Monday, June 17, 2013

دسواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG



۱۰

سوموار کو نیائش کام پے چلا گیا ۔میں لائبریری چلا گیا۔ مجھے لکھنے میں مزہ آنے لگا۔ میں نے دن میں سات آٹھ گھنٹے لکھنا شروع کردیا۔ اب تک میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے نو باب ثقلین پڑھ چکا تھا۔ میرا ارادہ بیس باب لکھنے کا تھا لیکن
مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میرے دماغ کا پیالہ آہستہ
آہستہ خالی ہوتا جارہا ہے ۔ میں اپنے ہی لکھے کو جب دوبارہ پڑھتا تو مجھے مزہ آتا۔ اپنے ہی تخلیق کیئے ہوئے تجسس کو پڑھ کے مجھے مزہ آنے لگا تھا۔ میں اس کے اختتام کے بارے سوچنے لگا کہ کیسے ختم کروں گا۔ میری اتوار والے دن ثقلین سے بات ہوئی تھی کہ وہ شام کو آئے گا اور اگلا باب لے جائے۔ نہ ہی وہ کھانا کھائے گا نہ ہی رکے گا۔ میں ا س کی یہ شرط مان لی تھی۔ ایسی شرائط وہ کئی دفعہ لگا چکا تھا لیکن میری اور نیائش کی عادت کچھ ایسی تھی کہ ہم اسے کھانے کے بغیر جانے ہی نہ دیتے ۔بھلے وہ کچھ کھا کے آیا ہو اسے ہمارا ساتھ دینے کے لیئے کچھ نہ کچھ کھانا پڑتا۔
میں صبح بھی لائبریری گیا تھا اور شام کو بھی ۔ گھر آکے کھانا بنایا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ثقلین آئے گا ۔میں اور نیائش کھانا کھاچکے۔
اب یہی لگتا تھا کہ وہ نہیں آئے گا۔ لیکن رات کو دس بجے وہ آدھمکا ۔انٹر کام پے ہی کہنے لگا۔ میں اوپر نہیںآوں گا۔ ہم دونوں نے بہت کہا۔ کہ اوپر آجاؤ لیکن وہ نہ آیا۔ مجھ سے دسوا ں باب لیے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح چھ بجے ہمیں اٹھا دیا گیا۔ سب نے واش روم کی طرف دوڑ لگائی۔ ہم میں سے کچھ لوگوں کو یہاں رہنا تھا اور کچھ لوگوں کو اسی بیرک نماں عمارت میں جانا تھا۔رات کو باتوں باتوں میں مجھے لسٹ میں اپنا نام دیکھنا یاد ہی نہ رہا کہ مجھے یہاں رکنا ہے یا وہاں جانا ہے۔ مجھے یہاں رکنا ہوتا یا وہاں جانا ہوتا اس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہاں ہر کسی کی کوشش ہوتی کہ وہ باتھ میں پہلے جائے۔ کیونکہ بعد میں باری ہی نہیں آتی تھی۔ اگر باری آ بھی
جاتی تو باتھ اس قابل نہ رہتا کہ وہاں آ پ کوئی بھی کام کرسکیں۔ میری یہی کوشش ہوتی کہ کم از کم میں دانت صاف کرلوں۔نیچے تہہ خانے میں جو باتھ تھا اس کاکم ہی لوگوں کو پتا تھا۔ میں سیڑھیاں اتر کے نیچے جارہا تھا تو راستے میں مجھے رضا ملا۔ میں نے کہا، ’’کدھر جارہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہانے کے لیئے جارہا ہوں لیکن کوئی باتھ بھی فارغ نہیں۔میں صبح پانچ بجے کا اٹھا ہوا ہوں۔ نہ جانے یہ افریقہ کے لڑکے باتھ میں کیا کرتے ہیں۔ سب بہت دیر لگاتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرے ساتھ آؤ۔ مجھے یہاں سات دن ہوچکے ہیں ۔یہاں کے سارے چور راستے جانتا ہوں۔ تم تو جانتے ہو ،ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے‘‘۔
وہ میرے ساتھ ہولیا۔ جب میں اسے تہہ خانے والے باتھ کی طرف لے کر گیا تو وہ بڑا حیران ہوا۔ لیکن باتھ اندر سے بند تھا۔ میں بڑا حیر
ان ہوا۔ کیونکہ اس باتھ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا یہاں نہانے کا بھی انتظام ہے۔ میں نے کہا، ’’یہاں انتظار کرتے ہیں۔ یا تو کوئی اندر ہے یا سیکیورٹی والوں نے اس کو بند کردیا ہے‘‘۔
میں نے دروازے کے ہینڈل کو ایک دو دفعہ گھما کے دیکھا لیکن دروازہ نہ کھلا۔ دروازہ اندر سے یا باہر سے لاک کیا گیا تھا۔ ابھی میں یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے رضا کے سامنے شرمندہ ہونا پڑا۔ ٹھک سے دروازہ کھلا۔ اندر سے سالواتورے نکلا۔ میں نے کہا، ’’تمہیں اس باتھ کا کس نے بتایا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں ناپولی کا ہوں۔ ہم سب سے پہلے وہ چیز ڈھونڈتے ہیں جو کسی کو نہ پتا ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے ناپولی کے لوگوں کے بارے میں سنا تھا آج دیکھ بھی لیا‘‘۔
خیر میں نے رضا سے کہا ، ’’پہلے تم نہاں لو اس کے بعد میں نہاں لو ں گا ‘‘۔
رضا نے میرے کہنے پے عمل کیا اور وہ باتھ میں نہانے چلا گیا۔ میں اور سالواتورے باہر کھڑے باتیں کرنے لگا۔ جب رضا نہا کر باہر نکلا تو میں نہانے چلا گیا۔ میں جیسے ہی نہاں کر باہر نکلا تو ہم تینوں نے ڈائیننگ ہال کی راہ لی۔ وہاں پے ناشتہ پیش کیا جارہا تھا۔ میں نے ناشتے کی قطارمیں کھڑے ہونے سے پہلے لسٹ میں اپنا نام دیکھا۔ اتفاق سے ہم تینوں کا نام ٹرانسفر لسٹ میں تھا۔
میں نے آکر رضا اور سالواتورے کو خوشخبری سنائی کہ ہم تینوں کا نام ٹرانسفر لسٹ میں ہے۔ وہ ناشتے کی قطار میں کھڑے تھے۔ سالواتورے حسبِ عادت گالیاں دے رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’تم ہر وقت گالیاں کیوں دیتے رہتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’اس سے دل کا بوجھ ہلکا ہوتا ہے۔ ہم اٹالین بات دل میں نہیں رکھتے ۔ایک لمحے میں بندے کے کپڑے اتار کے ہاتھ میں تھمادیتے ہیں اور دوسرے ہی لمحے ہم ایسے ہوجاتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ جیسے میں کرتا ہو۔ مجھے قطار میں بھکاریوں کی طرح کھڑے ہوکر کھانا لینا پسند نہیں اس لیئے میں گالیاں دے رہا ہوں۔لیکن جیسے ہی میرے پیٹ کی آگ بجھ جائے میں سب کچھ بھول جاؤں گا‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ تو اچھی بات ہے۔ اس طرح انسان کے دل پے کوئی بوجھ نہیں رہتا‘‘۔
ہم لوگ اپنا اپنا ناشتہ لے کر کھانے کی میز پے آگئے۔ میں سالواتورے اور رضا ایک ہی میز پے بیٹھے ۔یہاں گارنیگے ہوٹل میں کھانے کی میز اس بیرک نماں عمارت کے ہال کی طرح نہیں تھی کہ جہاں ایک ہی میز پے بیس بیس بندے بیٹھ کے کھانا کھا سکتے ہیں۔ یہاں چار سے چھ بندوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ہم لوگ ناشتے کرنے میں مصروف تھے۔ ناشتے میں ہمیشہ کی طرح وہی سوس بروڈ، جیم، مکھن کی چھوٹی ٹکیہ اور ساتھ وہ چائے جو قہوہ نماں تھی۔ مجھے یہ پیلے رنگ کاپانی جسے سوس لوگ چائے کہتے تھے بالکل ایسا لگتا ،میں لکھ نہیں سکتا کیسا لگتا تھا۔ خیر اس اٹالین نے تو یہ قہوہ پیاء ہی نہیں۔ بڑی مشکل سے ہم لوگ ناشتہ زہر مار کیا کرتے ۔ ہماری ساتھ والی میز پے وہ موٹا لڑکا بیٹھا ہوا تھا جس کا چاچا گجرات کا سابقہ ایم پی اے تھا اور اس کے ساتھ مقصود تھا۔ مقصود جب سے اس عورت کے ساتھ تفریح منا کے آیا تھا وہ کسی سے بات ہی نہ کرتا ۔اسے ایسے لگنے لگا جیسے اسےْ سْرخاب کے پرلگ گئے ہوں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے اس کی کسی بات کا نوٹس نہ لیا۔
ہم لوگ جب ناشتہ کرچکے تو سب نے اپنی اپنی ٹرے
لے جاکر کاؤنٹر پے رکھ دی۔ سیکیورٹی گارڈ نے اونچی آواز میں کہا، ’’جو لوگ ناشتہ کرچکے ہیں ۔ان میں سے جن کا نام ٹرانسفر لسٹ میں ہے وہ نیچے پہنچ جائیں ۔ اس طرح میں ،سالواتورے اور رضا نیچے جاکے اسی ٹیوٹا وین کے پاس کھڑے ہوگئے ۔جس میں میں پہلی دفعہ آیا تھا۔ جس میں میں کئی دفعہ سفر کرچکا تھا۔ جس میں مجھے پہلی دفعہ اس جگہ بٹھایا گیا تھا جہاں کتے کے لیئے جگہ بنی ہوئی تھی۔
جب وین بھر گئی تو ہم تینوں بھی وین میں بیٹھ گئے۔ وین انہی آڑھے ترچھے راستوں سے ہوتی ہوئی اس بیرک نماں عمارت کے پا س پہنچی۔
آج جون کی ۲۳ تاریخ تھی۔ اتوار کا دن تھا۔ کسی قسم کی کوئی سرگرمی نہیں تھی۔ میں نے رات کو سوچا تھا اگر ہم لوگ مل بیٹھے تو آج کا موضوع بوکاچو رکھوں گا ۔ایسا ممکن ہے اس بارے میں رضا یا
سالواتورے کوئی دلچسپ بات بتائیں۔ آج چونکہ آگاتھو بھی بند تھا۔ صبح صبح میرا کہیں جانے کو بھی دل نہیں کررہا تھا۔ ہمیں جیسے ہی وین نے اتارا ہمیشہ کے طرح اس بیرک نماں عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ہماری تلاشی لی گئی۔ جامہ تلاشی کے بعد ہمیں اندر جانے دیا گیا۔ یہاں پے کچھ لوگ صفائی کررہے تھے ،کچھ کچن میں کام کررہے تھے۔ کچھ باغ سے سگرٹ کے جلے اور ادھ جلے ٹکڑے اٹھا رہے تھے۔ میں ،سالواتورے اور رضا اس ہال کے ایک کونے میں بیٹھ گئے۔ ہال کے اندر بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں۔ جس جگہ ہم بیٹھے تھے وہاں بھی ایک بڑی سی کھڑکی تھی۔ جس کے شیشے بہت گندے تھے۔ شاید کافی عرصے سے صاف نہیں کیئے گئے تھے۔ سالواتورے بولا، ’’کل دانتے پے بڑی اچھی گفتگو رہی‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’یہاں پے وقت ہی نہیں گزرتا۔ کسی نا کسی موضوع پے
گفتگو کرکے وقت اچھا گزر جاتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آج کا موضوع کیا ہوناچاہیئے‘‘۔
یہ بالکل طرح مصرعہ کی طرح تھا۔ کوئی بندا شعر شروع کرے اور باقی اس کی تائید کرتے ہوئے اس سلسلے کو آگے لے کر چلیں۔
رضا بولا، ’’کوئی بھی ہو‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’رضا تم نے بوکاچو کو پڑھا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں رات کو سوچ ہی رہا تھا کہ کل ہم لوگ بوکاچو پے بات کریں گے ۔سالواتورے نے مسئلہ حل کردیا‘‘۔
رضا بولا، ’’تم لوگوں نے ڈیکیمرون پڑھی ہے‘‘۔
میں نے اور سالوتورے نے یک زبان ہوکر کہا، ’’ہاں‘‘۔
رضا بولا، ’’پہلے کس چیز پے بات کریں ،بوکاچو کے حالات زندگی پے یااس کی لکھی ہوئی کتابوں پے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں تو صرف ڈیکیمرون کے بارے میں ہی جانتا ہوں ۔ وہ میں نے پڑھی ہے۔ اس کی دیگر کتابوں کے بارے میں نہیں جانتا ‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ہم اٹالین لوگ دانتے اور بوکاچو کے بارے میں اتنا شوق سے نہیں پڑھتے کیونکہ ان کی کتابیں ہمارے کورس کا حصہ ہوتی ہیں ۔ہم ان کے بارے میں اتنا سنتے ہیں کہ ہمیں ان سے چِڑہوجاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’یہ بات درست ہے۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہے لیکن کسی ملک کے پرانے تہذیب و تمدن کے بارے میں جاننے کے لیئے اس طرح کی ادباء کی کتابیں بہت مفید ثابت ہوتی ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’جیسے فردوسی، رومی، جامی اور سعدی کے بغیر ہمارا ادب مکمل ہی نہیں ہوتا لیکن کبھی کبھی ہم ان کا زیادہ ذکرسن کے اکتا جاتے
ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بوکاچو کے حالات زندگی سے شروع کرتے ہیں‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’رضا تم بتاؤ۔کہیں کوئی غلطی ہوئی تو میں تصحیح کردوں گا جس کی کوئی گنجائش نہیں‘‘۔
رضابولا، ’’اٹلی کا یہ مشہور افسانہ نگار جس کا پورا نام جووانی بوکاچو(Giovanni Boccaccio) تھا ۔اٹلی کے مشہور ریجن تسکانہ(Toscana) میں پیدا ہوا۔ ویسے تو یورپیئن اٹلی کے بارے میں کہتے ہیں کہ یورپ کا دل اٹلی ہے۔اٹلی کا دل تسکانہ ہے۔تسکانہ کا دل فلورنس ہے۔ فلورنس کے پاس ایک علاقہ ہے چیرتالدو(Certaldo) جووانی بوکاچو ۱۳۱۳ میں یہاں پیدا ہوا۔ کون سے مہینے میں پیدا ہوا اس کا صحیح اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کیوں سالواتورے میں ٹھیک کہہ رہا ہوں‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’جب تم غلطی کرو گے تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ویسے کسی کو بھی ان پرانے ادیبوں اور شاعروں کی صحیح تاریخ پیدائش یاد نہیں ہوتی ۔ خیر تم آگے بتاؤ‘‘۔
’’بوکاچو نے زندگی کے ابتدائی ایام فلورنس میں گزارے کیونکہ اس کا باپ اس وقت کی مشہور کمپنی کمپانیہ دی باردی (campagnia di bardiکے لیئے کام کرتا تھا۔ بوکاچو نے ابتدائی تعلیم جووانی مازولی(giovanni mazzoli) سے حاصل کی۔ جس نے اس کو دانتے سے متعارف کروایا۔ چونکہ بوکاچو امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس لیئے اسے اس وقت کے بہترین استاد میّسر آئے۔ بوکاچو کا باپ جس بینک کے لیئے کام کرتا تھا انہوں نے اس کی ٹرانسفر ناپولی (نیپلز) کردی ۔اس طرح بوکاچو بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ ناپولی چلا گیا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’آج ناپولی کی حالت دیکھو،وہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا‘‘۔
رضا بولا، ’’اس وقت ناپولی علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ قوموں پے عروج و زوال آتے رہتے ہیں۔ خیر بوکاچو کے باپ نے اس کو بینک میں نوکری دلوائی لیکن اس نے اس کام میں بالکل دلچسپی نہ لی‘‘۔
میں بولا، ’’ظاہر ہے اگر بینک میں دلچسپی لیتا تو ڈیکیمرون کیسے لکھتا‘‘۔
رضا بولا، ’’ظاہرہے، انسان کو جس چیز میں دلچسپی ہو اس کے آثار شروع میں ہی نظر آجاتے ہیں۔ بوکاچو کا باپ چاہتا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام کرے جس میں پیسہ ہو۔ جیسے ہر باپ کی خواہش ہوتی ہے۔ جب اس نے بینک میں دلچسپی نہ لی تو اس نے اس کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیئے لاء کالج میں داخل کروادیا۔ اس وقت ناپولی میں قانون کی تعلیم کے لیئے سٹوڈیم (studiam)سے بہتر کوئی جگہ
نہ تھی۔ چھ سال تک بوکاچو قانون کی تعلیم حاصل کرتا رہا لیکن وہاں رہتے ہوئے اس نے زیادہ دلچسپی سائنس اور ادب میں لی۔ ناپولی میں قیام کے دوران بوکاچو کے باپ نے اس کا تعارف ناپولی کی امیر خاندان کے شخص سے کروایا جس کا فرانس کی حکومت میں اثر وزرسوخ تھا۔ رابرٹ اس وقت ناپولی کا بادشاہ تھا۔ وہ
رابرٹ دی وائز(robert the wise) کے نام جانا جاتا تھا۔ یہاں ناپولی میں رابرٹ کے محل میں وہ رابرٹ کی شادی شدہ بیٹی کے عشق میں بری طرح گرفتارہوگیا۔
اس دوران بوکاچو کی شناسائی پاؤلو دی پیروجا (paolo di perugia)سے ہوگئی۔وہ پرانی دیو مالائی کہانیوں کو اکھٹا کررہا تھا۔ اس کے علاوہ ناپولی میں بوکاچو بہت سارے علمی و ادبی لوگوں سے
متعارف ہوا۔ ناپولی میں بوکاچو نے دوشعری مجموعے لکھے۔ فیلو سترادو
(filostrado)اور تسیدا(Taseada)۔ اس کی ان دو کتابوں سے متاثر ہوکر انگلینڈ کے شاعر جوفرے چوسر(Goeffery Chaucer) نے اپنی لمبی نظم لکھی ۔اس کے بعد بوکاچو نے نثری فن پارہ تخلیق کیا،فیلوکولو (filocolo)جوکہ ایک فرانسیسی کہانی سے متاثر ہوکر لکھا تھا۔
بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر بوکاچو نے ناپولی چھوڑ دیا اور واپس فلورنس آگیا۔ بوکاچو،پترارکا (Petrarca)کا بہت بڑا مداح تھا۔جب اس نے ناپولی چھوڑا تو ان دنوں پترارکا ناپولی آیا ہوا تھالیکن بوکاچو کی اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔ جب بوکاچو فلورنس واپس آیا تو ان دنوں یہاں سیاسی ابتری شروع ہوگئی۔ ان دنوں بوکاچومختلف چیزیں لکھتا رہا۔ ۱۳۴۸ میں پورے یورپ کو پلیگ نے گھیر لیا۔ اس کا اثر فلورنس پر بھی ہوا۔ قریباًایک تہائی آبادی اس کی نظر
ہوگئی۔ ان دنوں بوکاچو نے کچھ وقت راوینا (ravenna)میں گزارا۔ بوکاچو دوبارہ فلورنس واپس آیا اور اس نے ڈیکیمرون پے کام شروع کیا۔ تین سال کے عرصے میں اس نے اپنی یہ کتاب مکمل کی۔ بوکاچو جب فلورنس واپس آیا تو ا س کی ملاقات پترارکا سے ہوئی۔ پترارکا سے اس کی ملاقات بہت تعمیری ثابت ہوئی۔ اس کے لکھنے کے اندازمیں تبدیلی آئی۔ اس دوران اس نے کئی ادبی فن پارے تخلیق کیئے۔ آخرکار ۱۳۷۵ میں تریسٹھ سال کی عمر میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اسے کے جسم کو اس کی خواہش کے مطابق جلا دیا گیا۔ بوکاچو نے اپنی زندگی میں کئی لڑکیوں سے دوستی کی لیکن شادی کبھی نہ کی۔ ان تعلقات سے اس کے تین بچے پیداہوئے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’بہت خوب ،رضا تمہاری یاداشت بہت اچھی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’ابھی تو میں نے بہت سی چیزوں کا ذکر نہیں کیا۔ کیونکہ اس کی زندگی کے بارے میں زیادہ بتاتا تو تم دونوں اکتاء جاتے‘‘۔
میں بولا، ’’میں نے بھی ڈیکیمرون پڑھی ہے اور سالواتورے نے بھی۔ مجھے نہیں پتا کی اس کو پڑھ کے سالواتورے کے دماغ میں کیاخیال آیا لیکن جب میں نے ڈیکیمرون پڑھی تو میرا دھیان ایک دم قصہ چہار درویش کی طرف گیا۔ اس میں چار درویش ایک جنگل میں اپنی کہانی سناتے ہیں۔ اس میں ہر درویش جب اپنی کہانی سناتا ہے تو اس کی کہانی سے دوسری کہانی جنم لیتی ہے۔ وہ بھی جنگل میں بیٹھ کے کہانی سناتے ہیں ۔فرق صرف اتنا ہے کہ وہ چار ہوتے ہیں جبکہ ڈیکیمرون میں دس بندے ہوتے ہیں۔ سات لڑکیا اور تین لڑکے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’بوکاچو نے اس کہانی میں سات لڑکیا اور تین لڑکے
تشبیہ کے انداز میں لکھا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’مطلب ‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’انسان کی مختلف عادات کو لیا ہے۔ جیسے ،غصہ ،شہوت، یقین، امید، برداشت،پیار،وجہ،انصاف، تکبر او ر طاقت ‘‘۔
رضا بولا، ’’بہت خوب۔ جیسا کہ فرشتہ نے کہا ڈیکیمرون پڑھنے کے بعد اس کے دماغ ایک دم قصہ چہار درویش آئی ۔بالکل جب میں نے پہلی دفعہ ڈیکیمرون پڑھی تو میری ذہن میں ایک دم ہزار داستان آئی۔ میں نے سوچنا شروع کیا کہ ڈیکیمیرون میں بوکاچو نے اس کتاب میں دس کرداررکھے اور ہر کردار روز ایک ایک کہانی سناتا ہے۔ دس دنوں میں یہ لوگ سو کہانیاں سناتے ہیں۔ بالکل ہزار داستان کی طرح لگی۔ میں اس کی تحقیق میں لگ گیا۔ میری بیوی کا تھیسس بھی یہی تھا۔ میں اس کی مدد کیا کرتا ۔اس دوران میں نے کئی
نئی چیزیں دریافت کیں‘‘۔
سالواتورے متجسس انداز میں بولا، ’’کیا دریافت کیا۔ یقیناًدلچسپ ہوگا‘‘۔
میں بولا، ’’ویسے میں ایک بات کا اضافہ کردوں ۔میں نے جس قصہ چہار درویش کا ذکر کیا ہے وہ میرا من دہلوی نے انگریز پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پے ایک فارسی زبان کے قصے ،قصہ چہار درویش کو آسان زبان میں میرامطلب اردو میں باغ و بہار کے نام سے لکھا‘‘۔
رضا بولا، ’’یہی میں سوچ رہا تھا کہ قصہ چہار درویش تو فارسی کی کتاب ہے۔جس میں خواجہ سگ پرست کی کہانی بھی ہے‘‘۔
میں بولا، ’’بالکل یہی ہے۔اس میں کہانی سے کہانی نکلتی ہے‘‘۔
سالوارتورے بولا، ’’ایسا عین ممکن ہے بوکاچو نے کسی فارسی کتاب کا لاطینی میں ترجمہ پڑھا ہو اور اس کو سامنے رکھتے ہوئے اس نے
ڈیکیمرون کو اس طرح کے نمونے میں ڈھالا ہو‘‘۔
رضا بولا، ’’فارسی میں نہیں بلکہ عربی میں کیونکہ ان دنوں اٹلی کے ایک جزیرے سسلی میں مسلمانوں کا عمل دخل تھا۔ ان دنوں مسلمان علم و ادب میں عروج پے تھے۔ وہ عربی سکالر نا صرف عربی میں بلکہ لاطینی اور ہسپانوی میں بھی لکھا کرتے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں نے ایک کتاب میں پڑھا ہے کہ سسلی میں بہت سے مسلمان شعراء گزرے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ اب آتے ہیں ڈیکیمرون کی طرف ۔ ڈیکیمرون جیسا کا نام سے ظاہر ہے ڈیکا ۔ڈیکایونانی زبان میں دس کو کہتے ہیں ۔اس کہانی کے دس کردار ہیں ۔ہر کردار روز ایک کہانی سناتا ہے۔ اس طرح ایک دن میں دس کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ دس دنوں میں سو کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ یہ دس لوگ فلورنس کے پاس ایک جگہ
ہے چیرتالدو وہاں رہتے ہیں۔ یہ دس کے دس پلیگ سے بچنے کے
لیئے یہاں آکر پناہ لیتے ہیں ۔وقت گزارنے کے لیئے یہ طریقہ اختیار کرتے ہیں‘‘۔
میں بولا، ’’جیسے ہم لوگوں نے و قت گزارنے کے لیئے یہ طریقہ دریافت کیا ہے‘‘۔
رضا بولا،’’بالکل درست ہے۔ انسان وقت گزارنے کے لیئے کئی طریقے ڈھونڈتا ہے۔ بوکاچو نے جب یہ کتاب لکھنی شروع کی تو اس کا نام ڈیکیمرون رکھا لیکن ساتھ ساتھ اس کانام پرنس گالیؤتی (prince galleotti)بھی رکھا۔ ان دنوں کتاب کے دو عنوان رکھنے کا رواج تھا۔ ڈیکیمرون کی کہانیوں کی شہرت کا یہ حال تھا کہ ا س کی کئی کہانیاں جوفرے چوسر کی کینٹ بری ٹیلزمیں پائی جاتی ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’یہ بہت دلچسپ ہے کہ دانتے کی دیوینا کومیدیاء کے ڈانڈے بھی عربی کی کتاب سے ملتے ہیں اور بوکاچو کی ڈیکیمرون کے بھی‘‘۔
رضا بولا، ’’اس کی تفصیل تھوڑی لمبی ہے‘‘۔
میں بولا، ’’اس کا مطلب ہے عربی سے پہلے کوئی کہانی تھی جس کا اثر بوکاچو نے لیا،شاید فارسی سے‘‘۔
رضا بولا، ’’میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بوکاچو کی نظر سے عربی کی ترجمہ شدہ کتاب گزری نہ کہ فارسی لیکن بوکاچو کی ڈیکیمرون کا سلسلہ سنسکرت کی کتاب سے ملتا ہے ‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’یہ کس نے تحقیق کی ہے‘‘۔
رضا بولا،’’ آئرلینڈ کے اٹالین زبان کے پروفیسر ڈبلیو۔ایچ ۔میک ولیم (W.H. Mc.William)نے کیا ہے۔ میک ولیم نے جووانی بوکاچو کی کتاب ڈیکیمرون کا بہترین ترجمہ کیا ہے۔ اس سے
پہلے کئی لوگوں نے ڈیکیمرون کا ترجمہ کیا لیکن میک ولیم نے اس کا ترجمہ کرنے کے لیئے بہت زیادہ تحقیق کی۔ یہ عام فہم ہے اور جامع ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ڈیکیمرون کے مرکزی خیال یا یوں کہنا چاہیئے کہ جس نمونے پے لکھی گئی اس کی بات ہورہی تھی۔ بقول تمہارے سنسکرت کی کسی کتاب سے اس کا نمونہ یا خاکہ اخذ کیا گیا ہے۔ اس بارے میں بات ہونی چاہیئے۔ میرا خیال میں میرے لیئے یہ بہت دلچسپ بات ہوگی‘‘۔
میں بولا، ’’میری لیئے بھی‘‘۔
رضا بولا، ’’تم لوگوں نے پنج تانترا کا نام سنا ہے۔یہ کتاب ۵۰۰ عیسویں میں سنسکرت میں لکھی گئی۔ پنچ تانترا کا پہلا ترجمہ فارسی میں ہوا ۔اس وقت کی فارسی زبان کو پرانی فارسی کہتے ہیں کیونکہ اس وقت
اس کانام ژندہ تھا پھر پہلوی ہوا اور آج یہ فارسی کے نام جانی جاتی ہے۔ پرانی فارسی سے پنج تانترا کا ترجمہ عربی میں ہوا۔ عربی سے عبرانی میں اور عبرانی سے لاطینی میں ۔بوکاچو نے پنج تانترا کا وہ لاطینی ترجمہ پڑھا اس کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے ڈیکیمرون لکھی‘‘۔
میں بولا، ’’یہ پنج تانترا کیا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’میک ولیم نے لکھا ہے کہ پنج تانترا ۵۰۰سو عیسویں میں لکھی گئی لیکن جن لوگوں نے پنج تانترا کے بارے میں گہرائی سے تحقیق کی ہے وہ کہتے ہیں یہ کتاب جو کہ نظم اور نثر کی صورت میں لکھی گئی ہے۔ سب سے پہلے ۳۰۰ عیسویں میں لکھی گئی ۔ اس کے بعد اس کو کئی بار لکھا گیا۔ اس کا آخری اور مکمل نمونہ ۵۰۰ عیسویں میں لکھا گیا۔ اس کے بعد اس کا پہلوی میں ترجمہ بورزویاء نے ۵۷۰ میں کیا۔ پھر اس کا ترجمہ شامی زبان میں کلیلگ و دمنگ کے نام سے ہوا ۔ پھر ایک فارسی
زبان کے فلاسفرجو کہ عربی بھی جانتا تھا عبداللہ ابنِ ال مقفاء نے ۷۵۰ میں اس کا عربی میں ترجمہ کیا۔ ا س نے اس کا نام کلیلہ و دمنہ رکھا۔اس کا پہلوی میں تو ترجمہ ہوہی چکا تھا لیکن پہلوی وقت کے ساتھ ساتھ جب فارسی بنی تو اس میں کافی تبدیلی آچکی تھی۔ اس کا فارسی میں ترجمہ بارہویں صدی میں ہوا۔ اس کے نام کلیلہ و دمنہ ہی رکھا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو انوار سہیلی کے نام سے بھی جانا جانے لگا‘‘۔
میں بولا، ’’اور اس کے بعد‘‘۔
رضا بولا،’’پہلے میں اپنی بات مکمل کرلوں پھر پوچھنا۔ پنج تانترا۔ پانچ حصوں میں تقسیم کی گئی ہے۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے پنج یعنی پانچ ۔اس میں وشنو شرما ،پہلی کہانی شروع کرتا ہے ۔اس کا نام مترا بھیدا رکھتا ہے ۔اس میں جانوروں کی کہانیاں ہیں اور ایک کہانی سے
دوسری کہانی جنم لیتی ہے۔
پنج تانترا کی کئی کہانیاں سدھارتھا گوتما بدھا کی جاکتاؤ میں بھی پائی جاتی ہیں ‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’تم نے بتایا تھا کہ اس کا پہلا ترجمہ پہلوی میں ہوا ۔ بقول تمہارے بورزویاء نے اس کا ترجمہ کیا لیکن اس تک یہ کتاب کیسی پہنچی‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ قصہ بہت دلچسپ ہے۔ فردوسی اپنے شاہ نامہ میں لکھتا ہے کہ ساسانی دور حکومت میں وہاں کا بادشاہ خسرو اول تھا۔ اس کا شاہی حکیم اپنے بادشاہ سے اجازت لے کر انڈیاء جاتا ہے اور اپنے سفر کی وجہ یہ بتاتا کہ وہاں کے پہاڑی علاقوں میں ایک ایسی بوٹی ہے جس کے استعمال سے یا پانی میں گھول کے پینے سے مردہ دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے۔ بادشاہ اپنے شاہی حکیم کو سفر کی اجازت دے دیتا ہے۔
بورزویاء جب انڈیاء پہنچتا ہے تو اسے اس طرح کی کوئی بوٹی نہیں ملتی جس سے مردہ دوبارہ زندہ ہوجائے۔ بہت سے پنڈتوں اور گیانیوں سے ملنے کے بعد وہ اس نتیجے پے پہنچتا ہے کہ علم زندگی ہے اور بغیر علم کے انسان مردہ جسم کی طرح ہے۔ یعنی علم وہ بوٹی ہے جو مرے ہوئے انسان کو زندہ کردیتی ہے۔ یہاں اس کو پنج تانترا کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ وہ مختلف پنڈتوں کی مدد سے پنج تانترا کو پڑھتا ہے اور اس کا ترجمہ کرتا ہے‘‘۔
میں بولا، ’’یہ تو ہوگیا پہلوی میں ترجمہ ۔جس کا پس منظربڑا دلچسپ تھا۔ اب عربی میں کیسے اس کا ترجمہ ہوا‘‘۔
رضا بولا، ’’بورزویاء کا ترجمہ تو کہیں غائب ہوگیا لیکن اس کا ترجمہ شامی زبان میں ہوچکا تھا ۔اس لیئے ابنِ ال مقفاء نے اس کا ترجمہ عربی زبان میں ۷۵۰ میں کیا۔ اس کا نام کلیلہ و دمنہ رکھا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’لیکن یہ عربی ترجمہ لاطینی تک کیسے پہنچا‘‘۔
رضا بولا، ’’میں اسی طرف ہی آرہا ہوں۔ عربی سے اس کا ترجمہ دوبارہ شامی زبان میں ہوا ۔پھر اس کا ترجمہ یونانی زبان میں ہوا۔ عبدل مالی نصر اللہ منشی نے اس کا جدید فارسی میں ترجمہ۱۱۲۱ میں کیا۔ پھر اس کا ترجمہ ہسپانوی زبان میں بلکہ یوں کہنا چاہیئے کاتلان(Catalan) زبان میں ۱۲۵۲ میں ہوا۔ بارہویں صدی میں ایک یہودی رابی جوئیل نے اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں کیا ۔جس کی وجہ سے ا س کتاب کا تعارف یورپ میں ہوا۔ عبرانی زبان سے اٹالین سکالر جووانی دی کوپوا (Giovanni di copova)نے اس کا ترجمہ لاطینی میں کیا۔ جووانی بوکاچو نے جووانی دی کوپوا کا لاطینی ترجمہ پڑھا اور اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈیکیمرون لکھی‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو قصہ چہار درویش کیا ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’اس کا قصہ یوں ہے کہ امیر خسرو کے استاد اور صوفی بزرگ شیخ نظام الدین اولیاء بیمار پڑگئے۔ امیر خسرو نے ان کا دل بہلانے کے لیئے ہزار داستان کے انداز میں کہانیاں سنانی شروع کردیں۔ اس کا نام فارسی میں ہزار و یک شب رکھا۔ یعنی ایک رات میں ہزار کہانیاں۔ امیر خسرو کی کہانیاں سن کر شیخ نظام الدین اولیاء کی طبیعت ٹھیک ہوگئی۔ انہوں نے دعا کی کہ کوئی بھی یہ کہانیاں پڑھے یا سنے گا تو اس کی بیماری جاتی رہے گی۔ان کہانیوں کا اصل خالق امیر خسرو تھا۔ اس نے ان کہانیوں کا نام ’’قصہ چہار درویش رکھا تھا۔ اس فارسی زبان کے قصے کو کسی گمنام ادیب نے اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ بعد میں جب انگریزوں نے فورٹ ولیم کالج قائم کیا تو وہاں پروفیسر گلکرسٹ نے میر امن دہلوی سے درخواست کی کہ اس قصے کا اردو ترجمہ کرے۔ میر امن دہلوی نے اس کتاب کا فارسی سے آسان اردو میں
ترجمہ کیا اور اس کا نام باغ و بہار رکھا۔ جو تم نے کہا تھا کہ اس کو پروفیسر آرنلڈ کے کہنے پر دوبارہ لکھا گیا تھا وہ غلط ہے‘‘۔
میں انے تئیں بہت شرمندہ ہوا۔ میں نے غلط آدمی کا نام لیا تھا اور جو تفصیل رضا نے بتائی تھی اس کو چیلنچ ہی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
سالواتورے بولا، ’’تو ہزار و یک شب کیا ہے یا ہزار داستان‘‘۔
رضا بولا، ’’کہتے ہیں کہ مسعودی نے پہلی دفعہ الف لیلیٰ کے نام سے یہ کتاب ۹۵۶ میں لکھی ۔۔کچھ لوگوں کا خیال ہے ابنِ الندیم نے یہ
کتاب ۹۸۷ میں لکھی۔ اس کہانی کا سیاق و سباق یہ ہے کہ فارس کا ایک بادشاہ شہریار اپنی کسی بیوی پے بھی اعتبار نہیں کرتا ۔وہ شادی کے دوسرے دن اپنی بیوی کو اس لیئے چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اسے شک گزرتا ہے کہ میری بیوی کنواری نہیں تھی۔ شہریار کا وزیر برامکی بہت پریشان ہوتا کیونکہ اسے کوئی بھی لڑکی نہیں ملتی جو کنواری ہو۔ ہوتی تو وہ کنواری
ہیں لیکن بادشاہ ان سے مطمئن نہیں ہوتا۔ وزیر کی بیٹی شہرزاد اپنے باپ کو پریشان دیکھ کر کہتی ہے کہ شہریار سے میں شادی کروں گی۔ پہلے تو وزیر نہیں مانتا لیکن آخر کار وہ مان جانتا ہے۔ شہریار کی شادی شہرزاد سے ہوجاتی ہے۔ شہرزاد سہاگ کی پہلی رات شہریار کو کہانی سناتی ہے اور اس کا انجام نہیں سناتی ۔شہریار کہانی کا اختتام سننے کے لیئے اس کو محل سے نکالنے کا ارادہ اگلے دن تک کے لیئے ملتوی کردیتا ہے۔ اس طرح وہ روز کہانی سناتی ہے ۔وہ ایک ہزار ایک کہانیاں سناتی ہے۔ اس دوران شہریار کو شہرزاد سے پیار ہوجاتا ہے وہ ہمیشہ کے لیئے اس کی بیوی بن جاتی ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’لیکن اس کاڈیکیمرون سے کیا تعلق ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’کیونکہ بوکاچو نے دس لوگوں سے روز ایک ایک کہانی سنوائی ہے اور دس دنوں میں سو کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ اب تک میں
نے جتنی بھی گفتگو کی ہے۔ اس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی کہ بوکاچو نے ان کہانیاں کا ترجمہ کیا ہے یا ان کا پلاٹ چوری کیا ہے۔ میری گفتگو کا لبِ لباب یہ ہے کہ پنج تانترا ،قصہ چہار درویش ،کلیلہ و دمنہ، باغ و بہار اور ڈیکیمرون سب میں چھوٹی چھوٹی کہانیاں ہیں ۔ اور کہانیسے کہانی نکلتی ہے۔ڈیکیمرون میں بھی ہر روز نیا موضوع دیا جاتا ہے اس کے مطابق کہانی سنائی جاتی ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا اس میں دس کردار تشبیہہ کے طور پے پیش کیئے گئے ہیں اور تکبر،انصاف، طاقت، یقین، امید، پیار، وجہ، غصہ، شہوت اور مزاج کو موضوع رکھا گیا ہے۔ ہر روز ایک موضوع ہوتا ہے۔میں نے یہ کہیں بھی نہیں کہا کہ بوکاچو نے ان کہانیوں کا ترجمہ کیا ہے صرف یہ کہا ہے کہ اس نے پرانی کہانیوں کے نمونے کو بنیاد بناتے ہوئے ڈیکیمرون لکھی ہے۔ او ر یہ اطالوی ادب کا نادر نمونہ ہے۔ اگر بوکاچو
کمپانیاء ناردی میں بینکر بن جاتا یا وہ باپ کی خواہش کے مطابق وکیل بن جاتا تو آج ہم تین لوگ اس کے بارے میں بات نہ کررہے ہوتے بلکہ بوکاچو کے نام سے بھی کوئی نہ واقف ہوتا۔ وہ ادیب بنا۔ اس نے بہت زیادہ تحقیق کی، کتابیں لکھیں اور سب سے بڑھ کے ڈیکیمرون لکھی ۔اطالوی ادب پے بہت بڑا احسان کیا ۔ اس لیئے آج ہم اسے یاد کررہے ہیں۔اور جب تک یہ دنیا قائم ہے لوگ اسے یاد کرتے رہیں گے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ خیر جتناعلم بوکاچو
کے بارے میں تمہیں ہے اتنا علم تو کسی اٹالین پروفیسر کو بھی نہیں ہوتا‘‘۔
رضا بولا، ’’خیر ایسی تو کوئی بات نہیں ۔ شوق کی بات ہے۔ تم اگر میری بیوی سے ملو تو پریشان ہوجاؤ۔ وہ شیکسپیئر کی ایک ایک چیز کے بارے میں ہے۔ وہ تو کہتی ہے کہ شیکسپیئر نے کوئی بھی ڈرامہ خود نہیں لکھا‘‘۔
میں بولا، ’’فالحال تو ہم بوکاچو کی بات کررہے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’فرشتہ تمہیں ڈیکیمرون میں کیا پسند آیا‘‘۔
میں بولا، ’’’مجھے اس کی کئی کہانیاں پسند آئیں۔لیکن اس کی ایک دو کہانیوں میں تین کردار بہت پسند آئے۔ بفلماکو، کلاندرینو اور برونو(bifalmacho, calanderino, bruno)۔اس کے علاوہ کئی کہانیاں بہت دلچسپ ہیں۔ جن میں تاریخی حوالے ہیں‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’اس نے جو دس کردار چنے ہیں پامپینیاء،فیامیتا،فیلومینا، ایمیلیاء، لاؤریتا، نئے فلے، ایلیزاء، پانفیلو، فیلوستراتو،دیونیو۔ یہ دس کے دس کردار بھی تشبہہ کے انداز میں ہیں۔ صرف فیامیتا اس کی معشوق تھی۔ اس نے اپنی کتاب فولوکولو میں فیامیتا
کا بہت ذکر کیا ہے۔ بلکہ یہ کتاب اسی کے بارے میں لکھی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ تو میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ دس انسانوں کو نام دے کر انسانوں کی دس عادات کو موضوع بنا کر بوکاچو نے بہت اچھی ادبی کاوش کی ہے۔ ڈیکیمرون کی کہانیوں کا محور صرف اٹلی نہیں بلکہ اس میں سپین، فرانس، ترکی، مصر، انگلستان اور یونان کا بھی ذکر ہے۔ اس نے سو کہانیاں خود تخلیق کی ہیں۔ اس میں کوئی بھی کہانی پنج تانترا سے نہیں لی۔ یہ الگ بات ہے کہ بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ اس بات کا بوکاچو نے خود اعتراف کیا ہے کہ اس نے ڈیکیمرون میں جتنی بھی کہانیاں لکھی ہیں ۔ اس میں سے بیشمار اس نے سن رکھی تھیں۔ لیکن ان میں ادبی چاشنی نہیں تھی۔ نہ ہی یہ کہانیاں کسی کتابی صورت میں تھیں یا یوں کہنا چاہیئے کہ لکھی ہوئی صورت میں تھیں۔ میرے خیال بوکاچو نے ڈیکیمرون لکھ کر اطالوی ادب پے بہت بڑا احسان کیا ہے۔
اس طرح ہم آج سے سات سو سال پہلے اٹلی کے جھلک دیکھ سکتے ہیں۔ اس دور کی سیاسی ،سماجی اور معاشی حیثیت کو جان سکتے ہیں‘‘۔
رضا کے یہ جملے سن کے سالواتورے چہرے پے تھوڑی سی رونق آگئی۔ کیونکہ رضا کافی دیر سے ڈیکیمرون کے ڈانڈے پرانی اور دوسری کہانیوں سے ملا رہا تھا۔ ہم لوگ باتوں میں اتنے محو تھے کہ ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہمارے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ جب میں نے مڑ کے دیکھا تو اس بیرک نماں عمارت میں جو لوگ کچن میں کام کرتے تھے ان میں سے دو افراد ہماری گفتگو سن رہے تھے۔ ایک لڑکی اٹالین تھی۔ وہی کہانی، ماں باپ کئی سال پہلے سوس آگئے تھے اور یہ محترمہ یہیں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ انگریزی سمجھتی تھی ۔ دانتے اور بوکاچو کوبھی جانتی تھی۔ رضا سے کہنے لگی،’’میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی ایرانی اور پاکستانی اس ازیل ہائم میں دانتے اور بوکاچو پے بات کرے گا۔
اور جو کچھ رضا نے بتایا یہ اتنا مفید ہے کہ اگر رضا کتاب لکھے تو ہاتھو ہاتھ بکے‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ کام مجھ سے پہلے میک ولیم کرچکا، ہے ۔اس کے علاوہ ،وکٹر برانکا(Victor Branca)، جورج بل(George Bull) اور مارک موسی(Mark Musa) نے اپنی ساری زندگی
اسی کام میں گزار دی۔میک ولیم کا پچھلے سال جنوری میں انتقال ہوگیا ہے‘‘۔
وہ لڑکی بولی، ’’میں یہ کہنے آئی تھی کہ کھانے کا وقت ہوگیا ۔سب لوگ اٹھ کے میز کھولو۔اس کے بعد کھانا تقسیم کیا جائے‘‘۔
ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ ہم لوگ تین گھنٹے سے باتیں کررہے ہیں۔
رضا بولا، ’’اب پھر فقیروں کی طرح قطار میں کھڑے ہوکے کھانا لینا پڑے گا۔ میری تو عزتِ نفس مجروح ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک دو دن ایسا محسوس ہوگا پھر عادت بن جائے گی۔ شروع شروع میں مجھے بھی بہت برا لگتا تھا لیکن اب عجیب نہیں لگتا۔اب یہا ں بھوکے تو نہیں رہ سکتے نا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’یہ تو ہے۔مجھے تو بہت بھوک لگی ہوئی ہے۔ اگر کوئی اٹالین کھانا دیا تو میں دو دفعہ کھاؤں گا‘‘۔
میں بولا، ’’ہاں کھانا دو دفعہ دیتے ہیں اگر بچ جائے تو‘‘
سالواتورے بولا، ’’تم مجھے نہیں جانتے۔ میں پڑھا لکھا ضرور ہو۔ جرنلسٹ بھی ہوں لیکن میری اندر سے وہاں کی عادات نہیں جاسکتیں‘‘۔
جب ہم لوگ تمام میزیں لگا چکے، بیٹھنے والے لمبے لمبے بینچز بھی رکھ دیئے۔ پھر قطار میں کھڑے ہو کر کھانے لینے کے لیئے کھڑے ہوگئے۔ہم تینوں ایک ساتھ ہی کھڑے تھے۔ وہ لڑکی جو ہمارے
باتیں سن رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔اس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دیتا تھاکہ وہ ہمیں اس حالت میں دیکھ کر خوش نہیں تھی۔ لیکن یہ سارا کچھ اس سارے کھیل کا حصہ تھا۔
اتفاق کی بات ہے کہ کھانے میں پاستہ(Pasta) تھا۔ میں نے
سالواتورے سے کہا، ’’آج اگر خدا سے کچھ اور بھی مانگتے تو مل جاتا‘‘۔
اس نے جو جوا ب دیا وہ میں یہاں نہیں لکھ سکتا لیکن ایک جوان لڑکا زیادہ سے زیادہ کس چیز کی خواہش
کرسکتا ہے۔ ہم تینوں اپنی اپنی پلیٹ میں کھانے لے کر انہی میزوں میں سے ایک میز پے آگئے جو ہم نے چند لمحوں پہلے یہاں سجائی تھیں۔
رضا بولا، ’’یہ سزا بہت سخت ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ابھی تو بہت سے مراحل سے گزرنا پڑے گا۔ انٹرویو، فنگر پرنٹس، خون اور پیشاب کا ٹیسٹ، ایڈز اور ایپیٹائیٹس سی اور بی کا ٹیسٹ اس کے بعد جان چھوٹے گی‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’اگر کسی کو ایڈز ہو تو کیا کرتے ہیں‘‘۔
میں بولا، ’’میرا خیال ہے اسے یہیں رکھ لیتے ہیں‘‘۔
سالواتورے نے اٹالین میں گالی دی۔
کھانا کھاچکے تو میں اسی انتظار میں تھا کہ سالواتورے کو ئی کرتب دکھائے گا لیکن اس نے کچھ نہ کیا۔میں نے پوچھا، ’’تم کچھ کرنے والے تھے‘‘۔
کہنے لگا،’’یہ کھانا اتنا ثقیل تھا اب بالکل بھوک نہیں۔ اب بس کہیں سے کافی مل جائے تو مزا آجائے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں تو قہوہ ملتا ہے‘‘۔
سالواتورے نے عجیب سا منہ بنایا۔ میں نے اور رضا نے کھانے کے بعد قہوہ پی لیا لیکن سالواتورے کامزاج تھوڑا بگڑ گیا۔ میں نے کہا، ’’یہاں سلیکٹا کی مشین لگی ہوئی ۔اس میں سکے ڈالو اور کافی پی لو‘‘۔
کہنے لگا،’’یار وہ بھی کوئی کافی ہوتی ہے۔ دنیا کی سب سے گھٹیاء کافی اس مشین میں ڈالی جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ابھی آتا ہوں‘‘۔ میں یہ کہہ کر کچن میں چلا گیا۔ وہی لڑکی جس کے دل میں ہمارے لیئے نرم گوشہ تھا ۔ میں نے اس سے آہستگی سے کہا، ’’ہمارا دوست کافی کے لیئے تڑپ رہا ہے۔ اگر ایک کپ کافی مل جائے تو مزہ آجائے‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’میرے ساتھ آؤ‘‘۔ میں اس کے ساتھ ہولیا۔ اس نے اپنے کیبن میں دو کپ کافی کے بنائے ۔ایک مجھے دیا اور دوسرا اپنے
لیئے رکھ لیا۔ کہنے لگی،’’میں سوس میں ضرور پیدا ہوئی ہوں لیکن کافی میری خون میں ہے۔ یہاں بہت گرمی ہوتی ہے لیکن کافی پینے سے ساری تھکن اتر جاتی ہے‘‘۔
میں نے کافی کا کپ ہاتھ میں اٹھایا ،اس کا شکریہ ادا کیا اورکچن سے باہر آگیا۔ سالواتورے نے جب میرے ہاتھ میں کافی کا کپ دیکھا تو دور سے شور کرنے لگا، ’’براوو، براوو،پاکستانو، پاکستانو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہر جگہ ناپولی کے حربے نہیں کام آتے کہیں کہیں پاکستانی انداز بھی کام آجاتا ہے‘‘۔
سالواتورے نے دو گھونٹ میں کافی پی لی ۔ ہم لوگ جیسے ہی فارغ ہوئے۔ سب نے اپنی اپنی پلیٹ ٹرے میں رکھی۔ پلاسٹک کے خالی کپ بن کی نظر کیئے۔ اس کے بعد ساری میزیں بند کر کے ایک کونے میں رکھی۔ وہ لمبے لمبے بینچز ونہیں چھوڑ دیئے۔ پھر کچھ لوگوں کو
صفائی کے کام پے لگا دیا گیا۔ میں کچن میں ان کی مدد کرنے چلا گیا۔ رضا اور سالواتورے باغ سے سگرٹ کے جلے اور ادھ جلے ٹکڑے اٹھانے لگے۔
آج ہم نے ادب پے اتنی گفتگو کی تھی کہ میرا اب مزید گفتگو کرنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ میں کچن میں جب کام کرکے فارغ ہوا تو میں نے سوچا۔ میرے پاس دو گھنٹے باہر جانے کی اجازت ہے۔ میں جھیل کے کنارے جاتا ہوں۔ وہاں تھوڑا سا آرام بھی کروں گا۔
رضا اور سالواتورے کے ابھی فنگر پرنٹس نہیں ہوئے تھے اس لیئے انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مجھے اکیلے ہی جانا تھا۔ میں ان دونوں سے نظر بچا کے اس بیرک نماں عمارت سے باہر نکلا۔ سیکیورٹی گارڈ
کو ہاوس وائس دکھائی تو کہنے لگا۔ اب تو تمہیں ہفتہ ہوگیا ہے۔ اب ہم سب تمہیں پہچاننے لگ گئے ہیں ۔میں اس کی بات سن کے مسکراء دیا۔ میں نے اسی گندے نالے کے کنارے چلنا شروع کردیا جس سے بو آتی تھی۔ لیکن اب مجھے بالکل بو نہیں آتی تھیں۔ میں نے بالکل محسوس نہ کیا کہ میں کسی گندے نالے کے پاس سے گزر رہا ہوں۔ میں اس راستے سے کئی دفعہ گزرا تھا۔ میں جب بھی گزرتا مجھے پہلا دن جھٹ سے یاد آجاتا۔ میں سٹیشن پے پلیٹ فارمز سے گزر کے جایا کرتا ۔کبھی کتابوں پے نظر پڑجاتی، کبھی اخباروں۔ گو کہ مجھے جرمن زبان کا ایک لفظ بھی سمجھ نہیں آتا تھا لیکن سٹیشن کے بک سٹال پے رکھی اخباروں کو دیکھ کے ان کے فرنٹ پیج پے جو فوٹو لگی ہوتی اس کو دیکھ کے عجیب سا سکون ملتا۔
میں پلیٹ فارم سے باہر نکلا تو اس کے ساتھ ہی جو سڑک جاتی تھی وہ
جھیل کی طرف جاتی تھی میں ہمیشہ کی طرح اسی راستے پے چلتا ہوا جھیل کے کنارے پہنچا جہاں سے میں کئی دفعہ گزرا تھا۔ جھیل کے کنارے چلتے چلتے میری اچانک نظر پڑی ۔مقصود کسی عورت کی گود میں سر رکھے لیٹا ہوا تھا۔ یہ وہی عورت تھی جس کو میں نے بنا لباس کے پہلے دفعہ دیکھا تھا اور مقصود کو چھوڑ کے چل دیا تھا۔ اس کا مطلب ہے مقصود اس سے روز ملنے آتا ہے۔ مجھے تھوڑی سی جلن بھی ہوئی ۔میں تھوڑی سی ہمت کرتا تو آج میں اس کی گود میں سر رکھ کے نیلے آسمان کو دیکھ رہا ہوتا۔فرق صرف اتنا تھا کہ مقصود کے سر پے بال تھے اور میرے سر پے کوئی بال نہیں تھے۔ فرنچ کٹ داڑھی بھی میں اس لیئے رکھی ہوئی تھی کہ منہ کا پتا چلے کہ کہاں سے شرو ع ہوتا ہے۔ میں نے ان دونوں کی طرف دیکھا ،میں نے ایسے ظاہر کیا کہ جیسے میں نے دیکھا ہی کچھ نہیں۔ ایک اچٹتی نظر ڈال کے آگے کو چل دیا۔ میں جھیل
کے کنارے کنارے چل رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آج رضا نے کتنی دلچسپ گفتگو کی۔ مجھے اور سالواتورے کو کتنی معلومات فراہم کیں۔ میں تعلیم مکمل کرکے جب گائیڈ بھرتی ہوا تھا تو میں یہ سمجھتا تھا میں بہت زیادہ علم رکھتا ہوں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگوں سے ملتا گیا، کتابیں پڑھتا گیا تو مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہونے لگا۔ میں نے بدھ ازم کے بارے میں پڑھا، ہندوازم کے بارے میں پڑھا، جین مت کے بارے میں پڑھا، پارسیوں کے بارے میں پڑھا۔ پاکستان کی تاریخ پڑھی۔ گندھارہ آرٹ، دواراوتی آرٹ کے بارے میں پڑھا، پالی آرٹ کے بارے میں پڑھا۔اتنا کچھ پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا جیسا میں بہت زیادہ صاحب علم ہوگیا ہوں۔ مجھے یاد ہے جب میں کسی یورپیئن کو بتاتا تھا کہ سوات کے بہت سے علاقوں میں اٹالین آرکیالوجسٹ جوزپے ٹوچی(guissepe tucci) نے ۱۹۵۵ میں کھدائی کی تھی تو ٹورسٹ بہت حیران ہوا کرتے۔ ان میں سب سے مشہورجگہ بت کارا تھی۔ یعنی کالے بتوں کی خانقاہ۔ اس خانقاہ میں ساری چیزیں کالے پتھر سے بنائی گئی تھیں۔ کارا ٹرکش زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کالا۔ میں ان ساری باتوں کے بارے میں جاننے کے بعد یہ سمجھتا تھا کہ میں نے
سب کچھ سیکھ لیا۔ تھوڑا سا متکبر بھی ہوگیا تھا۔ لیکن جب سے رضا سے ملاقات ہوئی خود کو کم علم سمجھنے لگا تھا۔ اس کا مطلب ہے علم سمندر کی طرح ہوتا ہے۔ اس کی کوئی اتنہا نہیں ہوتی۔
میں اپنے دھیان میں مگن جھیل کے کنارے چل رہا تھا۔ جھیل میں ہمیشہ کی طرح رنگ برنگی بادبانوں والی کشتیاں اِدھر سے اْدھر اور اْدھر سے اِدھر آرہی تھیں۔ ایک کونے میں سفید رنگ کی سوانز نظر آئیں۔ ان سوانز کا رنگ بہت ہی سفید تھا۔ دودھ کی طرح سفید تھیں یا چاند کی
چاندنی کی طرح۔ لیکن بہت سفید تھیں۔ ان میں سے ایک نے اپنی لمبی اور پتلی گردن پانی کے اندر ڈالی ہوئی تھی۔ نہ جانے کیا کررہی تھی ۔ ان سوانز کو دیکھ کر مجھے پاکستان کے شمالی علاقے سکردو میں پائے جانی والی کھچورا جھیلی یاد آگئی جس کے ارد گرد شنگریلہ ریزورٹ بنا ہوا ہے۔ اس جھیل میں دو کالے رنگ کی بہت خوبصورت سوانزتھیں۔ اس جھیل کے کنارے میں ہر جگہ اردو میں، انگریزی بلکہ فرنچ میں بھی لکھا ہوا تھا کہ اس جھیل میں مچھلیوں کا شکار منع ہے لیکن پھر بھی لوگ مچھلیوں کے شکار سے باز نہ آتے۔ ایک دفعہ ان سوانز میں سے ایک کی خوبصورت گردن کے گرد مچھلی پکڑنے والی ڈوری پھنس گئی تھی۔ شنگریلہ ریزورٹ کے مالک نے اس سوان کو ہیلی کوپٹر کے ذریعے راولپنڈی بھیجا تھا۔ لیکن وہ جب ٹھیک ہو کر واپس آئی تو اس میں پہلے والی بات نہ رہی۔ ایک دفعہ میں ایک امیریکن گروپ کے ساتھ
تھا۔ہمیں یہاں دو راتیں رکنا تھا۔ اتفاق سے چاند کی چودہویں رات تھی۔میں گروپ کے ساتھ کھانا کھا کے فارغ ہوا تو جھیل میں تیرتی سوانز کودیکھنے لگا۔ میرے پاس گروپ کی ایک بوڑھی عورت آکے بیٹھ گئی۔ مجھے کہنے لگی، ’’تمہیں یہ سوانز پسند ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’زیادہ تو نہیں لیکن آج یہ جھیل میں تیرتی ہوئی بہت اچھی لگ رہی ہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’تم جانتے ہو، یہ سوانز یہاں خوش نہیں۔ یہ بہت جلدی مر جائیں گیں‘‘َ
میں نے کہا، ’’تمہیں کیسے پتا ہے کہ یہ مر جائیں گی۔ یہ یہاں خوش نہیں ہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں نے پرندوں کے بارے میں بہت سٹڈی کی ہے۔ میں نیشنل جوگریفک کے ساتھ کام کرتی رہی ہوں۔ تم ان سوانز کو دن
کے وقت دیکھنا ان کی آنکھوں کے نیچے کالے نشان ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہ سوانز یہاں خوش نہیں۔ اس نسل کی سوانز یہاں سکردو میں پائی ہی نہیں جاتیں۔ یہ اس ریزورٹ کا مالک کہیں اور سے لایا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہو سکتا ہے۔ میں دن کی روشنی میں انہیں دیکھوں گا‘‘۔
میں جھیل کے پانی میں چاند کے عکس کے جھلملاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ چاند پانی میں لہرے پیدا ہونے کی وجہ سے کبھی چھپ جاتا کبھی سامنے آجاتا۔ مجھے یہ منظر بہت بھلا لگا تھا۔
لیکن اس وقت میں پاکستان سے ہزاروں میل دور جرمنی کے بارڈر پے اکیلابودن سے جسے اٹالین میں لاگو دی کوستانزا بھی کہتے ہیں کے کنارے بیٹھا ان خوبصورت سوانز کو دیکھ رہا تھا۔ ایک بات میں نے محسوس کی کہ وہ کالی سوانز جو میں نے سکردو کے کھچورہ جھیل میں دیکھی
تھیں وہ واقعی اتنی خوش نہیں تھیں جتنی یہ سفید سوانز نظر آرہی تھیں۔ اس کا مطلب ہے وہ امریکن عورت ٹھیک کہتی تھی کہ جس علاقے کی نہ ہوں اور اپنے علاقے سے دور ہوجائیں تو اداس ہوجاتی ہیں۔میں بھی تو اپنے ملک سے ہزاروں میل دور تھا۔ اس لیئے میں بھی اداس تھا۔ اسی لیئے مجھے یہاں رہتے ہوئے ہفتے سے اوپر ہوچلا تھا اور میرا دل
یہاں بالکل نہیں لگا تھا۔ گھٹن محسوس ہوتی تھی۔ میں اس گھٹن کو دور کرنے کے لیئے نئے نئے حیلے بہانے ڈھونڈتا تھا۔ کبھی کچن میں ان کی مدد کرتا، کبھی ازیل ہائم کی صفائی میں ان کی مدد کرتا۔ وہاں کا عملہ تو اس بات سے ناواقف تھا کہ میری حالت ان کالی سوانز جیسی تھی جو اپنے ڈار سے بچھڑ گئی تھیں۔ فرق صرف اتنا تھا کہ ان سوانز کو زبردستی لایا گیا ۔وہ بول تو نہیں سکتی تھیں لیکن ان کی آنکھوں کے گرد کالے
نشان تھے جو میں نے کبھی نہ دیکھے تھے لیکن اس امریکن عورت نے میری ان کی طرف توجہ دلائی تھی۔ جبکہ میں خود آیا تھا۔ میں نے یہ سزا اپنے لیئے خود تجویز کی تھی۔ انسان کی دل اور دما غ کی عدالت میں جب فیصلے کے لیئے مقدمہ پیش ہوتا تو کبھی کبھی انسان سے غلطی ہوجاتی ہے۔ لیکن یہ غلطی انسان سے خود سرزد نہیں ہوتی۔ کو ئی دوسری طاقت یہ کام اس سے کرواتی ہے۔ میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا مجھے ایسا لگتا تھا کسی بہت بہت مظبوط اور طاقت ور چیز نے مجھ سے یہ عمل کروایا ہے۔
میرے دو گھنٹے گزرنے والے تھے۔ میں نے واپسی کی راہ لی۔ میں خیالوں کے دریچوں میں اتنی دور چلا گیا تھا کہ مجھے پتا ہی نہ چلا کہ کب دو گھنٹے گزر گئے۔ میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ازیل ہائم کی طر ف آیا۔ یہاں پہنچا تو شام کے کھانے کی تیاری کی جارہی تھی۔
جو کہ یہاں پے چھ بجے دیا جاتا۔
رضا اور سالواتورے میزیں کھول رہے تھے ۔ان کے آس پاس وہ لمبے لمبے بینچز سیدھے کرکے رکھ رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’فرشتہ تمہاری موج ہے ۔دو گھنٹے کے لیئے تمہیں آزادی مل جاتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’جب تمہارے فنگر پرنٹس ہہوجائیں گے تو تمہیں بھی آزادی مل جائے گی‘‘۔
وہی شرمندگی والی حالت لیکن مجھے تو اب عادت ہوچکی تھی۔ اس لیئے عجیب نہیں لگتا تھا لیکن سالواتورے اور رضا ابھی تک خود کو اس انداز میں تقسیم ہونے والے کھانے کے لیئے تیار نہ کرسکے تھے۔
ہم تینوں نے کھانا کھایا، پھر صفائی کی ۔اب ہمیں یہاں سے واپس گارنیگے ہوٹل ٹرانسفر کیا جانا تھا۔ وہی ٹیوٹا وین تھی اور
ہم تھے۔ پندرہ سولہ پھیروں میں اس نے ہم سب کو پہنچا دیا۔ وہ موٹا ڈرائیورمجھے کئی دن نظر نہ آیا جس نے پہلے دن مجھے کتے والی جگہ بٹھایا تھا۔ خیر ہم لوگ جب گارنیگے ہوٹل پہنچے تو وہاں پہلے سے ہر جگہ پے قبضہ تھا ۔ میں نے سب سے پہلے نوٹس بورڈ دیکھا۔ میڈیکل والی لسٹ میں میرا بھی نام تھا۔ میں نے سوچا چلو اچھا ہے یہاں سے جان چھوٹ جائے گی۔ رضا اور سالواتورے کا بھی ٹرانسفر میں نام تھا۔ میں یہاں کے انتظام سے بڑا متاثر تھا۔ ہر چیز کو بڑے اچھے طریقے سے ترتیب دیا گیا تھا۔
ہم تینوں ہمیشہ کی طرح ٹیرس میں ایک کونے میں جاکے بیٹھ گئے۔ ابھی ہمیں بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ دور سے مقصود آتا دکھائی دیا۔ آتے ہی کہنے لگا، ’’کل تمہارا میڈیکل ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں ہے‘‘۔
کہنے لگا ،’’میرا بھی میڈیکل ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو پھر‘‘۔
کہنے لگا،’’یہ کسی طرح رک نہیں سکتا‘‘۔
میں نے کہا ، ’’کیوں ‘‘؟
کہنے لگا،’’میں یہاں سے جانا نہیں چاہتا‘‘۔
اب مجھے سمجھ آئی اس کی پریشانی کی وجہ کیا۔میڈیکل کے بعد جس کی ریپورٹ اوکے کی ہو اس کو کچی کرائس بھیج دیا جاتا تھا۔ مقصود کچی کرائس میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اپنی معشوقہ کے ساتھ رہنا چاہتا تھا۔
میں نے کہا، ’’اگر تمہاری میڈیکل کی ریپورٹ اوکے نہ ہو تو تمہیں یہاں رکنا ہوگا‘‘۔
وہ بولا، ’’ایسا کیسے ہوسکتاہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں زیادہ تو نہیں جانتالیکن اگر تمہارا پیٹ خراب ہوجائے یا بخار ہوجائے تو تم مزید ایک ہفتہ رک سکتے ہو‘‘۔
مجھے سالواتورے اور رضا پوچھنے لگے کہ اس کا کیا مسئلہ ہے۔
میں نے انہیں جھوٹ موٹ بتایا کہ کل اس کا میڈیکل ہے ۔اس کو زبان نہیں آتی اس لیئے پریشان ہے کہ کیا کرے گا۔ اس نے میرانام لسٹ میں دیکھا تو میرے پاس چلا آیا ۔میں نے اس کو تسلی دی ہے کہ میں تمہاری مدد کروں گا۔
وہ دونوں میرے بات سے مطمئن ہوگئے۔ڈائیننگ ہال کے ساتھ والے کمرے میں ٹی وی چل رہا تھا۔ آج فٹ بال میچ بھی کوئی نہیں تھا۔ ٹی وی پے کوئی جرمن چینل چل رہا تھا ۔ چونکہ یہ شہر جرمن بارڈر پے تھا اس لیئے جرمنی کے سارے چینل نظر آتے تھے۔
ہم تینوں مختلف موضوعات پے باتیں کرتے رہے۔ساڑھے نوبجے رضا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد سالواتورے بھی چلا گیا۔ میں اکیلا یہاں بیٹھ کرکیا کرتا میں بھی اپنی اسی کمرے میں آگیا جہاں ایک ہی کمرے میں میرے سمیت سولہ بندے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment