Monday, June 17, 2013

تیرہواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG






۱۷

سوموار کو شام کے چھ بجے ہی ثقلین نازل ہوگیا۔ اس نے آتے ہی بری خبر سنائی کہ وہ جس فیکٹری میں کام کرتا ہے وہ بند ہورہی ہے۔ مالک نے جوآرڈر آئے ہوئے تھے وہ مکمل کیئے ہیں اور اس نے فیکٹری بند کرنے کا سوچا ہے۔
نیائش بولا، ’’ماڑا فکر نہ کرو ،میں جہاں کام کرتا ہوں ۔وہاں بات
کروں گا۔ ویسے میں نے فرشتہ کی بھی بات کی ہوئی ہے‘‘۔
ثقلین بولا، ’’آپ مجھے چھوڑیں ،پہلے فرشتہ صاحب کے لیئے کام ڈھونڈیں‘‘۔
نیائش بولا، ’’اس کا جب کام کا موڈ ہوگا تو مل جائے گا۔ اس نے اریزو میں پہلے بھی کام کیا ہے‘‘۔
ثقلین بولا، ’’میں آپ لوگوں کو صرف یہی بتانے آیا تھا ۔میں اب چلتا ہوں‘‘۔
ہم دونوں نے بہت اصرار کیالیکن وہ نہ رکا۔ نہ چائے پی نہ ہی کھانا کھایا۔ بس اگلا باب لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رضا نے جیسے ہی فون پے بات ختم کی تو میں نے کہا، ’’آغائی آپ کچھ
کہنے لگے تھے‘‘۔
وہ بولا، ’’ہاں، میں بات کررہا تھا ٹیمپلر نائٹس(Templer Knights) کی اور سوانارولا (Savanarola)کی۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کی سازش تیار کی جاتی ہے۔ یا یوں کہہ لو کہ ماسٹر پلین تیار کیا جاتا ہے ۔ پہلے بات کرتے ہیں ٹیمپلر نائٹس کی۔ ان
کو نائٹس ٹیمپلر (Knights Templers)بھی کہتے ہیں۔ پہلے امریکہ تو تھا نہیں ۔اس لیئے یورپیئن ملکوں نے عربوں کی دولت پے قبضہ جمانے کا منصوبہ بنایا۔ کسی بھی قوم کو کسی دوسرے ملک کے خلاف جنگ کے لیئے تیار کرنے کے لیئے مذہب کا سہار لیا جاتا تھا۔ مذہب کو سامنے رکھ کر انسان کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کرنا سب سے آسان ہے۔ ان دنوں عرب ممالک تہذیب و تمدن میں اپنے عروج پے تھے۔
ٹیمپلر نائیٹس کا وجود ۱۱۲۹ میں آیا۔اس کی بنیاد یورپ کے عیسائیوں کی مدد کے لیئے رکھی گئی تھی۔ پھر ان کے منشور میں مسلمانوں سے بیت المقدس کو بھی آزاد کروانا تھا۔
پہلی صلیبی جنگ میں جب بیت المقدس پر قبضہ ہوگیا تو بہت سارے عیسائی جو اپنی مذہبی رسومات کے لیئے یروشلم گئے ہوئے تھے ان میں سے کئی زندہ واپس نہ آئے۔ واپسی پے فرانس کے Hugues de Payens اور Godfrey de Saint-Omer نے یورشلم کے بادشاہ Baldwin II of Jerusalem سے درخواست کی ہم جو لوگ یروشلم زیارتوں کے لیئے آتے ہیں ان کی جان و مال کی حفاظت کے لیئے یہاں ایک دفتر بنانا چاہتے ہیں۔ اس طرح ان دونوں نے ٹیمپل آف مونٹ میں ٹیمپلر نائیٹس کا پہلا دفتر بنایا۔ انہوں اپنا نشان گھوڑا اور غربت رکھا۔ یہ سفید کپڑے پہنتے تھے اور اس پے لال رنگ کا صلیب کا نشان بنا ہوا ہوتا تھا۔ تم انہیں اس دور کے جہادی کہہ سکتے ہو۔ یہ لوگوں کو عیسائیت کی حفاظت کے لیئے جنگ کی تبلیغ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ اس جنگ میں تم لوگوں نے اپنی جان دے دی تو تم شہید کہلاؤ گے اور اگلے جہاں تمہیں جنت ملے گی اور بچ گئے تو غازی ۔ یعنی یہ لوگوں کو جنت کا سرٹیفیکیٹ بانٹتے تھے۔ ان کے منشور میں غریب رہنا لازمی تھا لیکن یہ قانون زیادہ عرصہ نہ چلا ۔ لوگ جوک در جوک ان ساتھ شامل ہونے لگے۔ پھر یہ مالی طور پے مستحکم ہونے لگے۔ بہت سے صاحب ثروت لوگ ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ انہوں نے اپنی زمینیں اور جائیدادیں ان کے نام کردیں کیونکہ غریب ہونا ان کے منشور میں شامل تھا لیکن یہ خود مالی لحاظ سے غریب نہ رہے۔ لوگ ان کے ساتھ اس لیئے شامل ہوتے کیونکہ ان کا پراپوگنڈہ بہت زبردست تھا یعنی مسلمانوں کے
قبضے سے اپنا مقدس شہر آزاد کروانا ہے۔ یہ لوگ جب جنگ کے لیئے نکلتے تو یورپ کے سارے شہروں میں ان کے گھڑ سوار پھرتے کے ہم مقدس زمین کو بچانے جارہے ہیں۔ جس کی جتنی توفیق ہوتی وہ ان گْھڑ سواروں کی اپنی حیثیت کے مطابق مدد کرتا ۔ جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے معاشی طور پے خود کو مضبوط کرنا شروع کیا۔ انہوں نے ۱۱۵۰ میں ہنڈ ی کے نظام کا آغازکیا۔ یعنی کسی کو انگلینڈ میں رقم کی ضرورت ہے اور وہ اپنے بندے کو اٹلی یا فرانس پیغام بھیجتا تھا ۔وہ ان لوگوں کی مہر دکھا کے رقم وصول کرلیا کرتا تھا۔ یہ اس دور کا لیٹر آف کریڈت تھا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یورپ میں پہلے بینک آغاز انہوں نے کیا‘‘۔
’’لیکن آغائی یہ اگر اتنے مظبوط تھے تو انہوں نے پوری دنیا پے قبضہ کیوں نہیں کیا‘‘۔
’’ان کا منشور تھا بیت المقدس کو آزاد کروانا لیکن یہ دوسرے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ پیسے کے لالچ میں پڑ گئے۔ صلا ح الدین ایوبی نے ۱۱۸۷ بیت مقدس پے قبضہ کرلیالیکن صلیبی جنگوں کے دوران ۱۲۲۹ میں عیسائیو ں نے یورشلم دوبارہ فتح کرلیا اور اس میں ٹیمپلر نائیٹس نے ان کی خاطر خواہ مدد نہ کی۔ عیسائیوں کو یہ فتح زیادہ عرصہ نصیب نہ ہوئی خوارزمی ترکوں نے ۱۲۴۴ میں اسے دوبارہ فتح کرلیا۔ عیسائیوں کا یہ مقدس شہر ۱۹۱۷ تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا اس کے بعد خلافت عثمانیہ کو شکست دے انگریزوں نے یہ مقدس شہر اپنے قبضے میں کرلیا‘‘۔
’’ان کا زوال‘‘۔
میں اسی طرف ہی آرہاہوں۔ جب ان کا ہیڈ کواٹر بیت المقدس سے ختم ہوا تو انہوں نے مشرق وسطیٰ کی مختلف ملکوں اور شہروں میں اپنا
ہیڈکواٹر منتقل کیا لیکن انہیں کامیابی نصیب نہ ہوئی لیکن یورپ میں ان کے قدم مضبوط تھے۔ انہوں نے یورپیئن ملکوں کے بادشاہوں کو بھی قرض دینا شروع کردیا۔ فرانس کے بادشاہ نے انگلینڈ سے جنگ کرنے کے لیئے ان سے بہت زیادہ قرضہ لیا ۔اس کے علاوہ روم کا پاپ بھی ان سے بہت تنگ تھا۔ ان دونوں نے مل کے ان کے قرض
نہ چکانے کے لیئے ایک ترکیب سوچی اور وہ اس میں کامیاب رہے کیونکہ ٹیمپلر نائیٹس اپنے شہرت کھو رہے تھے۔ یہ بے شمار معاشرتی برائیوں کے شکار ہوگئے تھے گو کہ یہ بہت زیادہ پیسے اور فوج کے لحاظ سے بہت زیادہ طاقتور تھے لیکن ان برائیوں نے ان کو کمزور کردیا۔ اس طرح ۱۳ اکتوبر جمعے کے دن ۱۳۰۷ میں فرانس کے بادشاہ فلپ چہارم نے جہاں جہاں بھی ٹیمپلر نائیٹس کے سرکردہ رکن تھے ان کو حراست میں لینے کا حکم نامہ جاری کیا۔ اس کے بعد ان کو موت کے گھا
ٹ اتار دیا گیا۔ اس طرح فرانس کا بادشاہ ان کے قرض سے بھی آزاد ہوگیا اور اس نے اپنے ہی تیار کردہ جہادی بھی ختم کردیئے لیکن اس کے لیئے اسے پوپ پی پشت پناہی حاصل تھی یعنی اس نے یہ کام اکیلے نہیں کیا۔ اسی لیئے یورپ میں تیرہ کا ہندسہ منحوس تصور کیا جاتا ہے اور یور پ کسی بھی ہوٹل میں تیرہ نمبر کا کمرہ نہیں ہوتا‘‘۔
’’ان ٹیمپلر نائیٹس میں اور طالبان میں کیا مماثلت ہے‘‘۔
’’میں تمہیں پہلے سوانا رولا کے بارے میں بتاؤں گا اس کے بعد مزید روشنی ڈالوں گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے آغائی‘‘
’’اس کا نام جیرولامو سوانارولا(Giralomo Savonarola) تھا۔ یہ ۲۱ ستمبر ۱۴۵۲ میں اٹلی کے شہر فیرارا(Ferara) میں پیدا ہوا۔ سوانارولا جس شہر میں پیدا ہوا ان د
نوں اٹلی کا یہ صوبہ ایمیلیاء رومانیاء(Emilia Romagna) ایک آزاد ریاست تھا۔ سوانارولا کا تعلق ایک امیر اور اثر و رسوخ والے خاندان سے تھا۔ اس نے پچپن میں بائیبل کی تعلیم حاصل کی۔ پھر اس نے ارسطو اور تھومس ایکویناس (Thomas Aquinos)کو پڑھا۔ بعد میں سوانارولا نے فیرارا کی یونیورسٹی
میں داخلہ لیا۔ جہاں اس نے فنونِ لطائف میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کا پہلا شعری مجموعہ بیس سال کی عمر میں منظرِعام پے آیا ۔جس کا نام تھا دی روئینا مندی (di rovena mundi)یعنی دنیا کا زوال۔ جب اس نے ایک نظم لکھی جس کا عنوان تھا دی روئینا ایکلیسیاء (di rovena eclesia) یعنی چرچ کا زوال تو اس پے رومن چرچ نے اس پے کیس کردیا۔
آخرکار سوانارولا اپنے مختلف خیالات کی وجہ سے عیسائیوں کے مذہبی سلسلے ڈومینیکن (dominican)میں شامل ہوگیا۔ ان دنوں فرانچیسکن(francescan)، آگسٹیینیئن(augustinian) اور ڈومینیکین(dominnican) سلسلے تھے۔ اس سلسلے سے منسلک ہونے کے بعد سوانارولا بلونیاء(Bologna) کی مونیسٹری آف دومینیکو(monestary of domenico) میں داخل ہوگیا۔ اس نے چار سال تک مذہب کا گہرا مطالعہ کیا۔ یہاں سے اس کو سانتا ماریا دل آنجلی (Santa Maria del Angeli)بھیج دیا گیا اس کے بعد اسے مزید تبلیغ کے لیئے فلورنس بھیج دیا گیا۔ سوانارولا فلورنس میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد بلونیاء واپس چلا گیا کیونکہ یہ بہت سادہ زندگی گزارتا تھا اور فلورنس کے لوگوں نے اسے گھاس نہیں ڈالی۔ جب سوانارولا دوسری بار فلورنس آیا تو پھر اسے تھوڑی سی شہرت ملی۔ ان دنوں فرانس اور اٹلی کی جنگ
شروع ہوگئی اور ا س کے ساتھ ساتھ ایک جنسی بیماری بھی پھیل گئی۔ ان دو باتوں کی وجہ اس وقت فلورنس کے جو بادشاہ تھا میدشی(Medici) ان کی لوگوں پے گرفت کمزورہوگئی۔ اس دوران سوانارولا نے شہرت حاصل کرنی شرو ع کردی ۔ ایک وقت ایسا آیا کہ جب سوانارولا لوگوں کو لیکچر دے رہا ہوتا تو وہاں پے پاؤں رکھنے کی جگہ نہ ہوتی۔ فلورس میں اس کی شہرت کا یہ عالم تھا کہ لوگ اسے پیغمبر سمجھنے لگے۔ ا س کے پیروکاروں میں فلورنس کا بادشاہ لورینزو دی میدشی (Lorenzo di Medici) بھی تھا۔
۱۴۹۴ میں فرانس کے بادشاہ چارلس ہشتم نے فلورنس کے بادشاہ کو شکست دی اور اس طرح سوانارولا فلورنس کا مذہبی اور سیاسی لیڈر بن کے ابھرا۔ اس نے سب سے پہلے ہم جنس پرستی پے پابندی لگائی جو کہ ان دنوں فلورنس میں عام تھی۔ میلان کے ڈیوک اورپوپ نے اس کی مخالفت کی لیکن اس نے ان کی بات پے کان نہ دھرے۔۱۴۹۷ میں اس نے پیاتزا دلا سینیوریاء (Piazza della Signoria)میں ایک بہت بڑا آگ کا الاؤ تیار کیا۔ وہاں فلورنس شہر کی بہت ہی قیمتی چیزیں جلا دیں ۔جس میں مصوری کے نادر نمونے، عورتوں کے زیورات، ہیرے جواہرات اور بائیبل
کے ایسے تمام نسخے جن میں تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ اٹلی کے مشہور پینٹر ساندرو بوتیشیلی (Sandro Botticelli)نے خود اپنی تصاویر اس آگ میں جلادیں کیونکہ اس پے بھی سوانارولا خوف طاری ہوگیا تھا۔اس سارے منظر کو اٹلی مشہور پینٹر میکل آنجلو (michel angelo)نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن کسی کی ہمت نہیں تھی کہ اس کے خلاف کوئی بولے۔ سوانارولانے بارہ سے چودہ سال کے بچوں کو تربیت دینی شروع کی اور یہ چھوٹے چھوٹے بچے لوگوں کے گھروں میں جاتے اور ان سے سونے
چاندی اور ہیرے جواہرات کی درخواست کرتے اور انکار کی صورت میں انہیں سوانارولا کی دشمنی مول لینی پڑتی ہے۔ اس کے سر پے فرانس کے بادشاہ کا ہاتھ تھا کیونکہ وہ جب بھی اٹلی پے حملہ کرتا اسے کوئی بھی نہ روکتا سوائے فلورنس کے میدشی بادشاہوں کے ۔اس نے سوانارولا کے ذریعے اس مسئلے کا حل ڈھونڈا۔
سوانارولا جب اپنے قدم مضبوطی سے جما چکا تو اس کے یہ خیال آنے لگا کہ اب مجھے روم کے پاپا کو ختم کرنا چاہیئے۔ اس نے اپنی تقاریر میں یہ بھی کہنا شروع کردیا کہ میں خدا سے بات کرتاہوں ،دوسرے لفظوں میں اس نے خود کو پیغمبر کہنا شروع کردیا۔ فرانس کے بادشاہ کا مقصد پوراا ہوچکا تھا اب اس کو سوانارولا جیسے جنونی کو ہٹانا کوئی مشکل نہیں تھا۔ اس کے علاوہ فلورنس کے شہری اس سے تنگ آچکے تھے۔ اس کو
فرانچیسکن آرڈر کے لوگوں نے زندہ آگ میں کودنے کا چیلج بھی کردیا ۔انہوں نے کہا اگر تم واقعی ہی خدا سے بات کرتے ہو اور خدا کے پیغمبر ہو تو وہ تمہیں بچا لے گا۔ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو جلتی ہوئی آگ میں زندہ رکھا تھا۔ سوانارولا نے انکار کردیا۔ پھر لوگوں نے اس کی تعلیمات پے عمل کرنا چھوڑ دیا ۔آخرکار Pope Alexander VI, کے کہنے پر سوانارولا کو پکڑ لیا گیا اور ۲۳ مئی ۱۴۹۸ میں جیرولامو سوانارولا اور اس کے دو بہترین ساتھیوں Fra Domenico da Pescia اور Fra Silvestroکو حراست میں لے لیا گیا ۔ان کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ ان تینوں کو اسی پیتزا سنیئیوریہ(Piazza della Signoria) لایا گیا جہاں اس نے سونا چاندی، ہیرے جواہرات، نوادرات ،کتابیں،تصاویر والی بائیبلز جلائی تھیں ۔وہاں لاکر باندھ دیا گیا۔ اس کے بعد فلورنس
کے شہریوں کے سامنے ان تینوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ یہ منظر نہ صرف شہریوں نے دیکھا بلکہ اس دور کے مشہور ادیبوں اور شاعروں نے بھی دیکھا۔ جس میں اس دور کا مشہور ماہر سیاسیات نیکلو ماکیاویلی(Nicolo Machiavelli) بھی موجود تھا۔ اس کے علاوہ جاکوبو ناردی (Giacomo Bonardi)اور لوکا لاندوچی(Luca Landucci) بھی وہاں موجود تھے۔ لوکا لاندوچی نے تو یہاں تک لکھا کہ جو شخص مجھے جلانا چاہتا تھا وہ خود آج شعلوں کی لپیٹ میں ہے اور اسے بچانے والا کوئی نہیں۔ جب یہ تینوں جل کے راکھ ہوگئے تو ان کی راکھ فلورنس شہر سے گزرنے والے دریا آرنو(arno) میں ڈال دی گئی‘‘۔
’’اب ان کی مماثلت کے بارے میں بتائیں کچھ تو مجھے ان کی تاریخ جان کے پتا چل گیا لیکن میں آپ کے منہ سے سننا چاہتا ہوں‘‘۔
’’تمہیں یہ تو پتا ہوگا کہ روسی فوجیں افغانستان میں کب داخل ہوئیں‘‘۔
’’ہاں ۱۹۷۷ میں‘‘۔
’’لیکن تمہیں یہ نہیں پتا ہوگا کہ روسی فوجوں کے افغانستان میں آنے کی دعوت کس نے دی تھی‘‘۔
’’ظاہر ہے انہوں نے خود حملہ کیا تھا‘‘۔
’’نہیں، اٖفغانستان کے چند سیاسی رہنماؤں نے خود روس کو دعوت دی تھی کہ ہمیں اقدار میں لانے کے لیئے ہماری مدد کریں۔ انہوں نے اپنی مدد بھیج دی۔ حفیظ اللہ امین پہلے تو ان کے نقشے قدم پے چلتا رہا لیکن اس نے اندر ہی اندر امریکہ سے تعلقات بڑھانے شروع کردیئے۔ اس طرح روسی فوجیں ۱۹۷۷ میں افغانستان میں داخل ہوئیں۔ حالانکہ آندرے گرومیکو (Andre Gromico)نے اس بات مخالفت کی تھی۔ اس دوران امریکہ اپنے مہرے تمام ملکوں میں بٹھا چکا تھا۔ پاکستان میں ضیاء الحق، ایران میں آیتہ اللہ خمینی، سعودی عرب میں شاہ خالد۔ اب اس کو ان مہروں کو اپنے مرضی کے مطابق استعمال کرنا تھا۔ جیسے فرانس کے بادشاہ نے ٹیمپلر نائیٹس کی پشت پناہی کی ۔سوانا رولا کی پشت پناہی کی۔ ان کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کیا جب مقصد پورا ہوگیا تو ان کو ختم کرنے لیئے سب لوگوں کو ساتھ ملا کے ان کوختم کردیا۔ آم کے آم گٹلیوں کے دام۔ ۱۹۷۷ سے ۹۸۷ ۱ تک مجاہدین روسیوں کے خلاف جنگ کرتے رہے ۔روسیوں نے پورے ملک میں اتنی بارودی سرنگیں بچھائیں کہ وہاں آئندہ سوسال تک فصلیں نہیں اگیں گی۔ اس پے امریکہ کے فوجیوں کی بمباری۔ وہ کہتے ہیں آگے کھڈا پیچھے کھائی ہائی دوہائی ہائے دوہائی۔ ایک ملک جس نے پچیس سال جنگ میں گزار دیئے۔ اس
عرصے میں ایک نسل جوان ہوجاتی ہے۔ جب روسی چلے گئے تو امریکہ سوچنے لگا ان فوجیوں کا کیا کریں کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا تھا۔ ان کو ختم کرنے کے لیئے کوئی ٹھوس وجہ چاہیئے تھی۔ یہ ٹیمپلر نائیٹس اور سوانا رولا کا دور تو ہے نہیں کہ ایک ہی دن میں کسی کو ختم کردیا جائے۔ اس کے لیئے بہت مضبوط پراپوگنڈا چاہیئے جو میڈیاء کے ذریعے حاصل کیا گیا۔ تم نے وڈیو کریسی کا نام تو سنا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں کچھ اس طرح کی بات سنی تو ہے‘‘۔
’’انسانی ذہن پے audio visual کا بہت جلدی اور گہرا اثر ہوتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے جب بہت سی جگہوں پے جنگ کے محاظ کھول لیئے تو اس کے لیئے اس صورت حال سے نمٹنا مشکل ہوگیا۔ اس نے کچھ جگہوں پے جنگ کی یہ ترکیب اپنائی کہ
جنگ کے میدانوں میں گاڑیوں کے ٹائروں کے بہت زیادہ نشان چھوڑ دیتا۔ جب مخالف لوگ جہازوں کے ذریعے حملہ کرتے تو وہ ٹائروں کے نشا ن دیکھ کریہی سوچتے کہ اس کی فوج بہت زیادہ ۔ اس کی یہ ترکیب کسی حد تک کامیاب رہی۔ اس نے جنگ عظیم شروع کرنے سے پہلے بہت ساری جنگوں کے بارے میں پڑھا۔ اسے
جنگِ بدر کے بارے میں پڑھ کے بڑی حیرت ہوئی کہ تین سو تیرہ لوگوں نے ہزاروں کی تعداد والے لشکر کو شکست دی۔ اس میں کمک اور یا تازہ دم فوج کا ذکر تھا۔ اس نے اس کلیئے پے عمل کیالیکن بہت زیادہ لالچ اور پوری دنیا کو فتح کرنے کا جنون اس کو لے ڈوبا۔ خیر تو بات ہورہی تھی وڈیو کریسی کی۔ ہم کئی دفعہ فلم دیکھتے ہیں اور حقائق جانے بنا ہی اس پے یقین کرلیتے ہیں۔ ہم لوگ جیسے ہی ٹی وی پے کوئی چیز دیکھتے ہیں اس کا مطلب ہم وہی لیتے ہیں جو ہمیں دکھایا جاتا
ہے۔ لوگوں نے جیسے ہی ٹون ٹاورز کے ساتھ جہازوں کو ٹکراتے ہوئے دیکھا لوگ بہت حیران ہوئے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہ بھی سلائیڈ چلا دی کہ اس میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے ۔ پوری دنیا ایک ہی دن میں دنیا کے سارے مسلمانوں کے خلاف ہوگئی۔ جیسے فرانس کے بادشاہ نے ۱۳ اکتوبر کو سب کو خط لکھ دیا اور جہاں جہاں بھی ٹیمپلر نائیٹس کے سرکرد ہ رکن تھے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا اور بعد میں کچھ کو زندہ جلا دیا بعض کو ساری زندگی قید خانوں میں گزارنی پڑی۔ تم خود سوچو اگر پاکستان میں اس طرح کا کوئی واقع پیش آئے تو تم لوگوں کا پہلا شک کس پے ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ظاہر ہے انڈیاء پے اور ا ن کا شک ہم پے‘‘۔
’’حالانکہ ایک مسلمان کو بنا تحقیق کے کسی بات پے یقین نہیں کرنا چاہیئے‘‘۔
’’یہ درست ہے‘‘۔
’’میں تمہیں فلموں کے حوالے دیتا ہوں۔ تم نے بِن حْر فلم کا نام تو سنا ہوگا شاید دیکھی بھی ہو‘‘۔
’’نام بہت سنا ہے کئی دفعہ دیکھنی شروع بھی کی لیکن پوری نہ دیکھ سکا‘‘۔
’’میں نے دیکھی ہے اور کئی دفعہ دیکھی ہے۔ اس کے ڈائیریکٹر نے اس فلم کے لیئے ایک چیلج رکھا۔ ا س نے اعلان کیا کہ کوئی بھی شخص اگر اس فلم میں غلطی یا نقص نکالے گا تو میں اسے بھاری رقم انعام دوں گا۔ بہت سے لوگوں سے بہت سے بے سروپا نقص نکالے جو اس نے ردکردیئے۔آخر کار ایک شخص نے اسے حیران کردیا۔ اس فلم میں پرانا دور دکھایا گیا اور اس فلم کی شوٹنگ اٹلی کے شہر میں روم میں کی گئی اس کے بہت سارے سین کلوسیم میں بھی فلمائے گئے۔ اس دور میں
گاڑیاں تو ہوتی نہیں تھیں۔ فلم ساز شوٹنگ کے دوران گاڑیاں بھی استعمال کرتا تھاکئی قسم کی ٹرالیاں بھی استعمال کرتا تھا جو کیمرے اور سامان کو ادھر ادھر لانے لیجانے میں کام آتی تھیں۔ جس شخص نے انعام جیتا اس نے یہی نقص بتایا کہ کلوسیم میں ٹائیرو ں کے نشان ہیں۔ یعنی لاکھوں لوگوں نے یہ فلم دیکھی اس میں جو پرانا دور دکھایا گیا اس کو وہی سمجھا لیکن کسی کو گاڑیوں کے ٹائر نظر نہ آئے‘‘۔
’’واہ لوگ فلم اتنے غور سے دیکھتے ہیں‘‘۔
’’تم نے ٹائیٹینک فلم دیکھی ہے‘‘۔
’’ہاں کئی بار دیکھی ہے‘‘۔
’’اس میں کیا غلطی ہے‘‘۔
’’کوئی نہیں‘‘۔
’’اس فلم میں فلم کا ہیرو جیک پینٹر دکھایا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں
فرانس کے مشہور پینٹر پال سیزان(Paul Cezane) کی پینٹنگ ہوتی ہے۔ تمہیں پتا ہے جب ٹائیٹینک جہازڈوبا تھا تو اس وقت تک پال سیزان نے وہ پینٹنگ نہیں بنائی تھی جو اس کے ہاتھ میں دکھائی گئی۔ یعنی اس نے وہ پینٹنگ اس جہاز کے ڈوبنے کے چند سال بعدبنائی۔ یعنی ہم فلم کے ذریعے لوگوں کو غلط معلومات فراہم
کررہے ہیں۔ بالکل اسی طرح دنیا کے سارے ٹی وی پوری دنیا کو وہی دکھاتے رہے جو وہ دکھانا چاہتے تھے لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ اس معاملے کی تحقیق کرنی چاہیئے۔ آیا کہ ایسا ممکن ہے کہ اس طرح کوئی جہاز ٹکرائے تو کوئی عمارت منہدم ہوسکتی ہے۔ اس لیئے جب امریکی فوجی افغانستان میں داخل ہوئے تو ایک دن وہ طالبان کے مظالم دکھاتے کہ پوری دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے بلکہ یقین دلاتے کہ ہم ان لوگوں کاخاتمہ کرنے آئے ہیں اور دوسری دن وہ اسی
جگہ فٹبال کا میچ دکھاتے کہ دیکھوں ہم نے آکے ان کو تحفظ فراہم کیاہے اب یہ سکون سے فٹبال کھیل سکتے ہیں‘‘۔
’’اس میں تو ہماری غلطی ہے کہ ہم اس طرح کی وڈیو پے یقین کرلیتے ہیں‘‘۔
’’ہمارے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں ۔جس کی لاٹھی اس کی بھیس۔ جس نے کہار دانڑیں اس نے کملے وی سیناڑیںیعنی جس کے گھر دانے (اناج) ا س کے کملے بھی سیانے‘‘۔
’’ویسے آپ کے خیال میں ہم لوگ دہشت گرد نہیں تو کون ہے دہشت گرد‘‘۔
’’اس وقت دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ خودہے۔ وہ ایک ویڈیو دکھا کے پوری دنیا کو کہتا ہے کہ چلو میرے ساتھ ان کو ختم کرتے ہیں۔ جہاں کھانے کو نہیں ،جن کے پاس ہتھیار نہیں،پہنے کو کپڑے
نہیں ان پے جدید اسلحے کے ساتھ حملہ کرتا ہے ۔دنیا کے دوسرے ملکوں کو بھی اپنے ساتھ ملالیتا ہے۔ انگلینڈ ،جرمنی، فرانس اور اٹلی ہمیشہ ا س کے ساتھ ہوتے ہیں۔ فرانس یورپ کا ایک واحد ملک ہے جس نے کئی دفعہ امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار کیاہے ورنہ کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کے میڈیاء کو بھی کنٹرول کرتے ہیں‘‘۔
’’کوئی بھی سہی مسلمان ،عیسائی، یہودی حتیٰ کہ کوئی بھی انسا ن دہشت گرد نہیں ہوتا۔ اب قران کی ہی مثال لے لو۔ جس نے ایک انسان کی جان لی اس نے ساری انسانیت کی جان لی‘‘۔
’’لیکن مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ٹیمپلر نائیٹس اور سوانارولا کا گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ سے کیا تعلق ہے‘‘۔
رضا تھوڑا سا غصے سے بولا، ’’میں سمجھتا تھا کہ پاکستانی تھوڑے ذہین
ہوتے ہیں لیکن تم اس معاملے میں بالکل کورے ہو۔ جو لوگ پالیسیاں بناتے ہیں۔ جنگی حکمت عملیاں تیار کرتے ہیں وہ تاریخ کا بہت گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ پرانے دور میں انسانوں کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کرنا آسان تھا لیکن آج کل بہت مشکل ہے۔ اس لیئے جنگی حکمت عملی کے ماہر پرانے چیزوں کو پڑھتے ہیں ۔اس کو آج کے دور میں لاگو کرتے ہیں اور اپنی مرضی کا کام کرتے ہیں۔ جیسے سوانا رولا چھوٹی عمر کے بچوں سے کام لیتا تھا کیونکہ یہ عمر تصور و خیال کی عمر ہوتی ہے۔ ٹیمپلر نائیٹس نے مذہبی جنونیت کو استعمال کیا۔ مسلمانوں میں جہاد کا نظریہ ہے ۔اس کی اپنی مرضی کے مطابق تشریح کرکے لوگوں کو استعمال کرنا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کچھ کچھ سمجھا ہوں لیکن میری تسلی نہیں ہوئی‘‘۔
رضا بولا، ’’ابھی بہت کچھ باقی ہے ۔اب بہت دیر ہوچکی ہے ۔مجھے ا
یک جگہ جانا ہے اور ہاں ایک یاد رکھناکل انٹرویو کے دوران بہت سوچ سمجھ کے بولنا‘‘۔
’’میں نے کہا،’’آپ فکر ہی نہ کریں۔ ویسے را ت کا کھانا میرے ساتھ ہی کھاتے ‘‘۔
رضا نے مجھ سے اجازت لی اور چلا گیا۔ میرے دماغ میں کھد بد ہونے ہونے لگی کہ اصل کہانی کیا ہے۔ میں ابھی تک مخمصے میں پھنسا ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں صبح اٹھا ناشتہ کرکے جب فارغ ہوا تو میں نے اپنے فرینچ کٹ داڑھی میں ایک سفید بال دیکھا ۔میں سوچنے لگا میری عمر ابھی تیس سال ہے اور میری داڑھی سفید ہوچلی ہے۔ میں نے شیو کی اور
موچنے سے وہ سفید بال نکال دیا۔ اب میں بالکل ٹھیک لگ رہا تھا۔
میں ٹھیک وقت پے کیفے ساتز پہنچ گیا ۔ وہاں پیٹر پہلے سے موجود تھا۔ اس کا فوٹو گرافر بھی ساتھ تھا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی جرمن میں سلام کیا اور ہاتھ بھی ملایا۔ ہم دونوں کیفے ساتزکے باہر جو کرسیاں پڑی تھیں وہاں بیٹھ گئے۔ پیٹر نے مجھ سے پوچھا، ’’کیا پیؤ گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں تو کپوچینوں پیؤں گا اور تم لوگ‘‘۔
وہ دونوں یک زبان ہوکر بولے، ’’ہم بھی کپوچینو ں پیئیں گے‘‘۔ پھر پیٹر بولا، ’’تم ساتھ کچھ کھاؤ گے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں میں ناشتہ کرکے آیا ہوں‘‘۔ اس کے بعد فوٹوگرافر نے میری تین چار تصاویر بنائیں ۔پھر انٹرویو شروع ہوا۔ اس نے میز پے ٹیپ ریکارڈر بھی رکھ دیا اور کاغذ قلم بھی نکال لیا۔ وہ مجھے سے
انگریزی میں سوال کرتا جاتا اور میں اس کو جواب دیتا جاتا۔ اس نے ازیل ہائم کے بارے میں سوال کیئے۔ اس کے بعد پاکستانی سیاست پے بات کی۔اس نے ۱۱ ستمبر کے بارے میں بھی پوچھا لیکن میں نے اسے صاف کہہ دیا کہ میں اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں علم و ادب سے تعلق رکھتا ہوں۔ بین الاقوامی سیاست کے بارے میں میرا علم بہت تھوڑا ہے۔ پھر اس نے مجھ سے میرا پسندیدہ پینٹر پوچھا۔ میں نے بتا دیا کہ مجھے وینساں وین گوگغ (Vincent van Gogh)پسند ہے۔اس نے مجھے سے کوئی تیس اک سوال کیئے ہوں گے۔ اس دوران کپوچینوں آگئی ۔ ہم لوگوں نے جب کپوچینوں ختم کی تو پیٹر کہنے لگا پیسے میں دوں گا۔ میں نے دل میں سوچا یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔نیکی اور پوچھ پوچھ۔ پیٹر نے مجھے بتایا کہ میں جو بھی لکھوں گا تمہیں ای میل کردو ں گا۔ انگریزی میں بھی اور جرمن میں بھی۔ میں نے کہا۔ ٹھیک ہے لیکن یہ کب چھپے گا۔ اس نے کہا کل یاپرسوں کے اخبار میں ۔ اس طرح اس نے مجھ سے اجازت لی۔ میں خوش خوش ونٹرتھور کی گلیوں میں پھرتا رہا۔ نہ جم جانے کو دل چاہ رہا تھا نہ ہی لائبریری جانے کو دل چاہ رہا تھا اس لیئے ازیل ہائم واپس آگیا۔ جیسے ہی ازیل ہائم پہنچا تو انیتا کو شور کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا،’’کیا بات ہے آرا م سے بات کرو‘‘۔
کہنے لگی ،’’میں تمہیں کافی دیر سے ڈھونڈ رہی ہوں۔ تم جب تک اس ازیل ہائم میں رہو گے تمہارا ڈاکٹر اسی علاقے کا ہوگا ۔تمہیں کچھ بھی ہو تمہیں علاج کے لیئے اس کے پاس جانا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو اس میں شور کرنے کی کیا ضرورت ہے‘‘۔
وہ بولی، ’’کیونکہ میں سب کو بتا چکی ہوں ۔تمہیں بتا کے میرا کام ختم ہوجائے گا اور میں گھر چلی جاؤں گی۔ شیفر اور شنائیڈرجب کوئی کام
سونپتے ہیں تو اس کے بارے میں پوچھتے بھی ہیں‘‘۔
میں نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لیا۔ اس میں ڈاکٹر کا نام بھی لکھا ہوا تھا اور اس کے کلینک کا نقشہ بھی بنا ہوا تھا۔ کون سی بس جاتی تھی وہ بھی لکھا ہوا تھا۔
میں نے کہا، ’’مجھے کوئی بیماری نہیں بس میری کمر میں درد رہتا ہے کیا میں کل اسے چیک کرواسکتا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’تم کل جو بھی ڈیوٹی پے ہو اس سے کہنا تمہاری اپوئنٹمنٹ لے لے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
میرے پیچھے گلبدین کھڑا تھا کہنے لگا، ’’میرا کاغذبھی دیکھ لو۔مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی ‘‘۔
میں نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور انیتا سے کہا، ’’اس کا بھی مسئلہ حل کردو‘‘۔
انیتا کو بہت غصہ آیا۔ کہنے لگی، ’’میں کتنی دیر سے اس کے ساتھ مغز ماری کررہی ہوں لیکن اس کو کچھ سمجھ نہیں آرہی ۔ونٹر تھور شہر میں بڑا ہسپتال ہے ۔وہاں اس کی آنکھوں کا چیک اپ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’انیتا اب تم جاسکتی ہو‘‘۔
اس نے زور سے پیر پٹخا اور چلی گئی۔
میں نے گلبدین کو سمجھایا کہ اس طرح تمہاری آنکھ کا چیک اپ ہے۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک پیدا ہوگئی۔ کہنے لگا، ’’اس کا مطلب ہے میرا آپریشن ہوگا۔ میری آنکھ ٹھیک ہوجائے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں پہلے وہ دیکھیں گے اس کے بعد فیصلہ کریں گے‘‘۔
گلبدین بہت خوش تھا ۔کہنے لگا، ’’میں زیورک سے تمہارے لیئے کھانا لایا ہوں ۔فرج میں پڑا ہوا ۔گرم کرکے کھا لو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اور تم ‘‘۔
وہ بولا، ’’میں بیئر پیؤں گا بہت گرمی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔
میں نے فرج سے کھانا نکالا۔ ایلمونیم کے چھوٹی چھوٹی دو پلیٹوں میں کچھ کھانے کو پڑا ہوا تھا۔ میں نے مائیکرو ویو میں گرم کیا ۔ساتھ تین پیٹا بریڈ گرم کیں۔ ایک پلیٹ میں مرغی کا سالن تھا اور دوسری میں دال تھی۔ میں کھانا کھاتے ہوئے گلبدین کو دعائیں دینے لگا کہ میں اس کے بارے میں خواہ مخواہ ہی برا سوچتا ہوں۔بیچارہ زیورک سے میرے لیئے کھانا لایا ہے۔ جب میں کھانا کھا چکا تو گلبدین بولا، ‘‘جب میں ہسپتال جاؤں گا تو تم میرے ساتھ جانا‘‘۔
میں نے کہا ،’’کل تو میں خود ڈاکٹر کے پاس جارہا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’مجھے تو پرسوں جانا ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے میں چلا جاؤں گا‘‘۔
کھانا کھا کے میں اپنے اسی کمرے میں چلا گیا جہاں اٹھارہ بستر اوپر نیچے لگے ہوئے تھے۔ میں صبح باہر گیا تھا اس لیئے تھکن محسوس ہورہی تھی دوسری وجہ یہ تھی کہ گرمی بھی بہت زیادہ تھی۔ میں جیسے ہی لیٹا تو مجھے کسی انگریزی گانے کی آواز سنائی دی۔ آواز بہت اونچی تھی۔ میں جب غور کیا تو پتا چلا کہ شاکیرہ (Shakira)کا گانا لگا ہوا ہے۔ جس میں اس کو ڈانس کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور پیچھے گھوڑے بھاگ رہے ہیں۔ when ever, when ever میں نے سونے کا ارادہ ترک کردیا اور ہال میں آگیا ۔وہاں ایک بنگالی جسے آئے ہوئے ابھی چند دن ہوئے تھے اس گانے پے عجیب غریب ڈانس کررہا تھا اور سارے اسے دیکھ کے ہنس رہے تھے۔ میں نے بھی اس کاڈانس دیکھ کے محظوظ ہونے لگا۔ پھر وہ بنگالی آیا جو ہمیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتا تھا اس نے ٹیپ ریکارڈربند کردیا اور اس سے بنگلہ زبان میں کہا کہ تم ڈانس نہ کرو ۔ ان کی باتوں سے لگ رہا تھا کہ دونوں میں تو تو میں میں ہوگئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح سب کو خیرات ملنی تھی۔ جمعرات کو ازیل ہائم کے ہال میں ایسے ایسے چہرے دیکھنے کو ملتے جو آپ کو پورا ہفتہ نہ نظر آتے۔ ان میں کئی تو کام پے جاتے تھے اور ان کو ان پینتالیس سوس فرانک کی ضرورت بھی نہیں تھی لیکن حاضری ضروری تھی اس لیئے جمعرات کو کام پے جاتے اور حاضری ضرور لگاتے۔ شیفر اور شنائیڈر نے اسی طرح
لیکچر دیا۔ چوری سے منع کیا، ڈرگز بیچنے سے منع کیا ۔ آس پاس کے لوگوں کی شکایت کا ذکر کیا ۔اس کے بعد جس جس کو جو جو زبان آتی تھی دوسروں کو بیان کرنے کو کہا۔ سارے مراحل سے گزرنے کے بعد سب کو پینتالیس سوس فرانک کا ٹوکن دیا جو مارکیٹ گاز سترازے میں پائے جانے والے بینک سے کیش ہوتا تھا۔ اس کے بعد محفل برخاست کردی گئی۔
میں نے شیفر کو کہا، ’’آج میری ڈاکٹر کے پاس اپوائنمنٹ ہے۔ تم کچھ بتا سکتے ہو کہ اس وقت وہ ہوگا کہ نہیں‘‘ یہ کہہ کے میں نے اس کے ہاتھ میں وہ خاکی لفافہ تھما دیا جو مجھے انیتا نے دیا تھا۔
اس نے اس میں کاغذ نکال کے پڑھا۔ ڈاکٹر نام پڑھا ۔اس کے بعد اس کو فون کیا ۔فون پے میری اپوائنمنٹ لی۔ مجھے کہنے لگا، ’’ڈاکٹر
موجود ہے۔ ابھی گیارہ بجے ہیں۔ وہ ایک بجے تک بیٹھتا ہے۔ تم ابھی چلے جاؤ ۔میں نے اس کو تمہارا نام لکھوا دیا‘‘۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ باہر نکلے لگا تو گلبدین نے مجھے روک لیا۔کہنے لگا، ’’میری ساتھ بھی جانا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے کل ونٹرتھور کے بڑے ہسپتال جانا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’اگر آج ہسپتال دیکھ آئے توں‘‘۔
میں تھوڑا سا چڑ گیا اور غصے سے کہا، ’’ہسپتال ہے ماسی کا ویڑہ نہیں‘‘۔ یہ کہہ کے میں چل دیا ۔سیدھا بس سٹاپ پے پہنچا۔ میں بس میں سوار ہوا اور بس ڈرائیور کو نقشہ دکھایا جہاں مجھے اترنا تھا۔ وہ کہنے لگا،فکر نہ کرو جب تمہارا سٹاپ آئے گا تو میں تمہیں بتا دوں گا۔ اندستری کے سٹاپ پے اترنا ہے۔ میں نے سوچا یہ تو رضا کی ازیل ہائم والا سٹاپ ہے۔ بمشکل دس منٹ لگے ہوں گے۔ بس اندستری کے سٹاپ پے رکی۔ڈرائیور نے آواز لگائی اور میں اتر گیا۔ میں نے نقشہ راستے میں گزرتے ہوئے ایک شخص کو دکھایا تو کہنے لگا۔ سڑک کے اس طرف چلتے چلے جاؤ۔ آخر میں ایک ریسٹورنٹ آئے گا۔ اس ریستورنٹ کے ساتھ ڈاکٹر کا کلینک ہے۔ میں جہاں اترا تھا وہاں ایک طرف تو رضا کی ازیل ہائم سامنے نظر آرہی تھی اور دوسری طرف مجھے جانا تھا۔ میں اس سڑک پے ہولیا جس طرف میرے ڈاکٹر کا کلینک تھا۔ سڑک کے آخری سرے پے ایک ریسٹورنٹ تھا۔ اس میں کچھ کرسیاں باہر رکھی ہوئی تھیں اور کچھ اندر کمرے میں ۔میں ریسٹورنٹ کی لگی ہوئی کرسیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا ڈاکٹر کے کلینک کے پاس پہنچ گیا۔ یہ ایک گھر تھا جس کا کلینک بنایا گیا۔ میں اندر داخل ہوا تو ایک طرف ویٹنگ روم تھا۔ جہاں دو عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ یہاں تین چار رسالے پڑے ہوئے تھے۔ میں یہ رنگ برنگی رسالے دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر میں ایک سفید کوٹ والی لڑکی اندر داخل ہوئی ۔کہنے لگی، ’’تم میں سبزواری فرشتہ کون ہے‘‘۔یورپیئن ملکوں میں خاندان کا نام پہلے بلاتے ہیں اس لیئے جب مجھے کوئی سبزواری کہہ کے بلاتا تو ایسا لگتا جیسے کسی اور کو بلایا ہے کیونکہ میرے کان سبزواری سننے کے عادی نہیں تھے بلکہ مجھے فرشتہ سننے کی عادت تھی۔ میں اسی نام سے واقف تھا۔ خیر میں نے اسے کہا، ’’میں ہوں سبزواری فرشتہ‘‘۔
کہنے لگی، ’’تمہارا تیسرا نمبر ہے‘‘۔پھر اپنے ساتھ ایک مریضہ کو لے کر چلی گئی۔ میں ویٹنگ روم میں بنی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ کھڑکی سے دور دور تک سبزہ ہی سبزہ نظر آرہا تھا۔ میری خیال میں اس کلینک کے ساتھ یا پاس بچوں کا کوئی سکول تھا۔ میں بیوقوفوں کی طرح بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے جرمن زبان نہیں آتی تھی اس لیئے یہاں بیٹھی ہوئی واحد عورت سے میں کوئی بات نہیں کرسکتا تھا۔ چپ بیٹھا رہا۔ کبھی ر
سالہ دیکھتا، کبھی کھڑکی سے باہر دیکھتا۔آخر کار وہ سفید کوٹ والی لڑکی آئی اور مجھے اپنے ساتھ لے گئی۔ مجھے ڈاکٹرکے کمرے میں چھوڑ کے چلی گئی۔ میں ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہوا۔ اس کو انگریزی میں ہیلو کہا۔ اس نے بھی انگریزی میں جواب دیا۔ مجھے بیٹھنے کو کہا۔
پھر بولا، ’’تمہارا نام سبزواری فرشتہ ہے اور تم پاکستان کے رہنے والے ہو‘‘۔
میں نے کہا،’’ہاں‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا نام بوہرنگر ہے‘‘۔
میں نے کمرے کا معائنہ کیا۔ کمرے کی دیواروں پے اتنا کچھ لگا ہواتھا جن کو بیان کرنے لگیں تو بہت سارے صٖفحے کالے ہوجائیں۔ اس کی میز پے ایک چیز کا ذکر کرنا میں مناسب سمجھوں گا ۔ ڈاکٹری اوزاروں کے علاوہ ایک کونے میں پتھر کا ایک چھوٹا سا مجسمہ پڑا ہوا تھا
۔سدھارتھا گوتما بدھا۔ میں اس کو دیکھنے لگا۔ ڈاکٹر بوہرنگر مجھ سے مخاطب ہوا، ’’کیسے آنا ہوا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے تو مجھے کوئی بیماری نہیں لیکن ازیل ہائم والوں نے مجھے کہا ہے کہ تم میرے ڈاکٹر ہو۔ میں جب بھی بیمار ہوں مجھے تمہارے پاس آنا ہے۔ہاں ایک مسئلہ ہے ۔میں جب سے سوس آیا ہوں مجھے قبض کی شکایت ہے اور میری کمر میں بھی درد رہتا ہے‘‘۔
اس نے سٹیتھوسکوپ اٹھائی اور اس کی گول سی چیز میرے سینے پے رکھی اس کے بعد میری کمر کی طرف رکھی ۔مجھے لمبی لمبی سانسسیں لینے کو کہا۔ پھر اس نے میرے ناخن دیکھے ،دانت دیکھے،آنکھوں کو کھول کے دیکھا۔ پھر کہنے لگا منہ کھولو۔ جب میں نے منہ کھولا تو ایک لکڑی کی چھوٹی سی پٹی میرے تالوں میں رکھ کے اندر کچھ دیکھنے لگا۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا،’’تم کھاتے کیا ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کھانا کھاتا ہوں‘‘۔
’’تم لوگ بہت مصالحے وغیرہ استعمال کرتے ہو ۔اس کے علاوہ سبزیاں اور پھل کم کھاتے ہو۔ اس کے علاوہ تمہاری اندر کیلشیم کی کمی ہے ۔تمہارے ناخنوں پے سفید لائنیں ہیں اور تمہارے دانت بھی اس چیز کو ظاہر کرتے ہیں کہ تم میں کیلشیم کی کمی ہے۔تم مرچیں کم کردو، پھل اور سبزیاں زیادہ کھایا کرو اس کے علاوہ بہت زیادہ پانی پیاکرو‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ ٹھیک ہے کہ لیکن تمہیں یہ کیسے پتا چلا کہ میں مصالحے بہت زیادہ استعمال کرتا ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں پاکستان میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے تحت میں گلگت اور ہنزہ میں کام کرتا رہا ہوں۔یہ بدھا کا مجسمہ جسے تم غور سے دیکھ رہے تھے میں نے یہ سوات سے ایک لڑکے سے لیا تھا۔ و ہ کہہ رہا تھا بارش ہوئی تو زمین سے نکلا ہے۔ مجھے پتا تھا وہ جھوٹ بولا
رہا ہے لیکن مجھے پسند آیا اور میں نے لے لیا۔ ویسے پاکستان سوس سے بھی زیادہ خوبصورت ہے۔ وہاں کے پہاڑ دنیا کے سب سے خوبصورت پہاڑ ہیں‘‘۔
میں بہت حیران ہوا ۔میں جب سے پاکستان سے نکلا تھا لوگوں سے یہی سنتا آیا تھا کہ پاکستانی دہشت گرد ہوتے ہیں، انتہا پسند ہوتے ہیں،وہاں پے کچھ نہیں ۔یہ پہلا یا شاید دوسراشخص تھا جو میرے ملک کی تعریف کررہا تھا۔ میں نے پوچھا، ’’تمہیں اردو بھی آتی ہوگی‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے شنا اور بروشسکی آتی ہے لیکن بہت تھوڑی‘‘۔
میری حیرت میں مزید اضافہ ہوا کیونکہ ان زبانوں کے نام پاکستان میں کوئی نہیں جانتا لیکن اس سوس ڈاکٹر کو ان زبانوں کے نہ صرف نام یاد تھے بلکہ اس کو تھوڑی بہت بولنی بھی آتی تھی۔ مجھے اس لیئے پتا تھا کہ یہ وہاں کی زبانیں ہیں کیونکہ میں ٹورسٹ گائیڈ تھا ورنہ مجھے بھی
ان زبانوں کے بارے میں کچھ نہ پتا ہوتا۔وہ کہنے لگا، ’’اب تم نرس کے پاس جاؤ۔ وہ تمہارا مساج کرے گی۔ اگر کمر کا درد ٹھیک نہ ہوا تو پھر تمہارا ایکسرے ہوگایا سی ٹی سکیننگ ہوگی‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت شکریہ ڈاکٹر بوہرنگر‘‘۔
وہ مجھے دیکھ کے مسکرا دیا اور میں کمرے سے باہر نکل آیا۔ ویٹننگ روم میں انتظار کرنے لگا۔ تھوڑی دیر میں وہی نرس جو مجھے پہلے بلانے آئی تھی اس نے مجھے ایک اور کمرے میں بھیج دیا۔ میں کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں پے مختلف قسم کامیڈیکل سے متعلق سازو سامان پڑا ہوا تھا۔ ایککونے میں خاص قسم کا بستر لگا ہوا تھا جس پے سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ میرے سامنے کالے کپڑوں میں ایک موٹی تازی لڑکی کھڑی تھی۔ اس کا رنگ کالے کپڑوں کی وجہ سے زیادہ گورا لگ رہا تھا۔ اس کے بازوؤں پے رنگ برنگی ٹیٹوز بنے ہوئے تھے۔ مجھے اس
کا حلیہء عجیب سا لگا۔ اس نے مجھے اشارے سے لیٹنے کو کہا۔ میں نے جوتے اتارے اور بستر پے لیٹ گیا۔ پھر اس نے مجھے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھایا کہ ٹی شرٹ اتار دو اور جینز کو بھی تھوڑا نیچے کردو تانکہ مجھے مساج کرنے میں آسانی ہو ۔میں نے اس کی ہدایت پے عمل کیا۔ اس نے میری کمر پے کوئی کریم لگائی اور مساج کرنا شروع کیا۔ پندرہ منٹ بعد مجھے کہنے لگی۔ ٹی شرٹ پہن لو اور اگلے ہفتے پھر آنا۔ میں نے دل میں سوچا میں بیٹھے بٹھائے یہ کیا مصیبت مول لے لی۔ میں نے اگلے ہفتے کی اپائنٹمنٹ جیب میں رکھی اور کلینک سے نکل آیا۔ میں جیسے ہی کلینک سے نکلا میرے موبائیل سے ٹوں ٹوں کی آواز آنے لگی۔ میں نے موبائیل نکال کے دیکھا تو کسی کا ایس ایم ایس (شارٹ میسج سروس) تھا۔ میں نے میسج کھولا،پڑھا،پیٹر کا میسج تھا اس میں لکھا تھا کہ میں نے تمہارا انٹرویو تمہیں میل کردیا ہے تم اسے
پڑھ کے اوکے کرو گے تو کل کے اخبار میں چھپ جائے گا۔ میں نے سوچا یہاں سے سیدھا لائبریری جانا چاہیئے۔ اندستری کے سٹاپ پے پہنچا اور بس پے بیٹھ کے لائبریری پہنچ گیا۔ لائبریری میں وقفہ ہونے والا تھا اس لیئے لائبریری میں کام کرنے والی نے مجھے انٹرنیٹ پے بیٹھنے کا ٹوکن نہ دیا۔ میں بہت سٹپٹایا۔ مجھے بھوک بھی لگ رہی تھی۔ جیب میں پیسے بھی نہیں تھے کیونکہ میں نے بینک سے خیرات کی رقم بھی نہیں لی تھی ۔ میں لائبرییری سے سیدھا بینک گیا۔ بینک بند ہونے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ میں نے ٹوکن دے کے پیسے وصول کیئے۔ وہی پینتالیس سوس فرانک ۔چار دس دس کے نوٹ اور ایک پانچ سوس فرانک کا سکہ جو بہت بھاری تھا۔ بینک سے نکلا تو سٹیشن کی طرف چل دیا ۔سٹیشن کے ساتھ ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر تھا۔میں نے سوچا ان سے پوچھتا ہوں کہ انٹرنیٹ سینٹر بتائیں۔ کاونٹر پے ایک
نوجوان اور خوبرو حسینہ کھڑی تھی۔ میں نے جیسے ہی انگریزی میں پوچھا وہ بڑی خوش ہوئی ۔ لگتا تھا نئی بھرتی ہوئی ہے۔ اس لیئے بہت مسکرا ء کے جواب دیا کہ میں تمہاری کیا مدد کرسکتی ہوں۔میں نے اپنا مدعا بیان کیا۔ وہ کہنے لگی، وہاں کونے میں کمپیوٹر پڑا ہے۔ تم جتنی دیر چا ہو استعمال کرسکتے ہو۔لیکن اگر کوئی اور آگیا تو تمہیں چھوڑنا پڑے گا کیونکہ یہ سیاحوں کی انفارمیشن کے لیئے ہے‘‘۔
اندھے کو کیا چاہیئے دو آنکھیں۔ میں کونے میں پڑے ہوئے کمپیوٹر کی طرف لپکا۔ ہاٹ میل کھول کی اپنی میل دیکھی۔ اس میں پیٹر کی میل بھی تھی۔ میں نے جلدی سے پڑھی اور اس کو جواب میں اوکے کردیا۔ یہ اچھا ہوا کہ اس نے انگریزی میں لکھا تھا اگر جرمن میں ہوتا تو مجھے کچھ سمجھ نہ آتی۔ میں نے ونہی کھڑے کھڑے اس لڑکی کو کہا،’’کیا میں ایک پرنٹ آوٹ نکال سکتا ہوں ۔یہ کمپیوٹر پرنٹر کے ساتھ کنکٹڈ ہے‘‘۔
اس نے مسکرا کے جواب دیا، ’’اگر زیادہ صفحے نہیں تو پرنٹ کی کمانڈ دے دو یہ کنکٹڈ ہے‘‘۔
میں نے پرنٹ کی کمانڈ دی، ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر میں کوئی نہیں تھا صرف یہ خوبصورت لڑکی تھی میرے خیال میں باقی سارے کھانا کھانے گئے ہوئے تھے۔ کمرے میں پرنٹر کے آوا ز آنے لگی۔ تھوڑی دیر میں اس نے دو صفحے میرے ہاتھ میں تھمادیئے۔ پھر پوچھنے لگیِ ،’’یہ کیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کل کے اخبار دیر لانڈ بوتے میں دیکھ لینا‘‘۔
میں لاگ آوٹ(log out) ہوا اور اس لڑکی کا شکریہ ادا کرکے ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر سے باہر نکل آیا۔ میرا خیال تھا کہ میں کچھ کھالو۔ بھوک بہت لگی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر نے آج ہی کہا تھا کہ پھل کھایا کرو۔ میں مارکیٹ گاز سترازے پے چلنے لگا۔ راستے میں میگروس
سٹور تھا۔یہاں سے سب کچھ ملتا تھا۔ میں نے سوچا یہاں سے سیب لیتا ہوں۔ پلاسٹک کی ٹرے میں چھ سیب تھے۔ کاونٹر پے پیسے ادا کیئے اور میگروس سے باہر آگیا۔ میگروس کی پچھلی طرف بینچ لگے ہوئے تھے ۔وہاں بیٹھ کے سیب کھانے لگا۔ ایک سیب کھایا دوسرا کھایا جب تیسرا کھانے لگا تو دانتوں میں درد شروع ہوگیا اور پیاس بھی لگنے لگی۔ میں نے پینے کے لیئے کچھ نہیں خریدا تھا اس لیئے دوبارہ میگروز میں جانا مناسب نہ سمجھا اور مارکیٹ گاز سترازے پے چلنا شروع کردیا۔ سڑک پار کرکے میں دوسری طرف ہوگیا۔ اس جگہ کا نام گریبن (graben)تھا۔ یہاں پے مجھے ایک سٹور نظر آیا۔ اس نام کا سٹور اریزو میں بھی تھا۔میں اندر داخل ہوا ۔اس کو ہاتھ میں پکڑا ہوا تھیلا دکھایا ، کاونٹر پے جو لڑکی کھڑی تھی اس کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم ہوگی۔ اس نے گردن گھما کے اشارہ کیا کوئی بات نہیں۔ تم نے جو
لینا ہے لے لو۔ میں نے جوس کی ایک بڑی بوتل لی اور اس پے پیسے ادا کیئے پھر حسبِ عادت اس پے پوچھا، ’’تم اتنی چھوٹی سی عمر میں کام کرتی ہو۔مجھے تو تم سکول گرل لگتی ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’مجھے انگریزی نہیںآتی ۔میں جرمن بول سکتی ہوں یا اٹالین‘‘۔
میں بڑا حیران ہو۔خیر میں نے اٹالین میں پوچھا ۔تو اس نے جواب دیا،میں پڑھتی ہوں۔ میری ماں کھاناکھانے گئی ہے اس لیئے وہ مجھے یہاں کھڑا کر گئی ہے‘‘۔
ابھی ہم دونوں باتیں ہی کررہے تھے کہ اس کی ماں آگئی ۔وہ لڑکی تو بہت خوبصورت تھی لیکن اس کی ماں بہت ہی بھدی سی تھی۔ میں نے اس سے اٹالین میں پوچھا،’’تم یہ سٹور اکیلے چلاتی ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’نہیں میں اور میرا خاوند اسے مل کے چلاتے ہیں۔ اس
وقت وہ سامان لینے گیا ہواہے‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’تم اٹلی کے کس شہر کے ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’تم اٹلی کے بارے میں جانتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں اریزو سے آیا ہوں۔وہاں رہتا تھا اب یہاں آگیا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’تم بڑی اچھی اٹالین بولتے ہو۔ ویسے ہم لوگ سسلی کے ہیں۔ ہم لوگ یہاں کافی عرصے آباد ہیں‘‘۔
میں نے اٹالین میں اری ودیرچی (arrivederci)یعنی پھر ملیں گے کہا اور دوکان سے باہر نکل آیا۔میرا دل تھا کہ سیدھا ازیل ہائم جاؤں اور شام کو نہاں دھو کے رضا سے ملنے جاؤں اور اس کو انٹرویو کا پرنٹ آوٹ دکھاؤں ۔ ابھی اس سے کافی باتیں کرنی تھیں۔ میں نے گیارہ ستمبر کے بارے میں کافی کچھ پوچھنا تھا۔ میں یہاں سے سیدھا ازیل ہائم پہنچا ۔دو سیب کھائے تھے اور تیسرااسی طرح تھیلے میں رکھ دیا۔ جوس آدھا پی چکا تھا۔ میری قسمت اچھی تھی کہ جیسے ہی ازیل ہائم پہنچا تو پیٹ میں گڑبڑ شروع ہوگئی۔ میں سیدھا باتھ روم میں اپنی حاجت رفع کرنے گیا۔ ڈاکٹر بوہرنگر نے ٹھیک کہا تھا کہ ہم لوگ پانی نہیں پیتے اور پھل نہیں کھاتے۔ میں جو کام پندرہ بیس منٹ میں کرتا تھا وہ ایک منٹ سے کم کے عرصے میں ہوگیا ۔میں خوش ہوا اور وہاں بیٹھے بیٹھے ہی عہد کیا کہ میں اب پابندی سے پھل کھایا کروں گا اور پانی پیا ء کرو ں گا۔
میں ہاتھ دھو کے ہال میں آکر بیٹھ گیا ۔باقی کے سیب بھی ختم کیئے۔ جوس کا ڈبہ بھی خالی کیا۔ پلاسٹک کی خالی ٹرے اور جوس کا خالی ڈبہ بن کی نظر کیا۔ میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ شام کو رضا کے پاس بھی جانا ہے لیکن میرے موبائیل فون پے میسج کا
بیپ بجنے لگا۔ میں نے میسج پڑھا تو بڑا حیران ہوا رضا کا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ وہ دو دن کے لیئے کہیں جارہا ہے۔ اتوار کو واپس آئے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمعے کے دن میں ناشتے سے فارغ ہوا تو میں نے پہلا کام جو کیا وہ تھا اخبار ،دیر لانڈبوتے دیکھنا۔ شیفر کی عادت شنائیڈر کے مقابلے میں اچھی تھی۔ میں نے اس سے دوستانہ انداز میں پوچھا ،’’تمہارے پاس اخبار ہے ،دیر لانڈ بوتے‘‘۔
کہنے لگا، ’’اندر کمرے میں پڑا ہے لیکن تم کیا کرو گے ،تمہیں جرمن زبان آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تصویریں دیکھوں گا۔ کئی دنوں سے اچھی تصویریں نہیں دیکھیں‘‘۔
وہ مسکرا دیا اور کمرے سے ونٹرتھور کا سب سے اہم اخبار دیر لانڈبوتے اٹھا لایا۔ میں اخبار لے کے ہال کے ان چار مستطیل میزوں میں سے ایک پے اخبار پھیلا کے بیٹھ گیا۔ سارے صفحے پھرولے، ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ لیکن مجھے اپنا انٹرویو کہیں نہ ملا۔ میں بڑا حیران ہوا ۔پیٹر نے تو کہا تھا کہ جمعے کو چھپے گا۔ ایسا تو نہیں کہ اس نے مجھ سے مذاق کیا ہو۔ میں نے چند لوگوں کو بتابھی دیا تھا۔ خیر میں نے اخبار طے کرکے شیفر کو واپس کردیا۔ وہ کہنے لگا، ’’کیوں تصویریں پسند نہیں آئیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’سوس لڑکیاں خوبصورت ہی نہیں ہوتیں پسند کیسے آتیں‘‘۔
میرا مزاج تھوڑا سا بگڑا ہوا تھا ۔اس پے گلبدین نازل ہوگیا۔ اسے دیکھتے ہی مجھے یاد آیا ۔آج تو گلبدین کا ونٹرتھور کے
بڑے ہسپتال میں چیک اپ ہے۔ یہ ایک نئی مصیبت تھی۔ مجھے شیفر کہنے لگا، ’’تو تم اس کے ساتھ جارہے ہو۔ یہ بڑی اچھی بات ہے۔ مجھے گلبدین نے بتایا ہے کہ تمہاری اس کے ڈاکٹر سے بات بھی ہوگئی ہے‘‘۔
میں جانتا تھا کہ گلبدین بڑے بڑے جھوٹ بولتا ہے اس لیئے میں نے شیفر کو کہا، ’’ہاں میں اس کے ساتھ جارہا ہوں۔ میں نے گلبدین کو کہا، ’’جلدی سے تیار ہوجاو تانکہ وقت پے ہسپتال پہنچ جائیں‘‘۔
وہ میرے ٹون سے پہچان گیا تھا کہ میں ناخوش ہوں۔ اس نے مسکرا ء کے میری طرف دیکھا جیسے مجھے راضی کررہا ہو۔تھوڑی دیر میں تیار ہوکے آگیا۔ بالکل کارٹون لگ رہا تھا۔ صاف لگتا تھا کہ ا س نے ساری زندگی پتلون نہیں پہنی لیکن یہاں آکے اسے مجبوراًپتلون پہننی پڑ گئی تھی۔ میں نے کہا، ’’چلیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’چلو‘‘۔
ہم دونوں جیسے ہی ہسپتال پہنچے تو وہاں ایک اور پاکستانی بھی تھا ۔گلبدین نے میرا اس سے تعارف کروایا۔ اور کہنے لگا، ’’اس کو میں نے کہا تھا کہ ترجما ن کا بندوبست ہوگیا ا س لیئے تم بھی ہسپتال آجانا‘‘۔
مجھے گلبدین پے اتنا غصہ آیا۔دل چاہتا تھا کہ اسے نیچے گرا کے اتنا مارو کہ دوبارہ کبھی چل نہ سکے۔ مجھے سے بنا پوچھے اس نے یہ سب کچھ کیا تھا۔ گلبدین کی آنکھوں کا معائنہ ہوا۔ لیڈی ڈاکٹر تھی۔ مجھے جو جو گلبدی بتاتا گیا میں ڈاکٹر بتاتا گیا۔ سارے ٹیسٹ کرنے کے بعد ڈاکٹر نے کہا، ’’اس کی آنکھ میں میزائل کے ٹکڑے نہیں لگے بلکہ شیشے کے بہت باریک ذرے چلے گئے ہیں۔ اگر چند دن اور دیر ہوجاتی تو اس کی یہ آنکھ چلی جاتی‘‘۔اس کو ہم داخل کررہے ہیں اور اس کا آج
ہی آپریشن ہوگا‘‘۔
میں نے گلبدین کو یہ تو بتادیا کہ اس کا آج آپریشن ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ اس کا جھوٹ پکڑا گیا ہے۔
جب میں نے آپریشن کا بتایا تو گلبدین رو پڑا اور کہنے لگا، ’’میں کئی دنوں سے تم سے جھوٹ بولا رہا تھا ۔میں پاکستانی ہوں اور مانسہرہ کا رہنے والا ہوں ۔ میں گاڑیوں کا مکینک ہوں۔ میرا بڑا بھائی زیورک میں رہتا ہے۔ اور میں جو تمہیں بتاتا رہا ہوں کہ میری آنکھ میں میزائل کے ذرے چلے گئے ہیں ،بالکل جھوٹ ہے۔ یہ شیشے ٹوٹنے کی وجہ سے ہوا۔ میں ایک دفعہ گاڑی کا دروازہ ٹھیک کررہا تھا کہ گاڑی کا شیشہ ٹوٹ کے میرے منہ پے لگا۔ اس کے بعدمیری ا س آنکھ میں درد ہونے لگا‘‘۔
میں خاموشی سے اسے دیکھنا لگا۔ اس نے مجھ سے موبائیل فون لیا اور کسی کا نمبر ملایا۔ جیسے ہی دوسری طرف سے آواز آئی ہری پورہزارہ کی زبان میں بات چیت کرنے لگا۔ پھر موبائیل مجھے پکڑا دیا۔ میں ہاتھ رکھ کے پوچھا ،’’کون ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا بڑا بھائی ‘‘۔
میں نے سلام دعا کی، پھر گلبدین کے بارے میں بتایا۔ وہ کہنے لگا میں شام تک ونٹرتھور پہنچ جاؤں گا۔
گلبدین کی شکل سے لگتا تھا کہ وہ بہت شرمندہ ہے۔ میرا دل بھی اس کے بارے میں صاف ہوگیا۔ ساری باتیں بھول گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment