Sunday, June 9, 2013

عبدل حمید مانگھڑ، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ



عبدل حمید مانگھڑ

عبدل حمید مانگھڑ بہتریں اٹالین کوٹ پتلون اور ٹائی باندھے ایک سر کاری تقریب میں بالکل شہزادہ لگ رہا تھا۔اور ساتھ ساتھ اس کا سیکرٹری جسے وہ منشی کہتا تھا۔ چند ہی ماہ پہلے عبدل حمید مانگھڑ ایم این اے کا الیکشن جیتا تھا۔اس نے الیکشن کیمپین
(CAMPAIGN)
میں پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا۔ ویسے بھی سرگودھے کے جس گاؤں سے وہ تعلق رکھتا تھا، وہاں اْس سے زیادہ زمین کسی کی نہ تھی۔ لیکن وہ ’’مارے‘‘(اطالوی زبان میں مارے سمندر کو کہتے ہیں) لگانے والی بات کبھی نہ بھولتا۔ تقریب میں رنگ رنگ کے لوگ جمع تھے۔ ایک نہایت ہی خوبصورت عورت کے پاس جاتے ہی مانگھڑ نے گپ شپ لگانی شروع کردی۔مانگھڑ کا اردو بولنے کا انداز بڑا دلنشیں تھا لیکن ابھی وہ چند باتیں ہی کرپایا تو اس کے منہ سے غیرارادی طور پہ نکل گیا، ’’جدوں اسی ول مارے لاندے ساں‘‘ (یعنی جب ہم سمندر یا دریا کے کنارے سامان بیچا کرتے تھے۔اطالوی زبان میں ’’مارے‘‘ سمندر یا دریاء کو کہتے ہیں) سیکریٹری (بقول مانگھڑ کے منشی) نے ٹھوکا لگایا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ’’مارے لگانا‘‘ کیا ہوتا ہے۔ مانگھڑ میں بس یہی ایک نقص تھا اور دوسرا نقص جسے آپ نقص تصور نہیں کرسکتے کیوں کہ جس کلاس میں وہ داخل ہوچکا تھا اْس کلاس میں اسے نقص نہیں تصور کیا جاتا، وہ تھاشراب پینا۔مانگھڑ کے لیئے یہ نقص اور نقصان اس لیئے تھا کیونکہ وہ نشے میں اْول فْول بکتا تھا اور اس کے سیکریٹری کو ڈر تھا کہ کسی کو مانگھڑ کی اوقات نہ پتا چل جائے۔ اِس کے علاوہ مانگھڑ بے شمار خوبیوں کا مالک تھا۔ معلومات عامہ میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں کئی سال فارغ اوقات میں ڈائجسٹ پڑھ پڑھ کر گزارے تھے۔ اردو لکھنا نہیں جانتا تھا لیکن پڑھنا ور بولنا وہ جانتا تھا۔اطالوی زبان کا تلفظ و لب و لہجہ اتنا اچھا کہ اگر آپ اس کا چہرہ نہ دیکھ رہے ہوں تو ایسا لگے گا جیسے کوئی اطالوی آپ سے مخاطب ہے۔مانگھڑ کو ادب پے اچھا خاصہ ملکہ حاصل تھا۔ کئی شعراء کرام کے اشعار بلکہ پوری پوری غزلیں اور نظمیں اسے زبانی یاد تھیں۔ مانگھڑ کے ماضی کے بارے میں بڑے کم لوگ جانتے تھے لیکن جب سے وہ سیاست میں داخل ہوا تھا اس کے ماضی کے بارے میں جاننے کا کئی لوگوں تجسس تھا۔ اس کے بارے میں لوگ صرف اتنا جانتے تھے کہ وہ ہیروں کا کاروبار کرتا تھا اور کرتا ہے۔ اب تک اس کی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اس کا سیکریٹری تھا۔ وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا کیونکہ مانگھڑ جب پیتا تو آپے سے باہر ہوجاتا۔اس صورت حال پے قابو پانے کے لیئے اس کا سیکریٹری تھا۔
