Monday, June 17, 2013

بارہواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG







۱۲

رات کے دس بجے گھر کی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا۔ میرے سامنے ثقلین کھڑا تھا۔ میں نے کہا، ’’خیریت ہے ۔ثقلین صاحب آجکل بہت دیر سے آتے ہیں‘‘۔
وہ بولا، ’’فرشتہ صاحب آپ کو بتایا تھا کہ فیکٹری میں بہت زیادہ کام ہے۔ یہ ہفتہ ایسے ہی گزرے گا۔ اس دفعہ تو ہفتے کو بھی کام پے جانا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آپ کا اگلا باب تیار ہے‘‘۔
’’فرشتہ صاحب مجھے اب تک پتا نہیں چلا کہ آپ موبائیل فون کیوں نہیں استعما ل کرتے‘‘۔
’’ثقلین صاحب آپ ابھی تک یہی سوچ رہے ہیں ۔ویسے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ بس ویسے ہی ‘‘۔
’’چلیں آپ نہیں بتانا چاہتے ،آپ کی مرضی‘‘۔
میں نے کہا، ’’آگے چل کے آپ کو پتا چل جائے گا۔ ویسے کوئی خاص با ت نہیں لیکن کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسا وقت بھی آتا ہے کہ کسی کی بات دل کو چھو جاتی ہے۔ اس کا انسان پے بہت اثر ہوتاہے‘‘َ
وہ بولا، ’’نیائش بھائی‘‘۔
’’وہ سو گئے ہیں۔ انہیں یہی شک ہے کہ آپ ناراض ہوگئے ہیں ۔شاید ہماری کوئی بات بری لگ گئی ہے یا کوئی اور بات ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ورنہ میں آتا ہی نہ ‘‘۔
میں نے پوچھا، ’’چائے پینی ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’نہیں صبح جلدی اٹھنا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’جیسی آپ کی مرضی ‘‘۔
میں نے اگلا باب دیا ۔ثقلین نے باب ہاتھ میں پکڑا اور کہنے لگا، ’’میں چلتا ہوں‘‘۔
میں دروازے تلک اسے چھوڑنے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کو سوچتے سوچتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح سیکیورٹی گارڈ کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ آج ۲۰۰۲ ،جون کی ۲۵ تاریخ تھی۔ آج پہلا سیمی فائینل بھی تھا۔ جرمنی اور ساؤتھ کوریا کا۔ مجھے سو فیصد یقین تھا مجھے کیا سب کو یقین تھا کہ جرمنی جیت جائے گا۔ میں سوچنے لگا نہ جانے میں سیمی فائینل دیکھ سکوں گا کہ نہیں۔ خیر میں
نے میچ کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا اور باتھ کی طرف گیا۔ میں اسی باتھ میں گیا جہاں کہ کوئی نہیں جاتا تھا۔ میں نے جلدی سے شاور لیا ۔دانت صاٖف کیئے۔ اس کے بعد ہم سب ہال میں اکھٹے ہوگئے۔ جن لوگوں نے کنٹون جانا تھا ان کو کہا گیا کہ اپنی اپنی بستر کی چادر، تکیہ کا غلاف اوپر اوڑھنے والی چادر، تولیہ جو بھی چیزیں ہیں نیچے پہلے منزل پے جاکے جمع کروادیں ۔ ہم سب نے اپنی اپنی چیزیں اکھٹی کیں اور نیچے چلے گئے جہاں ایک افریقن لڑکا اور ازیل ہائم کا بندا کھڑا تھا ۔ وہ چادریں علیحدہ جگہ ڈال رہے تھے اور غلاف علیحدہ ۔ یہ کام روز ہوتا تھا لیکن ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا۔ میں نے بھی چادریں اس تھیلے میں ڈالی جہاں وہ افریقن چادریں اکھٹی کررہا تھا اور دوسرے تھیلے میں تکیئے کا غلاف ڈال دیا۔ جب ہم لوگ اس کام سے فارغ ہوئے تو سیکیورٹی گارڈ نے کہا۔ ٹرانسفر کے لیئے وین
تیار ہے۔ ہم سب لوگ وین کی طرف دوڑے۔ باقی لوگ پہلے ہی جاچکے تھے۔ میں یہ دیکھ کے خوش ہوا کہ وہ موٹا ڈرائیور نہیں تھا۔ ہم جیسے ہی وین میں بیٹھے ڈرائیور نے وہ ٹیوٹا وین سٹارٹ۔ میں نے مْڑ کے گارنیگے ہوٹل کو دیکھا۔ میں دل میں سوچنے لگا،میں اس گارنیگے ہوٹل کی عمارت کو آخری دفعہ دیکھ رہا ہوں۔ یہاں میں دس دن رہا لیکن ایسا لگنے لگا جیسے میں یہاں بہت عرصے سے رہ رہا ہوں۔ میں نہ صرف اس عمارت کو آخری دفعہ دیکھ رہا تھا بلکہ اس ٹیوٹا وین میں بھی میرا آخری سفر تھا۔ مجھے یہاں کرائس لنگن میں بھی اب چند گھنٹے ہی رکنا تھا۔ میں وین میں بودن سے یعنی لاگو دی کوستانزایعنی کوستانزا جھیل کے بارے میں سوچنے لگا۔ آگو تھو کے بارے میں سوچنے لگا۔ ان سجائی ہوئی خوبصورت اور رنگ برنگی سوانز کے بارے میں سوچنے لگا۔ وین ایک جھٹکے کے سا تھ رکی۔ میں بھی خیالوں کی دنیا سے واپس
آگیا۔ وین سے اترے تو ہمیں فوراً ہال میں جاناتھا۔ وہاں پے ناشتہ تیار تھا۔ وہی بروڈ، پیلی چائے،مکھن اور جیم کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں۔ یہاں پے مقصود بھی تھا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے کوئی گہرا صدمہ پہنچا ہے یا کوئی خطرناک بیماری لگ گئی ہے۔ میں نے کہا، ’’مرے کیوں جاتے ہوں۔ ناشتہ کرکے اس لڑ کی کو فون کرنے کا کوئی طریقہ نکالتے ہیں‘‘۔
رضا اور سالواتورے میرا انتظار کررہے تھے۔ میں نے کہا، ’’تم لوگ کب آئے ‘‘۔
رضا بولا، ’’آج ہم دونوں کا انٹر ویو بھی ہے اور پیشاب اور خون کا ٹیسٹ بھی‘‘۔
میں بڑا حیران ہوا۔ میں نے کہا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ تم لوگوں کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں تو شکر کروں گا کب اس جہنم سے جان چھوٹے گی‘‘۔
رضا بولا، ’نہیں یار یہاں نہ آتے تو ایک دوسرے سے ملاقات کیسے ہوتی‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے‘‘۔پھر بولا، ’’فرشتہ تم اپنا ای میل ایڈریس دو اور اگر کوئی موبائیل نمبر ہے تو وہ بھی دے دو‘‘۔
میں کچن میں گیا ۔اسی لڑکی سے جس سے میں روز کافی لے کر آتا تھا اس سے کاغذ اور پین لایا۔ اس پے اپنی ای میل آئی ڈی لکھ کر دی۔رضا کہنے لگا، ’’میری بھی لکھ لو‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم لوگ یہاں سے نکلو گے تو اپنی میل دیکھوگے نا‘‘۔
رضا بولا، ’’پھر بھی لکھ لو۔ اس نے اور سالواتورے نے اپنی اپنی ای میل آئی ڈی لکھ کر دی۔
مجھے مقصود نے بلایا۔ کہنے لگا، ’’کسی طریقے سے اس لڑی کو فون کرو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اچھاکرتا ہوں‘‘۔
میرے پاس پیسے تو تھے نہیں ۔میں اسی لڑکی سے ایک سوس فرانک لایا جو مجھے سالواتورے کے لیئے کافی بنا کے دیا کرتی ۔اس ہال میں ایک ٹیلی فون بوتھ بھی تھا جس میں سکے ڈلتے تھے لیکن میں نے کبھی
استعمال ہی نہیں کیا تھا ۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ فون کسے کرتا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے پاس یہاں پیسے ہی نہ ہوتے۔ خیر میں فون بوتھ کے جس جگہ سکہ ڈالتے ہیں اس سلاٹ میں سکہ ڈال دیا۔ مقصود مجھے نمبر بولتا گیا اور میں ڈائیل کرتا گیا۔ جب نمبر ڈائیل کرچکا تو ، فون کا رسیور میں نے کان کے ساتھ لگالیا۔ فون کی گھنٹی بج رہی تھی لیکن فون کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ کافی دیر گھنٹی بجنے کے بعد دوسری طرف سے کیسٹ بولنے لگی۔ میں نے کیسٹ میں اپنا پیغام ریکارڈ کروایا اور
رسیور رکھ دیا۔
مقصود کہنے لگا، ’’اس نے فون نہیں اٹھایا ۔اب جانے سے پہلے اس سے ملاقات بھی ہوگی کہ نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے پیغام ریکارڈ کروادیا ہے۔ دس بجے کا وقت بھی بتا دیا ہے۔ اگر اس نے آنا ہوا تو آجائے گی۔
