Sunday, June 9, 2013

فوتگی، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


فوتگی

لیجئے صاحب دنیا میں ایک شخص کی کمی ہوگئی۔ سب سے پہلا کام لوگوں کو اطلاع دینا۔ کسی کو ٹیلی فون کے ذریعے کسی کو تار اور کسی کو محلے کے فارغ طلباء یا اشخاص کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے۔
اور تقریباًایک دن میں تمام افرادِ خانہ ،عزیز و اقارب محلے داروں اور واقف کاروں کو اطلاع کردی جاتی ہے۔ایک زمانہ تھا فوتگی پر لوگ اطلاع بنا اطلاع بھی آ جایا کرتے تھے۔لیکن اب سٹیٹس سمبل
(status symbol)
ہے۔اور تو اور اگر آپ جنازے میں بڑے افراد یعنی ایم این اے، ایم پی اے،کاونسلریا اس سے بھی زیادہ بڑے لوگوں کو بلائیں تو معاشرے میں آپ کی عزت ہوگی اور بہت سے لوگوں کے بچوں کو نوکریاں مل جائیں گی۔بہت سے لوگوں کی سیاسی اہمیت بڑھ جائے گی۔
خیر اطلاع ملتے ہی لوگ وارد ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔اور ہر شخص کا پہلا سوال ہوتا ہے کہ متوفی کی آخری وقت کیا حالت تھی؟کونسی بیماری تھی؟آخری وقت پاس کون تھا ؟ اور گلے لگ کبھی اصلی اور کبھی نقلی روتا ہے اور سوگواران کی اتنی مشق ہوجاتی ہے، رونے کی، کہ جسم میں ایک عجیب قسم کی تھرتھراہٹ پیدا کرکے اور گلے سے خاص قسم کی ماتمی آواز نکال کے روتے ہیں ۔ خواہ سوگواران یا شرکت کرنے والوں کو دکھ ہو یا نہ ہو کیونکہ یہ رواج اور ماتم کا حصہ ہے کہ اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں اور
گلے لگ کے رویا جائے۔ اگر آپ ایسا عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو آپ کی اِس فوتگی میں حاضری نہیں لگے گی۔جس طرح بڑی کار یا پجیرو رکھنا اعلیٰ ذوق اور پائے کی نشانی ہے اسی طرح کسی بڑی بیماری سے مرنا مثلاً ہارٹ اٹیک، پیرالائز،ٹیومر وغیرہ سے مرنا بھی عزت کی بات ہے۔ کیونکہ ٹی بی، دمہ، یا کسی غریبانہ بیماری سے مرنا غربت کی نشانی ہے(یہ میرا خیال نہیں بلکہ لوگوں کا خیال ہے کیونکہ بیماری کبھی بھی امیرانہ یا غریبانہ نہیں ہوتی بیماری ،بیماری ہوتی ہے)
اس کے بعد ہر شخص دعا کے لیئے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ ہر نئے شخص کے آنے پر دعا کی جاتی ہے۔حقیقت میں تو دعا کے دوران ایک دفعہ سورۃ الفاتحہ اور تین دفعہ سورۃ الاخلاص پڑھی جاتی ہے۔لیکن اکثر اوقات دیکھنے میںیہ آیا ہے کہ لوگ ہاتھ اْٹھاتے ہیں اور پھْس پھْس کی آواز نکال کے ہاتھ منہ پر پھیرلیتے ہیں۔ یہ راز خدا اوربندے کے درمیان رہ جاتا ہے کہ جتنی دفعہ ہاتھ اْٹھائے گئے سورتیں پڑھی گئی یا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِس کے بعد میت کو غسل دیا جاتا ہے اور میت کو قبرستان لے جایا جاتا ہے۔ قبرستان جانے سے پہلے میت کے پاس عورتوں کا حال بیان کرنا نہ بھولوں گا۔ صحن کے وسط میں میت رکھ دی جاتی ہے۔ متوفی (عورت یا مرد)جو بھی ہوتا ہے۔ اس کے گرد سب سے پہلے بچے اور رشتہ دار اور اس کے بعد عزیز و اقارب فرداً فرداً بیٹھ جاتے ہیں۔اور عورتیں گروہ بندی کرنے سے یہاں بھی گریز نہیں کرتیں۔کِسی کا بچہ رو رہا ہے کسی کو پیشاب آیا ہوا ہے۔ کوئی دو کپ چائے پی رہی ہے۔ایک اچھی خاصی منڈی بن جاتی ہے۔
