ٹاٹوں پے بیٹھ کر میٹرک پاس کی۔ بڑے اچھے نمبر آئے۔باپ اس کا ان پڑھ تھالیکن چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا مزید تعلیم حاصل کرنے شہر جائے۔اس نے مزید کچھ زمین چوہدری صاحب کے پاس گروی رکھی اور بیٹے کو مزید تعلیم صاحل کرنے کے لیئے گجرانوالا شہر بھیج دیا۔ان کے گاؤں کا ایک شخص نوکری کی تلاش میں گجرانوالا آیا تھااسے ایک دفتر میں کلرک کی نوکری مل گئی تھی۔وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گجرانوالا شہر میں ہی رہتا تھا۔اس طرح مجید کے رہنے کاانتظام ہوگیا۔وہ جی لگا کے پڑھنے لگا اور ساتھ ساتھ ایک فیکٹری میں کام بھی کرتا۔دن اسی طرح گزرنے لگیاور مجید نے ایف ایس سی اور پھر بی ایس سی بھی اس کرلی۔اب وہ اپنے گاؤں کا سب سے زیادہ پڑھا لکھا لڑکا تھا۔وہ چھٹیوں میں گاؤں جایا کرتا اس کی ماں ہمیشہ کہتی مجیدے پت تو شہر جاکر کمزور ہوگیا ہے لیکن وہ اپنی ماں کو تسلی دیتا ایسا کچھ نہیں بلکہ وہ کام اور پڑھائی میں زیادہ دھیان دیتا ہے اس لیئے وہ اس طرح ہے۔لیکن ماں کو کون یقین دلاتا۔ اب کے بار جب مجیدا گاؤں آیا تو اس کی ماں کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی کہ مجیدے کی شادی کردینی چاہیئے لیکن مجیدے نے صاف انکار کردیا۔ اس نے کہا وہ اب مزید پڑھنے کے لیئے لاہور جارہا ہے۔ اس نے داخلے کا تمام انتظام کرلیا ہے اور وہان نوکری کا بھی بندوبست ہوگیا ہے۔ گاؤں کے چند ایک لوگوں کی مجیدے پے نظر تھی۔ کئی ایک لڑکیاں اس کے پیار کی دیوانی بھی تھیں۔لیکن مجیدے پے حصولِ علم کا بھوت سوار تھا۔ آخرکار مجیدہ تمام انتظامات کرکے لاہور چلا آیا۔ مجید نے فلسفے میں ایم اے کرنے کا سوچا۔داخلہ کیا لیا مجید کے راستے ہی بدلنے لگے۔ کارل مارکس، ہیگل،اینگل، کانٹ، روسو، وولتیغ اور جانے کون کون فلسفی تھے جن کے بارے میں گہرائی سے پڑھنے لگا۔ یونانی فلسفیوں سے لیکر ہندوستانی فلسفیوں تک، اطالوی فلسفیوں سے لیکر مسلمان فلسفیوں تک ہر طبقہءِ فکر کو پڑھنے لگا۔ اس طرح مجید نے بڑے اچھے نمبروں میں فلسفے کا امتحان پاس کیا۔پنجاب یونیورسٹی نے اسے گولڈمیڈل دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسے نوکری کی بھی پیش کش کی جو اس نے قبول کرلی۔ اس طرح مجیدا اب پروفیسر مجید بن چکا تھا۔اس سے جب بھی کوئی پوچھتا کہ اتنی جلدی اور چھوٹی سی عمر میں اتنی ترقی کا راز تو وہ ایک ہی جواب دیا کرتا، یہ سب میرے ماں باپ کی دعاؤں کا اثر ہے۔ اب مجید جب گاؤں آتا تو نہ صرف گاؤں کے لوگ بلکہ چوہدری صاحب کی مجیدے کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے۔ ان کا خیال تھا کہ پروفیسر مجید ان کی بیٹی سے شادی کرلے لیکن مجیدے نے بڑی خوبصورتی سے ان کو ٹال دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجید کو گورنمنٹ نے سکالرشپ دیا اور وہ مزید پڑھنے کے لیئے امریکہ چلا گیا۔ امریکہ سے جب مجیدا پی ایچ ڈی کرکے واپس آیا تو پورے گاؤں نے جس طرح اس کا استقبال کیا وہ کسی منسٹر سے کم نہیں تھا۔اب مجیدا ،ڈاکٹر مجید بن چکا تھا۔گاؤں کے لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ کون سا ڈاکٹر بنا ہے بس اتنا جانتے تھے کہ وہ ڈاکٹر ہے۔ مجید چند دن گاؤں میں رہ کر چلا گیا۔شادی کے نام پر وہ بدک جایا کرتا۔مجید اب پاکستان کا جانا مانا انٹلیکچوئل بن چکا تھا۔فلسفے پے کوئی بھی بحث و مباحثہ ہو ٹی وی والے اسے ضرور مدعو کرتے۔اخبارات و رسائل اور بڑی بڑی یونیورسٹیاں، تمام اس کی قابلیت ے قائل ہوگئے۔اب تو مجید کے ماں باپ نے کہا تم اپنی پسند کی شادی کرلولیکن مجید کو کوئی لڑکی اب تک پسند نہیں آئی تھی۔آخرکار وہ دن بھی آگیا جب مجید کو اپنی ہی کلاس کی (جن کو وہ کبھی کبھی لیکچر دیا کرتا تھا) ایک لڑکی
پسند آگئی۔ لڑکی بلاکی خوبصورت تھی۔ تھی بھی بڑی ماڈرن فیملی سے۔زرقا اور مجید کے قصے آہستہ آہستہ یونیورسٹی میں مشہور ہونے لگے۔یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔استاد اور شاگرد کی اکثر دوستی ہوا کرتی ہے۔ایک طرف تو زرقا ، مجید صاحب سے اتنی متاثر تھی کہ اس کی انفیچوئیشن پیار میں بدلنے لگی تھی اور مجید صاحب اپنے فلسفے اور انٹلیکچوئل پن میں اتنے محو تھے کہ انہیں پتا ہی نہ چلا کہ کب ان کو اپنا وجود زرقا کے بغیر نامکمل لگنے لگا۔آخر کار دونوں کی شادی ہوگئی۔ دونوں کے پاس کسی چیز کی کمی نہ تھی۔ شادی کے بعد دونوں کچھ دن گاؤں میں رہے۔ مجید کے ماں باپ خوش بھی تھے اور ناخوش بھی۔ خوش اس لیئے کہ مجید نے شادی کرلی تھی اور ناخوش اس لیئے کہ لڑکی بڑی ماڈرن تھی اور بڑی کمزور تھی۔یہ بات تو صرف زرقا جانتی تھی کہ اپنا فگر مینٹین رکھنے کے لیئے وہ اتنا کھاتی پیتی ہے جس سے وہ جسمانی طور پے فٹ رہے۔ یہ بات گاؤں کے لوگوں کو کیسے سمجھ آسکتی تھی۔خدا خدا کرکے انہوں نے چند دن گاؤں میں گزارے اور لاہور واپس آگئے۔ مجید صاحب یونیورسٹی میں اسی طرح فلسفہ پڑھاتے رہے اور زرقا نے اپنی تعلیم جاری رکھی۔اس دوران لوگوں کو خاص کر مجید کے والدین اور زرقا کے والدین کو بھی فکر لاحق تھی کہ ان کے ہاں اولاد کب ہوگی۔لیکن مجید اور زرقا کو فلسفے سے فرصت ملتی تو کچھ اس طرح کی بات بنتی۔کافی عرصہ گزر گیا۔ اب زرقا کو حیرت ہونے لگی کہ مجید مرد بھی ہے کہ نہیںیا صرف انٹلیکچوئل ہی ہے۔ وہ فلسفے کی طالبہ ضرور تھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک عورت بھی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ اتنی جنسی کشش رکھتی کہ کوئی بھی مرد اس کی طرف کچھا چلا آئے۔اب بھی یونیورسٹی کے کئی لڑکے اس کے لیئے پاگل تھے۔ اس کے باوجود وہ یہ بات کبھی نہیں بھولی تھی کہ مغربی خیالات کی حامل ہوتے ہوئے بھی وہ ایک مشرقی لڑکی تھی۔کسی کی بیوی اور عزت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجید نے زرقا کو بتایا کہ آج ہمارے گھر ایک مہمان آرہا ہے۔ اس کا تعلق اس کے گاؤں سے ہے۔
جب تک اس کی تعلیم نہیں مکمل ہوتی وہ ہمارے پاس ہی رہے گا۔تمہیں اس کا خیال گھر کے فرد کی طرح رکھنا ہوگا۔زرقا کو کیا اعتراض ہوسکتا تھا ۔اتنا بڑا گھر تھا۔ کھانا پکانے کے لیئے خانسامہ تھا اور گھر کی صفائی کے لیئے ایک محترمہ تھیں۔اب زرقا اپنی تعلیم بھی مکمل کرچکی تھی۔وہ سوچ رہی تھی کہ کوئی نوکری کرلے یا کوئی بزنس شروع کردے۔زرقا نے مجید کی ہاں میں ہاں ملائی اور مجید کسی کام سے باہر چلا گیا۔شام کو ان کا مہمان وارد ہوا۔ یہ محترم لمبے تڑنگے، چہرے پے گھنی داڑھی، رنگ گورا، لباس دیہاتیوں کی طرح اور ایک ٹوٹا پھوٹا بیگ۔مجید نے تعارف کروایا، یہ عبدالرشید ہے اور یہ میری بیوی زرقا ہے۔ دونوں تعارف کے بعد بیٹھ گئے۔ مجید نے ملازم کو آواز دی کہ ٹھنڈا یا گرم لے آئے۔اس نے رشید سے کہا، تم چائے وغیرہ پی لو پھر تمہیں زرقا تمہارا کمرہ دکھا دے گی۔ رشید نے کہا ، جی ٹھیک ہے۔مجید نے مزید تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ عبدالرشید نے میرے نقشے قدم پے چلتے ہوئے فلسفے کا مضمون پسند کیا ہے اور یہ میری ہی کلاس میں ہے۔ اس کا بھی ارادہ فلسفے میں پی ایچ ڈی کرنے کا ہے۔زرقا کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ دیہاتی نوجوان جو بمشکل دس بارہ جماعت پاس لگتا ہے ، اتنا زیادہ پڑھا لکھا ہے۔ وہ ونہیں بیٹھے بیٹھے سوچنے لگی کہ اگر اس نوجوان کی نوک پلک سنواری جائے ، تراش خراش کی جائے اور پہناوے میں تبدیلی لائی جائے تو اچھا خاصا سمارٹ آدمی بن سکتا ہے۔خیر چائے کے دور کے بعد وہ اسے اس کا کمرہ دکھانے لے گئی۔ رشید کے لیئے یہ ماحول بالکل نیا تھا۔وہ ذہنی طور پہ تو بالکل ماڈرن تھالیکن حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔اس ذہنی ماڈرنائیزیشن کو خود پے لاگو کرنے کے لیئے تھوڑا وقت چاہیئے تھا۔زرقا نے اسے سوچ کے گرداب سے نکالا اورکہا ، اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور بتائیے گا۔ اس نے شرمائی لجائی آواز میں کہا ، جی ضرور۔رشید نے اپنا بیگ کھولا اس میں دو عدد کپڑوں کے جوڑے اور باقی سب کتابیں تھیں۔اس دوران زرقا جاچکی تھی۔رشید پہلے ہی بہت خوش تھا کہ وہ فلسفے میں ماسٹرز کررہا تھا ۔ وہ اپنے آئیڈل کے نقشے قدم پے چل رہا تھا۔اْن کی کلاس کا بہترین طالب علم تھا اور سب سے بڑھ کے وہ ان
کے گھر میں ان کے گھر کا فرد بن کر رہنے آیا تھا۔یہ اس کے لیئے بہت بڑی بات تھی۔سب سے بڑھ کے یہ کہ یہ تینوں فلسفے جیسے دلچسپ مضمون سے منسلک تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب جب بھی یہ لوگ اکھٹے ہوتے فلسفے پے بحث ہوتی رہتی۔مجید کا اپنا فلسفہ تھا۔ وہ نہ تو رشید سے اتفاق کرتا اور نہ ہی زرقا سے۔وہ فلسفے کی اس انتہا کو پہنچ چکا تھا کہ اس کی باتیں عام آدمی کو کیا فلسفے کے دیگر اساتذہ کو بھی سمجھ نہ آتیں۔رشید اپنے استاد کی چند فلسفیانہ باتوں یا نظریات سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔وہ یہی سوچ کے چپ کرجاتا کہ شاید وہ علم کی اس نہج تک ابھی پہنچا ہی نہیں۔مجید کے نظریات میں کچھ رنگ تو یاں پال ساخت کا تھا اور کچھ سمن دی بوواغ کا۔ اس کے علاوہ وہ فرائیڈ اور مارکس سے بھی بہت حد تک متاثر تھا۔ اس کے پی ایچ ڈی کے تھیسِس پر اسے امریکن یونیورسٹی نے انعام دیا تھا۔ اس کے تھیسِس کے چند نقاط امریکہ کے نامی گرامی اخبار میں بھی چھپے تھے۔انگلینڈ کی مشہور پبلشنگ کمپنیاں جن میں ہارپرکولنز، پینگوین اور فیبرز اینڈ فیبرز اسے کتاب لکھنے کے لیئے بھاری رقم کی پیش کش کرچکے تھے۔ لیکن وہ کتاب لکھنے کے لیئے ابھی ذہنی طور پہ تیار نہیں تھا۔اس کے فلسفے کی بنیاد تھی انسانی رشتوں کا وجود۔مجید کے نظریات یہ تھے کہ جتنے بھی رشتے ہوتے ہیں وہ انسان خود بناتا ہے نہ کے وہ ہوتے ہیں۔جیسے کہ ایک بچہ جب اس دنیا میں آتا ہے تو اس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی ہے یا وہ ہندو ہے۔اس کو ماں باپ کا بتایا جاتا ہے۔اگر اس کی کوئی بہن ہے یا بھائی ہے تو اس کو ان تمام رشتوں کے بارے میں ہم بتاتے ہیں۔حقیقت میں اس کا ان تمام چیزوں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ہم لوگ آس پاس کے ماحول اور حالات سے اس پے یہ بات ثابت کرتے ہیں بلکہ اس کو اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ جو جو چیزیں ہم اْسے بتارہے ہیں اْسے یہ تمام باتیں سیکھنی ہونگی۔مجید نے ایک دو دفعہ قرأن اور بائیبل کے حوالے دیکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ رشتوں کا تقدس نہیں ہوتا کیونکہ رشتے ہوتے ہی
نہیں بلکہ ہم خود تخلیق کرتے ہیں۔ لیکن اس نے اپنے اس طرح خیالات کا پرچار وہیں روک دیا جہاں سے شروع کیا تھا کیونکہ اس کو اپنے ان خیالات کی وجہ سے دھمکیاں ملنے لگی تھیں۔مجید کا اثررسوخ بہت تھااس لیئے وہ اب تک محفوظ تھاورنہ کب کا غائب کردیا گیا ہوتا۔مجید تو اس حد تک آگے نکل گیا تھا کہ اس کے خیال میں بہن بھائی، بیٹا ،ماں، باپ بیٹی بھی شادی کرسکتے ہیں۔بس آپس میں ہم آہنگی ہونی چاہیئے۔اس کے اس طرح کے خیالات کی وجہ سے یورپ اور امریکہ والے اسے بڑے اچھی نظر سے دیکھنے لگے تھے۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مجید پاکستانی تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ مسلمان تھا۔بڑی کوششوں کے بعد ہارپر کولنز والوں کے لیئے مجید ایک کتاب لکھنے کے لیئے راضی ہوگیا۔ اس نے سمن دی بوواغ کی کتاب دوزیئم سیکس یعنی دی سیکنڈ سیکس کو سامنے رکھتے ہوئے پریمیئر سیکس یعنی فرسٹ سیکس کتاب کا نام رکھا۔ اس کتاب میں مردوں کی نفسیات اور ان کی جنسی سرگرمیوں کے بارے میں اس نے لکھنے کا سوچاتھا۔اس کتاب کے لیئے اسے ہارپرکولنز والوں قریباًدو کروڑ روپیہ ایڈوانس رقم دی تھی۔ اس کتاب میں ایک طرف تو اس نے اپنے نظریات کا ذکر کیا اور دوسرا طرف مردوں کی نفسیات اور جنسی سرگرمیوں کا ذکر کیا۔ اس نے یونیورسٹی سے لمبی چھٹی لی اور کتاب لکھنی شروع کردی۔اس دوران زرقا اور رشید ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے کیونکہ مجید کے پاس زرقا کے لیئے وقت ہی نہیں تھا۔ وہ ہر وقت اپنی کتاب کے بارے میں اتنا مصروف رہتا اسے پتا ہی نہ تھا کہ اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔وہ بازار جاتا تو وہاں بھی کتاب کے بارے میں لوگوں سے باتیں کرتا۔مجید رات گئے تک کتاب لکھتا رہتا۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھا کہ رشید اور زرقا میں جسمانی تعلق پیدا ہوگیا ہے لیکن اس نے اس بات پے کبھی اعتراض نہیں کیا کیونکہ اس کا اپنا فلسفہ تھا کہ جنسی تلذذ کھانے کی طرح ہوتا ہے ۔ بھوک کی طرح ہوتا ہے جب اس کی بھوک ہو تو کسی کے ساتھ بھی مٹا لینے چاہیئے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ زرقا کو جنسی بھوک تھی وہ رشید پوری کرے یا مجید اس سے مجید کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ مجید خود کہتا تھا کیونکہ میرا
ذہن ابھی اس طرف مائل ہی نہیں تو میں یہ بھوک کیسے پوری کرسکتا ہوں۔ایک دن تو بڑا عجیب واقع پیش آیا۔ رات کا کوئی ایک بجا ہوگا۔ مجید کو کتاب لکھتے لکھتے نہ جانے کیا خیال آیا وہ ساری چیزیں سمیٹ کر اپنے بیڈ روم میں آگیا۔ اس نے جیسے ہی بتی جلائی اْسے دو ننگے جسم نظر آئے۔ اس نے جھٹ سے بتی بجھا دی۔صرف اتنا کہا ،’’آئی ایم سوری‘‘۔ یہ کر وہ کمرے سے باہر آگیا۔
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)

No comments:

Post a Comment