سیکورٹی گارڈ نے ہمارے نام پکارے۔ میں رضا اور سالواتورے کے پاس گیا دونوں کو گلے لگایا ۔مجھے رضا کو چھوڑنے کا صحیح معنوں میں دکھ ہورہا تھا۔ میں نے دل میں یہی دعا کی کہ اس سے دوبارہ ضرور ملاقات ہو۔کیونکہ رضا نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ سیکیورٹی گارڈ ہمیں لے کے چل دیا۔ ہمارے ساتھ اور لوگ بھی تھے۔ و ہ سیکیورٹی گارڈ ہمیں اسی عمارت کے پاس لے آیا جہاں میں پہلے دن آیا تھا اور اس کے بعد کئی دفعہ آچکا تھا۔ اس نے کارڈ مشین کے سامنے کیا۔ وہی
چھوٹا سا لوہے کا دروازہ کھل گیا۔ ہم سب اندر داخل ہوئے۔ میںیہاں کئی دفعہ آیا تھا لیکن کبھی غور ہی نہ کیا کے ایک طرف ریلوے سٹیشن کی طرح کی کھڑکیاں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ٹکٹ لیتے ہیں۔ سیکیورٹی گارڈ نے کہا۔ ’’اس قطار میں کھڑے ہوجاؤ‘‘۔
ہم نے اس کی حکم کی تعمیل کی اور اس کی بتائی ہوئی قطار میں کھڑے ہوگئے۔سامنے تین کھڑکیاں بنی ہوئی تھیں جس طرح ریلوے سٹیشنوں پے بنی ہوئی ہوتی ہے۔ ہر کھڑی کے پیچھے ایک خوبصورت لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ ہر کھڑکی کے سامنے قطار بنی ہوئی تھی۔ جس قطار میں میں اور مقصود کھڑے تھے اس قطار کا ایک بندہ ہاتھ میں ایک کاغذ لے کے کھڑکی کے سامنے ہٹ گیا۔ اس لڑکی نے نام پکارا۔ اس طرح قطار آگے چلتی گئی۔ لوگ جاتے گئے۔ پھر اس نے میرا نام پکارا۔ میں کھڑکی کے سامنے کھڑا تھا۔ اس نے میری ہاوس وائس دیکھی
اور میرے ہاتھ ایک ٹرین کا ٹکٹ پکڑایا۔ اس کے بعد مجھے ہاتھ میں ایک فوٹو سٹیٹ کیا گیا کاغذ پکڑایا۔ اس پے کوئی نقشہ بنا ہوا تھا۔ اور پیلے رنگ کے ہائی لائٹر کے ساتھ ایک لائن ہائی لائٹ کی گئی تھی۔ وہ مجھے سمجھانے لگی کہ میں نے تم کو کرائس لنگن سے زیورک کا ٹکٹ دیا ہے۔ تم نیکرائس لنگن سے ونٹرتھور جانا ہے۔ وہاں سے زیورک کی ٹرین پکڑنی ہے۔ اس کے بعد سٹیشن سے نکل کے اس راستے پے جانا۔ یہ جگہ سٹیشن کے پاس ہی ہے ۔قریباًدس منٹ پیدل کا راستہ ہے۔ یہاں تم نے جاکے اطلاع کرنی ہے۔ سمجھ آگئی۔ میں نے کہا سمجھ آگئی اور یہ کہہ کے میں کھڑکی کے آگے سے ہٹ گیا۔ اب مقصود کی باری تھی۔ اس نے مقصود کو بھی یہی کچھ کہا، ساراکچھ سمجھایا ۔پھر کہا کہ سمجھ آگئی ہے تو مقصود میری شکل دیکھنے لگا۔ میں نے اس لڑکی کو کہا، اس کو میں سمجھا دوں گا۔ وہ کہنے لگی اس نے ونہی جانا ہے جہاں تم نے
جانا ہے۔ اس کو ساتھ لے جانا۔ میں نے کہا، ظاہر ہے اس کو ساتھ لے کر جاؤں گا۔ پھر بولی اب تم فارغ ہوکو۔ مجھے ایسے لگا جیسے مجھے جیل سے رہائی مل گئی ہو۔ میں تو اس عمارت سے خوشی خوشی نکلا لیکن مقصود کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا تھاجب میں نے سوزی کو فون کیا تھا اور وہ نہیں آئی تھی لیکن اب میں اس غم کو بھول چکا تھا۔ ہم نے سیکیورٹی گارڈ کو اپنی ہاوس وائس دکھائی اور ٹکٹ بھی ۔اس نے دروازہ کھول دیا۔ میں اس عمارت کے سامنے جون کی ۱۵ تاریخ کو غلطی سے آگیا تھا۔ میں نے گھنٹی پے ہاتھ بھی رکھا تھا۔ آج میں یہاں سے جارہا تھا۔ آج میں آزاد تھا۔ مجھے ایسا لگنے لگا جیسے میں کھلی فضاء میں سانس لیے رہا ہوں۔ ہم لوگ شروع کے دنوں کے علاوہ قریباًروزہی دن میں دودفعہ دو دو گھنٹے کے لیئے باہر جاتے تھے لیکن اس میں عجیب قسم کی پابندی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی غلام کو
تھوڑی دیر کے لیئے آزادی ملی ہے۔ لیکن اب مکمل آزادی تھی۔ ہم دونوں اسی بیرک نماں عمارت کے سامنے سے گزرے جہاں میں پہلے دن آیا تھا اور اندر بیٹھ کے بڑی حسرت سے باہر آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا تھا۔ میں نے اپنی آزادی خود سلب کی تھی۔ مجھے یاد ہے جب میں نے پہلی رات اس بیرک نماں عمارت کی زمین پے کمبل بچھا کے گزاری تھی۔کس طرح اس کمرے سے ملحق باتھ روم کی ٹوٹی سے میں نے پلاسٹک کے گلاس میں پانی پیا تھا۔ مجھے اس گندے نالے سے کتنی بو آئی تھی۔ بو کے بھبھوکے میرے ناک سے گزر کے میرے دماغ میں گھس گئے تھے۔ اتنا برا حال تھا کہ سانس لینا مشکل تھا۔ لیکن اب بالکل بھی پتا نہ چلاکہ اس گندے نالے سے بو آرہی ہے۔ ہم دونوں اس نالے کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سٹیشن کی اسی سب وے سے گزرے جہاں میں نے پہلے دن دو چکر لگائے تھے۔ مقصود بالکل
چپ تھا اور میں اپنے خیالوں میں مگن تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر ٹرین کے آنے میں تھوڑی دیر ہوئی تو میں انٹر نیٹ کیفے والے سے اپنا موبائیل فون لے آؤں گا۔ ہم سب وے سے نکل کے سٹیشن پے آگئے۔ ہمارے پاس ٹرین کے ٹکٹ کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ انہوں نے ہمیں پیسے نہیں دیئے تھے۔ بس ٹرین ٹکٹ۔ میرا خیال تھا ازیل ہائم سے نکلنے سے پہلے کسی سے ایک دو سوس فرانک لے لوں گا اور مقصود کی معشوقہ کو فون کردو ں گا کہ ہم لوگ زیورک جارہے ہیں لیکن سارا کچھ اتنا جلدی ہوا کہ مجھے موقع ہی نہ ملا۔ میں نے سوچا تھا کہ رضا اور سالواتورے کو خداحافظ کہوں گا لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ یہ اچھا ہوا کہ میں نے ان سے ای میل آئی ڈی لے لی تھی۔ میرا دل چاہتا تھا کہ رضا سے رابطہ رکھو ں لیکن میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ سب کیسے ہوگا۔
ہم دونوں ریلوے سٹیشن پے آکے کھڑے ہوگئے۔ ٹرین کے آنے میں پندرہ منٹ تھے۔ میرا پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں انٹرنیٹ کیفے سے جاکے اپنا موبائیل لیتا۔ اس طرح میری ٹرین نکل جاتی اور اگلی ٹرین دو گھنٹے بعد تھی۔ مقصود بولا، ’’تمہارے پاس پیسے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بھی تمہاری طرح ہوں ۔میرے پاس پیسے کہاں سے آئے‘‘۔
’’اس کو فون کرنا ہے۔اس کو بتانا کہ ہم لوگ زیورک جارہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارے سامنے فون تو کیا تھا اس نے جواب ہی نہیں دیا ۔میں نے پیغام تو ریکارڈ کروایا ہے۔ اگراس نے آنا ہوا تو آئے گی‘‘۔
مقصود کہنے لگا، ’’وہ موٹا لڑکا تم جانتے ہو، وہ کہتا تھا اگر تمہاری شادی ہوگئی اس عورت سے تو تمہیں بے مل جائے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہاری بے نہیں ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’میرا مطلب پنجابی والی بے نہیں بلکہ جرمن بے یعنی ہاوس وائس جس پے بے لکھا ہوتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس عورت سے کوئی لگاؤ نہیں تمہیں بے کے چلے جانا کا دکھ ہے‘‘۔
مقصود بولا، ’’فرشتہ ،میرا اس عورت سے کیا لینا دینا۔ نہ جانے کتنے مردوں کے ساتھ سو چکی ہے۔ مجھے کاغذ مل جائیں تو بھاڑ میں جائے‘‘۔
میں یہ بات سن کے چپ کر گیا۔ آج میچ بھی تھا۔ ساؤتھ کوریا کا اور جرمنی کا۔مجھے پتا تھا جرمنی جیتے گا۔ سٹیشن پے اتنی گہماں گہمی نہیں تھی۔ ہماری ٹرین پلیٹ فارم پے آکے رکی۔ ہم دونوں جلدی سے ٹرین میں سوار ہوئے۔ ہمارے پاس ٹکٹ تھا، ہاوس وائس تھی۔ جہاں ہم نے
جانا تھا وہاں کا نقشہ تھا۔ ٹرین چند منٹ رکی اس کے بعد ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ چلی۔ میں نے کرائس لنگن پے آخری نظرڈ الی۔ یہاں کی جھیل ،وہ سوانز جو کرائس لنگن کی مختلف جگہوں پے سجائی گئی تھیں۔ ہر سوانز دوسری مختلف تھی۔ پھر وہ جھیل میں رنگ برنگی بادبانوں والی کشتیاں۔ جھیل کے درمیان جرمنی اور سوس کا بارڈر بنا ہوا تھا۔ گارنیگے ہوٹل جس میں ہم رات کو سونے جاتے۔ وہ بیرک نماں عمارت ۔ جہاں میں پہلے دن آیا تھا۔ وہ ہال جس میں ہم کھانا کھاتے تھے۔ اگا تھو، وہاں پی ہوئی چائے، وہاں کے نیشنل جوگریفکس جو میں نے پڑھے ہی نہیں تھے۔ جو میں گارنیگے ہوٹل میں ہی چھوڑ آیا تھا۔ وہ ٹیوٹا وین جس میں ہمیں لایا لے جایا جاتاتھا۔ وہ موٹا آدمی جس نے مجھے کتے والی جگہ بٹھایا تھا۔ وہ خوبصورت نرس جو مجھے فرنچ لگتی تھی۔ وہ عورت جو بہت غصے سے بولتی تھی۔ جس کو اس مراکش کے لڑکے نے
دھوکہ دیا تھا۔ وہ اٹالین سیکیورٹی گارڈ، وہ موٹا آدمی جو ہمیں گارنیگے ہوٹل میں کبھی کبھی کھانا تقسیم کرتا تھا۔ جو بالکل پاکستانی گلوکار عدنان سمیع خان کی طرح تھا۔ ہمارا ٹیرس پے بیٹھنا۔ ہماری سب سے اچھی میٹنگ جو ہوئی وہ میری ،رضا اور سالواتورے کی تھی۔ جس میں ہم نے بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ رضا نے دانتے اور بوکاچو کے بارے میں بیان کیا تھا۔ ٹرین چلتی رہی اور میں کرائس لنگن میں گزرے واقعات کو ذہن میں لارہا تھا۔ ان گیارہ دنوں میں اتنا کچھ ہوگیا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی جگہ کئی سال رہ کر جارہا ہوں۔ ٹرین چلتی رہی۔ مقصود کچھ نہ بولا۔ اس کو یہی غم کھائے جا رہا تھا کہ وہ عورت ریلوے سٹیشن پے نہیں آئی ۔ ٹرین فرائن فیلڈ ریلوے سٹیشن پے رکی۔ چند منٹ رک کے ٹرین پھر چل پڑی ۔ مقصود بولا، ’’اگر ہمیں زیورک ہی رکنا پڑا تو بہت اچھا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ کیوں‘‘۔
’’کیوں کہ وہاں مجھے کام مل جائے گا۔ اس موٹے لڑکے کے چاچے کا اپناکاروبار ہے۔ اس نے مجھے اس کا فون نمبر دیا ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’یہ تو بہت اچھی بات ہے‘‘۔
مقصود کے دماغ میں نہ جانے کیا ہل چل مچی ہوئی تھی لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم جس دفتر میں جارہے ہیں وہ کیسا ہوگا۔ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ اب بارہ بجے کھانے کے میزنہیں کھولنے پڑیں گے ۔اتنے دن صبح چھ بجے ناشتہ کرنا، بارہ بجے دن کا کھانا کھانا اور رات کا کھانا دن کے چھ بجے کھانا۔ ایک عادت سی بن گئی تھی۔ اب بھوک بھی لگ رہی تھی۔ جیب میں پیسے بھی نہیں تھے۔ میری یہی خواہش تھی کہ جلدی سے میں اور مقصود اپنی منزل مقصود پے پہنچیں۔ ٹرین چلتی رہی۔ آخر ونٹر تھور کے بورڈ نظر آنے شروع ہوئے ۔ٹرین جیسے ہی ونٹر تھور ریلوے سٹیشن
پے رکی ،ہم دونوں تیزی سے ٹرین سے اترے۔ یہاں سے ہم نے زیورک کی ٹرین لینی تھی۔ میں سٹیشن پے لگے ہوئے بڑے بڑے ڈسپلیز پے دیکھنے لگا کہ زیورک کے لیئے اگلی ٹرین کون سی ہے۔ ایک طرف آنے والی ٹرینوں کا لکھا ہوا تھا جو زیورک سے آرہی تھیں اور آگے جارہی تھیں اور دوسری طرف جانے والی ٹرینوں کا لکھا ہوا تھا جو زیورک جارہی تھیں۔ یہاں ہر سٹیشن پے چار زبانوں میں لکھا ہوتا ہے۔ اٹالین، جرمن، فرینچ اورچوتھی زبان میری سمجھ میں نہیں آتی تھی لیکن اس کانام ریترو رومانو ہے۔ زیورک جانے والی ٹرین ساتھ والے پلیٹ فارم پے کھڑی تھی۔ ہم ایک لمحے کے لیئے دیر کردیتے تو اگلی ٹرین پے جانا پڑتا۔ ہم دونوں ٹرین میں سوار ہوئے۔ ٹو ں کی آواز کی ساتھ ٹرین کے دروازے بند ہوئے ہم دونوں جس کمپارٹمنٹ میں بیٹھے تھے اس کی سیٹیں بڑ ی جدید تھیں۔ کہیں پے گول
دائرہ بنا ہوا تھا۔ کہیں پے تکون بنا ہوا تھا۔ میں سوچنے لگا کہیں ہم لوگ کسی غلط ٹرین میں تو نہیں بیٹھ گئے۔میں نے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ ٹرین یورو سٹار تو نہیں۔ وہ کہنے لگا یہ عام ریجنل ٹرین ہے۔ میں بڑا حیران ہوا ۔ مجھے اٹلی کی ٹرینوں میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن وہاں کی ریجنل ٹرین کا تو برا حال ہے۔میں سوچنے لگا اگر یہ ریجنل ٹرین ہے تو یورو سٹار کا کیا حال ہوگا۔ جب میں لوگانوں سے آیا تھا اس وقت میں ذہنی طور پے کہیں اور تھا اس لیئے میں نے سوچا ہی نہ تھا کہ میں کس قسم کی ٹرین میں بیٹھا ہوں۔ ہمیں ٹرین میں بیٹھے ہوئے ا بھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ ہمیں زیورک کے سائن بورڈ نظر آنے لگے۔ مجھے تھوڑی تھوڑی بھو ک لگ رہی تھی۔ مقصود کہنے لگا، ’’ہم لوگ جب ٹرین سے اتریں گے تو کہاں جائیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم فکر نہ کرو میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہمارے پاس جو
نقشہ ہے اس پے سارا راستہ بنا ہوا ہے۔ ہم اس پیلے نشان کو دیکھتے ہوئے چلے جائیں گے اور اس جگہ پہنچ جائیں گے‘‘۔(میں نے اسے نقشہ دکھاتے ہوئے کہا)
ٹرین رکی ہم دونوں ٹرین سے اترے۔ یہ وہی ٹرین سٹیشن تھا جہاں مجھے سوزی سے ملنے کی امید تھی۔ اب میں کسی سوزی کے انتظار میں نہیں تھا۔ وہی پلیٹ فارم، وہی سٹیشن پے بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے کیبن جن میں سینڈوچ اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں تھیں۔ جب میں لوگانوں سے یہاں آیا تھا۔ یہاں اتر کر میں نے سینڈوچ کھایا تھا، کوک پی تھی۔ یہیں میں نے اپنی جیب بھی خالی بھی کی تھی ۔ اب میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ صرف ٹکٹ تھا وہ بھی اب استعمال ہوچکا تھا۔ اب ہم نے زیورک ریلوے سٹیشن سے پیدل جانا تھا۔ یقیناًیہاں سے کوئی ناکوئی بس بھی جاتی ہو گی لیکن ہمیں انہوں
بس کا ٹکٹ نہیں دیا تھا۔ وہی الیکٹرونک ڈسپلے تھے۔ سٹیشن پے گہما گہمی تھی۔ لوگ آجارہے تھے ۔یہاں کرائس لنگن کی طرح نہیں تھا۔ بہت سے ٹورسٹ، مہاجرین اور دیگر لوگ تھے۔ ہم دونوں ریلوے سٹیشن سے باہر نکلے۔ زیورک ریلوے سٹیشن کے باہر بڑاسا گھڑیال تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں فلم بیک ٹو دا فیوچر دیکھ رہا ہوں۔ میں نے نقشہ دیکھا۔ اس پے ہم جس طرف کھڑے تھے اس کے سامنے ٹرام کا سٹاپ تھا۔ ہم دونوں نے ریلوے سٹیشن کا چکر لگایا۔ ہمیں باہن ہوف پلاٹز (Bahnhof Platz)پے آنا تھا۔ میں نقشے کے مطابق وہاں پہنچا۔
مقصود بولا، ’’تمہیں یقین ہے کہ ہم وہ دفتر ڈھونڈ لیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم مجھ پے بھروسہ رکھو‘‘۔
باہن ہوف پلاٹز کے سامنے تین سڑکیں تھیں۔ ایک تو باہن ہوف
سترازے(Bahnhof Strasse) تھا یہ سڑک بہت بڑی تھی۔ اس پے بڑے بڑے سٹور تھے۔ دوسری سڑ ک لنتھ ایسکر (Linthesker)تھی۔ ہمیں لوون سترازے (Lowenstrasse)پے جانا تھا۔
میں نے مقصود سے کہا، ’’مجھے پتا چل گیا ہے۔ میرے پیچھے پیچھے آؤ‘‘۔
ہم دونوں لوون سترازے پے پہنچے یہاں سے چلتے چلتے ایک چوک میں پہنچے ۔یہاں سے دو تین سڑکیں نکلتی تھیں۔ اس کے ایک طرف ایک بہت بڑی عمارت تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں دوسری جنگِ عظیم کی کوئی فلم دیکھ رہا ہوں۔ میں نے ایک شخص کو روک کے پتا پوچھا ۔وہ کہنے لگا۔یہاں سے دس منٹ کا راستہ ہے۔ میں نے کہا۔ دس منٹ تو انہوں نے ہمیں بتایا تھا ۔ہم دس منٹ سے زیادہ چل چکے ہیں۔ خیر
ہم اس کے بتائے راستے پے چل دیئے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد ہمیں وہ دفتر مل گیا۔ وہاں اور بھی لوگ کھڑے تھے۔ وہاں کئی قسم کے پیمفلٹ پڑے ہوئے تھے۔ کاونٹر کلرک کے پاس کوئی کھڑا تھا۔ میں اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ وہ جیسے ہی کھڑکی کے سامنے سے ہٹا میں نے اپنی کاغذات اس کے سامنے رکھ دیئے۔ اس نے مجھے ٹرین کا ٹکٹ دیا۔ اس کے بعد مجھے بتایا کہ مجھے کہاں جانا ہے۔میں نے اپنا ایڈریس دیکھا’’اووربیول‘‘(Ohrbuhl)۔ میں نے اس سے پوچھا، ’’یہ کہاں ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’تمہیں زیورک سے ونٹرتھور جانا ہوگا۔ وہاں سے بس میں بیٹھ کے اووربیول جانا ہوگا۔ اس پے میں نے سٹاپ کا نام لکھ دیا ہے اس پے اتر جانا اور کسی سے پوچھ لینا۔ ویسے یہ مشہورجگہ ہے‘‘۔
میرے بعد مقصود کا نمبر تھا۔ وہ کھڑکی کے پاس جانے سے پہلے مجھے
کہنے لگا، ’’اگر ہمارا کمرہ ایک ہی ہوا تو ہم دونوں اکھٹے کھانا کھایا کریں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیا مطلب ‘‘۔
کہنے لگا ،’’یہاں سوس میں کچی کرائس میں وہ لوگوں کے گروپ بنا دیتے ہیں ۔ایک گروپ میں تین تین بندے ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا،’’تم یہ سب کیسے جانتے ہو‘‘۔
کہنے لگا ،’’یہ مجھے اس موٹے لڑکے نے بتایا ہے‘‘۔
کاونٹر کلرک نے مقصود کو ہاتھ کے اشارے سے بلایا۔ میں بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ اس نے مقصود کو بھی بس کا ٹکٹ دیا۔ اس کے بعد جہاں اس نے جانا تھا وہاں کا ایڈریس دیا۔ اس نے ایڈریس مجھے تھما دیا۔ میں نے ایڈریس دیکھا۔ اس پے زیورک کا ایڈریس تھا۔ میں نے کہا،’’مقصود اس پے زیورک کا ایڈریس لکھا ہوا ہے۔ تم میرے
ساتھ نہیں جارہے ہو‘‘۔
مقصود کی شکل ایسے ہوگئی جیسے ابھی رو دے گا۔کہنے لگا،’’اس سے کہو کہ مجھے تمہارے ساتھ ہی بھیج دے‘‘۔
میں کاؤنٹر کلرک کو کہا،’’ اس کی کچی کرائس بدل نہیں سکتی‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’یہ میرے اختیار میں نہیں ۔میرے پاس جس طرح لسٹ آتی ہے میں اس کے مطابق تم لوگوں کو ٹکٹ اور وہاں پتا اور نقشہ دے دیتا ہوں‘‘۔
میں نے مقصود سے کہا، ’’یہ ممکن نہیں‘‘۔
کاؤنٹرکلرک کہنے لگا، ’’تم لوگوں نے آج ہی یہاں پہنچنا ہے‘‘۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ہم دونوں اس دفتر سے نکلے ۔ مقصود کہنے لگا، ’’چلو سٹیشن تک اکھٹے چلتے ہیں‘‘۔
ہم دونوں واپس سٹیشن کی طرف چل دیئے۔ ہم پندرہ منٹ میں
زیورک ریلوے سٹیشن پے تھے۔ مقصوود کو میں نے نقشہ سمجھایا۔ اس کے بعد ونٹرتھور جانے والی ٹرین پے بیٹھ گیا۔ مقصود نے ہاتھ ہلایا۔ مجھے ایسے لگا جیسے میں کسی بچے کو اکیلا چھوڑ کے جارہا ہوں۔ وہ اس موٹے لڑکے کے چاچے کو بھی تو فون کرسکتاہے۔ خیر ٹرین چلی تو میں اپنے بارے میں سوچنے لگا۔ انسان کتنا خود غرض ہوتا ہے۔ یا میں یہاں رہتے رہتے خود غرض ہوگیا تھا۔ قریباًدن کے پونے ایک بجے میں ونٹر تھور پہنچا۔ میں بالکل اکیلا تھا۔ سٹیشن سے باہر نکلا۔ میرا خیال تھا چھوٹا سا ریلوے سٹیشن ہوگا۔ لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ باہر آیا ایک طرف ایک نئی عمارت تھی۔ اس کے ساتھ ایک پرانی عمارت تھی۔ ایک کونے ایک پرانی طرز کی آئس کریم کی ٹرالی تھی جس پے بہت خوبصورتی سے رنگ کیا گیا تھا۔ وہاں ایک موٹا سا آدمی کھڑا ۔ مجھے دیکھ کے مسکرایا۔ میں نے کہا، ’’مجھے اس پتے پے جانا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ازیل ہائم‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں‘‘۔
مجھے وہ شکل سے اٹالین لگا۔میں نے اٹالین میں پوچھا، ’’تم اٹالین ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’تمہیں کیسے پتا چلا ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا خیال تھا‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں میں اٹالین ہوں۔ یہاں پے سارے بس ڈرائیور بھی اٹالین ہیں۔ تمہیں اوور بیول جانے کے لیئے وہ سامنے جو بس سٹاپ ہے وہاں جانا ہوگا‘‘۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ جاکے اس بس سٹاپ پے بیٹھ گیا۔ یہ بس سٹاپ سارا کا سارا شیشے کا بنا ہوا تھا اور بہت ہی خوبصورت تھا۔ اس کے سامنے ایک بس کھڑی تھی۔ میں جرمن نہیں جانتا تھا۔ کبھی
انگریزی سے، کبھی اٹالین اور کبھی فرنچ سے کام چلا لیتا۔ یہاں بس سٹاپ پے چند افریقن لڑکے بھی بیٹھے تھے۔ میرے خیال میں نائیجیریاء کے تھے۔ ان کی ڈھا ڈھا والی انگریزی مجھے کم ہی سمجھ آتی تھی۔ میں نے پوچھا، ’’تم لوگ اووربیول جارہے ہو‘‘۔
ان میں سے ایک بولا، ’’میں اووربیول جارہا ہوں اور یہ باقی سپیکٹرم(Spectrum) جارہے ہیں‘‘۔
مجھے کیا پتا تھا سپیکٹرم کیا ہے۔ میں نے اووربیول جانا تھا۔ بھوک بڑی شدت سے ستا رہی تھی۔ مجھے دن کے بارہ بجے کھانا کھانے کی عادت پڑ گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں نا ،’’رام رام گنگا،ایویں لیا پنگا‘‘۔اس طرح کی بات تھی۔ میں اچھا خاصہ اٹلی آیا تھا۔ پاکستان جارہا تھا ۔پہلی غلطی یہ کی کہ اٹلی رک گیا دوسری غلطی سوس آکر کی۔دل بہت گھبرا رہا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ جیسے ہی بس آئی وہ افریقن کہنے لگا، ’’یہ ہماری بس
ہے‘‘۔
میں بس میں اس کے ساتھ سوار ہوگیا۔ بس چلی ۔میں نے ڈرائیور کو غور سے دیکھا۔ واقعی ہی اٹالین تھا۔ میں سوچنے لگا۔ وہ آئس کریم بیچنے وال بھی اٹالین تھا یہ بس ڈرائیور بھی اٹالین ہے۔ نہ جانے کون کون سے کام میں اٹالین گھسے ہوئے ہیں۔ بس نے پہلا سٹاپ ٹیکنیکم سترازے (Tecknikum strasse)پے کیا۔ اس کے بعد اندستری آیا۔ایک دو سٹاپوں پے بعد اوور بیول آگیا۔ بس تو آگے چلی گئی لیکن ہم دونوں یہیں اتر گئے۔ اووربیول کے آس پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ جہاں ہم اترے تھے اس کے سامنے ،سڑک کے اس کے پار بھی ایک بس سٹاپ تھا۔ یہاں ایک پٹرول پمپ بھی تھا اس کے ساتھ ایک چھوٹی سی دوکان بھی تھی ۔دور سے پتانہ چلا کہ اندر کیا کیا ہے۔ ہم دونوں بس سٹاپ کے پچھلی طرف
ایک سڑک پے ہولیئے۔ مجھے یہ نہیں پتا تھا میں اس سڑک پے تین مہینے چل کے جاؤں گا۔ ایک طرف ایک دوکان تھی جہاں پے صرف اور صرف سکیئنگ کا سامان تھا۔ تھوڑا سا آگے آئے تو ایک فیکٹری تھی۔ پوری دنیا میں ان کے بنائے ہوئے بجلی کے بورڈ اور اور سرکٹ بکتے ہیں۔ اے بی بی (ABB) ان ساری چیزوں کو میں بڑے غور سے دیکھ رہا تھا ۔وہ افریقن میرے ساتھ ساتھ چل رہا تھا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری ذہنی حالت کیا ہے۔ چلتے چلتے ہم دونوں ایک عمارت کے سامنے پہنچے ۔اس عمارت کے ساتھ ایک چھوٹا سا نالہ تھا۔ جس میں پانی نہ ہونے کے برابر تھا۔ ایک طرف لکڑی کے بہت سارے پیلٹ پڑے ہوئے تھے اس کو اٹالین میں پنکالی بھی کہتے ہیں۔ یہ کسی ادارے کا سٹور تھا۔ جہاں مال آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ اس کے سامنے وہ عمارت تھی جہاں میں نے جانا تھا۔ ایک طرف بورڈ
پے لکھا تھا،’’ازیل ہائم ،اووربیول‘‘۔ اس عمارت کے اوپر شیشے کی کھڑکیوں سے اس طرح نظر آرہا تھا جیسے کوئی لیبارٹری ہو۔ داخلی دروازہ جو کہ نیچے کی طرف جاتا تھا ۔ایک ڈھلوان بنی ہوئی تھی۔ اس کا مطلب ہے اب مجھے اس تہہ خانہ نماں عمارت میں رہنا تھا۔ اس کے آس پاس چھوٹا سا باغیچہ بنا ہوا تھا۔ وہ افریقن لڑکا مجھے کہنے لگا، ’’کیا دیکھ رہے ہو۔ ہمیں اندر جانا ہیں‘‘۔
میں نے اپنی آنکھو کے کیمرے سے اس جگہ کا معائنہ بند کیا اوراس کے ساتھ اس ڈھلوان نماں جگہ پے اتر گیا۔ یہاں ایک کھلی جگہ بنی ہوئی ۔دو بڑے بڑے صوفے ہوئے تھے۔ ان پے مختلف ملکوں کے لوگوں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان لوگوں پے اچٹتی نظر ڈالی اور اس افریقن لڑکے ساتھ اندر داخل ہوگیا۔ جس جگہ پے میں چل رہا تھا یہ جگہ لکڑی کے تختوں کی بنی ہوئی تھی۔ صاف لگتا تھا کہ یہ ہنگامی
بنیادوں پے بنائی گئی ہے۔ جس طرح جنگ کے دنوں میں بنائی جاتی ہے۔ راستے میں کوئی دروازہ نہیں تھا۔ ہم دونوں جیسے ہی اندر داخل ہوئے۔ ایک طرف میز پڑی ہوئی تھی۔ اس کے ایک طرف ایک لکڑی کا نوٹس بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس پے جابجا پولورائیڈ کیمرے سے کھینچی ہوئی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ہم جیسے ہی داخل ہوئے تو سامنے ایک گورا چٹا آدمی اٹھ کے میرے پاس آیا اور کہنے لگا،’’تم کرائس لنگن سے آئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں‘‘۔ اس کو میں نے اپنے کاغذات دکھائے۔ تو کہنے لگا، ’’میرا نام شیفر ہے۔میں یہاں کا ہاوس ماسٹر ہوں۔ اس کے علاوہ شنائیڈر بھی ہاوس ماسٹر ہے۔ وہ ابھی تھوڑی دیر میں آجائے گا‘‘۔
اس ہاؤس ماسٹر نے بغیر بازوؤں والی ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ جو اس کے جسم پے بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی کیونکہ نہ تو اس کے چھاتی باہر
کونکلی ہوئی تھی بلکہ ڈھلکی ہوئی اس کے علاوہ اس کاپیٹ بھی نکلا ہوا تھا اور اس کے بازو ؤں پے عجیب سے لال لال دھبے تھے جس کی وجہ سے اس کو یہ ٹی شرٹ بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اس کا انگریزی بولنے کا تلفظ بہت عجیب تھا۔ ابھی ہم ایک دوسرے سے متعارف ہی ہورہے تھے کہ سامنے گلبدین آتا دکھائی دیا۔ مجھے دیکھ کے شور کرنا شروع کردیا، ’’ماڑا کیا ہے‘‘۔
مجھے پتا تھا یہ افغانی نہیں لیکن جھوٹ موٹ کا افغانی بنا ہوا ہے وہ جان بوجھ پٹھانوں کے انداز میں بولتا تھا ورنہ اس کا لب و لہجہ مانسہرہ کے لوگوں جیسا تھا۔
ہاؤس ماسٹر شیفر مجھے کہنے لگا، ’’تم ایک دوسرے کو جانتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں ہم دونوں کرائس لنگن میں اکھٹے تھے۔ یہ مجھ سے پہلے آگیا مجھے وہاں گیارہ دن رکنا پڑا‘‘۔
ہاوس ماسٹر نے ہاتھ میں پولورائیڈ کیمرہ اٹھایا ہوا تھا۔ کہنے لگا ،’’یہاں جو بھی آتا ہے ہم یادگار کے طور پے اس کی تصویر اتارتے ہیں۔ تم سامنے کھڑے ہو جاؤ،تمہاری بھی تصویر اتارنی ہے‘‘۔
میں جب سے یہاں آیا تھا لوگوں کے حکم کی تعمیل کرتا آیا تھا۔ اس لیئے شیفر کی بات مانتے ہوئے میں دیوار کے ساتھ کھڑا ہوگیا۔ اس نے پولورائیڈ کیمرے سے میری تصویر اتاری۔ میرا ایک دوست اس پولورائیڈ کیمرے کو ہگنے والا کیمرہ کہتا ہے۔ وہ کہتا ہے جب اس سے تصویر نکل کر باہر آتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ اس کیمرے سے تصویر ایسی نکلتی ہے جیسے ہم ہگتے ہیں۔میں جب بھی پولورائیڈ کیمرہ دیکھتاہوں تو مجھے اس کی بات یاد آجاتی ہے اور میرے چہرے پے مسکراہٹ بکھر جاتی ہے۔ فلیش لائٹ میرے چہرے پے پڑی اور چشمِ زدن میں کیمرے کے نیچے سے میری تصویر نکلی جیسے کیمرے نے ہگا ہو۔ شیفر
نے تصویر ہاتھ میں پکڑی اور اسے سکھانے لگا۔ جب تصویر سوکھ گئی تو اس کے پیچھے مارکر سے میرا نام لکھا اور اسی نوٹس بورڈ پے لگا دی جہاں اور تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ مجھے ایسے لگے لگا جیسے میں سیاسی پناہ گزین نہیں بلکہ کوئی اشتہاری مجرم ہوں۔ یہ ایک کھلا ہال تھا ۔ایک دیوار پے سگرٹ نوشی منع ہے کا اشتہار لگا ہوا تھا ۔اس سے تھوڑا آگے ایک دروازہ تھا جو بار بار کھلتا اور بند ہوتا کیونکہ کوئی نا کوئی اندرجاتا اور کوئی نا کوئی باہر آتا۔ مجھے نہیں پتا تھا اندر کیا ہے۔ اس سے آگے ایک اور لکڑ ی کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اس پے مختلف اخباروں سے کاٹی ہوئی سرخیاں لگی ہوئی تھیں۔ کچھ پیمفلٹ چسپاں تھے۔ اس دیوار سے آگے ایک اور دروازہ تھا ۔پھرمیں نے گھوم کے دیکھا۔ ہال کے وسط میں چار میزیں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ اسی طرح بند ہوجانے والی میزیں تھیں جس طرح کی کرائس لنگن میں تھیں۔ ان چاروں میزوں کو جوڑ کے
لگایا گیا تھا۔ اس کے آس پاس بہت ساری کرسیاں تھیں۔ ہاوس ماسٹرشیفر نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔ میں ایک کرسی پے بیٹھ گیا۔ اس کے بعد دو تین لڑکے اور بھی آئے۔ اس دوران گلبدین نہ جانے کہاں غائب ہوگیا اور شنائیڈر بھی آگیا۔ اس نے چیک دار قمیض پہن ہوئی تھی۔ نیچے سبز رنگ کی کورڈرائے کی پتلون پہلی ہوئی تھی۔ آتے ہی مجھ سے ہاتھ ملایا۔ پھر باقی لڑکوں سے ہاتھ ملایا۔ دونوں نے آپس میں کوئی بات کی ۔جرمن زبان بول رہے تھے لیکن مجھے ایسا لگا جیسے کہہ رہے ہوں کہ دونوں میں سے پہلے کون بولے گا۔کون ہمیں ہاوس کے قانون اور قاعدے بتائے گا۔
شنائیڈر بولاجو شکل سے بالکل جرمن لگتا تھا۔ اس کی ناک عجیب سی تھی، ’’تم سب کو ازیل ہائم کی ٹیم کی طرف سے خوش آمدید ۔ میں اور شیفر دونوں مل کے اس ازیل ہائم کا انتظام و انصرام سنبھالتے ہیں۔ یا
یوں کہنا چاہیئے کہ ہم دونوں یہاں ملازم ہیں۔ ہفتے میں تین دن شیفر کام پے آتا ہے اور تین دن میں۔ کبھی کبھی ہمیں باقی دن بھی آنا پڑتا ہے جیسے کہ آج یا جس دن ہم سوشل سیکیورٹی کا چیک دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ساتھ دوسرے لوگ بھی کام کرتے ہیں ۔ہر بندہ چھ گھنٹے کام کرتا ہے۔ یعنی یہاں ہمارے علاوہ چوبیس گھنٹے کوئی نا کوئی آپ لوگوں کی مدد کے لیئے موجود رہتا ہے۔ یہ یہاں کا ہال ہے۔( میں نے ہال کا بغور جائزہ لیا اس ہال کا کوئی حال نہیں تھا خیر) سامنے کچن ہے۔ اس کے ساتھ چھوٹا ساکمرہ ہے یہ یہاں کا ایمرجنسی ایکزٹ ہے ۔لیکن اس کے اندر ایک ٹیلی فون بھی لگا ہے جس پے آپ فون کال سن سکتے ہیں لیکن یہاں سے فون کرنہیں سکتے۔ اس کمرے کے ساتھ باتھ رومز ہیں۔ جہاں منہ ہاتھ ھونے کے لیئے، شیو کرنے کے لیئے جگہ بنی ہوئی ہے۔ جب تم لوگ اندر جاؤ گے تو
دیکھ لو گے کہ اندر شیشے بھی لگے ہوئے ہیں۔ اس ہال کے ساتھ ٹی وی روم ہے۔ جہا ں پر ٹی وی رکھا ہوا ہے۔ ایک دو دنوں میں ہم لوگ ڈش اینٹنا کا بھی انتظام کردیں گے جس کے ذریعے تم لوگ دو سو سے زیادہ چینل دیکھ سکوگے۔ ٹی وی روم کے ساتھ سونے کے کمرے ہیں۔ ہم لوگوں نے کمروں کو براعظم کے مطابق تقسیم کیا ہوا ہے۔ ایشیائی لوگ ایک کمرے میں، افریقن لوگ ایک کمرے میں اور روسی ریاستوں کے لوگوں کو ایک کمرے میں۔یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا۔ میرا خون کھولنے لگا۔ یہ کتنی گھٹیاء بات ہے۔ مجھے ایسا لگنے لگا جیسا شنائیڈر کے چہرے پے ہٹلر کا چہرہ لگ گیا ہے۔ وہ آرین نسل کو علیحدہ رکھنا چاہتا تھا۔ شنائیڈر نے مجھے سوچتے ہوئے دیکھا تو کہنے لگا، ’’تم کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ نہیں‘‘۔
اس نے نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’ہر کمرے میں اوپر نیچے تین تین بندے سوتے ہیں ۔ یہاں بستر تین منزلہ ہیں۔ یعنی ایک کمرے میں اٹھارہ بستر لگے ہوئے ہیں‘‘۔
یہ سن کے میرا سر گھوم گیا۔ میں سوچنے لگا۔ یہ کون سا سوئٹزرلینڈ ہے۔ وہاں کرائس لنگن میں ایک کمرے میں سولہ بندے سوتے تھے ۔میں کچی کرائس کا اس لیئے انتظار کررہا تھا کہ شاید یہاں سونے کے لیئے علیحدہ کمرہ ملے گا۔ یہاں اس سے بھی برا حال تھا۔ فرق صرف اتنا تھا یہاں ہم آزاد تھے۔ دو گھنٹے کے بجائے جب چاہتے یہاں سے باہر جاسکتے تھے۔
شنائیدر پھر بولا،’’مجھے تم کچھ پریشان لگ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں‘‘۔
وہ پھر بولا، ’’ ہم لوگ تمہیں ایک ایک تولیہ، بستر کی چادر، تکیہ،صابن، ٹوتھ پیسٹ اور برش دیں گے۔اگر کوئی چیز ختم ہوجاتی ہے تو سوشل کی رقم سے لانی ہوگی۔ہفتے میں دو فعہ بستر کی چادر دھونی ہوگی۔ یہاں پے نہانے کے لیئے ایک ہی بڑا باتھ ہے۔ اس کے اندر دس شاور لگے ہوئے ہیں اور درمیان میں پلاسٹک کے پردے لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح ایک ہی وقت میں دس بندے نہاں سکتے ہیں‘‘۔ میرا دل چاہتا تھا اسی وقت یہاں سے بھاگ جاؤں ۔ اتنا کہہ کر شنائیدر چپ کرگیا۔ اس کے بعد شیفر بولا، ’’یہاں پے مختلف ملکوں کے لوگ ہیں ۔اگر کسی کو زبان وغیرہ آتی ہے تو ہمارے مدد کرے ،ہمیں خوشی ہوگی۔ ہاوس کے اصولوں کی پابندی کرنی ہوگی۔ جو بھی ہاوس کے اصولوں کی پابندی نہیں کرے گا اس کی ریپورٹ خراب ہوجائے گی ۔اس کے کیس پے بھی اثر پڑے گا۔ کبھی کبھی ہمیں پولیس کو بھی بلانا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں رہنے والے ڈرگز کا استعمال نہیں کرسکتے۔نہ ہی چوری کرنے کی اجازت ہے۔ کیونکہ ہمیں اکثر آس پاس کے دوکانداروں کی شکایت آتی ہے کہ ازیل ہائم میں رہنے والے لڑکے چوری کرتے ہیں۔ کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو ہماری غیر موجودگی میں یہاں کے عملے کو بتا سکتا ہے۔ ہم نے یہاں چھوٹے ریفریجریٹرز کا انتظام کیا ہے۔ ہر ریفریجریٹر کو تین بندے استعمال کرتے ہیں۔ ایک دو دن میں ان ریفریجریٹرز کو چھوٹے تالے بھی لگ جائیں گے۔ اس تالے کی تین چابیاں ہونگی ۔ہر بندے کے پاس اپنی چابی ہوگی کیونکہ یہاں ایک دوسرے کے ریفریجریٹر سے چیزیں چوری کرکے کھانے کی شکایات آئی ہیں۔ یہاں پی ہر کسی کو مذہبی آزادی ہے۔ اگر کسی کو کوئی بات سمجھ نہیں آئی تو اس کا ہم زبان اس کو سمجھا سکتا ہے‘‘۔
اتنا کہہ کر شیفر چپ کرگیا۔ پھر شنائیڈر بولا، ’’تم لوگ دو دن ہمارے مہمان ہو۔ تمہیں کھانے پینے کی چیزیں ہم دیں گے۔ پھر جب تم
لوگوں کو سوشل ملے گی تو اپنی خریداری خود کیا کرنا اور خود پکایا کرنا۔ تم میں سے جو لوگ زبان سیکھنا چاہتے ہیں ،ہم ان لوگوں کے لیئے زبان سیکھنے کا انتظام کریں گے۔ بس کا ماہوار ٹکٹ ہماری طرف سے دیا جائے گا۔ جو کہ اووربیول اور ونٹرتھور کے آس پاس استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی کو کپڑے دھونے ہوں تو باتھ روم میں مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ دھونے کی بھی اور سکھانے کی بھی۔ ان مشینوں کے اندر جوتے دھونے کی اجازت نہیں ہے۔ مشین کو چلانے کا طریقہ ہم سیکھا دیں گے۔ جس کو کپڑے دھونے ہوں وہ ہم سے یا سٹاف کے کسی بھی بندے سے صرف(کپڑے دھونے کا پاؤڈر) خریدے گا اور کپڑے دھوئے گا۔ جو لوگ یہاں رہتے ہیں ان کو کام کی اجازت نہیں ہے نہ ہی رات باہر گزارنے کی اجازت ہے۔ اگر کسی کے بارے میں پتا چل گیا کہ وہ کام کرتا ہے تو اس کی سوشل بند ہوجائے
گی۔ جس کسی کور ات باہر گزارنی ہو وہ ہم سے اجازت لے گا‘‘۔شنائیڈر چپ کرگیا۔
شیفر بولا، ’’ونٹر تھور میں ایک بہت بڑا سینٹر ہے۔ وہ تم لوگوں کے لیئے ہے۔ وہاں پے کمپیوٹر کے ذریعے جرمن زبان سیکھنے کا انتظام ہے۔ وہاں پے فٹنس سینٹر ہے، وہاں پے چھوٹی سی لائبریری ہے، وہاں پے کھیلنے کے لیئے مختلف انڈور گیمز رکھی ہوئی ہیں۔ وہاں پے انٹرنیٹ پوانٹ بھی ہے۔ ایک چھوٹی سی کیفے بھی ہے جہاں سستی کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہے۔ یہ تو تھی ہاوس کے بارے میں باتیں ۔ اس کے علاوہ آج کے کھانے لیئے ہم نے بندا بھیجا ہوا ہے و ہ تمہارے کھانے کے لیئے کچھ لارہا ہے۔
اس لڑکی کا نام انیتا ہے وہ ایک بجے سے سات بجے تک یہاں رہے گی ۔وہ کسی وقت بھی آجائے گی۔اگر کسی کو کوئی سوال پوچھنا ہو تو پوچھ
سکتا ہے‘‘
میں نے کہا، ’’ہمیں جو سوشل کا چیک ملے گا وہ کہاں سے کیش ہوگا‘‘۔
شیفر بولا، ’’ہم لوگ تم کو ایک ٹوکن دیں گے ۔تم لوگ ونٹر تھور ،مارکیٹ گاس سترازے پے ایک بینک ہے وہاں سے کیش کراؤ گے۔ ویسے جب چیک ملتا ہے تو سب ونہی جاتے ہیں ۔اس لیئے تمہیں بینک ڈھونڈھنے میں دقت نہیں ہوگی‘‘۔
میں نے کہا، ’’اور بس کا ٹکٹ‘‘۔
شیفر بولا، ’’اس کے لیئے تمہیں ریلوے سٹشین جانا ہوگا۔ اس کے لیئے بھی ہم تمہیں ایک ٹوکن دیں گے ۔تم وہ ٹوکن دکھاؤ گے تو وہ تمہیں ایک مہینے کا بس پاس دے دیں گے‘‘
میں نے کہا، ’’تم نے پہلے کہا تھااگر کسی کو زبان آتی ہو تو ،اگر وہ ہماری مدد کرے گا تو ہمیں خوشی ہوگی۔ میں انگریزی کے علاوہ فرینچ اور
اٹالین جانتا ہوں۔ مجھے خوشی ہوگی اگر میں کسی کے کام آسکوں‘‘۔
شیفر اور شنائیڈر مجھے گھور گھور کے دیکھنے لگے جیسے میں نے کوئی عجیب و غریب بات کردی ہو۔
شیفر اور شنائیڈر نے ہم سے اجازت لی ۔اس دوران وہ لڑکی جو ہمارے کھانے پینے کے لیئے کچھ لینے گئی تھی وہ آگئی۔ مجھے بہت زوروں کی بھوک لگی ہوئی تھی۔ جب وہ اندر داخل ہوئی میں سمجھ گیا اس کا نام انیتا ہے۔ اس کے دونوں ہاتھوں میں پلاسٹک کے تھیلے تھے۔ اس نے تھیلے میز پے رکھے اور کہنے لگی، ’’تم لوگ یہ آپس میں بانٹ کے کھا لو۔یہ رات کے لیئے بھی ہے‘‘۔
میں نے انیتا کا بغور معائنہ کیا۔ دبلی پتلی لڑکی تھی قد بھی پانچ فٹ سے زیادہ نہیں تھا۔ بال لڑکوں کی طرح کٹے ہوے تھے۔ چہرے سے لگتا تھا جیسے کوئی نشہ کرتی ہے ۔ ناک نقشہ بھی عجیب سا تھا اس پے اس نے
دونوں پلکوں کے کونوں پے بالیاں پہنی ہوئی تھیں۔اس کا ناک بھی چھدا ہوا تھا اور نیچے والا ایک ہونٹ بھی چھدا ہوا تھا۔ اس نے کھلی ٹی شرت پہنی ہوئی تھی لیکن اس کا جسم لکڑی کے تختے کی طرح سیدھا تھا۔ اس کی ٹی شرٹ پے کسی قسم کی نسوانیت کے ابھار نظر نہیں آرہے تھے۔ یہ تو بالکل ایسا لگا تھا جیسے ستاروں کے بغیر آسمان، مرچ مصالحے کے بغیر کھانا۔ نیچے اس نے شلوار کی طرح کی کوچیز پہنی ہوئی تھی جس کے پائنچے تنگ تھے۔ پاؤں میں ہوائی چپل ۔ میں اس کا حلیہ ء دیکھ کے بڑا حیران ہوا۔ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں ہمیں سمجھا کے چلی گئی۔ میں نے پلاسٹک کے تھیلوں کو کھول کے دیکھا۔ اس میں ٹن والی ٹیونا
فش تھی، بسکٹوں کے ڈبے تھے، پینے کے لیئے کوک کی دو بڑی بوتلیں تھیں، سوس کی مشہور بروڈ تھی،کیچ اپ اور میونیز تھی۔ کھانے کو بہت تھا لیکن ہم پاکستانی لوگ روٹی کھانے والے۔ ہمارا ان ریڈی میڈ
چیزوں سے کہا ں پیٹ بھرتا ہے۔ خیر ہم لوگوں نے جیسے تیسے کرکے پیٹ کی آگ بجھائی۔ جب میں نے کھانا کھایا پھر مجھے تھوڑا سا ہوش آیا۔ میں نے سوچا اس ازیل ہائم کا معائنہ کرنا چاہیئے۔ میں نے پہلے دفتر کے لگی ہوئی اپنی پولورائیڈ تصویر دیکھی۔ نیچے میرا نام لکھا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں بستہ بے کا مجرم ہوں۔ یہاں پے پین اور کاغذ بھی پڑے ہوئے تھے۔ میز پے ایک ٹیپ ریکارڈر پڑا ہوا تھا۔ یہاں پے ایک کمرہ تھا جو کہ بند تھا۔ میرے خیال میں یہ شیفراور شنائیڈر کا آفس تھا۔ ایک دیوار پے سوس کا بہت بڑا نقشہ لگا ہوا تھا۔ میں نقشے کو بغور دیکھنے لگا۔ میں وہ جگہیں دیکھنے لگا جہاں جہاں سے گزر کے میں یہاں تک آیا تھا۔ کومو، کیاسو، لوگانو، بیلنزانو، زیورک، ونٹرتھور، کرائس لنگن اور کرائس لنگن کی جھیل۔ یہاں اس نقشے میں نے ایک اور چیز تھی۔ وہ تھا ایک چھوٹا سا ملک ۔میں نے یہ نام پہلی دفعہ سنا تھا۔
لیکھتن سٹائن(Leichtenstein)۔ اس کے دارالحکومت کا نام وادز(Vaduz) لکھا ہوا تھا۔ میں سوچنے لگا ،میں خود کو کتنا بڑا تیس مار خان سمجھتا ہوں لیکن مجھے لیکھتن ستائن کا نہیں پتا۔ خیر میں یہاں پے یہ دیکھنے لگا اگر مجھے سوس سے واپس اٹلی جانا پڑے تو مجھے کیا کرنا ہوگا۔ میرا دل ہاوس ماسٹر کی باتیں سن کے کھٹا ہوگیا تھا۔ میرا دل کرتا
تھا کہ یہاں سے فوراًبھاگ جاؤں۔ پیسے دو دن بعد ملنے تھے۔ اس ہال سے نکلاکے میں اس سے ملحق کمرے میں چلا گیا۔ اندر دو بڑے بڑے صوفے پڑے ہوئے تھے۔ یہاں پانی پینے کا ایک ٹینک بھی پڑا ہوا تھا۔ صوفوں کے سامنے ایک میز پڑی ہوئی تھی۔ اس پے ریموٹ کنٹرول پڑا ہوا تھا۔ ایک صوفے پے تو ایک لڑکا سو رہا تھا اور دوسرے صوفے پے تین بندے بیٹھے ہوئے تھے۔ ٹی وی پے کوئی فلم چل رہی تھی۔ ایک طرف کرسیوں پے دو افریقن لڑکے سہمے ہوئے بیٹھے
ہوئے تھے۔ میں بہت حیران ہوا۔ لوگ افریقہ کے لوگوں سے ڈرتے ہیں یہاں یہ دو افریقن ڈرے بیٹھے تھے۔ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے۔ میں ان لوگوں کو ان کے حال پے چھوڑ کے آخری کمرے میں چلا گیا جہاں میرے سونے کی جگہ تھی۔یہاں میرا بستر نیچے والی منزل پے تھا۔ اس پے ایک تکیہ، بستر کی چادر، تکیئے کا غلاف، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش،ڈزپوزایبل ریزر اور چھوٹی سی شیونگ ٹیوب تھی۔ یہاں سے نکل کے میں نے سوچا باتھ کا معائنہ کروں۔ دروازہ کھولا تو کیا دیکھتا ہوں جس طرح پاکستان میں سناروں کی دوکانوں میں بڑے بڑے شیشے لگے ہوتے ہیں اس طرح کے تو بڑے بڑے اور لمبے شیشے لگے ہوئے تھے۔ شیشوں کے سامنے اور درمیان میں ہاتھ منہ دھونے کے لیئے ٹوٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک طرف پانچ چھوٹے چھوٹے کمرے بنے ہوئے تھے ااور اندر ڈبلیو سی لگی ہوئی تھی۔ ایک کونے
میں دو بڑی بڑی واشنگ میشنیں اوپرر تلے پڑ ی ہوئی تھیں ۔اس کے ساتھ کپڑے سکھانے کی مشین تھی۔ میں یہاں سے باہر نکلا۔ اس کے ساتھ ایک کمرہ تھا یہ ایمرجنسی ایگزٹ تھا۔ دروازہ کھولا تو اندر جابجا کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔ دیوار کے ساتھ ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کچن تھا۔ کچن کا دروازہ کھولا تو اندر دو تین بندے کچھ پکا رہے تھے۔ میں اندر داخل ہوا۔ ایک افریقن لڑکا دبلاپتلا دیگچی میں کوئی پیلی سی چیز گھول رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کا چمچہ تھا۔ یہاں پے چار بجلی کے چولہے تھے ۔ہر چولہے پے پکانے کے لیئے چار چار پلیٹیں لگی
ہوئی تھیں۔ کچن سے عجیب قسم کی بو آرہی تھی۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں نے اتنے دن پکا پکایا کھایا اور ہمارا کھانا باہر سے پک کے آتا تھا اس لیئے میں شاید عادی نہیں رہا تھا۔ میں کچن سے باہر آگیا۔ میں مزیدآگے آیا میں نے سوچا جہاں شاور لگے ہوئے ہیں وہ جگہ
دیکھوں۔ میں کوریڈور سے گزرا ۔ وہی کوریڈور تھا جہاں سے میں کچھ دیر پہلے گزر کے آیا تھا۔ یہ تختوں کا بنا ہوا تھا ۔جب میں اس پے چل رہا تھا یہ زور زور سے ہل رہا تھا۔ میں اس جگہ داخل ہوا جہاں مجھے بتایا گیا تھا کہ شاور لگے ہوئے ہیں۔ باہربہت سے سلپیر پڑے ہوئے تھے جو اس بات کی نشانی تھے کہ اندر کچھ لوگ نہا رہے ہیں۔ میں نے سوچا باہر چلنا چاہیئے۔ جہاں سے داخل ہوا کر آیا تھا یہ جگہ بالکل ایسی تھی جیسے گاڑیاں پارک کرنے والا کوئی گیرج ہو۔ یہاں صوفوں پے اب بھی بندے بیٹھے ہوئے تھے
۔ یہاں سے باہر نکلا ۔ایک کونے چھوٹا سا باغیچہ بنا ہوا تھا۔یہاں ماربل کے چھوٹے چھوٹے بینچز لگے ہوئے تھے۔ ایک کونے میں گلبدین بیٹھا بیئر پی رہا تھا۔ میں نے کہا، ’’گلبدین تم اتنی گرمی یہاں کیا کررہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’اس گرمی کا ایک ہی حل ہے بیئر،اور وہ بھی ٹھنڈی‘‘۔
مجھے اس سے کیالینادینا تھا کہ گلبدین بیئر پی رہا۔ میں نے سوچا فٹبال کے بارے میں کسی سے پوچھوں۔
ایک افریقن لڑکا بھی گلبدین کے پا س بیٹھا ہوا تھا۔ میں اس سے پوچھا، ’’فٹبال میچ کا کیا بنا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’جرمنی جیت گیا ہے لیکن میچ بڑا سخت تھا‘‘۔
میں سوچنے لگا اب کل ترکی اور برازیل کا میچ ہے ۔ترکی کے جیتنے کے بالکل بھی امکان نہیں تھے لیکن کوئی معجزہ بھی ہوسکتا تھا۔
گلبدین مجھ سے کہنے لگا، ’’ہم لوگ کھانا اکھٹے کھایا کریں گے۔میں نے ہا وس ماسٹر سے بات کرلی ہے۔ہمارے ساتھ ایک بنگالی بھی ہے۔ میں اس کو بالکل پسند نہیں کرتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم افغانی ہو ،تمہیں بنگالی سے کیوں نفرت ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’یہ غدار ہے۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ غداری کی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اگر نفرت ہونے چاہیئے تو مجھے ہونی چاہیئے ۔انہوں نے ہمارے ساتھ غداری کی ہے افغانستا ن کے ساتھ تو نہیں کی‘‘۔
