Monday, June 17, 2013

پندرہواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG








۱۵

ہفتے کے دن نیائش صبح صبح میلانو چلا گیا۔ مجھے یہی بتا کر گیا کہ اس کا کوئی دوست آیا ہوا ہے۔ میں ناشتہ کرکے لائبریری چلا گیا۔ وہاں پے کافی دیر تک لکھتا رہا۔ میں نے سوچا اگر ثقلین ہوتا تو اس سے گپ شپ لگاتا لیکن وہ بھی کام پے تھا ۔ اریزو کی لائبریری کی ایک بات اچھی تھی کہ یہ دن کو بند نہیں ہوتی تھی۔ صبح کھلتی اور رات کو ساڑھے سات بجے بند ہوتی۔ اس لیئے مجھے اس بات فکر نہ ہوتی کہ لائبریری بند ہوجائے گی ۔ ورنہ اریزو میں دوکانیں ٹھیک ایک بجے بند ہوجاتی ہے۔ دوکاندار پونے ایک بجے ہی دوکان کی چیزیں سمیٹنی شروع کردیتے ہیں ۔ ٹھیک ایک بجے سارا بازار خالی ہوجاتا ہے۔ لوگ کھانا کھانے چلے جاتے ہیں۔ چار بجے دوکانیں پھر کھلنا شروع ہوتی ہیں ۔ بازار کی رونق دوبارہ دوبالا ہوجاتی ہے۔ ٹھیک آٹھ بجے دوکانیں بند ہوجاتی ہیں۔ کچھ دوکاندار تو دوکان ساڑھے سات بجے بھی بند کردیتے ہیں لیکن اریز و لائبریری میں اس طرح کی کوئی بات نہیں۔ میں جب لکھنے سے اکتا جاتا ہوں تو آدھے گھنٹے کے لیئے انٹر نیٹ پے بیٹھ جاتا ہوں۔ یہاں پے انٹر نیٹ کا استعمال آدھے گھنٹے کے لیئے مفت ہے۔ فوٹو کاپی بھی سستی ہوتی ہے۔ اب میں اس کہانی کے اختتام کی طرف آرہا تھا۔ اس کہانی کے
دوران میرا ثقلین سے بھی ایک عجب سا رشتہ پیدا ہوگیا تھا۔ مجھے نیائش کے اندر ایک عجیب سی تبدیلی محسوس ہورہی تھی لیکن میں نے سوچا شاید میرا وہم ہو۔ میں دوبجے کے قریب لائبریری سے نکلا۔ کورسو اطالیہ سے گزرتا ہوا گھر کی طرف آیا۔ اشارے(لال بتی) پے کھڑا تھا ۔مجھے ویالے میکل آنجلو (viale michel angelo)پارکرکے ویا وتوریو وینیتو (via vittorio venetto)پے جانا تھا۔ میں اشارے کا انتظار کررہا تھا کہ کب بتی سبز ہو اور میں سڑک پار کروں۔ کسی نے میرے کندھے پے ہاتھ رکھا۔ میں نے مْڑ کے دیکھا تو ثقلین تھا۔ میں نے کہا، ’’ثقلین تم ‘‘۔اب میں نے ثقلین کو صاحب کہنا چھوڑ دیا تھا اور اس نے بھی مجھے فرشتہ صاحب کہنا چھوڑ دیا تھا۔ کہنے لگا، ’’کہاں بھاگے جارہے ہو۔ میں تمہارے طرف ہی جارہا تھا۔ ایک تو تم موبائیل فون استعمال نہیں کرتا ورنہ تمہیں فون کردیتا۔ اس کہانی میں کوئی انکشاف ہوگا کہ تم موبائیل فون کیوں نہیں استعمال کرتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’شاید‘‘۔
’’تجسس رکھنا چاہتے ہو‘‘
’’کہہ سکتے ہیں‘‘۔ بتی ہمارے لیئے سبز ہوئی اور گاڑیوں کے لیئے لال۔ہم دونوں نے سڑک پار کی اور ایک اترائی کے بعد چڑھائی سی آئی کیونکہ اوپر سے ٹرین گزرتی ہے ۔ اب ہم دونوں ویا ویتوریو وینیتو پے تھے۔ ہم دونوں تیز تیز چل رہے تھے اور باتیں بھی کیئے جارہے تھے۔ مجھے بھوک بھی لگی ہوئی تھی اور چائے کی بھی طلب ہو رہی تھی۔ ہم دونوں جب ابالدی پاسقی(ubaldi pasqui) کے پاس پہنچے تو ثقلین کہنے لگا، ’’اگر کوپ سے روسٹ لے آؤں تو‘‘۔
میں نے کہا، ’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ویسے بھی بھوک بہت زوروں سے لگ رہی ہے‘‘۔
ثقلین کہنے لگا، ’’تم کوپ کی روسٹ کی ہوئی مرغی کھا لیتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کھانا تو نہیں چاہیئے لیکن اب ہم سے اس طرح کا رو
سٹ بنتا بھی تو نہیں‘‘۔
ثقلین بولا، ’’اگر میں ساتھ اپنے لیئے بیئر لے آؤں تو تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ‘’مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ بہت سے لوگ پیتے ہیں۔ ویسے بھی بیئر سے روسٹ کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے‘‘۔
ثقلین بولا، ’’تمہارے لیئے بھی لاؤں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نہیں پیتا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’جیسے تمہاری مرضی‘‘۔
ثقلین کوپ سے چکن روسٹ لینے چلا گیا اور میں گھر چلا آیا۔ جلدی سے فرائنگ پین چولہے پے رکھا۔ اس میں کوکنگ آئل ڈالا۔ ریفریجریٹر سے فروزن فنگر چپس نکالے ۔جتنی دیر میں ثقلین آیا میں فنگر چپس تیار کرچکا تھا۔ تھوڑا سا سلاد بنا دیا تھا۔ اس کے علاوہ تھوڑا سا
رائتہ بنایا ایک بڑی بوتل سپرائٹ کی رکھ دی۔ ثقلین دو روسٹ لایا تھا۔ ہم دونوں نے پیٹ بھر کے کھایا کیونکہ دونوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔ ثقلین نے توبیئر کے مزے لوٹے اور میں نے سپرائٹ سے ہی کام چلا لیا۔ اس کے بعد میں نے چائے
پی لیکن ثقلین نے چائے پینے سے انکار کردیا ۔ کہنے لگا، ’’سارا مزہ خراب ہوجائے گا‘‘۔
میں کہا، ’’کیسا تھا چودہواں باب‘‘۔
ثقلین بولا، ’’فرشتہ ایک عجیب سا نشہ ہے۔ ہر روز ایک نئی بات ، ایک نیا کردار ۔بہت دلچسپ ہے۔ میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ جب ختم ہوجائے گا تو کیا کروں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم کہہ رہے تھے اس کو چھپوائیں گے‘‘۔
وہ بولا ،’’ہاں ارادہ تو ہے۔ میں نے ایک دو لوگوں سے بات بھی کی
ہے۔ وہ کہتے ہیں پورا مسودہ پڑھ کے بتائیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر مرکزی خیال چوری ہوگیا تو کیا کریں گے‘‘۔
وہ بولا، ’’جو کچھ تم نے لکھ دیا ہے اتنا کچھ کوئی نہیں اکھٹا کرسکتا‘‘۔
میں نے محسوس کیا کہ بیئر پینے کے بعد ثقلین بہت اچھی گفتگو کرتا تھا۔ میں نے کئی لوگوں کو دیکھا ہے وہ چرس پے کے بہت اچھی باتیں
کرتے ہیں۔ بہت سارے شاعر اور ادیب چرس اور شراب کا سہارا لیتے ہیں ۔ مجھے سمجھ نہیں آتی وہ ہوش میں لکھتے ہیں یا نشے کی حالت میں لکھتے ہیں۔ میں تو دنیا کی تکلیفیں دیکھ کر ہی اتنا دکھی ہوتا ہوں کہ دل میں ان کو مٹانے کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔
ہم دونوں میں بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی اور شام کو ثقلین کو کسی کا فون آیا اور وہ مجھے سے اگلا باب لے کر چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں صبح اٹھا ،جب ناشتہ کرچکا تو میرا ارادہ تھا کہ ونٹرتھور جاؤں اور کہیں سے پتا کروں کہ ویسٹرن یونین کہا ں ہے یاکوئی ایسی دوکان یا فون سنٹر ہو جہاں سے میں جاکے پیسے
لے آؤں۔ ابھی میں اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ مجھے شیفر بلانے آیا۔ کہنے لگا، ’’اخبار والے آئے ہیں۔ وہ ازیل ہائم میں کسی کا انٹرویو کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
مجھے شیفر ،شنائیڈر سے بہتر لگتا کیونکہ اس کا بولنے کا انداز تھوڑا بہتر تھا۔کہنے لگا، ’’میرے خیال میں تم سے بہتر اس ازیل ہائم میں کوئی نہیں۔ اس کے علاوہ ایک نائیجرین لڑکا ہے وہ بھی پڑھا لکھا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اخبار والے کہاں ہیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’ہمارے آفس میں‘‘۔
میں جب کمرے میں گیا تو اندر سے وہ نائیجرین لڑکا نکل رہا تھا ۔میں اندر گیا تو ایک ہنس مکھ اور سنہرے بالوں والا لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے جاتے ہی جرمن زبان میں گٹ مارگن (Gut morgan) کہا یعنی صبح کا سلام ۔ وہ بڑا خوش ہوا کہنے لگا، ’’تمہیں جرمن زبان آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت کم ‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا نام پیٹر ہے۔ میں ونٹر تھور سے روزانہ ایک اخبار نکلتا ہے ،ڈیرلانڈ بوٹے (der landbote)اس کے لیئے کام کرتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ سبزواری ہے ۔میں پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں‘‘۔
ہم دونوں میں پندرہ منٹ گفتگو ہوئی۔ اس نے مجھے سے کئی سوال کیئے ۔ میں نے سوس کے بارے میں اسے بتایا۔ سوشل کے بارے میں اسے بتایا کہ مجھے بینک سے لیتے ہوئے کتنی شرم آرہی تھی۔ اس کے علاوہ مجھے یہاں کے سونے کا نظام پسند نہیں تھا اس بارے میں اسے بتایا۔ میں نے اسے اپنی ای میل آئی ڈی اور کہا کہ اگر ہوسکے تو جو بھی لکھو مجھے اس کی ایک کاپی میل کردینا۔ اس نے اپنا کارڈ دیا اور کہنے لگا۔ اس کارڈ پے میرا فون نمبر بھی ہے اور ای میل آئی ڈی بھی ۔تم نے اگر رابطہ کرنا ہوا تو مجھے خوشی ہوگی۔ وہ انٹرویو کرکے چلا گیا۔ شیفر مجھ سے پوچھنے لگا کیا بات چیت ہوئی ۔میں نے اسے بتایا کہ کل جب اخبار چھپے گا تو دیکھ لینا۔ وہ کہنے لگا۔ ہمارے بارے میں کوئی زیادہ تو نہیں بتایا۔ میں نے کہا، تمہیں اگر اتنا ڈر تھا تو مجھے نہ کہتے ۔اب تو میں سب کچھ کہہ چکا ہوں۔ وہ ہنس دیا۔ کہنے لگا، تم فکر نہ کرو۔
تم نے جو بھی کہا مجھے کوئی اعتراض نہیں ۔میں نے شیفر سے اجازت لی کیونکہ مجھے ونٹر تھور جاکے پیسے لینے تھے ۔پہلے تو یہ پتا کرنا تھا کہ پیسے کہاں سے لینا ہیں ۔ میں بنا کسی کو بتائے بس سٹاپ پے آیا کیونکہ ازیل ہائم میں بہت سارے ایسے بندے تھے جو چپکو قسم کے تھے۔ آپ اپنا کام جارہے ہیں اور وہ اپنا مسئلہ لے کے بیٹھ
جائیں گے۔
میں جیسے ہی ونٹرتھور پہنچا۔ میں نے ویسٹرن یونین کا دفتر ڈھونڈنا شروع کردیا۔ کسی کو کچھ نہیں پتا تھا۔ میں سٹڈ ہاوس سترازے پے چلتا ہوا لائبریری چلا گیا۔ وہا ں پے اپنی ہاوس وائس جمع کروائی۔ تین نمبر نیٹ خالی تھا۔ وہاں پے جاکے بیٹھ گیا۔ گوگل سرچ انجن کھولا۔ ویسٹرن یونین ٹائپ کیا، ساتھ ہی ونٹرتھور لکھا۔ ایک ایڈرس ملا۔ یہ جگہ سٹیشن کے بالکل پاس تھی۔ کوئی میل بوکس سینٹر تھا۔ میں نے کاغذ پے
پتا لکھا اور لائبریری کے کاونٹر پے جو عورت بیٹھی تھی اس سے اپنی ہاوس وائس واپس لی اور سٹڈ ہاوس سترازے پے چلتا ہوا باہن ہوف پلاتز پے آگیا۔ یہاں پے ایک ٹورسٹ انفاارمیشن سنٹر تھا۔اس کے سامنے میل بوکس سینٹر تھا۔ دن کے بارہ بجے ہوں گے۔ دھوپ بہت تیز تھی اور گرمی بھی بہت تھی۔ لیکن اس وقت مجھے کچھ محسوس نہیں ہورہا تھا صرف پیاس کی وجہ سے گلا خشک تھا۔ میں میل بوکس سنیٹر کے اندر داخل ہوا۔ وہاں کاونٹر پے ایک خاکستری (گرے) رنگ کی موچھو ں والا آدمی کھڑا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’بتے‘‘۔
میں نے د ل میں کہا بِتے کے بچے میں پیسے لینے آیاہوں۔ ا س نے جرمن میں کچھ کہا لیکن مجھے سمجھ نہ آیا۔ میں نے اسے انگریزی میں بتایا کہ میر ایہ نام ہے اور میرے نام دوسو پینتالیس فرانک اٹلی سے فلاں فلاں بندے نے بھیجے ہیں۔ اس نے میری ہاوس وائس الٹ پلٹ کی
دیکھی۔ مجھ سے کوڈ پوچھا ۔میں نے اسے کوڈ بتایا۔ اس نے ٹرے میں پڑے ہوئے مختلف کاغذ الٹ پلٹ کے دیکھے ۔مجھے یہی ڈر تھا کہ کہیں پیسے دینے سے انکا نہ کردیں۔ لیکن اس نے اپنی تسلی کرنے کے بعد میرے ہاتھ میں دو سو پینتالیس سوس فرانک تھما دیئے۔دو سوسو کے نوٹ تھے ۔دو بیس بیس کے نوٹ تھے ۔ایک وہی پانچ سوس فرانک کا سکہ تھا ۔میں نے پیسے جلدی سے جیب میں ڈالے اسے فیلن دانک کہا یعنی بہت شکریہ۔ سوس میں دانکے شن کے بجائے فیلن دانک کہنے کا رواج تھا ۔ ویسے بھی سوس جرمن مختلف تھی۔ میں میل بوکس سینٹر سے باہر نکلا۔ یہیں سے ایک روڈ پیچھے کی طرف جاتی تھی۔ میں اس پے ہولیا۔ چند قدم چلنے کے بعد مجھے سامنے میگرو ز کا پچھلا دروازہ نظر آیا۔ میں سلائیڈنگ ڈور سے اندر داخل ہوا۔ پہلی منزل پے کھانے پینے کی چیزیں تھیں ۔دوسری منزل پے کپڑ ے اور دیگر
گھریلوں چیزیں تھیں۔آخری منزل پے الیکٹرونک کا سامان تھا۔ جس میں ٹی وی، ریفریجریٹرز، کمپیوٹرز وغیرہ شامل تھے ۔یہیں پے ایک سیکشن موبائیل فونز کا بھی تھا۔ میں نے دوکان میں رکھے رنگ برنگی موبائیل فونز دیکھنے شروع کردیئے۔ مجھے ویسے تو موبائیل فون کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن جب میں اٹلی ایک سال رہا تو کچھ عادت سی
ہوگئی۔ اب یہاں سوس میں مجھے اس کی ضرورت تھی۔مجھے نوکیا موبائیل پسند تھا۔ یہاں بھی نوکیا فونز کی کافی ورائٹی تھی۔ میں نے گرے رنگ کا نوکیا فون پسند کیا۔ اس میں اورنج کمپنی کا کنکشن اور پانچ سوس فرانک کا کریڈٹ بھی تھا۔ میں نے یہا
ں پے کام کرنے والے ایک لڑکے کو کہا کہ مجھے یہ فون خریدنا ہے ،کیا تم مجھے یہ نکال کے دکھاسکتے ہوں۔ اس نے فوراًہاتھ میں چابی اٹھائی ۔اس الماری کو کھولا، جہاں نوکیا کا یہ گرے رنگ کا موبائیل پڑا ہوا
تھا۔ کہنے لگا،اگر تم نے اور بھی کوئی موبائیل دیکھنا ہوتا تو میں تمہیں دکھاسکتا ہوں۔ میں نے کہا نہیں مجھے یہی پسند ہے۔ اس نے کہا کاونٹر پے آجاؤ۔ میں کاونٹر پے آگیا۔ اس نے کا ونٹر کے نیچے سے ایک ڈبہ نکالا۔ اس نے ڈبہ کھول کے دکھایا۔ اس میں موبائیل فون تھا، موبائیل کا چارجر تھا اور ایک ہیڈ فون تھا اور ایک اورنج کمپنی کا پانچ سوس فرانک کا کارڈ تھا۔ میں چونکہ قیمت ایک دن پہلے دیکھ کر گیا تھا اس لیئے میں بنا پوچھے ہی دو سو سوس فرانک اس کے ہاتھ میں رکھ دیئے۔ اس نے رسید بنا کے میرے ہاتھ میں دے دی اور پلاسٹک کے لفافے میں موبائیل فون دے کے مجھے فیلن دانک کہا۔ میں موبائیل فون لیئے خوشی خوشی میگروز سٹور سے نکلا۔ میں نے سب سے پہلے فون بوکس ڈھونڈا۔ اب میرے پاس چھوٹے بڑے کئی سکے تھے۔ میں نے تین چار سکے فون بوکس کی اس جگہ ڈالے جہاں سکے ڈا
لتے ہیں۔ نیائش کا فون نمبر ملایا۔ میرا خیال تھا کہ وہ کھانے کے وقفے کے لیئے نکلا ہوگا۔ دوسری طرف سے آواز آئی ،’’پرونتویعنی ہیلو‘‘۔
میں نے کہا، ’’نیائش پیسے مل گئے ہیں۔ میں نے موبائیل فون بھی لے لیا ہے۔ میرا فون نمبر لکھو۔ ابھی یہ چلتا نہیں لیکن شام تک چل پڑے گا‘‘۔
میں نے نیائش کو اورنج کے کارڈ سے اپنا نیا فون نمبر لکھوایا۔ اس نے نمبر لکھ کے مجھے دوبارہ سنایا اور پھر کہنے لگا، ’’تم فون نہ کرنا میں ہی کیا کروں گا۔ جیسے ہی امیگریشن کھلے گی میں تمہیں بتادوں گا۔ تم واپس آجاناُ ۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔ فون بوکس میں پیسے ختم ہوگئے اور گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔
میں چاہتا تو اور سکے ڈال کر بات کرسکتا تھا لیکن مجھے بہت زور سے
بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں بس پے بیٹھ کے ازیل ہائم آگیا۔ میں جیسے ہی ازیل ہائم پہنچا سب نے میرے ہاتھ میں پلاسٹک کا لفافہ دیکھا تو پوچھنے لگے کہ کیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو پتا چلے لیکن موبائیل فون کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ اس کو میں چھپا کے کیا کرتا۔ میں ہال میں آیا، ڈبے سے موبائیل فون نکالا۔ اس میں اورنج کا فون کارڈ ڈال۔ اس کی بیٹری لگائی۔ پھر ا س کو چارجنگ پے لگا دیا۔ بدرالدین کہنے لگا،’’کچھ کھایا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ نہیں‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’رات کا سالن بچا ہوا ہے اور روٹی بھی ہے، کہو تو کھانا لادوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بدرالدین تمہارا بہت شکریہ۔ تم بہت اچھے انسان ہو۔ میں کھانا گرم کر کے کھا لوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’آج سے میں تم لوگوں سے علیحد ہ ہورہا ہوں۔ وہ گلبدین ہے نا اسے بالکل پسند نہیں ۔ویسے بھی اب ہم تین بنگالی ہوگئے ہیں۔ اور ہاں ایک انڈین لڑکا آیا ہے۔ گلبدین نے اسے اپنے ساتھ ملالیا۔ اب میں نے اپنا سامان بنگالیوں کی فرج میں رکھ دیا ‘‘۔
مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے کہا، ’’اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں اور ہاں جب کبھی زیورک گئے تو مجھے وہ کتاب ضرور دکھانا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں کون سا یہاں سے جارہا ہوں‘‘۔
خیر مجھے بھوک لگی ہوئی تھی۔ میں نے فرج سے کھانا نکالا۔ پیتا بریڈ کو پانی لگاکے فرائنگ پین میں گرم کیا۔ جلدی جلدی کھانا کھایا۔ جب تھوڑا پیٹ بھر گیا تو ایسا لگا جیسے ہوش آگیا ہوں۔ کھانے سے فارغ ہوا تو برتن وغیرہ سمیٹ کے رکھ دیئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں صبح بہت دیر سے اٹھا۔ ناشتہ کرکے ٹی وی روم میں آگیا۔ آج تیسری پوزیشن کے لیئے ترکی اور ساؤتھ کوریا کا میچ تھا۔ میری یہی خواہش تھی کہ ترکی جیت جائے۔ آج سن ۲۰۰۲ جون کی ۲۹ تاریخ تھی۔ ازیل ہائم میں جتنے بھی مسلمان لڑکے تھے وہ ترکی کے ساتھ تھے حتیٰ کہ کوسوا کے دو لڑکے بھی ترکی کے ساتھ تھے حالانکہ مجھے کوسوا کے لڑکے نے بتایا تھا کہ ترکوں نے ان پے بہت ظلم کیا تھا۔ ساؤ تھ کوریا کی ٹیم اچھی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ ترکی سے جیت جاتی۔ میچ شروع ہوا۔ دونوں ٹیموں نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ۔آخرکار میچ ختم ہوا۔ ترکی یہ میچ دو کے مقابلے میں تین گول سے جیت گیا۔ اس طرحُ پہلی دفعہ ایک مسلمان ٹیم فٹبال کے ورلڈ کپ میں تیسرے نمبر پے
آئی۔ سب لوگ بہت خوش تھے۔
میچ کے دوران میری ملاقات اس انڈین لڑکے سے بھی ہوگئی جو ہمارا نیا جوڑی دار بنا تھا۔ اس کا نام بلبیر سنگھ تھا۔ قد لمبا، رنگ گہنواں،سر پے کالے گھنے بال ۔اس نے کیس نہیں رکھے ہوئے تھے اس لیئے سر پے سکھوں والی پگڑی بھی نہیں تھی۔ مجھے کہنے لگا، ’’جب میچ ختم ہوجائے تو ونٹرتھور چلیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے بھی جانا ہے ، کیونکہ میں نے ایک دو چیزیں لینی ہیں‘‘۔
میں نے موبائیل فو ن چارجنگ پے لگایا ہوا تھا۔ میں نے موبائیل ازیل ہائم کے کسٹودین کو دے دیا۔ آج سولیون کی ڈیوٹی تھی۔ اس نے موبائیل فون جاکے کمرے میں رکھ دیا۔ ہم دونوں بس سٹاپ پے آئے۔ بس کا انتظار کرنے لگے۔ باہر ایک عجیب قسم کا سماں تھا۔
ایسا لگتا تھا کوئی جشن ہے۔ ہر طرف ترکی کی جھنڈے لہرا رہے تھے ۔مجھے آج پتا چلا کہ ونٹرتھور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کتنے ہی ٹرکش لوگ رہتے ہیں ۔ہم دونوں جب ونٹرتھور پہنچے تو سٹیشن پے بھی نوجوان لڑکے ترکی کے جھنڈے لیئے کھڑے تھے۔ خیر میں اور بلبیر ان لوگوں کی پرواہ کیئے بغیر مارکیٹ گاز سترازے پے آگئے ۔میں جب سے سوس آیا تھا میں نے انڈرویئر پہننا چھوڑ ہی دیا تھا۔ چھوڑ کیا دیا تھا پاس تھا ہی نہیں ۔جو انڈرویئر میں پہن کے آیا تھا وہ وہاں کرائس لنگن میں جب گندہ ہوا تھا تو پھینک دیا تھا۔ میں اور بلبیر ایک دفعہ پھر میگروز سٹور میں داخل ہوئے۔ میں چونکہ ایک دفعہ پہلے بھی آچکا تھا اس لیئے مجھے اس سٹور کے بارے میں پتا تھا۔ میں نے اپنے لیئے تین انڈر ویئر لیئے ۔بلبیر نے دو ٹی شرٹس لیں۔ جرابیں لیں۔ جب ہم دونوں خرید و فروخت سے فارغ ہوگئے تو میں نے
بلبیر سے کہا، ’’آؤ تمہیں ایک جگہ لے کر چلتاہوں‘‘۔
کہنے لگا ، ’’چلو میرے کون سا بچے رو رہے ہیں ‘‘۔ میری بلبیر سے یہ پہلی ملاقات تھی لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ہم ایک دوسرے کو بہت عرصے سے جانتے ہوں۔ میں بلبیر کو مختلف راستوں سے گھماتا ہوا لاگر سترازے پے لے آیا۔ یہاں پے لاگر ہاؤس پے میرا خیال تھا کپوچینوں پیئیں گے کیونکہ یہاں چیزیں بہت سستی تھیں۔ ہم دونوں جیسے ہی لاگر ہاؤس میں داخل ہوئے،مجھے ایسے لگا جیسے سارے مجھے دیکھ رہے ہوں۔ جب میری نوٹس بورڈ پے نظر پڑی تو وہاں اخبار کی کٹنگ لگی ہوئی تھی۔ ا س میں میری اور اس نائیجیرین لڑکے تصویر لگی ہوئی تھی اور جرمن زبان میں کوئی مضمون لکھا ہوا تھا۔ اب مجھے سمجھ آئی کہ پیٹر جو انٹرویو کرکے گیا تھا وہ چھپ گیا ہے۔ بلبیر کہنے لگا، ’’بیرا تم تو چھا گئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’مہاراج یہ سب آپ کی آمد کا اثر ہے‘‘۔
ہم دونوں لاگر ہاؤس کی کافی شاپ میں داخل ہوئے۔ کاؤنٹر پے آج کوئی اور لڑکی تھی لیکن تھی کسی افریقی ملک کی۔ اس کے بال بہت ہی خوبصورت تھے۔ اس طرح کے گھنگھریلالے بال میں آج تک نہیں دیکھے تھے۔ خیر میں نے اس کو دو کپوچینو ں کا کہا اور ساتھ دو مفن بھی۔ اسنے چند لمحوں میں کافی مشین سے دو کپوچینوں بنادیں ۔اس کے بعد دودھ کی جھاگ بناکے اس کے اوپر ڈال دی۔
میں نے کہا، ’’لو جی بلبیر صاحب کپوچینوں تیار ہوگئی‘‘۔
بلبیر کہنے لگا، ’’بیرا یہ تو جشن ہوگیا۔ پہلا اور آخری‘‘۔
میں نے کہا، ’’و ہ کیوں‘‘۔
وہ بولا، ’’وہ ا س لیئے کیونکہ میں کل سے کام پے جارہا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن ہمیں تو کام کی اجازت ہی نہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’اجازت تو نہیں لیکن مجھے کام مل گیا۔ میں نے تمہیں بتایا نہیں ،میرے زیورک میں دو چاچے رہتے ہیں۔ انہوں نے میرے لیئے زیورک میں لانگ سترازے پے کسی سردار کی دوکان پے کام ڈھونڈ لیا ہے۔ گھر کی بات ہے‘‘۔
میں نے کہا ،’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔کام کے اوقاتِ کار کیا ہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’صبح ناشتہ کرکے چلا جایا کروں گا۔ رات کو دیر سے آیا کروں گا۔ ویسے تو میں چاچے کے گھر بھی سو سکتا ہوں لیکن ازیل ہائم والے کنٹرول کرتے ہیں۔ جب تک پکی کرائس نہیں مل جاتی تب تک یہیں رہوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ تمہیں آتے ساتھ ہی کام مل گیا‘‘۔
کہنے لگا ،’’اگر تم نے کرنا ہے تو بتاؤ ۔میں اپنے چاچے سے بات کروں گا کوئی نا کوئی کام ڈھونڈ دے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’نہیں میں یہاں چھٹیاں منانے آیا ہوں‘‘۔
بلبیر بولا، ’’جیسی تمہاری مرضی‘‘۔
کپوچینوں ختم ہوئی تو میں نے کہا، ’’اب کیا ارادہ ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہاں ونٹرتھور میں کوپ نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں تو میگروز سٹور ہے۔کوپ تو کہیں بھی نہیں دیکھا‘‘۔
وہ بولا، ’’کوپ سے کھانے پینے کی چیزیں ستی ملتی ہیں لیکن تم تو وہاں کا گوشت نہیں کھاوگے۔زیورک میں حلال گوشت ملتا ہے۔یہاں کا مجھے پتا نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجبوری میں جائز ہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’چلو کسی سے پوچھو کہ کوپ کہاں ہے ۔اگر ہے تو وہاں سے
کچھ پکانے کے لیئے لے چلتے ہیں‘‘۔
میں نے کافی شاپ سے ہی ایک افریقن سے پوچھا تو کہنے لگا، ایک تو سٹیشن کے نیچے ہے اور دوسرا سٹیشن کی پچھلی طرف ہے۔ گوشت وغیرہ اسی سے ملتا ہے۔ جو سٹیشن کے نیچے ہ وہ چھوٹا سٹور ہے۔ وہاں پے اتنا کچھ نہیں ہوتا۔
میں نے بلبیر کو بتایا کہ سٹیشن کی پچھلی طرف کوپ ہے۔ تو وہ کہنے لگا چلو وہاں چلتے ہیں۔ ہم دونوں ونٹرتھور ریلوے سٹیشن کے سب وے سے گزر کے سٹیشن کی دوسری طرف چلے گئے۔ چند قدم چلنے کے بعد ہمیں ایک چار منزلہ جدید طرز کی عمارت نظر آئی۔ اس کے باہر جرمن زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ ہم دونوں گھومنے والے دروازے سے اندر داخل ہوئے۔ گراؤنڈ فلور پے کوپ تھا۔ میں تو اتنا نہیں جانتا تھا لیکن بلبیر نے مجھے بتایا کہ یہاں پے چیزوں کی قیمت میگروز سے کم ہے۔
ہم نے بیس سوس فرانک کی خرید و فروخت کی۔ ہمارے دونوں ہاتھوں میں پلاسٹک کے تھیلے۔ ہم دونوں بڑی مشکل سے بس سٹاپ تک پہنچے۔ بس آئی تو اس میں سوار ہوئے۔ ہمیں بس میں گلبدین بھی مل گیا ۔وہ روز کہیں چلا جاتا تھا۔ اس نے ہمارے ہاتھ میں تھیلے دیکھے تو کہنے لگا، ’’تم لوگ خرید وفروخت کرکے آئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم تو بڑے ذہین ہو۔ تمہیں ایک دم کیسے پتا چل گیا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہارے ہاتھ میں تھیلے جو اٹھائے ہوئے ہیں‘‘۔
بلبیر دوسری طرف منہ کرکے ہنسنے لگا۔ میں نے کہا، ’’تم نے اس بنگالی کو کیا کہا ہے۔ وہ علیحدہ ہوگیا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاؤس ماسٹر نے کیا۔ شنائیڈر کہہ رہا تھا تین بنگالی ہیں تو ایک طرف ہوجائیں اور اس انڈین کو تم اپنے ساتھ ملا لو۔ میں نے ہاں کردی‘‘۔
میں نے کہا، ’’خیر جو بھی ہوا اچھا ہوا۔ ہم بیس سوس فرانک کا سامان لائے ہیں ۔تمہارے حصے میں سات سوس فرانک آئے ہیں۔ تم ازیل ہائم جاکے ہمیں دے دینا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں کل زیورک سے جاکے مصالحے لے آؤں گا‘‘۔
بلبیر کہنے لگا، ’’خان صاحب جیسے آپ کی مرضی۔ ویسے ایک بات پوچھوں آپ لانگ سترازے پے کیا کررہے ہوتے ہیں‘‘۔
گلبدین کا رنگ ایک دم پیلا پڑ گیا۔ کہنے لگا، ’’وہ میں ویسے ہی ایک دن گیا تھا‘‘۔
بلبیر بولا، ’’میں نے آپ کو کئی دفعہ وہاں دیکھا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ لانگ سترازے کہاں ہے‘‘۔
بلبیر بولا، ’’یہ زیورک کی مشہور گلی ہے۔ یہاں پے بہت ساری دوکانیں ہیں۔ سیکس شاپس ہیں، پیپ شوز کے سنٹر ہیں۔ ایک طرح کی ہیرا منڈی ہے‘‘۔
گلبدین کو چپ لگ گئی۔ اوور بیول آیا تو ہم نے دو تھیلے گلبدین کو پکڑائے ۔وہ سر جھکائے ہمارے ساتھ ازیل ہائم کی طرف چل دیا۔ازیل ہائم کے باہر دو بندے کھڑے تھے۔ انہوں نے جیسے ہی گلبدین کو دیکھا تو کہنے لگے، ’’آج تو بڑی شاپنگ کی ہے‘‘۔ وہ کہنے لگا، ’’جی شاہ صاحب ‘‘۔
اس نے تھیلے ہمیں پکڑائے اور کہنے لگا، ’’یہ میرے مہمان ہیں ۔دوسری ازیل ہائم سے آئے ہیں ۔میں نے ان کو دعوت دی تھی‘‘۔
بلبیر بولا،’’ان سے پوچھو کے کھانا کھائیں گے یا چائے پیئیں گے‘‘۔
میں نے آگے جاکے ان دونوں کو سلام کیا۔ شاہ صاحب کے سر پے بال بالکل نہیں تھے۔ صرف ایک جھالر سی تھی۔ ہلکی ہلکی مونچھیں سی رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا، ’’شاہ جی ویسے تو
کھانے کا وقت ہے لیکن آپ لوگوں کا کیا دل چاہ رہا ہے‘‘۔
انہوں نے جواب دیا، ’’کھانا ہم کھا کے آئیں ہیں اور کسی چیز کی طلب نہیں‘‘۔
میں اور بلبیر اندر چلے گئے۔ گلبدین ازیل ہائم کے باہر ہی اپنے مہمانوں کے پاس رک گیا۔ میں نے اندر جاکے بلبیر سے کہا، ’’یہ گلبدین بھی عجیب آدمی ہے۔ بندوں کو دعوت پے بلا لیتا ہے اور خود غائب ہوجاتا ہے‘‘۔
بلبیر بولا، ’’بہت بیوقوف آدمی ہے ‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے اسے لانگ سترازے پے دیکھا ہے۔ تم وہاں کیا کررہے تھے‘‘۔
وہ بولا، ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسے وہاں دیکھا ہی نہیں۔ میں نے ویسے ہی بات کی تھی اور رہی بات میں وہاں کیا کررہا تھا۔ میں
نے تمہیں بتایا تھا کہ میں کل کام پے جاؤں گا۔ میں جس دوکان پے کام کرنے جارہا ہوں وہ لانگ سترازے پے ہی ہے۔ میں خود وہاں کئی دفعہ گیا ہوں۔میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے سے پہلے کئی مہینے اپنے چچا کے گھر زیورک رہاہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’خیر اب کیا کریں۔ کچھ ہلکا پھلکا بناتے ہیں۔ ان مہمانوں کو بھی پیش کرتے ہیں اور خود بھی کھاتے ہیں ‘‘۔
بلبیر بولا، ’’میں پکوڑے بناتا ہوں اور تم چائے بناؤ‘‘۔
میں نے کہا، ’’بہت اچھا خیال ہے‘‘۔
ہم دونوں کچن میں چلے گئے۔ بلبیر نے بہت سا مصالحہ بنایااور فرائنگ پین میں پکوڑے تلنے لگا۔ اس نے پلیٹ میں اخبار رکھا اور پکوڑے تل تل کے اس پلیٹ میں رکھتا گیا۔ میں نے بعد میں چائے بنائی۔ جب سارا کچھ تیار ہوگیا تو فرج سے کیچپ اور میونیز نکالی۔ پھر
میں گلبدین اور اس کے مہمانوں کو بلانے چلا گیا۔ وہ بڑے حیران ہوئے۔ شاہ صاحب بولے، ’’اس کی کیا ضرورت تھی‘‘۔
خیر وہ تینوں ازیل ہائم میں داخل ہوئے۔ میز پے پلیٹیں ،کوک ،پلاسٹک کے گلاس ،پکوڑے ،چائے دیکھ کے بہت خوش ہوئے‘‘۔
گفتگو کے دوران پتا چلا کہ دوسرا بندہ انڈین ہے۔ اس کانام کرپال سنگھ ہے۔ وہ کہنے لگا، ’’میں نے اپنی ساری زندگی میں اتنے اچھے پکوڑے کبھی نہیں کھائے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آپ کے سردار جی نے بنائے ہیں‘‘۔
دونوں نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کون سے شہر کے ہیں ،کون سے گاؤں کے ہیں۔ بلبیر تو بٹالہ کا تھا اور کرپال سنگھ کا تعلق جس جگہ سے تھا اس جگہ کا نام بڑا عجیب ساتھا۔ نوا ں شہر۔ لیکن دونوں چندی گھڑ کے تھے۔ کرپال سنگھ بولا، ’’اب آپ دونوں نے ہمارے ہاں آنا ہے۔ میں جلیبیاں بہت اچھی بناتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا،’’گلبدین کو نہیں بلایا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’یہ تو کئی دفعہ کھا چکا ہے۔یہ روز صبح ہمارے ہاں آجاتا ہے‘‘۔
میں نے گلبدین کی طرف دیکھا۔ یہ دوسرا انکشاف تھا۔ پہلے لانگ سترازے کا پتا چلا اب کرپال نے یہ نئی بات بتائی تھی۔ میں نے گلبدین کی طرف دیکھا اور کہا، ’’اس کا مطلب ہے گلبدین تم لوگوں کے مہمان بنتے رہتے ہو۔ اس دن تم بس سے اتر گئے تھے۔ وہ اندستری بس سٹاپ سے جو ازیل ہائم نظر آتی ہے ۔وہاں کسی کے ہاں دعوت پے گئے تھے‘‘۔
شاہ صاحب اور کرپال دونوں بہت زور سے ہنسے۔ میں نے کہا، ’’کیا میں نے کوئی غلط بات کہہ دی‘‘۔
شاہ صاحب بولے، ’’اس نے ہمیں دعوت کے بارے میں بتایا تھا۔ یہ پاکستانیوں کا نام بدنام کررہا ہے۔ میرا مطلب ہے افغانیوں کا‘‘۔
میں نے کہا، ’’چھوڑیں شاہ صاحب اس کی عادت ہے‘‘۔
شاہ صاحب بولے، ’’اب ہمیں چلنا چاہیئے کیونکہ ونٹرتھور سے جو آخری ٹرین جاتی ہے وہ ہماری ازیل ہائم بھی رکتی ہے اگر وہ نکل گئی تو آپ کے پاس سونا پڑے گا۔ ہمارا ہاوس ماسٹر بھی شور کرے گا‘‘۔
وہ دونوں اٹھے۔ گلبدین بھی ان کے ساتھ ہولیا۔ اس بیچارے کے ساتھ اوپر تلے عجیب و غریب واقعات پیش آئے تھے۔ وہ کہنے لگا، ’’میں انہیں ونٹرتھور چھوڑ کے آتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’اپنی دوائی بھی لیتے آنا‘‘۔
گلبدین نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں تو ازیل ہائم کے ہال میں بیٹھ گیا لیکن بلبیر اپنے کمرے میں جاکے سو گیا ۔میں نے تھوڑ ی دیرٹی وی
دیکھا۔ پھر ہاوس ماسٹر سے اپنا موبائیل فون لیا۔ اب تک چارج ہوچکاتھا ۔ویسے تو اس کو چوبیس گھنٹے تک چارجنگ پے لگانا چاہیئے تھا لیکن میں نے اس کو آن کردیا۔ جیسے ہی آن کیا تو تین چار میسجز اوپر تلے آئے۔ میں نے میسجز پڑھے لیکن کچھ سمجھ نہ آیا۔ میں نے ہاوس ماسٹر کو دکھائے تو کہنے لگا۔ تمہارا اورنج کا کارڈ چل پڑا ہے۔ اب تم اس پے کالز سن سکتے ہو اور کال کربھی سکتے ہو۔میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور سب سے پہلے نیائش کو اس فون سے میسج کیا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا فون آگیا۔ لیکن آواز کٹ کٹ کے آرہی تھی۔ میں ازیل ہائم سے باہر نکل گیا لیکن بات نہ ہوسکی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ۳۰ جون ۲۰۰۲ کو برازیل اور جرمنی کا فٹبال کا فائنل تھا۔ ازیل ہائم میں جتنے بھی لوگ تھے سب برازیل کے ساتھ تھے لیکن سوس لوگ
جرمنی کے ساتھ تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ورلڈ کپ یورپ میں ہی رہے حالانکہ سوس لوگ جرمنی کو اتنا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ورلڈ کپ کی وجہ سے وقتی طور پے ان کا نظریہ بدل گیا تھا۔ ہم سارے لوگ ٹی وی روم میں جمع تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ بلبیر تو صبح ناشتہ کرکے کام پے چلا گیا تھا۔ گلبدین کو فٹبال سے کوئی لگاؤ نہیں تھا حالانکہ افغانی لوگ فٹبال پسند کرتے ہیں لیکن وہ ناشتہ کرکے روزکہیں چلا جایا کرتا آج بھی وہ چلا گیا۔ہم لوگ سارا دن ٹی وی پے مختلف نشریات دیکھتے رہے دوپہر کا کھا نابھی اسی طرح چلتے پھرتے کھایا۔ جب میچ شروع ہوا تو ایسا لگتا تھا جیسے ازیل ہائم میں کوئی بھی موجود نہیں ۔وہ ٹی وی روم جہاں ہر وقت ریموٹ کنٹرول پے لڑائی جھگڑا رہتا تھا آج امن کا گہوارہ بنا ہوا تھا۔ گورے، کالے، پیلے نیلے ہر رنگ و نسل کے لوگ اس میچ کو دیکھ رہے تھے۔ پورے میچ
میں برازیل کا پلڑا بھاری رہا۔ جرمنی کے کھلاڑیوں کے کھیل سے ایسے لگتا تھا جیسے وہ ذہنی طور پے ہارے ہوئے ہیں۔ جب برازیل نے پہلا گول گیا تو جرمنی نے گول برابر کرنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کوئی کوشش کارگر ثابت نہ ہوئی۔ جب برازیل نے دوسرا گول کیا ،پھر تو جرمنی کے حوصلے بالکل پست ہوگئے۔ جب میچ ختم ہوا تو ایسا لگتا تھا جیسے جرمنی میچ نہ ہارا ہو بلکہ ساؤتھ امریکہ نے پورے یورپ کو شکست دے دی ہو۔ حالانکہ برازیل کے لیئے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ اس سے پہل بھی چار دفعہ ورلڈکپ جیت چکے تھے۔ یہ پانچویں دفعہ تھی جو وہ فٹبال کا ورلڈ کپ جیت رہے تھے۔
میچ ختم ہو ا تو ازیل ہائم میں کھانے پینے کادور چلنے لگا کیونکہ میچ کے دوران کچن کی طرف کم ہی لوگوں نے رخ کیا تھا۔ میں نے ایک کپ چائے بنائی کیونکہ نہ گلبدین موجود تھا نہ ہی بلبیر۔چائے پی کے میں
ازیل ہائم سے نکلا۔ بس پے بیٹھ کے ونٹر تھور نکل گیا۔ مارکیٹ گاز سترازے پے بہت رونق تھی۔ ریستورانوں کے باہر کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ جگہوں پے برازیل کے جھنڈے لگے ہوئے تھے۔ میں نے مارکیٹ گازسترازے پے چلنا شروع کردیا۔ شروع میں ریستوران تھے اس کے بعد مختلف قسم کی دوکانیں شروع ہوگئیں۔ چلتے چلتے میری نظر ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی پے پڑی ۔اس نے سنہرے بال ہوا میں لہرا رہے تھے۔ ا س رنگ برنگی پھولوں والا کاٹن کا فراک نماں کچھ پہنا ہوا تھا۔ یہ فراک نماں چیز اس کے گھٹنوں سے اوپر تھی۔ اس کی خوبصورت ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔ پاؤں میں اس نے ہوائی چپل پہنی ہوئی تھی۔ میں جب قریب پہنچا تو مجھے وہ کچھ جانی پہنچانی سی لگی۔ میں ذہن پے زور دینے لگا کہ اس کو کہاں دیکھا ہے۔ اس نے جب مجھے دیکھا تو مسئلہ خود ہی حل ہوگیا۔ کہنے لگی، ’’اگر میں
غلط نہیں ہوں تو تم وہی ہو نا جس کا دیر لانڈ بوتے میں کل انٹرویو آیا تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں میں وہی ہوں اور تم کرائس لنگن میں نرس کا کام نہیں کرتی‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاں مجھے یاد ہے ابھی چند دن پہلے تو تم وہاں سے آئے ہو،میں یہ کیسے بھول سکتی ہوں۔ تمہارا انٹرویو بہت اچھا تھا۔ تم نے جن مسائل کے بارے میں ذکر کیا ہے وہ بالکل درست ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم یہاں پے کیا کررہی ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں یہاں رہتی ہوں۔ کام کے لیئے روز کرائس لنگن جانا پڑتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک بات پوچھوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’پوچھو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں قریباًدس یا گیارہ دن کرائس لنگن ازیل ہائم رہا ہوں ۔میں ہمیشہ یہی سوچتا تھا کہ جہاں ہم رہ رہے ہیں یہ ریڈ کراس کاکوئی سنٹر ہے۔ کیا یہ درست ہے‘‘۔
کہنے لگی ،’’تمہارا اندازہ بالکل درست ہے۔ یہ جگہ ریڈ کراس والوں نے دوسری جنگِ عظیم میں بنائی تھی۔پہلے ریڈ کراس والوں کے پاس تھی بعد میں ازیل ہائم والوں کے استعمال میں آگئی۔ پہلے اتنے لوگ نہیں ہوتے تھے۔جب بندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو گارنیگے ہوٹل کو بھی مہاجرین کے لیئے استعمال کیا جانے لگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک اور بات‘‘۔
کہنے لگی، ’’کہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں اپنا موبائیل فون باہن ہوف سترازے پے ایک انٹرنیٹ کیفے ہے وہاں بھول آیا ہو۔ تم وہاں روز جاتی ہو۔ اگر تمہارا
اس نیٹ کیفے کے سامنے سے گزر ہو تواس آدمی سے پوچھنا کہ وہ موبائیل کہاں ہے۔ اگر اس نے وہ موبائیل فون پھینکا نہیں تو مجھے وہ بھیج دینا۔ ڈاک کا خرچہ میں دے دوں گا۔موبائیل اتنا قیمتی نہیں لیکن اس میں کچھ ضروری نمبر محفوظ ہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں ضرور جاؤں گی ۔اگر اس کے پاس موبائیل فون ہوا تو تمہیں پارسل کردوں گی۔ پیسوں کی تم فکر نہ کرو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک آخری بات‘‘۔
کہنے لگی، ’’کہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر تمہیں برا نہ لگے تو میرا ساتھ ایک کپ کافی پینا پسند کرو گی‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں ضرور پیتی لیکن اس وقت میں ذرا جلد ی میں ہوں۔ میری بیٹی اور میرا خاوند ،وہ دونوں سٹیشن پے میرا انتظار کررہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم سے مل کے بہت اچھا لگا۔تم مجھے اس لباس میں بہت اچھی لگیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ خوبصورت سی لڑکی کون ہے‘‘۔
اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اورمسکراء کے آگے چل دی۔
میں کبھی ایک گلی میں جاتا کبھی دوسری گلی۔ ایک گلی میں ایک بہت خوبصورت چرچ تھا۔ اس کے باہر لکھا ہوا تھا سٹڈ کرخے یعنی سٹی چرچ ۔اس کے اندر داخل ہوا۔ میں چونکہ اٹلی سے آیا تھا۔ وہاں پے مصوری اور فریسکوز کے اتنے اچھے نمونے دیکھ چکا تھا اس لیئے مجھے یہ چرچ بالکل پسند نہ آیا۔ نہ ہی اس کا فن تعمیر مجھے متاثر کرسکا۔ میں چرچ سے باہر آیا۔ ایک طرف ایک جدید طرز کی کیفے تھی۔ میں باہر پڑی ہوئی کرسیوں پے بیٹھ گیا۔ میں نے کپوچینو ںآرڈر کی ۔ ایک دبلا پتلا سا لڑکا اس نے جینز پہنی ہوئی تھی،اوپر سفید قمیص پہنی ہوئی تھی۔ سامنے کالے رنگ کا ایپرن باندھا ہوا تھا۔ اس نے ٹرے سے اٹھا کے
کپوچینوں میرے سامنے رکھی۔ ساتھ ہی بل بھی ۔ میں نے اس کے جانے کا انتظار کیا۔ جب وہ چلا گیا تو بل اٹھا کے دیکھا۔ پانچ سوس فرانک ۔یعنی ساڑھے تین یورو کی کپوچینوں۔ اتنی مہنگی۔ وہاں اٹلی میں بہت بھی مہنگی ہو تو دو یورو کی لیکن عام کیفے شاپس پے ایک یا ڈیڑھ یورو کی تھی۔ ساڑھے تین یورو تو بہت زیادہ تھے اور میری تو کمائی بھی ہفتے میں پینتالیس سوس فرانک یعنی تیس یورو۔ خیر میں اپنی مرضی سے یہاں بیٹھا تھا اس لیئے کپوچیوں پی اور بل ادا کرکے یہاں سے اٹھ گیا۔ لیکن آئندہ سے توبہ کرلی کہ یہاں کبھی نہیں آؤں گا۔ ویسے کیفے شاپ تھی بڑی سٹائلش۔ اس کا نام بھی مختلف تھا ،’کیفے ساتز‘‘۔ میں نے کیفے شاپ کے مالک سے اس کا مطلب بھی پوچھا تھا۔ اس نے بتایا تھا جب کافی ختم ہوجاتی ہے تو اس کا جو تھوڑا سا حصہ پیالی میں رہ جاتا ہے اس کو جرمن زبان میں ساتز کہتے ہیں۔ میں نے سوچا یہ کیفے ساتز کی بھی اچھی رہی۔ یہاں سے اٹھا تو ازیل ہائم کی راہ لی۔ ایک بات اچھی ہوئی کیتھرین سے ملاقات ہوگئی ۔ کیتھرین اس لباس میں کتنی اچھی لگ رہی تھی ۔وہاں کرائس لنگن میں نرس کے لبا س میں اور طرح لگ رہی تھی۔ میں اوور بیول جب پہنچا تو ازیل ہائم کے باہر گلبدین ،شاہ صاحب اور کرپال سنگھ کے ساتھ بیٹھا بیئر پی رہاتھا۔ شاہ صاحب کے ہاتھ میں تو سیون اپ کا ٹن تھا لیکن کرپال سنگھ اور گلبدین بیئر پے رہے تھے۔ میں نے کہا، ’’گلبدین کیا نئی تازی ہے۔کچھ کھانے کو بنا یا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ابھی زیورک سے آیا ہوں۔ وہاں سے مصالحے بھی لایا ہوں۔ اس کے علاوہ سبز مرچیں اور ہرا دھنیاء بھی لایاہوں ‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ بناؤں۔بہت بھوک لگی ہوئی ہے ‘‘۔
کہنے لگا ،’’دال بناتا ہوں۔مرچے اور ہرا دھنیاء میں اسی لیئے لایا
ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہماری فرج میں مرغی کا گوشت اور بکرے کا گوشت بھی پڑا ہوا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں ہلال گوشت کھاتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بیئر بھی ہلال پیتے ہو‘‘۔
شاہ صاحب کہنے لگے ، ’’فرشتہ صاحب چھوڑیں اس کو آپ بتائیں کہاں سے آرہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ونٹرتھور گیا تھا۔ وہاں سے ایک کیفے سے کپوچینوں پی ۔غضب خدا کا ،پانچ سوس فرانک کی ایک کپوچینوں۔ اتنی مہنگی،یہ تو سراسر ظلم ہے‘‘۔
وہ بولے ،’’آپ کو کس نے کہا تھا کے کپوچینوں پیئیں۔یہاں تو چیزیں اتنی مہنگی ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا دل چاہ رہا تھا۔ اس کیفے پے بیٹھ گیا‘‘۔
کرپال سنگھ بولا، ’’آپ جلیبیاں کھانے کب آرہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’جب گلبدین آپ کے ہاں لے آیا‘‘۔
ہم لوگ گپ شپ لگاتے رہے اور گلبدین دال بنانے چلا گیا۔ اس نے بہت جلدی دال بنا لی۔ میں نے آٹا گوندھا۔ کرپال سنگھ کہنے لگا، ’’روٹیاں میں بناؤں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں پے کسی پے کوئی پابندی نہیں‘‘۔
اس طرح کرپال نے آٹے کے چھوٹے چھوٹے سے پیڑے بنائے ۔اس نے اتنی اچھی روٹیاں بنائی کہ میں حیران رہ گیا۔ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس طرح کی روٹیاں نہیں دیکھی تھیں۔ ہر روٹی اتنی پھولتی جیسے اس میں کسی نے اس میں ہوا بھر دی ہو۔
میں نے کہا، ’’مہاراج میں نے ایسی روٹی پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ آپ
نے ایسی روٹی بنانی کس سے سیکھی ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’میں نے اپنے ماں سے سیکھی ہے۔ آج کل کی عورتیں تو نری کھوتیاں ہیں۔ ان کو روٹی بنانی ہی نہیں آتی۔ اصل روٹی تو اس کو کہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’بالکل صحیح کہہ رہے ہیں آپ‘‘۔
ہم سب نے پیٹ بھر کے روٹی کھائی ۔اس کے بعد چائے کا دور چلا۔
کرپال بولا، ’’اب آپ نے جلیبیاں کھانے ضرور آنا ہے۔ہم دو دفعہ آپ کے ساتھ کھانا کھا چکے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بازہ تو نہیں چڑھانا ہوتا لیکن میں جلیبیاں کھانے ضرور آؤ ں گا۔ آپ روٹی اتنی اچھی بناتے ہیں تو جلیبیاں تو اس سے بھی زیادہ مزیدار بناتے ہوں گے‘‘۔
شاہ صاحب بولے،’’ہم لوگ چلتے ہیں ۔ورنہ ہماری جلیبی بن جائے
گی۔ آج اتوار ہے۔ آج بسیں بھی کم ہیں اور ٹرینیں بھی کم‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں آپ کو نہیں روکتا ‘‘۔
کرپال سنگھ اور شاہ صاحب چلے گئے لیکن کرپال سنگھ کی بنائی ہوئی روٹی مجھے نہ بھولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے کرائس لنگن چھوڑے چند دن ہوئے تھے لیکن ایسا لگتا تھا جیسے بہت عرصہ گزر گیا۔ سوموار کو میں صبح لائبریری چلا گیا۔ وہاں پے آدھے گھنٹے کے لیئے نیٹ پے بیٹھا ۔وہاں کا عملہ مجھے جاننے لگ گیا تھا کیونکہ انہوں نے اخبار میں میرا انٹرویو پڑھ لیا تھا۔ میں نے جیب سے پیٹر کا کارڈ نکالا۔ اس کو میل بھیجی کہ تمہارا کیا ہوا انٹر ویو بہت اچھا تھا۔اب لوگ مجھے جاننے لگ گئے ہیں۔ نیچے اپنا نیا موبائیل نمبر
بھی لکھ دیا۔ میرے دادا کہا کرتے تھے کہ فیڈ بیک بہت اچھی چیز ہوتی ہے ۔اگر کوئی آپ کے لیئے کچھ کرے تو اس سے رابطہ رکھا کریں ۔اگر رابطہ نہ بھی رکھ سکیں کم از کم اس شخص کا شکریہ ضرور ادا کیا کریں۔ میں نے وہی کیا تھا ۔پیٹرکا شکر یہ ادا کیاتھا۔ میں سارا دن ازیل ہائم میں بور ہوتا رہتا تھا۔میں نے سوچا لائبریری کا کارڈ بنا لیتاہوں ۔یہاں سے کتابیں لے جایا کروں گا ۔پڑھ کے واپس کردیا کروں۔ میں نیٹ سے اٹھا اور لائبریرین سے کہا کہ میرا کارڈ بنا دے ۔وہ کہنے لگی، ’’اس ہاؤس وائس پے ہم کارڈ نہیں بنا سکتے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں لائبریری کی کتابیں چوری تھوڑی کرلوں گا۔ میری نزدیک تو یہ سب سے بری حرکت ہے‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’یہ لائبریری کا اصول ہے اور یہ اصول میں نے نہیں بنایا۔ ہاں تم کتاب یہاں پے پڑھ سکتے ہو‘‘۔
مجھے بہت غصہ آیا کہ کتاب نہیں لے سکتا ۔ غصے سے لائبریری سے باہر نکل آیا ۔جب میں سیڑھیاں اتر رہا تھا تو میری نظر ایک جانی پہچانی شخصیت پے پڑی۔ میں اسے دیکھ کے حیران رہ گیا۔ رضا بہقی ان چند دنوں میں کتنا بدل گیا۔ میں نے کہا،’’آغائی مجھے پہچانا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا ،’’فرشتہ تم ،کہاں ہوتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں اووربیول میں اور آپ ‘‘؟
کہنے لگا، ’’میں تم سے پہلے ایک ازیل ہائم ہے وہاں آیا ہوں۔ وہاں بس بھی رکتی ہے۔ تم نے نام سنا ہوگا، اندستری‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں وہاں گلبدین جاتا رہتاہے۔ اس کے کوئی افغانی دوست ہوتے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’اچھا تو وہ کارٹون تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ خود کو افغانی ظاہرکرتا ہے۔ ہمارے پاس جب بھی آتا ہے کہتا ہے مجھے افغانی کھانا
پسند ہے، ایرانی کھانا پسند ہے۔ہم لوگ جو اپنے لیئے بناتے ہیں اسے بھی کھلا دیتے ہیں۔ خیر چھوڑو اس کو تم اپنی سناؤں کیسی گزر رہی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک گزر رہی ہے ۔میں نے آپ کو ای میل بھی کی تھی لیکن آپ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا‘‘۔
رضا بولا، ’’میرا ای میل اکاؤنٹ کسی نے ہیک کرلیا ہے۔ میں نے نیا اکاؤنٹ بنالیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’لیکن میل تو چلی گئی تھی‘‘۔
وہ بولا، ’’ہاں چند دن تو چلے گا پھر بلاک ہوجائے گا‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’آپ نے اخبار نہیں دیکھا اس میں میرا انٹرویو آیا ہے۔ ‘‘۔
رضا بولا، ’’کوئی بتا رہا تھا لیکن میں نے اخبار نہیں دیکھا۔ کم از کم فوٹو تو
بندا دیکھ ہی سکتا اگر زبان سمجھ نہ آتی ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’رضا یہاں تو بہت عجیب ماحول ہے۔ دل بالکل نہیں لگتا ۔ہر وقت یہی سوچتا ہوں کہ یہاں سے بھاگ جاؤں‘‘۔
’’کہاں جاؤ گے‘‘۔
’’میرا دل کرتا ہے اٹلی چلا جاؤں ۔وہاں کی امیگریشن کھلنے والی ہے‘‘۔
’’ہاں میں نے بھی سنا ہے‘‘
’’آپ بھی جائیں گے‘‘۔
’’نہیں میں تو یہیں رہو گا۔اگر کیس پاس ہوگیا تو اپنے بیوی بچوں کو بھی یہیں بلالوں گا‘‘۔
’’ابھی کہاں جانا ہے‘‘۔
’’ابھی تو لائبریری سے کچھ نوٹس تیار کرنے ہیں۔ پھر گھر واپس جاؤں
گا‘‘۔
’آپ یہاں بھی پڑھائی کررہے ہیں‘‘۔
’’ہاں میں یہاں یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ ایک سال پڑھوں گا تو میری ڈگری یہاں پے بھی چل سکے گی‘‘۔
’’ایسا ہوسکتا ہے‘‘۔
’’ہاں کیوں نہیں ہوسکتا۔ ہم کوئی جنگل میں تو نہیں رہ رہے۔ میں الیکٹریشن یا پلمبر تو نہیں ،کام آتا ہے ،کام شروع کردو۔ میں انجینیئرہوں ساری زندگی پڑھائی کی ہے‘‘۔
’’یہ بات تو درست ہے‘‘۔
’’مجھے بھی آپ سے بہت سی باتیں پوچھنے ہیں۔وہاں کرائس لنگن میں صحیح طرح بات ہی نہ ہوسکی۔ میں روز دعا کرتا تھا کہ آپ سے ملاقات
ہوجائے۔آپ میری ای میل پڑھ لیں لیکن خدا نے ہم دونوں کو ملانا تھا ۔ اس لیئے ملاقات ہوگئی‘‘۔
’’اچھا ایسا کرو تم نیچے باغ میں میرا انتظار کرو۔میں اپنا کام کرکے ابھی آتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ بھی عجیب لوگ ہیں ۔ہمارا لائبریری کارڈ نہیں بناتے۔ہم یہاں سے کتاب نہیں لے جاسکتے‘‘۔
رضا بولا، ’’یہ تو زیادہ اچھا ہے۔ اس طرح ہم لوگ لائبریری ضرور آتے ہیں ۔ ویسے بھی پڑھنے کا مزہ لائبریری میں ہی آتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’خیر میں نیچے باغ میں آپ کا انتظار کرتا ہوں‘‘۔
میں لائبریری سے باہر آیا ۔ لائبریری کے بالکل پاس ایک باغ تھا۔ اس میں بچوں کے لیئے جھولے لگے ہوئے تھے۔ یہاں برگد کے بڑے بڑے درخت تھے۔ میں ان کی چھاؤں میں پڑے ہوئے ایک
لکڑی کے بینچ پے بیٹھ گیا۔ آج جولائی کی پہلی تاریخ تھی۔ سوس لوگوں کے لیئے بہت گرمی تھی۔ کئی دنوں سے بارش نہیں ہوئی تھی۔ دن کے بارہ بجے ہوں گے۔دھوپ میں کچھ زیادہ ہی تمازت تھی۔ فضاء میں کچھ گھٹن سی بھی تھی۔ میں بینچ پے بیٹھا تھا ، مجھے ایسا لگا جیسے میرا گلہ خشک ہوگیا ہے۔ مجھے پیاس لگنے لگی۔ میں باغ کے پاس ہی ایک چھوٹی سی دوکان پے گیا۔ وہاں سے منرل واٹر کی چھوٹی بوتل لی۔ گلے کو تر کیا۔ پھراس درخت کی چھاؤں میں پڑے ہوئے لکڑی کے بینچ پے لیٹ گیا اور آسمان پے تیرتے ہوئے روئے کے گالوں جیسے سفید بادلوں کے نیلے آسمان پے تیرتے ہوئے دیکھنے لگا۔

No comments:

Post a Comment