Monday, June 17, 2013

آٹھواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG



۸

ہفتے کو صبح ناشتہ کرکے میں نے اور نیائش نے گھر کی صفائی شروع کردی۔ ہم دونوں نے مل کے باتھ، کچن، ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ سیڑھیاں، ٹیرس سب کچھ صاف کیا۔ اس کے بعد ہم دونوں کا تھکن سے برا حال ہوگیا۔
نیائش کہنے لگا، ’’ماڑاچائے ہونی چاہیئے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بناتا ہوں‘‘۔
نیائش کہنے لگا، ’’چھوڑو، ماڑا کسی کے گھر مہمان بن کے جاتے ہیں۔ وہ پری پیکر کو فون کرتا ہوں کہ چائے بنائے ہم آرہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’جیسے آپ کی مرضی‘‘۔
اس طرح میں اور نیائش ،ا س کی گاڑی میں بیٹھ کے ویاپترارکا (via petrarca)چلے گئے جہاں پری پیکر میرا مطلب ہے ثقلین رہتا تھا۔ نیائش نے اس کو فون کردیا تھا اس لیئے وہ ہمارا انتظار کررہا تھا۔ ہم لوگ جیسے ہی پہنچے اس نے ہمارا بڑے تپاک سے استقبال کیا۔ وہ جہاں رہتا تھا ،وہاں پے سارے لڑکوں نے میرے گرد گھیرا ڈال لیا۔ ہر ایک فرمائش کرنے لگا۔ کوئی لطیفہ سناؤ، کوئی گپ شپ سناؤ۔ ان لوگوں کو دیکھ کے مجھے اندازہ ہوا کہ ان لوگوں میں کتنی فرسٹریشن ہے۔ چونکہ ان کے پاس ٹی وی کے علاوہ کوئی تفریح نہیں اس لیئے یہ عام موضوعات سے ہٹ کے بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ مجھ سے کسی نے نہ کہا، کہ کوئی ادبی بات کریں۔ میرے خیال میں سوائے ثقلین کہ کوئی یہ بات نہیں جانتا تھا کہ میں لکھتا بھی ہوں۔
ثقلین نے میز پے سموسے ،بسکٹ اور شامی کباب سجائے۔ اس کے بعد چائے۔
میں نے کہا، ’’ثقلین صاحب آپ نے اتنا تکلف کیا‘‘۔
کہنے لگا، ’’تکلف کیسا۔ آپ پہلی دفعہ میرے گھر آئے ہیں۔ میں تو آتا ہی رہتا ہوں‘‘۔
نیائش نے کہا، ’’،ماڑا ایک ہی بات ہے۔تم ہمارے گھر آؤ یا ہم تمہارے گھر آئیں‘‘۔
’’فرشتہ صاحب آپ نے اچھا کیا جو آج آپ آگئے۔ شام کو میں مصروف ہوں۔ ایسا ہوسکتا ہے ملاقات نہ ہو۔ میں رات کو واپسی پے آپ سے اگلا باب لے لوں گا‘‘۔
’’آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں ساتھ لایا ہوں‘‘۔
’’یہ تو آپ نے کمال کردیا‘‘۔
’’بس دیکھ لیجئے‘‘۔
’’میں رات کو پڑھ لوں گا۔ ویسے کتنے باب باقی ہیں‘‘۔
’’میرے خیال میں اس کے بعد بارہ باب اور ہوں گے‘‘۔
’’بہت لمبی کہانی ہے‘‘۔
پھر میں نے ثقلین سے اجازت لی اور اس کے ساتھ رہنے والے لڑکوں کو بہت سارے گندے لطیفے سنائے۔ ہم لوگ کافی دیر تک ہنستے رہے۔ گپ شپ لگاتے رہے ۔آخرکار نیائش کو کسی کا فون آیا اور ہم لوگ اجازت لے کر گھر آگئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

صبح چھ بجے ہم لوگ اس بیرک نماں عمارت میں تھے۔ ہم لوگوں نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ چھ بجے سے لے کر ساڑھے سات بجے تک ہم کبھی ایک کمرے میں جاتے کبھی دوسرے کمرے۔ کبھی اس باغ میں چلے جاتے۔ ساڑھے سات بجے ہمیں ایک نرس نے بلایا ۔ہم سارے جن کا میڈیکل ہونا تھا وہ ہمیں اس عمارت میں لے گئی جہاں میں پہلے دن آیا تھا۔ اب انہوں نے کچھ کام اس نئی عمارت میں شروع کردیئے تھے۔ اس نے دروازے پے لگی ہوئی ایک مشین کے سامنے اپنا بیج کیا اور کھٹ سے دروازہ کھل گیا۔ ہم جس عمارت میں داخل ہوئے تھے اس پے ابھی رنگ روغن باقی تھا۔ وہ ہمیں لفٹ کے ذریعے دوسری منزل پے لے گئی۔ اس وقت میرا بھوک سے برا حال تھا اس لیئے مجھے ہوش نہیں تھا کہ عورت کیسی ہے۔ خوبصورت ہے یا بد صورت ہے۔ دوسری منزل پے ایک رننگ ڈور(running door) تھا ہم نے جیسے ہی اس کے سامنے قدم
رکھا وہ دروازہ خود بخود کھل گیا جیسے سائنس فکشن فلموں میں ہوتا ہے۔ جیسے ہی ہم لوگ اندر داخل ہوئے ۔اندر جابجا مختلف قسم کی مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ ایک دو بڑے بڑے ڈبے پڑے ہوئے تھے۔ ہمیں اس ہال سے ملحق ایک کمرے میں بٹھایا گیا۔ وہی نرس جو ہمیں لے کر آئی تھی اس نے ہمارے ہاتھ میں پلاسٹک کا گلاس دیا اور کہاں کے اس میں اپنا پیشاب لانا ہے۔ باری باری باتھ میں جاؤ اور اس گلاس میں اپنا پیشاب لے کر آؤ‘‘۔
میرے ساتھ دوسروں لڑکوں کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ کیا کہہ رہی ہے۔
اب ہم باری باری باتھ میں گئے اور اپنے اپنے گلاس اپنے ہی پیشاب سے بھر کے لے آئے۔ اس نرس نے میرے گلاس سے سرنج کے ذریعے دو تین پلاسٹک کی پتلی پتلی ٹیوبز بھریں ان پے میرا نام لکھا۔ اس کے بعد باقیوں کے گلاسوں سے بھی نمونے یا سامپل لیئے اور ان کے بھی نام لکھے۔
پھر ہمیں ایک طرف بیٹھنے کو کہا۔ میں اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں میں قید کرنے کی کوشش کررہا تھا لیکن بھوک کی وجہ سے میرا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ اس کے بعد ایک اور نرس اس نے مجھے بلایا۔ میں اسکے پاس گیا۔ اس نے مجھے گھومنے والے بینج پے بیٹھنے کو کہا۔ اس کے بعد اس نے کہا، ’’اپنی بازوں کو میز پے رکھو‘‘۔
میں نے اس کی حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میز پے اپنا بازو رکھا۔ اس نے اپنے گرم گرم ہاتھوں سے میرے بازوکو چھوا۔ اپنے نرم ہاتھوں سے میرے بازو پے میری رَگ یا یوں کہہ لیجئے کہ وین(vein) تلاش کرنے لگی۔ پھر اس نے میرے بازو پے پلاسٹک کی ایک نلکی کس کے باندھ دی۔ اب میرے بازو پے سبز رنگ کی ایک موٹی سی
رَگ یا وین کہہ لیجئے، اْبھر کے سامنے آگئی۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ۔ اس میں سوئی کھبو دی۔ میری منہ سے ایک سی کی آواز نکلی۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے تین چار پتلی پتلی سی ٹیوبز بھر لیں۔ ہر ٹیوب پے میرا نام لکھا۔ یہ سٹکر کی طرح کا ایک لیبل سا تھا ۔ اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اس نے مجھے سمجھایا کہ ہم تمہارے خون اور پیشاب کی جانچ کریں گے۔ کہیں تمہیں کوئی بیماری تو نہیں میرے خیال میں سوموار والے دن تمہارا
رزلٹ آجائے گا۔ اس کے بعد اس نے مجھے پاس ہی ایک کمرے میں بیٹھنے کو کہا۔ میں کمرے میں بیٹھ گیا۔ وہاں میرے لیئے ناشتہ رکھا ہوا تھا۔ جب میں ناشتہ کرچکا تو ۔وہی نرس جو مجھے لے کر آئی تھی ۔کہنے لگی، ’’جب باقی لڑکے فارغ ہوجائیں تو میں تم سب کو ونہی چھوڑ آؤں گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
اب میں باقی لڑکوں کا انتطار کررہا تھا کہ وہ کب فارغ ہوں گے توہم لوگ دوبارہ اس پرانی بیرک نماں عمارت میں جائیں گے۔آج امریکہ اور اور جرمنی کا کانٹے دار میچ بھی تھا۔ دوسری جنگِ عظیم میں جرمن کو امریکہ نے شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا۔ اس پے آرمی نہ بنانے کی پابندی لگائی تھی۔ آج کھیل کے میدان میں دونوںآمنے سامنے تھے۔ میری تو خواہش تھی جرمنی جیتے لیکن میرا وہ اٹالین دوست ،میں اسے دوست ہی کہوں گا، کیونکہ اس نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی نوکری کو خطرے میں ڈال کے مجھے کھانا دیا تھا۔ میں ابھی سوچ کے اسی بھنور میں پھنسا ہوا تھا کہ وہ نرس جو ہمیں یہاں لے کر آئی تھی۔ وہ باقی لڑکوں کو بھی لے آئی اور کہنے لگی، ’’چلو ‘‘۔
میں نے اوکے کہا اور اس کے ساتھ چل دیا۔ اب میں نے اس نرس کا بغور معائنہ کیا۔ دبلی پتلی ،خوبصورت نقوش والی نرس تھی۔ سینے کے ابھار بھی متناسب تھے۔ وہ مٹکتی ہوئی چلی جارہی تھی اور ہم اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے۔ وہ ہمیں سکیورٹی گارڈ کے حوالے کرکے چلی گئی۔ روز کی طرح آج بھی ہمارے پاس دو گھنٹے صبح اور دو گھنٹے شام کو آزادی تھی۔
ہال میں پہنچتے ہی میری نظر ہال میں لگے ٹی وی پے پڑی میچ کی تیاری ہورہی تھیں۔ مجھے میچ دیکھنے میں اتنی دلچسپی نہیں تھی۔ بس میں یہ چاہتا تھا کہ مجھے جیتنے والی ٹیم کا پتا چلا جائے۔ میں نے سوچا میچ کیا دیکھنا ۔ پہلے میں نیشنل جیوگرافک پڑھنے لگا۔ لیکن میرا ذہن کہیں اور تھا۔ اس لیئے میں ایک لفظ بھی نہ پڑھ سکا۔ کچھ تصاویر دیکھ کر چھوڑ دیا۔ ہال کے ایک کونے سے مقصود آتا دکھائی دیا۔ کہنے لگا، ’’باہر چلیں‘‘
میں نے کہا، ’’کہاں جانا چاہتے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’جھیل کے کنارے چلتے ہیں ۔اس موٹے نے ابھی تک جھیل نہیں دیکھی ۔اس کے فنگر پرنٹس ہوگئے ہیں اور انٹرویو بھی۔ اس کو بھی باہر جانے کی اجازت مل گئی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’چلے چلتے ہیں‘‘۔
ہم تینوں جھیل کی طرف چل دیئے۔ راستے میں اس موٹے نے مجھ سے کئی عجیب و غریب سوال کیئے۔ میں نے ان کے بھونڈے سے جواب دیئے۔ پھر میں نے پوچھا، ’’تم نے کیس کیا بتایا ہے‘‘
کہنے لگا، ’’وہی جو آپ نے بتایا تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے کیا بتایا تھا‘‘۔
اس نے جو لفظ استعمال کیا وہ میں یہاں لکھ نہیں سکتا لیکن اس نے مجھے بتایا کہ اس نے کیس میں بتایا ہے کہ اسے لڑکوں کا شوق ہے۔
میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑ لیا۔ اسے کہا، ’’یہ تم نے کیاکیا۔ میں تو مذاق کررہا تھا‘‘۔
کہنے لگا، ’’کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیس مضبوط ہوگا۔ میرا مترجم بھی گھبرا گیا تھا۔ مجھے کہنے لگا اس نوعیت کا پہلا پاکستانی کیس ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’چلو جو ہوا سو ہوا‘‘۔
مقصود سارے راستے اسے چھیڑتا رہا کہ تم نانڈو ہو۔ وہ موٹا گِھی گِھی کرکے ہنستا رہا۔ جب وہ ہنستا تو اس کا سارا جسم بھی ہلتا۔
مجھے کہنے لگا، ’’میں تیراکی جانتا ہوں۔ کیا میں جھیل میں نہاں سکتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’مچھلیاں ناراض ہوجائیں گی ۔ وہ پانی چھوڑ کے کہاں جائیں گی‘‘۔
کہنے لگا ،’’آپ مذاق بہت کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ویسے تو اپنی عمرسے چھوٹے لوگوں کے ساتھ مذاق نہیں کرتا لیکن نہ جانے کیوں تمہیں دیکھ کر مذاق کرنے کو جی چاہتا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’کوئی بات نہیں میں برا نہیں مناتا‘‘۔
مجھے اس کی معصومیت بڑی پسند آئی۔
ہم لوگ جھیل کے کنارے پہنچے تو وہ موٹا جس کا چاچا گجرات کا سابقہ ایم پی اے تھا ۔کپڑے اتار کے جھیل میں کود گیا ۔پانی سے ایک چھپاکے کی آواز آئی۔ اس لڑکے نے نیچے ایک لائنوں والاکچھا پہنا ہوا تھا۔ میں اور مقصود ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ جہاں ہم دونوں بیٹھے ہوئے تھے وہاں پاس ہی ایک عورت جھیل کے کنارے بنا کپڑوں کے بیٹھی ہوئی تھی۔ میں تو یہ منظر پہلے بھی دیکھ چکا تھا لیکن مقصود کے لیئے یہ نئی چیز تھی۔ اس نے میرے خیال میں ننگی عورت اپنی
پوری زندگی میں نہیں دیکھی تھی۔ وہ اسے ٹک ٹکی باندھ کے دیکھنے لگا۔ پہلے تو اس عورت نے نوٹس نہ لیا لیکن جب اسے محسوس ہوا کہ مقصود اسے مسلسل دیکھے چلا جارہا ہے تو اس نے دور سے ہاتھ ہلا دیا ۔ وہ