عورتیں بین کرنے میں ماہر ہوتی ہیں اور جس وضع سے ہم لوگ ترقی کررہے ہیں۔مستقبل میں بین کرنے والی عورتوں کے بین گروپس ہوا کریں(جس طرح میوزیکل گروپس ہوتے ہیں) جس طرح شادی بیاہ پے ہم لوگ میوزیکل گروپس کو بلاتے ہیں اس طرح بین گروپس کو
بلایا جایا کرے گا، جو بِلا معاوضہ یامعاوضہ لے کر بین کیا کریں گے اور انڈیا میں تو اس طرح کی عورتیں پائی بھی جاتی ہیں۔ جنھیں ’’رودالی‘‘ کہتے ہیں۔بین کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوتا ہے کہ جن کے ہاں فوتگی ہوئی ہے وہاں آپ کی حاضری لگ جاتی ہے اور دوسرا فائدہ آپ اْن کے زخم ہرے کردیتے ہیں۔ تانکہ اْن کو یہ احساس رہے کہ ہمارے ہاں فوتگی ہوگئی ہے۔اب ہماری بغیر جمعراتوں اور چالیسویں کے جان نہیں چھوٹے گی۔خواہ متحمل ہیں یا نہیں۔ بین بھی اچھے خاصے راگ ملہار میں کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے زیورات اور کپڑوں کی نمائش بھی کرتی جاتی ہیں۔اور اگر کوئی قیمت پوچھے تو بڑھا چڑھا کر بتا بھی دیں گی۔مسلسل بولتی چلی جائیں گی اور غیبتوں کی انتہا کردیں گی۔کئی دفعہ اتنی غیبتیں کریں گی کہ بارش شروع ہوجائے گی اور لواحقین کے لیئے مسئلہ بن جائے گا۔ایک خاص بات جو میرے مشاہدے میں آئی کہ لڑکوں لڑکیوں کو فوتگیوں پہ یا فوتگی پہ ڈیٹ لگانے کا موقع مل جاتا ہے۔ خیر اس کے بعد میت کو قبرستان کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ جہاں پر قبر بعض اوقات وہاں کے مقامی لوگ یا بعض اوقات گورکن تیار کردیتا ہے اور مقامیوں کی بھی سنتے جائیں۔جتنے بھی لڑکے بالے ہوتے ہیں اپنے
بزرگوں کی ہدایت پر مناسب جگہ دیکھ کر قبر کھودنا شروع کردیتے ہیں۔اِن میں زیادہ تر نشہ کرنے والے اور بچے قابو کرنے ہوتے ہیں۔جو اس مقامِ عبرت پر بھی اپنی دھن میں مگن رہتے ہیں۔اور قبر تیار کر کے اطلاع کردیتے ہیں کہ قبر تیار ہے۔میت قبرستان میں لاکر یا جہاں بھی قریب کوئی ایسی جگہ ہو جہاں نمازِ جنازہ پڑھائی جاسکے رکھا جاتا ہے۔ ہر طرف وضو اور استنجے کی آوازیں آرہی ہیں اور سب لوگ صفیں بنا کے نمازِ جنازہ پڑھتے ہیں۔عید کی نماز کی طرح اِس نماز میں بھی امام سب کو تکبیروں کے بارے میں بتاتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ اِس نماز کے لیئے آذان نہیں دی جاتی کیونکہ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں اسی لیئے آذان دی جاتی ہے کیونکہ اس کی آذان کی ایک دن نماز بھی ادا ہوگی۔نہ ہی اس نماز میں سجدہ ہوتا ہے۔اکثر لوگوں عیدکی نماز کی طرح اس نماز کے دوران بھی غلطی کرجاتے ہیں۔نمازِ جنازہ
