Sunday, June 9, 2013

ماریہ، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ



ماریہ

ایکواڈور
"ECQUADOR"
، ساؤتھ امریکہ کا ایک غریب ملک ہے۔ یہاں کے لوگ ہسپانوی زبان بولتے ہیں کیونکہ یہ ملک سپین کی باجگزارریاست رہا ہے۔ سادہ لفظوں میں آپ اسے سپین کی کالونی سمجھ لیں۔ ہسپانویوں نے یہاں سے مال اسباب لوٹا۔ ان کے خزانے پر تو ڈاکہ ڈالا ہی، اس کے ساتھ ساتھ یہاں کی عورتوں کے ساتھ اندھا دھند ظلم بھی کیا۔ میں اسے ظلم ہی کہوں گا کیونکہ عصمت دری اور زنا اس کام کے لیے چھوٹے لفظ ہیں۔ ماریہ کا تعلق بھی ایکواڈور سے تھا۔ وہ ایکواڈور کے ایک پسماندہ علاقے کی رہنے والی تھی۔ جہاں روٹی تو کیا پینے کا صاف پانی بھی نہیں ملتا تھا۔ وہ کیا پسماندہ علاقے میں رہتی تھی، میں تو کہوں گا کہ ساراملک ہی پسماندہ ہے۔
ماریہ نے بڑی کم عمری میں جسم بیچنا شروع کردیا۔ نہ صرف وہ بلکہ اس کی چھوٹی بہن بھی یہی کام کرتی تھی۔ حتیٰ کہ اس کے دو چھوٹے بھائی بھی لوگوں کی جنسی بھوک مٹاکے کچھ نا کچھ کماکے گھر لاتے تھے۔ اس کے باوجود ان کا گزارا بڑی مشکل سے ہوتا تھا۔ باپ ان کا سارا دن شراب کے نشے میں دُھت رہتا اور جب کبھی ہوش میں آتا تو ان کی ماں کی پٹائی کرتا۔ کبھی اچھے موڈ میں ہو تو کھلے عام اس سے پیار کرنا شروع کردیتا۔ ایسا کئی دفعہ ہوا کہ جب ماریہ اور سونیا گھر میں داخل ہوئی ہوں اور انہوں نے اپنے امی ابو کو گھر کے صحن میں بالکل برہنہ حالت میں جنسی تلذذ حاصل کرتے ہوئے پایا ہو۔ لیکن ان کا باپ ان باتوں سے عاری تھا کہ بچیوں نے دیکھ لیا ہے۔ اب تو ماریہ اور سونیا بھی اس بات کی اتنی پرواہ نہیں کرتی تھیں۔ ان کے باپ کو یا تو اپنی شراب کی فکر ہوتی اور اگر کچھ رقم بچ جاتی تو جوئے کی نظر کردیا کرتا۔ ماریہ کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا۔ لڑکا تھا۔ ماریہ کے باپ نے بہت شور کیا کہ لڑکا کیوں پیدا ہوا ہے۔ لڑکی پیدا ہوتی تو زیادہ پیسے کما کر لاتی۔ اس نے اپنی بیٹی سے یہ تک نہ پوچھا کہ اس کا باپ کون ہے۔ خود ماریہ بھی نہیں جانتی تھی۔ نہ ہی ان کے ہاں ڈی این اے
"D.N.A."
جانچ کرنے کا کوئی انتظام تھا۔ ماریہ اپنے بچے سے بہت پیار کرتی تھی۔ خوزے تھا ہی اتنا پیارا۔ کچھ عرصے بعد سونیا نے ایک بچے کو جنم دیا۔ پہلے دونوں بہنیں جسم بیچ کے اپنے ماں باپ کو پالتی تھیں، اب انہیں ان دونوں بچوں کا بھی خیال رکھنا پڑتا۔ گزارا پہلے ہی مشکل سے ہوتا تھا اب ہاتھ اور تنگ ہوگیا تھا۔ اس طرح وقت گزرتا رہا اور ماریہ کے ہاں ایک اور بچہ پیدا ہوا۔ اب کہ لڑکی پیدا ہوئی۔ ماریہ کا باپ پہلے بھی شراب بہت پیتا تھا آج تو اس نے جشن منانے کے لیے زیادہ شراب پی اور سارا دن خوشی سے ناچتا رہا۔ واہی تباہی بکتا رہا۔ جب نشہ ہرن ہوا تو بیوی کا رُخ کیا۔ اب ان کے گھر میں تین بچے تھے۔ خوزے، شانزے اور سانچے۔ تینوں بڑے خوبصورت تھے۔ اب ماریہ کو احساس ہونے لگا کہ ان بچوں کا مستقبل ماریہ اور سونیا جیسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے کچھ کرنے کی ٹھان لی۔ ماریہ کی محنت رنگ لائی اور ایک ایجنٹ کے ذریعے اٹلی جانے کا انتظام ہوگیا۔ اس نے خوزے اور شانزے کو اپنی بہن سونیا کے حوالے کیا اوراس سے اس بات کا وعدہ کیا کہ وہ اسے بھی اٹلی بلا لے گی۔ اس کے ماں باپ نے پہلے تو شور کیا لیکن جب ا س نے پیسوں کا لالچ دیا تو خوش ہوگئے۔ جس ایجنٹ نے ماریہ کو اٹلی لے جانے کاوعدہ کیا تھا وہ کہتا تھا کہ کسی ہسپتال میں نرس کا کام ہے۔ ماریہ کو اس بات سے کیا غرض تھی کہ کیا کام کرنا ہوگا، وہ تو اسی میں خوش تھی کہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے جارہی تھی۔ سونیا نے اسے بھرپور تسلی دی کہ وہ ان دونوں بچوں کا خیال رکھے گی بشرطیکہ وہ معقو ل خرچہ بھیجتی رہے گی یا اسے بھی کچھ عرصے بعد وہاں بلانے کا انتظام کرے گی۔ اس نے اپنی چھوٹی بہن کی ہر شرط مان لی۔
ژ
ماریہ نے بڑی مشکل سے اپنے دونوں خوبصورت بچوں کو سونیا کے حوالے کیا اور ایجنٹ کے ساتھ ہولی۔ جب ایئرپورٹ پر پہنچی تو وہاں اور بھی لڑکیاں تھیں۔ کم و بیش سب کی کہانی ایک جیسی تھی۔ تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب یہ لوگ اٹلی کے دارالحکومت روم کے ایئرپورٹ فیومی چینو
"FIUMUCINO"
پر پہنچے تو ان سب کے لیے یہ نئی دنیا تھی۔ ساوتھ امریکہ سے اتنا لمبا سفر کرکے جب یورپ میں داخل ہوئیں تو ان کو تھکن کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔ ایئر پورٹ کے باہر ایجنٹ کا بندہ بس لیے کھڑا تھا۔ اس نے سب لڑکیوں کو بس میں سوار کیا اور بس چل پڑی۔ تین چار گھنٹے کے تھکادینے والے سفر کے بعد یہ لوگ فلورنس (فیرنزے) پہنچے۔ ان سب کو انتہائی سستے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ان کے ایجنٹ نے راستے میں ہی بتا دیا تھا کہ ان کے لیے فلورنس میں ایک فلیٹ کا انتظام کردیا گیا ہے۔ جب وہاں منتقل کی جائیں گی تو کام شروع کردیا جائے گا۔
ژ
ماریہ نے سب سے پہلے اپنے ماں باپ کو اطلاع دی اور بچوں کا حال احوال پوچھا اور چھوٹی بہن سونیا کو بچوں کی دیکھ بھال کی تاکید کی اور فون بند کردیا۔ ان سب لڑکیوں کے پاسپورٹ اور دیگر کاغذات فلورنس والے ایجنٹ نے رکھ لیے اور انہیں یہی بتایا کہ کام کے دفتر میں جمع کروانے ہیں۔ ان کو زبان سمجھنے میں اتنی دقت نہیں ہوئی کیونکہ ہسپانوی اور اطالوی زبان میں کافی حد تک مماثلت تھی۔
دو دن بعد انہیں فلیٹ میں منتقل کردیا گیا۔ اب ان میں تھوڑی بہت ہم آہنگی پیدا ہوگئی تھی۔ اسی رات فلورنس والا ایجنٹ آیا اور اس نے سب کو بتایا کہ سب کے کام کا انتظام ہوگیا ہے اور گاڑی نیچے ان کا انتظار کررہی ہے۔ اس نے ان کو کپڑے بھی دیئے اور کہا کہ جلدی سے ان کو پہن لو، اور اچھی طرح بناؤ سنگھار بھی کرلو۔ جب سب لڑکیوں نے کپڑے دیکھے تو انہیں حیرت بھی ہوئی اور تعجب بھی کہ اٹلی میں نرسیں اس طرح کے کپڑے پہنتی ہیں۔ خیر سب نے دیئے گئے کپڑے زیب تن کرلیے اور نیچے آکر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ گاڑی جیسے ہی سٹارٹ ہوئی فراٹے بھرنے لگی۔ آہستہ آہستہ شہر کی رونق ختم ہونے لگی اور بالکلویرانہ شروع ہوگیا لیکن تھوڑی دیر بعد اِکا دُکا عمارتیں نظر آنے لگیں۔ اب اس نے ان لڑکیوں کو ایک ایک کرکے اتارنا شروع کردیا۔ آخر میں ماریہ کی باری آئی۔ اب تک ماریہ یہ جان چکی تھی کہ وہ کس قسم کی نرس کا کام کرنے آئی ہے۔
ژ
فلورنس کے انڈسٹریل زون میں ماریہ کو جسم بیچتے بیچتے دو سال ہوچلے تھے۔ اس دوران وہ ایکواڈور معقول رقم بھیجتی رہی گو کہ اسے سخت محنت کرنی پڑتی لیکن اسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ اس دوران ماریہ کو پتا چلا کہ کہ یورپ میں رہنے کے لیے لیگل ڈاکومنٹس
(LEGAL DOCUMENTS)
بھی ضروری ہوتے ہیں اس نے ایکواڈور میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ لیگل یا اِللیگل کس چڑیا کا نام ہے۔ وہ تو بس اتنا جانتی تھی کہ یورپ میں جاکر لوگ کام کرتے ہیں۔ اب وہ اطالوی زبان بھی بولنے لگی تھی۔ ایجنٹ کو پتا تھا کہ یہ لڑکیاں دو تین سال سے زیادہ نہیں چلیں گی اس لیے وہ گاہے بگاہے نئی لڑکیاں لاتا رہتا تھا۔
ژ
ماریہ کو تھوڑی تگ و دو کے بعد ایک معذور آدمی کی رکھوالی کا کام مل گیا۔ اس کے دو بچے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی لیکن دونوں اپنی زندگی میں اتنے مصروف تھے کہ ان کے پاس وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے باپ کی دیکھ بھال کرسکیں۔ اس معذور آدمی کے پاس اپنا گھر تھا۔ ماریہ اس کے ساتھ رہتی تھی۔ پہلی دفعہ طریقے سے رہنا نصیب ہوا تھا۔ گھر کے ایک حصے میں وہ معذور آدمی رہتا تھا اور ایک حصہ ماریہ کے پاس تھا۔ ماریہ کو ہر طرح کی آسائش تھی۔ کھانا پینا، بجلی، گیس اور پانی کا بل سب وہ آدمی ادا کرتا تھا اس کے علاوہ ماریہ کو ہر ماہ تنخواہ بھی ملتی۔ اس نے اس دوران ایجنٹ کے ذریعے اپنی چھوٹی بہن کو بھی بلانے کے لیے رقم بھی پس انداز کرلی۔ وہ صحیح وقت کے انتظار میں تھی۔ بچے اس کے اچھے سکولوں میں داخل ہوگئے۔ اب تو نانا نانی بھی ان کا خیال رکھتے تھے کیونکہ ماریہ اپنے بچوں کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ کو بھی معقول رقم بھیجتی تھی۔ ماریہ نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ اسے اتنے اچھے دن دیکھنے نصیب ہوں گے۔ وہ معذور آدمی کا بہت خیال رکھتی۔ زندگی میں پہلیدفعہ اسے احساس ہوا کہ وہ بھی انسان ہے۔ وہ اپنی دیکھ بھال کرنے لگی۔ اپنے بالوں کے بارے میں، لباس کے بارے میں خیال رکھنے لگی۔ جب کبھی معذور آدمی کے ساتھ بازار سے خرید و فروخت کرنے جاتی تو کئی لوگ اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑکے دیکھتے۔ کئی لڑکے تو اسے روک کے بات چیت کر نے کی بھی کوشش کرتے اور اپنا ٹیلی فون، موبائل نمبر بھی دیتے لیکن ماریہ کو ان چیزوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ کیونکہ وہ جانتی تھی کہ مردوں کو اس سے کیا چاہیے۔ یہ سب تو وہ بہت دیکھ چکی تھی، اب وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کو چاہنے والا ملے۔ اس دوران جب بھی لوگوں سے ملتی، اسے نئی نئی باتیں پتا چلتیں۔ اب وہ سوچنی لگی کہ اٹلی میں رہنے کے لیے پرمیسو دی سجورنو بہت ضروری ہے۔ وہ جس آدمی کی دیکھ بھال کرتی تھی اِ س نے اُس سے بات کی تو وہ کہنے لگا کہ میں اس بارے میں کچھ نہیں جانتا لیکن میں معلومات ضرور حاصل کروں گا، کیونکہ اگر کسی کو پتا چل گیا کہ اس نے کسی کو اِللیگل کام پر رکھا ہوا تو اس پر جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔ وہ اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اس بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے ماریہ کو فراہم کیں۔ اب ایک ہی صورت تھی کہ اطالوی حکومت امیگریشن کھولے، اس طرح وہ اٹلی میں قانونی طور پر رہ سکتی تھی۔
ژ
ان دنوں امیگریشن کھلنے کی خبریں عام تھیں اور آخر کار اطالوی حکومت نے امیگریشن کھول دی۔ ماریہ نے جیسے ہی یہ خبر سنی اس نے اپنی بہن سونیا کو بھی بلا لیا۔ سونیا اپنی بہن کے ٹھاٹھ دیکھ کے حیران رہ گئی۔ دونوں بہنوں نے کاغذات جمع کروادیئے۔ ماریہ کے کاغذات تو اس آدمی نے جمع کروائے جس کی وہ دیکھ بھال کرتی تھی اور اپنی بہن کے کاغذات اُس نے کسی اور شخص سے جمع کروائے۔ اس دوران ایکواڈور یہ باقاعدہ پیسے بھیجا کرتیں۔ خوزے، شانزے اور سانچے اب بڑے ہورہے تھے۔ پڑھائی میں بھی ٹھیک ٹھاک تھے۔ ان کے ماں باپ بھی بہت خوش تھے اور دو چھوٹے بھائی بہنوں کی ارسال کردہ کمائی سے عیاشی کرتے۔ انہیں اس بات کی بالکل فکر نہیں تھی کہ ان کی بہنیں کتنی محنت کرکے پیسے کماتی ہیں
ژ
ماریہ کو جب پتا چلا کہ وہ ماں بننے والی ہے تو اسے بالکل حیرت نہ ہوئی۔ لیکن یہ بات جب اس آدمی کو پتا چلی جس کی وہ دیکھ بھال کیا کرتی تھی تو وہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے کہا کہ اگر کسی کو پتا چلا کہ یہ میرا بچہ ہے تو بڑی بدنامی ہوگی۔ سب سے پہلے بچے کو اپنا نام دینا، پھر جائیداد کا مسئلہ اور اس کے علاوہ میرے بیٹا، بیٹی بھی اعتراض کریں گے۔ تم یہ بچہ ضائع کردو۔ ماریہ جب ایبورشن
(abortion)
کروانے ہسپتال گئی تو انہوں نے کہا، اب بہت دیر ہوچکی ہے۔ ماریہ اور سونیا کے جمع کروائے ہوئے کاغذات کا ابھی کوئی جواب نہیں آیا تھا اس دوران سونیا نے بھی خبر سنائی کہ وہ بھی ماں بننے والی ہے۔
ژ
ماریہ کے بچے کی پیدائش کے دن قریب آرہے تھے اور جس آدمی کی وہ دیکھ بھال کرتی تھی اس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی کیونکہ اطالوی حکومت کے مطابق ماریہ ابھی تک لیگل نہیں تھی۔ عین ممکن تھا کہ اس کے کاغذات رد کردیئے جائیں۔ خداخدا کرکے بچہ پیدا ہوا۔ اس بچے کی شکل بالکل مختلف تھی۔ نہ وہ اپنے باپ کی طرح تھا نہ ہی اپنی ماں کی طرح۔ اس کی اپنی ہی شکل تھی۔ اس کا نام انہوں نے بونافورتونا رکھا۔ اطالوی قانون کے مطابق یہ بچہ نہ لیگل تھا نہ ہی اِللیگل تھا۔ ماریہ نے چونکہ کاغذات جمع کروائے ہوئے تھے اس لیے اس کا میڈیکل کارڈ بھی تھااس سہولت کی بنا پر ابتدائی ایام سے لیکر اب تک اسے کسی قسم کی دقت پیش نہ آئی، لیکن مسئلہ بچے کا تھا۔ اگر ڈی این اے ٹیسٹ کیا جاتا تو فوراً پتا چل جاتا اور اس طرح کا کوئی مسئلہ پیش نہ آتا۔ لیکن چونکہ ماریہ اپنے مالک سے جس کی وجہ سے اس کی زندگی کا سلسلہ اتنا اچھا چل رہا تھا اس کی عزت کا پاس رکھنا چاہتی تھی۔ بچے کے اخراجات کے لیے تنخواہ سے زیادہ پیسے دیا کرتا۔ ماریہ یہ تمام کام بخوبی نبھاتی۔ اپنے بچے کی دیکھ بھال بھی کرتی اور اس معذور شخص کی دیکھ بھال میں بھی کوئی کسر نہ اٹھا رکھتی۔
ژ
اطالوی حکومت نے آہستہ آہستہ پیپر دینے شروع کردیئے۔ روز کسی نا کسی کو پرمیسودی سجورنو (رہنے کا اجازت نامہ، جس میں کام کرنے کی اجازت بھی ہوتی ہے) مل رہی تھی۔ ماریہ کاغذات کا بھی انتظار کررہی تھی اور آنے والے دنوں کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی۔ اچانک، جس آدمی کی وہ دیکھ بھال کرتی تھی وہ زیادہ بیمار رہنے لگا اور ایک دن دارِفانی سے کوچ کرگیا۔ ماریہ کو تو ایسا لگا جیسے اس کا ہنستا بستا گھر اُجڑ گیا ہو۔ نہ صرف یہاں فلورنس میں بلکہ ایکواڈور میں بھی۔ اس کو ابھی کاغذات بھی نہیں ملے تھے۔ جیسے ہی وہ شخص فوت ہوا اس کے بیٹا، بیٹی جنازے وغیرہ کی رسومات سے فارغ ہوکر ماریہ کے پاس آئے۔ اسے کہا کہ ہمیں بہت افسوس ہے لیکن قانون کے مطابق باپ کے اس مکان پر ہم دونوں بہن بھائی کا آدھا آدھا حصہ ہے۔ اس لیے ہمیں یہ مکان بیچنا ہوگا۔ تم اپنا بندوبست کرلو۔ اس کا کنٹریکٹ تو ویسے بھی ختم ہوچکا تھا۔ ماریہ نے سی جی ایل
(CGIL)
(یہ ایک ایسا اطالوی ادارہ ہے جس کے آپ رکن بن جائیں تو یہ آپ کی ہر طرح کی مدد کرتا ہے۔ ایک طرح کی مزدور یونین کا دفتر ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی مزدور یونین کے ادارے ہیں لیکن زیادہ مشہور یہی ہے) کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کاریتاس
"CARITAS"
(یہ ایک خیراتی ادارہ ہے جو غریب اور مجبور لوگوں کی مدد کرتا ہے۔ یہ اطالوی مذہبی تنظیموں کے زیرِ سایہ پنپتا ہے) گئی۔ جتنے بھی رفاہی ادارے تھے ان کے پاس گئی۔ کسی نے اس کی مدد نہ کی۔
ژ
ماریہ کو کام بھی مل گیا اور رہنے کا ٹھکانا بھی، لیکن اب وہ پہلے والی بات نہ تھی۔ چھوٹی بہن سونیا نے کسی اٹالین لڑکے کے ساتھ رہنا شروع کردیا تھا۔ سونیا بھی ایک دفعہ پھر حاملہ ہوئی لیکن اس نے بچہ ضائع کروادیا۔ ماریہ نے اپنی بہن کو اپنی رام کہانی سنائی۔ وہ سب کچھ جانتی تھی لیکن وہ یہاں آکر خود غرض ہوگئی تھی۔ اس نے کہا، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ ماریہ اب ایکواڈور رقم نہ ارسال کرسکتی تھی۔ اس کو سب سے زیادہ فکر اپنے بچوں کی تھی۔ اسے یقین تھا کہ اگر اس نے ہر ماہ رقم ارسال نہ کی تو اس کے والدین اس کے بچوں کو بھی اسی راستے پر چلادیں گے جس راستے پر ان سب بہن بھائیوں کو چلایا تھا۔ پہلے تو ماریہ اپنے ماں باپ کو رشوت دیا کرتی تھی لیکن اب اس کے دونوں بھائی بھی بے غیرت ہوچکے تھے۔ جوانتھے لیکن ماریہ کی ارسال کردہ رقم پر ہی گزارا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جوا اور شراب انہوں نے بھی شروع کردیا تھا۔ ماریہ اکیلی ان تمام جھمیلوں سے نبرد آزماء وہورہی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے بچوں کے کاغذات کی بھی فکر تھی لیکن وہ ابھی تک اِللیگل تھی کیونکہ اس کو ابھی تک پیپر نہیں ملے تھے۔
اطالوی حکومت نے اعلان کیا کہ جن لوگوں کے مالک (جنھوں نے انہیں کام دیا تھا یا جن کے لیے وہ کام کرتے تھے) اگر انہوں نے انہیں چھوڑ دیا ہے یا وہ اس دنیا سے رحلت فرماگئے ہیں، ایسے تمام لوگوں کو چھ چھ ماہ کی پرمیسو دی سجورنو دی جائے گی، اس کے ساتھ انہیں کام ڈھونڈنا ہوگا۔ یہ خبر ماریہ کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں تھی لیکن مسئلہ اس کے بچے کا تھا۔ اس کا وہ کیا کرتی۔ اس نے کئی جگہوں کا، دفتروں کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کسی نے اس کو خاطر خواہ جواب نہ دیا کیونکہ اس طرح کا کوئی قانون نہیں تھا۔ ایک ہی طریقہ تھا کہ ماریہ اپنے بچے کو ایکواڈور لے کر جائے اور وہاں سے اس کے کاغذات جمع کروائے، جسے اطالوی زبان میں ری کون جنجی منتو فاملی آرے
(reconguingimento familiare)
کہتے ہیں، یعنی خاندان کا ملاپ۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ ایکواڈور میں اٹلی کی ایمبیسی کو کیا بتاتی کہ اس کے باپ کا پتا ہی نہیں۔
ژ
خدا خدا کرکے وہ مبارک دن آیا جب ماریہ کو پرمیسو دی سجورنو ملی اور اسے چھپ چھپ کے رہنے کے عذاب سے نجات ملی۔ اس نے کچھ رقم بچا کے رکھی تھی۔ جیسے ہی اس کی کاغذی کارروائی مکمل ہوئی اس نے ایکواڈور جانے کی تیاری شروع کردی۔ کچھ رقم اس نے پس انداز کررکھی تھی اور کچھ اس کے دوستوں نے مدد کی۔
ماریہ پانچ چھ سال بعد ایکواڈور جارہی تھی۔ اب اس کا بیٹا خوزے بارہ سال کا اور اس کی بیٹی شانزے گیارہ سال کی تھی۔ وہ فلورنس سے روم گئی۔ وہاں سے اس نے ایکواڈور کی فلائٹ لینی تھی۔ وہ انتہائی تھکادینے والا سفر کرکے ایکواڈورپہنچی۔ ایئر پورٹ سے اس نے ٹیکسی لی اور گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ گھر کا بُرا حال ہے۔ ماں باپبوڑھے ہوچکے ہے۔ باپ نے شراب اور جوا ابھی تک نہیں چھوڑا، اب تو اس کے بھائی بھی باپ کے ساتھ اس کا م میں شامل ہوگئے ہیں۔ خرچے کی قلت کی وجہ سے انہوں نے شانزے، خوزے اور سانچے، تینوں کو اسی کام پر لگا دیا تھا جو کام پہلے ماریہ اور سونیا کیا
کرتی تھیں۔ اب جب انہوں نے بونافورتونا کو اس کے ساتھ دیکھا تو اور شور کیا۔ جب ماریہ نے یہ بتایا کہ یہ بھی اب یہیں رہے گا تو اور بھی سیخ پا ہوئے۔ ماریہ نے بچوں کے بارے میں پوچھا کہ انہیں سکول سے اٹھوا کر اِس کام پر کیوں لگایا۔ انہوں نے کوئی معقول جواب نہ دیا۔ ماریہ نے زندگی میں اتنے دکھ دیکھے تھے کہ وہ یہ غم بھی اندر ہی اندر پی گئی۔ وہ ایک ہفتہ ایکواڈور رہ کر اٹلی واپس آگئی۔ اس نے اٹلی واپس آتے ہی کام ڈھونڈ لیا۔ وہ بارہ بارہ گھنٹے کام کرتی، کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ، کیونکہ اطالوی قانون کے مطابق تین بچوں کو بلانے کے لیے اس کی سالانہ بچت ان کی مقرر کردہ حد کے مطابق ہونی چاہیے تھی۔ اس نے بچوں کو بلانے کے لیے تمام لوازمات پورے کئے اور آخرکار وہ اس میں کامیاب ہوگئی۔ جب ان کے ویزے لگ گئے تو وہ خود ان کو لینے گئی۔ اس کے بچے جیسے ہی اٹلی پہنچے اس نے انہیں سکول داخل کروادیا۔ اپنے ماں باپ کو اور دونوں بھائیوں کو اور سونیا کی بیٹی سانچے کو اس نے خیر باد کہہ دیا۔ ان کو خرچہ بھیجنا اس نے بالکل بند کردیا اور جب سے یہاں آئی تھی اس نے سونیا سے بھی تعلقات ختم کردیئے تھے۔ اس نے ساری توجہ اپنے بچوں کی طرف مبذول کردی۔ اب ماریہ کی زندگی اٹلی کے شہر فلورنس میں بہت پُرسکون طریقے سے گزر رہی ہے اور وہ اپنے ماضی کو یاد کرکے کبھی کبھی کانپ جاتی ہے۔ اتنے حوادث سے گزرنے کے بعد وہ اپنے بچوں کو اس دلدل سے نکال لائی جس میں وہ خود گوڈے گوڈے پھنس چکی تھی۔

سرفراز بیگ ، اریزو، اٹلی

No comments:

Post a Comment