عورت تھوڑی موٹی تھی۔ اس کا جسم بھی بھرا بھرا تھا۔ اس لیئے کے باقی اعضاء بھی بڑے تھے۔ وہ ان تمام باتوں سے عاری اپنے بال دھوپ میں سکھا رہی تھی۔ میرے خیال وہ کچھ دیر پہلے ہی جھیل میں اپنا تیراکی کا شوق پورا کرکے نکلی تھی۔ میں سوچنے لگا پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں اس طرح منظر کا کوئی تصور ہی نہیں کرسکتا۔اگر کہیں غلطی سے کوئی ایسا واقع پیش بھی آجائے تو پہلے اس عورت کی عزت لوٹی جائے گی بعد میں اس کو فحاشی کے الزام میں جیل میں بند کردیا جائے گا۔
جب مقصود کا اسے دیکھ دیکھ کے جی بھر گیا تو مجھے کہنے لگا، ’’ان کو شرم نہیں آتی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ان کی تہذیب اور تمدن ہم لوگوں سے بہت مختلف ہے۔ ویسے بھی یہ لوگ جب سمندر یا جھیل کے کنارے آتے ہیں تو یہ ان باتوں سے عاری ہوتے ہیں‘‘۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’مقصود تم ان منظر سے جی بہلاؤ میں آگے سے ہوکے آتا ہوں‘‘۔
وہ کہنے لگا،’’میں یہیں انتظار کرتا ہوں‘‘۔ وہ تو جیسے اس بات کا انتظار کررہا تھا۔ اس سے یہ اخلاقی اجازت نامہ لے کر میں جھیل کے کنارے چلنے لگا۔ چلتے چلتے میں بہت آگے نکل آیا۔ یہاں ریت تو نہیں تھی لیکن بیشمار گول گول چھوٹے بڑے پتھر تھے۔ جھیل سے تھوڑا ہٹ کے ایک بہت بڑی قلعہ نماں عمارت تھی۔ میں جیسے جیسے جھیل سے دور ہوتا گیا ۔ویسے ویسے آس پاس سبزے میں اضافہ ہوتا گیا۔ پھر ایک طرف مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔ یہ کسی ایکویریم کے بارے میں تھا۔ میں وہاں پہنچا تو اس چھوٹے سے ایکویریم سنٹر کے باہر ایک لڑکی کھڑی سگرٹ پی رہی تھی۔ میں نے اس سے انگریزی میں پوچھا، ’’یہ ایکویریم دیکھنے کے لیئے ٹکٹ کی ضرورت ہے یااس میں داخلہ مفت ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’نہیں داخلہ مفت ہے‘‘۔
میں ایکیویریم میں داخل ہوا یا یوں کہنا چاہیئے اس عمارت میں داخل ہوا جہاں بڑے بڑے شیشے کے ڈبوں میں مختلف قسم کے پانی کے جانور قید کیئے گئے تھے۔ گو کہ یہ ایکورییم چھوٹا تھا لیکن میری لیئے دلچسپی کا باعث تھا۔ میں نے دیکھا چھوٹے بڑے شیشے کے ڈبوں میں رنگ برنگی مچھلیاں قید ہیں۔ایک جگہ سی ہارس جسے ہم دریائی گھوڑا کہتے ہیں پانی میں ادھر سے ادھر خرمستیاں کررہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سابازار تھا جہاں ہینڈ ی کرافٹ کی دوکانیں تھیں۔ یہاں تھوڑی دیر گھوم پھر کے میں واپس آگیا۔کیونکہ مہاجر کیمپ میں واپس جانے کا وقت ہوگیا تھا۔ میں واپس اس جگہ پہنچا جہاں میں مقصود کو چھوڑ کے گیا تھا ۔وہ وہاں نہیں تھا۔ میری پاس وقت کم تھا اس لیئے میں نے ازیل ہائم کی راہ لی۔ راستے میں آگا تھو کا دفتر بھی تھا لیکن میرا پاس وقت نہیں تھا۔ میں نے سوچا شام کو آؤں گا۔ یہاں سے چائے بھی پیؤں گا اور اگر کچھ پڑھنے کو ملا تو وہ بھی لے لوں گا۔
جب میں مہاجر کیمپ پہنچا تو مجھے سب سے پہلے مقصود ملا۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا، ’’فرشتہ صاحب سب کچھ خود ہی ہوگیا۔ مجھے کچھ بھی نہیں کرنا پڑا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیا مطلب ‘‘۔
’’بس کچھ نا پوچھو۔ تمہارے جانے کے بعد وہ عورت میرے پاس آگئی۔ بس کچھ نہ پوچھو‘‘۔
میں نے کہا، ’’آخر بتاؤ تو سہی ہوا کیا‘‘۔
’’بس کیا بتاؤں۔ کل پھر جانا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کچھ سمجھا نہیں‘‘۔
اس نے کہا،’’ اس عورت نے کام دکھا دیا۔ مجھے بہت شرم آرہی تھی لیکن تھوڑی دیر بعد میری ساری شرم غائب ہوگئی‘‘۔
میں سمجھ گیا اس کے ساتھ کیا واقع پیش آیا ہے۔ میں نے مقصود سے اجازت لی اور سیکیورٹی گارڈ کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ امریکہ اور جرمنی کے میچ کا کیا بنا۔ تو کہنے لگا، ’’جرمنی جیت گیا ہے ‘ لیکن میچ بہت سخت تھا‘‘۔ مجھے افسوس ہوا لیکن جرمنی کی ٹیم بہت مضبوط تھی۔ شام کو انگلینڈ اور برازیل کامیچ تھا۔ اس کے بارے سب کی خواہش تھی کہ برازیل جیتے اور میرا خیال کیا یقین تھا کہ برازیل کی ٹیم جیتے گی۔
کھانے کے دوران مقصود نے کوئی بات نہ کی۔ اسے عجیب قسم کی خماری تھی۔ وہ اس موٹے لڑکے کے ساتھ گھومتا رہا۔ اس کو تھوڑی تھوڑی دیر بعد کچھ بتاتا اور ونہی کھڑے کھڑے ہنستا ۔ایسا لگتا جیسے کوئی بہت بڑی گٹھڑی ہل رہی ہے۔
ہفتے اور اتوار کو چھٹی تھی۔ میرا خون اور پیشاب ٹیسٹ ہونے کے لیئے گیا ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے ہمیں ایپیٹائیٹس بی اور سی کی جانچ کے لیئے ٹیکے لگانے تھے۔ ایڈز کا چیک اپ کرنا تھا۔ دیگر قسم کے میڈیکل چیک اپ کے بعدہمیں کچی کرائس بھیجا جانا تھا۔ ایپیٹائیٹس کے ٹیکے کے بعد وہ یہ چیز دیکھتے تھے کہ ہمیں اس ٹیکے کا انفیکشن تو نہیں ہوا۔ جن لوگوں کی بازو ٹیکے کے بعد لال ہوجاتی ان کو یہاں روک لیا جاتا اور جن لوگوں کی بازو پے کسی قسم کا کوئی بھی لال نشان نہ ہوتا اس کا مطلب ہوتا کہ یہ شخص بالکل صحت مند ہے۔ مجھے اس بات کا انتظار تھا کہ میں مکمل طور پے صحت مند ہوں یا نہیں۔
کھانے کے بعد میں باغ میں جاک لیٹ گیا۔ یہ وہی باغ ہے جہاں میں کئی دفعہ آچکا ہوں۔ اب مجھے یہ جیل کی طرح نہیں لگتا۔ نہ ہی اس کے پاس سے گزرنے والے گندے نالے سے مجھے بو آتی ہے۔ میرا پاس ایک نیشنل جوگریفک تھا۔ میں اسے کھول کے اس کی ورق گردانی کرنے لگا۔مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔ دروازے میں ایک عورت آکے کھڑی ہوگئی۔ یہ وہی عورت تھی جو سب سے بہت برے طریقے بلاتی تھی۔ کہنے لگی، ’’مجھے دو بندوں کی ضرورت ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کس کام کے لیئے ‘‘۔
کہنے لگی، ’’کچھ سامان آرہا ہے وہ اتارنا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں چلتا ہوں‘‘۔ مائیکل بھی پاس ہی تھا وہ کہنے لگا، ’’میں بھی چلتا ہوں‘‘۔
میں نے سوچا چلو تھوڑا وقت ہی گزر جائے۔
اس نے سیکیورٹی گارڈ کو بتایا کہ میں ان دونوں کو لے کر جارہی ہوں۔ وہ کہنے لگا ٹھیک ہے۔ ہم لوگوں نے جیسے ہی باہر قدم رکھا ۔ایک عجیب منظر تھا۔ پولیس کی گاڑی سے وہ انگولا کا لڑکا اتر رہا تھا جس کی کچھ دن پہلے سیکیورٹی گارڈ سے لڑائی ہوئی تھی۔ وہ لنگڑا کر چل رہا تھا۔ اس کے چہرے پے جامنی اور نیلے نشان تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اسے پولیس نے چھوڑ کیسے دیا۔ اس نے تو اس سیکیورٹی گارڈ کے دو دانت توڑ دیئے تھے۔ خیر وہ لنگڑاتا ہوا ہال میں داخل ہوا ،میں اور مائیکل اس عورت کے پیچھے پیچھے ہولیئے۔ وہ ہمیں اسی عمارت میں لے گئی جہاں صبحہمارا پیشاب اور خون ٹیسٹ ہوا تھا۔ وہ ہمیں مختلف کمروں سے گزار کے ایک بڑے سے کمرے میں لے گئی۔ اس کمرے کی تین دیواروں پے شیلف بنے ہوئے تھے اور ان میں سے کچھ پے کپڑے پڑے ہوئے تھے اور کچھ خالی تھے۔
وہ کہنے لگی، ’’تم لوگوں کو میں بتاتی جاؤں گی اور تم جینز ایک طرف رکھتے جانا، ٹی شرٹس ایک طرف، قمیصیں ایک طرف اور ٹراپیکل پینٹس ایک طرف‘‘۔ تھوڑی دیر میں گھنٹی بجی۔ وہ کہنے لگی، ’’میرے ساتھ آؤ‘‘۔ ہم اس کے ساتھ ہولیئے۔ ان نے کمرے سے ملحق دروازہ کھولا۔ پیچھے گلی تھی۔ وہاں ٹرک کھڑا تھا۔ جو بندہ ٹرک لے کر آیا تھا ۔اس کا رنگ سانولا تھا اور بال گھنگھریالے تھے۔ دبلے پتلے جسم کا مالک تھا۔ مائیکل نے بڑبڑاتے ہوئے کہا،’’یہ لوگ ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے‘‘۔ وہ گھنگریالے بالوں والا شخص بولا،’’میں تم سے اتفاق نہیں کرتا ۔یہ تمہیں بہت اچھے طریقے سے رکھتے ہیں‘‘۔ میں بڑا حیران ہوا کہ یہ شخص انگریزی جانتاہے۔ میں نے پوچھا، ’’تم انگریزی کے علاوہ اور کون سی زبانیں جانتے ہو‘‘۔ کہنے لگا، ’’جرمن،ہسپانوی،فرنچ اور عربی‘‘۔میں نے تجسس بھرے لہجے میں کہا، ’’عربی‘‘۔ کہنے لگا، ’’ہاں یہ میری مادری زبان ہے‘‘۔میں نے کہا ،’’تم مراکش کے ہو‘‘۔ کہنے لگا، ’’ہاں، تمہیں کیسے پتا چلا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کیوں کہ میں نے سنا ہے جو بندہ کھانا تقسیم کرتا ہے وہ مراکش کا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہاں کھانا لانے کا ٹھیکہ میرے پاس ہے‘‘۔
ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع ہوگیا جب اس عورت نے ، جس نے دروازہ کھولا تھا،نے ہمیں ْ ْْْْْْْْْ اس ٹرک سے خاکی رنگ کے بڑے بڑے تھیلے اتارنے کو کہا۔ ہم نے اس کے حکم کی تعمیل کی۔ جب ساری گانٹھیں اتر چکی تواس نے کہا، ’’اندر سے ٹرالی لاؤ اور یہ ساری گانٹھیں اس ٹرالی کے اندر رکھو اور اندر کمرے میں لے کر جاؤ‘‘۔ میں جلدی سے کونے میں پڑی ٹرالی لے آیا ۔میں نے اور مائیکل نے مل کر اس میں گانٹھیں رکھیں اور ٹرالی کو دھکیلتے ہوئے کمرے میں لے گئے۔ میں نے اور مائیکل نے مل کے ٹرالی خالی کی۔ اس کے بعد ایک ایک گانٹھ کھولتے جاتے۔ اس میں سے جینز، ٹی شرٹس اور قمیضیں علیحدہ کرتے جاتے۔ ہمیں کام کے دوران پتا ہی نہ چلا کہ کافی وقت گزر چکاہے۔ میں نے اور مائیکل نے مل کے تمام شیلفز میں چیزیں بڑے قرینے سے سجا دیں۔ وہ عورت دو تین چکر لگا چکی تھی۔ یہ دیکھنے کے لیئے
کہ ہم دونوں سہی کام کررہے ہیں کہ نہیں۔ جب ہم کام مکمل کرچکے تو اس نے ہم دونوں کی بہت زیادہ پذیرائی کی۔ مجھے اور مائیکل کو کہنے لگی، ’’تم دونوں کو جو بھی جینز اور ٹی شرٹس پسند ہوں لے لو‘‘۔ ایک جینز اور ٹی شرٹ میں نے پسند کی اور ایک جینز اور ٹی شرٹ مائیکل نے۔ وہ کہنے لگی، ’’آؤ میں تمہیں ہال میں چھوڑ آؤ۔ کیونکہ تھوڑی دیر میں کھانے کا وقت ہوجائے گا‘‘۔ اس طرح ہم اس عمارت سے باہر آگئے۔
مائیکل تھوڑا آگے چل رہا تھا میں نے موقع کے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس عورت سے سوال کردیا، ’’تم ہر وقت اتنی غصے میں کیوں رہتی ہو۔میں نے دیکھا ہے تم مہاجرین کے ساتھ بہت برا سلوک کرتی ہو۔ بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ ان کے ساتھ برے طریقے سے پیش آتی ہو۔ جب کہ تم نے آج ہمارے ساتھ بڑا اچھا سلوک رواں رکھا ہے‘‘۔
اس کے ہونٹوں پے ایک باریک سی مسکراہٹ پھیل گئی۔کہنے لگی،’’تم نے جس ٹرک سے مال اتارا ہے۔ تمہیں پتا ہے وہ شخص کون ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’وہ مراکش کا ہے۔ بہت زیادہ زبانیں جانتا ہے‘‘۔
جرمن زبان میں گالی دیتے ہوئے کہنے لگی، ’’وہ میراشوہر تھا۔ اس نے مجھ سے شادی کی۔ دس سال پہلے وہ اس کیمپ میں آیا تھا۔ بہت چالاک آدمی ہے۔ ہر روز مجھے پھول دیتا تھا۔ اس مہاجر کیمپ میں رہتے ہوئے اس نے مجھ پے ایسا پیار کاجال بچھایا کہ میں نے اس سے شادی کرلی۔ اس کو ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کروایا۔ دن رات محنت کرکے اس کو جرمن زبان سکھائی۔ یہ ٹھیکہ بھی اسے میں نے ہی دلایا تھا ۔جب سوس پاسپورٹ ملا تو اس نے جو پہلا کام کیا جانتے ہو کیا‘‘۔
میں نے کہا، ’’مراکش گیا ہوگا‘‘۔
’’نہیں، اس نے مجھے طلاق دی۔ مجھے طلاق دینے کے بعد مراکش سے یہ اپنے سے بیس سال چھوٹی لڑکی کے ساتھ شادی کرکے اسے یہاں لے آیا۔ میں جب اس کو دیکھتی ہوں تو بہت غصہ آتا ہے‘‘۔
’’لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ تم دوسروں پے غصہ نکالو‘‘۔
کہنے لگی، ’’مجھے یاد کروانا ۔ میں تمہیں ایک چیز دکھاؤں گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’ویسے تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستانی ہو‘‘۔
کہنے لگی، ’’لگتے نہیں‘‘۔
’’لیکن ہوں‘‘۔
ہم ہال کے قریب پہنچے تو وہاں کھانا پیش کیا جارہا تھا۔ میں بھی بھکاریوں کی طرح پلیٹ لے کرقطار میں کھڑا ہوگیا۔ مجھے برازیل کے میچ کے بارے میں سو فیصد یقین تھا کہ وہ جیت گیا ہوگا۔ اس لیئے میں نے کسی سے نہ پوچھا۔ قطار میں وہ موٹا لڑکا بھی کھڑا تھا جس کا چاچا گجرات کا سابقہ ایم پی اے تھا۔ اور اس کو اس کے چاچے اور ابے نے الیکشن کمپین کے لیئے دو کروڑ روپیہ بھیجا تھا۔
کھانا کھانے کے بعد ہمیں گارنیگے ہوٹل منتقل کردیا گیا جو کہ اب گارنیگے ہائم بن چکی تھی۔ وہاں پہنچ کے کوئی ٹیرس میں چلا گیا۔ کوئی باتھ میں کوئی کمرے میں، کوئی ہال میں بیٹھ کے ٹی وی دیکھنے لگا۔ میں نے ہاتھ میں نیشنل جوگریفک اٹھایا اور ٹیرس کے ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ میں نے پڑھنے کی بہت کوشش کی لیکن میرے پلے کچھ نہ پڑا۔ میرے منہ کے سامنے سے کسی نے نیشنل جوگریفک ہٹایا۔ میرے سامنے وہ اٹالین نژاد سوس کھڑا تھا۔ میں نے اسے دیکھتے ہی کہا، ’’او تم‘‘
’’مبارک ہو ،تمہاری دونوں من پسند ٹیمیں جیت گئیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے امریکہ کے ہارنے کا افسوس ہے۔ کیونکہ تمہاری خواہش تھی کہ امریکہ جیتے لیکن جرمنی جیت گیا۔جہاں تک برازیل کی بات ہے تو اس نے جیتنا ہی تھا۔ اور میرا خیال ہے کہ ورلڈ کپ بھی وہی جیتے گی‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ابھی سپین کا کوریا سے میچ باقی ہے۔ مجھے ترکی اور سینیگال کے میچ سے کوئی غرض نہیں کہ کون جیتے گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’مجھے غرض ہے۔ یہ عجیب بات ہے دونوں مسلمان ٹیمیں کھیل رہی ہیں۔ دونوں میں سے ایک بھی ہار گئی تو مجھے افسوس ہوگا۔ ویسے سپین جیت جائے تو بہت اچھا ہے۔ ان کی ٹیم اس دفعہ بہت اچھا کھیل رہی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’وہ واقعی بہت اچھا کھیل رہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’ایک سوال پوچھوں اگر تمہیں برا نہ لگے‘‘۔
توکہنے لگا، ’’ہاں ہاں پوچھو‘‘۔
میں کہا، ’’یہ اس انگولا کے لڑکے اور تمہارے ساتھی کا کیا چکر ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’مجھے بہت افسوس ہے۔ اس سیکیورٹی گارڈ نے زیادتی کی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اصل کہانی کیا ہے‘‘۔
تو کہنے لگا، ’’بات اصل میں یہ ہے کہ وہ سیکیورٹی گارڈ خود تو یہاں پیدا ہوا ہے لیکن اسکے ماں باپ پرتگال کے ہیں۔ وہ میرے ماں باپ کی طرح یہاں ہجرت کرکے آئے تھے۔ تمہیں شاید پتا نہیں انگلولا پہلے پرتگال کے زیرِ تسلط تھا۔جب وہاں خانہ جنگی شروع ہوئی تو جہاں انگولا کے لوگ مرے وہاں پرتگالی فوجی بھی مرے۔ اس کا چاچا اور چاچی بھی اس جنگ کی نظر ہوگئے۔ وہاں پرتگالیوں نے کثرت سے عورتوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ وہ سیکیورٹی گارڈ جب بھی ازیل ہائم میں کسی انگولا کے مہاجر کو دیکھتا ہے اس کو الٹی سیدھی باتیں ہے۔ اس لڑکے کو اس نے کہا تھا۔ ہم نے تمہارے ماؤں اور بہنوں کے ساتھ بہت تفریح منائی ہے‘‘۔ وہ لڑکا غصے میں آگیا۔ اس سے برداشت نہ ہوا ۔اس نے گھما کے لات ماری اور اس کے سامنے والے دو دانت توڑ دیئے‘‘۔
میں نے کہا، ’’واقعی اس نے بہت غلط بات کی۔ لیکن پولیس نے اس انگولا کے لڑکے چھوڑ دیا ہے‘‘۔
’’ہاں جج اچھا آدمی تھا ۔اس نے اس لڑکے کو چھوڑ دیااور اس سیکیورٹی گارڈ کوجرمانہ کیا ہے‘‘۔
’’لیکن وہ لڑکا لنگڑاکے چل رہا تھا‘‘۔
’’اس نے پولیس والوں کے ساتھ بھی بدتمیزی کی تھی اس لیئے انہیں سختی سے کام لینا پڑا‘‘۔
’’تمہارے ماں باپ بھی تواٹالین ہیں۔وہ بھی مہاجر تھے۔ لیکن تم بہت اچھے انسان ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’ہر ملک اور قوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کچھ ماں باپ کی پرورش کا بھی اثر ہوتا ہے‘‘۔
’’ہاں یہ بھی ہے۔ میرے ماں باپ نے تو مجھے یہی سکھایا کہ سب انسان برابر ہوتے ہیں‘‘۔
پھر اس نے گھڑی دیکھی اور کہنے لگا، ’’میری ڈیوٹی کاوقت ختم ہورہا ہے اس لیئے میں چلتا ہوں۔ پھر ملاقات ہوگی‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بھی چلتا ہوں۔ میں کھانا ہضم ہونے کاانتظار کررہا تھا۔ میں جاکے نہاؤں گا۔ اور نئی جینز اور ٹی شرٹ پہنوں گا‘‘۔
وہ تو اپنے کمرے میں کپڑے بدلنے چلا گیا اور میں نے تولیہ تھاما اور باتھ میں چلا گیا۔ خوش قسمتی سے باتھ خالی تھا۔ میں نے جلدی سے شاور لیا ۔ نئی جینز اور ٹی شرٹ پہنی جو اس عورت نے مجھے دی تھی۔ میں یہ نہیں جانتا تھا کہ یہ جینز اور ٹی شرٹ استعمال شدہ تھی یا نئی لیکن صاف ستھری تھی۔ جو جینز اور ٹی شرٹ میں نے اتاری تھی وہ میں نیچے لانڈری والوں کو دھونے کے لیئے دے آیا۔ میرا خیال تھا۔ اگر میڈیکل کے بعد مجھے یہاں سے جانا پڑا تو کم از کم میرے پاس صاف کپڑے ہوں گے۔ جب سے یہاں آیا تھا انڈر ویئر کومیں نے خیرباد کہہ دیا تھا۔ میں گزشتہ چھ دنوں سے بغیر انڈر ویئرکے گھوم رہا تھا۔ اب تو محسوس بھی نہیں ہوتا تھا۔ بس ایک ہی مسئلہ تھا میرے جسم کا نازک اعضاء گرمی کی وجہ سے جب اِدھر اْدھر ٹکراتا تو بہت الجھن ہوتی۔ میں نہاں دھو کے ایک دفعہ پھر ٹیرس میں آگیا۔ یہاں کالے ،گورے، پیلے ،گلابی رنگ کے لوگوں کا میلہ لگا ہوا تھا۔
میں نے دیکھا ایک کونے میں ایک میلے کچیلے کپڑوں والا آدمی بیٹھا ہواتھا۔ میں مائیکل کے پاس گیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کون ہے۔ تو کہنے لگا مجھے نہیں پتا۔یہ کسی سے بات نہیں کرتا۔ میں نے کہا، میں جاکے بات کرتا ہوں۔میں اس کے پاس گیا ۔ اسے انگریزی میں ہیلو ہائے کی۔ اس نے جرمن میں مجھے جواب دیا۔ مجھے جرمن نہیں آتی تھی اس لیئے میں انگریزی میں پوچھا،’’تم کون ہو اور کہا کے رہنے والے ہو‘‘۔ کہنے لگا،’’میں جرمن ہوں۔گاڑیاں ٹھیک کرتا ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہاں کیا کررہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں نے یہاں سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’جرمن بندے سیاسی پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں‘‘۔
کہنے لگا، ’’کیوں نہیں‘‘۔ پھر مجھے ہاتھ کے اشارے سے کہنے لگا۔مجھے اکیلا چھوڑدو۔ میں نے اس کو اس کے حال پے چھوڑ دیا اور آکے مائیکل کوبتایا کہ جرمن ہے۔
اس شخص کو دیکھنے کے بعدمیرا نظریہ بدل گیا۔ میںیہ سمجھتا رہا کہ صرف غریب ملکوں کے لوگ ہی سیاسی
پناہ کی درخواست دیتے ہیں۔ ابھی میں اسی اْدھیڑ بْن میں تھا کہ مجھے کسی کے بْڑبڑانے کی آواز آئی۔ وہ بندہ اٹالین زبان میں کچھ کہہ رہا تھا لیکن اس کا تلفظ بہت مختلف تھا جیسے ناپولی (نیپلز) کے لوگ بولتے ہیں۔ میرے دماغ کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی۔ میں ابھی ابھی ایک جرمن سے مل کر آرہاتھا اور اب یہ اٹالین وارد ہوگیا تھا۔ میں سمجھا کوئی نیا سیکیورٹی گارڈ آگیا ہے جو اٹالین بولتا ہے۔
میں نے مْڑ کے دیکھا تو عام کپڑوں میں ایک نوجوان کھڑا تھا۔ میں نے اٹالین میں کہا، ’’کیا مسئلہ ہے‘‘۔
وہ میری شکل غور سے دیکھنے لگا کہ میں اٹالین کیسے بولتا ہے۔ کہنے لگا، ’’میںآج ہی آیا ہوں۔ یہاں کا ماحول بہت عجیب ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہیں یہاں آنے کیا ضرورت پیش آئی‘‘۔
’’لمبی کہانی ہے۔ مجھے جان پیاری تھی اس لیئے یہاں بھاگ آیا۔ جنیوا ایکٹ کے مطابق کوئی بھی شخص جس کی جان کو اپنے ملک میں خطرہ ہو وہ دوسرے ملک میں جاکے سیاسی پناہ کی درخواست دے سکتاہے۔میں یہاں آگیا‘‘۔
’’لیکن سیاسی پناہ کی کیا ضرورت تھی۔ تم ویسے بھی آسکتے تھے‘‘۔
’’میں جن لوگوں سے بھاگ کے آیا ہوں ۔اگر میں ویسے ہی آجاتا تو وہ مجھے یہاں آکر جان سے مار دیتے‘‘۔
’’اگر وہ اتنے زیادہ طاقتور ہیں تو وہ یہاں بھی نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
’’تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن کم از کم میں نے کوشش تو کی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ادھر آکے بیٹھ جاؤ‘‘۔
کہنے لگا، ’’‘تم کہاں کے ہو‘‘۔
میں اس سوال کا کئی دفعہ جواب دے چکا تھا۔ میں نے کہا، ’’پاکستان کا رہنے والا ہوں‘‘۔
’’تم لوگ تو کرکٹ کھیلتے ہوں‘‘۔
’’ہاں ،لیکن تم کیسے جانتے ہو‘‘۔
’’میں اٹلی کے شہر ناپولی سے آیا ہوں۔ وہاں بہت سارے پاکستانی رہتے ہیں۔ وہ چھٹی والے دن کرکٹ کھیلتے ہیں۔ اس لیئے میں جانتا ہوں کہ تم لوگ کرکٹ کھیلتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارا نام کیا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’سالواتورے مولیتیئیرنو (Salvatore Molitierno)اور تمہارا ‘‘؟
میں نے کہا،’’فرشتہ سبزواری‘‘۔
’’تمہارا کیا مسئلہ ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی خاص نہیں، غلطی سے آگیا ہوں‘‘۔
’’تم نے اٹالین کہاں سے سیکھی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’پاکستان سے سیکھی ہے‘‘۔
’’میرا نہیں خیال کہ اس طرح کی اٹالین پاکستان میں سیکھی جاسکتی ہے۔ اگر تم انگریزی بولتے تو میں شک کی نگاہ سے نہ دیکھتا‘‘۔
’’میں پاکستان میں ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ میں فرنچ بھی جانتا ہوں ،انگریزی بھی جانتا ہوں۔ اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں فرانس بھی رہا ہوں اور انگلینڈ بھی رہا ہوں‘‘۔
’’چھوڑو اس بحث کو فٹبال کی سناؤ‘‘۔
’’اٹلی تو باہر ہوگیا ہے۔اب تم کس کے ساتھ ہو‘‘۔
’’میں تو برازیل کے ساتھ ہواور تم ‘‘؟
’’میں بھی برازیل کے ساتھ لیکن میرا دل چاہتا ہو کہ کوئی ایک آدھ مسلمان ٹیم بھی ورلڈ کپ کے فائینل میں آئے‘‘۔
’’ترکی کا چانس ہے لیکن سینیگال ،میرا نہیں خیال ‘‘۔
’’ظاہر ہے دونوں کا کوارٹر فائینل آپس میں جو ہے۔ ایک ٹیم تو باہر جائے گی ہی‘‘۔
’’کل دو میچ ہیں۔ دیکھتے ہیں کیاہوتا ہے‘‘۔
یہاں باتیں کرتے ہمیں پتا ہی نہ چلا کہ رات کے نو بج چکے ہیں۔ سیکیورٹی گارڈ نے سب کو یہاں سے اٹھنے کاکہا۔ سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ میں نے اس اٹالین کو چاؤ چاؤ کہا اور اپنے کمرے میں چل دیا۔ ہاوس کا قانون تھا کہ یہاں دس بجے ہمیں اپنے بستر پے ہونا چاہیئے۔ میں اپنے کمرے کے سامنے جو ٹیرس تھا ،جہاں سے سامنے والے گھروں کے باغیچے نظر آتے تھے۔ جہاں کچھ دن پہلے میں نے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اب یہاں کوئی نہیں تھا۔ میں اس اٹالین کے بارے میں سوچنے لگا۔ کتنا مختلف انسان ہے۔ اس نے مجھ سے مشرف کا نہیں پوچھا،طالبان کا نہیں پوچھا، اسامہ بن لادن کا نہیں پوچھا۔ ورنہ یہاں پے لوگوں کو جیسے ہی پتا چلتا کہ میں پاکستانی ہوں ،پہلا سوال ہی یہی ہوتا اسامہ بن لادن کدھر ہے۔ وہ مجھ سے ایسے پوچھتے جیسے میں اسے جیب میں لیئے گھومتا ہوں۔ میں اس اٹالین کو بتانا چاہتا تھا کہ میں اٹلی سے آیا لیکن میں نے کسی انجانے خوف کی وجہ سے اسے سچ نہ بتایا۔ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ ازیل ہائم والوں یہاں کے لوگوں کو جانچنے کے لیئے اس طرح کے بندے چھوڑے ہوئے ہوں۔ ایک جرمن تھا دوسرا اٹالین تھا۔ جو بھی ہو یہ اٹالین اس جرمن سے تھوڑا بہتر لگتا تھا۔ تراش خراش بھی ٹھیک تھی اور لگتا بھی پڑھا لکھا تھا۔ میں سوچنے لگا۔ اگلی ملاقات میں اس سے تفصیل سے پوچھوں گا کیا کرتا ہے۔ اس نے ایسا کون سا کام کیا ہے کہ سے اپنے ہمسایہ ملک میں سیاسی پناہ لینی پڑی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح چھ بجے ہم لوگ ناشتہ کر رہے تھے۔ مقصود جب سے جھیل کے کنارے سے ہوا کر آیا تھا بدلا بدلا تھا ۔وہ موٹا لڑکا بھی اس کے ساتھ چپکا رہتا۔ جو شخص خود کو افغانی کہتا تھا وہ عجیب غریب حرکتیں کرتا صرف یہ ثابت کرنے کے لیئے کہ وہ افغانی ہے حالانکہ وہ افغانی نہیں تھا۔چکوچان میرے دل میں ایک عجیب سی تشنگی چھوڑ گیا تھا۔ رضا بہقی بھی مجھے دلچسپ آدمی لگا تھا لیکن وہ بھی غائب تھا۔ اب یہ سالواتورے تھا۔ مجھے یہ جگہ کاٹنے کو دوڑتی تھی ۔ وقت کٹتا ہی نہیں تھا۔ میں خود کو سنے لگا کہ یہاں کیوں آیا۔ مجھے نیائش کی بات مان لینی چاہیئے تھی۔ مجھ پے ٹون ٹاور کے گرنے کا کچھ زیادہ ہی اثر ہوا تھا۔ مجھے واپس جاننا چاہیئے تھا۔ میں نے خواہ مخواہ خود کو مشکل میں ڈالا۔ وہاں پاکستان میں سولہ کروڑ عوام رہ ہی رہی ہے۔ میں بھی رہ لیتا۔ مجھے اپنی غلطی کا بڑی شدت سے احساس ہونے لگا۔ پھر میں سوچنے لگا، میرے دادا بھی تو اس دنیا میں نہیں۔ میں وہاں جاکے کیا کرتا۔ بھائیوں نے جائیداد پے قبضہ کرلیا ۔میرے حصے میں دادا کی چھوڑی ہوئی کتابیں آئیں۔ پھر خیال آیا اگر یہاں نہ آتا تو اتنے لوگوں سے کیسے ملتا۔ یہاں رہتے رہتے میں اچھا خاصہ اینتھروپولوجسٹ بن گیا تھا۔ میں نے اپنی پوری زندگی میں انگولا کا بندا نہیں دیکھا تھا ۔سئیرالیون کہاں ہے مجھے نہیں پتا تھا۔ فلسطین کاصرف نام سنا تھا۔ اتنے ملکوں کے لوگ ایک جگہ دیکھنے کو ملے تھے۔ اب آگے نہ جانے کتنے ملکوں کے لوگوں سے ملنا تھا۔ سوزی کا بھی دکھ تھا۔ اگر وہ مجھے زیورک ریلوے سٹیشن پے لینے آجاتی تو میں اس وقت یہا ں نہ ہوتا۔ میں نے یہ بات نیائش سے بھی چھپائی تھی۔ مجھے ہلکی سی جلن مقصود سے بھی تھی۔ وہ کوئی زبان نہیں جانتا تھا۔ شکل و صورت بھی بس ایسے ہی تھی۔ لیکن وہ مجھ سے بہتر رہا، اس سوس عورت کے ساتھ جھیل کے کنارے گْل چھرے اڑاتا رہا۔ اب وہ اس موٹے لڑکے کے ساتھ گھومتا۔ اسے شاید یہ ڈر ہوگا کہ میں اس کے حق پے ڈاکہ نہ ڈال دوں۔ ناشتہ کی میز سے مجھے اٹھنا پڑا کیونکہ ہمیں دوبارہ بیرک نماں عمارت میں منتقل کیا جارہا تھا۔ میرا نام ٹرانسفر میں تھا۔ وہاں جانے کا یہ فائدہ تھا کہ وہاں سے ہمیں صبح اور شام کو دو گھنٹے باہر جانے کی آزادی تھی۔ اس کے علاوہ دو میچ بھی تھے۔ ٹی وی تو یہاں بھی تھا لیکن وہاں ہال میں میچ دیکھنے کا مزہ آتا تھا۔ پہلا میچ ساؤتھ کوریا اور سپین کا تھا اور دوسرا سینیگال اور ترکی کا تھا۔
اب بھی ہم اسی ٹیوٹا وین میں لائے لیجائے جاتے ۔ مجھے ڈرائیور نے بتایا تھا کہ یہ وین کا سلسلہ بند ہوجائے گا کیونکہ جو نئی عمارت بنی ہے وہاں ہر چیز کا انتظام ہے۔ وہاں سونے کے کمرے ہیں،
ڈائیننگ ہال ہے ۔میڈیکل سینٹر ہے۔ ہر چیز کی سہولت موجو د ہے۔ مجھے آج پورے سات دن ہوچلے تھے ۔ایسا لگتا تھا جیسے میں یہاں کئی سالوں سے رہ رہا ہوں۔ میری چند لوگوں سے دوستی بھی ہوگئی تھی۔ میں نے کرائس لنگن کی سیاحت بھی کرلی تھی۔ میں نے یہاں کا سی میوزیم بھی دیکھ لیا تھا۔ جہاں انہوں نے کچھ مچھلیاں اور پرانی چیزیں شیشے کے ڈبوں میں بند کی ہوئی تھیں۔ جن کو انگریزی میں ایکویریم کہتے ہیں۔
پہلے میرا خیال تھا کہ سیاسی پناہ صرف غریب ملکوں کے لوگ لیتے ہیں لیکن میرا خیال غلط تھا۔ اب یہاں ہمارے ساتھ دو یورپیئن بھی تھے۔ ایک جرمن تھا دوسرا اٹالین ۔ میرا دل چاہتا تھا کہ سالواتورے سے خوب گپ شپ لگاؤ، اس سے دانتے کے بارے میں بات کروں، بوکاچو کے بارے میں بات کرو۔ لیوناردو دا ونچی کے بارے میں بات کروں۔ لیکن میں سا تھ ساتھ یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ ناپولی کا ہے پتا نہیں اسے ان چیزوں سے لگاؤ ہوگا بھی کہ نہیں۔ اگر رضا ہوتا تو مجھے بالکل بوریت نہ ہوتی۔ میرا خیال نہیں یقین تھا کہ وہ بہت زیادہ صاحب علم ہے۔
ہال میں جیسے ہی میں نے قدم رکھا میں حیران رہ گیا۔ وہاں رضا بھی تھا۔ میں نے اس کو دیکھتے ہی فارسی میں حال احوال پوچھا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میری فارسی ختم ہوگئی۔ میں نے انگریزی میں پوچھا، ’’آغائی رضا آپ کہاں تھے‘‘۔
وہ مجھے غور سے دیکھنے لگا۔ جیسے میں نے کوئی غلطی کی ہو۔خیر اس نے مجھے جواب دیا،’’میں پولیس کی حراست میں تھا۔ میرا یہاں کے عملے سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ میں نے اتنے سارے بندوں والے کمرے میں سونے سے انکار کردیا۔ میں نے ان سے درخواست کی مجھے علیحدہ کمرہ دیا جائے۔ وہ مجھے جیل میں لے گئے۔ وہاں میرے پاس علیحدہ کمرہ تھا۔ پھر واپس یہاں لے آئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں نے آپ کو بہت یاد کیا۔ میں سمجھا شاید آپ کو جرمنی بھیج دیا گیا ہے یا کسی اور ہمسایہ ملک بھیج دیا گیا‘‘۔
’’نہیں نہیں،میں تو جہاز کے ذریعے یہاں آیا ہوں۔ میں سوس گورنمنٹ پے مقدمہ کروں گا۔ انہیں یونائیٹڈ نیشن بہت زیادہ فنڈ دیتی ہے۔ لیکن یہ اس کا چوتھائی بھی ہم پے خرچ نہیں کرتے ۔اس کے علاوہ ان کا رویہ بھی بہت برا ہے۔ قانوناًیہ غلط ہے‘‘۔
’’لیکن پاکستان میں جو افغان مہاجرین ہیں ہم کون سا ان سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ان کا فنڈ کھا جاتے ہیں ۔ان کو ابتدائی طبی سہولیتیں بھی نہیں فراہم کرتے ‘‘۔
’’افغانی تو ایران میں بھی ہے۔ ہم لوگ ایران اور پاکستان کا مقابلہ سوئٹرلیند سے نہیں کرسکتے۔ تم اٖایران اور پاکستان میں افغانیوں کی تعداد دیکھو۔ پورے سوس میں اتنے مہاجرین نہیں ہے جتنے مہاجرین ایران اور پاکستان میں ہیں‘‘۔
’’یہ بات تو درست ہے‘‘۔
’’تمہیں پتا ہے اس کے نتائج بہت برے ہوں گے کیونکہ ہمارے ہاں فنگر پرنٹس کا کوئی رواج نہیں۔ نہ ہی ان کے داخلے پے کسی قسم کی پابندی ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے، ہمسایہ ہونے کے ناطے ہم ان کی مدد کرتے ہیں‘‘۔
’’ہاں یہ بات تو ہے‘‘۔
’’آپ کا جیل کا دورہ کیسا رہا‘‘۔
’’بہت مشکل ۔ وہاں زیادہ سختی تھی۔ اب یہاں جیسا بھی ہو رہنا پڑے گا۔ آٹھ دس دن تکلیف میں کاٹنے پڑیں گے‘‘۔
دور سے سالواتورے آتا کھائی دیا۔میں نے اسے اٹالین میں کہا، ’’ادھر آجاؤ‘‘۔
وہ آکے ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ غصے سے کہنے لگا، ’’نہ جانے کتنے دن اس دوزخ میں گزارنے پڑیں گے۔ میں نے سنا تھا کہ دو تین بعد دوسری جگہ بھیج دیں گے۔ لیکن آج ہفتہ اور کل اتوار۔ جو بھی ہوگا سوموار کو ہوگا‘‘۔
میں نے کہا، ’’جناب سوموار کو تمہارے فنگر پرنٹس ہوں گے، اس کے بعد تصاویر اتاری جائیں گی۔ اس کے بعد انٹر ویو ہوگا۔ پھر پیشاب اور خون کا ٹیسٹ ہوگا۔ پھر باقی میڈیکل چیک اپ ہوگا۔ اس کے بعد تمہیں دوسری جگہ بھیجا جائے گا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ تمہارے فنگر پرنٹ کسی اور ملک میں نہ نکل آئے‘‘۔
اس نے اٹالین میں گالی دی۔ کہنے لگا، پورکا میزیریا(porca miseria)، یعنی ہائے ری قسمت۔مجھے کیا پتا تھا اتنے دن لگیں گے‘‘۔ پھر کہنے لگا، ’’تمہیں کیسے پتا ہے کہ اتنے دن لگیں گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ان تمام مراحل سے گزر چکا ہوں۔ اب میرا میڈیکل چیک اپ باقی ہے۔ میرا خیال ہے سوموار کو ہوگا۔ اس کے بعد مجھے کچی کرائس بھیج دیا جائے گا‘‘۔
رضا بھی ہماری گفتگو میں شامل ہوا۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے رضا کا تعارف سالواتورے سے کروانا چاہیئے تھا۔ رضا نے کہا، ’’بہت خوب ،تم اٹالین بھی جانتے ہو‘‘
میں نے کہا، ’’میں فرنچ اور انگریزی بھی جانتا ہوں‘‘
’’اور اردو تمہارے مادری زبان ہے‘‘
پھر میں نے رضا اور سالواتورے کو متعارف کروایا۔’’سالواتورے،رضا:رضا سالواتورے‘‘۔
سالواتورے انگریزی جانتا تھا اس لیئے ہم نے مناسب یہی سمجھا کہ انگریزی میں ہی گفتگو کی جائے۔
رضاکہنے لگا، ’’فرشتہ انگریزی تو تمہارے ملک کی دفتری زبان ہے لیکن تم نے فرنچ اور اٹالین کیوں سیکھی‘‘
’’میرے دادا کہتے تھے کہ اگر کسی شخص کو ایک زبان آتی ہے تو وہ ایک شخص ہوتا ہے۔ اگر اسے دو زبانیں آتی ہیں تو وہ دو انسانوں کے برابر ہوتا ہے۔ اسی طرح جتنے بھی زبانیں سیکھے گا اس طاقت اتنی ہی بڑھتی جائے گی۔ اس کے علاوہ میں ٹورسٹ گائیڈ تھا۔ ان زبانوں کی وجہ سے مجھے کام ملا۔لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع ملا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’فرنچ کی مجھے سمجھ آتی ہے لیکن پاکستان میں اٹالین ،یہ بات میری پلے نہیں پڑ رہی‘‘۔
میں نے جواب دیا، ’’تم یورپیئن کا یہی تو مسئلہ ہے ۔ ہمارے ہاں اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی ہے وہاں ساری زبانیں سکھائی جاتی ہیں‘‘۔
رضاکہنے لگا، ’’فارسی بھی‘‘
میں نے کہا، ’’فارسی تو ہمارے سکولوں میں بھی پڑھائی جاتی ہے۔بہت سے لوگ فارسی جانتے ہیں ۔پاکستان کے ہر بڑے شہر میں فارسی سکھانے کا ادارہ، ’’خانہ ءِ فرہنگ‘‘ ہے‘‘۔
رضا نے سالواتورے سے پوچھا، ’’تم اٹلی میں کس شعبے سے منسلک تھے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں نے کلاسیکی ادب میں ماسٹرز کیا ہے۔ اس کے علاوہ لاطینی اور فرنچ پڑھی ہے۔ میں ناپولی میں ایک اخبار کے لیئے لکھتا تھا‘‘۔
میں بولا، ’’لکھتا تھا مطلب ‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’اب نہیں لکھتا ،لیکن جیسے ہی کوئی پلیٹ فارم ملے گا تو لکھنا شروع کروں گا‘‘۔
رضا بولا، ’’کلاسیکی ادب میں کیا پڑھا ہے‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’میں نے دانتے، بوکاچو اور پترارکا کو پڑھاہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ورجل کو نہیں پڑھا‘‘۔
سالواتورے بولا، ’’ویسے پڑھا ہے لیکن میرے کورس کا حصہ نہیں تھا۔ ویسے تو کلاسیکی ادب میں دانتے ہی کافی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’میں نے دانتے (Dante)کی دیوینا کومیدیاء (Divina Commedia)بھی پڑھی
ہے اور بوکاچو (Boccaccio)کی ڈیکیمیرون (Decameron)بھی پڑھی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’رضا تم کیا کرتے تھے ایران میں‘‘۔
رضا بولا، ’’میں میٹریل انجینیئر تھا اور اب بھی ہوں‘‘۔
سالواتورے بولا،’’کون سا میٹریل انجینیئر‘‘۔
رضا کہنے لگا، ’’وہی جوعمارتوں کے بننے سے پہلے میٹریل کی جانچ کرتے ہیں۔ اس کی سپیسفک گریوٹی(specific gravity) دیکھتے ہیں۔ اس کے میلٹنگ پوانٹ (melting point)کے بارے میں بتاتے ہیں۔ میٹریل کی مولیلیٹی(molality) اور مولیرٹی(molarity) بتاتے ہیں‘‘۔
ہمارا گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ کھانے کا وقت ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


No comments:

Post a Comment