کی ادائیگی کے بعد ،یعنی اس کام سے فراغت کے بعد لوگوں کو متوفی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے جو کہ کبھی انتہائی زرد یا نیلا ہوتا ہے اور کئی دفعہ متوفی کے ناک اور منہ سے خون بہہ رہا ہوتا ہے۔خیر اس کے بعد میت کو قبر تک لایا جاتا ہے۔اس قبر میں اتارنے کامسئلہ ہے۔ جو شخص رومال کا استعمال کرتے ہیں (بڑا) اْن سے رومال (جسے عرفِ عام میں پرنہ کہتے ہیں) طلب کیا جاتاہے۔جتنے بھی مل جائیں دو تین یا چار۔ایک شخص میت کے سر کی طرف اور دوسرا پاؤں کی طرف قبر میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ اور میت کی تین جگہوں پہ یعنی سر کی طرف،کمر اور پاؤں کی طرف رومال یا کپڑا اس طرح دالا جایا ہے کہ میت کو بحفاظت قبر میں اتار کر رومال نکال لیئے جاتے ہیں اور جھاڑ کر اْن لوگوں کو واپس کردیئے جاتے ہیں جن سے طلب کیئے گئے تھے۔اِس کے بعد پتھر کی سلیں رکھ دی جاتی ہیں اور سب لوگ تھوڑی تھوڑی مٹی ڈالتے ہیں۔ اس کے بعد جری جوان وہی جوان جنھوں نے قبر تیار کی تھی بیلچے اْٹھاتے ہیں اور اِس شخص کو منوں مٹی کے نیچے دبادیتے ہیں جو کبھی زمین پر اکڑ کر یا عاجزی سے چلا کرتا تھا۔
اس کے بعد قبرستان میں ایک عجیب سی چہل پہل ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ قبروں کے کتبے پڑھنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کچھ لوگ پرانی قبروں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔جس میں انھیں انسان کی اصل حالت بھی دیکھنی نصیب ہوتی ہے۔کچھ لوگ اشعار اکٹھے کرنے شروع کردیتے اور ہیں اور جن اصحاب اپنے لیئے قبر کی جگہ ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ کئی لطائف سنارہے ہوتے ہیں۔قصہ گوئی چل رہی ہے اور قبرستان میں بھی لوگ ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے کوشش کرتے ہیں۔اس کے بعدوہاں ایک پیر جو ہر قبرستان میں پایا جاتا ہے۔اِس کا اصل کام کیا ہے ۔یہ خدا ہی بہتر جاتاہے لیکن اس کو پیسے کپڑے اور کچھ اشیاء دی جاتی ہیں۔ اس کے بعد سب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔اور سوگواران کو جھوٹی تسلیاں دینے والے اپنے اپنے گھر کو چلے جاتے ہیں اورجو عزیز و اقارب دور سے آئے ہوئے ہوتے ہیں ان کے لیئے کھانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔چونکہ فوتگی اور شادی برابر ہی تہوار
ہیں اس لیئے مرغی یا چھوٹا گوشت نہ پکایا گیا تو لوگ باتیں بنائیں گے۔
قبرستان سے واپسی پر ٹینٹ سروس والے کرسیاں اور شامیانے واپس لینے آجاتے ہیں اور آپ اِن کو بِل ادا کرتے ہیں۔گْو کہ ان کو بھی متوفی کے جانے کا افسوس ہے لیکن کسی قسم کی رعایت کی امید نہ رکھیں۔اور گلی یا محلے سے یہ اشیاء ایسے اٹھا کے واپس لے جاتے ہیں۔جیسے یہاں دور دور تک شامیانے کبھی لگے ہی نہیں ۔اس کے بعد ننھیال اور ددھیال کی جنگ شروع ہوجاتی ہے۔پہلے جائیداد پر پھر جمعراتوں پر کہ جمعراتیں اور چالیسواں کون کرے گا۔اس اداسی کے موقع پر بہت سے لوگوں کے پروٹوکول کا خیال نہیں رکھا جاسکتا اس لیئے کئی رشتہ دار کبھی رات بستر نہ ملنے کی وجہ سے اور کبھی کھانا نہ ملنے کی وجہ سے آپ سے سخت نالاں ہوجائیں گے۔ا س کا بھرپور بدلہ اپنے ہاں کسی فوتگی یا شادی میں لیں گے۔
ہر جمعرات پہ راشتہ داروں اور محلے داروں کو دعوت نامہ یا اطلاع دی جاتی ہے کہ شام چار یاپانچ بجے (موسم پر منحصر ہے سردی ہے یا گرمی) بعد از نمازِ عصر دعا ہوگی۔ اور اس کے بعد کھانا پیش کیا جائے گا۔ کھانے سے پہلے پھل پیش کرنا لازمی جزو تصور کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ چالیس دن تک چلتا رہتا ہے۔ اس میں مرحوم پر دعائیں کم اور ملکی سیاست پر تقریریں زیادہ کی جاتی ہیں۔اور بربعض اوقات مذھبی فرقہ واریت پر بھی بحث ہوجاتی ہے۔لیکن اس کا آغاز ’’پوڑھی‘‘ (لفظی مطلب چٹائی لیکن جس گھر میں فوتگی ہوجائے وہاں جہاں بھی بیٹھ کے دعا کی جائے اسے پوڑھی کہا جاتا ہے)سے شروع ہوتا ہے اور وہیں ختم ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جمعراتوں میں آپ فلموں،شراب اور لڑکیوں کی باتیں چاہتے ہوئے بھی نہیں کرسکتے کیونکہ یہ بھی ایک بہت بڑاڈرامہ ہے (یہی حال عورتوں کی طرف بھی ہوتا ہے۔ ان کے زیرِ بحث اگر ملکی سیاست یا مذھب نہیں ہوتا تو غیبتیں،طعنوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ان چالیس دنوں میں مولوی حضرات کے عیش ہوتے ہیں۔اتنا مزہ انہیں نکاح میں نہیں آتا جتنا فوتگیوں پر آتا ہے۔اس
تقریب کے مہمانِ خصوصی ہوتے ہیں۔صدیوں سے چلی آئی دعائیں پڑھتے چلے جاتے ہیں۔اور ہم لوگ بغیر مطلب جانے ہی آمین آمین کی مہر لگاتے چلے جاتے ہیں۔کام پکا ہوجاتا ہے۔
خواہ اس دعا کے دوران آپ کبھی کھجلی کررہے ہوں یا اپنے بچوں کے بارے میں سوچ رہے ہوں۔نوجوان اپنے معاشقوں کے بارے میں عورتیں اپنے جادو ٹونوں کے بارے میں لیکن ایک خاص وقفے کے بعد آمین آمین کی آوازیں بلند ہوتی رہتی ہیں۔
اس کے بعد لوگوں کے گھروں میں چاول تقسیم کیئے جاتے ہیں اور لوگ فوتگی، جمعراتوں اور چالیسویں کے چاولوں میں نقص نکالتے ہیں ، بوٹیوں اور گوشت کی فرمائش کرے گے جیسے کسی کے ولیمے پر آئے ہیں۔
اس فوتگی کی سب سے آخری اور بڑی تقریب چالیسواں ہے۔ جس پر تقریباً ایک بارات کے کھانے یا ولیمے جتنا خرچہ آجاتاہے۔ اور لواحقین یا سوگواران بھلے قرضہ ہی کیوں نہ لینا پڑے اس تقریب کو بڑے تپاک کے ساتھ مناتے ہیں۔اور اگر ہوسکے تو چہلم کے کارڈز بھی چھپواتے ہیں اور بعض اوقات ایسا شاندار انتظام کرتے ہیں کہ عقلِ ناقص فیصلہ نہیں کرپاتی کہ یہ خوشی کی تقریب ہے یا کہ غمی کی۔
اب تو ماتمی تقریبات پر وڈیو فلم کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ خیر توبات ہورہی تھی چہلم کی تو اس آخری تقریب کے بعد یہ نہیں کہ لوگوں کے کھانے پینے کے دَر بند ہوجاتے ہیں اس دوران یا اس کے فوراً بعد کوئی شادی ،فوتگی کی کوئی اور تقریب آجاتی ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہتا ہے۔جاری رہے گا۔
سرفراز بیگ ۳ مارچ ۱۹۹۲ راولپنڈی

No comments:

Post a Comment