مانگھڑ قومی اسمبلی میں بڑی جلدی مقبول ہوگیا اس کی ایک وجہ تو اس کی خوش لباسی اور اچھے پرفیومز(perfumes) کا استعمال اور دوسرا اس کی خوش اخلاقی۔ مانگھڑ کی زبان ہی اتنی شیریں اور میٹھی تھی کہ لوگ اس کی طرف کِھچے چلے آتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائلہ خان کو صحافت کی دنیا میں قدم رکھے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ اس کی شہرت آسمان کو چھونے لگی تھی۔ وہ اپنی خوبصورتی اور صنفِ نازک ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھاتی۔ ایک تو صحافی کو ویسے بھی کہیں آنے جانے پے پابندی نہیں ہوتی اور دوسرا مائلہ عورت تھی۔
مائلہ نے کئی چونکا دینے والی کہانیاں لکھی تھیں۔ بڑے بڑے شاطر اور کائیاں لوگ اس کے سامنے گھبرا جاتے ۔خدا نے اس کی آنکھوں میں ایسی چمک پیدا کی تھی کہ لوگ اس کی آنکھوں کی چمک دمک میں ہی کھو جاتے۔ جیسے کسی پر اسمِ اعظم پھونک دیا گیا ہو۔آجکل وہ عبدل حمید مانگھڑ کے بارے میں لکھنے کا سوچ رہی تھی۔ چند ایک سیاسی شخصیات نے اسے رشوت بھی پیش کی کہ مانگھڑ کو بے نقاب کرو لیکن اس نے رشوت ٹھکرادی کیونکہ وہ اپنے تجسس کے لیئے مانگھڑ کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ اتنا سمارٹ، بااخلاق اور خوش لباس ایم این اے الیکٹ
(elect)
ہوا تھا۔ دوسرے ایم این اے ز
(M.N.A'S)
کی طرح مانگھڑ کا پیٹ بالکل نہیں نکلا ہوا تھا۔مائلہ بھی مانگھڑ کی شخصیت سے مرعوب تھی۔ لیکن وہ اس طرح جھمیلوں میں نہیں پڑنا چاہتی تھی۔اس کے سر پے پورے گھر کی ذمہ داری تھی۔ اس کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ باپ نشے کا عادی تھا۔ ایک مائلہ تھی جس نے اپنی چھوٹی بہنوں کی شادیاں کرنا تھیں اور گھر کا خرچہ بھی اٹھایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ باپ کے نشے کا ذمہ بھی اسی کے سر تھا۔ ویسے بھی مانگھڑ کی اور اس کی عمر میں بیس سال کا فرق تھا۔
مائلہ نے بڑی مشکلوں سے مانگھڑ کے سیکریٹری سے انٹرویو کا وقت لیا لیکن سیکریٹری نے ایک شرط رکھی کہ انٹرویو اْس کی موجودگی میں ہوگا۔مائلہ مان گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مائلہ جلدی جلدی اپنا پرس ،بال ، کپڑے ساری چیزیں سنوارتی میریوٹ
(MARRIOTT)
کی کافی شاپ میں داخل ہوئی۔ لیکن وہ زیادہ پریشان اس لیئے نہیں تھی کیونکہ سیاسی اور فلمی شخصیات وقت کی پابند نہیں ہوا کرتیں۔ مانگھڑ صاحب اس کے برعکس نکلے۔ وہ وقت مقررہ پے وہاں موجود تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مانگھڑ صاحب کو مائلہ کے انتظار میں آدھا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ یعنی مائلہ آدھا گھنٹہ لیٹ تھی۔ ساتھ میں ان کا سیکریٹری دل ہی دل میں مائلہ کو کوس رہا تھا۔ مائلہ نے آتے ہی معذرت کی۔ مانگھڑ ، مائلہ کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔مائلہ حیرت و استعجاب سے دیکھنے لگی۔ مائلہ نے گھبراہٹ اور تحیر کے ملے جلے جذبات میں کہا، ’’بیٹھئے مانگھڑ صاحب‘‘۔ مانگھڑ صاحب نے نہایت عاجزی و انکساری سے کہا، ’’پہلے آپ‘‘۔ مائلہ اپنے کپڑے اور پرس سمیٹتے ہوئے بیٹھ گئی۔ اس نے انٹرویو شروع کرنے سے پہلے اپنا سازوسامان دیکھا۔منی ٹیپ ریکورڈر
،پین،کاغذ سب کچھ تھا، بس ایک چیز کی کمی تھی ’’فوٹوگرافر‘‘ وہ ابھی پہنچا نہیں تھا۔ مائلہ نے احتیاطً اپنا موبائیل فون بھی سامنے رکھ دیا کیونکہ کسی لمحے بھی فون آسکتا تھا۔ مانگھڑصاحب نہایت سکون سے یہ ساری سرگرمیاں دیکھتے رہے۔مائلہ نے منی ٹیپ ریکورڈر(mini tape
recorder)
آن
(on)
کرکے سامنے رکھا اور پہلا سوال کیا،
’’آپ کا مکمل نام‘‘
’’عبدل حمید مانگھڑ‘‘
ابھی وہ بمشکل جواب دے ہی پایا تھا کہ سیکریٹری کا موبائیل فون بجنا شروع ہوگیا۔ وہ ہاتھ کے اشارے سے انٹرویو روکنے کا کہہ کر ایک کونے میں فون سننے چلا گیا۔ جلدی سے فون بند کیا۔چہرہ لٹکا کے مانگھڑ صاحب سے مخاطب ہوا،
’’سر میری والدہ کی طبیعت ٹھیک نہیں ،مجھے جانا ہوگاآپ اس بی بی سے کہیں انٹرویو پھر کبھی سہی‘‘ ۔
’’اچھا باباٹھیک ہے کہہ دونگا ۔ تم جاؤ ،اگر میری ضرورت ہے تو میں بھی چلتا ہوں‘‘۔
’’نہیں نہیں میں سچوئیشن ہینڈل
(situation handle)
کرلوں گا‘‘۔
وہ اتنا کہہ کر چلا گیا۔ مائلہ نے جس ترتیب سے میز پے چیزیں رکھی تھیں دوبارہ سنبھالنے لگی۔ مانگھڑ صاحب بولے، ’’بی بی یہ کیا کر رہی ہیں‘‘۔ مائلہ نے مایوسی اورآزردگی سے کہا،
’’اب انٹرویو نہیں ہوگا‘‘
’’ٹھیک ہے بی بی لیکن کافی تو پیتی جائیں‘‘
’’جی میں کافی نہیں پیتی‘‘
’’ٹھنڈا وغیرہ‘‘
مائلہ کے دماغ میں نہ جانے کیا آیا وہ بیٹھ گئی
’’ٹھیک ہے ٹھنڈا پی لیتی ہوں‘‘
مانگھڑ صاحب نے اپنی علاقائی زبان میں اپنے بوڈی گارڈ
(body guard)
کو پرے جانے کو کہا اور ویٹر کو اپنا سپیشل اوڈر
(special order)
دیا۔
مائلہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔ مانگھڑ صاحب نے یقیناًمیریوٹ
(marriott)
میں کمرہ ریزرو
(reserve)
کروا رکھا ہوگا اور ہوسکتا ہے مجھے کمرے تک جانے کو کہیں اور اس کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔مائلہ کے دماغ میں ہزار قسم کے خیالات اور سوسے جنم لینے لگے۔تھوڑی دیر میں ویٹر نے میز پر مطلوبہ چیزیں سجا دیں اور چلا گیا۔ مائلہ سوچ رہی تھی سوفٹ ڈرنک
(soft drink)
پی کے چلتی بنے گی۔ مانگھڑ صاحب نے سکوت توڑا،
’’بی بی آپ سنا ہے بڑی اچھی صحافی ہیں۔لوگوں کے بارے میں سچ سچ لکھتی ہیں۔ کیا آپ افسانے بھی لکھتی ہیں‘‘
مائلہ کا ہاتھ گلاس کی طرف جاتے جاتے رک گیا۔
’’جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کبھی کوشش نہیں کی ۔ کبھی فرصت ہی نہیں ملی اور کبھی اس طرف دھیان ہی نہیں گیا۔مانگھڑ صاحب آپ افسانے پڑھتے ہیں‘‘
’’جی میں تو بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ اب فرصت ہی نہیں ملتی‘‘
’’پسندیدہ افسانہ نگار‘‘
منٹو اور جووانی بوکاچو
(GIOVANNI BOCCACCIO) ‘‘
مائلہ پے انگشت بدنداں والی کیفیت تھی ۔اپنی حیرت کو چھپاتے ہوئے کہنے لگی،
’’شاعری بھی پڑھتے ہیں آپ‘‘
’’جی پہلے بہت پڑھا کرتا تھا اب سیاست میں آنے کے بعد بالکل فرصت نہیں ملتی‘‘
’’سیاست میں آنے کی وجہ‘‘
’’گاؤں کے لوگوں کا اسرار اور پیسہ‘‘
’’شوق بالکل نہیں تھا‘‘
’’بالکل نہیں تھا‘‘
مائلہ نے دیکھا مانگھڑ صاحب کی گفتگو اور آواز میں لہر پیدا ہورہی ہے۔ وہ یہ راز سمجھ نہ پائی لیکن ایک بات اچمبھے والی تھی کہ ویٹر تھوڑی دیر بعد ان کے لیئے سوفٹ ڈرنک لاتا۔
’’آپ سیاست میں آنے سے پہلے کیا کرتے تھے‘‘
’’جی میں شروع سے کاروبار کرتا آیا ہوں اور اب بھی کاروبار ہی کرتا ہوں‘‘
’’کیا کاروبار کرتے ہیں ۔۔۔۔آپ‘‘
’’جی ہیروں کا بیوپاری ہوں‘‘
’’شروع سے ہیروں کا کام کرتے ہیں‘‘
’’جی پہلے تو نقلی ہیرے بیچا کرتا تھا۔ اب اصلی‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔پہلے نقلی ۔۔۔اور اب اصلی‘‘
’’ول جندوں اسی مارے لاندے ساں(جب ہم دریا یا سمندر کے کنارے چیزیں بیچا کرتے تھے)۔اس وقت میں نقلی ہیرے بیچا کرتا تھانقلی موتیوں کے ہار‘‘
’’میں کچھ سمجھی نہیں۔کہاں بیچا کرتے تھے‘‘
’’شیشیلۂ
(SICILIA) ‘‘
یہ شیشیلیۂ کہاں ہے‘‘
’’بی بی آپ نہیں جانتیں۔اٹلی کا جزیرہ ہے‘‘
’’او! سسلی ۔۔۔۔۔کب؟‘‘
’’بڑی پرانی بات ہے‘‘
’’کتنی پرانی‘‘
’’تیس یا پینتیس سال پرانی‘‘
’’مانگھڑ صاحب ذرا تفصیل سے بتائیں‘‘
’’میں چھوٹا تھا۔ عمر یہی کوئی سولہ یا سترہ سال تھی۔ گھر سے بھاگ گیا۔ مختلف جگہوں سے ہوتا ہوا شیشیلۂ (سسلی) پہنچ گیا۔ وہاں نہ سر چھپانے کی جگہ تھی نہ کھانے کو کچھ تھا۔ ایک آدمی نے سرکنڈوں کے کھلونے بنانے سکھائے۔وہ بنا بنا کے اپنا پیٹ پالنے لگا۔ کبھی اچھی کمائی ہوجاتی کبھی سارا ہفتہ خالی جاتا۔ وہاں میرا نام تیلیوں والا پڑگیا۔ کیونکہ سرکنڈوں کو ہماری زبان میں تیلا بھی کہتے ہیں۔ رفتہ رفتہ اور لوگ بھی آنے لگے اور ہم لوگوں کا بھی گروپ بن گیا۔جسے لوگ تیلی گروپ کہنے لگے۔ زیادہ تر لوگوں کا تعلق میرے پنڈ سے تھا جہاں سے میں تعلق رکھتا ہوں۔ہم نے بڑا مشکل وقت دیکھا ہے۔ وہیں شراپ پینے کی عادت پڑی۔ پہلے ہم شراب کو پیتے تھے۔ اب شراب ہمیں پیتی ہے۔‘‘
’’شراب شروع کرنے کی وجہ‘‘
’’ بی بی چھوٹی عمر تھی۔ ناسمجھی تھی اور سب سے بڑی وجہ لوگوں کے سامنے تیلیوں کے یعنی سرکنڈوں کے کھلونے جاکر بیچنے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا تھا۔ شراب پی کر ہمت بندھ جاتی اور تھوڑی سی شرم بھی کم آتی۔ ورنہ ہوش میں تو ادھ ننگے مرد ، عورتوں کے سامنے جانے کا حوصلہ ہی نہیں ہوتا۔ سرکنڈوں کے کھلونے بیچتے بیچتے میں یعنی ہم نے نقلی موتیوں کے ہار بیچنے شروع کردیئے۔ پھر تو اتنی ٹریننگ
(training)
ہوگئی تھی کہ مٹی بھی بیچ لیا کرتے ۔ دس سال تک یہی کام کرتا رہا۔ پھر اپنے وطن واپس آگیا۔ پکے مکان بنائے۔کچھ رقم بھی پس انداز کرلی۔ زمین بھی خرید لی تھی۔ پھر اچانک دل میں آئی اور ایجنٹ کو پیسے دیئے اور دوبارہ چلا گیا۔ پھر وہیں شیشیلۂ (سسلی) جاکے پھو ل ، ہار، چاندی کی چیزیں بیچنی شروع کردیں۔ ۱۹۸۷ میں اٹلی نے پہلی دفعہ امیگریشن کھولی۔ ہم لوگ لیگل
(legal)
ہوگئے۔ اس کی وجہ سے ہم آ جاسکتے تھے۔ ایجنٹ والے چکر سے جان چھوٹ گئی تھی۔ اس دوران اطالوی زبان پے کافی عبور حاصل ہوچکا تھا۔ ‘‘
’’ادب سے لگاؤ اسی وجہ سے ہے‘‘
’’بی بی ا س کی خاص وجہ ڈائجسٹ ہیں۔ میں تمام قسم کے ڈائجسٹ بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ اٹلی میں ٹرین کا لمبا سفر میں ڈائجسٹ پڑھ کر ہی گزارتا تھا۔ اس کے علاوہ جن دنوں کام کم ہوتا۔ ہماری دو تفریحات ہوتیں۔ڈائجسٹ اور شراب‘‘
’’ہیروں کے کاروبار کی طرف کیسے آئے‘‘
’’آپ کو بتایاہے کہ میں اتنا اچھا سیلز میں بن چکا تھا کہ مٹی بھی بیچ لیا کرتا ۔ اسی دوران میں نے نقلی موتی اصلی کرکے بیچنے شروع کردیئے۔ جب کافی سرمایہ اکھٹا ہوگیا تو میں نے ہیروں کے کاروبار میں قدم رکھا۔ اس دوران میری ملاقات بیلجیئم کے ایک یہودی سے ہوئی جو ہیروں کی تجارت کرتا تھا ۔بس خدا نے میرے دن بدلنے تھے۔ اس نے کہا تم میرے نقلی ہیرے اصلی کرکے بیچا کرو۔ دنیا میں بڑے کم لوگ پتھروں کی جانچ رکھتے ہیں۔ کئی دفعہ ہیرا جانچنے والی مشین دھوکا کھا جاتی ہے۔ لیکن وہ یہودی دھوکا نہیں کھاتا تھا۔ اس کے ساتھ کام کرتے کرتے نہ صرف میری دنیا بدل گئی بلکہ میرے پہناوے میں بھی فرق آنے لگا۔ اْسی نے مجھے بڑے بڑے لوگوں سے متعارف کروایا اور اچھے لباس اور پرفیومز سے لگاؤ پیدا کرنے والا بھی وہی ہے۔ لیکن یہ کامیابی دو دن کی نہیں بلکہ میری تیس سے پینتیس سالہ محنت کا نتیجہ ہے۔
میرے پاس جتنا بھی پیسہ ہے میں نے بڑی محنت سے کمایا ہے۔ کبھی کسی کا حق نہیں مارا،جھوٹ بولا ہے لیکن کسی کا مال کبھی نہیں چھینا۔ میرے باپ دادا جاگیردار نہیں تھے۔ نہ ہی سرکار نے کوئی زمینیں اور جائیدادیں الاٹ کیں۔ سب اپنے زورِ بازو اور دماغ سے کمایا ہے۔ جب سے سیاست میں آیاہوں۔ میں نے دیکھا ہے سیاست دان کس طرح غریبوں کا خون نچوڑتے ہیں۔ مجبور اور مظلوم عورتوں کی عزت سے کھیلتے ہیں۔ کیونکہ اسمبلی میں کوئی امیدوار ایسا نہیں جس نے اپنی عقل یا محنت سے پیسہ کمایا ہو۔ سب نے اپنے باپ دادا کی چھوڑی ہوئی زمینوں اور جائیدادوں کے بل بوتے پے یہ مقام حاصل کیا ہے۔ بھلے وہ آکسفورڈ
(oxford)
اور ہاورڈز
(howards)
میں پڑھ آئیں۔ رہتے وہی وڈیرے اور جاگیردار ہی ہیں‘‘
’’تعلیم کہاں تک حاصل کی‘‘
’’بی بی ان پڑھ ہوں۔چند جماعتیں پڑھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو پڑھنی اور بولنی جانتا ہوں۔اطالوی زبان باقاعدہ سیکھی ہے‘‘
’’آخری سوال اگر اجازت دیں۔بڑا ذاتی سوال ہے‘‘
’’کیوں نہیں‘‘
’’آپ نے اب تک شادی کیوں نہیں کی‘‘
’’بی بی آج تک مجھے میری من پسند لڑکی ملی ہی نہیں۔ اور کچھ زندگی کے جھمیلوں سے فرصت ہی نہیں ملی۔ میرے دوسرے بہن بھائی سب شادی شدہ ہیں۔والدصاحب کے فوت ہوجانے کے بعد میری ماں اکیلی رہ گئی۔ اب میں اپنی ماں کا خیال رکھتا ہوں‘‘
’’اگر آپ اب شادی کرلیں تو آپ کی ماں کا خیال آپ کی بیوی رکھے گی‘‘
’’آپ کی بات درست ہے۔ لیکن میں اپنی ماں سے بہت زیادہ پیار کرتا ہوں۔ میں اپنی بیوی اور ماں میں پیار کی تقسیم میں برابری نہ کرسکوں گا۔ آخر میں بھی انسان ہوں۔بیویاں تو کئی مل جاتی ہیں۔ لیکن ماں تو ماں ہوتی ہے‘‘۔
مائلہ نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پے قابو پایا۔ اگر وہ اکیلی ہوتی تو چیخ چیخ کر روتی۔ وہ جسے بے نقاب کرنے چلی تھی۔کتنا نفیس انسان نکلا۔ مائلہ نے منی ٹیپ ریکورڈر
(mini tape recorder)
سے منی ٹیپ
(mini tape)
نکال کر توڑ دی اور لکھے ہوئے تمام پوائنٹز
(points)
پھاڑ دیئے۔
ابھی وہ اسی ذہنی توڑ پھوڑ میں مصروف تھی اور وہ کاغذجن پے اہم نقاط لکھے تھے پھاڑ رہی تھی کہ اس کا فوٹو گرافروارد ہوا اور آتے ہی کہنے لگا،
’’سوری مائلہ دیر ہوگئی۔وہ اڈیٹر صاحب کا فون آگیا تھا۔ ایک بہت ضروری ایونٹ
(event)
تھا۔ وہاں کی تصاویر کھینچنی تھیں۔ اس لیئے دیر ہوگئی۔ معذرت خواہ ہوں‘‘
’’میگنم
(magnum)
تم ہمیشہ دیر سے آتے ہو۔ یہ کوئی نئی بات نہیں۔ویسے بھی میں اپنا کام مکمل کرچکی ہوں‘‘

سرفراز بیگ ۲۰۰۴؍۰۸؍۱۱ تا ۲۰۰۴؍۰۸؍۱۳ اریزو ،اٹلی
SARFRAZ BAIG (EMAIL:baigsarfraz@hotmail.com)
11/08/2004 to 13/08/2004

No comments:

Post a Comment