Monday, June 17, 2013

ساتواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ،SARFRAZ BAIG







۷

جمعے کے دن نیائش چونکہ ملاتی(malatti) یعنی بیماری کہ چھٹی پے تھا اس لیئے وہ ناشتہ کرکے ٹی وی دیکھنے لگا اور میں کچن میں
دوپہر کے لیئے کچھ بنانے لگا۔ نیائش کچن میں آیا اور کہنے لگا،’’ماڑا یہ کیا کر رہے ہو‘‘۔ میں نے کہا، ’’ویسے ہی تھوڑے انڈے آلو بنا رہا ہوں۔ رات کو حلیم اتنی مزیدار تھی ۔ساری ختم ہوگئی۔ میں نے برتن وغیرہ دھوکے رکھ دیئے ہیں‘‘
نیائش بولا، ’’ایک بات پوچھوں‘‘
میں نے کہا،’’پوچھیں نیائش بھائی ‘‘
تو کہنے لگا، ’’تم خود کواتنی تکلیف کیوں دیتے ہو‘‘
میں نے کہا،’’نیائش بھائی تکلیف کیسی خود بھی تو کھانا ہوتا ہے۔ اللہ نے اگر اتنا دیا ہے کہ پیٹ بھر کے کھانا کھا سکیں تو کیوں کفرانِ نعمت کریں‘‘
ماڑا میں وہ بات نہیں کررہا ۔ میں تو یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ جوتم روز کچھ نا کچھ پکا دیتے۔ کبھی بازار سے لے آتے ہو۔یہ بات ٹھیک نہیں ہے۔ تم ابھی کام بھی نہیں کرتے‘‘
’’بس نیائش بھائی اللہ کا کرم ہے‘‘۔
’’خیر جیسے تمہاری مرضی۔ ایسا ہے کہ میں تو آج جمعہ پڑھنے جاؤں گا۔ میرا دس سے بارہ بجے کا ڈاکٹر کا کنٹرول ہے۔ کھانا میں آکے کھاؤں گا۔ ویسے تو جمعے کے دن کام پے ہوتے ہیں۔ آج چھٹی ہے چلو جمعے کی نمازپڑھنے کی سعادت حاصل کرلیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں ہاں کیوں نہیں‘‘۔
’’ماڑا تم نہیں جاؤ گے‘‘۔
میں نے نماز کے حوالے سے تو کچھ نہ کہا لیکن اتنا ضرور کہا، ’’میں ابھی لائبریری جارہا ہوں‘‘۔
اس کے بعد نیائش تو جمعے کی تیاری کرنے لگا اور میں نے چند کاغذ اور بال پین اٹھایا اور لائبریری چلا گیا۔ لائبریری سے میں قریباًشام کو تین بجے واپس آیا۔ آج مجھے یقین تھا گھر کوئی نا کوئی کوئی آئے گا ۔کیونکہ دو چھٹیاں آرہی تھیں۔ اریزو میں ویسے تو لوگ ایک دوسرے کو پانچ دن نظر نہیں آتے لیکن جمعے کی شام اور ہفتے کی شام لوگ ایک دوسرے سے ضرور ملتے ہیں۔ میں نے جو انڈے آلو بنائے تھے۔ ان کے ساتھ تین روٹیاں بنائی پیٹ بھر کے کھانا کھایا۔ اس کے بعد چائے پی۔ چائے پینے کے بعد میں ٹی وی دیکھنے لگا۔ مختلف چینل دیکھنے کے بعد میں ایم ٹی وی چینل پے روک دیا۔ اس وقت ٹاپ ٹین
لگے ہوئے تھے۔ کچھ ڈی جے کی اٹالین سنی جو اٹالین میں انگریزی ملا جلا کے بول رہا تھا۔
چند ایک گانے اچھے تھے۔ میں محظوط ہوتا رہا۔ تھوڑی دیر میں دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔نیائش کے ساتھ کوئی بندا تھا۔ میں نے اٹھ کے سلام دعا کی۔ نیائش کہنے لگا،’’ماڑا یہ اریزو میں منہاج القران کے پریس سیکیریٹری ہیں۔ رحمت صاحب۔ وہ پری پیکر میرا مطلب ہے ثقلین نے ان کے سامنے تمہارے بڑی تعریف کی ہے ۔یہ تم سے ملنے آئے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’رحمت صاحب صرف نام ہی رحمت ہے یا لوگوں کے لیئے واقعی باعثِ رحمت بنتے ہیں‘‘
وہ گھی گھی کر کے ہنسنے لگا۔ ’’جی بس ویسے ہی۔ ثقلین نے بتایا ہے کہ آپ بہت اچھا لکھتے ہیں۔ اریزو میں منہاج القران والوں نے اپنی مسجد بنائی ہے۔ وہ اس سلسلے میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے تو ثقلین صاحب کو کہا تھا کہ تقریر لکھ دو لیکن انہوں نے کہا ہے کہ آپ سے بہتر تقریر کوئی نہیں لکھ سکتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’موضوع کیا ہے‘‘۔
’’ویسے ہی اسلام کے حوالے‘‘۔
میں نے کہا ، ’’میں لکھ دوں گا لیکن اگر کوئی موضوع مل جاتا تو بہتر تھا‘‘
تو رحمت کہنے لگاِ ،’’یہی جو آج کل مسلمانوں کی حالت ہے‘‘
میں نے اس شخص سے مزید بحث کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ مجھے اسے دیکھ کر پتا چل گیا تھا کہ یہ شخص بیوقوف سا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شام کو میں نے سندھی بریانی بنائی۔ میں نے اور نیائش نے بہت زیادہ کھانا کھایا۔ ہم دونوں ثقلین کا انتظار کرتے رہے وہ نہ آیا۔ میں نے سوچا آج ویک اینڈ ہے اس لیئے کسی رفاہی کام میں مصروف ہوگا۔ نیائش کہنے لگا، ’’ماڑا برتن وغیرہ سمیٹ دو۔ بریانی یہیں پڑی رہے۔ اگر آ گیا تو اس کو مائیکرو ویو میں گرم کرکے دے دیں گے۔ اب تو عادت سی ہوگئی ہے۔ آج نہیںآیا تو عجیب سا لگ رہاہے‘‘
’’نیائش بھائی میرے خیال میں وہ ضرور آئے گا‘‘
’’ہاں تم نے اس کو نشے پے جو لگا دیا ہے‘‘۔
جب ہم چائے پی رہے تھے اس وقت رات کے دس بجے ہوں گے۔ ہمارے گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے انٹر کام ہے پوچھا، ’’کی اے یعنی کون ہے‘‘
دوسری طرف سے آواز آئی، ’’میں ہوں، ثقلین دروازے کھولیں‘‘
میں نے دروازہ کھولا۔ ثقلین جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کے اوپر آیا۔ آتے ہی کہنے لگا، ’’آج مجھے لڑکوں نے آنے ہی نہیں دیا۔ وہ کہہ رہے تھے تم روز کھانا باہر کھاتے ہوں۔ آج کھانا گھر پے کھانا کیونکہ بریانی بنائی ہے۔ اس لیئے کھانا کھانے میں دیر ہوگئی۔ ورنہ میں پہلے آجاتا‘‘
ثقلین بھائی چائے ہمارے ساتھ پیجئے گا ۔ ویسے ہم نے بھی بریانی بنائی ہے۔ اگر ہمارے ساتھ کھانا کھاتے تو بریانی ہی ملتی۔ چائے تیار ہے لیکن وہ آپ پیتے نہیں‘‘
’’آج پی لوں گا‘‘
’’آپ کو پتا ہے ہم اب تین پلیٹیں رکھتے ہیں۔ تین گلاس رکھتے ہیں‘‘
نیائش نے دور سے کہا، ’’آؤ ماڑا ساری باتیں دروازے پے ہی کرتے رہو گے‘‘
اس طرح ثقلین اندر داخل ہوا۔ میں نے اس کے لیئے چائے ڈالی۔
اس نے میرے ہاتھ میں چھٹا باب پکڑا یا۔ میں نے ایک کونے میں اگلا باب رکھا ہوا تھا۔ میں نے کہا، ’’ثقلین بھائی یہ رہا اگلا باب لیکن ابھی نہیں جاتے ہوئے لے جائیئے گا‘‘۔
کہنے لگا،’’ٹھیک ہے‘‘۔
ہم تینوں کافی دیر تک گپ شپ لگاتے رہے ۔جب کافی رات ہوگئی تو ثقلین چلا گیا۔ اس کے ہاتھ میں ساتواں باب تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح چھ بجے ہم سب کو جگا دیا گیا۔ آج سمتبر ۲۰۰۲ کی ۱۹ تاریخ تھی۔ان دو دنوں میں کوئی میچ نہیں تھا۔یعنی ۱۹ اور ۲۰ ستمبر کو کوئی میچ نہیں تھا۔ ۲۱ اور ۲۲ تاریخ کو چاروں کوارٹر فائینل تھے۔ آج یادونے چکوچان کو جانا تھا۔ میں اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔ لیکن وہ نہ جانے کب مجھے ملے بغیر ہی چلا گیا۔ میرا نام کسی بھی لسٹ میں نہیں تھا۔ اس لیئے آج مجھے یہیں رکنا تھا۔ جن لوگوں نے یہاں رکنا تھا وہ سارے ہال میں جمع ہونا شروع ہوئے۔ ہال میں ہمیں ناشتہ دیا جانا تھا۔ یہاں پے جو عملہ تھا وہ تھوڑا بہتر تھا۔ اس کا رویہ ہمارے ساتھ بہت زیادہ شائستہ تھا۔ جو آدمی ناشتہ تقسیم کررہا تھا۔ وہ بہت موٹا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسے عدنان سمیع خان کھڑا ہوا۔ میں پلیٹ لے اس کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے میری پلیٹ میں آملیٹ قسم کی کوئی چیز ڈال دی۔ اس کے ساتھ کپ میں سبز چائے ڈال دی۔ اب میں اس طرح کی چائے کا عادی ہوگیا تھا۔ ایک دو دن تو میرے سر میں شدید درد ہوا لیکن وقت گزرنے کا ساتھ میرا درد رفع ہوگیا کیونکہ میں کھانے کے بعد سر درد کی گولی کھا لیا کرتا۔
جب ہم ناشتے سے فارغ ہوگئے تو اس موٹے آدمی نے ہم سب کو کام پے لگا دیا۔ مجھے ایک عورت اپنے ساتھ لے گئی اور کہنے لگی تم نے سارے کمروں میں ویکیوم کلینر سے صفائی کرنی ہے ۔ میں تمہیں سکھاتی ہوں کہ یہ کیسے چلتا ہے۔ میں نے کہا، ’’میں کر لوں گا تم صرفمجھے کمرے دکھا دو‘‘
وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئی اس نے مجھے سارے کمرے دکھائے جومجھے صاف کرنے تھے۔ کچھ لڑکوں نے صفائی کرنے سے انکار کردیا۔ ان سے کہا گیا کہ تم لوگوں کو دوپہر کا کھانا نہیں ملے گا۔ میں کھانے کے لیئے کام نہیں کررہا تھا بلکہ میرے لیئے وقت گزارنا بہت مشکل کام تھا۔ میں نے اس کے بتائے ہوئے طریقے پے کمرے صاف کرنے شروع کردیئے۔ میرے حصے میں وہ کمرے آئے جہاں ہم لوگ ٹھہرے ہوئے تھے۔ میں آہستہ آہستہ کام کررہا تھا اور میرے دماغ کے نہاں خانوں میں زندگی کے مختلف واقعات کی فلم چل رہی تھی۔ یہ بڑا دلچسپ عمل ہوتا ہے۔ میں ہاتھوں اور جسم کو مصروف رکھے ہوئے تھا اور دوسری طرف میرا دماغ اپنے کام میں مصروف تھا۔ کام کے دوران وہ عورت جو میرے سپرد یہ کام کر کے گئی تھی وہ ایک دو دفعہ آئی اور مجھے دیکھ کر گئی کہ میں ٹھیک کام کررہا ہوں کہ نہیں۔ وہ میرے کام سے متاثر ہوئی اور کہنے لگی، ’’تم تو ایسے کام کررہے ہو جیسے تم یہیں کے رہنے والے ہو‘‘۔ میں نے کہا، ’’انسان کو وقت سب کچھ سکھا دیتا ہے‘‘۔ مجھے سے ہمدردانہ لہجے میں کہنے لگی، ’’اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرور کہنا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے کئی دنوں سے یہ جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی ہے ۔اگر کوئی جینز اور ٹی شرٹ مل جائے تو بہت اچھا ہوگا‘‘۔
تو کہنے لگی، ’’یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ جب تم کام ختم کرچکو تو میرے پاس آنا میں تمہیں کپڑے دکھاؤں گی ۔ جو تمہیں پسند آئے اور پورے بھی ہوئے وہ تم پہن لینا اور یہ کپڑے دھونے کے لیئے دے دینا‘‘۔ میں نے کہا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے‘‘۔ تو کہنے لگی، ’’تم اگر سوس میں رک گئے تو تم بہت کامیاب رہو گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت شکریہ‘‘۔
اس کے بعد وہ چلی گئی۔ میں نے تین گھنٹے میں ساراکام ختم کیا۔ اس کے بعد میں اس کے پاس گیا۔ اس نے پوچھا کہ کام ختم ہوگیا تو میں نے کہا، ہاں ختم ہوگیا۔ اب کیسے آئے ۔ تو میں نے کہا، تم نے کہا تھا کہ کام ختم کرکے میرے پاس آنا میں تمہیں کپڑے دوں گی۔تو کہنے لگی، میں معذرت خواہ ہوں۔ میں بھول گئی تھی۔ یہاں پے کام کرنا بہت مشکل ہے۔ ہر روز نئے نئے لوگ آتے ہیں۔ ہر شخص علیحدہ ذہن کا مالک ہوتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئی ۔جس کمرے میں وہ مجھے لے کر آئی تھی۔ اس میں بے شمار جینز اور ٹی شرٹس اس کے علاوہ کئی قسم کی قمیصیں تھیں۔ میں نے ایک دو جینز دیکھیں۔ ایک جینز میرے ناپ کی تھی۔ اس کے علاوہ میں نے ایک ٹی شرٹ پسند کی۔ اٹلی سے چلنے سے پہلے میں نے یہ جینز ،جو میں نے اریزو سے بینیٹن(benetton) کی دوکان سے لی تھی اور ٹی شرٹ سیش (sasch)کی دوکان سے لی تھی ۔یہی جینز اور ٹی شرٹ میں اٹلی سے پہن کر چلا تھا۔ آج بدھ تھا یعنی مجھے یہ کپڑے پہنے ہوئے پانچواں دن تھا۔ مجھے اپنے آپ سے گھن آرہی تھی۔ یہ کپڑے ملنے کے بعد مجھے ایسا لگا جیسے مجھے جنت مل گئی ہو۔ میں نے اس عورت کا شکریہ ادا کیا۔ جلدی سے نہانے چلا گیا۔ نہا کر میں نے جینز جو کہ استعمال شدہ تھی اور ٹی شرٹ بھی کچھ ایسی تھی۔ لیکن صاف اور دھلی ہوئی تھیں۔ میں نے اپنی بینیٹن کی جینز اور سیش کی ٹی شرٹ اس عورت کو دے دی۔ اس نے یہ دونوں چیزیں دھونے کے لیئے بھیج دیں۔ اس دوران دوپہر کے کھانے کا وقت ہوچکا تھا۔ وہی آدمی جو عدنان سمیع خان کی طرح کا تھا، کھانا تقسیم کررہا تھا اور اس کے ساتھ ایک عورت بھی کھانا تقسیم کرنے میں اس کی مدد کررہی تھی۔
مجھے یہاں آئیے ہوئے اتنے دن ہوچکے تھے لیکن مجھے اتنے دن خیال ہی نہ آیا کہ میں مسلمان ہوں اور ہم لوگ حلال کھانا کھاتے ہیں۔یہاں کئی دفعہ گوشت بھی دیا گیا، مرغی کا گوشت بھی دیا گیا۔ مجھے نہیں پتا انہوں نے شاید سؤر کا گوشت بھی ہمیں کھلا دیا ہو۔ مجھے تجسس تھا ۔ میں اس آدمی کے پاس چلا گیا جو کھانا تقسیم کررہا تھا۔ جو بالکل عدنان سمیع خان کا ہم شکل لگتا تھا۔ جس کا ڈیل ڈول بھی اسی کی طرح تھا۔ میں نے انگریزی میں پوچھا، ’’یہ جو کھانا تم ہم لوگوں کوکھانے کو دیتے ہو۔ اس میں گوشت بھی ہوتا ہے۔ تمہیں پتا ہے۔ یہاں کچھ لوگ مسلمان بھی ہیں۔ کیا تم ہم لوگوں کو ایسا کھانا تو نہیں دیتے جو ہمارے مذہب میں منع ہے۔ جیسا کہ سؤر کا گوشت‘‘۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے کچن کی دیوار پے لکھا ہوا دکھایا۔ وہاں کئی زبانوں میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ عربی میں بھی کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں نے پوچھا ،’’یہ کیا لکھا ہوا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’تمہارے سوال کا جواب‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں عربی پڑھ سکتا ہوں لیکن مجھے سمجھ کچھ نہیں آیا‘‘
تو کہنے لگا، ’’تم کس ملک کے ہو‘‘
میں نے کہا، ’’پاکستان‘‘
کہنے لگا، ’’مشرف کا کیا حال ہے‘‘
میں نے کہا، ’’میں نہیں جانتا‘‘
میں بڑا حیران ہوا ۔ لوگوں کو جیسے ہی پتا چلتا ہے میں پاکستانی ہو۔ فوراًپوچھتے ہیں۔ مشرف کا کیا حال ہے۔ اسامہ بن لادن کہاں ہے۔
اس نے مجھ سے کہا، ’’یہاں یہ لکھا ہوا کہ ہمارے ہاں مہاجرین کو سؤر کا گوشت نہیں دیا جاتا۔ اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا کہ مسلمانوں کو حلال گوشت دیا جائے۔ جو کہ اسلامی طریقے سے حلا ل کیا گیا ہو نہ کہ جھٹکے والا۔ اس گوشت کا سارا خون بہایا جاتا ہے۔ جانور پے تکبیر پڑھی جاتی ہے۔ اللہ اکبر اللہ اکبر‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہو‘‘
کہنے لگا، ’’کیونکہ جس آدمی کے پاس یہاں کھانا تقسیم کرنے کا ٹھیکہ ہے وہ مراکش کا ہے۔ اس نے سوس لڑکی سے شادی کی ہے۔ وہ اس بات کا خاص خیال رکھتا ہے کہ مسلمانوں کے جذبات نہ مجروح ہوں‘‘۔
میں جب سے سوس آیا تھا یہاں کے نظام کو تنقیدی نقطع نگاہ سے دیکھ رہا تھا۔ یہاں کا گندہ نالامجھے برا لگ رہا تھا۔ یہاں کے رہنے کا انتظام، کھانا تقسیم کرنے کا انداز مجھے بہت برا لگا تھا جیسے فقیروں کو کھانا دیتے ہوں لیکن یہ بات سن کر میں بہت خوش ہوا۔ کہ انہیں مسلمانوں کے جذبات کا کتنا خیال ہے۔
وہ کہنے لگا، ’’کیاسوچ رہے ہو۔ تم نے مجھے اس پاکستانی سنگر کی طرح نہیں کہا۔ یہاں جو بھی پاکستانی آتا ہے وہ مجھے یہی کہتا ہے کہ میری شکل اور جسم اس سے ملتا ہے۔ اگر زندگی میں کبھی موقع ملا تو اس سے ضرور ملوں۔ تمہارے پاس اس کی کوئی فوٹو ہے‘‘
میں نے کہا، ’’گوگل سرچ انجن پے ڈھونڈوں ۔ اس کی کوئی نا کوئی ویڈیو مل جائے گی‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ تو میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ میں زیادہ یاہو سرچ انجن استعمال کرتا ہوں لیکن گوگل بہت اچھا جارہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں پے انٹر نیٹ کا کوئی انتظام نہیں ‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں یہاں پے نہیں ہے‘‘
میں نے کہا، ’’تمہارا بہت شکریہ ،تم نے میرے ذہن سے ایک بوجھ اتار دیا۔ میں اتنے دن یہی سوچتا رہا کہ میں حرام گوشت کھا رہا ہوں۔ ہمارے مذہب میں مجبوری کی حالت میں ایسا کرنا جائز ہے۔ یہاں ہم مجبور ہی تو ہیں‘‘
کہنے لگا، ’’تم اس بات کی فکر نہ کرو۔ تم جیسے ہی کچی کرائس میں جاؤ گے تمہیں اپنی زندگی میں تبدیلی محسوس ہوگی ۔اگر تم نے چھ مہینے گزار لیئے۔ اگر تمہارا کیس مضبوط ہوا تو اس کے بعد تمہیں کام کرنے کیااجازت ہوگی۔ کیونکہ سوس میں الیگل رہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ یہی ایک طریقہ ہے کہ آپ سیاسی پناہ کی درخواست دیں۔ اس دوران کوئی لڑکی آپ کے ساتھ شادی کرنے کے لیئے راضی ہوجائے تو پکے کاغذ مل جاتے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’اس میں بہت وقت لگتا ہے‘‘
’’ہاں وقت تو لگتا ہے لیکن سب کواس راستے سے گزر نا پڑتا ہے‘‘۔
اس نے میری پلیٹ میں دوبارہ کھانا ڈالا اور میں آکر میز پے بیٹھ گیا۔ اب جو میں نے کھانا کھانا شروع
کیا تو اس کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔
کھانا کھانے کے بعد میں آکے ٹیرس میں بیٹھ گیا۔ یہاں پے وہ دونوں پاکستانی لڑکے بھی میرے پاس آکر بیٹھ گئے۔ ایک تو جس کے گال پچکے ہوئے تھے اور دوسرا جو خود کو افغانی کہتا تھا لیکن مجھے سو فیصد یقین تھا کہ وہ افغانی نہیں۔ وہ لڑکا جس کے گال پچکے ہوئے تھے مجھ سے پوچھنے لگا، ’’تم اس آدمی سے کیا باتیں کررہے تھے‘‘
میں نے کہا، ’’میں اس سے پوچھ رہا تھا کہ جو گوشت ہمیں کاکھانے کو دیا جاتا ہے وہ حلال ہوتا کہ نہیں‘‘
تو کہنے لگا، ’’تو اس نے کیا کہا‘‘؟
میں نے کہا، ’’کہ وہ کہتا حلا ل ہوتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارا نام کیاہے‘‘؟
’’میرا نام ہے مقصود ‘‘۔
افغانی بولا ، ’’میرا نام ہے گلبدین‘‘
میں نے کہا،’’ حکمت یار بھی ملا لو‘‘
کہنے لگا، ’’ہمارے افغانستان میں گلبدین کئی لوگوں کا نام ہوتا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’کچھ لوگ خود بھی تو رکھ لیتے ہیں‘‘
ا س کو میری بات سمجھ نہ آئی۔ میں مقصود اور گلبدین کی گفتگو سے محظوظ ہورہا تھا۔ ہمارے پاس ایک اور موٹا سا لڑکاآیا۔ اس کی عمر اٹھارہ یا بیس سال ہوگی۔ کہنے لگا، ’’میں یہاں بیٹھ جاؤں‘‘
میں نے کہا، ’’بیٹھ جاؤ‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں کل رات کو آیا ہوں‘‘
میں نے کہا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے‘‘
مقصود اسے کہنے لگا،’’ان سے پوچھ لو۔ یہ تمہیں بتائیں گے کہ کون سا کیس کروانا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم اسے جانتے ہو‘‘
کہنے لگا، ’’ہاں جانتا ہوں ۔ اس کا چاچا ہمارے حلقے سے الیکشن لڑتا ہے ۔ ہمارے علاقے کا ایم پی اے ہمیشہ وہی بنتا ہے۔ اس کو نواز شریف نون لیگ والے ٹکٹ دیتے تھے۔ آجکل وہ خود کْھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔ نئی اسمبلی میں وہ شامل نہیں ہیں‘‘
وہ موٹا سا لڑکا بولا، ’’میرے والد صاحب اور ایک چاچا ونٹرتھور رہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو تمہیں سیاسی پناہ کی کیا ضرورت تھی۔ تم اپنے والد صاحب کے ذریعے امیگریشن کروالیتے ‘‘
کہنے لگا، ’’میری عمر اٹھارہ سال سے زیادہ ہوچکی تھی اس لیئے مجھے یہ راستہ اختیار کرنا پڑا‘‘
میں نے کہا، ’’تمہارا انٹرویو ہوچکا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’نہیں لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کیس بناؤں‘‘
مقصود جلدی سے بولا، ’’لڑکوں کا کیس کرواؤ۔ کہنا میں کسی لڑکے کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔ میرے گھر والوں کو پسند نہیں تھا۔ یہ کیس منظور ہوجائے گا۔انہوں نے بھی یہی کیس کروایا ہے‘‘۔
وہ موٹا لڑکا میری شکل دیکھنے لگا۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا تھا یہاں بندوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا تھا۔ کالے، گورے، پیلے، گلابی ہر رنگ کے لوگ اکھٹے ہورہے تھے۔ حالانکہ دھوپ بہت تیز تھی اور گرمی بھی بہت تھی۔ جسم میں ایک عجیب سی چپ چپاہٹ تھی۔ آس پاس درختوں کی تعداد بہت زیادہ جس کی وجہ سے فضاء میں نمی بہت زیادہ تھی۔ درخت بھی ناجانے کون سی گیس خارج کررہے تھے کہ فضاء میں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے ان لڑکوں سے اجازت لی اور اٹھ کے ایک کونے میں چلا گیا۔ نیچے باغ میں ایک سیکیورٹی گارڈ ایک جرمن شیفرڈ کتے کے ساتھ چکر لگا رہاتھا۔ میں اس ٹیرس کے ایک کونے میں جاکے بیٹھ گیا۔اس سیکیورٹی گارڈ نے مجھے نیچے سے ہیلو کہا۔ میں نے جواب میں ہیلو کہا۔ مجھے سے پوچھنے لگا کہاں کے ہو۔ میں نے کہا، پاکستانی ہوں۔ اس نے بھی مجھ سے وہی بھونڈا سوال کیا مشرف کاکیا حال ہے۔ بن لادن کدھر ہے۔ میں بڑا حیران ہوا ۔پاکستان کے حوالے سے صرف دو ہی چیزیں مشہور ہیں۔ یا یوں کہنا چاہیئے بدنامی کا باعث ہے۔ یا تو پاکستان میں مشرف ہے یا پاکستان میں طالبان ہیں۔ یہ کوئی نہیں کہتا کہ پاکستان میں اونچے پہاڑ ہیں۔ ہمارے ہاں جھیلیں ہیں۔ دنیا کے بڑے گلیشیئرز میں سے ایک پاکستان میں بھی ہے۔ دنیا کی دوسری اونچی چوٹی پاکستان میں ہے۔ دنیا کے دس بڑے دریاؤں میں ایک پاکستان میں ہے۔ دریائے سندھ جو کے انڈس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جس کی لمبائی ایک ہزار آٹھ سو کلومیٹر ہے۔ یہ دریائے نیل، دریائے مسسپی (Missississipi)اور چینی دریا جسے پیلا دریا بھی کہتے ہیں کی طرح لمبا دریاہے۔ دنیا کا سب سے اونچا پولو گراونڈ پاکستان میں ہے۔ دنیا کا سب سے اونچا درہ پاکستان میں ہے۔ یہ بات کوئی نہیں
کرتا۔ حالانکہ میں جب گائیڈنگ کرتا تھا تو ان دنوں میں سب سے زیادہ رفاہی ادارے جو پاکستان میں کام کررہے تھے اور کر رہے ہیں وہ سوس تھے۔ میں انہی خیالوں میں محو تھا رات کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ جو یہ شام کو چھ بجے دیتے تھے۔ مجھے یہاں پے ایک دن گزارانا ایسا لگا جیسے مرزا غالب نے کہا تھا،
’’کاوے کاوے سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کر نا شام کا لانا جوئے شِیر کا‘‘
ہم سب اپنی اپنی پلیٹ لے کے بھکاریوں کی طرح قطار میں کھڑے ہوگئے۔ ہمارے ساتھ وہ لڑکا بھی قطار میں کھڑا ہواگیا جس کا چاچا گجرات شہر سے کئی دفعہ ایم پی اے بن چکا ہے ۔جو اب مارشل لاء
ختم ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ کب میاں صاحب کوئی جادو کی چھڑی گھمائیں اور وہ دوبارہ ایم پی اے کا الیکشن لڑے ۔ لیکن اس وقت اس کا بھتیجا قطار میں بھکاریوں کی طرح کھڑا ہوکے کھانا وصول کررہا تھا۔
میں نے کہا، ’’تمہیں عجیب سا نہیں لگ رہا ‘‘۔
کہنے لگا، ’’تھوڑے دنوں کی بات ہے۔ جب کچی کرائس مل جائے گی تو میرا باپ مجھے روز ملنے آیا کرے گا بلکہ میں دن کو انہی کے پاس رہا کروں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر گجرات میں کسی کو پتا چل جائے ہمارے ایم پی اے میرا مطلب سابقہ ایم پی اے کا بھتیجا سوس میں بھکاریوں کا طرح کھانا وصول کررہا ہے تو وہ کیا کہیں گے‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’انہیں کوئی بتائے گا تو تب بات کریں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ لڑکا بھی تمہارے گاؤں کا ہے،مقصود‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’اس کی اتنی جرأت نہیں کہ یہ ایسی بات کرے۔ جب یہ یہاں سے نکلے گا تو اس کے کام کا بندوبست میرے چاچے نے ہی کرنا ہے‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا۔ خیر میں نے اپنا کھانا لیا اور آکر میز پے بیٹھ گیا۔ یہاں پے بڑے ہال کی طرح نہیں تھا۔ جہاں لمبے لمبے بینچز پڑے ہوئے تھے۔ یہاں چھ چھ بندوں کے لیئے ایک میز تھی۔ جس کا جہاں دل کرتا بیٹھ جاتا۔ میرے ساتھ وہ دونوں پاکستانی آکر بیٹھ گئے اس کے بعد وہ موٹا لڑکا بھی بیٹھ گیا جس کا چاچا سابقہ ایم پی اے تھا۔ ہمارے ٹیبل پے اب بھی دو بندوں کی جگہ خالی تھی۔ دو بندے ہم سے اجازت لے کر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں پوچھا، ’’تم لوگ پاکستانی ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہیں کیسے پتا چلا‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’میرا خیال تھا،غلط بھی ہوسکتا ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارا اندازہ بالکل ٹھیک ہے۔ ہم چاروں پاکستانی ہیں ۔ تم دونوں کس ملک کے ہو‘‘
جس نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہ کہنے لگا، ’’میں لبنان کا رہنے والا ہوں ‘‘
دوسرا بولا،’’میں ایرانی ہوں‘‘
میں نے کہا، ’’یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ ہمیں دو نئے ملکوں کے لوگ ملے ہیں‘‘۔
ایرانی مجھے کہنے لگا، ’’مجھے پہلے لگا تم ایرانی ہو کیونکہ تمہارا ناک نقشہ ایرانیوں جیسا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہوسکتا ہے‘‘۔
میں نے دونوں سے نام پوچھا۔ لبنانی بولا، ’’میرا نام عادل ہے ‘‘
ایرانی بولا میرا نام رضا بہقی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ سبزواری ہے‘‘
میں نے جیسے ہی فرشتہ سبزواری کہا، تو وہ ایرانی چونکا۔ کہنے لگا، ’’یہ نام ایرانی ہے۔ تمہیں پتا ہے سبزوار ایران کا ایک شہر ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں زیادہ تو نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہمارے بزرگ ایران سے ہجرت کرکے انڈیاء آئے تھے۔ انڈیاء سے ہمارے بزرگ پاکستان آگئے لیکن وہ لوگ انڈیاء سے پاکستان تقسیمِ پاک و ہند سے پہلے آئے تھے‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’تمہیں پتا ہے سبزواری بہت قابل لوگ ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں دوسرے سبزواریوں کے بارے میں تو نہیں جانتا لیکن میرے دادا ہر وقت کتابیں پڑھتے رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی کتابوں میں گزار دی‘‘۔
جب میں اس ایرانی سے باتیں کررہا تھا مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ میرے آس پاس کوئی بیٹھا ہے۔ وہ پاکستانی تو بالکل خاموشی سے بیٹھے رہے لیکن لبنانی کبھی کبھی کوئی نا کوئی لقمہ دے دیا کرتے۔ ایرانی کی عمر چالیس اور پینتالیس کے دمیان تھی جبکہ وہ لبنانی بیس سے چوبیس سال خوبصورت جوان تھا۔
وہ ایرانی مجھے بہت دلچسپ شخصیت لگا کیونکہ میرے نام کے حوالے سے کبھی بھی کسی نے بات نہ کی۔ مجھے سکول اور کالج میں بھی کوئی سبزی والا اور پیلاواری کہتا۔ کسی کو نہیں پتا تھا کہ سبزواری کو بقول رضا سبزیوواری تھا پاکستان پہنچتے پہنچتے سبزواری بن چکا تھا، ایران کا ایک مشہور شہر ہے جہاں کے پھل اور خشک میوہ جات بہت مشہور ہیں۔ رضا بتا رہا تھا کہ سبزوار اور جہا ں کے رہنے والے سبزیواری یا سبز واری ہوتے ہیں ،یہاں پے ایئر پورٹ بھی ہے۔ اور یہ شہر زمینی راستے سے مشہد سے دوسو کلومیٹر دور ہے۔ اس کے ایک طرف نیشا پور ہے اور دوسری طرف اسفاران ہے۔
یہاں کی آبادی دو لاکھ کے قریب ہے اور یہاں دو یونیورسٹیاں بھی ہیں۔ یہاں پے ایران کے کئی قابل لوگ بھی پیدا ہوئے ہیں۔ مجھے آج تک یہ نہیں پتا کہ میرے نام کی وجہ شہرت کیا ہے۔ میرے دادا اس بارے میں جانتے تھے لیکن انہوں نے اس بارے میں مجھے زیادہ کبھی نہ بتایا تھا۔ میں ایک ہی بات جانتا تھا کہ اس نام کا کراچی میں ایک اداکار ہے بہروز سبزواری۔ وہ ٹی وی کے ڈراموں میں مزاحیہ کردار کیا کرتا تھا ۔ اب بھی کرتا ہوگا۔ اس نے کچھ فلموں میں بھی کام کیا لیکن اسے وہاں زیادہ کامیابی نہ ہوئی۔ یہی ایک سبزواری تھا جس کے بارے میں میں جانتا تھا۔ وہ بھی اس سے ذاتی طور پے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔ نہ ہی کبھی دل میں اس طرح کی خواہش نے جنم لیا۔
میرے ساتھ جب چکوچان کی ملاقات ہوئی تھی ۔میرا خیال تھا کہ اس سے دلچسپ گفتگو رہے گی۔ لیکن وہ جھیل کی طرف جاتے ہوئے جب موبائیل فون کے بارے میں بتا رہا تھا تو اس نے جیسے ہی جھیل کا پانی دیکھا سارا کچھ بھول کے پانی میں کود گیا تھا۔ میرا تجسس ادھورا ہی رہا۔ اس کے بعد اب رضا سے ملاقات ہوئی ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ شخص بھی ذہین اور دلچسپ لگتا ہے گو کہ عمر میں کچھ زیادہ بڑا لگتاہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اب میں یہ نہیں جانتا مجھے یہاں کتنے دن رکنا ہے۔ کیونکہ میرامیڈیکل باقی ہے۔ آج بدھ تو گزر گیا کل جمعرات ہے اس کے بعد جمعہ۔ ہفتے اور اتوار کو یہ لوگ ویسے بھی کام نہیں کرتے۔ میرے خیال میں ان دو دنوں میں میرا میڈیکل ہوجانا چاہیئے ورنہ مجھے یہاں رہتے ہوئے کافی دیر ہوجائے گی۔ میرے لیئے وقت گزارنا بہت مشکل کام تھا۔ یہاں کچھ پڑھنے کو بھی کچھ نہ تھا۔ کام کے دوران تھوڑا سا وقت گرز جاتا۔
ہم لوگ کھانا کھاکے اپنی اپنی پلیٹ ٹرے میں رکھ آئے جہاں ساروں نے پلیٹیں اکھٹی کی تھیں۔ اس کے بعد میں کچن میں کھانا تقسیم کرنے والوں کی مدد کروانے چلا گیا۔ وہاں سے گھنٹے بعد فارغ ہوا تو آکر ٹیرس میں بیٹھ گیا۔ رضا نہ جانے کہاں غائب ہوگیا۔ وہ تینوں پاکستانی بھی نظر نہ آئے ۔ میں نے اپنی کرسی تین چار افریقن لڑکوں کے پاس کرلی۔ ان سب کے نام ولیم، مائیکل، جارج،تھومس،ڈیوڈ تھے۔ مائیکل مجھے کہنے لگا، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستانی ہوں‘‘۔ کہنے لگا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔میرا سب سے اچھا دوست پاکستانی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کہاں ، یہاں سوس میں‘‘
کہنے لگا، ’’نہیں نہیں ،نائیجیریاء میں ۔اس کا نام ندیم ہے۔ ان کے وہاں کئی سپر سٹور ہیں‘‘
میں بڑا حیران ہوا کہ پاکستانی نائیجیریاء میں بھی ہیں۔ میں یہ تو جانتا تھا کہ کینیاء میں بہت سارے پاکستانی یا یوں کہنا چاہیئے ہندی یا اردو بولنے والے پاکستانی یا انڈین پاکستان بننے سے پہلے وہاں جاکے رہنے لگے تھے لیکن مجھے نائیجیریاء کا نہیں پتا تھا۔
ان لڑکوں کی انگریزی میرے پلے نہ پڑتی تھی۔ یہ کوئی نئی قسم کی انگریزی تھی۔ وہ عجیب ڈاڈا کرکے بولتے۔ اور اتنا اونچابولتے جیسے لڑائی کررہے ہوں۔ میرے خیال میں وہ انگریزی میں اپنی مقامی زبان ملا کے بول رہے تھے۔ جس طرح سینیگال کے لوگ اپنی زبان بولتے بولتے کوئی نا کوئی لفظ فرینچ کا بھی بول دیتے ہیں۔ یہاں پے کافی دیر گپ شپ کے بعد ہمیں اٹھنے کو کہا گیا۔ ہم سب نے مل کر ٹیرس کی ساری کرسیاں اکھٹی کیں۔ ٹیرس کو صاف کیا۔ اس کے بعد ہم سب سونے کے لیئے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ انہی کمروں میں چلے گئے جہاں ایک کمرے میں سولھاں بستر لگے ہوئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج صبح جب ہمیں جگایا گیا تو ہمیں پہلے ہی بتادیا گیا کہ کون کون اس بیرک نماں عمارت میں جائے اور کون کون یہا ں رکے گا۔ میرا نام بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اس بیرک نماں عمارت میں جانا تھا۔ آج بھی کوئی میچ نہیں تھا۔ آج جمعرات تھی ۔ کل دو میچ ہونے تھے۔ دونوں کوارٹر فائینل تھے۔ پہلا میچ جرمنی اور امریکہ کا تھا دوسرا میچ انگلینڈ اور برازیل کا تھا۔
میں اس بیرک نماں عمارت میں جانے کی تیاری کرنے لگا۔ نیچے جاکے لانڈری والے سے کہا کہ میری جینز اور ٹی شرٹ دے دو اگر دھل گئی ہے تو۔ ٹی شرٹ کا جواب مجھے اسی وقت مل گیا۔ میری ٹی شرٹ ایک عورت نے پہنی ہوئی تھی۔ یہ وہی سری لنکن عورت تھی جس کو میں نے پہلے دن اس افریقن لڑکے کے ساتھ بائیبل کے کسی موضوع پے باتیں کرتے ہوئے سنا تھا۔ اس کی ایک بیٹی بھی تھی۔اب میں اس کو کیسے کہتا کہ میری سیش کی ٹی شرٹ اتارو۔ میں نے بڑے شوق سے اریزو شہر کی مشہور گلی کورسو اتالیہ (Corso Italia)سے لی تھی۔ جینز مجھے مل گئی۔ بینیٹن کی یہ جینز میں نے اٹلی آتے ہی لی تھی۔ کئی دفعہ دھلنے کے بعد گھٹنوں سے تھوڑی تھوڑی پھٹ گئی تھی۔ لیکن آجکل فیشن تھا اس لیئے بری نہیں لگتی تھی۔ میں نے جلدی سے جینز لی ۔یہیں قریب ہی باتھ روم میں بدلی اور جو جینز اس عورت نے مجھے دی تھی دوبارہ دھونے کے لیئے دے دی۔ ہم سب اسی ٹیوٹا وین میں اس بیرک نماں عمارت میں لائے گئے۔ یہاں ناشتہ کرنے کے بعد ہم سب نے جھیل کی راہ لی۔ میں نے بڑی مشکل سے سب کو چکما دیا اور کرائس لنگن شہر چلا گیا۔ جو سڑک جھیل کو جاتی تھی اس کے بالکل متوازی ایک اور بڑی سڑک تھی جو سٹیشن کے پاس سے ہوتی ہوئی بازار کی طرف جاتی تھی۔ جو سڑک سٹیشن کے ساتھ ساتھ تھی اسی روڈ پے وہ انٹر نیٹ کیفے تھی
جہاں میں اپنا موبائیل فون اس ہلکی ہلکی موچھوں والے آدمی کے پا س چھوڑ آیا تھا۔ میں چاہتا تو جا سکتا تھا اور اس سے کہہ سکتا تھا کہ میرا موبائیل مجھے واپس کردو لیکن میں اسے کہاں رکھتا۔ مہاجر کیمپ میں کسی کے پاس موبائیل فون نہیں تھا۔ اور ویسے بھی انہیں شک ہوجاتا۔ میں بازار میں چلتے چلتے آس پاس دوکانوں کو دیکھنے لگا۔ یہاں پے دوکانوں کے برأمدوں میں سیاح بیٹھے ہوئے تھے۔ کئی دوکانوں ،ہوٹلوں اور ریستورانوں کے باہر رنگ برنگی جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ کچھ جگہوں پے فٹبال کی ٹیموں کے بھی جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ زیادہ جھنڈے برازیل کے تھے ۔ایک دو جھنڈے ترکی کے بھی لگے ہوئے تھے۔ راستے میں جابجا رنگ برنگی نقلی سوانز سجی ہوئی تھیں۔ میں نے راہ چلتے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ سوانز کس نے بنائی ہیں۔ اس نے میرے ہاتھ میں ایک پیمفلٹ تھما دیا۔ اس پے تفصیل سے لکھا ہواتھا کہ کن کن جگہوں پے اس طرح کی سوانز سجائی گئی ہیں۔ کل پندرہ سوانز پورے کرائس لنگن میں مختلف جگہوں پے سجائی گئی تھیں ۔ہر سوان مختلف تھی۔ میں چونکہ اٹلی سے آیا تھا اور پاکستان میں ٹورسٹ گارئیڈ رہا تھا ۔گو کہ مجھے اس کام کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ ایک سال ہی ہوا تھا لیکن مجھے ایسا لگنے لگا تھا جیسے میں نے یہ کام کبھی کیا ہی نہیں۔ لیکن جب بھی کوئی تاریخی چیز دیکھتا یا ایسی کوئی چیز جس کا تعلق فنونِ لطائف سے ہوتا مجھے اپنی طرف ضرور کھینچتی۔ میں کسی پاکستانی کے ساتھ آتا تو وہ مجھے کبھی یہ چیزیں نہ دیکھنے دیتا۔ کرائس لنگن کا یہ بازار بہت صاف ستھرا تھا اور سڑک بہت کشادہ تھی۔ سڑک کے دونوں کناروں اونچے اونچے درخت تھے۔ چلتے چلتے میں ایک باغ میں داخل ہوا۔باغ میں کیاروں کی مدد سے مختلف نقش و نگار بنائے گئے تھے۔ بے شمار پھول اگے ہوئے تھے۔ مجھے تھوڑی دیر کے لیئے گمان ہوا کہ میں اسلام آباد کے کسی باغ میں گھوم رہا ہوں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمارے ہاں بہار کا موسم مارچ اور اپریل میں شروع ہوتا ہے جبکہ یہاں کرائس لنگن میں بہار جون کے مہینے میں جوبن پر تھی۔ باغ میں اکا دکا لوگ تھے کیونکہ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی۔ مجھے بارہ بجے سے پہلے واپس بھی جانا تھا کیونکہ انہوں نے دوپہر کا کھانا دینا تھا۔ میرے پاس ابھی پچاس منٹ تھے۔ میں اس باغ میں گھومتا رہا اس کے بعد میں نے سڑک کے کنارے چلنا شروع کردیا۔ آہستہ آہستہ دوکانوں کی تعداد میں کمی واقع ہورہی تھی۔ سڑک کے اس پار ایک بہت بڑی سپر مارکیٹ تھی۔ جس طرح اٹلی میں کوپ، اپرکوپ، ایسے لنگا، ڈیسپار، یوروسپار اور پام جیسے سٹور تھے یہاں سوس میں می گروس(migros) کے نام سے سٹور ہے۔ یہ سٹور جو سڑک کے اس پار تھا اس کانام تھا می گروس۔ میرے پاس تو پیسہ دھیلا تھا نہیں اس لیئے میرے اندر جانے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا تھا۔ میں سڑک کی جس طرف چل رہا تھا ،چلتا رہا۔ آگے جاکے دوکانیں ختم ہوگئیں اور لوگوں کے گھر شروع ہوگئے۔ سڑک کے آخر میں ایک عمارت نظر آئی۔ یہ تین منزلہ عمارت میرے خیا ل میں کوئی ہوٹل تھا۔ اس کا رنگ نیلا اور کھڑکیاں سفید تھی۔ جب میں قریب پہنچا تو میرا ندازہ ٹھیک نکلا۔ اس کا نام تھا ’’بلو ہوٹل ‘‘ یعنی نیلا ہوٹل۔ جب سے میں سوس آیا تھا یہ سوانز کے بعد دوسری چیز تھی جس نے مجھے متاثر کیا۔ یہ نیلے رنگ کی عمارت سفید کھڑکیوں کے ساتھ بہت بھلی لگ رہی تھی۔ اس کے باہر چند گاڑیاں کھڑی تھیں اور ایک کونے میں لکڑے کے سائن بورڈ پے بھی ’’بلو ہاوس‘‘ لکھا ہوا تھا ۔میرے پاس گھڑی نہیں تھی اس لیئے میں نے سوچا واپس چلنا چاہیئے۔ کیونکہ میرا دیر سے پہنچنا میرے لیئے مصیبت کا باعث بھی بن سکتا تھا۔ میں انہیں درختوں کی چھاؤں میں واپس چلتا ہوا اسی روڈ پے آگیا جہاں میں پہلے دن آیا تھا۔ گو کہ اب درختوں کے سائے اس طرح نہیں تھے جس طرح پہلے تھے۔ درختوں کا سایہ نوے ڈگری کے زاویئے سے بدلتا ہے۔ زمین چونکہ سورج کے گرد گھومتی ہے اس لیئے سال کے تین سو پینسٹھ دن سایہ روز اپنی جگہ بدلتا ہے۔ یعنی ہر چیز کا سایہ تین سو پینستھ رنگ کا ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اس لیئے اس کے نکلنے اورنظر آنے کے مناظر ہر مہینے بدلتے ہیں۔ اب میں اس کیفے کے پاس سے گزر رہا تھا جہاں میں اپنا موبائیل فون چھوڑا تھا۔ اس وقت یہ نیٹ کیفے بند تھی ۔نہ ہی مجھے اس سے موبائیل فون لینا تھا۔ میں سٹیشن کی اسی ٹنل نماں راہ داری سے گزر کے پہلے
کونساتز سترازے پے آیا اور اس کے ساتھ ہی میں دوبل لس سترازے ی طرف مْڑ گیا جہاں ہمارا مہاجر کیمپ تھا۔ میں سیدھا کیمپ کی طرف گیا۔ پہلے سیکیورٹی گارڈ نے میری تلاشی لی اس کے بعد مجھے اندر جانے دیا۔ اندر پہنچا تو عجیب قسم کی ہلچل تھی۔ میں نے مقصود کو ڈھونڈا۔ وہ ایک کونے میں کھڑا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا ہوا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’انگولا کا کوئی لڑکا ہے اس نے سیکیورٹی گارڈ کو مارا ہے۔ اس کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’لڑائی کیوں ہوئی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے نہیں پتا لیکن سب کہہ رہے ہیں سیکیورٹی گارڈ کی غلطی تھی‘‘۔
مجھے اس بات کا تجسس تھا کہ اس کہانی کا اصل ماخذ کیا ہے۔ اس انگولا کے لڑکے نے مجھے کافی پلائی تھی۔ میں اس کا یہ احسان کیسے بھول سکتا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد میں باغ میں جا کے سستانے لگا۔ وہاں وہ سری لنکن عورت اپنی بیٹی کے ساتھ بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ اس نے میری سیش والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔مجھے بہت برا لگا لیکن میں اسے کیا کہہ سکتا تھا۔ یہاں باغ میں مجھے مائیکل مل گیا۔
میں نے مائیکل کو ہیلو ہائے کہا۔ وہ بہت خوش ہوا ۔مجھے کہنے لگا، ’’میرے دوست کیا حال ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہوں‘‘۔ میں نے سوالیہ انداز میں کہا، ’’میں نے سنا ہے یہاں پولیس آئی تھی‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں آئی تھی۔ انگلولا کے لڑکے نے ایک سیکیورٹی گارڈ کو مارا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیوں ‘‘
’’اس سیکیورٹی گارڈ نے اسے ماں کی گالی دی تھی‘‘۔
’’لیکن اسے کیسے سمجھ آئی‘‘
کہنے لگا، ’’’تمہیں نہیں پتا انگولا، پرتگال کی کالونی رہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے نہیں پتا لیکن پرتگال کا اس انگولا کے لڑکے ساتھ کیا تعلق ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’تعلق ہے۔ انگولا میں سرکاری زبان پرتگالی ہے۔ وہ سیکیورٹی گارڈ پرتگالی زبان بولتا تھا۔ ویسے تو وہ سوس نیشنل ہے لیکن اس کے ماں باپ پرتگال سے ہجرت کرکے سوس آئے تھے ۔اس سیکیورٹی گارڈ نے انگولا کے لڑکے کے ساتھ بد تمیزی سے بات کی۔ جب اس نے اس کی بات نہ سنی تو اس نے اس کو پرتگالی زبان میں گالی دی۔ وہ انگولا کالڑکا پرتگالی زبان سمجھتا تھا۔ یہ بات سیکیورٹی گارڈ کو نہیں پتا تھی۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے جیسے ہی گالی دی اس لڑکے نے گھوم کے لات ماری اور اس کے سامنے والے دو دانت توڑ دیئے۔ سیکیورٹی گارڈ کو ایمبولیس لے گئی اور اس کو باقی سیکیورٹی گارڈز نے قابو کرلیا۔ اس نے بہت کوشش کی کہ جان چھڑا لے لیکن وہ ان کے چنگل سے نہ نکلا سکا۔ آخر کار پولیس آکر اسے لے گئی‘‘۔
مجھے بڑا افسوس ہوا۔ میں نے کہا، ’’اب اسے ڈیپورٹ کردیں گے‘‘۔
مائیکل کہنے لگا، ’’نہیں جب تک اس کے کیس کا فیصلہ عدالت نہیں کرتی وہ جیل میں ہی رہے گا‘۔ ایسا عین ممکن ہے اس کی سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوجائے‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا۔ اس انگلولا کے لڑکے میں اتنی طاقت تھی۔ بظاہر تو دبلا پتلا نظر آتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مائیکل چلا گیا تو میں باغ میں بیٹھے بیٹھے اکتا گیا۔ میرے پاس دو گھنٹے باہر جانے کا اجازت نامہ تھا ۔ میں نے سوچا جھیل کے کنارے چلنا چاہیئے۔ میں باغ سے اٹھا اور سکیورٹی گارڈ کو اپنا کارڈ دکھا کر باہر چلاآیا۔ میں اس گندے نالے کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ جب میں باہن ہوف سترازے پے پہنچا تو میں نے پیچھے سے کسی کی آواز سنی۔ مجھے بہت غصہ آیا۔ میں نے سوچا تھا آج سب سے چھپ کے اکیلا جاؤں گا لیکن میرے نصیب میں سکون نہیں تھا۔ وہی پچکے ہوئے گالوں والا مقصود میرے پیچھے پیچھے آرہا تھا ۔ میرے پاس پہنچ کے کہنے لگا، ’’آج صبح میں ایک جگہ گیا تھا ۔وہاں کتابیں بھی ہیں۔ تمہیں کتابیں پڑھنے کا شوق ہے تو میرے ساتھ چلو‘‘
میں نے کہا، ’’تمہیں کیسے پتا ہے کہ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے‘‘
کہنے لگا، ’’میرا خیال ہے۔ بلکہ ہم سب کا خیال ہے۔ تم انگریزی بھی جانتے ہوں۔ ہر کسی سے بات بھی کرلیتے ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بس گزارا کرلیتا ہوں‘‘۔
مجھے اس بات کی خوشی تھی چلو کوئی نا کوئی کتاب مل جائے گی تو وقت اچھا گزرے گا۔ ہم دونوں کوستانزسترازے پے چلتے چلتے ایک عمارت کے پاس پہنچے۔ اس کے سامنے تو کسی لیبارٹری کا بورڈ لگا ہوا تھا لیکن مقصود مجھے اس کی پچھلی طرف لے گیا۔ پچھلے طرف لوہے کی مضبوط سیڑھیاں تھیں۔ ہم نے پہلی منزل طے کی اس کے بعد دوسرمنزل طے کی ۔تیسری منزل پے پہنچتے ہی مقصود نے ایک لکڑی کے دروازے پے دستک دی۔ جھٹ سے دروازہ کھل گیا۔ ہمارے سامنے ایک سنہرے بالوں والی عورت کھڑی تھی۔ اس کی عمر پچاس سال سے زیادہ تھی۔اس نے ہم دونوں کو اندر داخل ہونے کوکہا۔ مقصود نے اپنی علم کے مطابق اس عورت کو سمجھایا کہ میں کون ہوں۔ پھر میں نے خود ہی اس کو سمجھایا کہ میں کون ہوں اور میرا یہاں آنے کامقصد کیا ہے۔ میں نے جیسے ہی کمرے میں نظر دوڑائی تو کیا دیکھا کہ یہاں مہاجر کیمپ کے اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں عورتیں، بچے، جوان سبھی تھے۔ یہ لوگ سربیاء ، کوروآتسیاہ اور کوسوا کے تھے۔ اس عورت نے مجھ سے پوچھا ، اگر کوئی خواہش ہو تو بتاؤ۔ میں نے کہا، اگر چائے مل جائے تو مجھے دنیا میں جنت مل جائے گی۔ تو کہنے لگی ، ہمارے پاس چائے کی پتی ہے اگر تم خود بنانا جانتے ہوں تو بنا لو۔ وہ کونے میں چولہا ہے۔ میں نے پوچھا پہلے مجھے یہ تو بتاؤ کہ یہ کون سا ادارہ ہے۔ کہنے لگی ،اس ادارے کا نام ’’آگا تھو‘‘(agathu)۔ یہ مجبور اور بے گھر لوگوں کی مدد کے لیئے کھولا گیا ہے۔ ہم
مہاجرین کی بھی مدد کرتے ہیں۔ اگر کسی کو وکیل کی ضرورت ہو تو اس کو مفت وکیل فراہم کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، سوس لوگوں کو کچھ زیادہ شوق نہیں چیرٹی سنٹر کھولنے کا۔کہنے لگی، میں اوروں کے بارے میں تو نہیں جانتی لیکن یہ بالکل صحیح بنیادوں پے کھولا گیا ہے۔
میں نے کونے میں پڑے ہوئے بجلی سے چلنے والے چولہے پے چائے بنائی ۔بالکل بد ذائقہ چائے بنی لیکن میں نے بڑی خوشی سے پی۔ اسنے مجھے کھانے کو بسکٹ بھی دیئے۔ مقصود مجھے دیکھ کے بڑا حیران ہوا۔
کہنے لگا، ’’میں اسی لیئے تمہیں یہاں لے کر آیا تھا۔ ان سے کہو اگر کوئی کپڑے ان کے پاس ہوں تو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پوچھ لیتا ہوں لیکن یہ کچھ مناسب نہیں‘‘۔
’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہاں کون دیکھ رہا ہے‘‘۔
میں نے عورت سے پوچھا کہ تم لوگوں کے پاس کپڑے ہیں۔ وہ مجھے ایک کمرے میں لے گئی۔ وہاں تہ در تہ کپڑے رکھے ہوئے تھے۔ کہنے لگی تمہیں جو پسند ہوں لے لو۔ ہمیں کپڑے مختلف دوکانوں والے بھیجتے ہیں۔ ان کا جو مال نہیں بکتا وہ رفاہی اداروں کو بھیج دیتے ہیں۔ کچھ کپڑے ہمیں لوگ دے جاتے ہیں۔
میں نے کہا، میں ابھی آتا ہوں۔ میں جلدی سے مقصود کے پاس آیا اور اسے اپنے ساتھ اس کمرے میں لے گیا جہاں کپڑے پڑے ہوئے تھے۔ میں نے کہا، ’’تمہیں جو کپڑے پورے ہیں اور پسند ہیں یہاں سے لے لو‘‘۔
مقصود نے میری طرف تشکر بھرے انداز میں دیکھا۔ جیسے میں نے اس کی بہت بڑی مشکل آسان کردی ہو۔
اس کے بعد میں دوبارہ اس کمرے میں آگیا ۔یہاں بہت سارے نیشنل جوگریفکس پڑے ہوئے تھے۔ میں نے ان میں سے کچھ پسند کیئے۔ جو جو موضوعات اچھے تھے۔ گو کہ یہ بہت پرانے تھے لیکن پڑھنے کو بہت کچھ تھا۔ میں نے اس عورت سے پوچھا ،کیا میں یہ لے جاسکتا ہوں۔ تو کہنے لگی جب جانے لگو تو لے جانا ۔ میں نے کہا، بہت شکریہ۔
یہاں بہت سارے بچوں کے کھلونے، کتابیں، رسالے، اخباریں پڑی ہوئی تھیں۔ کمرے ایک طرف ایک مستطیل میز پڑی ہوئی تھی۔ وہاں پے ایک عورت سر جھکائے کچھ لکھ رہی تھی۔
میں اس عورت سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔
کہنے لگی ، آؤ تمہیں اس سے ملواتی ہوں۔
اس طرح مجھے وہ عورت اس لڑکی کے پاس لے آئی۔ میں نے ہیلوہائے کی۔ کہنے لگی، ’’تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستانی ہوں۔ یہاں مہاجر کیمپ میں رہتا ہوں‘‘
کہنے لگی، ’’میرا نام مشل ہے‘‘۔
’’کیاکرتی ہو‘‘۔
’’میں اخبار میں کام کرتی ہوں‘‘۔
’’اچھا تو صحافی ہو‘‘۔
’’ہاں کہہ سکتے ہیں۔ میں فری لانس جرنلسٹ ہوں۔ جب خوئی خبر مل جاتی ہے تو بھیج دیتی ہوں‘‘۔
’’پیسے بھی ملتے ہیں یا مفت خبریں بھیجتی ہو‘‘
’’کبھی کبھی‘‘۔
’’ہمارے بارے میں بھی لکھو۔یہاں مہاجر کیمپ میں ہم لوگ کیسے رہتے ہیں۔ ایک ایک کمرے میں اٹھارہ اور سولہ بندے سوتے ہیں‘‘۔
اس بات پے وہ خاموش ہوگئی۔ پھر کہنے لگی ،’’تم بڑی اچھی انگریزی بولتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں انگریزی کے علاوہ اٹالین اور فرنچ بھی بولتا ہوں۔ مجھے صرف جرمن نہیں آتی‘‘۔
وہ حیرت سے میری شکل دیکھنے لگی۔ لڑکی خوبصورت بھی تھی اور جوان بھی۔ میں نے اس کواپنی ای میل آئی ڈی دی ۔اس نے اپنے پرس میں رکھ لی۔ کہنے لگی،’’میں ضرور تم سے رابطہ رکھوں گی‘‘۔ میں نے آگاتھو کے اس کمرے میں لگی ہوئی گھڑی دیکھی۔ ہمارے وقفے کا وقت ختم ہورہا تھا۔ میں نے اس سے کہا، ’’اب مجھے جانا چاہیئے۔ہماری آزادی کا وقت ختم ہورہا ہے۔ اگر وقت پے نہ پہنچے تو کھانا نہیں ملے‘‘۔اس نے افسوس اور دکھ کا اظہار کیا۔
اس طرح میں نے اور مقصود نے اس سے اجازت لی۔ میرے ہاتھ میں پرانے نیشنل جیوگریفک تھے۔ میں اور مقصود دونوں اگاتھو کے دفتر سے باہر نکلے اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے مہاجر کیمپ کی طرف آئے۔ یہاں پہنچے تو کھانا تقسیم کیا جارہا تھا۔ اب میں سکون سے کھانا کھاتا تھا کیونکہ پہلے دل میں ایک پھانس سی چبھتی تھی کہ میں ایسی چیز کھا رہا ہوں جس کا مجھے پتا ہی نہیں کہ حلا ل ہے یا حرام لیکن جب سے اس آدمی نے مجھے بتایا تھا کہ یہاں حلال گوشت منگوایا جاتا ہے تو میرے دل کو تسلی تھی۔
مقصود نے دوسرے دو پاکستانیوں کو بھی میری کہانی سنائی کہ میں کس طرح اس لڑکی سے بات کررہا تھا۔ مجھے بالکل بھی جھجک محسوس نہ ہوئی۔ اب اس مہاجر کیمپ میں کئی لوگ میری قابلیت کے قائل ہوگئے تھے۔ میں انگریزی کے علاوہ اٹالین اور فرنچ بھی بولتا تھا۔ وہ موٹا سا لڑکا جس کا چاچا ہمیشہ گجرات کا ایم پی اے بنتا تھا ۔وہ مجھے کہنے لگا، ’’میرے ایک چاچے نے جو یہاں ونٹرتھور رہتا ہے۔ اس نے اٹالین لڑکی سے شادی کی ہوئی ہے۔ اگر تمہیں زیورک کنٹون میں بھیجا گیا تو تمہاری اس سے ملاقات کرواؤں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت شکریہ۔ ویسے تمہارا چاچا کام کیا کرتا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’وہ پبلسٹی کا کام کرتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ کیاکام ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’وہ مختلف کمپنیوں کے اشتہار تقسیم کرتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اکیلے‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں اس نے بندے رکھے ہوئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’اچھی کمائی ہوجاتی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں ہاں، پچھلے سال میرے چاچے نے دو کروڑ روپیہ بھیجا ہے۔ اب بھی اگر الیکشن میں میرا چاچا کھڑا ہوگا تو میرے ابو اور چاچا الیکشن کا سارا خرچہ اٹھائیں گے‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا کہ پبلسٹی کے کام میں اتنی بچت ہے۔
کھانے کے بعد ہمیں دوبار ہ گارنیگے سترازے لے جایا گیا۔ وہاں ہم لوگ دوبارہ گارنیگے ہوٹل میں آگئے۔ میں جیسے ہی ہوٹل میں وارد ہوا۔میرا واسطہ اسی اٹالین نژاد سوس سے ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’کل دو میچ ہیں۔ تم کس کی طرف ہو‘‘
میں نے کہا، ’’جرمنی جیت جائے تو بہت اچھا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا ،’’اور دوسرا میچ‘‘۔
میں نے کہا، ’ظاہر ہے برازیل جیتے گا۔انگلینڈ تو ہار جائے گا‘‘۔
کہنے لگا، ’’پہلے میچ میں میں چاہتا ہوں کہ امریکہ جیت جائے جبکہ دوسرے میچ میں میں تمہارے ساتھ ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نہیں چاہتے کہ جرمنی جیتے‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے کچھ زیادہ شوق نہیں کہ جرمنی جیتے‘‘۔
اس نے کوئی خاص وجہ تو نہ بتائی لیکن مجھے بہت عجیب لگا۔
میں نے کہا، ’’کل تمہاری ڈیوٹی یہاں ہوگی‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے نہیں پتا۔ میں جن کے لیئے کام کرتا ہوں۔ وہ ہمیں ہفتے کا پروگرام بتا دیتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی پروگرام بدل بھی جاتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں چاہتا ہوں کہ اس دفعہ تمہاری ٹیم جیت جائے‘‘
’’کیوں‘‘۔
’’پچھلی دفعہ بھی تمہاری ٹیم ہار گئی‘‘
’’مجھے افسوس ہے لیکن کیا کیا جاسکتاہے‘‘۔
مقصود ،وہ لڑکا یا آدمی کہہ لیجئے جو خود کو افغانی کہتا تھا وہ اور وہ لڑکا جس کا چاچا گجرات کا ایم پی اے بنتا تھا۔ یہ تینوں مجھے گھور رہے تھے۔ وہ اس بات پے حیران تھے کہ میں ہر کسی سے بات کرتا تھا۔ مجھے وہ شخص جو خود کو افغانی کہتا تھا، کہنے لگا، ’’اس سے کیا باتیں کررہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہم دونوں فٹبال کے بارے میں باتیں کررہے ہیں۔ تمہیں پتا ہے کہ فٹبال کا ورلڈ کپ ہورہا ہے۔ اور ہاں افغانستان کی بھی تو ٹیم ہے۔ افغانی فٹبال بہت اچھا کھیلتے ہیں‘‘۔
وہ مجھے غور غور سے دیکھنے لگا۔ کیونکہ وہ افغانی نہیں تھا۔ ورنہ وہ فٹبال میں ضرور دلچسپی لیتا۔ میں فٹبال سے لگاؤ نہیں رکھتا تھا لیکن یہاں کوئی موضوع ہی نہیں تھا بات کرنے کو۔ اس لیئے ان دنوں یہ بھی ایک موضوع تھا۔ گفتگو کے دوران وقت اچھا گزر جاتا تھا۔
مقصود کہنے لگا، ’’میں جاکر نوٹس بورڈ دیکھتا ہوں۔ کوئی پتا نہیں ہم میں سے کسی کی ٹرانسفر ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام بھی دیکھنا‘‘۔
وہ لسٹ دیکھ کر آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ تمہارا نام بھی لسٹ میں ہے۔
میں نے جاکر لسٹ میں دیکھا واقعی میرا نام لکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا نوٹ بھی لکھا ہوا کہ ،’’بغیر ناشتے کے جاناہے‘‘۔
میں سمجھ گیا کل میرے پیشاب اور خون کا ٹیسٹ ہوگا۔ میں نے سیکیورٹی گارڈ سے کہا، ’’اگر مجھے کچھ کھانے کو مل جائے تو بہت اچھا ہوگا۔ کیونکہ کل میرا میڈیکل ہے۔ مجھے بغیر کچھ کھائے پیئے جانا ہوگا۔ صبح تک بھوکا رہنا مشکل ہوگا۔ میں چاہتا ہوں سونے سے پہلے کچھ کھا لو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا ساتھ چلو‘‘۔
میں اس کے ساتھ ہولیا۔ وہ مجھے کچن میں لے گیا۔ وہاں سے اس نے مجھے لازانیہ گرم کرکے دیا۔ ایک سیب اور تھوڑی سی بروڈ ۔ کہنے لگا، ’’ہمیں اجازت تو نہیں لیکن کوئی بات نہیں۔ جلدی جلدی کھا لو۔ میں تمہارا باہر انتظار کرتا ہوں‘‘۔ میں نے جلدی جلدی یہ چیزیں اپنے اندر انڈیلیں اور کچن سے باہر آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment