Monday, June 17, 2013

چودہواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG







۱۴

جمعے کے دن اریزو میں بہت سے لوگ جمعہ پڑھنے جاتے ہیں۔ یہاں عربیوں کی علیحدہ مسجد ہے ،بنگالیوں کی علیحدہ مسجد ہے اس کے علاوہ منہاج القران والوں نے بھی ایک سنٹر بنایا ہوا ہے کچھ لوگ وہاں بھی نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ مسلمان دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں ان کا مذہب ،رسول ،قرآن سب ایک ہوتا ہے لیکن مسجد ہر کسی کی علیحدہ ہوتی ہے۔
اقبال نے ٹھیک ہی کہاتھا،

اللہ بھی ،رسول بھی،قرآن بھی ایک
تھی بڑی بات جو ہوتے مسلمان بھی ایک
میں تو نماز پڑھنے جاتا ہی نہیں تھا حالانکہ ہمارے گھر کئی دفعہ کبھی منہاج القران والے آتے اور کئی دفعہ بنگالیوں کا کوئی ٹولہ آتا۔
میں ناشتے کے بعد لائبریری چلا گیا۔ وہاں کافی دیر تک لکھتا رہا۔ اس کے بعد میں ویا پترارکا چلا گیا۔ وہاں ایک بنگالی کی دوکان ہے جو کافی بڑی ہے۔ اس سے پوچھا کوئی نئی فلم ہے۔ اس نے کہا، آج کل دیوداس بڑی چل رہی ہے۔ میں نے کہا اگر ہے تو دے دو۔ وڈیو کیسٹ کا دور ختم ہوچکا تھا اور ڈی وی ڈی کا دور شروع ہوچکا تھا۔ لیکن یہ ڈی وی ڈی ایک دو دفعہ دیکھنے کے بعد نہ چلتی۔ خیر میں نے دیوداس فلم لی اور گھر آگیا۔فلم شرو ع ہوئی۔ یہ کسی بنگالی
ناول نگار کے ناول پے بنی ہے ۔اس ناول پے پہلے بھی فلم بن چکی ہے ۔اس میں دیوداس کا کردار دلیپ کمار نے ادا کیا تھا۔ اس فلم میں دیوداس کا کردار بولی ووڈ کے بریڈ پٹ نے ادا کیا۔ شاہ رخ خان نے اس فلم میں اپنی زندگی کے بہترین کام کیا۔ ہر کردار فلم میں نگینے کی طرح فٹ بیٹھا ۔ سنجے لیلہ بھنسالی نے اس فلم میں بہت محنت کی تھی اور اس کو اس کا پھل بھی ملا۔ فلم کافی فلمی تھی لیکن گانے،لباس، سیٹ ڈیزائننگ کمال کی تھی۔ مجھے دیوداس بہت پسند آئی۔ فلم دیکھ کے میں کچھ بہتر محسوس کرنے لگا۔ جب شام کو نیائش آیا تو اسے میں نے بتایا کہ فلم لایا ہوں بہت اچھی ہے۔ کہنے لگا، ’’کون سی فلم لائے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’دیوداس ‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’ماڑا اس میں تو شاہ رخ خان نے کام کیا ہے۔ پٹھان کا بچہ ہے ،بہت اچھا کام کرتا ہے ‘‘۔
نیائش کو ہفتے اور اتوار کی چھٹی تھی ۔اس لیئے وہ کسی چیز کی پرواہ کیئے بغیر فلم دیکھنے لگا۔ میں فلم دیکھ چکا تھا اس لیئے میرا یہ فلم دوبارہ دیکھنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں کچن میں آگیا اور رات کے لیئے کھانا بنانے لگا۔
میں سارے کاموں سے رات کو آٹھ بجے فارغ ہوا۔ نیائش فلم دیکھ چکا تھا ۔اس لیئے ہم دونوں نے مل کے کھاناکھایا۔ کھانے کے دوران نیائش فلم کی تعریف کرتا رہا اور مجھے فلم دیکھنے کے بعد اس کے بارے میں بات کرنا بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ اس لیئے میں ہوں ہاں میں جواب دیتا رہا۔
کھانے کے دورا ن ہی ثقلین نازل ہوگیا ۔
آتے ہی کہنے لگا، ’’بہت زور سے بھوک لگی ہے‘‘۔
میں نے برتن دھونے والی جگہ کے اوپر جو الماری تھی جہاں ہم برتن
دھونے کے بعد سوکھنے کے لیئے رکھتے تھے وہاں سے ایک پلیٹ نکالی اور اس کے سامنے رکھ دی۔ میں نے شوربے والی مرغی بنائی تھی۔ اس لیئے ہم تینوں کے لیئے کافی تھی۔
نیائش بولا، ’’پری پیکر تم تو کہتے تھے کھانا مالک کے طرف سے ہوتاہے‘‘۔
ثقلین بولا، ’’کھانا کھا لوں پھر بات کروں گا۔ اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی‘‘۔
میں ثقلین کی بات سن کے مسکرا دیا۔کھانا ختم ہوا تو ثقلین بولا، ’’اب میری آنکھیں کھلی ہے۔ کچھ نظر آیا۔ نیائش بھائی کل آپ نے بڑے دل سے کہا تھا ۔اس لیئے میں نے دل میں عہد کر لیا تھا خواہ کچھ بھی ہو ،میں کا کھانا آپ لوگوں کے ساتھ کھاؤں گا۔ میں نے کھانے کا وقفہ نہیں کیا ۔اپنے حصے کا کام ختم کیا اور اپنے ایک کولیگ سے لفٹ لے کے یہاں آگیا‘‘۔
نیائش بولا، ’’یار بس ویسے ہی سوچنے لگ گیا تھا کہ شاید ہماری کوئی بات بری لگ گئی ہو‘‘۔
ثقلین بولا، ’’نہیں نیائش بھائی آپ کو تو پتا ہے آج کل کام کے حالات کیسے ہیں۔ مالک جیسے کہتا ہے کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘۔
نیائش بولا، ’’یہ بھی عجیب ملک ہے ،جن لوگوں کے پاس کام نہیں ، ان کو بالکل کام نہیں ملتا اور جن پے کام ہے وہ اوورٹائم بھی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے امیگریشن بھی کھول دی ہے۔ لاکھوں لوگوں نے کاغذات جمع کروائے ہوئے ہیں ۔ان کو کام کہاں سے دیں گے ۔ اس کے علاوہ اب لوگ فلسی(یہ ایک طرح کا سپانسر ہوتا ہے اور یہ لوگ کام کا ویزہ پاکستان میں اٹلی ایمبیسی سے لے کر آتے ہیں) پے بھی آرہے ہیں‘‘۔
میں بولا، ’’اٹلی کو امیگریشن سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔یہ ٹیکس اٹلی کے ٹیکس آفس کو لوگوں کو پینشن دینے میں مدد کرتا ہے‘‘۔
ثقلین اور نیائش نے میری طرف غور سے دیکھا۔ ثقلین بولا، ’’فرشتہ صاحب آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ثقلین بھائی ،اب تو آپ مجھے فرشتہ صاحب نہ کہا کریں۔ مجھ فرشتہ ہی کہا کریں‘‘۔
ثقلین بولا، ’’تم بھی مجھے ثقلین بھائی کے بجائے ثقلین ہی کہہ لیا کرو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگرمیں ثقلین کہنا شروع کردیا تو آپ کے لیئے مصیبت ہوجائے گی‘‘۔
’’اچھا چلو یہ بتاؤ کہ اگلا باب تیار ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں وہاں میز پے پڑا ہوا ہے‘‘۔میں نے اپنے اور نیائش کے لیئے چائے بنائی۔ثقلین نے بھی فرمائش کردی اس طرح میں نے تین کپ چائے کے بنائے۔ چائے کے دوران نیائش اور ثقلین فلم دیوداس کے بارے میں باتیں کرتے رہے اور میں کچن کی چیزیں سمیٹنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سو رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا جیسا مجھے کوئی دور سے بلا رہا ہے۔ پہلے مجھے لگا شاید میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں لیکن جب میری آنکھ کھلی تو کیا دیکھا کہ وہی لڑکی انیتا جس نے بے شمار بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔ وہ میرا نام لے کر مجھے جگانے کی کوشش کررہی تھی۔ جب میری آنکھ کھلی تو کہنے لگی، ’’تمہیں پتا ہے دن کے دس بج چکے ہیں۔ آج جمعرات ہے۔ سارے لوگ ہال میں موجود ہیں اور تم نہیں ہو۔ مجھے شنائیڈر نے تمہیں جگانے کے لیئے بھیجا ہے۔ میں کتنی دیر سے تمہیں جگانے کی کوشش کررہی ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم چلو میں ہاتھ منہ دھو کر آتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاتھ منہ دھونے کا وقت نہیں ہے۔ پہلے میٹنگ میں شامل ہوجاؤ اس کے بعد ہاتھ منہ دھو لینا ،جو جی میں آئے کرنا۔ جب انسان سو کے اٹھتا ہے تو اس کی حالت عجیب سی ہوتی ہے ۔میں نے انڈر ویئر کو تو کرائس لنگن میں ہی خیربار کہہ دیا تھا۔ اب یہاں رات کو سونے کے لیئے اپنی اکلوتی جینز اتار دیا کرتا اور نچلے حصے پے چادر لپیٹ لیاکرتا۔ میں نے انیتاسے کہا، ’’اگر تم اجازت دو تو میں جینز پہن لوں‘‘۔
کہنے لگی،’’تم جینز پہن کے آجاؤ ،میں جارہی ہوں‘‘۔
میں نے لیٹے لیٹے ہی اپنے جینز اپنی ٹانگوں میں پروئی جو میرے سرہانے پڑی ہوئی تھی۔ اپنے جوتے پہنے جو میرے جوتوں کا بھی کام دیتے تھے اور سلیپرز کا بھی کیونکہ میں نے انڈر ویئر کے ساتھ ساتھ جرابوں سے بھی جان چھڑا لی تھی۔ کوریڈور میں کھٹ کھٹ کرتا ہال میں پہنچا۔ میں جیسے ہی ہال میں پہنچا مجھے تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ وہی ہال ہے جو میں دو دن سے دیکھ رہاہوں۔ میں نے یہاں اتنے بندے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ پھر مجھے یاد آیا اوخو آج تو پیسے ملنے ہیں ۔۴۵سوس فرانک ۔ہفتے کا جیب خرچ۔
بہت سارے لڑکے بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں شنائیڈر بیٹھاہوا تھا اور دوسرے کونے میں شیفر۔
شنائیڈر بولا، ’’سب لوگ آگئے‘‘۔
انیتا بولی، ’’فرشتہ رہتا تھا وہ بھی آگیا ہے‘‘۔
شیفر بولا، ’’تو کاروائی شروع کریں‘‘۔
شنائیڈر بولا، ’’آپ سب کو میری طرف سے شیفر کے طرف سے اور ازیل ہائم کے عملے کی طرف سے سلام ۔آج ہم چیک دیں گے اور جن لوگوں کے پاس ٹرین کایا بس کا ٹکٹ نہیں ہے ان کو پاس بھی دیں گے۔
شیفر بولا، ’’ہمیں پتا چلا ہے کہ ازیل ہائم میں رہنے والے لڑکے باہر جاکے چوریاں کرتے ہیں۔ ہمیں آس پاس کے لوگوں نے شکایت کی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کے بارے میں پتا چلا ہے کہ وہ ڈرگز بھی بیچتے ہیں‘‘۔
شنائیڈربولا، ’’ہمیں اس بات کی بھی خبر ہے کہ آپ میں سے کچھ لوگ پورا ہفتہ نظر نہیں آتے اور چیک والے دن نظر آتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ کہیں کام پے جاتے ہیں۔ اگر ہمیں اس بات کا
ثبوت مل گیا کہ آپ میں سے کوئی بندا کام پے جاتا ہے تو اس کو چیک ملنا بند ہوجائے گا اور اس کو اس کے ملک واپس بھی بھیجا جاسکتا ہے‘‘۔
شیفر نے اس جورجیاء کے لڑکے کو مخاطب کرکے کہا، ’’تم اپنے ہم وطنوں کو اس ساری بات چیت کا ترجمہ کرکے سنادو‘‘۔ اس نے نہ جانے کون سی زبان میں چند لوگوں کو بتانا شروع کیا۔
پھر شنائیڈر مجھ سے مخاطب ہوا،’’تم اس افغانی لڑکے کو سمجھا دو ‘‘۔
میں نے گلبدین کو بتایا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔وہ کہنے لگا، ’’آج یہ پیسے جو دے رہے ہیں۔ اس لیئے لیکچر تو دیں گے‘‘۔
شیفر بولا، ’’اگرکسی کو کوئی بات سمجھ نہ آئی ہو تو پوچھ سکتا ہے۔یا کسی کو کچھ کہنا ہو تو کہہ سکتاہے‘‘۔
ایک ترکش لڑکے نے کہاکہ اس کا چشمہ ٹوٹ گیا۔ ایک نے کہا، پھیپھڑوں کوئی مسئلہ ہے۔ شیفر نے سب کی باتیں نوٹ کرلیں۔
پھر بولا، ’’میں نے سب کے مسائل لکھ لیئے ہیں۔ میں متعلقہ ڈاکٹرز سے وقت لے کے تمہیں بتاؤں گا‘‘
اس کے بعد شنائیڈر نے سب میں چیک تقسیم کیئے۔ مجھے بھی ۴۵ سوس فرانک کا چیک ملا۔ یہ چیک عجیب قسم کا تھا جیسے کوئی ٹوکن ہو۔میں نے شیفر سے پوچھا، ’’یہ کیش ہوجائے گا‘‘۔
وہ ہنسا اور پھر بولا، ’’یہ بھی ایک طرح کا چیک ہے۔ تم بینک والے کو جب یہ دکھاؤ گے تو وہ تمہیں اس کاغذ کے بدلے پیسے دے گا‘‘۔
میں چیک کو الٹ پلٹ کے دیکھنے لگا۔ پھر شنائیڈر بولا، ’’جن جن کے پاس بس پاس نہیں وہ انیتا کے پاس جائیں وہ بس پاس کے لیئے ٹوکن دے گی ۔وہ ٹوکن تم لوگ جب سٹیشن پے جاکے دکھاؤگے جہاں سے ٹرین کا ٹکٹ ملتا ہے تو تمہیں بس کامہینے کا پاس دے دیں گے‘‘۔
شیفر بولا، ’’اگر کسی کو کوئی سوال کرنا ہو تو کرسکتا ہے‘‘۔
جورجیاء کا وہ چھوٹے قدوالا لڑکا بولا، ’’تم لوگوں کو کس نے بتایا ہے کہ ازیل ہائم کے لڑکے چوری کرتے ہیں اور ڈرگز بیچتے ہیں‘‘۔
شنائیڈر بولا، ’’ہمیں آس پاس کے لوگوں نے بتایا ہے‘‘۔
جورجیئن لڑکا بولا، ’’یہاں تو آس پاس کوئی دوکا ن نہیں‘‘
شیفر بولا، ’’انہوں نے پولیس سٹیشن جاکے شکایت کی ہے اور پولیس والوں کا بندا یہاں آیا تھا اس نے ہمیں اطلاع دی ہے‘‘۔
شنائیڈر اور شیفر کا جواب تسلی بخش نہیں تھا۔ میں اٹھ کے انیتا کے پاس گیا اور اس سے بس پاس کا ٹوکن لیا۔ اتنے میں ایک لمبا تڑنگا بندا میرے پاس آیا اور مجھے اٹالین زبان میں کہنے لگا، ’’کام کرو گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کام کیا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں ایک سوس ٹھیکیدار کے پاس کام کرتا ہوں۔ اس کو بندوں کی ضرورت ہے۔اس نے کہا تھا اگر کوئی کام کرنا چاہیئے تو اسے
لے آنا۔ تمہیں زبان آتی ہے۔ وہ ٹھیکیدار بھی اٹالین ہے لیکن وہ تیس سال سے یہا ں رہ رہا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے کام نہیں بتایا‘‘۔
کہنے لگا، ’’سوس میں جب عمارت بنتی ہے تو اس کی چھتوں میں اور دیواروں میں روئی نماں چیز بھری جاتی ہے۔ یہ کام سوس لوگ نہیں کرتے ۔اس سے پھیپھڑے خراب ہوجاتے ہیں۔ اگر سوس بندا کام کرے تو وہ پندرہ دن کام کرتا ہے اور پندرہ دن بنا کام کے اسے مالک کو تنخواہ دینی پڑتی ہے۔ اس لیئے یہاں کے ٹھیکیدار غیر ملکیوں کو ترجیح دیتے ہیں اور خاص کر سیاسی پناہ گزین کو‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں میں یہاں سوس میں کام کرنے نہیں آیا بلکہ سیر کرنے آیا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’سوچ لو‘‘۔
پھر بولا، ’’ویسے میرانام وازیلے ہے۔ میں مولدوویاء کا رہنے والا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ ہے اور میں پاکستان کا رہنے والا ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہاں مولدوویاء کے اور بھی لڑکے رہتے ہیں لیکن وہ کام کرنا نہیں چاہتے۔ وہ بناکام کے ہی گزارا چلالیتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ کیسے‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم نے ہاوس ماسٹرکی بات نہیں سنی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کا مطلب ہے وہ ٹھیک کہ رہا تھا‘‘۔
وہ بولا، ’’ہاں بالکل ٹھیک کہہ رہا تھا۔ سوس لوگ ڈرگز کا استعمال کرتے ہیں تو بیچنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ بات تو ہے‘‘۔
اس کے بعد وازیلے چلا گیا۔ وہ دراز قد تھا اور رنگ بھی گورا چٹا تھا۔
اس نے پیلے رنگ کا شارٹس پہنا ہوا تھا۔ میں سوچنے لگا یہاں اتنے لوگ تھے اس نے مجھے ہی کیوں کام کا کیوں کہا۔ لیکن میں نے اس سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ میں انیتا سے بس کے پاس کا ٹوکن تو لے چکا تھا اس کے علاوہ میں نے اس سے بس کا ٹکٹ لیا کیوں مجھے ونٹرتھور جاکے یہ چیک کیش کروانا تھا اور بس کا پاس بھی بنوانا تھا۔ انیتا نے بہت عجیب سی شکل بنائی اور مجھے بس کا ٹکٹ بھی دے دیا۔ آج ازیل ہائم میں بہت گہما گہمی تھی۔ سب کو پیسے
ملے تھے ۔میں بھی خوشی خوشی ازیل ہائم سے نکلا اور بس سٹاپ پے آیا۔ یہاں پے مہاجر کیمپ کے کئی لڑکے بس کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ یہاں گلبدین بھی بیٹھا ہوا تھا۔ کہنے لگا،’’ ہم دونوں بینک میں اکھٹے جائیں گے‘‘۔ میں نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں ‘‘۔ اسی اثناء بس آگئی اور ہم سب بس میں سوار ہوئے۔ بس ڈارئیور نے بس چلادی۔ راستے میں ہمیشہ کی طرح تین چار سٹاپ آئے۔ جب اندستری کا سٹاپ آیا تو مجھے گلبدین کہنے لگا، ’’وہ دور جو بیرکیں نظر آرہی ہیں ،میں کل یہاں آیا تھا۔ یہاں ایک ایرانی اور افغانی نے میری دعوت کی تھی‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم مجھے بتا چکے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’لیکن تمہیں جگہ کا نہیں بتایا تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں یہ درست ہے‘‘۔
ہمیں قریباًپندرہ منٹ لگے ہوں گے۔ ہم لوگ باہن ہوف پلاتز اتر گئے۔ یہاں سے مارکیٹ گاز سترازے کے ساتھ ہی پہلی گلی میں بینک تھا ۔ہم دونوں بینک میں داخل ہوئے۔ جن لوگوں کے پاس ازیل ہائم کا یہ ٹوکن سا تھا جس کا چیک کا نام دیا گیا تھا۔ ان کی علیحدہ لائن تھی۔ میں بینک کا معائنہ کرنے لگا۔ میں چونکہ اٹلی سے آیا تھا اس
لیئے میں ہر چیز میں آرٹ ڈھونڈتا رہتا۔ اس کے علاوہ مجھے فنونِ لطائف سے لگاؤ بھی تھا۔ اس بینک کا فرش بہت اچھا بنا ہوا تھا۔ اس کا فرش رنگ برنگی چھوٹے چھوٹے پتھروں سے بنا ہوا تھا۔ فنونِ لطائف کی زبان میں اسے موزائیک(mosaic) کہتے ہیں ۔مجھے یہ فرش بہت پسند آیا۔
ایک سفید بالوں والا بندا میرے پاس آیا۔ اس کی مونچھیں بھی سفید تھی۔ عمر زیادہ نہیں تھی بہت بھی ہوئی تو پچاس سال ہوگی۔ اس کے ہاتھ میں اردو زبان میں کوئی کتاب اٹھائی ہوئی تھی۔ مجھے کہنے لگا، ’’بھائی صاحب کیا دیکھ رہے ہیں ،کیا زمین سے تیل نکل آیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں میں یہ پتھروں سے کیا گیا کام دیکھ رہا ہوں‘‘۔
گلبدین بولا، ’’یہ میرے ساتھ ازیل ہائم میں ہوتے ہیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’میں سمجھا کوئی غیر ملکی ہے۔ ویسے میں پاکستان میں ایک
وزیر کا مشیر تھا۔ ہماری حکومت مشرف نے ختم کردی ۔میں یہاں آگیا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’اب ۴۵ سوس فرانک لینے کے لیئے سارا ہفتہ انتظار کرتے ہیں‘‘۔
وہ بڑا شرمندہ ہوا۔کہنے لگا، ’’میں ان کے ۴۵سوس فرانک پے لعنت بھیجتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تو آج نہ لیجئے گا۔ یہ ٹوکن پھاڑدیں‘‘۔
گلبدین پاس کھڑا تھا۔ وہ بڑا خوش ہوا۔ میری باری آگئی اور میں نے کھڑکی کے پیچھے بیٹھے بینک کلرک کو اپنا ٹوکن دیا۔ ان نے مجھے ایسے دیکھا جیسے میں نے اس کی جیب سے پیسے نکال لیئے ہوں۔ اس نے ٹوکن ایک طرف رکھا۔ چار نوٹ دس دس سوس فرانک کے دیئے اور ایک پانچ سوس فرانک کا سکا میرے ہاتھ میں تھما دیا‘‘۔
میں نے اس کے تیور دیکھتے ہوئے انگریزی میں کہا، ’’اگر تم لوگ ہمیں کام کی اجازت دے دو تو مجھے تمہاری اس خیرات کا کوئی شوق نہیں۔ ویسے بھی ۴۵ سوس فرانک میں دو وقت کا کھانا بھی نہیں پورا ہوتا‘‘۔
وہ میری بات سن کے جرمن زبان میں بڑبڑاتا رہا۔ میرے پیچھے ایک اور غیرملکی کھڑا تھا اس لیے میں پیسے لے کر ایک طرف ہوگیا۔ وہ سفید بالوں والا بندا جو کسی وزیر کا مشیر تھا وہ جاچکا تھا لیکن گلبدین ونہی کھڑا تھا۔ ہم دونوں بینک سے نکلے تو کہنے لگا، ’’آج میں بہت خوش ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم نے اس آدمی کو جس اندازمیں جواب دیا ہے میں حیران رہ گیا۔ یہ ونٹرتھور اور زیورک کے درمیان ایک ہائم ہے وہاں رہتا
ہے۔ وہاں پے میرے ایک دوست شاہ صاحب ہوتے ہیں ۔یہ ان کے کمرے میں ہوتا ہے۔ اس کو ایک تو یہ زعم ہے کہ یہ کسی وزیر کا مشیر ہے اور دوسرا اسے اپنے پڑھے لکھے ہونے کا بڑامان ہے ۔ اس کے علاوہ یہ طنز بہت کرتا ہے۔ تم نے اسے صحیح کہا، اگر ۴۵ سوس فرانک لینے کے لیئے سارا ہفتہ انتظارکرتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’گلبدین یہاں پے جتنے بھی لوگ رہ رہے ہیں سارے وزیروں کے اور بادشاہوں کے مشیر ہیں لیکن اگر ایک ہفتہ سوس حکومت چیک نہ دے تو ان کی جان نکل جائے گی‘‘۔
گلبدین کہنے لگا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ اچھا اب اگلی جمعرات کو تم نے میرا ایک کام کرنا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ کیا‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے اپنی آنکھ کا چیک اپ کروانا ہے۔ تم شیفر یا شنائیڈر سے کہنا کہ گلبدین کو آنکھ کا چیک کروانا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے مجھے آج کیوں نہیں کہا‘‘۔
کہنے لگا،’’مجھے یاد ہی نہیں رہا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہیں بیئر پینا یاد رہتا ہے لیکن یہ کام یاد نہیں رہتا ۔خیر چلو ریلوے سٹیشن پے چلتے ہیں وہاں سے بس کا پاس بنواتے ہیں۔ ہم دونوں مارکیٹ گاز سترازے سے باہر نکلے سڑک کے اس پار ریلوے سٹیشن تھا۔ میں کھڑکی پے جاکے کھڑا ہوگیا ۔کھڑکی کے پیچھے ایک دبلی پتلی لڑکی بیٹھی تھی۔ میں نے اس کو ٹوکن دیا۔وہ مجھے بس پاس بنا کے دینے لگی تو گلبدین بولا، ’’اگر تم دس فرانک زیادہ دو تو یہ تمہیں زیورک تک کا پاس بنا دے گی‘‘۔
وہ مجھ سے کہنے لگی، ’’کیا مسئلہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی مسئلہ نہیں تم مجھے بس پاس بنا کے دو‘‘۔
اس نے ٹوکن پاس رکھ لیا اور مجھے بس پاس بنا دیا۔ اب میرے پاس پیسے بھی تھے اور بس پاس بھی تھا۔ گلبدین کہنے لگا، ’’اگر تم مجھ پندرہ سوس فرانک دو تو ہم ہفتے کا کھانے پینے کا سامان لے جائیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ بنگالی لڑکا بھی اگر مل جائے تو ہمارے پاس ۴۵ سوس فرانک ہوجائیں گے۔اس سے کافی سامان آجائے گا‘‘۔
گلبدین اب مجھے کچھ کچھ جان چکا تھا اس لیئے اس نے اس بنگالی لڑکے کے بارے میں کچھ نہ کہا۔ بدرالدین کے بارے میں میری بڑی اچھی رائے تھی۔ ہم تینوں کا ریفریجرٹر بھی ایک ہی تھا۔ گلبدین کہنے لگا، ’’اب کیاکریں‘‘۔
میں نے کہا ،’’تم بتاؤ‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے تو کام ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’خدا حافظ‘‘۔
میں جانتا تھا کہ اب گلبدین کہاں جانا چاہتا ہے۔ میں نے گلبدین سے جان چھڑائی اور مارکیٹ گاز ستر
ازے واپس آگیا۔ میں نے آس پاس گلیوں میں گھومنا شروع کردیا۔ کبھی ایک دوکان میں جاتاکبھی دوسری دوکان میں۔اس دوران میں نے ایک ٹیلی فون کیبن ڈھونڈا اور سوچا کہ نیائش کو فون کرنا چاہیئے۔
مجھے نیائش کا موبائیل نمبر زبانی یاد تھا۔ میں نے پانچ سوس فرانک کا سکہ سلوٹ میں ڈالا اور نیائش کا نمبر ڈائل کردیا۔ رنگ جارہی تھی، پھر کسی نے پرونتو یعنی اٹالین میں ہیلو کہا، ’’میں نے نیائش کی آواز پہچانتے ہوئے کہا، ’’نیائش بھائی میں بولا رہا ہوں ،فرشتہ‘‘۔
دوسری طرف سے آواز آئی، ’’ماڑا تم نے اتنے دنوں بعد فون کیا۔ تمہاری کوئی خیر خبر ہی نہیں تھی۔ میں نے اس لڑکے کو فون کرکے پوچھا تھا کہ وہ کدھر ہے اس کوواپس بلالو۔ ابھی زد چھوڑو اور واپس آجاؤ۔
میں نے سنا ہے کہ اٹلی کی امیگریشن کھلنے والی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ابھی میرا پاس وقت تھوڑا ہے ۔میں آپ کو نمبر دیتا ہوں وہاں شام کو فون کرنا‘‘۔پھر تفصیل سے بات ہوگی‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’میں بھی کام پے ہوں۔ جلدی سے نمبر لکھواؤ‘‘۔
میں نے نمبر لکھوایا اور بتا دیا کہ جب فون کرنا تو جو بھی فون اٹھائے میرا نام لینا مجھے سارے جانتے ہیں۔ نیائش کو فون کرکے میں ونٹرتھور کی گلیوں میں گھومنے لگا۔ اس کے بعد نے سوچا کیوں مہاجرین کے سنٹر چلوں۔ وہاں پے کچھ کھا پی بھی لوں گا۔ سنا ہے وہاں جِم بھی ہے۔ لائبریری بھی ہے، جرمن زبان سیکھنے کے لیئے کمپیوٹر بھی ہے۔ میں باہن ہوف پلاٹز پے آگیا ۔ یہاں سے ایک بندے سے پوچھا کہ مہاجرین کا سنٹر کہاں ہے ۔تو اس نے بتایا کہ یہاں سے آرچ سترازے (arch strasse)پے چلا جاؤ ۔وہاں پے لاگر سترازے (lager strasse)پے مہاجرین سنٹر ہے۔ میں نے سڑک پار کی اور اس کے بتائے ہوئے راستے پے چلنے لگا۔ ایک طرف ٹیکنیکم سترازے تھا۔ میں نے کونے میں ایک پیزا بنانے والے سے پوچھا۔ اس کے پاس موبائیل وین تھی۔ اس کے اندر تندور سا بنا ہوا تھا۔ اس میں پیزا بنانے کا سارا انتظام تھا۔ اس کی وین
پے اٹلی کا جھنڈا بنا ہواتھا۔ یہ شخص گورا چٹا تھا اور موٹا بھی۔ اس کا پیٹ بہت زیادہ نکلا ہوا تھا اور اس نے کپڑوں کے اوپر ایک سفید ایپرن بھی باندھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چیز اٹھائی ہوئی تھی۔ یہ لمبا سا لکڑی کا ڈنڈا تھا اس کے آخری سرے پے ایک گول سی چیز لگی ہوئی تھی جس طرح کا توا ہوتا ہے۔ اس کی گاڑی پے اٹالین زبان میں لکھا ہوا تھا کہ اس کا پیزا لکڑی پے پکتا ہے۔ جس طرح پاکستا ن میں کچھ تنوروں پے لکھا ہوتا ہے ۔ہمارے ہاں روٹی لکڑی پے پکائی جاتی ہے
گیس پے نہیں۔ اس کی گاڑی پے جرمن زبا ن میں بھی لکھا ہوا تھا۔ میں نے چونکہ اٹالین میں پوچھا تھا اس لیئے وہ مجھے دیکھ کے مسکرادیا۔ کہنے لگا، ’’یہ ساتھ والی سڑک لاگر ہاوس سترازے ہے۔ کونے میں لاگر ہاوس ہے یعنی مہاجرین کا سنٹر ہے۔ میں اس لاگر ہاوس سترازے پے چلتا ہوا لاگر ہاوس پہنچ گیا۔ یہاں پے کئی لوگ کھڑے تھے۔ میں اندر داخل ہوا ۔داخلی دروازے کے ساتھ ایک ڈیوڑھی سی بنی ہوئی تھی۔ دونوں دیواروں پے مختلف قسم کے پوسٹرز اور اخباروں کی کتریں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف چھوٹی سی کیفے بار بنی ہوئی تھی۔ اندر میزوں پے چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں کمپیوٹر پڑا ہوا تھا۔ اس کمپیوٹر پے کوئی لڑکا انٹرنیٹ پے کوئی سائیٹ کھول کے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سر پے ایک بندا کھڑا تھا ۔اس نے سفید شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا ،’’پاکستانی ‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں پاکستانی ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں کافی دیر سے کھڑا ہوں ،مجھے انٹرنیٹ پے کوئی چیز دیکھنی ہے ۔یہ لڑکا اٹھ ہی نہیں رہا‘‘۔
ایک طرف بار سی بنی ہوئی تھی۔ جو لڑکی بار پے کام کررہی تھی ،وہ کسی افریقن ملک کی تھی۔ شاید سومالین تھی۔ میں نے اس سے پوچھا،’’انٹرنیٹ استعمال کرنے کا کیا طریقہ ہے‘‘۔
کہنے گی، ’’انٹرنیٹ کا استعمال بالکل مفت ہے۔ لیکن اس کا کی بورڈ خراب ہے ۔بڑی مشکل سے استعمال ہوتا ہے‘‘۔
میں نے اس لڑکے کو ،جو نیٹ پے بیٹھا سے کہا، ’’اٹھو اب ہماری باری ہے‘‘۔
اس کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں نے کندھے سے پکڑ کے کہا۔ اس نے غصے کا اظہار کیا۔ کیفے سے ایک بیس پچیس سال کا نوجوا ن اٹھا اور کہنے لگا،
’’کیا بات ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ لڑکا نیٹ خالی ہی نہیں کررہا ہے۔ ہمیں بھی کچھ دیکھنا ہے‘‘۔
وہ لڑکا بولا، ’’میں لاگر ہاؤس میں کام کرتا ہوں۔ میں اسے ابھی کہتا ہوں‘‘۔
اس نے اس لڑکے کو اٹھنے کو کہا۔ وہ اٹھ گیا۔ اس نے مجھے بہت غصے سے دیکھا۔ اب وہ شلوار قمیص والا لڑکا بیٹھ گیا۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔ پھر مجھ سے کہنے لگا، ’’میں نے سنا ہے اٹلی کی امیگریشن کھل گئی ہے۔ آپ کو کوئی سائیٹ پتا ہے جس کو دیکھ کے پتا چل سکے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’گوگل پے جاکے سترانیری ان اطالیہ(stranieri in italia) لکھوں ۔اس سائیٹ پے پتا چل جاتا ہے کہ اٹلی میں امیگریشن کے بارے میں کیا نئی تبدیلی آئی ہے‘‘۔
اس نے لکھنے کی کوشش کی لیکن نہ لکھا گیا۔ میں نے کہا، ’’میں لکھتا ہوں۔ میں نے گوگل سرچ انجن کھولا ۔اس پے سترانیری ان اطالیہ لکھا۔ تھوڑی سی سرچ کے بعد سائیٹ کھل گئی۔ اس نیٹ کی سپیڈ بہت آہستہ تھی۔ وہ کہنے لگا، ’’یہ تو کسی اور زبان میں ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اٹالین میں لکھا ہوا ہے۔ تم نے سہی سنا ہے۔ وہ امیگریشن کھولنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’آپ کو اٹالین آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’گزارا کر لیتا ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں سوس بڑی امید کے ساتھ آیا تھا لیکن اب میں کسی بھی صورت میں اٹلی جانا چاہتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’وہاں میلانوں میں میرے گاؤں کا ایک لڑکا ہوتا ہے اس
کے پاس جاؤں گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ بارڈرکیسے پار کیا جائے‘‘۔
میں نے مزید کچھ بولنے لگا پھر میں چپ کرگیا۔ میں نے کہا،’’تم نیٹ پے بیٹھو۔میں جِم دیکھ کے آتا ہوں۔ اس عمارت کے تہہ خانے میں جم تھا۔ میں سیڑھیاں اتر کے نیچے گیا۔ نیچے کئی ادھ ننگے لڑکے مختلف قسم کی مشینوں پے ایکسرسائز کرنے میں مصروف تھے۔ کاؤنٹر پے ایک آدمی بیٹھا تھا۔ میں نے اس سے جاکے پوچھا، ’’یہاں کی ممبرشپ کا کیا طریقہ کار ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’کوئی طریقہ کار نہیں۔ تم نے جب بھی آنا ہوں۔ اپنی ہاؤس وائس جمع کرواؤ اور ایکسرسائز شروع کردو‘‘۔
اب مجھے بھوک لگنے لگی تھی۔ گھر جاکے کھانا بنانے کی ہمت نہیں تھی۔ آج رقم بھی ملی تھی۔ میں نے سوچا عیاشی کرنی چاہیئے۔میں کیفے میں گیا۔ جہاں پے کمپیوٹر بھی پڑا ہوا تھا۔ اب وہ شلوار قمیص والا لڑکا جاچکا تھا اور وہی لڑکا بیٹھا ہوا تھا جس کو میں نے اٹھایا تھا۔ میں نے کاونٹر پے کھڑی لڑکی سے پوچھا، ’’کپوچینوں اور ایک مفن کتنے کا ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’دونوں چیزیں تین سوس فرانک کی ہیں‘‘۔
میں نے دس سوس فرانک کا نوٹ نکالا۔ یہ سوس فرانک بالکل یورو کی طرح تھے فرق صرف اتنا تھا کہ ان پے سوس فرانک لکھا ہوا تھا۔ نوٹ کی ساخت اور سائز یورو جیسا ہی تھا۔ اس نے تین سوس فرانک لے لیئے اور سات سوس فرانک واپس کردیئے۔ میں نے کپوچینوں اور مفن ہاتھ میں لیا اور ایک خالی میز پے آگیا۔ کپوچینوں میں چار چمچ چینی کے ڈالے اور چینی کو ہل کرکے کپوچینوں کی چسکیاں لینے لگا۔ مفن اور کپوچینوں ختم کرکے خالی برتن اس کاؤنٹر والی لڑکی کو دیئے ۔ اب میں کچھ ٹھیک محسوس کرنے لگا تھا۔ میں نے لاگر سینٹر کا چکر لگایا ۔ایک طرف ٹیبل ٹینس کی ٹیبل پڑی ہوئی تھی۔ وہاں پے دو لڑکوں میں زبردست مقابلہ ہورہا تھا۔ میں دیکھنے لگا۔ میں جس سکول میں پڑھتاتھا وہ سکول سالانہ کھیلوں میں ٹیبل ٹینس میں ہمیشہ پہلے نمبر پے آتا تھا۔ لیکن مجھے اس کھیل سے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا۔ بس تھوڑی بہت کھیل لیتا تھا۔ ایک طرف ایک بڑا ہال تھا ۔اس کے اندر بہت سا سامان پڑا ہوا تھا۔ وہاں سے مجھے مائیکل نکلتا دکھائی دیا۔ میں نے پوچھا، ’’تم کرائس لنگن سے کب آئے اور تم یہاں پے کیا کررہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں یہاں کام کرتا ہوں۔ گھنٹے کے تین سوس فرانک ملتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’رہتے کدھر ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’اووربیول‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بھی تو ونہی رہتا ہوں۔ آج تم نظر ہی نہیں آئے۔سب لوگ موجود تھے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا چیک مجھے شام کو مل جائے گا۔ میں یہاں سے شام کو پانچ بجے فارغ ہوں گا‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا کہ ازیل ہائم میں کام کی اجازت نہیں اور اس کو کام کیسے مل گیا‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’تمہیں کام کیسے مل گیا۔ ہمیں کام کی تو اجازت ہی نہیں۔ آج بھی ہاوس ماسٹر کہہ رہا تھا‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ بات درست ہے لیکن اگر تم خود ہاوس ماسٹر سے کہو کہ تم کام کرنا چاہتے ہو تو جہاں کہیں بندے کی ضرورت ہو تو یہ بھیج دیتے ہیں لیکن پیسے بہت کم ملتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ بندے کی روٹین بن جاتی ہے‘‘۔
میں نے مائیکل سے اجازت لی اور گھر کی راہ لی۔ اب میرے پاس بس پاس تھا ۔جب چاہو،ونٹرتھور آؤ جب چاہو اوور بیول چلے جاؤ ۔بھلے دن میں دس چکر لگاؤ۔ ازیل ہائمء پہنچا تو وہاں بدرالدین میرا انتظار کررہا تھا۔ کہنے لگا، ’’چاول بنائے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بدرالدین تم نے کمال کردیا۔ بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ وہاں لاگر ہاوس میں کپوچینوں پی اور مفن کھایا لیکن پیٹ نہیں بھرا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں نے تو چیک کیش کروایا اوربینک سے سیدھا میگروس (ایک طرح کی سپر مارکیٹ جہاں سے کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں) چلا گیا۔ وہاں سے ایک دو دالیں لایا ہوں، سبزی لایا ہوں ،ایک مرغی کا پیکٹ لایا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے سوچا ہواتھا کہ ہم تینوں پندرہ پندرہ سوس فرانک کسی ایک کو جمع کروائیں گے اور ہفتے کا اکھٹا سامان لائیں
گے‘‘۔
بدرالدین بولا،’’وہ افغانی تو آجائے۔ اس سے بات کرلینا۔ وہ نہ جانے مجھے گھور گھور کے کیوں دیکھتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس کے طرف اتنا دھیان نہ دیا کرو۔نہ ہ اس کی باتوں کا برا منایا کرو۔وہ خواہ مخواہ الٹی سیدھی ہانکتا رہتا ہے‘‘۔
بدرالدین کہنے لگا، ’’آج ایک اور بنگالی آیا ہے‘‘۔ میں نے کہا، ’’ایک بنگالی پہلے بھی تو آیا تھا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’اب ہم تین ہوگئے ہیں ۔میرا خیال ہے وہ مجھے اپنے ساتھ کھانے پے مجبور کریں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس میں پریشانی کی کیا بات ہے تم جس کے ساتھ رہنا چاہوں رہ سکتے ہو ،کوئی پابندی تو نہیں۔ ویسے ایک بات تو بتاؤ۔میں تمہاری بات نہیں کرتا ۔تم بنگالی لوگ ہم سے نفرت کیوں کرتے ہو‘‘۔
وہ کہنے لگا ،’’تم بھی تو ہم سے نفرت کرتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہم نے تو یہی سنا ہے کہ تم لوگوں نے غداری کی ہے۔ مجیب الرحمن نے گڑبڑ کی ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’میں سیاست دانوں کی بات نہیں کرتا لیکن پاکستان فوج نے ہم پے بہت ظلم ڈھائے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’جب لاء اینڈ آرڈر کی بات ہوتی ہے تو اس طرح تو کرنا پڑتا ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’تو نظریہ ء پاکستان کا کیا ہوا۔ جس میں دو قومی نظریہ ء پیش کیا گیا تھا۔ محمد علی جناح کے چودہ نکات‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ کہ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ علاقے مسلمانوں کے پاس جائیں گے‘‘۔
وہ بولا، ’’پاکستان اس لیئے بنا تھا کہ ہمارا مذہب، زبان ،لباس
،تہذیب اورتمدن ہندوؤں سے مختلف تھا‘‘۔
میں نے کہا ،’’یہ درست ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’لیکن ۱۹۷۱میں نظریہء پاکستان کی دھجیاں اڑادی گئیں۔ پاکستان فوج نے بنگالیوں پے وہ مظالم ڈھائے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم لوگوں نے بغاوت جو کی تھی‘‘۔
وہ بولا، ’’اپنے حق کے لیئے لڑنا بغاوت ہے۔ تو پھر پاکستان بھی ایک بغاوت کی وجہ سے وجود میں آیا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہاری بات میں وزن ہے‘‘۔
کہنے لگا ،’’اگر ہم دونوں زیورک گئے اور کوئی انگریزی کتابوں کی دوکان ہوئی تو تمہیں وہ کتاب دکھاؤں گا۔ اس میں ان تمام ملکوں کا لکھا ہوا ہے جنہوں نے بڑے پیمانے پے انسانوں کو قتل کیا۔ اس میں
پاکستان بھی شامل ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پہلے نمبر پے کون ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’امریکہ ‘‘۔
میں نے کہا، ’’کتاب کا نام اور لکھنے والے کا نام ‘‘۔
کہنے لگا، ’’رائز اینڈ فال آف تھرڈ چمپینزی(The Rise and The fall of third chimpanzee)۔یہ جیرڈ ڈائمنڈ (Jared Diamond نے لکھی ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’چلو جب بھی زیورک گئے تو یہ کتاب ڈھونڈیں گے کیونکہ میرا نہیں خیال کہ یہ کتاب ونٹرتھور میں ملے گے۔ ویسے انٹرنیٹ پے دیکھیں گے‘‘۔
بدرلالدین بولا، ’’ویسے میں بہت تنگ نظر نہیں ہوں لیکن جب کبھی اس موضوع پے بات ہو تو مجھے بہت کچھ یاد آجاتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں چائے پی لوں تو باہر چلتے ہیں۔ یہاں بیٹھ کے کیا کریں گے‘‘۔
کہنے گا، ’’ہاں ضرور۔ یہاں ازیل ہائم کے ساتھ ہی بروکن ہاوس ہے۔ وہاں سے استعمال شدہ چیزیں ملتی ہیں ۔شاید کچھ مل جائے۔ میں نے چائے بنائی اور بدرالدین نے بھی بڑے شوق سے پی ۔ چائے پی کے ہم دونوں ازیل ہائم سے باہر نکلے۔ ازیل ہائم کے اس طرف میں کبھی نہیں گیا تھا۔ ایک سڑک اوپر کو جاتی تھی اور ایک سڑک نیچے۔ جو سڑک اوپر کو جاتی تھی بدرالدین مجھے اس طرف لے گیا۔ ہم لوگ جیسے جیسے اوپر کی طرف چلتے چلے گئے ویسے ویسے ہمیں ایک بہت بڑی عمارت نظر آنی شروع ہوگئی۔ یہ ایک بہت بڑا سٹور سا تھا۔ ہم اندر داخل ہوئے۔ یہاں پے دنیا کی ہر چیزتھی۔ کرسیاں،تصاویر، ٹیپ ریکارڈر، پوسٹ کارڈ، پرانے کپڑے ،کتابیں، رسالے، پرانے
اخبار۔ ہم دونوں نے اس سٹور کا چکر لگایا۔ میں نے ایک سوس فرانک کا ایک بیگ لیا جو کندھے پے لٹکاتے ہیں۔ بدالدین نے تین سوس فرانک کی ایک جینز لی۔ ہم اس شاپنگ کے بعد ازیل ہائم واپس آگئے ۔ بدرالدین نے اپنی جینز اور میں نے اپنا بیگ ہائم میں رکھا اور بس سٹاپ کی طرف چل دیئے۔ بس پے بیٹھ کے ہم دونوں ونٹرتھور چلے گئے۔ وہاں کبھی ایک سٹور پے جاتے، کبھی دوسرے پے۔ میں موبائیل فونز کی قیمتیں دیکھتا رہا۔ ایک نوکیا فون مجھے بڑا پسند آیا۔ دو سو سوس فرانک کا تھا۔ میں نے سوچا اگر آج نیائش کا فون آیا تو اس سے کہوں گا کہ مجھے دو سوس یورو بیھج دے تانکہ یہ موبائیل لے لوں۔ میگرو سٹور تین چار منزلہ تھا۔ یہاں پے کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کپڑوں کی بھی دوکانے تھیں۔ پھر بدالدین کہنے لگا، ’’چلو سٹیشن پے چلتے ہیں ۔ وہاں پے ایک خاص دوکان ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کس چیز کی ہے‘‘۔
کہنے لگا ،’’چلو تو سہی‘‘۔
ہم دونوں مارکیٹ گازسترازے سے نکل کے باہن ہوف پلاتز پے ہولیئے۔ یہاں ایک نئی عمارت تھی اور اس کے ساتھ ایک پرانی عمارت تھی۔ یہیں پے میں نے وہ اٹالین آئس کریم کی ریڑھی والا دیکھا تھا۔ جس سے میں نے راستہ پوچھا تھا۔ میں اور بدالدین اس نئی عمارت میں داخل ہوئے ۔ایک طرف موم بتیوں کی دوکان تھی۔ یہاں موم بتیوں کی اتنی اقسام تھیں کہ اس سے پہلے میں نے اتنی قسم کی موم بتیاں نہیں دیکھی تھیں۔ ایک طرف سٹیشنری کی دوکان تھی ۔جہاں پے سٹیشنری سے متعلق چیزیں تھیں۔میں نے بدالدین سے کہا، ’’مجھے یہ دکھانے لائے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’الیکٹرک سٹیئرز سے اوپر تو چلو‘‘۔
ہم دونوں نے بجلی کی سیڑھیوں پے قدم رکھا۔ ایک طرف سے لوگ اتر کے نیچے جارہے تھے اور ہم لوگ اوپر جارہے تھے۔ دوسری منزل پے ایک طرف ریستورنٹ تھا۔ پرفیومز کی دوکان تھی۔ ایک کونے میں وہ دوکان تھی جس کے لیئے مجھے بدررالدین لے کے آیا تھا۔ اس کے سامنے بڑا سا نیؤن سائن لگا ہوا تھا جو جل بجھ رہا تھا۔ سیکس شاپ۔ہم دونوں اندر داخل ہوئے۔ یہاں پے جو چیزیں نمائش کے لیئے رکھی گئی تھیں یا بیچنے کے لیئے تھی۔ ان کا کیا ذکر کروں۔ ایک بات اچھی تھی یہاں پے تصویریں بھی ڈویلپ کی جاتی تھیں۔ میں نے سوچا اگر کہیں سے کیمرہ ملا تو تصاویر بنائیں گے۔ سوس کی یاد گار ہوگی۔ ہم دونوں سیکس شاپ پے گھومتے رہے پھر میں نے کہا۔ اب میں اکتاء گیا ہوں ،چلوں گھر چلیں ۔میرا مطلب ہے مہاجروں کے کیمپ چلیں‘‘۔
اس طرح تھوڑی سی موج مستی کرکے ہم دونوں گھر آگئے۔ ممدو تراوالی اور بوبکر عبدلائے دونوں کھانا کھا رے تھے۔ وہی سفید رنگ کے چاول اور اوپر چھوٹی چھوٹی سی بوٹیاں۔ انہوں نے مجھے بھی آفر کی لیکن میں نے نہ کردی۔ پھر انہوں نے بہت زیادہ اصرار کیا تو ایک دو نوالے لیئے۔ مزیدار تھا۔ بدرالدین کہنے لگا، ’’آج میں مرغی بناؤ ں گا۔ تم کیسے کھاتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاتھ سے ‘‘۔
وہ بولا، ’’میرا مطلب ہے مرچے زیادہ کھاتے ہو یا کم ‘‘۔
میں نے کہا، ’’درمیانی لیکن اگر میں بناؤں تو‘‘۔
کہنے لگا، ’’ٹھیک ہے۔ کچن میں پیاز بھی پڑا ہوا ہے، ٹماٹر کا ڈبہ ریفریجریٹر میں پڑا ہوا ہے۔ مصالحے میرے پاس ہے کمرے میں پڑے ہوئے کیونکہ افریقن لڑکے کہتے ہیں ہمیں ان کی بو پسند نہیں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ خود کیا کھاتے ہیں‘‘۔
خیر میں کچن میں کھانا بنانے میں مصروف ہوگیا۔ بدرالدین میری مدد کرتا رہا۔ اتنا کھانا بن گیا تھا کہ کل دن کو بھی ہوسکتا تھا۔ آٹھ بجے میں نے اور بدرالدین نے روٹی گرم کرکے کھانا کھایا۔ گلبدین کے لیئے فرج میں رکھ دیا۔ پھر ہال میں آکے ان مستطیل میزوں پے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد کچن کے ساتھ کمرے سے ایک لڑکا نکلا۔ جو ازیل ہائم کا ایمرجنسی ایگزٹ تھا۔ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا۔ کسی کا فون ہے۔ وہ کہہ رہا ہے پاکستانی پاکستانی۔ میں نے کہا، ’’تم نے کیا کہا‘‘۔
’’میں تمہیں بلانے آیا ہوں۔ وہ ہولڈ کیئے ہوئے ہے‘‘۔
میں جلدی سے اس کمرے میں گیا۔ رسیور ہاتھ میں لے کر کان سے لگایا۔ دوسری طرف سے نیائش بولا رہا تھا۔ کہنے لگا، ’’میں نے دو تین دفعہ فون کیا تھا لیکن کسی اور نے اٹھایا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں پچاس بندے رہتے ہیں۔ ہر ملک کا بندہ ہے۔ سب کو انگریزی سمجھ بھی نہیں آتی‘‘۔
نیائش،بولا، ’’ماڑا یہاں کی زندگی کیسی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سب سے پہلے تو مجھے ویسٹرن یونین کے ذریعے دو سو یورو بھیجو۔ میں نے موبائیل فون لینا ہے۔ کل جمعہ ہے ۔میں ونٹرتھور جاکے لے لوں گا ‘‘۔
نیائش بولا، ’’میں ابھی بھیج دیتا ہوں تم کل لے لینا۔ میں تمہیں ابھی کوڈ لکھوادوں گا۔ کیونکہ کل تو میں کام پے ہوں گا۔ پھر ہفتے پے بات چلی جائے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر ایسا ہوسکتا ہے تو ابھی بھیج دو ، میرا مطلب ہے مجھے بھیج کے کوڈ لکھوادو۔ میں کل صبح جاکے لے لوں گا۔ تم ونٹرتھور کہیں بھی بھیج دو‘‘۔
نیائش بولا، ’’ابھی میں ایک پاکستانی کے پی سی او پے کھڑا ہوں۔ میں اس نائیجرین کے پی سی او پے جاتاہوں ۔مجھے تھوڑی دیر لگے گی‘‘۔
فون بند ہوگیا۔ میں ہال میں انتظار کرنے لگا۔ جہاں چار بڑے بڑے مستطیل میز پڑے ہوئے تھے۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد فون کی گھنٹی بجی۔ ایک لڑکا بھاگ کے اندر جانے لگا تو میں نے کہا، ’’میرا فون ہے‘‘۔
وہ ونہی رک گیا۔ میں اندر کمرے میں جہاں فون رکھا ہوا تھا۔ رسیور اٹھایا۔ دوسری طرف سے نیائش بولا رہا تھا۔ کہنے لگا، ’’کوڈ لکھو‘‘۔ وہ کوڈ نمبر بولتا گیا اور میں لکھتا گیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ دو سو یورو کے دو سو پینتالیس سوس فرانک بنے ہیں۔ تمہیں جب پیسے مل جائیں تو مجھے فون ضرور کرنا۔ ورنہ میں شام کو فون کرکے پوچھ لوں گا۔ پھر نیائش مجھے سے اِدھر اْدھر کی باتیں کرنے لگا۔ اس نے کئی دفعہ کہا کہ
واپس آجاؤ ، امیگریشن کھلنے والی ہے۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ جیسے ہی امیگریشن کھلے گی میں واپس آجاؤں گا۔ اب نیائش کے پاس میرا نمبر تھا وہ جب چاہتا فون کرسکتا تھا۔
رات کوگلبدین بہت دیر سے آیا۔ وہ نشے میں تھا۔ کہنے لگا، ’’’میں کھانا کھا کے آیا ہوں۔ میں اس بنگالی کو نہیں چھوڑوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم جاکے سو جاؤ ۔تمہیں نہیں پتا تم کیا کہہ رہے ہو۔نہ جانے اس کے دل میں کیا آئی وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ جہاں سوتا تھا وہاں نو بستر لگے ہوئے تھے۔ جگہ چھوٹی تھی۔ اس کے ساتھ مولدوویاء اور جورجیاء کے لڑکے تھے میرے ساتھ بنگالی اور ترکی کے لڑکیتھے۔
آج رات جس شخص کی ڈیوٹی تھی وہ کوئی سومالین تھا۔ اس کا نام عمر تھا۔ میں اس سے گپ شپ لگانے لگا۔ میں نے اس سے کہا، ’’یہ
خدیجہ افریقن لڑکوں کے اتنے خلاف کیوں ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’کیونکہ اس کا خاوند سوس ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ تو کہہ رہی تھی سوس مرد ٹھنڈے ہوتے ہیں ‘‘۔
عمر بولا، ’’اسی لیئے تو کہہ رہی تھی کیونکہ اس کا خاوند ٹھنڈا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم اس کے بارے میں یہ کیسے جانتے ہو کہ اس کا خاوند سوس ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’کیونکہ جب وہ پہلی دفعہ سوس آئی تھی تو ہم دونوں ایک ہی مہاجر کیمپ میں رہے تھے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ تو بڑی پڑھی لکھی ہے۔کہتی ہے وکیل ہے ‘‘۔
عمر بولا، ’’وہ کافی عرصے سے یہاں رہ رہی ہے۔ قانون جانتی ہے۔ لوگوں کو مشورہ دیتی ہے لیکن اس کے پیسے لیتی ہے۔ وکیل وغیرہ نہیں ہے لیکن قانون جانتی ہے‘‘۔
میں عمر کے ساتھ باتوں کے دوران دیوار پے لگا سوس کا نقشہ بھی دیکھ رہا تھا۔
وہ پوچھنے لگا، ’’تم اس نقشے میں کیا دیکھ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر اٹلی امیگریشن کھلی تو میں اٹلی چلا جاؤں گا۔ میں راستہ دیکھ رہا ہوں ۔ کون سا بارڈر ایریاء ٹھیک رہے گا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’ایک دفعہ پہلے بھی اٹلی کی امیگریشن کھلی تھی تو مہاجر کیمپوں سے بہت سارے لوگ اٹلی چلے گئے تھے۔ یہاں پے کیس کا انتظار کرو۔ اگر بے مل جائے تو ٹھیک ورنہ اپیلیں کرتے رہو اور آخر میں ڈیپورٹ کردیتے ہیں۔ پہلے کیس کافی عرصہ چلتا تھا۔ دس سال بعد سوس پاسپورٹ مل جاتا تھا۔ اب کیس دو تین سال میں ہی اڑا دیتے ہیں۔ ہاں اگر اس دوران شادی ہوجائے تو پھر پیپر بن جاتے ہیں۔ ا ب بہت کم کیس پاس ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے کیسے پیپر لیئے‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے بھی دس سال سے زیادہ عرصہ گزرا ہے۔ تب جاکے پہلے بے ملی پھر سوس پاسپورٹ ملا‘‘۔
میں نے کہا، ’’شادی نہیں کی‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرے باپ نے چار شادیاں کی ہیں۔ میں یہاں سوس میں دن رات کام کرکے اس کے پیدا کیئے ہوئے بچے پالتا رہا ہوں۔ میرے باقی بہت بھائی ہالینڈ ،انگلینڈ اور کینیڈا میں ہے۔ وہ سارے جلدی کامیاب ہوگئے ۔میں ابھی تک گِھسٹ رہا ہوں۔ یہاں سوس میں تفریح تو بہت منائی لیکن اب لگتا ہے شادی کی عمر نکل گئی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کتنی عمر ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’پیتالیس سال‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی زیادہ تو نہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’کو ئی اتنی کم بھی نہیں۔ ہمارے ہاں تو لڑکا سولہ سال کی عمر میں پہلی شادی کرتا ہے۔ تیس سال کی عمر میں دوسری شادی کے لیئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے۔ میری عمر میں وہ تیسری شادی کرتا ہے اور آخر عمر میں چوتھی شادی کی خواہش جاگتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہاں کی لڑکیاں مان جاتی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’پہلے مان جاتی تھی لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آگئی ہے۔ ٹی وی ، انٹرنیٹ نے دنیا کو بدل دیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سومالیہ میں انٹرنیٹ ہوتا ہے۔ وہاں تو پینے کا صاف پانی نہیں ہوتا‘‘۔
میری اس بات پے عمر بہت ہنساء۔کہنے لگا، ’’جن کے پاس پیسہ ہے ان کے لیئے سب کچھ ہے ۔جن کے پاس پیسہ نہیں ان کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں میّسر‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں مذاق کررہا تھا‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ تم نہیں ہمیں سارے ہی کہتے ہیں۔ جیسے پاکستان کے بارے میں آجکل سارے کہتے ہیں کہ پاکستانی دہشت گرد ہیں۔مجھے یقین ہے کہ سارے پاکستانی دہشت گرد نہیں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرے خیال میں تو کوئی بھی پاکستانی دہشت گرد نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ سچ کیا ہے‘‘۔
عمر بولا، ’’یہی بات تو میری سمجھ میں نہیں آتی کہ سچ کیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سچ یہ ہے کہ مجھے اب سونا چاہیئے کیونکہ بہت دیر ہوگئی ہے‘‘۔
میں نے عمر کو خدا حافظ کہا اور اپنے کمرے میں سونے چلا گیا جہاں دو نوں اطراف میں نو نو بستر لگے ہوئے تھے۔ یعنی اٹھارہ بندوں کے سونے کی جگہ بنی ہوئی تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment