Monday, June 17, 2013

چھٹا باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG






۶

ستمبر کے مہینے میں اریزو میں کبھی کبھی گرمیوں کا گمان ہونے لگتا ہے اور کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ سردی شروع ہوگئی ہے۔ یورپیئن لوگ تو جون کے مہینے میں بھی اپنے ساتھ ایک ہلکی سی جیکٹ رکھتے ہیں۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلے تو پہن لیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم ایشین لوگ جسمانی طور پے بہت مظبوط ہوتے ہیں۔ ہمارے اندر برداشت کرتے کی طاقت زیادہ ہوتی ہے۔ اب ویسے بھی ستمبر کا آخری ہفتہ تھا اور اکتوبر کا مہینہ شروع ہونے والا تھا۔
میں چونکہ کام پے نہیں جاتا تھا اس لیئے میں رات کو دیر سے سوتا اور صبح دیر سے اٹھتا۔ رات کو یا تو لکھنے کا کام کرتا اگر کہانیاں بْننے میں دقت پیش آتی تو ٹی وی دیکھنے لگتا۔ آج کل تو میں سارا سارا دن سوچوں کے سمندر میں ڈوبا رہتا۔ میرا لکھا ہوا ثقلین کو اچھا لگا تھا ۔ میں بہت شوق اور جذبے سے لکھتا تھا۔ اب تک میں بے شمار صفحے کالے کرچکا تھا۔ اب مجھے ثقیلین کا انتظار رہنے لگا تھا۔ میرا خیال تھا یہ کہانی بہت لمبی ہوگی لیکن ابھی تک میں نے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ میں کتنے باب لکھوں گا۔
آج جمعرات کے دن میں تو ناشتہ کرکے اریزو لائبریری چلا گیا۔ نیائش کو صبح دس سے بارہ بج تک دن کو اور شام پانچ بجے سے سات بجے تک گھر میں نظر بند رہنا تھا کیونکہ ڈاکٹر کا کنٹرول کسی وقت بھی ہوسکتا تھا۔ وہ ناشتہ کرکے گھر پے ہی رکا۔ میں ایک بجے لائبریری سے واپس آیا۔ ہمارے گھر کے پاس کھانے پینے کی چیزوں کا سٹور تھا۔ اریزو شہر میں دو مشہور سٹور ہیں۔ ایک اپر کوپ(ipercoop) اور اس کی ذیلی شاخ کوپ (coop)ہے اور دوسرا سٹور ہے ایسے لنگا(esselunga)۔ ہمارے گھر کے پاس کوپ ہے اس لیئے ہم لوگ کوپ سے ہی کھانے پینے کی چیزیں لاتے ہیں۔ لائبریری سے واپسی پر میں کوپ سے فریزہوئے ہوئے نان لے آیا تھا۔ اٹلی میں ان کو پانے عارابو(pane arabo)کہتے ہیں۔ یہ در حقیقت ٹرکش نان ہوتے ہیں ۔دو نان دو بندوں کے لیئے کافی ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی بچ بھی جاتا ہے۔
میں جیسے ہی گھر داخل ہوا ۔رات کا سالن فرج سے نکال کر گرم کیا۔ جب سالن گرم ہوچکا تو مائیکرو ویو اوون میں پہلے ان نانوں کو ڈی فروسٹ کیا۔ اس کے بعد ان کو پانی اور تھوڑا سا زیتون کا تیل لگا کر فرائی پین میں گرم کیا۔ یہ بالکل ایسے ہوگئے جیسے ابھی ابھی تنور سے نکالے گئے ہوں۔ جب میں ساری چیزیں میز پے سجا چکا تو نیائش کو بھی بلایا۔ اس کی طبیعت کافی خراب تھی۔ وہ بڑی مشکل سے بستر سے نکلا اور ہم نے کھانا شروع کیا۔ میں نے پیٹ بھر کے کھایا لیکن نیائش نے تھوڑا سا کھانا کھایا اور پلیٹ ایک طرف کردی۔ اس نے پشتو میں ایک بڑی سی گالی دی اور کہنے لگا،’’ماڑا یہ بیماری تو بندے کو ۔۔۔۔کردیتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں نیائش بھائی ایک دن میں ٹھیک ہو جاؤ گے‘‘۔
’’کبھی لگتا ہے بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں کبھی لگتا ہے جسم میں بالکل جان نہیں ہے‘‘
’’آج شام کو کیا بناؤں‘‘
’’جو تمہاری مرضی، تم بھی کیا سوچتے ہو گے جب سے آیا ہوں مجھے کسی نا کسی کام پے لگائے رکھتا ہے۔ مجھے تو نعمان خان کا خیال آیا ہے۔ وہ کیا سوچے گا جب اس کے پتا چلے گا‘‘۔
’’نیائش بھائی چھوٹی چھوٹی باتوں کے بارے میں نہ سوچا کریں‘‘
’’نہیں ماڑا یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔ مجھے نعمان نے بتایا تھا تمہارے بارے میں جب تم چلے گئے تھے‘‘
’’کیا بتایا تھا‘‘
’’یہی کہ تم بڑے رئیس خاندان سے تعلق رکھتے ہو‘‘
’’کیسی امارت، کیسی رئیسی نیائش بھائی سب ختم ہوگیا۔ دوسرا جنم لیا ہے‘‘۔
’’خیر جو بھی ہے لیکن تم بڑے قابل آدمی ہو‘‘۔
’’کیسی قابلیت ،میری کوئی بھی ڈگری میری کسی کام نہیں آئی۔ الیکٹریشن یا پلمبر ہوتا تو اب تک کام مل گیا ہوتا‘‘۔
’’ماڑا دل چھوٹا نہیں کرو۔ جیسے ہی پیپر مل جائیں گے تمہیں ضرور کام مل جائے گا۔ میں نے اپنے مالک سے بات کی ہے۔ وہ کہتا ہے جیسے ہی پیپر ملے ادھر فیکٹری میں لے آنا ۔ کام تمہیں میں سکھادوں گا‘‘۔
کھانا کھا کے میں نے سارے برتن سمیٹے اور ڈرائنگ روم میں جاکے ٹی وی دیکھنے لگا۔ نیائش جا کے کمرے میں لیٹ گیا اس کو فلو کی وجہ سے بہت زیادہ کمزوری ہوگئی تھی۔
میں نے ساری دالیں بھگو دی تھیں۔ گوشت کو بھی ابال کے اس کے ریشے سے بنادیئے تھے۔ میں نے سارا مصالحہ تیار کرکے حلیم بنانی شروع کی۔ جب حلیم تیار ہوگئی تو اس پے ادرک اور سبز مرچیں چھوٹی چھوٹی کاٹ کے اس کے اوپر بکھیر دیں۔ اس کے علاوہ میں نے ایک پلیٹ میں لیموں کاٹ کے رکھے،
ادرک اور سبز مرچیں علیحدہ سے کاٹ کے رکھیں۔ پھر نیاش کا موبائیل فون لیا اور ثقلین کو فون کیا کہ آج کھانا ہمارے ساتھ کھائے اور گھر کی طرف آتے ہوئے کوپ سے چار نان بھی لیتا آئے۔ اس نے جواب میں کہا، میں روز ہی آپ کے سا تھ کھانا کھاتا ہوں ۔یہ کوئی نئی بات تو نہیں ۔
میں ویسے تو سارے ہی کھانے مزیدار بناتا ہوں لیکن آج حلیم کچھ زیادہ ہی مزیدار بن گئی تھی۔ سب نے تعریف کی۔ آج ہم سب نے کھانے کے بعد سبز قہوہ پیا حالانکہ میں سبز قہوہ زیادہ پسند نہیں کرتا لیکن آج میں بھی سبز قہوے
سے لطف اندوز ہوا۔ ہمیشہ کی طرح ثقلین نے کھانے کی تعریف کی اور اس کے ساتھ ساتھ پانچویں باب کی بھی۔ میں نے کہا چھٹا باب تیار ہے اگر لے کر جانا ہے۔ تو کہنے لگا ۔ ضرور لے کر جاؤ ں گا۔ ویسے کتنے باب ہیں۔ میں نے کہا، باپ تو ایک ہی ہوتا بھلے عورت کتنے ہی مردوں کے ساتھ رہے لیکن اس کہانی کے کتنے باب ہیں یہ میں بھی نہیں جانتا۔
میں نے ثقلین کے حوالے چھٹا باب کیا۔
میں نے اس کو باب دیتے ہوئے کہا، ’’ثقلین صاحب ایک بات پوچھوں‘‘
اس نے کہا، ’’ہاں پوچھو‘‘
’’جہاں آپ رہتے ہیں وہ لوگ اعتراض نہیں کرتے کہ آپ ان کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے‘‘
’’نہیں وہ میری عزت کرتے ہیں۔ میں ان کے کئی کام کردیتا ہوں۔ میں ڈپلومیٹک رویہ رکھتا ہوں‘‘
’’یوں کہیئے نا کہ منافقانہ رویہ‘‘
’’آج کل کے دور میں اس کے بغیر گزارا ہی نہیں‘‘
’’ثقلین صاحب ،آج کل کے دور میں لوگ مطلب نکال کے پیچھے سے وار کرتے ہیں‘‘
’’میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن اس کے علاوہ میں انہیں مہینے کا خرچہ دیتا ہوں ۔ کھانے کا بھی اور گھر کے کرایہ بھی اس لیئے انہیں کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔
’’ہاں کہہ سکتے ہیں‘‘۔
’’اچھا تو مجھے اجازت ہے‘‘۔
’’ہاں، نان لانے کا شکریہ‘‘
’’حلیم کھلانے کا شکریہ، اب مزید کچھ نہ کہیئے گا مجھے پتا ہے آپ کا جواب کیا ہوگا۔ میں چلتا ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے لیکن ذرا دور سے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جیسے ہی گھر پہنچا ۔چھٹا باب پڑھنا شروع کیا۔
َ ََََََََََََََََََََََََ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رات کو اپنے دادا کی بات یاد کرتے کرتے سو گیا تھا کہ تین چیزیں انسان کی زندگی میں تبدیلی لاتی ہیں۔ عورت ،کتاب اور سفر۔ میں تو ہر طرح کا سفر کررہا تھا۔ انگریزی والا، اردو والا اور عربی کا صفر کا مہینہ تو ویسے بھی سخت ہوتا ہے۔ یہ میری دادی نے مجھے بتایاتھا۔اس بارے میں میرے دادا نے مجھے کچھ نہیں بتایا تھا کہ عربی کا صفر کا مہینہ سخت ہوتا ہے۔ اس میں انسان کو تنگی دیکھنی پڑتی ہے۔میری دادی بہت سادہ عورت تھیں۔ ان کی میرے دادا سے کبھی نہ بنی۔ جب سے میں نے ہوش سنبھالا تھا ان دونوں کو لڑتے ہوئے دیکھا تھا۔ میرے دادا کبھی کبھی دادی کے لیئے گرم گرم جلیبیاں بھی لایا کرتے۔ پھر وہ مجھ سے کہا کرتیں قبر میں لاتیں ہیں مگر اس بابے کے چونچلے نہیں جاتے۔ میرے دادا میری دادی کے ساتھ جب بھی لڑائی کرتے ، تھوڑی دیر بعد بھول جاتے۔ میرے دادا کا زیادہ وقت کتابوں میں گزرتا۔ وہ کہتے تھے انسان کی سب سے اچھی دوست کتاب ہوتی ہے۔
آج منگل کی اٹھارہ تاریخ تھی۔ آج دو میچ تھے۔ مجھے اس اٹالین نژاد سوس کی بات یاد تھی۔ وہ کہہ رہا تھا کہ اٹلی جیتے گا اور میرا دل چاہتا تھا اٹلی بھلے نہ جیتے لیکن ترکی ضرور جیت جائے۔ میں ان ملے جلے خیالات کے ساتھ باتھ میں گیا اور وہاں دانت صاف کیئے۔ چہرہ دیکھا تو ایسا لگا جیسے منہ پر بہت زیادہ کیڑے چل پھر رہے ہوں۔ میں نے نیچے جاکے گارنیگے ہوٹل کے عملے سے جو کہ اب مہاجرین کاکیمپ تھا سے ایک ڈسپوزایبل یعنی استعمال کرکے پھینک دینے والا ریزر لیا ۔ باتھ میں آکے دانت صاف کرنے کے بعد پھر شیو شروع کی۔ میں نے سوچا کیوں نہ فرنچ انداز کی داڑھی رکھ لوں۔ میں
اس طرح کی تبدیلیاں لاتا رہتا تھا کیونکہ شیشے میں ایک ہی طرح شکل دیکھ کے میں اکتا جاتا تھا۔ اس کے بعد میں نے سر کے بال بھی صاف کردیئے کیونکہ اب میرے سر پے کم کم بال رہ گئے تھے۔ میرے سر کے بال گرنے کی دو وجوہات تھیں۔ ایک تومجھے شمالی علاقہ جات میں گائیڈنگ کرتے ہوئے وہاں کا پانی راس نہیں آیا تھا ۔دوسری وجہ گرم پانی سے سر کو بہت زیادہ دھونا تھا۔ لیکن میرا ایک دوست جس کوجنیٹکس کا خبط ہے اس کا خیال ہے یہ خاندانی مسئلہ ہے ۔حالانکہ میرے پورے خاندان میں دور دور تک کوئی بھی گنجا نہیں ہے۔ میرے خاندان میں مردوں کے بڑھاپے تک بال رہتے ہیں۔ یہ اور بات ہے سر کے بال سفید ہوجاتے ہیں لیکن بال گرنا یا گنجا ہونا میرے ہی حصے میں آیا۔
جب میں ان کاموں سے فارغ ہوکر باتھ سے باہر آیا تو سارے مجھے دیکھنے لگے۔ خاص کر دو پاکستانیوں کو بہت عجیب لگا ۔ آج مجھے پھر اسی جگہ لے جایا جانا تھا جہاں پے پہلے دن آیا تھا۔ اب میرا انٹرویو رہ گیا تھا اور میڈیکل چیک اپ۔ میں جلدی فارغ ہوجاتا لیکن چونکہ مہاجر کیمپ والے اپنا سامان نئی بلڈنگ میں منتقل کررہے تھے اس لیئے سارا نظام درہم برہم ہوا ہو ا تھا۔ خیر ہمیں اسی نیلی وین میں گارنیگے ہوٹل سے اسی بیرک نماں عمارت میں لے جایا گیا۔ وہاں پہنچ کر ہمیں ناشتہ کرایا گیا۔ ناشتے سے جب میں فارغ ہوا تو میں اسی انتظار میں تھا کہ مہاجر کیمپ کا عملہ روز کی طرح مجھے کوئی نا کوئی کام کہے گا ۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ مجھے تھوڑی دیر بعد ایک سیکیورٹی گارڈ بلانے آیا۔ وہ مجھے اپنے ساتھ اسی جگہ لے گیا جہاں میں نے پہلی رات گزاری تھی۔ اس نے مجھے اسی کمرے میں بٹھا دیا جہاں میں کل فنگر پرنٹس اور تصاویر کے انتظار میں بیٹھا رہا تھا۔ اس سے ملحق ایک چھوٹا سا باغ تھا۔ میں باغ میں چلا گیا۔ وہاں وہ پاکستانی بھی بیٹھا ہوا تھا جس نے مجھے گارنیگے ہوٹل سے ٹیرس میں پوچھا تھا کہ تم سوس کیوں آئے ہو۔ تم پاکستانی ہو۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’تمہیں پتا ہے آج ہمیں یہاں کیوں بلایا گیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پتا نہیں‘‘
تو کہنے لگا، ’’آج ہمارے انٹرویو ہوں گے‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا اس بندے یہ معلومات کہاں سے ملی ہیں۔ ْ
ان چند دنوں میں جب سے میں سوس آیا تھا یہاں دھوپ بڑے مزے کی ہوتی۔ میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں جون کے مہینے میں بھی ٹھنڈ ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ بس ایک مسئلہ تھا میں نے جو کپڑے پہنے ہوئے تھے مجھے ان سے گھن آرہی تھی کیونکہ مجھے یہی ٹی شرٹ اور جینز پہنے ہوئے آج چوتھا دن تھا۔ انڈر ویئر کی حالت اتنی خرات تھی کہ اس مزید پہنا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ میں نے وہ پھینک دیا تھا۔ اب میں گزشتہ دو دنوں سے بغیر انڈر ویئر کی ہی گزارا کررہا تھا۔
وہ شخص جس نے مجھے بتایا تھا کہ آج انٹرویو ہوں گے ۔اس نے مجھ سے پوچھا، ’’تمہارا کیس وہی ہوگا جو تم نے مجھے بتایا تھا‘‘۔
میں نے کہا ،’’کون سا کیس‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’کمرے میں افسر ہوگا ۔وہ تم سے سوال کرے گا کہ تمہیں کیا مسئلہ ہے۔ اس کے ساتھ ایک ترجمان بھی ہوگا۔ پاکستانی یا انڈین۔ تم چاہو تو اردو میں یا پنجابی میں بات کرسکتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیس تو وہی ہے جو میں نے تمہیں بتایا ہے‘‘۔
’’یار ایسا کیس نہ کرنا اس سے پاکستان کی بدنامی ہوگی‘‘
’’اگر میں سوس لوگوں کو بتاؤں گا کہ میں ہم جنس پرست ہوں تو اس سے پاکستان کی بدنامی ہوگی‘‘
’’ہاں‘‘
‘’تو پھر کیا بتاؤں‘‘
’’تم کہنا مجھے سیاسی مسئلہ ہے، مذہبی مسئلہ ہے، قادیانی بن جانا، خود کو کسی اور فرقے کا ظاہر کردینا‘‘
میں نے کہا، ’’اس سے اسلام کی بدنامی نہیں ہوگی، مذہب کی بدنامی نہیں ہوگی‘‘
تو اس نے جواب دیا، ’’تم کون سا سچ مچ ایسا کررہے ہو‘‘
’’تو میں کون سا سچ مچ ہم جنس پرست ہوں‘‘
یہ لڑکا جو مجھے اپنے قیمتی مشوروں سے نواز رہا تھا۔ دبلہ پتلا تھا۔ مجھے کافی دنوں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے میرا حلیہ بھی نہیں پسند تھا۔ پھر بھی نہ جانے کیوں مجھے مفت مشور ہ دے رہا تھا۔ اس کے گال اندر کو پچکے ہوئے تھے جس کی وجہ سے اس کی تیکھی ناک کچھ زیادہ ہی تیکھی لگ رہی تھی۔
میں نے اس سے پوچھا، ’’تم نے کیا کیس تیار کیا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’ہمارا خاندانی جھگڑا چل رہا ہے۔ مجھ پے قتل کا کیس چل رہا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’اصلی والا‘‘
تو بڑے وثوق سے بولا،جیسے مجھے یقین دلانا چاہتا ہو، ’’ہاں ہاں بالکل اصلی کیس ہے۔ تم نے سنا نہیں گجرات کے بارے میں ‘‘
میں نے کہا، ’’میں کچھ زیادہ نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور سنا ہے کہ وہاں کوئی پَگوں والا گروپ ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’ہماری انہی کے ساتھ دشمنی چل رہی ہے‘‘۔
میں اس کا جواب سن کر خاموش ہوگیا۔ ابھی ہم دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ ہمارے پاس ایک اور شخص آگیا۔ یہ شخص شکل و صورت سے عجیب سا لگ رہا تھا۔ مجھ سے اس دبلے پتلے لڑکے نے اس آدمی کا تعارف کروایا ، ’’اس سے ملو، یہ ہمارا افغانی بھائی ہے لیکن اردو جانتا ہے‘‘۔
میں نے خوشی سے ہاتھ ملایا۔ میں نے پوچھا، ’’آپ افغانستان کے کس شہر سے تعلق رکھتے ہیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’میں نے سارا زندگی پاکستان میں گزارا ہے۔ میں مانسہرہ کے پا س ایک چھوٹا سا شہر ہے فتح پور وہاں کا رہنے ولاہوں۔ میں وہاں گاڑیاں ٹھیک کرنے کا کام کرتا تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’آپ کو پاکستان کیسا لگتا ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔
میں نے اس شخص کو غور سے دیکھا تو اس کی ایک آنکھ میں کچھ عجیب و غریب سی چیز تھی۔
میں نے پوچھا، ’’یہ آپ کی آنکھ میں کیا ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’ایک دفعہ میں گاڑی ٹھیک کررہا تھا۔ اس گاڑی کے ریڈی ایٹر کے پاس پنکھا ہوتا ہے وہ نکل کے میرے منہ پے لگا ۔ اس کی وجہ سے میری یہ آنکھ ایسی ہے۔ میری آنکھ ضائع تو نہیں ہوئی لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں یہ آپریشن سے ٹھیک ہوجائے گی۔ اس کو صاف کرنا پڑے گا‘‘
میں نے کہا، تو پاکستان میں کیوں نہیں کروایا‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’یہاں اسی لیئے آیا ہوں۔ جتنی دیر کیس چلے گا اتنی دیر میں میرا علاج ہوجائے گا۔ اگر کیس منظور نہ بھی ہوا تو آنکھ کا آپریشن ہوجائے گا۔ یہی میری بچت ہوگی‘‘۔
میں دل ہی دل میں سوچنے لگا۔ یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے۔ اس دوران اس اٖفغانی کو انٹرویو کے لیئے بلا لیا گیا۔ اس کے بعد میری بار ی تھی۔ میں اپنے دماغ میں اپنا کیس تیار کرنے لگا۔ میں افسر کو کیا بتاؤ گا کہ مجھے کیا مسئلہ ہے۔ مجھے اس دبلے پتلے لڑکے نے بتایا تھ کہ تاریخ اور دن ایسے رکھنا جو تمہیں آسانی سے یا درہیں ۔ کوئی قومی دن نہ ہو کیونکہ یہاں کے افسروں کو یہ بات پتا چل چکی ہے۔ اس سے تمہا را کیس کمزور ہوجائے گا۔ میں نے اپنے دماغ میں اپنے کیس کے بارے میں مکمل تانا بانا بن لیا۔ تاریخیں بھی ایسی رکھیں جو کسی نا کسی کی تاریخ پیدائش تھی۔ ٹھیک آدھے گھنٹے بعد میرا نمبر آیا۔ ایک لڑکی آئی اور مجھے اپنے ساتھ لے گئی۔
یہاں ایک کمرہ تو وہ تھا جہاں میں سویا تھا۔ اس کے ساتھ ایک کمرہ تھا جس میں میرا فنگر پرنٹس لیئے گئے تھے اور تصویریں لی گئی تھیں۔ اس کے ساتھ جو کمرہ تھا وہاں مجھے داخل ہونا تھا۔ میں اجازت لے کر کمرے میں داخل ہوا۔کمرے کی ایک دیوار پے ایک بڑی سی مچھلی فریم میں لگی ہوئی تھی ۔مجھے یہ نہیں پتا کہ یہ مچھلی اصلی تھی یا نقلی۔ ایک دیوار پے ایک گھڑی لگی ہوئی تھی ۔یہ گھڑی بالکل اس طرح بنی ہوئی تھی جیسے ہسپانوی مصور سلوادوردالی(Salvadore Dali) تصاویر بنایا کرتا تھا۔ کمرے میں ایک مستطیل میز پڑی تھی۔ اس پے بہت سارے کاغذ پڑے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں کمپیوٹر پڑا ہوا تھا ایک کونے میں پرنٹرپڑاہوا تھا۔ کمرے میں چار کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔ ایک کرسی پے ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا۔ اس اس نے ہلکے نیلے رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی اور تھوڑے گہرے نیلے رنگ کی ٹائی باندھی ہوئی تھی۔ اس کا کوٹ پیچھے کرسی کے ساتھ ٹنگا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا۔اس کی شکل سے لگتا تھا کہ وہ مجھے دیکھ کے خو ش نہیں یا شاید اس کی شکل ہی ایسی تھی۔ اس کا منہ پتلا ساتھا۔ چہرے پے تیکھی ناک ، پتلے ہونٹ جیسے لڑکیوں کے ہوتے ہیں۔ بہت زیادہ شیو کرنے کی وجہ سے اس کا چہرہ عجیب سا لگ رہا تھا۔یا شاید وہ الیکٹرک شیور سے شیو کرتا ہوگا۔ جو بڑی گہرائی سے بالوں کو کھال سے نکالتا ہے۔ مجھے اس کو دیکھ غلام عباس کا ایک افسانہ یاد آگیا جس میں وہ انسان کے چہرے اس خوبصورتی سے بیان کرتا ہے جیسے وہ شخص آپ کے سامنے کھڑا ہو۔ اس کمرے میں ایک خاتوں بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ میرا نہیں خیال کہ وہ پاکستانی تھی۔
اس شخص نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں بیٹھ گیا۔اس نے میز پے ایک سٹاپ واچ رکھی اور انگریزی میں کہا، ’’انٹر ویو شروع کرتے ہیں‘‘۔
سب سے پہلے اس نے اپنا تعارف کروایا۔ جس کا مترجم نے اردو یا آپ ہندی کہہ لے میں ترجمہ کرکے بتایا۔ اس کے ساتھ اس عورت نے اپنا تعارف کروایا۔ پھر اس نے افسر کو بتایا کہ میں نے اسے اپنا نام اور یہاں آنے کی وجہ بتائی ہے۔
اس نے پہلا سوال کیاجو کہ جرمن میں تھا۔ مترجم نے مجھے بتایا کہ کیا کہہ رہا ہے۔
’’تمہارانام‘‘
’’فرشتہ‘‘
’’خاندانی نام ،یا فیملی نیم‘‘
’’سبزواری‘‘
’’تاریخ پیدائش‘‘
میں نے تاریخ پیدائش بتائی۔
اس کے بعد مزید سوالات شروع ہوئے۔ میں جو بھی بتاتا جارہا تھا وہ افسر کمپیوٹر پے لکھتا جارہا تھا۔
’’مکمل پتا‘‘
میں نے مکمل پتا بتایا۔ شہر کانام راولپنڈ ی بتایا۔
’’تمہارا خاندان، ماں باپ، بہن بھائی‘‘
’’وہ ایک بس کے حادثے میں اس دنیا سے چلے گئے۔ میں اس دنیا میں اکیلا ہوں‘‘
یہ جواب سن کے افسر کے چہرے پے ایک عجیب سی شیطانی مسکراہٹ بکھر گئی۔
’’تم شادی شدہ ہو‘‘
’’نہیں ‘‘
تمہارے بچے ہیں‘‘
’’میں نے کہا اگر شادی ہی نہیں ہوئی تو بچے کیسے‘‘
اس کو مترجم نے تفصیل بتائی کہ ان کے ہاں بنا شادی بچے پیدا کرنے کا کوئی تصور نہیں۔ لاکھوں میں کوئی ایک آدھ ایسا واقع ہوتا ہوگا۔
اس افسر نے کہا،’’یہ انٹرویو کا حصہ ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے ملک میں کیا طریقہ رائج ہے‘‘۔
پھر اس مجھ سے سفر کی روئیداد پوچھی۔
جو میں نے کچھ اس طرح سنائی
’’میں پاکستان کے شہر راولپنڈی کا رہنے والا ہوں۔ وہاں تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں مختلف جگہ نوکری کی۔ اس کے بعد میں نے ایک سیاسی پارٹی میں شمعولیت اختیار کرلی۔ یہ سیاسی جماعت نوازشریف سے منسلک تھی۔جب پرویز مشرف نے ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ میں نواز شریف کا تختہ الٹا اور ملک میں مارشل لگا دیا تو میرے لیئے وہاں رہنا مشکل ہوگیا‘‘
اس نے میرے جواب کے دوران سوال کیا،
’’لیکن نواز شریف کی پارٹی کے آدھے رکن تو پرویز مشرف کے ساتھ مل گئے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’لیکن میں جس گروپ کے ساتھ تھا وہ زیرِ عتاب رہے‘‘
اس نے سوال کیا، ’’تمہیں کیا مسئلہ تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے جان کا خطرہ تھا‘‘
اس نے کہا، ’’پرویز مشرف نے ۱۲ اکتوبر۱۹۹۹ کو تختہ الٹا ااور آج اٹھارہ جون ۲۰۰۲ ہے۔اتنا عرصہ تمہاری جان کو کوئی خطرہ نہیں تھا‘‘
میں نے کہا، ’’میں نے بڑا سخت وقت گزارا ہے‘‘
’’مثلاً‘‘
’’میں کہیں بھی کام نہیں کرسکتا تھا۔ سیکرٹ ایجنسیاں میری پیچھے لگی رہتی تھیں‘‘
’’تم ایسا کیا کام کرتے تھے جس سے پرویز مشرف کی حکومت کو تم سے خطرہ تھا‘‘
’’میں مضمون لکھتا تھا۔ میں نواز شریف اور دیگر سیاسی لوگوں کے لیئے تقاریر لکھا کرتا تھا‘‘
’’اس میں جان کا خطرہ تو کوئی نہیں‘‘
’’اگر آپ کے قلم سے لکھی ہوئی چیز لوگوں کے دل پے اثر کرجائے تو ملک میں انقلاب لانے کا باعث بنتے ہیں‘‘
اس نے مجھے غور سے دیکھا، پھر سوال کیا،
’’تم نے پاکستان کب چھوڑا‘‘
’’پہلی مئی کو سن ۲۰۰۲ میں‘‘
’’یہاں تک کیسے آئے ‘‘
’’میں نے پاکستان سے نکلنے کی کئی دفعہ کوشش کی۔ ہر دفعہ مجھے ایئر پورٹ پے پکڑ لیا جاتا۔آخر کار ایک ایجنٹ مجھے جعلی پاسپورٹ کے ذریعے سلاواکیہ (Slavacia)کے شہر براٹسلاوا (Bratislava)لے آیا۔ وہاں سے وہ ہمیں کار کے ذریعے کرائس لنگن چھوڑ کے چلا گیا‘‘
’’تم نے راستے میں دیکھا تم کن راستوں سے گزر کے آئے ہو‘‘
’’نہیں ۔اس نے ہمیں گاڑی سے باہر دیکھنے کو منع کیا تھا۔ ہم جب بھی سر باہر نکالتے وہ اوپر سے ہمارے سر پے مکے مارتا‘‘
’’تم نے بتایا کہ تم نے پہلی مئی کو پاکستان چھوڑا لیکن آج اٹھارہ جون ہے یعنی تم ایک مہینہ اور اٹھارہ دن سلاواکیہ میں رہے‘‘۔
’’جب ہم سلاواکیہ پہنچے تو ہمیں اس نے ایک گھر میں رکھا۔ جو بارڈر کے پاس تھا ۔ وہاں اور بھی لوگ تھے۔ وہ آہستہ آہستہ لوگوں کو لے کر جاتا۔ ہماری باری ۱۵ جون کو آئی۔ اس نے جب مجھے کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے پاس چھوڑا تو اس وقت رات کے ساڑھے گیارہ بجے تھے۔ بلکہ رات کے ۴۵:۱۱ تھے‘‘
’’تم یہاں تک کیسے پہنچے‘‘
’’لوگوں سے پوچھتا پوچھتا‘‘
’’اگر ہم تمہیں واپس بھیج دیں تو‘‘
’’میری جان کوخطرہ ہے‘‘
’’گو کہ یہ بات تمہارے انٹرویو کا حصہ نہیں لیکن میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پرویز مشرف نے تمام پاکستانی سفارت خانیں جو دوسرے ممالک میں ہیں ان کو خط لکھا ہے ہمارے ملک میں کوئی مسئلہ نہیں۔ جو بھی سیاسی پناہ کی درخواست دے اس کا پاسپورٹ بنا کر اسے فوراً پاکستان بھیجا جائے‘‘
’’انہوں نے ٹھیک لکھا ہے کیونکہ ان کو کوئی مسئلہ نہیں۔ اس لیئے ان لوگوں کو دوسروں کی تکلیف نظر نہیں آتی‘‘۔
’’ہم لوگ تمہارے فنگر پرنٹس کی جانچ کریں گے۔ اگر ہمیں جرمنی ،اٹلی یا کسی بھی دوسرے ملک سے تمہارا کوئی حوالہ ملا تو ہم تمہیں وہاں بھیج دیں گے‘‘
اس کے بعد اس نے کمپیوٹر کو کمانڈ دی۔ کیونکہ جب وہ انٹرویو کررہا تھا اس دوران وہ لکھ بھی رہا تھا۔ جب وہ سوال کرتا اس سوال کا ترجمہ کرکے مجھے مترجم سناتی۔ میں اس کا جواب دیتا اور وہ اس کا جرمن میں ترجمہ کرکے اس کو بتاتی ۔ وہ لکھتا جاتا۔
اس نے جب کمپیوٹر کو کمانڈ دی تو پاس پڑے ہوئے پرنٹر سے آواز آنے لگی۔ تھوڑی دیر بعد اس پرنٹر نے چھپے ہوئے کاغذ اگلنے شروع کردیئے۔ پانچ صفحات پرنٹ ہوکر نکلے تو پرنٹر کی کھٹ کھٹ بند ہوگئی۔ اس نے یہ کاغذات اس عورت کو دیئے اس عورت نے سارے سوال پہلے جرمن میں پڑھے پھر مجھے ان کا ترجمہ کرکے سنایا۔ پھر اس شخص نے وہ کاغذاٹھا کے ایک فائل میں رکھ دیئے۔ اس کے بعد اس نے پرنٹر میں ایک خاکی ساکاغذ رکھا ۔یہ لمبائی چوڑائی میں چھوٹا تھا۔ اس نے کمپیوٹر کو پھر کمانڈ دی۔ پھر اسی طرح کھٹ کھٹ ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ کاغذ پرنٹر سے باہر نکلا ۔اس پے میری فوٹو اور میرا پتا وغیرہ لکھا ہوا تھا۔ اس نے یہ کارڈ میرے ہاتھ میں تھمایا اور کہا، ’’یہ تمہاری شناخت ہے‘‘
میں نے اسے غور سے دیکھا۔ اس کے اوپرلکھا’’ ہاوس وائس این‘‘
اس نے کارڈ دیتے ہی مجھ سے کہا، ’’اب تمہارا انٹرویو ہوچکا ہے۔ اب تمہیں اپنے میڈیکل چیک اپ کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس میں ہم تمہارا ایپی ٹائیٹس بی اور سی کا ٹیسٹ کریں گے، ایڈز کا ٹیسٹ کریں گے اور دیگر بیماریوں کا ۔اس کے بعد جب تمہاری اوکے کی رپورٹ آجائے گی تو ہم تمہیں دوسری جگہ منتقل کر دیں گے۔ اور ہاں اب تم صبح دو گھنٹے اور شام کو دو گھنٹے باہر جاسکتے ہوں‘‘۔
میں نے جب یہ سنا کہ میں باہر جاسکتا ہوں تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی قیدی کو رہائی مل گئی ہو۔
اس کے بعد اس نے مجھ سے کہا، ’’اب تم جاسکتے ہوں‘‘۔
میں نے افسر کو ہاتھ ملایا اور اس عورت کو نمستے کہہ کے باہر آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں جب کمرے سے باہر آیا تو وہی پاکستانی جس نے مجھ سے پہلی دفعہ پوچھا تھا کہ میں کیوں یہاں آیا ہوں۔آج صبح بھی اس نے مجھے زور دیا تھا کہ ہم جنس پرست کا کیس نہ کروانا کیونکہ اس سے ہمارے ملک کی بدنامی ہوگی۔ وہ باہر کھڑا تھا۔ پہلا سوال ہی اس نے یہ کیا، ’’کس چیز کا کیس کروایاہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہی جو تمہیں بتایا تھا۔ وہ افسر بھی ہم جنس پرست تھا۔ اس نے مجھے اپنا پتہ دیا ہے ۔کہتا ہے میرے گھر آنا‘‘
وہ کہنے لگا، ’’اس کا مطلب ہے تمہیں یہاں پے پناہ مل جائے گی۔۔تمہیں سوس پاسپورٹ مل جائے گا‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں‘‘
کہنے لگا، ’’یہ تم نے ٹھیک نہیں کیا۔ اگر یہ رپورٹ پاکستان چلی گئی تو کیا ہوگا۔ یہ ایک فائل پاکستانی سفارت خانے کو بھی بھیجتے ہیں‘‘
میں نے کہا، ’’تو ٹھیک ہے نا، لوگوں کو پتا تو چلے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے‘‘۔
وہ لڑکا جو خود کو افغانی کہتا تھا ۔ وہ کہنے لگا، ’’ماڑا کوئی بات نہیں‘‘
مجھے سو فیصد یقین تھا کہ یہ لڑکا جو خود کو افغانی بتاتا ہے بالکل بھی افغانی نہیں لیکن مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ یہ کون ہے۔ اس سے اجازت لے کر میں سیکیورٹی گارڈ کے پاس آگیا ۔ اسے میں نے ہاوس وائس دکھائی تو کہنے لگا، ’’دس بجے تمہاراٹائم شروع ہوگا ۔دس سے بارہ بجے تک تم باہر جاسکتے ہو۔ بارہ بجنے سے پانچ منٹ پہلے تمہیں یہاں ہونا ہوگا۔ کیونکہ کے کھانے کا وقت ہوتا۔ اس وقت ہم رول کال بھی کرتے ہیں۔ اگر تم کھانے کے وقت موجود نہ ہوئے تو ہمیں پولیس کو بلاناپڑے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ابھی باہر نہیں جارہا ۔ ابھی دس بجنے میں پندرہ منٹ باقی ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جاپان اور ترکی کاکیا بنا‘‘
کہنے لگا، ’’ترکی جیت گیا ہے‘‘۔ ابھی ساؤتھ کوریا اور اٹلی کا میچ باقی ہے‘‘۔
میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ ترکی جیت جائے اور اٹلی ہار جائے۔ ترکی تو جیت گیا تھا لیکن ابھی اٹلی کی باری تھی۔ مجھے خوشی اس بات کی تھی کہ اس دفعہ دو مسلمان ٹیمیں ورلڈ کپ کے کوارٹرفائینل میں تھیں۔ میری خام خیالی تھی کہ شاید کوئی نا کوئی ٹیم فائینل میں آجائے گی یا دوسری تیسری پوزیشن حاصل کرلے گی۔
دس بجے میں نے اس بیرک نماں عمارت کو چھوڑا۔ اس کے سامنے جو چھوٹی سی سڑک تھی اس پے میں اکیلا چلا جارہا تھا۔ جہاں سے میں ہفتے کی رات چل کے آیا تھا۔ میں نے خوداپنی آزادی سلب کی تھی۔ اس کے بعد تین دن میں نے قیدیوں کی سی زندگی گزاری تھی۔ اس سڑک کے ساتھ وہی گندا نالا تھا جس کی بْو سے میرے دماغ میں ہلچل مچ گئی تھی لیکن اب مجھے بالکل بھی نہ لگا کہ یہاں سے بو آرہی ہے۔ اس میں بے شمار گھاس پھونس اگی ہوئی تھی۔ اس میں بے شمار پلاسٹک کے ڈبے، لفافے اور کئی طرح کا گند تیر رہا تھا۔ پانی صاف تھا لیکن کہیں کہیں گدلا بھی ہوجاتا۔ میں اپنی سوچوں میں گم اس سڑک پے چلا جارہا تھا کہ کسی نے مجھے پیچھے سے آوازدی ۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو یہ وہی شخص تھا جس نے مجھ سے پہلی ملاقات میں کئی سوال کیئے تھے۔ پہلے دفعہ مجھے بہت برا لگا تھا، دوسری دفعہ عجیب سا، تیسری دفعہ بس ٹھیک لیکن اب مجھے کچھ بھی نہ محسوس ہوا۔ میں رک گیا۔ اس کے ساتھ وہ شخص بھی تھا جو خود کو افغانی کہہ رہا تھا ۔جس کی ایک آنکھ میں کچھ عجیب سا تھا۔ جس کا اس نے مجھے بتایا تھا کہ گاڑی ٹھیک کرتے ہوئے ریڈی ایٹر کا پنکھا نکل کے مجھے لگا تھا۔ اب ہم تین تھے۔ ہم تینوں اسی سڑک پے آگئے جہاں وہ ڈونر کباب انبس تھی اور اس کے ساتھ بلیئرڈ کلب تھا۔ ہم تینوں نے اس روڈ پے چلنا شروع کردیا۔ ابھی تھوڑی دور ہی چلیں ہوں گے تو آگے دو عمارتیں آئیں۔ یہ دونوں ہوٹل تھے۔ ایک طرف جرمنی کا جھنڈا لگا ہوا تھا اور دوسری طرف سوئٹزرلینڈ کا۔ ہم یہاں سے گزرنے لگے تو ہمیں ایک پولیس والے نے روک لیا۔ ہماری ہاؤس وائس دیکھی اور واپس جانے کو کہا۔ مجھے انگریزی آتی تھی ۔ میں نے پوچھا کہ ہم آگے کیوں نہیں جاسکتے تو کہنے لگا۔ جہاں پے جھنڈا لگا ہوا ہے وہاں سے جرمنی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ تم لوگوں کے پاس جو کاغذ ہے اس کے ساتھ تم جرمنی میں نہیں داخل ہوسکتے۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ اور واپس آگیا۔ وہ کہنے لگے کیا کہتا ہے۔ میں نے ان کو تفصیل بتائی۔ تو وہ لڑکا جس کے گال پچکے ہوئے تھے۔اس نے مجھ سے کہا، ’’ہم جھیل دیکھنے چلتے ہیں‘‘
میں نے کہا ،’’ٹھیک ہے‘‘۔ اس طرح ہم نے دوسری سڑک پے چلنا شروع کردیا جو کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے ساتھ ساتھ جاتی تھی۔ ایک دو جگہ میں نے ترکی کے جھنڈے لگے ہوئے دیکھے۔ میں بہت خوش ہوا۔ اس کا مطلب ہے یہاں ٹرکش لوگ بھی رہتے ہیں۔ آج ٹرکش لوگوں کے لیئے بڑی خوشی کا دن تھا۔
ہم جیسے جیسے جھیل کے پاس پہنچ رہے تھے راستے میں جابجا بڑی بڑی سوانزیعنی راج ہنس سجی ہوئی تھیں۔ میں ایک سوان کے پاس کھڑا ہوکے اس کو دیکھنے لگا۔ بہت خوبصورت لگ رہی تھی ۔ایسا لگتا تھا جیسے اصلی ہو۔ ایک چھوٹی سی راہداری تھی۔ یہ جھیل اور اس کے آس پاس پارک کے اندر جانے کا راستہ تھا۔ مجھے دور
سے بے شمار ٹورسٹ نظر آئے۔ میں نے بڑی حسرت سے انہیں دیکھا۔ میں بھی کبھی ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ ایک سال پہلے۔ میں بھی کبھی سیاحوں کو پاکستان کی سیر کروایا کرتا تھا۔ میں نے کئی سوس کمپنیوں کے ساتھ بھی کام کیا تھا ۔کونی (Kuoni)ان میں پیش پیش تھی۔ ان کے گروپ بہت اچھے ہوتے ۔پڑھے لکھے لوگوں کے گروپ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ تو میری دوسوس عورتو ں سے لڑائی بھی ہوگئی تھی۔ یہاں جھیل کے کنارے ایک بہت بڑا چبوترا بنا ہوا تھا۔ بہت سارے سیاح ایک سٹیمر کے پاس کھڑے تھے۔ میں نے ایک دو ہیلو بھی کہا۔ انہوں نے جواب میں مجھے ہیلو کہا۔ ان کے انگریزی بولنے کے تلفظ
سے لگتا تھا کہ امریکن ہیں۔ مجھے وہ دونوں لڑکے حیرانگی سے دیکھنے لگے۔ وہ جس کی ایک آنکھ میں کچھ عجیب سی چیز تیر رہی تھی ۔ اس کو دیکھ کے کبھی کبھی ڈر بھی لگتا تھا ۔وہ کہنے لگا، ’’ماڑا تم تو بڑی اچھی انگریزی بولتے ہوں‘‘
میں نے کہا، ’’اتنی تو سب کو ہی آتی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں فتح پور کا رہنے والا ہوں۔ وہاں سے کئی دفعہ انگریزوں کی گاڑیاں گزرتی ہیں۔ وہ اگست کے دنوں میں اس علاقے میں بہت آتے ہیں۔ میں نے اس طرح انگریزی بولتے ہوئے ان کو سنا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’میں نے کبھی غور نہیں کیا کہ میں کیسے انگریزی بولتاہوں‘‘
ہم ان سیاحوں سے تھوڑا آگے آئے تو آگے بہت سارے درختوں کا جھنڈ تھا۔ بہت سارے بینچزلگے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں چند بچے تھے اور ایک دبلی پتلی اور نوجوان سی لڑکی ان کو کچھ پڑھا رہی تھی۔ ان دنوں یورپیئن ملکوں میں بچوں کو چھٹیاں ہوتی ہیں۔ میرے خیال میں یہ بچے سمر کیمپ کے حوالے سے آئے تھے۔ ان بچوں نے ہماری طرف غور سے دیکھا لیکن ہم آگے کو چل دیئے۔ وہ لڑکا جس کے گال پچکے ہوئے تھے وہ کہنے لگا، ’’جلدی چلو، تمہیں وہ مینار دکھانا ہے جہاں پیار کرنے والے اپنے نام لکھتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا خیال ہے جو بھی لڑکا کسی لڑکی سے پیار کرتا ہے یا کوئی لڑکی کسی لڑکے سے پیار کرتی ہے۔ اگر وہ اس پے اس کا نام لکھ دے تواس کا پیاراسے ضرور ملتا ہے‘‘۔
میں اس طرح کی خرافات پے یقین تو نہیں کرتا لیکن میں اس کے کہنے پے تیزتیز چلنے لگا تانکہ وہ پیار کرنے والوں کا مینار دیکھ سکوں۔ چند لمحوں میں مجھے لکڑی کا ایک مینار نظر آیا۔ میں نے چند سال ٹورسٹ گائیڈ کی نوکری کی تھی۔ آثارِ قدیمہ بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ اس لیئے میں نے بہت جلدی اندازہ لگا لیا کہ یہ مینار بہت زیادہ بھی پرانا ہوا تو پچاس سال پرانا ہوگا اس سے زیادہ نہیں ۔اس کے پاس پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس پے بے شمار نام لکھے ہوئے ہیں۔ مختلف مارکرز سے، چاقو سے۔ جس کو جو چیز ملی اس نے اپنے خیالات کا اظہار اس لکڑی کے مینار پے کردیا۔ جس طرح پاکستان میں دیواروں پے لکھا ہوتا ہے۔ اجابت خانوں میں لکھا ہوتا ہے۔ اس مینار کی چار منازل تھیں لیکن کافی اونچا لگ رہا تھا۔ اس کے ایک طرف اوپر جانے کے لیئے سیڑھیاں تھیں۔ وہ دونوں کہنے لگے اوپر چلتے ہیں لیکن میں نے کہا کہ میرا کوئی ارادہ نہیں۔ وہ دونوں تو اوپر چلے گئے اور میں نے جھیل کے کنارے چلنا شروع کردیا۔ میں ایک کونے میں جاکے بیٹھ گیا۔ میرے سامنے بودن سے (boden see)تھا۔ اس کو لاگو دی کوستانسا (lago di costanza)بھی کہتے ہیں جرمن زبان میں جھیل کوسے(see) کہتے ہیں اس لیئے اس جھیل کو بودن سے کہا جاتا ہے۔ میں جھیل کو غور سے دیکھنے لگا۔ یہاں پے آلودگی بالکل نہیں تھی۔ اس جھیل کا پانی بہت صاف شفاف تھا۔ بالکل نیلا۔ اس میں جب ہلکی ہلکی لہریں پیدا ہوتیں تو ایسا لگتا جیسے مجھ سے کچھ کہنا چاہ رہی ہوں۔ اس جھیل میں چند ایک کشتیاں بھی ادھر سے ادھر جارہی تھی۔ ان کے رنگ برنگی بادبان بہت بھلے لگ رہے تھے۔ مجھے یہ مناظر شاید اس لیئے بہت زیادہ اچھے لگ رہے تھے کیونکہ میں تین دنوں بعد بغیر کسی سیکیورٹی گارڈ کے نکلا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسے میں کئی دنوں بلکہ کئی
مہینوں قید میں رہا ہوں اور اب مجھے آزادی ملی ہے۔ جن دنوں میں گائیڈ تھا زیادہ پرانی بات نہیں ڈیڑھ سال پرانی بات ہے۔ ہنزہ سے جب آپ سست کی طرف جائیں ۔ سست پاکستان آخری شہر ہے۔ اس کے بعد خنجراب پاس آتا جو چائینہ اور پاکستان کا بارڈر ہے۔ یہ درہ چار ہزار میٹر بلند ہے۔ جب آپ ہنزہ سے سست جائیں تو راستے میں ایک چھوٹا سا شہر آتا ہے ۔اس کا نام ہے گلمت۔ گلمت میں ایک چھوٹی سی جھیل ہے اس کانام ہے بورتھ جھیل ۔ اس جھیل کا پانی سبز رنگ کا ہے۔ اس کے ایک کونے میں ایک آدمی کا چائے کھوکاہے۔ اس جھیل کے کنارے چائے پینے کا اپنا ہی مزہ ہے ۔ یہ جھیل تین ہزار سات سو میٹر کی بلندی پے ہے۔ یہاں بودن سے یعنی بودن جھیل کے کنارے بیٹھے بیٹھے مجھے بورتھ جھیل کی یاد آئی ۔چائے کی یاد آئی ۔ یہاں جرمن کے بارڈر پے سوس کے آخری شہر میں، اس جھیل کے کنارے چائے کہاں سے ملتی ۔ میں کافی دیر تک اس جھیل کو دیکھ کے محظوظ ہوتا رہا۔ مجھے اس سوچ کے سمندر سے وہ دونوں لڑکے واپس لے آئے۔ انہوں نے دور سے کہا، ’’ہم تمہیں کافی دیر سے ڈھونڈ رہے ہیں ۔واپس جانے کا وقت ہوگیا۔ اگر ٹھیک وقت پے نہ پہنچے تو کھانا نہیں ملے گا‘‘۔
میں جلدی سے اٹھا اور اس کے ساتھ ہولیا۔
واپس جب اس بیرک نماں عمارت میں پہنچے تو سب لوگ اس ہال کی طرف بھاگ رہے تھے جہاں پے کھانا ملتا ہے۔ ہم لوگ بھی جلدی سے جاکے قطار میں کھڑے ہوگئے۔ روز کی طرح آج بھی میں نے کھانا آخر میں لیا۔ جب میں اپنا کھاناکھا چکا تو میں دوبارہ قطار میں کھڑا ہوگیا۔ مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں نے دو بارہ اپنی پلیٹ اس عورت کے سامنے کردی جو لوگوں کو کھانا ڈال کے دے رہی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا، ’’جب سارے لوگ کھانا کھا چکے گے تو پھر آنا‘‘۔ پیچھے ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی اس نے جرمن زبان میں اسے کچھ کہا۔ اس کی بات سن کے اس نے میری پلیٹ میں کھانا
ڈال دیا۔ میں میز پر آکر بیٹھ گیا اور میں کھانا کھاتا جارہا تھا اور میری آنکھوں سے رم جھم جار ی تھی۔ میں سوچنے لگا سوئٹزرلینڈ آکر میں بھکاری بن گیا ہوں۔ پیٹ بھر کے کھانا کھانے کے لیئے مجھے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ میں ان لوگوں کے بارے میں سوچنے لگا جو لوگ یہ کام پیشے کے طور پے ختیار کرتے ہیں ، ان کی دل آزاری ہوتی ہے کہ نہیں لیکن جو لوگ کسی مجبوری کے تحت یہ کام کرتے ہیں ان کے دل کی کیفیت کیا ہوتی ہوگی جب کوئی ان کو دھتکار دیتا ہوگا۔ میں نے کئی دفعہ اس طرح کیا ،کبھی جانے میں ،کبھی انجانے میں۔ میں سوچنے لگا پاکستان کتنے عرصے سے دوسروں ملکوں سے بھیک مانگ رہا ہے۔ حالانکہ پاکستان کے پاس نیوکلیئر بم ہے۔ اس کے برعکس پچاس فیصد پاکستانیوں کو پینے کاصاف پانی نہیں ملتا۔ ہنزہ میں جو لوگ پانی پیتے ہیں اس میں ریت ملی ہوتی ہے۔ وہ لوگ یہ پانی پے لیتے ہیں اور دل کو اس طرح تسلی دیتے ہیں کہ اس پانی میں معدنیات ہوتی ہیں جو صحت کے لیئے اچھی ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ اس میں سونا بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب یہ لوگ مختلف قسم کی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ،جس کی اصل وجہ پینے کا پانی ہوتی ہے تو پھر یہ شمالی علاقہ جات چھوڑ کے اسلام آباد اور پنڈی کا رخ کرتے ہیں۔ پاکستان میں بجلی ،پانی اور گیس کا مسئلہ ہے لیکن نیوکلیئر پاور ہے۔ کھانا ختم کرکے میں نے اپنی پلیٹ اور گلاس ٹرے میں رکھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھے کھانے دینے والا سٹاف کچن میں کسی کام کے لیئے بلائے گا لیکن انہوں نے مجھے نہ بلایا۔ میں اٹھ کے اس جیل نماں باغ میں چلا گیا۔ جہاں وہی گندا نالا بہہ رہا تھا جس کی بْو اب مجھے بالکل محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں باغ میں جاکے گھاس کے ایک تختے پے لیٹ گیا جو دھوپ اور گرمی کی تمازت سے جابجا جلا ہوا تھا۔ میں اس پے لیٹتے ہی آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس پے روئی کے گالوں کی طرح بادلوں کے ٹکڑے اس طرح تیر رہے تھے جیسے وہ ہمیں دیکھ کے محظوظ ہورہے
ہوں۔ جب میں نے ان بادلوں کو غور سے دیکھا تو ایسا لگا جیسے وہ مختلف شکلیں اختیار کررہے ہوں۔ یہ میری بچپن سے عادت تھی کہ میں بادلوں کے ٹکڑوں میں مختلف شکلیں دریافت کیا کرتا۔ مجھے ایک لمحے کے لیئے ایسا لگا جیسے یہ نیلا آسمان کوئی نیلا سمندر ہواور اس پے یہ روئی کے گالوں جیسے بادل جیسے کوئی برف کے چھوٹے چھوٹے تودے ہوں۔ جو پانی کی لہروں پے اِدھر اْدھر جارے ہوں۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان بادلوں نے آپس میں اکھٹا ہونا شروع کردیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کوئی میٹنگ کررہے ہوں۔ یا آپس میں مل کر ہماری ہنسی اڑا رہے ہوں۔ ایک دم بوندا باندی شروع ہوگئی۔ ہم سب اس جیل نماں باغ سے ہال کی طرف بھاگے۔ اس طرح کی بارش کو یورپیئن لوگ سمر شاورز کہتے ہیں ۔ سوس لوگ اس بارش کو کیا کہتے ہیں یہ میں نہیں جانتا تھا۔
آج میری خواہش کے مطابق میری من پسند ٹیم تو جیت چکی تھی حالانکہ مجھے فٹبال سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ دومسلمان ٹیمیں کوارٹر فائینل میں آگئیں۔ ایک تو سینیگال تھی اور دوسری ترکی۔ مجھے اٹلی کی ٹیم سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ جیتے یا ہارے لیکن میں اس آدمی کے بارے میں سوچنے لگا جو یہاں پیدا ہوا تھا لیکن اس کا دل اٹالین تھا۔ ’’پھر بھی دل ہے ہندوستانی ‘‘ والی بات تھی۔ میں صبح بودن سے دیکھنے ان لڑکوں کے سا تھ گیا تھا لیکن اب میرا ارادہ تھا کہ میں اکیلا جاؤ۔ مجھے دو گھنٹے باہر جانے کی اجازت تھی۔ میں نے سکیورٹی گارڈ کو اپنی ہاوس وائس دکھائی اور اس سے کہا کہ میں باہر جانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا۔ تم جاسکتے ہوں لیکن رات کے کھانے سے پہلے آجانا جو کہ یہاں شام کے چھ بجے ملتا تھا۔
میرے فنگر پرنٹس ہوچکے تھے، تصاویر اتاری جاچکی تھیں۔ انٹر ویو ہوچکا تھا ۔اب میرا میڈیکل باقی تھا۔ جس میں انہوں نے یہ چیک کرنا تھا کہ مجھے ایڈز تو نہیں، ایپی ٹائیٹس سی یا بی تو نہیں ۔اس کے علاوہ دیگر بیماریاں تو نہیں۔ میڈیکل کے بعد مجھے دو دن مزید یہاں پے رکنا تھا ۔ جب اوکے
کی رپورٹ آجائے تو اس کے بعد انہوں نے مجھے کچی کرائس میں بھیجنا تھا۔ مجھے کرائس کا مطلب نہیں پتا تھا۔ اتنا جانتا تھا وہاں مجھے باہر پھرنے کی آزادی ہوگی۔ ہفتے کے ہفتے پیسے ملا کریں گے۔ بس اور ٹرین کا پاس ملے گا ۔ میں اس قید کی زندگی سے نجات حاصل کرلوں گا۔
میں اس بیرک نماں عمارت سے باہر نکلا ۔میں اس گندے نالے کے پاس سے گزر کے کرائس لنگن ریلوے سٹیشن کے ساتھ ساتھ جو سڑک جارہی تھی اس پے چلتا چلا جارہا تھا۔ میں سٹیشن کے اندر پلیٹ فارم پے چلنے لگا۔ چند قدم چل کے میں نے کیا دیکھا کہ کچھ دوکانیں جہاں اخبار،
پوسٹ کارڈز اور دیگر اس طرح کی چیزیں فروخت کرنے کے لیئے رکھی ہوئی ہیں۔ میں نے چند ایک پوسٹ کارڈز دیکھے۔ خریدناتو چاہتا تھا لیکن جیب میں پھوٹی کوڑی نہیں تھی۔ اس طرح کی کسمپرسی میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔ خیر میں دوکان کو چھوڑ کے آگے کو چل دیا۔ بارش کی اس ہلکی سی پھوار کے بعد زمین سے ایک خاص قسم کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی۔ اس طرح کی خوشبو دنیا کے کسی پرفیوم یا عطر میں نہیں ہوتی۔یہ وہ خوشبو ہے جو سوکھی مٹی اپنی پیاس
بجھانے کے بعد ہم تک پہچاتی ہے جیسے خدا کی اس نعمت کا شکریہ ادا کررہی ہو۔ جون کے مہینے میں عام طور پے اس گرمی میں تمام پودے اور درخت کملاء جاتے ہیں لیکن اس ہلکے سی پھوار نے تمام پودوں اور درختوں میں ایک عجیب قسم کا نکھار پیدا کردیا تھا۔ میں راستے پے چلتے چلتے قدرت کے ان خوبصورت مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا۔ نہ جانے کہا سے وہ سئیرا لیون کا لڑکا جادونے چکو چان آگیا ۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’تم جھیل کی طرف جارہے ہو‘‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں میں جھیل کی طرف جارہا ہوں۔ یہ دو گھنٹے کی آزادی ہے اس سے لطف اندوز ہوناچاہتا ہوں۔ اپنے پھیپھڑوں میں آزادی کی آکسیجن بھرنا چاہتا ہوں‘‘
تو کہنے لگا، ’’یہ تم نے ٹھیک کہا۔ پھیپھڑوں کو آکسیجن کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔وہ بھی آزادی کی‘‘۔
ہم دونوں نے جھیل کی طرف جانا شروع کردیا۔ راستے میں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک طرف تو گھر بنا ہوا تھا او ر ایک طرف اس گھر کے باہر لکڑی کا چھجا سا بنا ہوا تھا۔ اس کے اندر ٹی وی رکھا ہوا تھا۔ یہ لوگ کسی چیز کے انتظار میں تھے۔ میں نے حسبِ عادت ایک آدمی سے پوچھا، ’’میچ کا انتظار کررہے ہو‘‘
کہنے لگا، ’’ہاں، ابھی تھوڑی دیر میں اٹلی اور ساؤتھ کوریاء کا میچ ہے ‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’تم کس کی طرف ہو‘‘
کہنے لگا، ’’ہم اٹالین ہیں۔ ہمیں یقین ہے اٹلی جیت جائے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے‘‘
یہ کہہ کے میں آگے چل دیا۔ چکو چان کہنے لگے، ’’تم بہت زیادہ حوصلہ مند ہو۔ ہر کسی سے بات کرلیتے ہو‘‘میں نے کہا، ’’میں پاکستان میں ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ میں ہر طرح کے لوگوں سے ملا ہو۔ گائیٖڈنگ کے دوران انسان اچھا خاصہ اینتھروپولوجسٹ بن جاتا ہے‘‘
اس نے جواب دیا، ’’میرا کام بھی پبلک ڈیلنگ کا تھا لیکن میرے اندر یہ خوبی نہیں‘‘۔
’’وقت کے ساتھ ساتھ آجاتی ہے۔ویسے اگر تمہیں برا نہ لگے تو تم بتا سکتے ہو کہ تم کیا کام کرتے تھے‘‘
’ہاں ہاں کیوں نہیں۔میں ایک ایسی کمپنی میں کام کرتا تھا جو موبائیل بنانے والی کمپنیوں کوہیرے اور سلیکا بیچتی تھی‘‘
میں نے کہا، ’’ہیرے اور سلیکا کا موبائیل فون کے ساتھ کیا تعلق‘‘
تو کہنے لگا، ’’بہت بڑا تعلق ہے‘‘
میں نے کہا، ’’وہ کیسے‘‘
تو کہنے لگا، ’’تمہیں نہیں پتا کہ موبائیل فون کیسے بنتا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’نہیں‘‘۔
وہ قہقہا لگا کے ہنساء
میں نے کہا، ’اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے‘‘
تو کہنے لگا، ’’بات ہے۔ تمہیں پتا ہے سلیکا اور ہیرے کے بغیر موبائیل فون بن ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں دس ملک ایسے ہیں جہاں بہت زیادہ مقدار میں ہیرا دریافت ہوتا ہے۔ سئیرالیون بھی ان دس ملکوں میں شامل ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں اس بات سے بے خبر ہوں‘‘۔
ابھی ہماری اس موضوع پے بات ہوہی رہی تھی کہ چکوچان نے جھیل دیکھ لی۔ ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
وہ جلدی سے جھیل کے کنارے گیا ۔اپنی جینز اور ٹی شرٹ اتاری اور جھیل میں نہانے لگا۔ میں سوچنے لگا کتنی عجیب بات ہے جب بھی مجھے کوئی دلچسپ بات پتا لگنے لگتی ہے ۔کوئی نا کوئی واقع پیش آجاتا ہے۔ میں نے چکوچان کو ہاتھ کااشارہ کیا کہ میں آگے جارہا ہوں۔ اس کا آدھا جسم پانی میں تھا اور آدھا باہر اس نے ونہی سے ہاتھ ہلایا دیا۔
میں جھیل کے کنارے چلتا چلتا کافی آگے نکل آیا۔ میں یہاں ایک درخت کے نیچے بیٹھ کے جھیل کو دیکھنے لگا۔ جہاں میں بیٹھا ہوا تھا وہاں پاس ہی ایک چھوٹا سا ٹیلا تھا ۔اس ٹیلے کے چاروں طرف پانی تھا۔ اس طرح یہ چھوٹی سی جزیرہ نماں جگہ بن گئی تھی۔ کچھ لوگ جھیل کے پانی میں تیر کے اس جزیرے پے جاتے اور پھر واپس آجاتے۔ جھیل کے اندر کئی جگہوں پے ایک بڑی سی رسی میں پلاسٹک کے لال اور سفید گیند پروئے ہوئے تھے اور وہ پانی کی سطح پے تیررہے تھے۔ چونکہ یہ جھیل آدھی جرمنی میں تھی اور آدھی سوس میں ۔اس لیئے ان لال اور سفید گیندوں سے پروئی ہوئی رسی سے پانی کے اندر سرحد بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ لیکن پانی کے اندر تیرنے والی کشتیاں اس کی پابند نہیں تھیں۔ کئی لوگ جھیل کے پانی میں تیر کے کافی دور چلے گئے تھے۔ میرا دل تو بہت چاہتا تھا کہ میں بھی اس جھیل کے پانی میں تیراکی کروں ،چونکہ گرمی بہت تھی لیکن میں تیرنا نہیں جانتا تھا اس لیئے لوگوں کو تیراکی کرتے دیکھ کر محظوظ ہورہا تھا۔ ایک بڑی حیران کن بات تھی یہاں بچے ،عورتیں مرد جتنے بھی لوگ نہاں رہے تھے ان کے تن پے کوئی کپڑے نہیں تھے۔ میرے خیال میں جھیل کا یہ حصہ ان لوگوں کے لیئے مختص تھا جو لوگ اس بات پے یقین رکھتے ہیں کہ انسان جس حالت میں دنیا میں آتا ہے اس کو اسی طرح رہنا چاہیئے۔ ایسے لوگوں کو نیچرلسٹ کہتے ہیں ۔مجھ سے یہ منظر زیادہ دیر نہ دیکھا گیا ۔میں یہاں سے اٹھ کے واپس آگیا۔ اب تک
چکوچان بھی تیراکی کا شوق پورا کرچکا تھا۔ ہمیں ٹھیک وقت پے ازیل ہائم یعنی مہاجر کیمپ بھی پہنچنا تھا کیونکہ انہوں نے ٹھیک چھ بجے کھانا شروع کردینا تھا۔ ہم دونوں جھیل سے نکل کے واپس آرہے تھے۔ ہم اسی جگہ سے دوبارہ گزرے جہاں پے لوگ لکڑی کے ہٹ نماں کمرے میں ٹی وی دیکھ رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا، ’’کیا ہوا۔تم لوگ جب ہم جارہے تھے تو بڑے خوش تھے لیکن اب تمہیں سانپ سونگھ گیا ہے‘‘۔ ان میں سے ایک جواب دیا، ’’اٹلی میچ ہار گیا۔ اٹلی ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا ہے‘‘۔ میں دل ہی دل میں بڑا خوش ہوا لیکن مجھے افسوس بھی ہوا ۔وہ سیکیورٹی گارڈ کتنا پْرامید تھاکہ اٹلی جیت جائے۔ اس بیچارے نے تو اٹلی کو ورلڈ چیمپیئن تصور کیا ہوا ہوگا لیکن اٹلی ورلڈ کپ سے باہر ہوگیا تھا۔ میں نے ان سے افسوس کا اظہار کیا۔ وہ سارے کھلاڑیوں کی خامیاں گننے لگے۔ کوچ میں برا بھلا کہنے لگے۔ میں نے ان سے اجازت لی کیونکہ ہمیں دیر ہورہی تھی۔ واپسی پے چکوچان سے موبائیل فون پے کوئی بات نہ ہوئی۔ہم مہاجر کیمپ پہنچے تو کھانا شروع ہونے والا تھا۔ میں ایک دفعہ پھر قطار میں کھڑا ہوگیا۔ اب کہ سٹاف بہت اچھا تھا۔ سب نے سَیر ہوکر کھایا۔ انہوں نے کسی کو کچھ نہ کہا۔ میں نے کچن میں کام کرنے والی عورت کو کہا اگر تم لوگوں کو میری مدد کی ضرورت ہے تو میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔ تو وہ کہنے لگی ۔نہیں کیونکہ اب تم لوگوں کو ٹرانسفر کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ تم لوگوں نے گارنیگے ہوٹل جانا ہے۔
میں ہال میں ہی بیٹھ کے اپنی باری کا انتظار کرنے لگا کہ کب میری باری آئے گی۔ اس دفعہ میں چکوچان آخری دو بندے جن کو ڈرائیور کے گارنیگے ہوٹل چھوڑ کے آنا تھا۔ وہ آیا اور ہمیں تھوڑی دیر میں گارنیگے ہوٹل چھوڑ کے چلا گیا۔ یہاں ہم سوتے تھے۔ ہم دونوں جیسے ہی یہاں پہنچے تو چکوچان کہنے لگا، آؤ ٹیرس میں چلتے ہیں وہاں لسٹیں بھی دیکھیں گے اور گپ شپ بھی لگائیں گے۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے۔ اس طرح ہم دونوں پہلے اس جگہ پہنچے جہاں پے لسٹیں لگتی تھیں۔ یہاں کئی لوگ کھڑے اپنے اپنے نام پڑھ رہے تھے ۔ چکوچان نے خوشی سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا، ’’تمہیں پتا کل مجھے کچی کرائس بھیجا جارہا ہے۔ پتا نہیں کہاں بھیجیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو اس کا مطلب ہے یہ ہماری آخری ملاقات ہے‘‘
کہنے لگا، ’’ہاں‘‘
میرا نام ٹرانسفر لسٹ میں نہیں تھا۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کل مجھے کیا کرنا ہے۔ میں نے چکوچان سے کہا، ’’اپنا ای میل لکھ دو ‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم لکھ دو۔ میں کچی کرائس میں جاتے ہی موبائیل فون خریدوں گا۔ تم اس پے فون کرلیا کرنا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘میں نے اسے کاغذ پے اپنی ای میل آئی ڈی لکھ کر دی۔میرے کندھے پے کسی نے ہاتھ رکھا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو پیچھے سیکیورٹی گارڈ کھڑا تھا۔ اس کی شکل سے ایسا لگتا تھا جیسے ابھی رو پڑے گا۔
میں نے کہا، ’’مجھے بڑا افسو س ہے اٹلی میچ ہار گیا‘‘۔
’’لیکن تم تو خوش ہوگے ، ترکی میچ جیت گیا ہے ‘‘۔
میں نے خوشی سے کہا، ’’ہاں اب دو مسلمان ٹیمیں کوارٹر فائینل میں شامل ہوگئی ہیں‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’اگر ترکی اور سینیگال کا میچ ہوگیا تو ایک مسلمان ٹیم باہر ہوجائے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو کیا فرق پڑتا ہے ایک مسلمان ٹیم تو سیمی فائینل میں شامل ہوگی‘‘
کہنے لگا، ’’ہاںیہ تو ہے‘‘۔ چکو چان لسٹ میں اپنا نام دیکھ کے اوپر چلا گیا ۔وہ اپنا سامان سمیٹ رہا تھا کیونکہ کل ناشتے کے بعد اسے جانا تھا اور جانے سے پہلے اسے تمام لوازمات جمع کروانے تھے۔
میں کچھ دیر تو اس سیکیورٹی گارڈسے باتیں کرتا رہا پھر ٹی وی دیکھنے لگا۔ ٹی وی پے کوئی جرمن چینل چل رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ یہ میوزک کا کوئی چینل تھا ۔کوئی ایم ٹی وی ٹائپ کی چیز تھی لیکن اس کا وڈیو ڈے جے کسی افریقن ملک کا باشندہ تھا۔ میں سوچنے لگا اگر آج ہٹلر زندہ ہوتا تو خون کے آنسو ں روتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment