Sunday, June 9, 2013

محبت، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ



محبت


حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے سات سو سال پہلے یونان کے ایک جزیرے لیزبوز
(Lesbos)
میں ایک شاعرہ پیدا ہوئی جس کا نام تھا سافو
(Sapho)۔
اس کی تمام شاعری عورتوں کے متعلق تھی۔ اس کی وجہ اس کی عورت سے محبت تھی۔ وہ مخالف صنف یا مخالف جنس سے بالکل رغبت نہیں رکھتی تھی۔ اسے صرف اور صرف اپنی ہم جنسوں سے دوستی کرنے میں مزہ آتا تھا۔ اس بات کو دوہزار سات سو سال گزر چکے ہیں لیکن بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ لیزبوز ایک یونانی جزیرہ ہے، جہاں سافو پیدا ہوئی۔ اس کی جائے پیدائش کی وجہ سے ا س جدید دور میں بھی جو لڑکی اپنی ہم جنس سے رغبت رکھے اسے لیزبیئن
(lesbian)
کہتے ہیں۔
جب میں یہ تاریخی حقائق اپنے دوست الپ ارسلان کو بتا رہا تھاتو وہ بڑا حیران ہواکہ کسی لفظ کی تاریخی اہمیت بھی ہوتی ہے۔ وہ کہنے لگا،یار طورانی یہ عورتوں کو عورتوں سے کیسے محبت ہوجاتی ہے۔ میں نے کہا، جیسے مردوں کو مردوں سے، لڑکوں کو لڑکوں سے، بالکل اسی طرح عورتوں کو عورتوں سے، لڑکیوں کو لڑکیوں سے محبت ہوجاتی ہے۔ ارسلان تم نے تو سائنس پڑھی ہے۔ تمہیں تو پتا ہوگا کہ یہ جنیٹیکل چیز ہے۔ ہم جنس پرستی جینز
(genes)
میں پائی جاتی ہے۔ طورانی! میں نے سائنس ضرور پڑھی ہے لیکن تمہاری طرح میں ہر بات کی تفصیل جاننے کے لیے سائنس یا آرٹ کا سہارا نہیں لیتا۔ تم تو جنیٹکس، فلولوجی اور نہجانے کون کون سی بیماریاں لے کر بیٹھے ہوئے ہو۔ ویسے ایک بات ہے کہ ہمارے ملک میں بھی لیزبینئز
(lesbians)
ہوں گی۔ یہ عین فطری بات ہے۔ حالانکہ لوگ اسے غیر فطری عمل بھی کہتے ہیں۔ لیکن جنیٹیکلی یہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ طورانی! تمہاری اس جنیٹکس نے تو تمہارا دماغ خراب کردیا ہے۔ نہیں ارسلان، جنیٹکس نے میرا دماغ خراب نہیں کیا بلکہ اس نے میرے دماغ کے کئی نہاں خانوں کو کھولا ہے۔ اب کون کون سے نہاں خانے کھولے ہیں یہ میں نہیں جانتا۔ طورانی چلو یہ ثابت کروکہ ہم جنس پرستی انسان کے کون سے کروموسومز میں پائے جانے والے جینز میں پائی جاتی ہے اور آگے منتقل ہوجاتی ہے۔ میں یہ تو نہیں جانتاکہ کون سے کروموسومز
(chromosomes)
اس کا باعث بنتے ہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ کینسر اور دل کے مریضوں کے اندر جو جینز منتقل ہوتے ہیں وہ کروموسومز نمبر ۱۳ اور ۱۹ میں ہوتے ہیں۔ تم یہ بات اتنے وثو ق سے کیسے کہہ سکتے ہو۔ اس لیے کہ یہ بات چند ماہ پہلے ہی دریافت ہوئی ہے۔ الپ ارسلان اور طورانی کی بحث و تمحیص اکثر کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی اور دونوں کو اس نہ ختم ہونے والی بحث کو چھوڑنا پڑتا۔ آج بھی یہ عورت سے عورت کی محبت کا موضوع کسی خاص مقام پر نہ پہنچ سکا۔ ارسلان نے اجازت چاہی۔
ژ
الپ ارسلان اپنی تعلیم مکمل کرکے مزید پڑھنے کے لیے آسٹریلیا چلاگیا۔ وہاں اس نے ایک آسٹریلوی لڑکی سے شادی کرلی۔ اس نے وہیں مکمل طور پر سکونت اختیار کرلی تھی۔ اچانک وطن کی یاد ستائی اور پاکستان لوٹا۔ ایک دن ارسلان اور اس کی آسٹریلوی بیوی کیتھرین بازار میں گھوم رہے تھے کہ اچانک ارسلان کو ایک جانا پہچانا چہرہ نظر آیا۔ وہ ٹھٹھک گیا۔ اس کی بیوی کیتھی بڑی حیران ہوئی کہ اچانک ارسلان کو کیا ہواہے۔ اب تک تو اسے کئی چیزیں حیران کر چکی تھیں لیکن یہ ایک نئی بات تھی۔ ارسلان کو شک گزرا کہ ریستوران پر بیٹھا ہوا شخص طورانی ہے۔ وہ واپس مڑا اور اس شخص کے پاس جا کے کہنے لگا، ’’معاف کیجئے گا اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ کا نام طورانی ہے‘‘۔ طورانی نے آواز سنی تو کہنے لگا، ’’ہاں ارسلان صاحب! میں طورانی ہی ہوں‘‘۔ ارسلان نے اپنی بیوی کیتھی سے اس کا تعارف کروایا۔ طورانی نے کہا، ’’یہ جگہ بات کرنے کے لیے ٹھیک نہیں، گھر چلتے ہیں‘‘۔ ارسلان نے کہا، ’’اس وقت تو ہم جلدی میں ہیں۔ تم اپنا نمبر دے دو، میں فون کرکے آؤں گا‘‘۔ طورانی نے جلدی سے اپنے گھر کانمبر اور موبائیل نمبر کاغذ پر لکھ کر دیا۔ ارسلان نے وہ کاغذ جیب میں ڈالا اور اجازت طلب کی۔ وہ سارے راستے کیتھی کو طورانی کے بارے میں بتاتا رہا کہ وہ کیسا تھا۔ اب کیسا ہوگیا ہے۔ کیتھی کے پلے کچھ نہ پڑا۔ وہ خاموشی سے ارسلان کی باتیں سنتی رہی۔
ژ
ارسلان نے طورانی کے گھر کی گھنٹی پر ہاتھ رکھا۔ تھوڑے توقف کے بعد اندر سے طورانی نکلا۔ بال بکھرے ہوئے، داڑھی بڑھی ہوئی۔ آنکھوں کے گرد ہلکے پڑے ہوئے۔ اپنی عمر سے زیادہ کا لگ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے کوئی روگ پال رکھا ہے۔ فلسفے اور شاعری میں جی لگا لیا ہے۔ یا پھر انقلاب پسند ہوگیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے ارسلان کے دماغ میں کئی سوالات نے جنم لیا۔ طورانی نے کہا، ’’کیا سوچ رہے ہو، اندر نہیں آؤ گے۔ کون سا تم پہلی دفعہ آرہے ہو‘‘۔ ارسلان اندر داخل ہوا۔ سامنے ارسلان کی امی بھی تھیں۔ اس نے سلام کیا۔ انھوں نے کہا، ’’بیٹے جیتے رہو۔ بہو کو ساتھ نہیں لائے‘‘۔ ’’نہیں امی، کئی سالوں بعد اپنے دوست سے مل رہا ہوں اس لیے سوچا اکیلے ہی گپ شپ لگائیں گے۔ اتنا کہہ کر ارسلان اور طورانی ڈرائنگ روم کی طرف چل دیئے۔ ارسلان نے صوفے پر بیٹھتے ہی پہلا سوال کیا، ’’بھئی وہ تمہاری جنیٹکس کا کیا حال ہے‘‘۔ طورانی نے کہا، ’’یہ باتیں بعد میں ہوں گی، بتاؤ چائے پیو گے یا کھانا کھاؤ گے‘‘۔ ’’یار طورانی، پہلے چائے پےؤں گا پھر کھانا کھاؤں گا اور پھر چائے پیؤں گا‘‘۔ اتنا سننا تھا کہ طورانی چائے کا کہنے چلا گیا۔ وہ جب واپس آیا تو ارسلان نے اپنا سوال پھر دہرایا۔ طورانی نے کہا، ’’یار جنیٹکس وغیرہ سب بکواس چیز ہے۔ مجھے اس سے بالکل لگاؤ نہیں‘‘۔ ’’اور وہ جنیٹیکل ڈیزیزز اور عادات کا کیا ہوا۔ سب ختم ہوگیا‘‘۔ ’’ہاں یار سب ختم ہوگیا۔ تم بتاؤ آسٹریلیا میں کیسا چل رہا ہے۔ مجھے پتا چلاتھاکہ تم پڑھنے گئے اور پھر تم نے شادی بھی کرلی‘‘۔ ’’ہاں یار بس سب کچھ بہت جلدی میں ہوا۔ تم بتاؤ تم نے شادی وغیرہ کی یا نہیں‘‘۔ ’’ہاں ہوئی بھی ہے اور نہیں بھی‘‘۔ ’’مطلب‘‘ ؟ ’’مطلب یہ کہ وہ کسی اور کو پسند کرتی ہے‘‘۔ ’’تو چھوڑ دو‘‘۔ ’’چھوڑ تو دوں لیکن وہ مجھے چھوڑ کے اس کے ساتھ شادی نہیں کرنا چاہتی، نہ ہی کرسکتی ہے بلکہ صرف دوستی رکھنا چاہتی ہے‘‘۔ ’’دوستی کیوں رکھنا چاہتی ہے۔ تم سے شادی کیوں کی تھی اگر کسی اور کو پسند کرتی تھی‘‘۔ ’’بس ارسلان کیا بتاؤں دوستی تو بہانہ ہے۔ اصل میں وہ اُسے
جنون کی حد تک پیار کرتی ہے۔ اس کی محبت میں پاگل ہے‘‘۔ ’’تمہارے گھر والوں کو پتا ہے‘‘۔ ’’ہاں سب کو پتا ہے‘‘۔ ’’تم نے کیا سوچا ہے‘‘۔ ’’کچھ سمجھ نہیں آتا۔ سوچتا ہوں اُس کو اُس کے حال پر چھوڑ دوں اور خود، خودکشی کرلوں‘‘۔ ’’تمہارے درمیان کوئی جسمانی تعلق بھی ہے یا‘‘ ؟ ’’تم جسمانی تعلق کی بات کرتے ہو، وہ مجھے قریب نہیں آنے دیتی۔ ہاتھ نہیں لگانے دیتی۔ کہتی ہے، مجھے مت چُھوا کرو، میں کسی اور کی امانت ہوں۔ میرے جسم کا ایک ایک حصہ اُس کا ہے‘‘۔ ’’اور وہ بھی اس سے اتنا ہی پیار کرتا ہے جتنا یہ کرتی ہے‘‘۔ ’’کرتا نہیں کرتی ہے‘‘۔

SARFRAZ BAIG, AREZZO, ITALY

No comments:

Post a Comment