گلبدین نے کہا، ’’میں اس کے ساتھ زیادتی کروں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اس طرح نہیں کہتے۔ وہ بھی مسلمان ہے تم بھی مسلمان ہو۔ہم تینوں مسلمان ہیں۔ ہمارے مذہب میں اس کام سے سختی سے منع کیا گیا ہے‘‘۔
پہلے مجھے شک تھا اب یقین ہوچلا تھا کہ یہ پاکستانی ہے۔ کچھ پاکستانی بیوقوفوں کی طرح ،حقائق جانے بنا ہی دوسرے قوموں سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ مجھے گلبدین پہلے بھی پسند نہیں تھا لیکن اب مجھے مزید برا لگنے لگا تھا۔ میرے علم میں کے مطابق مجھے یہاں تین مہینے رہنا تھا۔ اس کے بعد میری کرائس بدل جانی تھی۔ میں سوچنے لگا، مجھے اس کے ساتھ تین مہینے گزارنے پڑیں گے۔ میں مظبوط اعصاب کا مالک ہوں لیکن کبھی کبھی انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتا ہے۔ میں گلبدین کے چھوڑ کے اندر آگیا۔ ہاوس ماسٹر کے کمرے کے سامنے جو میزپڑی ہوئی تھی۔ وہاں میز پے سرجھکائے انیتا کچھ لکھ رہی
تھی۔ میں نے کہا، ’’مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’کہو،کیا کہنا چاہتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا یہاں دم گھٹ رہا ہے۔ اگر مجھے بس کا ٹکٹ مل جائے تو میں ونٹر تھور کا چکر لگانا چاہتاہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’میں تمہیں بس کا ٹکٹ دیتی ہوں۔یہ دو دفعہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ویسے پرسوں تمہیں بس کے پاس کا ٹوکن مل جائے گا‘‘۔
وہ کمرے میں گئی اور اندر بس کا ٹکٹ اٹھالائی۔ میں نے اس سے بس کا
ٹکٹ لیا ازیل ہائم سے باہر آگیا۔بس سٹاپ کی طرف جانے لگاپیچھے سے گلبدین بولا، ’’کہاں جارہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ونٹر تھور جارہا ہوں۔تم نے جانا ہے تو چلو‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں تم جاؤ،میرے مہمان آرہے ہیں ۔میں ان کا انتظار کررہا ہوں‘‘۔
میں نے اس سے اخلاقاًپوچھا تھا۔ اس کو خداحافظ کہہ کے بس سٹاپ پے آگیا۔تھوڑی دیر میں بس آگئی۔ میں بس میں سوار ہوا ۔بس دو تین سٹاپوں کے بعد ونٹر تھور کے اسی جگہ رکی جہاں سے میں پہلے آیا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اب کہ بس سٹاپ دوسری طر ف تھا۔ اس طرف بازار تھا۔ میں بس سے اتر کے بازار میں داخل ہوا۔ میں نے گلی کا نام پڑھا۔ مارکیٹ گازسترازے۔ یہ ونٹر تھور کا مین بازار ہے۔ باہر ایک دو برگر اور سافٹ درنکس کے کھوکھے تھے۔ گلی کے ابتداء پے دونوں
طرف ریستوران تھے۔ چند قدم آگے آیاتو ایک بینک تھا۔ میں سمجھ گیا یہ وہی بینک ہے جس سے مجھے پرسوں پیسے کیش کروانے آنا ہے۔ میں ٹورسٹ کی طرح مارکیٹ گاز سترازے پے گھومتا رہا۔ کبھی ایک گلی میں جاتا کبھی دوسری گلی میں۔ جب چل چل کے میرے پاؤں جلنے لگے تو میں ازیل ہائم واپس آگیا۔
گلبدین نے کھانا تیار کیا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ کھانا ۔ہمارے ساتھ وہ بنگلہ دیش کا لڑکابھی تھا۔ میں نے پوچھا، ’’تمہارا کیا نام ہے ‘‘۔
اس کو اردو آتی تھی لیکن بہت کم۔ کہنے لگا، ’’بدرالدین‘‘۔
میں نے کہا، ’’میرا نام ہے فرشتہ ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’یہ کیسا نام ہے‘‘۔
اب میں اسے کیسے بتاتا کہہ میرے دادا نے یہ نام رکھا تھا۔ وہ ابولقاسم فرشتہ سے بہت متاثر تھے۔ اب تو وہ اس دنیامیں بھی نہیں رہے تھے۔
میں اپنے کسی عمل سے بھی یہ ظاہر نہ ہونے دیا کہ میرے دل میں اس کے لیئے کوئی میل ہے۔ مجھ میں میل تھا بھی نہیں۔ کھانا کھانے کے بعد میں نے گلبدین سے کہا، ’’یہاں چائے مل سکتی ہے‘‘۔
گلبدین کہنے لگا، ’’میرا پاس چائے کا سامان ہے ۔میں ابھی چائے بناتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، عجیب آدمی ہے ۔خود کو افغانی بتاتا ہے او ر چائے بھی پیتا ہے۔ اسے تو قہوہ پینا چاہیئے تھا۔ اگر بدرالدین کہتا تو مجھے عجیب نہ لگتا ۔میں افغانستان تو نہیں گیا تھا لیکن پاکستانی میں کئی افغانیوں سے واسطہ پڑا تھا۔ خیر گلبدین چائے بنا کے لے آیا۔ چائے پیتے پیتے میں نے گلبدین سے پوچھا، ’’تمہارے مہمان آئے تھے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں آئے تھے۔وہ ہرات کے رہنے والے ہیں۔ وہ زیادہ فارسی بولتے ہیں ۔ان کو پشتو کم ہی آتی ہے۔ وہ مجھے کھانے پے بلار
ہے تھے۔سوچ رہاجاؤں کے نہ جاؤں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارے ملک کے بندے ہیں ضرور جاؤ۔میں نے تو کئی دفعہ کابلی پلاؤ کھایا ہے۔ مجھے بہت پسند ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے تو بالکل پسند نہیں ۔چاول نمکین اچھے لگتے ہیں ۔یہ افغانی اس میں خواہ مخواہ میوہ ڈال دیتے ہیں ۔اس سے چاول میٹھے ہوجاتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم افغانی نہیں ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میرے ماں باپ جس گاؤں سے آئے تھے وہاں اس طرح کا پلاؤ کوئی نہیں کھاتا تھا‘‘۔
اسے اپنی غلطی کا بڑی شدت سے احسا س ہوا۔ انسان جو نہ ہو وہ بننا کتنا مشکل ہوتا۔ یہ شخص اچھا خاصہ پاکستانی تھا لیکن سوس میں سیاسی پناہ کی خاطر افغانی بنا ہوا تھا کیونکہ پاکستانی کا کیس منظو ر نہیں ہوتا تھا۔ بدرالدین دبلا پتلا لڑکا تھا۔ عمر یہی کوئی چوبیس سال ہوگی ۔ اس نے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور نیچے چیک دار دھوتی باندھی ہوئی تھی۔ مجھے یہ بڑا معصوم لگا۔ میں سوچنے لگا۔ نہ جانے گلبدین نے اس کے بارے کیوں اتنی بری بات کی ہے ۔اس بیچارے کو تو پتا بھی نہیں کہ وہ افغانی بلکہ پاکستانی لڑکا اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے۔ وہ اس کے سامنے تھوڑا سا سہما ہوا لگ رہا تھا۔ گلبدین کا چہرہ ہی اتنا خوفناک تھا۔ ایک آنکھ کی پتلی میں کچھ عجیب سی چیز تیرتی نظر آتی۔ ایسا لگتاجیسے بہت سارے کنکر ادھر ادھر چل رہے ہیں۔ وہ جب بند ے کی طرف دیکھتا تو بندا سر سے پاؤں تک کانپ جاتا۔
چائے پینے کے بعد گلبدین تو بیئر کا کین لے باہر چلا گیا۔ میں بہت تھکا ہوا تھا اس لیئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ تکیئے پے غلاف چڑھایا، بستر پے چادر پچھائی۔ اس کے اوپر ایک سفید چادر بچھائی۔
اس چادر کے اوپر فوجیوں والا گرے رنگ کا کمبل بچھایا۔ ایک کونے میں تولیہ ،صابن کی چوٹی سی ٹکیہ، ٹوتھ پیسٹ، ٹوتھ برش اور ڈسپوزیبل ریزر رکھا۔ میرا بستر درمیان میں تھا۔ کمبل میں گھس گیا۔ جون کی آخری تاریخیں تھیں بہت گرمی تھی لیکن اس تہہ خانے میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ میں خوش تھا صبح کوئی جگانے نہیں آئے گا۔ اس خوشی کو ذہن میں رکھتے ہوئے سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment