Monday, June 17, 2013

تیرہواں باب، پس آیہنہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG








۱۳

میں اور نیائش بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ نیائش بولا، ’’ماڑا یہ پری پیکر کچھ بدل گیا ہے۔ آج کل ہمارے گھر دیر سے آتا
ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں ،آج کل ان کی فیکٹری میں کام زیادہ ہے اس لیئے وہ زیادہ کام کرتا ہے ۔کام سے چھٹی کرتے ہوئے دیر ہوجاتی ہے۔ وہ کھانا بھی ونہی کھاتا ہے‘‘۔
نیائش بولا، ’’یہ سچ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں بالکل سچ ہے‘‘۔
’’چلو اس کو فون کرکے دیکھتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’کرکے دیکھ لیں‘‘۔
نیائش نے ثقلین کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ موبائیل فون بند تھا۔
نیائش بولا، ’’اس کا مطلب ہے وہ واقعی کام پے ہے ۔ فرشتہ بات یہ ہے کہہ ہم پٹھان لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں۔ اگر ہمارے گھر کوئی
مہمان بن کے آجائے تو ہم اس کے لیئے جان بھی دے دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا واسطہ پشوریوں سے پڑتا ہے۔ وہاں پشاور میں دو قسم میں لوگ ہوتے ہیں۔ ایک پٹھان وہ ہیں جو مہمان کے لیئے جان دے دیتے ہیں اور دوسرے وہ ہیں جو مہمان سے جان چھڑاتے ہیں ۔اب دونوں پشتو بولتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پشوریوں کی دوسری قسم ہندکو بولتی ہے جبکہ پہلی قسم ہندکوں نہیں بولتی بلکہ وہ پشتو کے علاوہ ٹوٹی پھوٹی اردو بولتے ہیں۔پشاور شہر میں ہندکو بولنے والے پٹھان بھی ہیں اور پشتو بولنے والے بھی۔ اب لوگوں کا خیال ہے کہ ہر پشتو بولنے والا ان ہندکو لوگوں کی طرح ہوتا ہے جو مہمان آجائے تو پریشان ہوجاتا ہے۔ میرے دل کو بالکل چین نہیں آتا کیوں وہ پہلے روز کھانے کے وقت آتا تھا اب نہیں آتا تو عجیب سا لگتا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’مجھے ٹورسٹ گائیڈنگ کے دوران کئی دفعہ پشاور جانے
کا اتفاق ہوا ہے۔ میں پٹھانوں کی ان دونوں اقسام سے واقف ہوں‘‘۔
نیائش کا موبائیل بولا۔ اس نے نمبر دیکھا تو ثقلین کا تھا۔ اس نے موبائیل کا بٹن دبایا اور ہیلو کی۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ’’نیائش بھائی خیریت ہے‘‘۔فون کی آواز اونچی تھی اس لیئے صاف سنائی دے رہا تھا کہ دوسری طرف سے کیا کہا جارہا ہے۔
نیائش بولا، ’’ماڑا کام کررہے ہو یا ہمارے ہاں آنا پسند نہیں کرتے۔اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو معافی چاہتے ہیں‘‘۔
ثقلین بولا، ’’نہیں نیائش بھائی ایسی کوئی بات نہیں۔ کام بہت ہے۔ دیر سے فارغ ہوتے ہیں ۔ابھی کھانا کھانے کے لیئے بیٹھے ہیں ۔ میں نے موبائیل آن کیا تو آپ کی کال تھی اس لیئے فون کررہا ہوں۔ انشاء اللہ ہفتے والے دن ملاقات ہوگی‘‘۔
’’ماڑا ،فرشتہ سے آکے مل لیتے ہو۔ہم میں کیا برائی ہے‘‘۔
’’اگر آپ جاگ رہے ہوئے تو آپ سے بھی ملاقات ہوجائے گی۔ ویسے میں ایک گھنٹے بعد یہاں سے نکل رہا ہوں‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’چلو اگر جاگ رہا ہوا تو ملاقات ہوجائے گی ورنہ ہفتے والے دن ملتے ہیں‘‘۔
دونوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور موبائیل فون بند ہوگیا۔
میں اور نیائش اِدھر اْدھر کی باتیں کرتے رہے وقت کا پتا ہی نہ چلا۔ مجھے نیچے سے کسی کی آواز سنائی دی ۔ باہر خاموشی تھی کیونکہ جس علاقے میں ہم رہتے تھے یہ جگہ شہر سے ہٹ کے تھی۔ میں نے کھڑکی سے جھانک کے دیکھا تو نیچے ثقلین کھڑا تھا۔ میں نے کھڑکی سے ہی کہا ثقلین بھائی اوپر آجاؤ۔
وہ جیسے ہی اوپر آیا تو نیائش پہلی بات یہی کی، ’’دیکھومیں تمہارے لیئے جاگ رہا ہوں۔ماڑا ہم یاروں کے یار ہیں‘‘۔
مجھے نیائش کا رویہ بڑا عجیب سا لگا خیر میں نے اس پے ظاہر نہ ہونے دیا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔ ہم تینوں نے تھوڑی دیر مختلف موضوعات پے بات کی اور ثقلین پری پیکر اگلہ باب لے کر چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رات کو جلدی سو گیا تھا لیکن صبح بہت دیر سے آنکھ کھلی۔آج صبح اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔ آج ۲۶ جون ۲۰۰۲ کو برازیل اور ترکی کا سیمی فائنل تھا۔ مجھے سو فیصد یقین تھاکہ ترکی نہیں جیتے گا لیکن نہ جانے کیوں دل چاہتا تھا کہ ترکی جیتے کیونکہ ترکی اور جرمنی کا اگرفائینل ہوگا تو بہت مزہ آئے گا۔ یہ بالکل اس طرح ہے جس طرح پاکستان اور انگلینڈ کا فائینل ہو، فرانس اور الجزائر کا فٹبال کا فائینل ہو۔ میں اٹھ کے سب سے پہلے باتھ میں گیا۔ اپنی حاجات سے فارغ ہوا۔ اس
کے بعد دانت صاف کیئے۔ اپنی شکل دیکھی تو ایسالگا جیسے منہ پے بہت سی چیونٹیاں نہ جانے کہاں سے آگئی ہوں۔ یہاں سنار کی دوکان کی طرح دونوں طرف لمبے لمبے شیشے لگے ہوئے تھے۔میں نے اپنے آپ کو شیشے میں دیکھا تو بہت دور تک پچھلے شیشوں میں میرا عکس نظر آرہا اور ایک خاص مقام پے جاکے غائب ہوجاتا۔ میں نے خود کو اس بھنور سے نکالا۔ سوچا پہلے ناشتہ کرتے ہیں ۔ناشتہ کیا کرنا تھا یہ نہیں پتاتھا۔ کچن میں داخل ہواتو وہاں پے پہلے سے قبضہ تھا۔ میں چولہے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ کچن کا دروازہ کھلا، گلبدین اندر داخل ہوا۔ وہ خو د کو افغانی ظاہر کرتا اس لیئے خود کو بڑا پھنے خان سمجھتا تھا۔ آتے ہی کہنے لگا، ’’ماڑا ہم چائے بنائے گا۔ تم ہمارا مہمان ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’بناؤ لیکن چولہے فارغ نہیں ہیں‘‘۔
ماڑا ابھی فارغ ہوجاتے ہیں۔ تم باہر ناشتے کے لیئے انتظار کرو میں
ابھی ناشتہ لے کر آتا ہوں‘‘۔
میں ہال کے اندر پڑے ہوئے ان چار مستطیل میزوں میں سے ایک کے سامنے کرسی لے کے بیٹھ گیا۔ پندرہ منٹ میں گلبدین چائے اور
بسکٹ لے کر آگیا۔ اس نے کل بھی چائے اچھی نہیں بنائی تھی ،آج بھی اس کارنگ عجیب سا لگ رہا تھا۔ زہر مار کرنے والی بات تھی۔ میں نے دل میں سوچا کل پیسے ملیں گے تو میں خود چائے کا سامان لاؤں گا۔ بریڈ اور انڈے اور پکانے کا تیل بھی لاؤں گا۔ میں سوچنے لگا ، یہ میری زندگی کا کتنا بڑا تجربہ ہے۔ دنیا کی کسی یونیورسٹی میں یہ تعلیم نہیں دی جاتی۔ مجھے سوس آئے ہوئے ابھی دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے اور اتنا کچھ دیکھ چکا تھا جو میں نے اب تک نہیں دیکھاتھا۔ میں سمجھتا تھا کہ گائیڈنگ کے دوران کچھ پروفیسروں کے ساتھ وقت گزارنے کے بعد سو دوسو کتابیں پڑھنے کے بعدمیں جینیئس ہوگیا ہوں لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔ وہاں مجھے ہر چیز تیار ملتی تھی۔ کہاں جانا ہے، کیا کرنا ہے،کہاں سونا ہے، کیا کھانا ہے۔ یہاں مجھے کْل ۴۵ سوس فرانک ملنے تھے اور اس میں نے اپنا پوار بجٹ تیار کرنا تھا۔ ۴۵ سوس فرانک قریباً۳۰ یورو بنتے ہیں۔ یعنی ۳۰ یورو میں پورا ہفتہ گزارنا تھا۔ سونے کی جگہ، بجلی، پانی ،گیس اور بس کا ٹکٹ ازیل ہائم والوں کی
ذمہ داری تھی۔ مجھے ان ۴۵ سوس فرانک میں تین وقت کا کھانا کھانا تھا یعنی سات دن کا کھانا یعنی ۴۵ یورو میں اکیس وقت کا کھانا۔ یہ میں جانتا تھا کہ ۴۵ سوس فرانک بہت کم تھے۔ جو لوگ سیدھے اپنے ملک سے یہاں آئے تھے ان کے لیئے یہ بہت بڑی رقم ہوگی لیکن سوس میں بہت مہنگائی تھی اس لیئے ۴۵ سوس فرانک کچھ بھی نہیں تھے۔
گلبدین بولا، ’’کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ نہیں‘‘۔
ناشتہ کرکے میں نے گلبدین سے کہا، ’’برتن میں دھو دوں گا‘‘۔
اس نے کچھ نے کہا۔میں نے چائے کے خالی کپ اور بسکٹوں والی پلیٹ اٹھائی اور کچن میں جانے لگا تو گلبدین بولا، ’’ یہ بسکٹ فرج میں رکھ دو وہاں کچن میں سب ختم ہوجائیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں کھانے کی چیز ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’فرشتہ صاحب یہ پردیس ہے۔ اپنا ملک نہیں،جتنے پیسے ملتے ہیں ان میں گزارنا کرنا ہے‘‘۔
میں نے خاموشی سے بسکٹ فرج میں رکھ دیئے اور کپ کچن میں جاکے دھو دیئے۔
میں کچن سے باہر آیا یہاں اب ایک خوبصورت سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے آگے بڑھ کے مجھ سے ہاتھ ملایا۔ کہنے لگی، ’’میرا نام سبینا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں یہاں کام کرتی ہوں۔ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے ضرور بتانا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’آج ترکی اور برازیل کا میچ ہے وہ دیکھنا چاہتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی،’’آج صبح ڈش لگ گئی ہے۔ ہم لوگوں نے فائینل تک کے کارڈ کی ادائیگی کردی ہے۔ تم میچ ازیل ہائم میں ہی دیکھ سکتے ہو‘‘۔
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا، ’’ایک اور بات‘‘۔
کہنے لگی،’’مجھے بس کا ٹکٹ چاہیئے۔ میرا یہاں دم گھٹتا ہے۔ میں ونٹر تھور شہر جانا چاہتا ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہمارے پاس ہر وقت بس ٹکٹ موجود ہوتے ہیں۔ جب تک تم پاس نہیں بناتے ،تم یہ ٹکٹ لے سکتے ہو۔ میں ابھی ٹکٹ لاتی ہوں‘‘۔وہ یہ کہہ کر دفتر سے ٹکٹ لینے چلی گئی۔ٍ
تھوڑی دیر بعد وہ کمرے سے باہر آئی اور اس کے ہاتھ میں ٹکٹ تھا۔اس نے میرے ہاتھ میں ٹکٹ دیتے ہوئے کہا، ’’یہ ٹکٹ آنے جانے کے لیئے استعمال ہوسکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے پتا ہے ۔میں نے اس طرح کا ٹکٹ کل بھی استعمال کیا ہے‘‘۔
میرے طرف دیکھ کے کہنے لگی،’’تم کافی سمجھدار لگتے ہو۔ اگر کچھ اور چاہیئے ہو تو بتاؤ‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں پے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’یہاں تو نہیں لیکن ونٹرتھور میں جو بڑی لائبریری ہے، وہاں پے آدھے گھنٹے کے لیئے انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے اور وہ بھی مفت ‘‘۔
میں نے ٹکٹ لیتے ہوئے کہا، ’’بہت شکریہ‘‘۔
سبینا کا چہرہ گول تھا،آنکھیں نہ بہت چھوٹی نہ ہی بہت بڑی اور ان میں نیلے رنگ کے بنٹے گھوم رہے تھے۔ گورے رنگ پے نیلی آنکھیں بہت بھلی لگتی ہیں۔ اس طرح کی آنکھیں مجھے پاکستان کے علاقوں ہنزہ، چترال اور سوات میں دیکھنے کو ملی تھیں۔ وہاں کے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ سکندر اعظم کی نسل سے ہیں حالانکہ ایران میں بھی کئی لوگوں کی نیلی آنکھیں ہوتی ہیں۔ سبینا کے بال سنہرے تھے اور قد میں وہ مجھ سے بھی لمبی تھی۔ لباس اس نے انیتا کے مقابلے میں بہت سادہ پہنا ہوا تھا۔ مجھے یہ کسی سلجھے ہوئے خاندان سے لگتی تھی۔ میں نے ٹکٹ لیتے ہی سبینا سے کہا، ’’میں چلتا ہوں‘‘۔
میں ازیل ہائم سے نکلا۔ بس سٹاپ پے آیا۔ میں سوچنے لگا۔ جیسے ہی ونٹرتھورپہنچوں گا پہلے لائبریری ڈھونڈو ں گا۔ بس آئی اور میں بس میں سوار ہوکے ونٹر تھور پہنچ گیا۔ ریلوے سٹیشن کے سامنے جو مارکیٹ گاز سترازے تھا وہا ں پے میں اتر گیا۔ ایک دو لوگوں سے پوچھا کہ بڑی لائبریری کہاں ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ کنٹس میوزم(Kuntz museum) یعنی آرٹ میوزم کے ساتھ لائبریری ہے۔ تمہیں یہاں سے سٹاڈ ہاوس سترازے (stadhaus strasse)پے چلے جاؤ اور آگے سے میوزم سترازے پے ہوجانا۔ تمہیں سامنے لائبریر ی نظر آجائے گی۔ میں بتائے ہوئے راستے پے چلتا چلا گیا۔ جیسے ہی سٹاڈ ہاوس سترازے ختم ہوا تو میوزم سترازے شروع ہوا۔ ایک کونے پے گرے رنگ کے کورنتھیئن(corinthians) والی عمارت تھی۔ باہر جلی حروف میں لکھا ہوا تھا ببلیوتھیکن سینٹرال ونٹرتھور(Bibliotheqan central winterthur)۔ یعنی ونٹر تھور سینٹرل لائبریری ۔ لائبریری کے ساتھ آرٹ میوزم تھا۔ میں لائبریری کی عمارت دیکھ کے بہت خوش ہوا کیونکہ اس طرح کی
عمارتیں سوس میں دیکھنے کو کم ملی تھیں۔ مجھے شروع سے ہی سوس اٹلی کے سامنے ماند لگا تھا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ تاریخی اور تہذیبی لحاظ سے سوس پاکستان سے بھی بہت پیچھے تھا۔ نہ جانے لوگوں کو سوس میں کیا خوبصورتی نظر آتی تھی۔ اگر سبزہ ہی خوبصورتی کی نشانی ہے تو سبزہ تو بہت سے ملکوں میں ہوتا ہے۔ پاکستان رقبے کے لحاظ سے سوس سے سات گنا بڑا ہے۔ وہاں پے کئی کئی میل سبزہ ہی سبزہ ہے۔ لائبریری کی عمارت کے نیچے والے حصے میں نہ جانے کیا تھا اوپر دوسری منزل پے لائبریری تھی۔ میں کاؤنٹر پے گیا ۔وہاں پے جو عورت بیٹھی تھی اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ میں ڈر گیا۔ میں نے انگریزی میں کہا، ’’مجھے انٹر نیٹ استعمال کرنا ہے‘‘۔ مجھے اریزو کی لائبریری میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیئے مجھے پتا تھا کہ لائبریروں میں انٹرنیٹ کی سہولت مفت فراہم کی جاتی ہے کہنے لگی، ’’لائبریری کارڈ‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ تو نہیں ہے‘‘۔میں نے اس کو ازیل ہائم کا کارڈ نکال کے دکھایا۔اس نے کارڈ کو الٹ پلٹ کے دیکھا۔ اس لائبریری میں شاید مہاجرین میں سے کوئی بھی نہیں آیا تھا اس لیئے اس عورت نے مجھے گھور کے دیکھا تھا اور میرے کارڈ کو بھی الٹ پلٹ کے دیکھا تھا۔ میراکارڈ اپنے پاس رکھ لیا اور کہنے لگی، ’’چار نمبر کیبن میں بیٹھ جاؤ۔ صرف آدھا گھنٹا بیٹھ سکتے ہو‘‘۔
اندھے کو کیا چاہیئے دو آنکھیں۔ میں جاکے کمپیوٹر پے بیٹھا۔ یہ اچھا ہوا کہ گوگل سرچ انجن کھلا ہوا تھا۔ میں نے ہاٹ میل ٹائپ کیا۔ جیسے ہی ہاٹ میل کا پیج کھلا ۔میں نے اپنی آئی ڈی اور پاس ور ڈ ٹائپ کیا۔ میرا میل بوکس کھل گیا۔ اس میں اتنی جنک میل تھی کہ اس کی کپیسٹی والی جگہ پے لال لکیر بنی ہوئی تھی۔ میں نے بہت ساری میلز کینسل کیں۔ میں نے رضا کے لیئے جلدی سے میل لکھی ۔میرا خیال تھا وہ جہاں بھی ہوگا ،اگر اس کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہوئی تو وہ مجھ سے رابطہ قائم کرلے گا۔رضا کو میسج بھیجنے کے بعد میں کچھ دیر گوگل سرچ انجن پے مختلف چیزیں دیکھیں۔ آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ میں نہایت شرافت سے اٹھا۔ اس عورت سے اپنی ہاوس وائس لی اور لائبریری سے باہر آگیا۔ میں نے سوچا چلو آج ایک کام تو اچھا ہوا۔ آخری دفعہ ای میل کرائس لنگن کے اس انٹرنیٹ کیفے پے میل چیک کی تھی جہاں میں اپنا موبائیل فون چھوڑ آیا تھا۔ کافی دیر ونٹرتھور کے بازاروں کے چکر لگاتا رہا ۔پھر مجھے بھوک لگنے لگی۔اس کے علاوہ آج برازیل اور ترکی کا سیمی فائینل بھی تھا اس لیئے میں بس پے بیٹھ کے ازیل ہائم واپس آگیا۔
میں جب ازیل ہائم پہنچا تو وہ کمرہ جہاں ٹی وی
پڑا ہوا تھا وہ ہر رنگ و نسل کے بندے سے بھرا ہوا تھا۔ میچ شروع ہونے میں تھوڑی دیر تھی۔ ازیل ہائم والوں نے ہمارے لیئے اتنی بڑی سہولت فراہم کی تھی۔ میچ شروع ہوا تو دونوں ٹیمیں بہت جم کے کھیلیں۔ ٹی وی روم میں بیٹھے ہوئے تمام اسلامی ملکوں کے لوگ ترکی کے ساتھ تھے۔ باقی افریقہ اور دوسرے علاقوں کے لوگ برازیل کے تھے۔ برازیل کو یہ میچ جیتنا جتنا آسان لگ رہا تھا اتنا آسان نہیں تھا۔ دونوں ہاف میں کسی وقت بھی نہیں لگتا تھا کہ برازیل جیتے گا۔ میچ کا واحد گول رونالڈو نے کیا اور اس طرح برازیل سیمی فائینل جیت گیا۔سب کو بہت افسوس تھا لیکن اب فائینل میں برازیل اور جرمنی نے آمنے سامنے آنا تھا۔ برازیل جب جیتا تو سب کی ہمدردیاں برازیل کے ساتھ ہوگئی کہ وہ فائینل جیتے۔
میں نے تھوڑا بہت کھانا کھایا۔ مجھے گلبدین نے بتایا کہ آج
ایک اور بنگالی آیا ہے اور اس نے بدرالدین کو ہمارے ساتھ کھانا کھانے سے منع کردیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم دونوں بنگالی ہیں اس لیئے ہم اکھٹے ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہا، ’’جیسے اس کی مرضی ۔یہاں پے بندے آتے رہیں گیں اور جاتے رہیں گے۔ ہم کس کس کو روکیں گے‘‘۔
میں ہال میں بیٹھ گیا۔ جہاں چار بڑے بڑے میز پڑے ہوئے تھے۔ شیفراور شنائیڈر جا چکے تھے۔ اب یہاں پے ایک لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے بال گھنگھریالے اور لمبے تھے۔وہ کچھ افریقن لڑکوں کے ساتھ کوئی زبان بول رہا تھا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ سوس بندہ ان افریقن کی زبان بولتا ہے۔ میں نے پوچھا، ’’یہ کون سی زبان ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’وولوف‘‘(Woolof)۔
میں نے کہا، ’’یہ کس ملک کی زبان ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’سینیگال میں وولوف بولی جاتی ہے۔ یہ لڑکے سینیگال کے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ان کو تو فرنچ بھی آتی ہوگی‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں آتی ہوگی لیکن مجھے فرنچ نہیں آتی‘‘۔
میں نے سینیگال کے لڑکے کو فرنچ میں پوچھا، ’’تم فرنچ بولتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’بہت کم‘‘۔
میں نے باقی لڑکوں سے پوچھا کہ تم کس ملک کے ہو تو کہنے لگے، ہم دو مالی کے ہیں ۔ہم لوگ ماننگا (Maninga)بولتے ہیں ۔یہ دو گنی کناکرو(guinea konakro)کے ہیں۔
میں نے یہ نام اپنی زندگی میں نہیں سنا تھا۔ گنی بساؤ، فرنچ گنی اورپاپوآ نووا گنی کا نام سن رکھا تھا۔
یہ سب ابلے ہوئے سفید چاولوں پے گوشت کی کٹی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں ڈال کے کھارہے تھے۔ ایک کونے میں ایک اور افریقن بیٹھا کچھ کھا رہا تھا۔ میرے خیال میں نائیجرین تھا۔ میں اسے غور سے دیکھنے لگا۔ لیکن میں نے اس بات کا پورا خیال رکھا کہ اس کو پتا نہ چلے۔ پلیٹ میں ابلی ہوئی پالک تھی۔ ایک برتن میں کوئی پیلی سی چیز گندھی ہوئی پڑی تھی یا پکائی گئی تھی۔ وہ وہاں سے ایک پیڑا سا اٹھاتا ۔اس پیڑے کو ہاتھ میں مسلتا رہتا ،پھر اس میں ایک چھوٹا پیڑا نکالتا ۔اس کو اس ابلی ہوئی پالک میں ڈبو کے کھا جاتا۔ پھر اس پیڑے کو جو اس کے ہاتھ میں اس کو مسلتا اور ایک چھوٹا سا پیڑا اس کے ہاتھ سے نکلتا اور اس کو پالک میں ڈبو کے کھاتا۔ شروع میں تو مجھے بڑی الجھن ہوئی پھر میں سوچنے لگا ان کا کھانے کا طریقہ ہے ۔ایسا بھی تو ہوسکتا ہے جب میں شوربے میں روٹی ڈبو ڈبو کے کھاتا ہوں تو دوسروں کو برا لگتا ہو۔ وہ سوس لڑکا یہاں سے اٹھ کے چلا گیا۔ جس کے بال
گھنگھریلاے تھے۔ میں بھی اس کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ میں پاکستا ن میں ٹورسٹ گائیڈ رہا تھا ۔تجسس مجھ میں کوٹ کوٹ کے بھرا ہوا تھا۔ وہ سوس لڑکا باہر جاکے اس چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھ گیا۔ میں نے اس سے کہا، ’’اگر تمہیں برا نہ لگے تو میں تمہارے پاس بیٹھ جاؤں‘‘۔
کہنے لگا، ’’کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔
میں اس کے پاس بیٹھ گیا۔پھر اس سے سوال بھی کرڈالا، ’’تم وولوف کیسے جانتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرا باپ سینیگال میں ایک رفاہی ادارے میں کام کرتا تھا۔ میں بھی اس کے ساتھ تھا۔ میں ،میری امی ،میری بہن ہم سب اس گاؤں میں رہتے تھے جہاں پے میرے ابو کام کرتے تھے۔ ہم سوس سکول میں جاتے تھے لیکن ہم نے وولوف بھی سیکھ لی۔ میں تو افریقن کھانا بڑے شوق سے کھاتا ہوں۔ تم تو اسے ایسے دیکھ رہے
تھے جیسے وہ عجیب و غریب چیز کھا رہا ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ ہے۔ میں پاکستان کا رہنے والا ہوں۔ میں وہاں ٹورسٹ گائید تھا۔ اس لیئے مجھے تجسس ہورہا تھا کہ وہ کیا کھا رہا ہے۔ وہ ہاتھ سے کھا رہا تھا یہ عجیب بات نہیں کیوں ہم بھی ہاتھ سے کھاتے ہیں‘‘۔
وہ بولا، ’’میرا نام سولیون ہے۔ وہ نائیجرین لڑکا جس چیز کے پیڑے بنابنا کے کھا رہا تھا وہ سوجی ہے۔ اس کو سیمولینو بھی کہتے ہیں۔ یہ اس کو پانی میں پکاتے ہیں ۔جب یہ تھوڑی سی پک جاتی ہے تو اس کو کسی بھی چیز کے ساتھ کھایا جاسکتا ہے‘‘۔
میں نے کہا ’’یہ سوس لوگوں کو چیرٹی کا کچھ زیادہ شوق نہیں۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں کئی جگہ پر سوس لوگ مختلف پراجیکٹس پے کام کررہے ہیں‘‘۔
اس نے مجھے گھور کے دیکھا۔ کہنے لگا، ’’میں اس بارے میں زیادہ نہیں جانتا لیکن زیادہ تر پراجیکٹس یونائیٹڈ نیشن کی طرف سے ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ سہی ہے۔ پہلے جنگ سے ملک کو تبا کرو۔ بعد میں ان لٹے ہوئے لوگوں کے لیئے چندہ اکھٹا کرو۔لوگوں کے پا س جو بچی کھچی رقم ہے وہ بھی چیرٹی کے بہانے لے لو‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’تمہارا مطلب کیاہے‘‘۔
مطلب یہ کہ پہلے میڈیاء کے ذریعے ملک کو بدنام کیا جاتا ہے۔ پھر وہاں امریکہ اپنی فوجیں بھیجتا ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی فرانس، جرمنی،اٹلی اور انگلینڈ بھی اپنی فوجیں بھیجتا ہے۔ جب پوری طرح ملک ملیاء میٹ ہوجاتا ہے۔ پھر اس ملک کو بنانے کے لیئے چندہ اکھٹا کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد چیرٹی سنٹر کھل جاتے ہیں۔ وہاں پے اپنی
مرضی کا صدر بنا دیا جاتا ہے۔ وہی ملک جو پہلے برا ہوتا بعد میں اچھا ہوجاتا ہے‘‘۔
سولیون کہنے لگا، ’’میں چلتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بھی چلتا ہوں ‘‘۔
میں اپنے کمرے میںآیا۔ تولیہ لیا اور نہانے کے لیئے اس جگہ آگیا جہاں سب کے نہانے کی اکھٹی جگہ بنی ہوئی تھی۔باہر بہت سارے جوتوں کے جوڑے پڑے ہوئے تھے۔ جن میں سینڈل اور ہوائی چپل بھی تھے۔ میں اندر داخل ہوا تو تین چار جگہوں سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی۔ ایک جگہ کا پلاسٹک کا پردہ ہٹا ہوا تھا۔ میں اندر داخل ہوگیا۔ کپڑے اتار کے ایک طرف لٹکادیئے۔ اب میں ننگ دھڑنگ شاور کے نیچے کھڑا تھا۔آس پاس نظر دوڑائی تو ایک طرف ایک افریقن نہا رہا تھا دوسری طرف کوئی ایسٹرن یورپیئن ملک کا باشندہ
تھا۔ میرے لیئے یہ پہلا تجربہ تھا۔ میں نے سنا تھا کہ یورپیئن ملکوں میں سکولوں اور کالجوں میں مشترکہ حمام ہوتے ہیں۔کئی ایک فلموں میں بھی دیکھا تھا لیکن ہمارے ہاں غسل خانہ انتہائی شرم و حیاء اور پردے کی چیز ہے۔ میں نے خود کو ذہنی طور پے تیار کیا اور شاور کھول کے نہانے لگا۔ شاور کے گرتے ہوئے پانی کے شور نے اس سوچ کو ذہن سے محو کردیا کہ مجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔ ویسے بھی کوئی کام انسان پہلی دفعہ کرے تو اسے عجیب سا لگتا ہے بعد میں انسان عادی ہوجاتا ہے۔ میری ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ۔ نہا کے نکلا،میں نے کمر پے تولیہ باندھا ہوا تھا۔ مجھے بڑا عجیب لگ رہا تھا لیکن میں اسی طرح اپنے اس کمرے میں گیا جہاں اٹھارہ بندوں کے سونے کی جگہ تھی۔ کپڑے بدل کے باہر آگیا۔یہاں بھی کرائس لنگن کی طرح کسی ناکسی کو جانا ہوتا اورروز کوئی نا کوئی نیا بندہ بھی آجاتا ۔ آج ازیل ہائم میں
ایک انڈین لڑکا آیا۔ ٹی وی روم میں ایک چھوٹے سے قد والے لڑکے کا قبضہ تھا۔ مجھے یہ لڑکا بڑا عجیب سا لگا۔ وہ جورجیاء کا رہنے والا تھا ۔اس نے ایک دو افریقن کی خوب ٹھکائی کی تھی۔ اس سے سارے ڈرتے تھے۔ وہ ٹی وی روم میں کوئی فلم دیکھ رہا تھا۔ ایک عربی بولنے والا لڑکا اس سے بحث کررہا تھا۔ میں نے سوچا اس سے پوچھا جائے کہ مسئلہ کیا ہے۔ میں اندر داخل ہوا۔ میں نے پوچھا، ’’کیا مسئلہ ہے‘‘۔
اس عربی کو مجھے دیکھ کے کچھ حوصلہ ہوا۔کہنے لگا، ’’یہ جب سے میچ ختم ہوا ہے ٹی وی پے فلم دیکھ رہا ہے ۔جب ایک فلم ختم ہوتی ہے تو دوسری لگا لیتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو غلط بات ہے۔ یہاں سب کا برابر کا حق ہے‘‘۔
اس جورجیاء کے لڑکے مجھے سر سے پاؤں تک غور سے دیکھا اور بولا،
’’تم کون ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستانی ہوں۔یہاں نیا آیاہوں‘‘۔
جب اس نے پاکستان کا نام سنا تو کہنے لگا، ’’پاکستانی تو بہت پڑھے لکھے ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہیں کیسے پتا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہمارے ہاں جورجیاء میں انڈیا ء اور پاکستان سے بہت سے لڑکے پڑھنے آتے ہیں ۔وہاں فیس کم ہے اور ویزہ بھی آسانی سے مل جاتا ہے ‘‘۔
میں نے کہا،’’ اس وقت مسئلہ یہ نہیں ،مسئلہ یہ ہے کہ تم دوسرے لوگوں کو ٹی وی دیکھنے نہیں دے رہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں ریموٹ رکھ دیتا ہوں لیکن تم دیکھنا یہ کو ن سا چینل لگائے گا۔یہ سارا دن پورنو گریفک فلمیں دیکھتے رہتے ہیں جب کوئی
بھی فلم نہ ہو تو جو لڑکیاں کریڈت کارڈ پے سٹرپنگ کرتی رہتی ہیں ان کو دیکھتا رہتے ہیں۔ان کے فون نمبر لکھتے رہتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بہت معذرت خواہ ہوں‘‘۔
یہ کہہ کر میں ٹی وی روم سے باہر نکل آیا۔ ٹی وی روم کے پاس استری سٹینڈ تھا وہاں پے گلبدین کپڑے استری کررہا تھا۔ جب وہ کپڑ ے استری کرچکا تو وہ استری واپس دینے گیا۔ راستے میں اسے ایک ساڑھے چھ فٹ کے ہٹے کٹے بندے نے روک لیا۔ اس سے استری مانگنے لگا۔ دونوں کو ایک دوسرے کی بات سمجھ نہیں آرہی تھی ۔اتنا نظر آرہا تھا کہ گلبدین کی جان نکلی جارہی ہے۔ میں نے کہا، ’’کیا مسئلہ ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ مجھ سے استری مانگ رہا ہے۔ میں نے اپنی ہاوس وائس دے کے استری لی ہے۔ یہ اپنی ہاوس وائس دے کے استری لے لے
جب میں واپس کردوں‘‘۔
میں اس آدمی کے سامنے کھڑ ا ہوگیا۔ ازیل ہائم میں کام کرنے والا بندہ بھی آگیا۔ کہنے لگا، ’’کیا مسئلہ ہے‘‘۔
میں نے اس کو تفصیل سمجھائی۔ وہ کہنے لگا،یہ ٹھیک کہتاہے اس نے ٹی وی روم سے اس جورجیاء کے لڑکے کو بلایا۔ وہ ساڑھے چھ فٹ کا آدمی بھی جورجیاء کا تھا۔ ا س نے اپنی زبان میں اسے سمجھایا۔ پھر اسے سمجھ آئی کہ معاملہ کیا ہے۔ یعنی ازیل ہائم میں کوئی چیز ضرورت ہو تو ہاوس وائس جمع کرواکے حاصل کی جاسکتی ہے جیسے یہاں پے رہنے والے استری لے کر بھا گ جائیں گے۔وہ جورجیاء کا لڑکا مجھے کہنے لگا، ’’اس آدمی نے سات قتل کیئے ہیں۔ تمہیں اس سے جھگڑا مول لینا نہیں چاہیئے تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہم لوگ اس وقت سوس میں ہیں ،جورجیاء میں نہیں‘‘۔
گلبدین ایک طرف کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ میں نے گلبدین کو جاکے سنائیں، ’’تم عجیب آدمی ہو۔ میں تمھارے لیئے اس آدمی سے لڑ رہا ہوں اور تم دور کھڑے تماشہ دیکھ رہے ہو۔ ایک طرف تو تم کہتے ہو کہ افغان عوام نے کبھی شکست نہیں کھائی ،پھر تم مجھے جب سے ملے ہو کشمیر کا طعنہ دیتے ہو۔لیکن تمہارا ملک سارا تباہ ہوگیا ہے ابھی تک آزاد نہیں ہوا اور مجھے تو تم افغانی لگتے ہی نہیں ہو‘‘۔
جب مجھے گلبدین نے غصے میں دیکھا تو چپ کرکے سنتا رہا۔ پھر کہنے لگا، ’’میں آج دعوت پے جارہا ہوں‘‘۔
میں نے غصے سے کہا، ’’جاؤں‘‘۔
جس بندے کی آج دٰیوٹی تھی یہ بہت ہی دبلہ پتلا تھا۔ اس کا قد بھی لمبا تھا اس لیئے کچھ زیادہ ہی کمزور دیکھائی دے رہا تھا۔ سوس میں ہر وقت بندوں کے چہروں کو دیکھتا رہتا کہ یہ بندہ جرمن نژاد ہے، فرنچ نژاد ہے یا اٹالین نژاد ہے۔ چوتھی قسم کے بارے میں میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا ۔یہ شخص جس کی اس وقت ڈیوٹی تھی مجھے جرمن نژاد لگا۔
یہاں پے رہنے والے لوگوں کو براعظم کے حساب سے تقسیم کیا گیا تھا ۔اس کے علاوہ افریقن لڑکوں کا علیحدہ گروپ تھا۔ حالانکہ سنییگال، مالی اور گنی کناکروکے لوگ نائیجیریا، انگلولا اور کونگو کے لوگوں سے بالکل مختلف تھے۔ اس کے علاوہ الجزائر، مراکش اور تیونس کے افریقن عربی جانے جاتے تھے۔ بالکل اسی طرح ہر گروپ کے ذمے کوئی ناکوئی کام ہوتا۔ کچھ کچن صاف کرتے ، کچھ باتھ صاف کرتے ،کچھ ہال صاف کرتے ، کچھ باہر والا چھوٹا باغیچہ صاف کرتے ، کچھ ٹی وی روم صفائی کرتے۔ میرے ذمے اس جرمن قسم کے ڈیوٹیافسر نے کچن کی صفائی لگائی۔ میں جب کچن کو صاف کرنے گیا تو حیران رہ گیا ۔اتنا گندہ کہ وہاں سانس لینا مشکل
تھا۔ خیر میں نے کچن کو صاف کرنا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ کرکے میں نے کچن صاف کردیا۔ مجھے کچن صاف کرنے میں دو گھنٹے لگے۔ کچھ لڑکے باتھ صاف کررہے تھے۔ کچھ دیگر کمروں کی صفائی کررہے تھے۔ جب سب کام مکمل ہوگیا تو ہاوس ماسٹر نے ساری جگہیں جاکردیکھیں۔ اس نے کچن کی سب سے زیادہ تعریف کی۔ جب اسے تسلی ہوگئی تو میں اس غار نماں ازیل ہائم سے باہر نکلا۔ باہر صوفوں پے ہمیشہ قبضہ رہتاتھا ۔کوئی ناکوئی بیٹھا ہوتا۔ کوئی آرہا ہوتا اور کوئی جارہا ہوتا۔
میں بھی باہر اس چھوٹے سے باغیچے میں کافی دیر بیٹھا رہا۔ آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ ازیل ہائم کے ایک طرف کھیت تھے۔ ان کھیتوں میں مکئی لگی ہوئی تھی۔ یہاں سے ازیل ہائم کے لڑکے بھٹے توڑ توڑ کے لاتے ۔ کوئی ابال کے کھاتا ،کوئی بھون کے
کھاتا۔ ازیل ہائم کے سامنے جو سٹور تھا۔ اس کے بڑے بڑ ے لوہے کے دروازے شام کو بند ہوجاتے۔ یہاں پے ازیل ہائم کے لڑکے فٹبال کھیلتے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ یہاں کرکٹ کھیلی جائے لیکن کس کے ساتھ کھیلتا۔
مجھے یہاں بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی ۔ کافی دیر بعد دور سے گلبدین جھومتا ہوا آیا۔ اس کے ہاتھ میں بیئر کا کین تھا۔ اب تک میرا غصہ ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی کہا، ’’کیسی رہی دعوت ‘‘۔
کہنے لگا،’’بکواس ۔انہوں نے چاول ابال کے رکھ دیئے اس کے بعد قہوہ‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم تو افغانی ہو۔ تمہیں تو یہ چیزیں پسند ہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں افغانی ضرور ہوں لیکن میں نے ساری زندگی پاکستان
میں گزاری ہے۔مجھے پاکستانی طرزِ زندگی پسند ہے‘‘۔
وہ بیئر پیتا پیتا اندر چلا گیا۔ میں نے تھوڑا سا سالن بچا ہوا تھا۔ دو پیٹا بریڈ(یہ نان کی طرح کی روٹی ہوتی ہے۔یہ تھوڑی لمبی ہوئی ہے۔ اس کو کاٹ ڈونر کباب کے لیئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے) پڑی ہوئی
تھیں۔اس کے ساتھ کھانا کھایا۔ پھر چائے پی۔ برتن وغیرہ دھو کے فارغ ہوا تو۔ ہال میں آکے بیٹھ گیا۔ ٹی وی روم پے اس جورجیاء کے لڑکے کا قبضہ تھا۔ اگر وہ نہ ہوتا تو فلسطینی اور عربی بولنے والے ٹی وی پے پورنو گرافک فلمیں دیکھتے۔
ہال میں مالی (افریقہ کا ایک ملک جس کاسرحد سینیگال کے ساتھ لگتی ہے) کا لڑکا ممدو تراوالی اور سینیگال کا لڑکا بوبکر عبدلائے بیٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی خوشی کا اظہار کیا۔ کیسٹ پلیئر پے کوئی گانا لگا ہوا تھا۔ گانا بڑا درد بھرا تھا۔ میں نے ممدو تراوالی سے فرنچ
میں پوچھاکہ یہ کیا لگا ہوا ہے ۔اس کو ٹوٹی پھوٹی فرنچ سمجھ آتی تھی۔ کہنے لگا، مجھے نہیں پتا۔ پھر میں اس کے پاس چلا گیاجو یہ کیسٹ سرجھکائے سن رہا تھا اور پوچھا، ’’یہ تم کیا سن رہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میری مذہبی چیز ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کون سی مذہبی چیز‘‘۔
اس نے مجھے کاغذ پے لکھی ہوئی کوئی چیزدکھائی۔میں نے پوچھا، ’’یہ کیا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ سورت فاتحہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سورت فاتحہ ایسے لکھتے ہیں۔وہ تو عربی میں ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم کہاں کے ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستانی ہوں‘‘۔
جب اس نے پاکستان کا نام سنا تو اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوگئی۔ کہنے لگا، ’’میں مسلمان ہوں۔ کوسوا کا رہنے والا ہوں۔ہمارے ملک کے مسلمان پاکستان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘‘۔
میں سمجھا اس لڑکے کا دماغ خراب ہے۔ساری دنیا مسلمانوں کو اور خاص کر پاکستانیوں کو دہشت گرد کہتی ہے اور یہ کہتا ہے ہم پاکستانیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میں نے پوچھا، ’’ا س کی وجہ ‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہمیں پاکستان کی وجہ سے بڑا سہارا ہے۔ یہ واحد اسلامی ملک ہے جس کے پاس ایٹم بم ہے‘‘۔
پھر کہنے لگا، ’’تمہیں عربی آتی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سمجھ نہیں سکتا لیکن پڑھ لیتا ہوں‘‘۔
کہنے لگا، ’’تم مجھے سورت فاتحہ لکھ کے دے سکتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں لکھ دیتا ہوں‘‘۔ میں نے سفید کاغذ کے اوپر بسم اللہ لکھی اس کے بعد سورت فاتحہ لکھی۔ اس کو پڑھ کے سنائی۔ و ہ میری شکل دیکھنے لگا۔کہنے لگا، ’’تمہیں پتا ہے جب ہمارے ملکوں پے کمیونسٹ لوگوں کا قبضہ ہوا تو انہوں نے سارے شیخوں کو مار دیا ۔عربی میں لکھی ہوئی کتابیں جلا دیں۔ کوئی بھی عربی لکھنے، پڑھنے اور بولنے والا نہ بچا۔ ہمیں ہمارے بزرگوں نے کوسوون زبان میں جتنی میں دینی تعلیم دے سکتے تھے دی۔میں سورت فاتحہ کیسٹ میں سن رہا ہوں۔مجھے یہ سننا بہت اچھا لگتا ہے‘‘۔
اس کی اسلام سے عقیدت سن کے میری آنکھوں میں پانی آگیا۔ میں نے اسے کہا ۔’’تمہیں جو بھی پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ سکتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ سورت فاتحہ کا کوسوون زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں ایک بہت اچھا قاری ہے ان کی یہ کیسٹ پورے کوسوا،
سربیاء اور کروآتسیاء ،میں مشہور ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سورت فاتحہ مجھے زبانی یاد ہے۔ میں خوش الہان تو نہیں لیکن میں تمہیں سنا سکتا ہوں۔ میں یہ نہیں جانتا کہ تمہیں پسندآئے گی کہ نہیں۔
میں نے سر پے رومال باندھااور بسم اللہ پڑھنے کے بعد اس کوسورت فاتحہ سنائی۔ آخر میں آمین کہا۔
وہ کہنے لگا،’’تم اگر کوسوا چلے جاؤ تو تمہیں لوگ شیخ تصور کرنے لگیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ شیخ کیا ہوتا ہے‘‘۔
کہنے لگا ، ’’ہمارے ہاں جو اسلام کے بارے میں جانتا ہے، نماز عربی میں پڑھ سکتا ہے۔ اس کو شیخ کہتے ہیں‘‘۔
وہ مجھے ایسے دیکھنے لگا جیسے میں کوئی بہت ہی عظیم شخصیت ہوں۔ رات کے بارہ بجے ایک افریقن عورت کی ڈیوٹی تھی۔ وہ شکل و صورت سے تو عجیب تھی لیکن لباس کی تراش خراش بتاتی تھی کہ پڑھی لکھی ہے۔ جب وہ دبلا پتلا آدمی کام چھوڑ کے گیا تو وہ آگئی۔ آتے ہی سب سے سلام دعا کی۔ اب ہال میں کوئی بھی نہیں تھا۔ میں اس لیئے بیٹھا تھا کیوں کہ میرا یہی خیال تھا کہ جب نیند آئے گی تو سوجاؤں گا۔ وہ مجھ سے
کہنے لگی، ’’یہاں پے رات کو دس بجے سونے کا حکم ہے اور تم ابھی تک جاگ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں رات کو دیر سے سوتا ہوں۔ ویسے بھی گرمیوں میں مجھے را ت کو نیند نہیں آتی۔ نہ ہی مجھے صبح کوئی کام ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’کہاں کے ہو‘‘۔
اس سوال کا جواب دے دے کے میں تنگ آگیا تھا لیکن جواب تو دینا
تھا اور اس کے بعد بھی نہ جانے کتنے لوگوں کو جواب دینا تھا۔ میں نے کہا، ’’پاکستانی ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’میں سوڈان کی رہنے والی ہوں۔میں بھی دو سال پہلے یہاں آئی تھی۔ میرا نام خدیجہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام فرشتہ ہےُ‘‘۔
کہنے لگی، ’’کب آئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’دو دن پہلے آیا ہوں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے کئی دن ہوگئے ہیں۔ ہم دونوں باتوں میں مصروف تھے کہ ایک نائیجرین لڑکا ایک لمبی سی قمیض پہنے اپنے کمرے سے نکل کے ہال کی طرف چلا آرہا تھا۔ اس نے نیچے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ خدیجہ نے دور سے ہی شور کیا، ’’فوراًکچھ پہن کر آؤ ورنہ میں پولیس کو بلالوں گی‘‘۔
وہ نائیجرین لڑکا بہت گھبرایا ۔کہنے ،’’مسئلہ کیا ہے۔ میں اسی طرح سوتا
ہوں‘‘۔
خدیجہ بولی، ’’تم جس طرح بھی سوتے ہومجھے اس سے کوئی غرض نہیں لیکن ازیل ہائم کے کوئی اصول ہوتے ہیں‘‘۔
وہ واپس چلا گیا۔ اب اس نے ٹریک سوٹ کا پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ وہ جس کام سے آیا تھا کرکے چلا گیا۔
خدیجہ مجھ سے مخاطب ہوئی، ’’تمہیں پتا ہے یہ اس طرح کیوں کررہا تھا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے نہیں پتا‘‘۔
کہنے لگی، ’’مجھے ازیل ہائم میں کام کرتے ہوئے کچھ عرصہ ہوچلا ہے۔ تم جتنے بھی نائیجرین لڑکوں سے ملو گے وہ خود کو بادشاہ کا بیٹا بتائے گے۔ وہاں پے چھوٹے چھوٹے محلے ، گاؤں یا قبیلے کہہ لو۔ ان کا جو سردار ہوتا ہے اس کو یہ بادشاہ کہتے ہیں ۔ اس کی دس بارہ بیویاں ہوتی
ہے۔ جہاں تک بات تھی نیچے کچھ نہ پہن کے باہر آنے کی۔ تو اس کی وجہ سوس لڑکیوں کو متاثر کرنا ہے۔ یہ اپنے جسم کی نمائش کرتے ہیں ۔سوس لڑکیاں افریقن لڑکوں کی دیوانی ہیں۔ افریقہ کے زیادہ تر لڑکوں کا یہاں آنے کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ کسی سوس لڑکی سے دوستی کرلیں۔ اس میں یہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ سوس مردوں کے
بارے میں مشہور ہے کہ وہ ٹھنڈے مرد ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم یہ ساری تفصیل کیسے جانتی ہوں‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں نے سوڈان میں قانون کی ڈگری لی ہے۔ یہاں بھی لوگوں کو مشورہ دیتی ہوں لیکن اس کی میں فیس لیتی ہوں۔ میرے پاس ایسے کئی کیس آتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہیں یہاں کے پیپر مل گئے ہیں‘‘۔
کہنے لگی، ’’ہاں مجھے پہلے انٹرویو کے بعد ہی پیپر مل گئے تھے۔ میں نے
اپنا پاسپورٹ دیا تھا۔ سب کچھ اصلی دیا تھا۔ وہ چاہتے تو مجھے واپس بھیج دیتے ‘‘۔
مجھے خدیجہ کی باتوں سے لگا جیسے وہ خود کو بہت بڑی چیز سمجھ رہی ہے ۔ ہم نے تو سوڈان اور سومالیہ میں جنگ اور قحط ہی دیکھا تھا۔ جیسے آجکل لوگ پاکستان کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہاں کے صرف دہشت گرد ہی رہتے ہیں ۔جو بھی پاکستا ن کا نام سنتا ہے کہتا ہے وہاں پے جنگ ہے۔ پاکستا نی کی پندرہ کروڑ آبادی ہے۔ کچھ علاقوں میں گیارہ ستمبر کے بعد حالات خراب ہوئے ہیں سارا ملک تو ایسا نہیں ہے۔ خیر کس کس کو انسان تفصیل بتاتا پھرے کہ وہاں پے خوبصورت پہاڑ ہیں۔ وہاں پے دنیا کا چوتھا بڑا دریاء بہتا ہے۔ وہاں پے دنیا کے بڑے اور لمبے گلیشیئرز ہیں۔ وہاں پے دنیا کا سب سے اونچا پولو گراؤنڈ ہے۔ وہاں دنیا کا سب سے اونچا درہ ہے۔ وہاں کے لوگ
مہمان نوازہیں۔وہاں پے چاروں موسم پائے جاتے ہیں۔ وہاں پے برف پوش پہاڑیاں ہیں، وہاں پے صحراء ہیں۔ لہلہاتے کھیت ہیں۔ خوبصورت وادیاں ہیں۔
میں پاکستا ن میں ٹورسٹ گائیڈ تھا ۔میں نے ایسی کئی چیزیں دیکھی تھی جس کو دیکھ کے مجھے اپنے پاکستانی ہونے پے فخر تھا۔ اس طرح کے حالات کیوں ہوگئے تھے میں اس کی تفصیل نہیں جانتا تھا لیکن جب سے سوس آیا تھا مجھے یہ تجسس ہونے لگا کہ اچانک سارے دنیا کی تنقید پاکستان کی طرف کیوں ہوگئی ہے۔ میں یہ جانا چاہتا تھا کہ یہ کمی کازے کیا ہوتے ہیں، سوسائیڈ بومنگ کیا ہوتی ہے، دہشت گردی کیا ہے، ٹون ٹاور کس نے گرائے۔ کیا واقعی مسلمان دہشت گرد ہیں۔ ہم لوگ انتہا پسند ہیں۔ مجھے خدیجہ نے گفتگو کے دوران یہ باور کرانے کی کوشش کی تھی کہ پاکستانی لوگ اچھے نہیں
ہوتے ۔ مجھے اس سے گفتگو کرکے بالکل خوشی نہ ہوئی۔ میں اس ہال میں کافی دیر تک بیٹھا رہا۔ پھر مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میرے سر میں درد ہورہا ہے۔ میں اٹھا،خدیجہ کو خدا حافظ کہا اور اپنے اس کمرے میں آگیا جہاں کرائس لنگن سے بھی زیادہ برا حال تھا۔ گو کہ اس ازیل ہائم میں بندوں کی تعداد زیادہ نہ تھی لیکن جب آ پ کو پتا ہو کہ ایک کمرے میں اٹھارہ بندے سوتے ہیں تو انسان کو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ میں اپنے بستر پے لیٹ گیا۔ اووبیول میں اس ایشیائی حصے میں میرا بستر بالکل نیچے تھا اور درمیان میں تھا۔ میرے آس پاس دونوں بستر خالی تھے۔ مجھے لیٹتے ہی نیند آگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



No comments:

Post a Comment