Sunday, June 9, 2013

نن، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ


نن


کیا نام بتایا تھا اس نے اپنا، ہاں یاد آیا، جینا کولو
(Gina Colo)
۔ بڑا عجیب نام تھا۔ نام تو اس کا کچھ اور ہی تھالیکن اس نے اپنے نام کو مختصر کر کے جینا بنالیا تھا۔ کولو اس کا خاندانی نام تھا۔ جینا کی اور میری ملاقات ٹرین میں ہوئی۔
میں روزانہ گھر سے کام پر جانے کے لیے قریباًڈیڑھ بجے نکلتا ہوں۔ اریزو
(Arezzo)
شہر کی ایک مصروف سڑک وتوریو وینیتو
(Vittorio Venetto)
پے چلتے چلتے میں کامپو دی مارتے
(Campo di Marte)
پہنچ جاتا ہوں۔ یہ اریزو ریلوے سٹیشن کی پچھلی طرف ہے۔ جہاں ایک چھوٹا سا باغیچہ بھی ہے جس پر آجکل چند مہ نوشوں کا قبضہ ہے۔ وہ اپنی اشیائے خورد و نوش لے کر کے یہاں آجاتے ہیں اور باغیچے کے لکڑی اور لوہے کی آمیزش سے بنے بنچوں پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ان میں زیادہ خانہ بدوش قسم کے لوگ ہوتے ہیں جن کا تعلق رومانیہ سے ہے۔ انہیں اطالوی زبان میں زنگری
(ZINGARI)
کہتے ہیں۔ زنگریوں کا کہنا ہے کہ ان کے اجداد کئی سو سال پہلے ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے، رومانیہ اور بلغاریہ کے مختلف علاقوں میں آکر آباد ہوگئے۔ اب چونکہ رومانیہ کی یورپین ملکوں میں انٹری ہے (یعنی انہیں یہاں آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی) اس لیے یہ یہاں گھومتے گھامتے آجاتے ہیں۔ اٹلی سب سے نزدیک ہے اس لیے ان لوگوں کی یہاں آمد زیادہ ہوتی ہے۔ رومانیہ کی زبان لاطینیسے نکلی ہے اس لیے ان لوگوں کو اطالوی زبان سیکھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ رنگ ان کا گورا ہوتا ہے اور مذہب عیسائیت، اس لیے بہت جلد اطالوی لوگوں سے گھل مل جاتے ہیں۔ یہ میری بہت بری عادت ہے کہ بات کچھ اور کررہا ہوتا ہوں اور اس دوران قصّہ کوئی اور لے کر بیٹھ جاتا ہوں۔ تو بات ہو رہی تھی اس باغ میں مہ نوشوں کی۔ کبھی ان خانہ بدوشوں کے ساتھ، میرا مطلب ہے زنگریوں کے ساتھ کوئی نا کوئی عربی (مراکش یا تیونس) کا بندا بھی نظر آجاتا ہے۔ کبھی اِکا دکا پاکستانی اور سینیگال
(SENEGAL)
کا باشندہ بھی نظر آجاتا ہے۔ ان خانہ بدوشوں کے ساتھ ان کے کتے لازمی ہوتے ہیں۔ انہیں کی طرح گندے اور آوارہ۔ میں جب بھی ان کے پاس سے گزرتاہوں، کتوں کے ڈر سے بہت دور ہوکر گزرتا ہوں۔ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ میں ان سے ڈر رہا ہوں۔ وہ مجھے ہاتھ ہلا کے بلاتے ہیں اور کھانے کی دعوت بھی دیتے ہیں لیکن میری ٹرین کا وقت ہوتا ہے۔ ٹرین ٹھیک وقت پر قریباً ایک پچاس پر پلیٹ فارم نمبر چار پر آکر رکتی ہے۔ کبھی کبھی یہ ٹرین پورا مہینہ دس سے بیس منٹ لیٹ ہوتی ہے۔ یہ بات اٹلی میں بڑی عام ہے، ٹرینوں کا لیٹ ہونا۔ میں جب ٹرین میں سوار ہوتا ہوں تو میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ میرے آس پاس کوئی نہ بیٹھا ہو۔ ویسے تو اطالوی لوگوں میں بیشمار خامیاں ہیں لیکن ان کی یہ عادت بہت بری ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں دن ہو یا رات کوئی بھی وقت ہو، وہ ٹرین میں بیٹھتے ہی اونچی آواز میں باتیں شروع کردیتے ہیں اور ساتھ ساتھ ہاتھ بھی ہلاتے جاتے ہیں۔ ہاتھ ہلائے بغیر ان کی کوئی بات مکمل نہیں ہوتی۔ کبھی کبھی تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے شخص کے سر میں درد شروع ہوجاتا ہے لیکن وہ اس بات کی پرواہ بالکل نہیں کرتے۔ ان کی باتوں کے تین بنیادی موضوع ہوتے ہیں، ’’کپڑے، کھانا اور سیکس‘‘۔ اس کے علاوہ یہ کوئی بات نہیں کرتے۔ کپڑے، جوتے، گھڑی، عینکیں، جرابیں جو بھی استعمال کی چیزیں ہے ان کا ذکر ضرور کیا جاتا ہے۔ رات کو کھانا کیا کھایا، اگر ہفتہ پہلے پتساکھایا تو اس کا ذکر۔ اگر کبھی خدا نے ریستوران میں کھانے کی توفیق دے دی تو مہینوں اس کا ذکر کریں گے۔ سیکس کا ذکر مرد کیا عورتیں بھی بڑے جوش و خروش سے کرتی ہیں۔ حتیٰ کہ رات کو جسم پر نشان یا نیل پڑگیا ہے تو دِکھا بھی دیں گی۔ خیر میں ہمیشہ پٹڑی سے اتر جاتاہوں۔ میں روز کی طرح آج بھی ٹرین میں سوار ہوا۔ ہمیشہ کی طرح مجھے آج بھی ایک ایسی سیٹ مل گئی جہاں آس پاس کوئی نہیں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے ساتھ والی سیٹ پر اپنا مشہور و معروف کالا بیگ رکھا اور سامنے والی دوسیٹیں خالی تھیں۔ میں نے بیگ سے میٹ رڈلی
(MATT RIDLEY)
کی کتاب ’’جینوم‘‘
(GENOME)
نکالی اور پڑھنے کے لیے ابھی کھولنا ہی چاہ رہا تھا کہ میرے کانوں کے پردوں سے ایک بڑی مترنم آواز ٹکڑائی جس نے میرے کانوں میں کسی مدھ بھرے گانے کی طرح رس گھول دیا۔ میں نے نظر اٹھا کے دیکھا تو ایک منحنی سی محترمہ، جو اپنے خاص اطالوی لہجے میں مجھ سے بیٹھنے کی اجازت طلب کررہی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ ’’کیا یہ جگہ خالی ہے‘‘۔ میں نے بڑی گرم جوشی سے کہا، ’’ہاں ہاں‘‘۔ اس کی جگہ اگر کوئی اور ہوتا تو یقینامیں اتنے جوش و خروش کا اظہار نہ کرتا اور خاص کر اگر کوئی میرا ہم جنس ہوتا تو مجھے ناگوار بھی گزرتا۔ کیونکہ اس کی وجہ سے میرا یہ ایک گھنٹے کا سفر بڑا خراب گزرتا جو کہ اکثر ہوا کرتا ہے۔
وہ پوچھتے ہی میرے سامنے والی سیٹ میں دھنس گئی۔ دھنس اس طرح گئی کیونکہ میں فرسٹ کلاس میں سفر کررہا تھا اس لیے اس ڈبے کی سیٹیں ذرا اچھی حالت میں ہوتی ہیں۔ جبکہ ریجنل ٹرینوں
(REGIONAL TRAINS)
کی سیکنڈ کلاس کی سیٹیں بڑی سخت اور کم آرام دہ ہوتی ہیں۔ ہم لوگ طوحاً وکرحاً ان میں سفر کرتے ہیں۔ تو بات ہورہی تھی کہ وہ میرے سامنے آکر بیٹھ گئی۔ میں بظاہر تو کتاب میں محو تھا لیکن اپنی ہمیشہ کی بری عادت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ لڑکی نے بیٹھتے ہی اپنا پرس ساتھ والی سیٹ پر رکھا۔ اس پر بڑا بڑا ڈی اینڈ جی
(D&G)
لکھا ہوا تھا۔ یعنی ڈولچے اینڈ گبانہ
(DOLCE AND GABBANA)
۔ ڈولچے گبانہ اٹلی کے مشہور ڈیزائنر ہیں۔ یہ دو دوست ہیں جنھوں نے مل کر کپڑوں کا یہ ڈیزائن متعارف کروایا ہے لیکن اب یہ ساری چیزیں بناتے ہیں۔ میں لڑکی کا سر سے پاؤں تک معائنہ کررہا تھا۔ اس کے پاؤں میں نئے فیشن کے جوتے تھے جو کہ آگے سے گول اور بنا کسی ایڑھی کے تھے۔ انکو بیلرینا
(BELLERINA)
کہتے ہیں۔ بیلرینا اس لیے کیونکہ ان کی شکل بالکل بیلے ڈانس کرنے والی لڑکیوں کے جوتوں جیسی ہوتی ہے۔ پاؤں جتنے بھی نظر آرہے تھے بہت ہی خوبصورت تھے۔ میں نے ٹخنوں سے اوپر نظر جو اٹھائی تو دل خوش ہوگیا۔ خوشی اس لیے ہوئی کیونکہ اس نے بڑی خوبصورتی سے اپنی ٹانگوں کے بال صاف کئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اگر ان پر کوئی چیونٹی رینگنے کی کوشش کرے گی تو پھسل جائے گی یا گھسٹ کے نیچے کو آجائے گی۔ میں ایسی خوبصورت ٹانگوں کو مارجرین لیگز
(MARGERINE LEGS)
کہتا ہوں۔ ٹانگیں اتنی ملائم اور چمکیلی تھیں کہ ان کو ہاتھ لگانے کو جی چاہتا تھا لیکن کیا کرتا، ایسا کرنا تو بہت مشکل ہے۔ اس کی ٹانگوں کی خاص بات تھی کہ ان پر کوئی داغ نہیں تھا۔ نہ گوری تھیں نہ کالی تھیں۔ بہت خوبصورت کمپلیکشن تھا۔ میری نظر تھوڑی اوپر گئی تو پتا چلا کہ اس نے منی سکرٹ سے بھی منی سکرٹ پہنی ہوئی ہے۔ اس پر اس کی سکرٹ کولہو کی ہڈی، مجھے ویسٹ
(waist)
کہنا چاہیے تانکہ سمجھنے میں آسانی ہو، اس نے ہڈی کے نیچے باندھی ہوئی تھی۔ اس لیے یوں کہنا چاہیے کہ بمشکل اس حصے کو ڈھانپ کے لباس کا رنگ دیا گیا تھا۔ چونکہ لڑکی سلم سمارٹ تھی اس لیے کہیں بھی چربی کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ ہڈی سے ناف تک ایک خوبصورت لائن تھی جو کہ بہت زیادہ ایکسرسائز کرنے سے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پیٹ پےَ سکس پیکس (six pacs)بھی نظر آرہے تھے جنھیں ایبز
(abs)
بھی کہتے ہیں۔ اس نے اوپر ایک پھولدار سی چیز پہنی ہوئی تھی۔ آپ اسے قمیص نہیں کہہ سکتے، ٹی شرٹ بھی نہیں تھی۔ ایک کپڑا سا تھاجو پتلی پتلی دو ڈوریوں سے باندھا ہوا تھا۔ اس کی ڈوریوں کے ساتھ ساتھ برا
(bra)
کی ڈوریاں بھی نظر آرہی تھیں۔ گو کہ برا کی ڈوریاں پلاسٹک کی یا کسی ٹرانسپیرنٹ چیز کی بنی ہوئی تھیں۔ اس کے کندھوں پر یہ دونوں قسم کی ڈوریاں بہت بھلی لگ رہی تھیں۔ اس کا سائز بہت متناسب تھا لیکن اس نے جو چیز پہنی ہوئی اس کی وجہ سے زیادہ ابھرا ہوا لگ رہا تھا۔ اس پر کالر بون یا ہنسلی کی ہڈی سے اگر نیچے دیکھیں تو ایک گہری لکیر تھی جو اس کی خوبصورتیوں میں گم ہوجاتی تھی
it's called clevage in English
(اسے انگریزی میں کلیوج کہتے ہیں۔ اس کا اُردو میں شایدکوئی نام ہو لیکن میں اس نام سے ناواقف ہوں)۔ اب میں آہستہ آہستہ اس کے چہرے کی طرف آتا ہوں۔ ہنسلی کی ہڈی کے ساتھ اس کی صراحی دار گردن شروع ہوجاتی تھی۔ اس کے بال بلونڈ تھے۔ یعنی نہ سنہرے نہ پیلے، انہیں بلونڈ ہی کہنا چاہیے۔ انتہائی سلکی اور سیدھے۔ بالوں کی ایک لٹ اس نے گردن کے پیچھے سے گزارکے سینے پر گرائی ہوئی تھی۔ جو سانپ کی طرح اس کے سینے پر ہل رہی تھی کیونکہ وہ ہلکی ہلکی سانس لے رہی تھی جس کی وجہ سے اس کے سینے کے اتار چڑھاؤنمایاں ہورہے تھے۔ وہ لٹ بھی بڑی آہستگی سے بل کھا رہی تھی۔ اس نے چہرے کے سامنے کتا ب رکھی ہوئی تھی۔ میں نے کتاب کا عنوان پڑھنے کی کوشش کی تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اب میری کوشش تھی کہ میں اس کا چہرہ دیکھ لوں۔ اپنی عادت کے مطابق میں اپنے دماغ میں ترکیبیں سوچنے لگا کہ گفتگو کا آغاز کیسے کروں۔ ابھی میں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ مجھے اس کی آواز سنائی دی۔ جیسے ہی وہ بولی اس نے کتاب چہرے کے سامنے سے ہٹا دی۔ لفظ خوبصورت بہت چھوٹا ہے، اگر میں مصور ہوتا تو فوراً اس کی تصویر بناتا اور شاعر ہوتا تو اس کی خوبصورتی پر غزل لکھتا۔ شکل سے صاف دِکھتا تھا کہ اٹالین نہیں۔ چہرہ صاف ستھرا، ماتھا نہ بہت چھوٹا کہ برا لگے اور نہ بہت بڑا کہ بھدا لگے، متناسب۔ بڑی خوبصورتی سے پلَک
(pluck)
کی گئی بھنویں اور اس کے نیچے بڑے ہلکے رنگ کا آئی شیڈ استعمال کیا گیا تھا، شاید ہلکا جامنی تھا۔ اس کے ساتھ پلکوں پر مسکارالگا کر ان کو لمبا دکھانے کی کوشش کی گئی تھی حالانکہ وہ پہلے ہی بہت لمبی اور خوبصورت تھیں۔ میک اپ بہت ہلکا تھا۔ اگر غور سے نہ دیکھیں تو آپ کو پتا بھی نہ چلے۔ میرا خیال ہے اس نے کوئی خاص قسم کی فاؤنڈیشن کریم لگا رکھی تھی جس کی وجہ اس کا چہرہ کچھ کچھ گلابی لگ رہا تھا۔ لپ سٹک تھوڑی بری لگ رہی تھی۔ ہونٹوں کے رنگ کی، لیکن بڑی گلوئنگ
(glowing)
تھی، جس کی وجہ اس کے ہونٹ گیلے اور چمکیلے لگ رہے تھے۔ آنکھیں، ناک، ہونٹ سب کچھ بہت خوبصورت تھا۔ اس پر خدا کی شان جب بولتی تو گالوں کے دونوں اطراف پر گڈے بھی پڑتے۔ میں آپ کو بتا رہا تھاکہ اس نے مجھ سے بات کی اور وہ بھی اٹالین میں،
’’کیا تم اٹالین ہو‘‘
میں نے جھٹ سے جواب دیا،
’’لاحول ولا قوۃ، اللہ نہ کرے میں اٹالین ہوں۔ میں پاکستانی ہوں۔ خدا نے مجھے میرے کردہ اور ناکردہ گناہوں کی سزا دینی تھی اس لیے اٹلی آگیا۔‘‘
وہ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے کہنے لگی،
’’میں بھی اٹالین نہیں ہوں‘‘۔
میں نے پوچھا،
’’تو کہاں کی ہو‘‘
کہنے لگی،
’’میرا باپ ہنگری کا ہے اور ماں رومانیہ کی ہے‘‘۔
میں نے کہا،
’’میرا باپ پاکستانی ہے اور ماں بھی پاکستانی ہے‘‘۔
وہ پھر ہنسی اور کہنے لگی،
تم باتیں بڑی مزیدار کرتے ہو‘‘۔
میں نے کہا،
’’میں ایک ناکام افسانہ نگار ہوں اس لیے نئی نئی باتیں بناتا رہتا ہوں‘‘۔
وہ حیرانگی سے کہنے لگی،
’’لیکن تم کتاب تو جنیٹکس کی پڑھ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا،
’’ہاں مجھے جنیٹکس کی بیماری ہے‘‘ ۔
اب میں نے جانا وہ بھی مجھے دیکھ رہی تھی۔
کہنے لگی،
’’مجھے بھی کلوننگ
(clonning)
سے لگاؤ ہے لیکن اب نہیں پڑھتی‘‘۔
میں نے متجسّس ہوکر پوچھا، ’’کیوں‘‘۔
تو کہنے لگی،
’’اب فرصت ہی نہیں ملتی۔ یہ کتاب شروع کی ہے لیکن ابھی تک ختم ہی نہیں ہو پارہی۔‘‘
میں نے پوچھا،
’’یہ کس زبان میں ہے اور موضوع کیا ہے‘‘
کہنے لگی،
’’یہ رومانین زبان میں ہے اور ولِد زیپش
(VLAD ZAPPISH)
کی کہانی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا۔
’’یہ ولِد زیپش
(VLAD ZAPPISH)
کون ہے‘‘۔
تو کہنے لگی،
’’تم نے ڈریکولا کا نام سنا ہے‘‘۔
میں نے کہا،
’’ہاں سنا ہے‘‘۔
تو کہنے لگی،
’’یہ اسی ڈریکولا کی کہانی ہے، چونکہ تم افسانہ نگار ہو، گو کہ ابھی مشہور نہیں ہو لیکن اگر کبھی مشہور ہوگئے تو کہیں نا کہیں اس کا ذکر ضرور کرو گے‘‘۔
میں نے کہا،
’’ہاں کیوں نہیں، میں نے سنا ہے ڈریکولاٹرانسلوینیاء
(TRANSILVANIA)
کے علاقے کا تھا اور لوگوں کا خون پیا کرتا تھا‘‘۔
وہ کہنے لگی،
’’یہ سچ نہیں ہے۔ یہ امریکہ والوں نے اُس کی فلم بنا کر اُسے بدنام کیا ہے۔ ڈریکولاجو اصل میں ولِد زیپش تھا، ٹرانسلوینیاء کا بادشاہ تھا۔ یہ کوئی دو سو سال پرانی بات ہے۔ اس کے دور میں کوئی جرم نہیں ہوتا تھا۔ کوئی چوری نہیں ہوتی تھی۔ پورے ملک میں امن و امان تھا۔ اگر کوئی سڑک کے کنارے سونے کے سِکوں کی بوری بھی رکھ دیتا تو کوئی اُسے نہیں اٹھاتا تھا کیونکہ ولِدزیپش چوروں کو بہت بری سزا دیا کرتا تھا۔ وہ ان کے مقعد میں لکڑی کا ڈنڈا ٹھکوا دیا کرتا تھا، اس لیے سب اس سزا سے ڈرتے تھے۔ ایک دن ایسا ہوا ولِد زیپش جنگ کے لیے گیا تو اس کی بیوی کو کسی نے بتایا کہ تمہارا خاوند جنگ کے دوران ماراگیا ہے۔ اُس کی بیوی نے یقین کر لیا اور محل کی چھت سے چھلانگ لگا کر خود کشی کرلی۔ جب وہ جنگ سے واپس آیا اور اُسے اِس بات کا پتا چلا تو وہ بہت اداس ہوا۔ اس نے ہمیشہ کے لیے کالا لباس پہن لیا‘‘۔
مجھے ڈریکولا کی اصل کہانی سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ میں نے تحیرانہ انداز سے پوچھا،
’’کیا یہ سچ ہے‘‘۔
تو وہ کہنے لگی،
’’ہاں بالکل سچ ہے‘‘۔
میرے لیے یہ ایک نئی بات تھی۔ میں نے پوچھا،
’’تمہارا نام کیا ہے‘‘
تو کہنے لگی،
’’جینا کولو‘‘۔
میں قہقہالگا کرہنسا، وہ سمجھ گئی کے میں کیوں ہنسا ہوں۔ اٹالین زبان میں ’’کولو‘‘ چوتڑوں کو کہتے ہیں لیکن رومانیہ میں یہ خاندان کا نام ہے۔ اس نے پوچھا تمہارا کیا نام ہے، میں نے اپنا تعارف کروایا۔ پھر اس سے سوال کر بیٹھا جس نے میرے دماغ میں طوفان برپا کیا ہوا تھا،
’’کیا تم ماڈلنگ کرتی ہو، کیونکہ تم بہت خوبصورت ہو۔ اگر نہیں کرتی تو کر سکتی ہو‘‘۔
وہ کہنے لگی،
’’اب ساری رومانین لڑکیاں سیرادو وا
(Seradova)
تو نہیں بن سکتی نا‘‘ (سیرادووا
"Seradova"
ایک رومانین لڑکی ہے جو کام کے سلسلے میں اٹلی آئی تھی لیکن اس کی قسمت نے ساتھ دیا اور اب وہ مشہور اور بہترین ماڈل ہے)۔
میں نے کہا،
’’خیر ایسی بھی کوئی بات نہیں‘‘۔
میں نے مزید کریدا،
’’تو یہاں پڑھنے آئی ہو‘‘۔
تو کہنے لگی،
’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں۔ میں بڑے اونچے درجے کی کال گرل ہوں۔ جسے عرفِ عام میں جسم بیچنا کہتے ہیں‘‘۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی، کیسے بِنا کسی ہچکچاہٹ کے کہہ دیا کہ جسم بیچتی ہوں۔ دھندا کرتی ہوں۔
کہنے لگی،
’’تم کیا کرتے ہو‘‘۔
میں نے کہا،
’’میں بھی جسم بیچتا ہوں‘‘۔
وہ ہنسنے لگی اور ہنستے ہنستے بولی،
’’تم گیے
(gay)
ہو یا میل ایسکورٹ
(male escort or gigolo)
ہو‘‘۔ میں نے کہا،
’’نہ میں گیے
(gay)
ہوں نہ ہی میں میل ایسکورٹ
(male escort or gigolo)
ہوں بلکہ مزدوری کرتا ہوں۔ اگر دماغ سے متعلق کام کرتا تو کبھی نہ کہتا کے جسم بیچتا ہوں‘‘۔
وہ پھر مسکرائی اور کہنے لگی،
’’تم باتیں بڑی گھما پھراکے کرتے ہو۔ اس میں تمہارا قصور نہیں۔چونکہ تم لکھتے ہواس لیے اس طرح کی باتیں کرنا تمہارے لیے عام سی بات ہے۔ ہاں اگر میں اپنی کہانی سناؤ ں تو کوئی افسانہ لکھو گے‘‘۔
میں نے کہا،
’’اگر تمہیں برا نہ لگے تو سنا ؤ۔ میں افسانہ لکھ دوں گا۔ لیکن اس بات کا یقین نہیں دلاتا کہ وہ کبھی چھپے گا‘‘۔ وہ کہنے لگی،
’’کوئی بات نہیں‘‘۔
اس طرح اس نے اپنی کہانی شروع کی،
’’میں کیسی ہوں یہ تو تم دیکھ ہی چکے ہوکیونکہ میں جیسے ہی آکر بیٹھی تم نے مجھے سر سے پاؤں تک دیکھا۔ یہ اور بات ہے کہ تم نے آغاز میرے پاؤں سے کیا اور سر تک دیکھا۔‘‘
جب وہ یہ کہہ رہی تھی میں دل ہی دل میں بڑی شرمندگی محسوس کررہا تھا۔ لیکن کیا کرتااور کیا کروں یہ میری بری عادت ہے۔
میں نے کہا،
’’تم مجھے شرمندہ کررہی ہو۔ مجھے لوگوں کو غور سے دیکھنے کی عادت ہے۔ تم اپنی کہانی سنانے لگی تھیں۔‘‘
’’چلو میں شروع کرتی ہوں، لیکن تمہیں سارا کچھ یاد رہے گا۔‘‘
میں نے کہا،
’’اس کی تم فکر نہ کرو۔ تم اپنی کہانی کا آغاز کرو‘‘۔
’’میری کہانی رومانیہ سے شروع ہوتی ہے۔ میں اُن دنوں بخارسٹ یونیورسٹی میں نئی نئی داخل ہوئی تھی۔ میں بہت خوبصورت تھی اس لیے پوری یونیورسٹی میں بہت جلد مشہور ہوگئی۔ روزانہ کئی لڑکے میرے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ میرا مضمون چونکہ جنیٹکس تھا اس لیے ہر لڑکا جنیٹکس کے متعلق مکمل معلومات حاصل کرکے میرے پاس آتا۔ دنیا کے مشہور جنیٹیسِسٹ (جینیا دان) کی کتابوں کے نام یاد کرکے آتا۔ میرا ارادہ کلوننگمیں ریسرچ کرنے کا تھا، اس لیے میں جی لگا کے پڑھتی تھی۔ میں خیالوں ہی خیالوں ایئن ولمٹ
(IAN WILMUT)
سے ملنے کا سوچتی تھی۔ تم تو جانتے ہو گے کہ ایئن ولمٹ
(IAN WILMUT)
کون ہے‘‘۔
میں نے کہا،
’’ہاں میں جانتا ہوں۔ انہوں نے ایک اور جینیٹیسسٹ کے ساتھ مل کر کلوننگ کی مدد سے ڈولی
(DOLLY)
بنائی ہے‘‘ (ڈولی اس بھیڑ کا نام ہے جو ایئن ولمٹ نے کلوننگ کی مدد سے بنائی ہے)۔
وہ کہنے لگی،
’’تمہیں پتا ہے اس کا نام ڈولی کیوں رکھا گیا ہے‘‘۔
میں نے کہا،
’’یہ میں نہیں جانتا‘‘۔
تو اس نے بتایا کہ
’’مشہور سِنگر ڈولی پارٹن
(DOLLY PARTTON)
کی چھاتیاں بہت بڑی ہیں‘‘۔
میں نے کہا،
’’ڈولی پارٹن کی چھاتیوں کا اس کلوننگ سے کیا تعلق‘‘۔
تو اس نے کہا،
’’اگر تم نے پڑھا ہو، کلوننگ کے عمل کے لیے ڈولی کی ماں کے تَھن سے سَیل لے کر کلوننگ کے عمل سے گزاراگیا ہے۔ اس وجہ سے ڈولی پارٹن کی چھاتیوں کو تھن سے مناسبت ہے‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا،
اُس نے کہا،
’’خیر چھوڑوکلوننگ کو، تو میں تمہیں اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ میری خواہش اس روزیلنانسٹیوٹ
(ROSILIN INSTITUTE)
میں جانے کی تھی جہاں ایئن ولمٹ نے ریسرچ کی تھی۔ میں وہاں تو نہ جاسکی لیکن میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جس نے میرا یہ خواب پورا کرنے کی پیشکش کی۔ وہ ہمیں ایک بار
(BAR)
میں ملا۔ اس نے مجھے اور میری دو اور ہم جماعتوں کو دیکھتے ہی کہا،
’’تم لوگ ماڈلنگ تو نہیں کرتیں‘‘۔
ہم نے یک زبان ہوکر کہا،
’’نہیں، بالکل نہیں‘‘۔
اس نے ہم سے اجازت طلب کی اور ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گیا۔ ہمیں کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ پھر وہ
ہم سے مخاطب ہوا،
’’اگر تم لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو، جو بھی تم لوگوں نے پیا ہے اس کے پیسے میں ادا کردوں‘‘۔
میں نے منع کیا لیکن دوسری دو لڑکیوں نے ہاں کردی اس لیے میں چپ کرگئی، حالانکہ مجھے بالکل اچھا نہ لگا۔ اس نے گفتگو کے دوران بتایا کہ وہ اطالوی باشندہ ہے اور اپنے تصویریں کھینچنے کے شوق میں مختلف ملکوں میں گھومتا رہتا ہے۔ ہم نے اس کی بات پر یقین کر لیا۔ میں بہت جلد بھانپ گئی کہ وہ مجھ میں دلچسپی لے رہا ہے۔ میں نے کہا، مطلب کی بات کرو۔ تو کہنے لگا،
’’میں تمہارا فوٹو سیشن کرنا چاہتا ہوں۔ منہ مانگی قیمت دوں گا۔‘‘
میری دونوں سہیلیاں میری شکل دیکھنے لگیں۔ میں نے کہا، میں ایئن ولمٹ کے روزیلن انسٹیٹیوٹ میں پڑھنا چاہتی ہوں۔ تمام اخراجات اٹھاؤ گے۔ اس نے کہا، ہاں۔ اب تک جو گفتگو ہوئی ہم سب اسے مذاق ہی سمجھ رہے تھے۔ خیر اس نے دوبارہ ملنے کو کہا اور اپنا کارڈ بھی دیا۔ میں نے کہا،
’’ہم تینوں جنیٹکس کی سٹوڈنٹس ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں ہوتا۔‘‘ اس نے کہا،
’’یہ میں جانتا ہوں کہ تم لوگ سٹوڈنٹس ہو اور تمہارے پاس وقت نہیں ہوتالیکن تمہاری یونیورسٹی دو ہفتے کے لیے بند ہورہی ہے۔ تم لوگوں کے لیے سنہری موقع ہے‘‘۔
ہم لوگ بڑے حیران ہوئے کہ اسے یہ معلومات کس نے فراہم کیں۔ وہ ہماری ڈرنکس کے پیسے ادا کرکے چلا گیا۔ اس طرح ہماری پہلی ملاقات اختتام کو پہنچی۔
ژ
اس بات کو پورا ہفتہ گزر چکا تھا۔ میں قریباً اس ملاقات کو بھول چکی تھی۔ آج میں دوبارہ اس بار
(BAR)
میں گئی، جہاں ہم تینوں سہیلیاں پچھلے ویک اینڈ پر اس شخص سے ملی تھیں۔ میں اس کا نام نہیں بتاؤں گی تم اپنی آسانی کے لیے پاؤلو
(PAOLO)
لکھ لو۔
میں نے کہا،
’’مجھے اس بات سے کیا غرض کہ اس کا نام کیا تھا۔ میں تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ تم یہاں تک کیسے پہنچیں‘‘۔
اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا،
نہ جانے کیوں بار میں داخل ہوتے ہی میرے دل نے مجھ سے کہا کہ اگر وہ شخص دوبارہ مل جائے تو کیا ہوگا۔ ابھی میں یہی سوچ رہی تھی کہ کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے مُڑ کے دیکھا تو پاؤلو کھڑا تھا۔ کہنے لگا، ’’مجھے پتا تھا تم ضرور آؤگی‘‘۔ میں نے کہا،
’’میں تو یہاں ہر ویک اینڈ پر آتی ہوں۔ میں تم سے ملنے تو نہیں آئی‘‘۔
اس نے کہا،
’’خیر چھوڑو ان باتوں کو، آؤ اس کونے والی میز پر بیٹھتے ہیں‘‘۔
میں اس کے ساتھ کونے والی میز پر بیٹھ گئی۔ ہم دونوں باتوں میں مصروف ہوگئے۔ اس نے گفتگو کے دوران میرے سامنے کنٹریکٹ رکھ دیا۔ میں نے سائن کرنے سے انکار دیا۔ اس نے کہا، ’’ساتھ لے جاؤ، پڑھ کے، سوچ کے جواب دینا۔ میں نے کنٹریکٹ اپنے پرس میں رکھ لیا۔ اس نے میرے
سامنے کئی آئیڈیاز پیش کئے۔ مس اطالیہ کا مقابلہ، اٹالین ٹیوی میں کام کی گارنٹی، اٹالین نیشنیلٹی اور بہت ساری اشتہاری کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے کا لالچ۔ اس کی باتوں نے مجھے اتنا متاثر کیا کہ میں قائل ہوگئی، میں تصور اتی دنیا میں کھو گئی اور جنیٹکس کو بھول گئی۔ میں نے پرس سے کنٹریکٹ نکالا اور سائن کرکے اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔
ژ
ہمیں یونیورسٹی سے چھٹیاں ہوچکی تھیں۔ میں نے گھر والوں کو فون کردیا کہ میں چھٹیوں میں گھر نہیں آؤں گی بلکہ اپنی سہیلی کے ہاں جارہی ہوں۔ کنٹریکٹ کی رُو سے مجھے پاؤلو کے ساتھ دو ہفتے کام کرنا تھا۔ اس نے کہا،
’’ایک ہفتہ ہم مختلف لوکیشنز پر جا کے فوٹو سیشن کریں گے، اس کے بعد ایک چھوٹی سی ٹیلی فلم بنائیں گے‘‘۔
میں نے کہا،
’’تم نے تو کہا تھا کہ صرف تصاویر بنائیں گے‘‘
تو وہ کہنے لگا،
’’کنٹریکٹ کا صفحہ نمبر فلاں فلاں پڑھو، وہاں پر ٹیلی فلم کا بھی ذکر ہے۔ اس سے تمہیں کوئی نُقصان نہیں ہوگا۔ یہ تمہیں اَیڈ ولڈ
(ADD WORLD)
میں متعارف کرنے میں مدد دے گی‘‘۔
میں نے کہا،
’’ٹھیک ہے‘‘۔
ہم لوگ ایک ہفتہ رومانیہ کے تمام خوبصورت مقامات پر فوٹو سیشن کرتے رہے۔ میری زیادہ تر تصاویر نیم عریاں اوربرہنہ ہی تھیں۔ میں اپنی تصاویر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ مجھے تو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ میرا جسم اتنا خوبصورت ہے۔ ان تصاویر کو دیکھ کر خود مجھے اپنے آپ پر رشک آنے لگا۔ اس کے بعد اس نے ٹیلی فلم بنائی۔ اس دوران ہم ایک دوسرے کے بہت قریب آچکے تھے۔ وہ میرے ساتھ کئی دفعہ جنسی تسکین بھی حاصل کرچکا تھا۔ دو ہفتیکیسے گزرے مجھے پتا ہی نہ چلا۔ اس نے جاتے ہوئے مجھے میری تمام تصاویراور ایک عدد وڈیو کیسٹ بھی دی اور کہا، یہ کیسٹ میرے جانے کے بعد دیکھنا۔ جب میں نے فلم دیکھی تو حیران رہ گئی۔ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہوا تھا، اس فلم میں بند تھا۔ میں اب سمجھی اس نے میری پورنو
(pornographic)
فلم بنا کر لانچ
(launch)
کردی۔ مجھے نہیں پتا اس نے کتنی کاپیاں بنائیں۔ میں سارا سارا دن روتی رہتی، میرا پڑھائی سے جی اچاٹ ہوگیا۔ میری عمر ۱۹ سال تھی لیکن ۳۰ سال سے زیادہ کی لگنے لگی۔ میں ابھی فلم کی وجہ سے پریشان تھی کہ میری تصاویر کا کیلنڈر بازار میں آگیا۔ اب تو پوری یونیورسٹی کو پتا چل گیا۔ شہرت کے ساتھ ساتھ بدنامی بھی ہوئی۔ یونیورسٹی سے نکال دی گئی۔ ایک دن میں چرچ کی سیڑھیوں پر بیٹھی رو رہی تھی کہ ایک پادری میرے پاس آیا۔ اُس نے مجھے تسلی دی، میں خوش ہوگئی۔
اس نے کہا،
’’تمہارے گناہ اور پریشانی کا ایک ہی حل ہے کہ تم مذہب کی طرف مائل ہوجاؤ‘‘۔
اس طرح میں تمام کام چھوڑ کر نَن بن گئی۔ میں نے چرچ میں یونانی اور لاطینی زبان سیکھنا شروع کردی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں تاریخ بھی پڑھائی جاتی اور عبرانی زبان کی تعلیم بھی دی جاتی۔ میں نے نن بننے میں دلچسپی لی اورمیرے اندر دوبارہ جینے کی اُمنگ پیدا ہوگئی۔ چرچ والوں نے مجھے مزید پڑھنے کے لیے اٹلی بھیج دیا۔ اس بنیاد پر مجھے اٹلی کی پرمیسو دی سجورنو
(Permesso di Soggiorno)
مل گئی اور یہاں پہنچ کر میں جوش و خروش سے تمام منازل طے کرنے لگی۔ اس دوران میرے ساتھ ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ میں نے سوچا میں نن سے اچھی تو پورن سٹار ہی تھی۔ یہاں بھی وہی کچھ کرنا پڑتا ہے جو پاؤلو کے لیے کیا تھا۔ لیکن یہاں میں لوگوں کی نظر میں پاکدامن اور صاف ستھری تھی۔ میں تمہیں اصل حالات و واقعات بتاؤں تو نہ تم بچ سکو گے نہ میں، اس لیے میں وہاں سے بھاگ آئی۔ میں نے کئی جگہ کام ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن میری خوبصورتی میرے آڑے آئی۔ مردوں کو عورت سے ایک ہی چیز چاہیے ہوتی ہے، اس لیے میں نے جسم بیچنے کا کام شروع کردیا لیکن میرا سٹینڈرڈ بڑا ہائی ہے‘‘۔
میں نے پوچھا،
’’یہاں پاؤلوسے کبھی ملاقات ہوئی‘‘۔
تو کہنے لگی،
’’ہاں میں نے اس کے دیئے ہوئے نمبروں پر فون کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ تمام نمبر جعلی تھے۔ ان کا سرے سے وجود ہی نہیں تھا۔‘‘
میں نے کہا،
’’تمہیں کولف یا بادانتے کا کام مل سکتا ہے‘‘ (کولف، اٹالین میں اس کام کو کہتے ہیں جس میں آپ گھر کے کام کرتے ہیں یا گھر کی صفائی کا کام ہوتا ہے۔ بادانتے کا مطلب ہے کسی بھی بوڑھے یا معذور شخص کی مدد کرنا، اس کے ساتھ ہر وقت رہنا)۔
کہنے لگی،
’’نام کولف یا بادانتے کا ہوتا ہے اور اٹلی کے بابو کا جسم گرم کرنا پڑتا ہے، کیوں نہ میں رنگ رنگ کے لوگوں سے مزے بھی لوں اور پیسے بھی کماؤں‘‘۔
میں نے کہا،
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔ انسان روزانہ پاستا کھا کھا کے تنگ پڑجاتا ہے‘‘۔
وہ اس بات پر بہت ہنسی اور ہماری ٹرین سانتا ماریا نوویلا
(SANTA MARIA NOVELLA)
پے آکے رکی۔ یہ ٹرین اگر ہمیشہ نہیں تو زیادہ تر پلیٹ فارم نمبر ۱۶ پر رکتی ہے۔ ٹرین جیسے ہی رکی، اس نے مجھے چاؤ چاؤ کیا اور چلی گئی۔ میں بھی تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا بس سٹاپ کی طرف چل دیا۔

سرفراز بیگ، اریزو، اٹلی



No comments:

Post a Comment