Monday, June 17, 2013

انیسواں باب، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG







۱۹

ثقلین کو نیائش کی فیکٹری میں کام مل گیا تھا۔ا س نے نیا نیا کام شروع کیا تھا اس لیئے وہ بدھ اور جمعرات کو ہمارے گھر نہ آیا۔ جمعے کی شام اس نے قدم رنجہ فرمائے۔ دو دن کی روئیداد سناڈالی۔ اس کے ساتھ ساتھ نیائش نے یہ بھی خبر سنائی کہ اب پری پیکر ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا تھا کیونکہ گھر کا مالک تو نیائش تھا۔ نیائش کہنے لگا، ’’یہ سوموار کی شام ہمارے ہاں آجائے گا‘‘۔
میں نے کہا ،’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔میں ڈرائینگ روم میں سو جایا کروں گا اور ثقلین ،تم کمرے میں سو جایا کرنا‘‘۔
ثقلین بولا، ’’میں ڈرائینگ روم میں سوجایا کروں گا‘‘۔
میں نے کہا،’’پہلے تم آتو جاؤ پھر فیصلہ کریں گے‘‘۔
کھانا وغیرہ کھاکے ثقلین نے اجازت طلب کی کیونکہ وہ بہت تھکا ہوا تھا۔ وہ کام سے سیدھا نیائش کے گھر ہی آیا تھا۔ میں نے خاموشی سے اسے اگلا باب دیا تو کہنے لگا، ’’آخر موبائیل فون کا راز افشاں کرہی دیا لیکن ایک تمہارے استعمال نہ کرنے سے موبائیل کمپنیاں بند تو نہیں ہوجائیں گی‘‘۔
میں نے کہا، ’’ثقلین میرے دل کو تسلی ہوتی ہے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میں موبائیل فون کے بغیر تھا۔ جب سے چکوچان نے مجھے یہ بتایا تھا کہ موبائیل فون سے مظلوم انسانوں کاخون رستا ہے مجھے اس کے استعمال سے نفرت ہوگئی تھی۔ سوس میں ویسے بھی اٹلی کی نسبت لوگ موبائیل فون کم استعمال کرتے تھے۔ اب میرا رابطہ سب کے ساتھ ای میل کے ذریعے تھا۔ دن اسی طرح گزرتے رہے۔ میری رضا سے ملاقات نہ ہوئی ۔اس دوران و نٹرتھور کے بڑے ہسپتا ل میں میری کمر کا ایکسرا ہوا جو ڈاکٹر بوہرنگر نے دیکھ کے بتایا تھا کہ بالکل ٹھیک ہے تمہاری کمر کا درد مسکولر پین ہے نہ کہ ریڑھ کی ہڈی میں کوئی گڑبڑ ہے۔ مجھے اووربیول آئے ہوئے پورا مہینہ نہیں ہوا تھا لیکن میرے فرنچ کٹ قریباًآدھی سفید ہوچکی تھی ا س لیئے میں نے بازار سے بلیچ لے کے ساری ہی سفید کرلی تھی۔ سٹیشن کے پاس ایک دوکان سے کان بھی چھدوا لیا تھا۔ میں شاید یہاں رہ رہ کے اکتا گیا تھا اس لیئے میں نے اس طرح کا حلیہ بنالیا تھا۔ اس دوران میں مسلسل رضا کی ازیل ہائم جاکے اس کے بارے میں پوچھتا۔ ای میل دیکھتا شاید ا س نے میل کی ہو۔ ابھی اس سے چند چیزیں اور بھی پوچھنی تھیں۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ یہ کمی کازے(Kamikaze) کیا ہوتے ہیں،سوسائیڈ بومنگ(Suicide bombing) کیاہوتی ہے۔ میں خود بھی گوگل سرچ انجن پے دیکھ سکتا تھا لیکن رضا کی تحقیق بہت
زیادہ تھی۔
ایک دن میں شام کے قت میں ازیل ہائم کے باہر بیٹھا ہوا تھا ۔مجھے دور سے سفید بالوں والا شخص آتا دکھائی دیا ۔ اس کی مونچھیں بھی سفید تھیں۔ جب وہ پاس آیا تو مجھے یقین ہی نہ آیا۔ یہ رضا بہقی ہے۔ آتے ہی کہنے لگا، ’’تمہارے موبائیل کو کیا ہوا۔ میں کئی دنوں سے کوشش کررہاہوں‘‘۔
میں نے کہا،’’ پہلے کچھ کھاتے ہیں پھر باتیں کریں گے۔ میں بھی بڑامتجسس ہوں‘‘۔
رضا کا رنگ گندمی تھا اورکے چہرے کی رنگت کے ساتھ سفید بال بہت اچھے لگ رہے تھے۔اب اس کے بال زیادہ نمایا ہوگئے تھے، اس لیئے نمایا ہوگئے تھے کیونکہ میں اس سے کافی دنوں بعد مل رہا تھا اور اس نے بال بھی نہیں کٹوائے تھے۔ مونچھوں کا اضافہ نیا تھا۔ میں نے رضا کو کرسی پیش کی اور خود ازیل ہائم کے کچن میں کھانے پینے کا انتظام کرنے چلا گیا۔ میں کچھ پکوڑے بنائے، فنگر چپس بنائے، کیچپ اور میونیز نکالی۔ اپنے لیئے چائے بنائی اور رضا کے لیئے کوک کی بوتل ۔یہ ساری چیزیں تیار کرکے میں نے ٹرے میں رکھیں اور باہر آگیا۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا ۔ جہاں ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے وہاں دھوپ نہیں آرہی تھی اس کے علاوہ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔
رضا کہنے لگا، ’’تم تو بہت کچھ لے آئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’اتنے دنوں بعد نظر آئے ہیں ۔ساتھ ساتھ کھاتے بھی اور باتیں کرتے ہیں‘‘۔
رضا بولا، ’’اب بتاؤ، میرے لیکچر کا کوئی اثر ہوا۔ تم اب بھی مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھتے ہو‘‘۔
’’نہیں اب تو میں بڑی شان سے چلتا ہوں۔ لیکن کمی کازے ،بم کے دھماکوں کے بارے میں اب بھی سوچتا ہوں تو جسم میں ایک عجیب سی کپکپی محسوس ہوتی ہے‘‘۔
رضا بولا، ’’چھوڑو ان باتوں کو تم بتاؤں اتنے دن کیا کیا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کسی نا کسی کام میں خود کو مصروف رکھتا ہوں۔ لائبریری جانا، جم جانا، ونٹرتھور کی سیر کرنا، نئے نئے لوگوں سے تعلقات بنانا،کبھی زیورک چلے جانا۔ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ اٹلی چلا جاؤں،سنا ہے وہاں کی امیگریشن کھل رہی ہے۔آپ آغائی کہاں غائب ہوگئے تھے‘‘۔
رضا بولا،’’میں ایک مہینے زیورک سے میں تھا۔شاید پھر چلا جاؤں۔میں جب واپس آیا تو ہاوس ماسٹرنے تمہارے بارے میں بتایا کہ تم کئی دفعہ میرا پوچھنے آئے۔ میں ویسے ہی آیا تھا ۔اتفاق سے تم
باہر ہی مل گئے‘‘۔
میں نے کہا، ’’آغائی ابھی کچھ تشنگی باقی ہے۔ میرا دل مطمئن نہیں۔ میں جب آپ نہیں تھے یہی سوچتا تھا کہ انسانی دماغ میں اپنے جسم پے بم باندھ کے دھماکہ کرنے کا خیال کہاں سے آتا ہے۔ ان کو کمی کازے کیوں کہتے ہیں۔خود بھی مر جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی مار دیتے ہیں۔یہ کام انسان نے کب شروع کیا‘‘۔
’’میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا کہ تم ایک ساتھ کئی سوال کرتے ہو۔اتفاق کی بات ہے میری تحقیق بھی ان تمام موضوعات پے تھی۔ اور اسی وجہ سے مجھے ایران چھوڑنا پڑا۔ میں نے سیاسی پناہ کے لیئے جو انٹرویو دیا ہے اس کی بنیاد بھی اسی چیز پر ہے اس لیئے مجھے یہ سب یاد ہے۔سب سے پہلے کمی کازے کے بارے میں بات کرتے ہیں۔
کمی کازے: یہ جاپانی زبان کا لفظ ہے۔ کمی کا مطلب ہے خدا اور کازے کا مطلب ہوا۔ ا س کالفظی مطلب ہے خدائی ہوا یا غیبی ہوایا غیبی مدد۔ ہواکچھ اس طرح کہ منگولین فوجوں نے دو دفعہ جاپان پے حملہ کیا ایک دفعہ ۱۲۷۴ اور دوسری دفعہ ۱۲۸۱ میں ۔اسے تم محض اتفاق سمجھ لو یا غیبی امداد سمجھ لوکہ دونوں دفعہ ایسا خطرناک طوفان آیا کہ منگولین فوجیں بکھر گئیں اور وہ جاپان کو فتح نہ کرسکیں۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کی شاہی نیوی نے ا س کا آغاز کیا لیکن اس وقت ان کوکمی کازے کے نام سے نہیں جانا جاتا تھا۔ ان کو شنپوں کہا جاتا تھا۔ اس کا آغاز کچھ اس طرح ہوا کہ جاپانی فوجی جب اتحادی فوجوں کے ٹھکانوں پے حملہ کرتے تو اس ڈر سے کہیں پکڑے نہ جائیں وہ اپنا جہاز بھی تباہ کرکے خود بھی مرنے والوں میں شامل ہوجاتے۔
دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے لیئے اس جنگی حکمت عملی پے کام کرنے Rear Admiral Masafumi Arima تھا۔ اس نے اس کام کے لیئے بہت سارے نوجوانوں کو ٹریننگ دینی شروع کی۔ ا س کی کوشش یہی ہوتی کہ کم عمر اور ناتجرکار نوجوانوں کو لیا جائے اور ان کو اپنی مرضی کے مطابق استعما ل کیاجائے۔جاپان کے لوگوں کا شروع سے یہ ایما ن تھا کہ ہمارے زندگی بادشاہ کی امانت ہے اور بادشاہ کے لیئے جان دینا عین عبادت ہے۔ اس لیئے کئی صدیوں سے لوگ بادشاہ کی
خوشنودی کی خاطر جان دیتے آئے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں لوگوں کے اس جذباتی لگاؤں کو استعما ل کیا گیا جیسے پرانے وقتوں استعمال کیا جاتا تھا۔ جاپان میں زیادہ لوگ شنٹو ازم کے پیروکار ہیں۔شنٹو ازم کی تعلیمات کے مطابق بادشاہ کے لیئے جان دینے سے انہیں مذہب میں اونچا مقام ملتا ہے اس لیئے لوگ خوشی سے کمی کازے کی ٹریننگ لیتے ۔جو بندا دشمنوں کے ٹھکانوں پے جہاز گراکے خود کو بھی مارتا اور ان کے ٹھکانے کو تباہ کرتا اس کو Yasukuni میں جاکے دفن کیا جاتا بلکہ اس کی یاد میں وہاں ایک قبر بنائی جاتی اور جاپان کے اس مقام پے وہاں کا بادشاہ سال میں دو دفعہ قدم رنجہ فرمایاکرتا۔ا س لیئے بادشاہ کے لیئے مرنا اور مرنے کے بعد یاسوکونی میں دفن ہونا ان کے ہاں مقدس مانا جاتا تھا‘‘۔
’’اس کامطلب ہے کسی مذہب سے متعلق چیز کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کرنا اور بعد میں مذہب کو بدنام کرنا ۔اس کے ماننے والوں کو دہشت گرد اور انتہا پسندکا نام دینا ہم لوگوں کا کام ہے‘‘۔
’’بالکل جیسے اسلام میں جہاد کا تصور ہے۔ جو لوگ آپ کو استعما ل کرتے ہیں وہ پہلے آپ کی کمزوری کو ڈھونڈتے ہیں۔ کہاں سے ان کی زندگی میں داخل ہوکے ان کو اپنے مقصد کے لیئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جب کام نکل جائے تو وہی کمزوری جس کو استعمال میں لاکے انہوں نے اپنے مقصد کو حاصل کیا تھا اس کے خلاف پراپوگنڈا کرنا شروع کردیتے ہیں کیونکہ انہیں یہ ڈر ہوتا ہے کہ کہیں یہی طاقت ہمارے خلاف نہ استعمال ہوجائے۔
جب جاپانی نیوی اور ایئر فورس نے ایسے نوجوانوں کو بھرتی کرنا شروع کیا تو ان کو شہد کی مکھیوں کا نام دیا کیونکہ شہد کی مکھی کا جب ڈنگ نکل جاتا ہے تو وہ خود بھی مرجاتی ہے۔ ان کو بھرتی کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا کہ یہ نوجوان زیادہ تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ اس کے بعد ان کی ٹریننگ کی جاتی۔ انہیں شنٹوازم کے بارے میں مزید تعلیم دی جاتی۔ انہیں بادشاہ کے لیئے مرنا ثواب کاکام بتایا جاتا۔ یہ لوگ جب کسی مخالف فوج کے ٹھکانے پے حملہ کرتے تو خوشی خوشی جایا کرتے جیسے مرتے ہی جنت میں چلے جائیں گے۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ جاپان کے جہاز بھی کم ہوگئے اور جاپان کے پاس پائیلٹس کی بھی کمی ہوگئی۔ کئی ایک نوجوان تو حملہ کیئے بغیر ہی واپس آگئے لیکن انہی گولی ماردی گئی۔ ان کی دونوں صورتوں میں موت ہوتی ۔یہ جب بھرتے ہوتے تو موت کے پروانے پے دستخط کیا کرتے گو کہ باقاعدہ طور پے ایسا نہ کرتیلیکن بھرتی ہونے کا مطلب یہی ہوتا۔ان کی ٹریننگ بہت سخت ہوتی اور ٹریننگ کے دوران ان کے ذہن سے زندگی اور موت کا تصور ختم کردیاجاتا‘‘۔
’’تو اس کا مطلب ہے خودکش حملوں کا آغاز جاپان سے ہوا‘‘۔
’’نہیں جاپان سے نہیں بلکہ انسان شروع سے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا رہا ہے۔ حسن بن صباح اپنے فوجیوں کو حشیش کا نشئی بناکے بڑے بڑے لوگوں کو قتل کروایا کرتا تھا۔ خلافت عثمانیہ میں یونانی، سربیئن، البانیں خاندانوں سے کرسچن اور یہودی خاندانوں سے چھوٹی عمرکے بچے چھین لیئے جاتے اور انہیں اپنی مرضی کے مطابق ٹریننگ دی جاتی۔ یورپ میں کاتھیکومان یہودیوں کے بچوں کوان کے ماں باپ سے چھین کے اپنے مقصد کے لیئے استعمال کیاکرتے۔تاریخ اس طرح کی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ جہاں تک دیگر خود کش حملہ آوروں کی بات ہے تو تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔
سترھویں صدی میں جب ڈچ لوگوں نے تائیوان پے قبضہ کرلیا۔ ایک جھڑپ کے دوران ڈچ فوجی گن پاوڈر کے ساتھ خود کو تباہ کرتے تو مخالف فوج کے لوگ بھی مر جاتے ۔چینی فوجیوں کو ان کی یہ جنگی حکمت عملی بالکل سمجھ نہ آئی اور وہ تائیوان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بیلجیئم میں جب انقلاب آیا تو ڈچ لیفٹین Lieutenant Jan van Speijk نے اپنے شپ کو اینٹ ورپن (Antwerpan)کی بندرگاہ پے خود ہی ڈبو دیا۔ اسے یہ ڈر تھا کہ وہ اسے قید نہ کرلیں۔
پیروشین فوجی Karl Klinke جنگِ ڈے بول کے دوران ڈنمارک کے قلعے میں سوراخ کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
روس کے زار Tsar Alexander II of Russia کو خود ساختہ ہینڈ گرنیڈ سے ماردیا گیا ۔جب نیہی لسٹ نے اس کی گاڑی پے ہینڈ گرنیڈ سے حملہ کیا تو وہ بری طرح زخمی ہوا اور چند گھنٹوں کے اندر اندر وہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا ۔۱۹۴۳ میں Rudolf Christoph Freiherr von Gersdorff نے خودکش حملے کے ذریعے اڈولف ہٹلر کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہا۔ جنگِ برلن کے دوران جرمن فوجیوں نے روسی فوجوں کو روکنے کے لیئے کئی خود کش حملے کیئے اور سترہ پل تباہ کیئے لیکن ان کی یہ حکمت عملی کامیاب ثابت نہ ہوئی‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے خود کش حملوں کی کہانی بہت پرانی ہے۔ میں سمجھتا تھا ی مسلمانوں کی ایجاد ہے‘‘۔
’’ابھی تو میں جدید دنیا کے خودکش حملہ آوروں کے بارے میں بتاؤں گا۔ جدید دورمیں ۱۹۸۰ میں لبنانی خانہ جنگی میں خود کش حملوں کے طریقے کو استعمال کیا گیا اس کے بعد تامل ٹائیگر نے بھی اس حربے کو استعمال کیا۔ دنیا میں خود کش حملوں میں سب سے زیادہ کامیاب تامل ٹائیگر رہے۔ اس کے علاوہ فلسطیں کے مسلمانوں نے بھی اس کو اسرائیلیوں کے خلاف جنگی حربے کے طور پے استعمال کیا۔
جہاد کے لیئے قران کی سورۃ توبہ میں ذکر آیا ہے ۔لیکن جہاد کی تشریح غلط کی جاتی ہے۔ اسے اپنے مطلب کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ایک آیت جنگ کے لیئے ہے تو بے شمار آیتیں امن اور انسانوں کاخون نہ بہانے کے لیئے ہیں۔ اسلام میں تو جنگ کے دوران ہری بھری فصلوں کو بھی تباہ کرنے سے منع فرمایا گیاہے۔ عورتوں اور بچوں کو تحفظ دینے کا حکم ہے جبکہ آج کے جدید حملہ آور جن میں روس اور امریکہ پیش پیش ہیں، ان کے کسی ملک میں داخل ہونے اور حملہ کرنے کا طریقہ مختلف ہوتا لیکن یہ سب سے پہلے بچوں کو یتیم کرتے ہیں ۔پھر عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں۔ پھر یہ دنیا کے تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ملک اپنے اپنے ملکوں میں پوری دنیا کو دکھانے کے لیئے ان یتیم بچوں اور بے گھر عورتوں کے لیئے چندہ اکھٹا کرتے ہیں۔ مختلف قسم کے خیراتی ادارے وجود میں آجاتے ہیں۔ گلیوں میں بازاروں میں، بڑے بڑے سٹوروں میں جہاں لوگوں کی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے وہاں چندے اکھٹا کرنے کے لیئے مختلف قسم کی سکیمیں نکالتے ہیں‘‘۔
’’لیکن آغائی امریکہ نے جاپان کے دو شہروں پے ایٹم بم گرائے ہیں وہ دہشت گردی نہیں‘‘۔
’’بالکل ہے۔ تمہیں یاد ہوگا کہ میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ دنیا کے سب سے بڑا دہشت گرد امریکہ ہے۔ اس کے بعد باقی ملک آتے ہیں جن میں انگلینڈ، سپین، پرتگال، فرانس اور تمہیں یہ جان کے حیرت ہوگی کہ بڑے پیمانے پے انسانوں کے قتل میں پاکستان آٹھویں نمبر پے ہے‘‘۔
’’وہ کیسے‘‘؟
’’تم نے جیرڈ ڈائمنڈ(Jared Diamond) کا نام سنا ہے‘‘۔
’’ہاں سنا ہے ۔ازیل ہائم میں ایک بنگالی اس کا ذکر کررہا تھا‘‘۔
’’اس نے ایک کتاب لکھی ہے ،The Rise and Fall of the Third Chimpanzee اس میں اس نے کئی حیرت انگیز انکشافات کیئے ہیں۔ اس میں اس نے ان ملکوں کی فہرست شامل کی ہے جس میں انسانوں نے دوسرے انسانوں کو اپنے مقصد کو پانے کے لیئے بڑے پیمانے پے قتل کیا ہے۔ اس کو انگریزی میں جینوسائیڈ کہتے ہیں۔پاکستان نے ۱۹۷۱ کی جنگ میں تقریباًتیس لاکھ بنگالیوں کا قتلِ عام کیا۔ان کو قتل کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ ان کو اپنے طابع کرلیا جائے‘‘۔
میں یہ سن کے کانپ گیا۔ مجھے اپنے پاکستانی ہونے پے فخر تھا لیکن اب شرم آرہی تھی۔ دکھ ہورہا تھا۔ گو کہ میں اس وقت نہیں تھا لیکن انسانوں کو اتنی بڑی تعداد میں اس لیئے قتل کردیا جائے کہ وہ آپ کی بات نہیں مانتے۔ محمد علی جناح نے جو چودہ نکات پیش کیئے تھے ان کا کیاہوا۔ اقبال کے نظریہء پاکستان کا کیا ہوا۔ کسی کو یاد نہیں رہا جن لوگوں کو ہم جان سے مارہے ہیں وہ ہمارے ہم مذہب ہیں۔ ہم نے یہ ملک اسلام کے نام پے بنایا تھا۔ نظریہ پاکستان کی بنیادی آکائی ہی یہی تھی۔ ہم کسی دوسرے کو کیا تنقید کا نشانہ بنائیں گے ۔ہم توخود گنہگار ہیں۔ فیض نے ٹھیک کہا ہے ۔’’خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘۔
یہ ساری زندگی بھی بارش ہوتی رہے تو نہ دھلیں گے۔
رضا بولا، ’’کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
’’اپنی پاکستانی ہونے پے افسوس ہورہا ہے‘‘۔
’’اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں یہ سیاسی چالبازیاں ہوتی ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے لوگوں کاخون بہانے کے بعد بھی پاکستانی فوج اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوئی۔ خیر تو بات ہورہی تھی دنیا کے سب سے بڑے دہشت گردوں کی جو دوسروں کی طرف انگلیاں اٹھاتے ہیں۔ دوسروں کے مذاہب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں لیکن اپنے آپ کو نہیں دیکھتے‘‘۔
’’آپ امریکہ کے بارے میں بتانے لگے تھے‘‘۔
’’میں کیا بتاؤں گا تمہیں پتا ہے بلکہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ انہوں نے جاپان پے دو ایٹم بم گرائے تھے ۔ایک ہروشیما پر اور دوسرا ناگاساکی پر۔ ہمارے بارے میں تو کہتے ہیں خود کش حملہ چھپ کے حملہ کرتا ہے لیکن انہوں نے تو ساری دنیا کو بتا کے دونوں بم پھینکے تھے۔ جیسے آج کرتے ہیں جس ملک میں چاہیں جدید اسلحے کے ساتھ داخل ہوجاتے ہیں۔ امریکہ جاپان پے ایٹم بم پھینکنے سے پہلے چھ مہینے تک جاپان کے مختلف شہروں پے بمباری کرتا رہا لیکن ا س بمباری میں انہوں نے ایٹم بم استعمال نہیں کیئے۔ امریکہ کے صدر نے جاپان کو ہتھیار پھینکنے کا حکم دیا اور جاپان کے بادشاہ نے اسے دہمکی سمجھ کے جنگ جاری رکھنے کو کہا۔ امریکہ کے صدر ہنری ٹرومین نے ریڈیو پے اعلان کیا کہ اگر جاپان نے ہتھیار نہ پھینکے تو امریکہ اس پے ایٹم بموں کی بارش کردے گا۔ جب ٹرومین نے یہ اعلان کیا تو اس کو کینیڈا اور انگلینڈ کی ہمدردیاں حاصل تھیں۔
ایٹم بم گرانے سے پہلے یہ اتحادی سوچتے رہے کہ کون سے شہر پے بم گرایا جایا کیونکہ ہوائی حملوں میں امریکن آدھا جاپان تباہ کرچکے تھے۔ آخرکار ہیروشیما اور ناگاساکی پے بم گرانے کا سوچا گیا۔ جو بم ہیروشیما پے گرایا گیا اس کا نام تھا لٹل بوئے تھا۔ ہیروشیما پے صبح آٹھ بج کے پندرہ منٹ پے بم پھینکا گیا۔اور کتنی عجیب بات ہے ورلڈ ٹریڈ سنٹر پے بھی صبح آٹھ بج کر پینتالیس منٹ پے میزائیل یا جہاز سے حملہ کیا گیا۔یہ ایٹم بم جس کا نام لٹل بوئے تھا اس کا وزن ساٹھ کلو تھا اور اس میں یورینیم ۲۳۵ کا استعمال کیا تھا اور اسے گرانے میں پیتالیس سیکنڈ لگے۔ اس کے گرانے والوں کے نام تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جاتے ہیں۔ دنیا کی ہر کتاب میں موجود ہیں۔ ان پے فلمیں بنی ہیں۔کتابیں لکھی گئی ہیں ۔اس کا ریکارڈ موجود ہے لیکن ورلڈ ٹریڈ سنٹر پے حملہ کرنے والا کا نام اور پتا اور دوسرے کوائف بعد میں پیش کیئے گئے اور ان مرے ہوئے بندوں سے کئی زند ہ نکلے۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر جس کے گرنے کا الزام پوری دنیا مسلمان دہشت گردوں کے ذمے تھوپتی ہے اور جس حادثے تین ہزار یا شاید اس سے کچھ زیادہ لوگ مرے اور ہیروشیما اور ناگاساکی جن پے بم گراتے ہوئے امریکہ نے پوری دنیا کو بتایا کہ ہم یہ کام کرنے جارہے ہیں اور ان کو کسی نے نہ روکا اس حادثے میں دو لاکھ چھیالیس ہزار لوگوں نے اپنی جانیں دیں اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے اور آج تک ہیروشیما اور ناگاساکہ میں معذور بچے پیدا ہوتے ہیں۔ ان میں خون کی کمی ہوتی ہے۔ ان کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوتے ہیں۔ یہ ذہنی طور پے مفلوج ہوتے ہیں۔
دوسرا بم جس کانام ہے فیٹ مین تھا یہ ناگاساکی پے گرایا گیا۔ اس بم کو بنانے کے لیئے امریکہ نے پلوٹونیم استعمال کیا۔ اس کے گرنے میں پیتالیس سیکنڈ لگے اور ا س سے سارا ناگاساکی شہر تباہ ہوگیا۔
جاپان ان دو ناگہانی آفتوں سے بہت گھبرا گیا کیونکہ امریکہ نے کہا تھا کہ اگر انہوں نے اب بھی ہتھیار نہ پھینکے تو امریکہ ایٹم بموں کی بارش کردے گا۔ اس لیئے جاپان نے ہتھیار پھینک دیئے اور غیر معینہ مدت تک کسی قسم کے ہتھیاراور فوج نہ بنانے کے کاغذات پے دستخط کردیئے۔‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہوا ‘‘۔
’’ابھی کچھ اور بھی باقی ہے‘‘۔
’’کیا باقی ہے‘‘۔
’ابھی تمہیں عصرِ حاضر کے اطالوی دہشت گردوں کا بتانا ہے۔ اس کے بعد جیرڈ ڈائمنڈ نے جو دنیا کے بڑے بڑے جینوسائیڈ کا ذکر کیا ہے اور اس میں شمالی اور جنوبی امریکہ میں فرانس ،سپین ،انگلستان نے کیا کیا مظالم ڈھائے ہیں ۔اس کے بعد تم فیصلہ کرنا کہ کون دہشت گرد ہے‘‘۔
’’اطالوی دہشت گرد بھی گزریں ہیں‘‘۔
’’ہاں ان کو میں سرخوں کا نام دیتا ہوں۔ اطالوی زبان میں ان کو بریگاتے روسے Brigate Rosseیعنی ریڈ بریگییٹس کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بریگاتے روسے کا آغاز ترینتو (Trento)یونیورسٹی میں پڑھنے والے ایک طالب علم Renato Curcio, نے اپنی معشوقہ Margherita (Mara) Cagol اور اپنے دوست Alberto Franceschini کے
ساتھ مل کے ۱۹۷۰ میں کیا۔ یہ مارکسسٹ لیننسٹ دہشت گرد گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ فیکٹریوں پے حمل کرتے، بینک لوٹتے اور بڑی بڑی سیاسی شخصیات کو اغواہ کرتے۔ جس میں اٹلی کا پرائم منسٹر آلڈو مورو (Aldo Moro) بھی شامل ہے۔جس کو انہوں نے اغوا کیا ااور بعد میں اس کو قتل کردیا۔ جب اس کے بانی کو اور گروپ کے دوسرے ساتھیوں کو حراست میں لے لیا گیا تو انہوں پولیس سٹیشنوں پے حملے کرنے شروع کردیئے اور انہوں بہت سارے ججوں کوبھی اغوا کرلیا۔ انہوں ۱۹۷۹ میں ایک ٹریڈ یونین کے صدر کو بھی قتل کردیا۔
یہ ٹرینوں اور بسوں میں بم رکھ دیتے تھے ،ریلوے سٹیشنوں پے بم رکھتے تھے، باغوں اور سیر گاہوں میں بم رکھتے تھے۔
اسی دوران اٹلی میں ایک تنظیم وجود میں آئی اس کا نام تھا NAR یعنی نیوکلیوآری آرماتی ریولیوشیوناری ۔انہوں نے ۲ اگست کو بلونیا(Bologna) ریلوے سٹیشن کے ویٹنگ روم میں بم رکھا ۔یہ بم ان کے گروپ کا بندا ایک سوٹ کیس میں چھوڑ کے چلا گیا ۔اس
وقت بلونیاں ریلوی سٹیشن پے ٹرین کھڑی تھی۔ جب بم پھٹا تو ویٹنگ روم کی چھت آکے ویٹنگ روم میں بیٹھے لوگوں پے گری۔ اس حادثے میں پچاسی لوگ ہلاک ہوئے اور دوسو کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ اس بارے میں ناقد یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اطالوی حکومت کی خفیہ اجنسی کے بندے نے یہ کام کیا تھا کیونکہ اس کے بعد انہیں بریگاتے روسے پے سخت سے سخت کاروائی کا موقع مل گیا۔تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر اس کام میں حکومت کا ہاتھ تھا تو ان کو اس کا فائدہ بھی ہوا کیونکہ اس کے بعد بریگاتے روسے اور اس طرح کی دوسری تنظیموں کے بندے فرانس اور سوس بھاگ گئے ۔کچھ نے خود کشی کرلی اور کچھ نے اس کام سے توبہ کرلی‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے بسوں میں بم رکھنا، ٹرینوں میں بم رکھنا، عمارتوں اور پلوں کا اڑانا ہم ایشیائی لوگوں کا کام نہیں یہ انہوں نے ہمیں سکھایا ہے‘‘۔
’’سکھایا کیا ہے ۔جب اپنے مقصد کے لیئے مجاہدین کو ٹریننگ دے رہے تھے ان کو یہ سارے طریقے پہلے سے پتا تھے۔ افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو کیا پتا کہ دہشت گردی کیا ہوتی ہے۔ تم تاریخ اٹھا کے دیکھوں پاکستان ،افغانستان میں ۱۹۷۰ میں اس چیز کا تصور ہی نہیں تھا‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے بات مذہب کی نہیں ،اپنے مقاصد حاصل کرنے کی ہے‘‘۔
’’ہاں کچھ بھی ہو کہیں نظریاتی اختلافات کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے، کبھی تیل اور ہتھیار بیچنے کے لیئے ایسا ہوتا ہے۔ کبھی اقتدار حاصل کرنے کے لیئے ایسا ہوتا ہے‘‘
’’آپ نے جیرڈ ڈائمنڈ کا ذکر کیا ہے ۔ کیا اس نے اور ملکوں کا بھی ذکر کیا ہے یا صرف پاکستان اور امریکہ کے بارے میں ہی لکھا ہے‘‘۔
’’میں تمہیں اس کی تفصیل بتاتا ہوں۔ جب سے دنیا بنی ہے انسان شروع سے ایک دوسرے پے سبقت لے جانے کے چکر میں ہے۔ یہ انسان کی فطرت میں ہے۔ بڑے بڑے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ مذہب بعد میں وجود میں آیا لیکن انسان نے تہذیب کے ارتقاء کی طرف منزلیں پہلے سے طے کرلی تھیں۔ دنیا کے مشہور سائنسدانوں کا خیال ہے کہ انسان نے پہلے خدا کو بنایا ،پھرخدا سے اس کائنات کو تخلیق کروایا گیا۔ جب پوری کائینات بن گئی ۔انسان نے لکھنا پڑھنا سیکھ لیا تو پھرخدا سے پیغمبروں کو بنوایا گیا اور پھر مذہب کو رائج کیا گیا‘‘۔
’’رضا ،اس طرح کے خیالات سے تو انسان کافر ہوجاتا ہے‘‘۔
’’میں اپنی بات نہیں کررہا بلکہ ان سائنسدانوں کی بات کررہا ہوں جو کہتے ہیں کہ خدا نے پیغمبروں کو تخلیق کرنے کے لیئے انسان کے مہذب ہونے کا انتظار کیالیکن انسان پھر بھی مہذب نہ ہوا بلکہ انسان نے مذہب کو اپنے مطلب کے لیئے استعمال کرنا شروع کیا۔مذہب سے انسان کے اندر انسانیت آتی ہے وہ انسانیت کی معراج کو پہچانتا ہے نہ کہ ایک دوسرے کا قتل کرتا ہے۔ آریا وں نے جب ہندوستان پے حملہ کیا کو توان کا مذہب ہندومت تھا ۔انہوں نے ہندوستان پے قبضہ کرنے کے لیئے دراوڑوں کا بے دریغ قتل کیا جبکہ ہندومت آہنسا کا سبق دیتا ہے۔ سکندرآعظم نے پوری دنیا کو فتح کرنے کے لیئے بیش بہا خون بہایا۔ مہاراجہ اشوکا نے کالنگا میں اتنے انسانوں کا خون بہایا کہ اسے اپنے آپ سے نفرت ہوگئی۔ پھر اس نے بدھ مت کو اپنا مذہب اپنا لیا۔ نوسو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی۔ سفید ہنوں نے پوری دنیا کو تہس نہس کردیا۔ مسلمان جب معاشی اور سیاسی طور پے اپنے قدم جماچکے تو انہوں نے آس پاس کے ملکوں پے حیلے بہانوں سے قبضہ کرلیا۔ جب کوئی ملک کسی ملک پے حملہ کرتا ہے تو انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ چنگیز خان نے کھوپڑیوں کے مینار کھڑے کردیئے اور وہ اپنی زندگی میں کوئی جنگ نہ ہارا۔ طاقت ،دولت، اقتدار حاصل کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ سائنسدان اس کو انسان کے اندر پائی جانے والی جانوروں کی جبلت کا نام دیتے ہیں۔ تم نے سنا ہوگا اینیمل انسٹنکٹ(animal instinct)
اب آتے ہیں نئے دور کی طرف۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ دنیا کا سب سے بڑا قتل عام امریکہ میں ریڈ اینڈیئنز کا ہوا۔ امریکن گورے تقریباًڈھائی سوسال تک ریڈ انڈیئنز کے خون سے ہولی کھیلتے رہے ۔جیرڈ ڈائمنڈ کے تجزیئے کے مطابق انہوں نے ۱۶۲۰ سے لے کر ۱۸۹۰ تک تقریباًدس لاکھ انسانوں کا خون بہایا۔ ہسپانوی باشندوں نے امریکہ اور ساؤتھ امریکہ میں بیس لاکھ سے زیادہ انسانوں کا خون بہایا۔ آسٹریلینز نے دس لاکھ تسمانیئن لوگوں کا قتل عام کیا۔
دوسری جنگِ عظیم میں ہٹلر نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کا قتل عام کیا۔ روسیوں نے اپنے روسی سیاسی مخالفین کا قتل کیا جو کہ پچاس لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔ ترکوں نے دس لاکھ سے زیادہ آرمینین کا قتل عام کیا۔ پاکستانی فوج کا تو میں تمہیں بتا ہی چکا ہوں ۔ا س کے بعدخمیر روج نے دس لاکھ سے زیادہ کمپوچینز(Cambodians)کا قتل کیا۔ ان سارے بڑے جینوسائیڈز میں انسان نے کبھی مذہب کو سامنے رکھا، کبھی کسی سیاسی نظریئے کو سامنے رکھا لیکن مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ اقتدار حاحل کیا جائے۔ مذہب ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے لیئے انسانوں کو بہت جلدی اپنے مقصد کے لیئے استعمال کیا جاسکتا ہے ۔اس کے بعد جہالت کانمبر آتا، غربت کا نمبر آتاہے۔ پاکستان کو ہی لے لو ۔اسلام کے نام بنایا گیا۔ اسلام کے نام پے ملک بنانے کے لیئے ہندو مسلم فسادات میں چھ لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں دیں۔ ٹھیک ہے دو قومی نظریئے کے مطابق مسلمانوں کا اختلاف تھالیکن بنگالیوں سے مذہب کے معاملے میں کوئی اختلاف نہیں پھر کیوں تیس لاکھ بنگالیوں کاقتل عام کیا گیا۔ ان کی عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ کہاں گیا دو قومی نظریہ۔ کہاں گئے محمد علی جناح کے چودہ نکات۔اس کامطلب ہے تحریک پاکستان میں مذہب کو ہتھیار یا بہانے کے طور پے استعمال کیاگیا‘‘۔
میں نے کہا، ’’بالکل درست ہے۔لیکن آغائی ابھی جو آپ نے حقائق بتائے ہیں۔ انسانوں کے قتل عام کے جو گوشوارے بتائے ہیں ان میں ہٹلر سرِفہرست ہے‘‘۔
’’نہیں تم امریکہ اور ساوتھ امریکہ میں قتل عام کا ٹوٹل کرو جو وہاں کے مقامی لوگوں کا ہوا۔ یہ کل ملا کے ایک کروڑ سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ اب میں تمہیں ایک آخری بات بتاتا ہوں۔دنیاکی سب سے بڑی جمہوریت امریکہ کی۔ اس کے بعد میں چلا جاؤں گا کیونکہ بہت دیر ہوچکی ہے‘‘۔
’’چلیں آخری بات بھی بتا ہی دیں‘‘۔
’’امریکہ ڈھائی سو سال تک ریڈ انڈیئنز کا قتل عام کرتا رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد بہت کم ہوگئی۔ جب ان کے خاندان کے چند بندے رہ گئے تو ان زندہ انسانوں دنیا کو دکھانے کے لیئے میوزیم میں کھڑا کردیا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ لوگ مرنے لگے۔ اس خاندان کا آخری جوڑا یعنی میاں بیوی اور ایک بچہ تیس سال تک میوزیم میں لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے ۔تم دیکھوں پوری دنیا کو تہذیب کی باتیں بتاتے ہیں لیکن زندہ انسان کو میوزیم میں کھڑا کرکے اپنی بربریت اور طاقت کا ثبوت دینا کوئی امریکہ سے سیکھے۔ پھر اس ریڈ انڈین کی بیوی فوت ہوگئی اور کچھ عرصے کے بعد وہ آخری ریڈ انڈین بھی فوت ہوگیا اور اس میوزم کے کیوریٹر نے اس بچے نگہداشت اپنے ذمے لے لی‘‘۔
’’اب وہ بچہ کہاں ہے‘‘۔
’’سنا ہے وہ پڑھ لکھ کے جج بن گیا ہے اور اس نے امریکن حکومت کے مقدمہ کردیا ہے‘‘۔
’’بہت خوب‘‘۔
’’اب بھی تم سمجھتے ہو کہ ہم لوگ دہشت گرد ہیں‘‘۔
’’آغائی رضا اب میرا دل بالکل مطمئن ہوگیا ہے‘‘۔
’’تو ٹھیک ہے ۔میں خوش ہوں کہ میری تحقیق کسی کے تو کام آئی۔ کوئی میری بات سے متفق ہوا۔ ویسے مزید معلومات کے لیئے فلم بہت اچھی چیز ہے۔ کچھ فلمیں لوگوں کو اس طرح کے کام سکھانے کے لیئے بنائی جاتی ہے کچھ فلموں میں پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ کون سا کام کیسے کرنا ہے۔کچھ فلموں میں تشبیح کے طور منظر نگاری ایسی ہوتی ہے جس میں فلم بینوں کے سمجھنے کی چیز ہوتی ہے۔ جیسے پیس میکر(Peacemaker) میں ہمیں بتایا گیا کہ کیسے آپ کے عمل سے لوگ دہشت زدہ ہوتے ہیں۔ جیکال(Jackal) فلم میں ایسے طریقے بتائے گئے ہیں جن سے آپ سیکھ سکتے ہیں کہ کون سا کام کیسے کرنے ہیں۔ اگر تم نے فلم کروسیڈز (The Crusades) دیکھی ہے تو اس کے آغاز میں ایک بہت بڑی صلیب دکھائی جاتی ہے ۔اس کے پیچھے سے سورج کو نکلتا ہوا دکھایا گیاہے۔ یہ منظر کچھ اس طرح دکھایا گیا ہے کہ صلیب لال رنگ میں ڈوبی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ فلم ڈائیریکٹر کا ایک استعارہ ہے۔ یعنی صلیبی جنگوں میں صلیب کو سامنے رکھ کے انسانوں کا خون بہایا گیا ہے اس کے علاوہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ گینگز آف نیویارک (The Ganges of Newyork)میں امریکہ کو بربریت کی طرف سے تہذیب کی طرف آتا دکھایا گیا لیکن اس میں ان لوگوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے جن لوگوں اس ملک کو تعمیر کیا۔اس طرح کی بیشمار فلمیں ہیں جو کافی اچھی بنی ہیں‘‘۔
’’میں نے کروسیڈز دیکھی ہے ۔اس میں صلیب کے پیچھے سے سورج کو نکلتے دکھایا گیا لیکن میں نے اس نقطہ ء نگاہ سے کبھی سوچا ہی نہیں‘‘
’’فلم بنانے والے ڈائیریکٹر بہت ذہین ہوتے ہیں۔ قدرتی مناظر،کہانی، ڈائیلاگ اورایکٹنگ کے ذریعے بہت سی باتیں کہہ جاتے ہیں اور سمجھنے والے کو سمجھ بھی آجاتی ہیں‘‘۔
’’آغائی اب میں فلم بہت غور سے دیکھا کروں گا‘‘
بہت خوب تم فلم غور سے دیکھا کرنالیکن میں اب چلتا ہوں بہت دیر ہوگئی ہے۔ چائے بہت اچھی تھی، ساتھ پکوڑوں اور چپس کابھی بہت مزہ آیا‘‘۔
یہ کر رضاکھڑا ہوا اور میں اسے ازیل ہائم سے باہر سڑک تک چھوڑنے آیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہاں رہتے ہوئے دو ماہ ہوچلے تھے۔ رضا سے میری آخری ملاقات وہی تھی جب ہم دونوں نے لمبی بیٹھک کی تھی۔ اس نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔ گلبدین کو دوسری کرائس میں بھیج دیا گیا تھا۔ ازیل ہائم میں کئی نئے لوگ آگئے تھے۔ ان نئے لوگوں میں ایک لڑکا بالکل پاکستان کے سابقہ اور معزول وزیرِاعظم نواز شریف کی طرح کا تھا۔ گوراچٹا ،گول چہرے والا اور سر سے گنجا اور سر کے کناروں پے بال تھے ۔یہ مولدیویا(Moldovia) کا رہنے والا تھا۔ وہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش کرتا لیکن اسے کوئی زبان نہیں آتی تھی۔ وہ کئی دفعہ میرے پاس بیٹھ جایا کرتا ۔ اس کو کسی نے بتایا تھا کہ سوس میں لڑکی پٹانے کے لیئے کوئی نا کوئی زبان آنی چاہیئے لیکن ازیل ہائم میں نائیجیریا کے جتنے بھی لڑکے تھے ان سب نے لڑکیاں پٹا لی تھیں۔ انہی نائیجیرن لڑکوں میں سے ایک سے سبینا نے بھی دوستی کرلی تھی اور اب وہ ماں بننے والی تھی۔ ازیل ہائم میں کسی کو نہیں پتا تھا کہ اس کے ہونے والے بچے کا باپ کون ہے۔ یہاں یہ بات بہت اچھی تھی کہ ہر شخص اپنے کام سے کام رکھتا تھا۔
اگست کے آٖغاز میں اٹلی نے امیگریشن کھول دی تھی اور مجھے ہر دوسرے دن نیائش کا فون آتا کہ کسی بھی طریقے سے اٹلی واپس آجاؤ۔ میں ہر دفعہ اسے یہی کہتا کہ میں جلدی آجاؤں گا۔میرا یہی خیال تھا کہ یہاں تین مہینے گزارنے کے بعد مجھے دوسری کرائس بھیج دیا جائے گا اور ہوسکتا ہے اس دوران انٹر ویو ہوجائے اور میری سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہوجائے اور مجھے کام کی اجازت مل جائے اور میں علیحدہ گھر لے لوں گا۔ نئے سرے سے اپنی زندگی شروع کروں گا۔ اب گرمی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا اور اس کی وجہ سانس لینا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ ہمیں اسی طرح ہر جمعرا ت کو خیرات ملتی ۔ سوس لوگ اسے سوشل کہتے ہیں لیکن مجھے یہ رقم بھیک کی طرح لگتی ۔میری شدید خواہش تھی کہ مجھے کام کی اجازت مل جائے اور کوئی نا کوئی کام کرلوں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شنائیڈر کا رویہ میرے ساتھ عجیب سا ہوگیا اور اور شیفر کے انداز میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔ اگست کے مہینے میں جمعرات کے دن ہم سارے لوگ ان چار مستطیل میزوں کے ارد گرد کرسیاں پے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہمیشہ کی طرح کبھی شیفر بولتا اور کبھی شنائیڈر۔ پھر شنائیڈر نے ایک بڑی عجیب و غریب بات کی ۔کہنے لگا، ازیل ہائم میں رہنے والے لڑکے منشیات کا دہندہ کرتے ہیں۔ چوریاں کرتے ہیں۔ یہ بات وہ پہلے بھی کئی دفعہ کہہ چکا تھا لیکن آج اس کا انداز عجیب و غریب تھا۔ میں نے کہا ،اگر ازیل ہائم کے لڑکے منشیات کا کاروبار کرتے ہیں تو ان کے خریدار ہیں تو بیچتے ہیں۔ سوس لوگ منشیات کا استعمال چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ اس کو میری اس بات پے بہت غصہ آیا۔ کہنے لگا، تم لوگ یہ کاروبار بند کیوں نہیں کردیتے۔ شیفر نے میرا ہاتھ دبایا۔ اس دوران وہ جورجیاء کا لڑکا بولا، کل ہم لوگ بس میں آرہے تھے ہم نے بس ڈرائیور کو بس روکنے کوکہا۔ اس نے بس نہیں روکی ہمیں اگلے سٹاپ پے اتار دیا۔ہم لوگوں کو وہاں سے چل کے آنا پڑا۔ شنائیڈر بولا، کوئی فرق نہیں پڑتا ۔میں نے اس کے بعد کوئی بات نہ کی کیوں مجھے یہ بات سمجھ آچکی تھی کہ شنائیڈر کس انداز میں سوچتا ہے۔
میں پابندی سے لائبریری جاتا تھا۔ اپنی ای میل دیکھتا تھا۔ کوئی نا کوئی کتاب بھی لے آیا کرتا۔ پڑھ کے واپس بھی کردیا کرتا۔ جم بھی جایا کرتا۔ میں نے جرمن زبان سیکھنے کے لیئے سکول میں داخلہ بھی کروالیا تھا۔ ہمارے کلاسیں اگست کے آخر میں شروع ہونی تھیں۔ میں نے جم میں کام کی درخواست بھی دے دی تھی۔ اب ونٹرتھور میں لوگ مجھے جاننے لگے تھے۔ ایک دن میں لائبریری سے نکل کے انٹرگرابن (Untergraben)پے چلا
جارہا تھا۔ وہاں دو دن پہلے تک کچھ نہیں تھا۔ لیکن آج وہاں لال رنگ کی باڑ لگی ہوئی تھی اور اندر چند لوگ کھدائی کررہے تھے۔ میں نے باڑ کے پاس کھڑے ہوکر پوچھا،’’تم لوگ کیا کررہے ہو‘‘۔ مجھے اتنا اندازہ ہوگیا تھا یہاں سے کوئی چیز دریافت ہوئی ہے۔ ان میں سے ایک سنہرے بالوں والی عورت بولی، ’’یہاں سوس شہر کی پرانی دیوار کے آثار ملے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ د یوار کتنی پرانی ہے‘‘۔
وہ کہنے لگی، ’’چھ سو سال پرانی ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں پاکستان کا رہنے والا ہوں ۔وہاں تو چار ہرزار سال پرانے آثار بھی دریافت ہوئے ہیں۔ جو اب بھی دیکھے جاسکتے ہیں‘‘۔
وہ عورت کپڑے جھاڑ کے اس آرکیالوجیکل سائیٹ سے باہر آگئی۔ اپنے دستانے اتارے ۔مجھ سے ہاتھ ملایا۔ کہنے لگی، ’’میں نے ٹیکسلا اور تخت بائی میں کام کیا ہے۔ ہمارا مقابلہ پاکستان سے تو نہیں ہوسکتا ۔وہ تو بہت خوبصورت ملک ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’سوس بھی تو بہت خوبصورت ملک ہے‘‘۔
کہنے لگی، ’’سوس میں سبزہ ہے۔ قدرتی مناظر ہیں۔ ہمارے پاس اس خوبصورتی کو قائم رکھنے کے لیئے اچھا خاصہ بجٹ ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی دیکھ بھال کرنے کے لیئے اس کو مزید خوبصورت بنانے کے لیئے بجٹ نہیں ورنہ وہاں پے سوس سے زیادہ خوبصورت قدرتی مناظر ہیں‘‘۔
میں پہلے پاکستان کے بارے تعریف سن کے خوش ہواکرتا تھا لیکن جب سے رضا سے حقائق کا پتا چلا تھا دل کھٹا ہوگیا تھا۔میں نے اس سے پوچھا، ’’تمہیں پاکستان کا کون سا علاقہ زیادہ پسند آیا‘‘۔
کہنے لگی، ’’پاکستان کے شمالی علاقہ جات بہت خوبصورت ہیں۔ لیکن مجھے سب سے زیادہ حیرت شندور پاس کو دیکھ کے ہوئی۔یہ جگہ دنیا کا عجوبہ ہے۔ میں وہاں پولو کا میچ دیکھنے گئی تھی‘‘۔
ابھی ہمارے گفتگو جاری تھی کہ اسے اس کے ساتھیوں نے بلا لیا۔ کہنے لگی، ’’میں ان سب کی انچارج ہوں۔میں نے انہیں بتانا ہے کے آگے کیا کرنا ہے۔ تم اگر اپنا ای میل یا موبائیل نمبر مجھے دے دو تو گپ شپ رہے گی‘‘۔
میں نے کہا، ’‘موبائیل فون تو نہیں میری ای میل آئی ڈی ہے‘‘۔
میں نے کاغذ پے اس کو اپنی ای میل آئی ڈی لکھ کردی۔ اپنا نام لکھ کے دیا اس کو خدا حافظ کہااور گھر چلا آیا۔
بلبیر روز کام پے جاتا اور واپسی پے کچھ نا کچھ کھانے کو لے آیا کرتا۔ میں رات کو بھی وہی کھا لیا کرتا اور دن کو بھی اسی سے گزارا چلا لیا کرتا ۔مجھے صرف ناشتہ تیار کرنا پڑتا۔ میں نے بلبیر کو کئی دفعہ منع بھی کیا لیکن وہ میری بات سنتا ہی نہیں تھا۔
میں جب ازیل ہائم پہنچاتو رات کا بچا کھچا کھانا گرم کرکے کھایا۔ جاکے اپنے کمرے سوگیا۔ شام کو جب میری آنکھ کھلی تو مجھے ہاوس ماسٹر نے بتایا کے تم سے کوئی ملنے آیا ہے۔ باہر جاکے دیکھا تو گلبدین بہت خوبصورت چشمہ لگائے ازیل ہائم کے چھوٹے سے باغیچے میں بیٹھا بیئر پی رہا تھا۔ اس کے ساتھ کرپال اور شاہ جی بھی تھے۔ میں نے کہا، ’’تم لوگ کب آئے ‘‘۔
گلبدین کہنے لگا، ’ابھی آئے ہیں۔ ہم نے ہاوس ماسٹر سے پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ تم سوئے ہوئے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں کوئی کام ہی نہیں تھا دن کو لائبریری گیا تھا واپسی پے کھانا کھا کے سوگیا‘‘۔
گلبدین بولا، ’’میری آنکھ بالکل ٹھیک ہوگئی ہے۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرنے آیا ہوں اور میرا بھائی جو زیورک رہتا ہے اس نے میرے ٹھیک ہونے کی خوشی میں دعوت رکھی ہے۔ تم کو بھی بلایا ہے‘‘۔
میں نے کہا ،’’میں نے ایسا کیا کیا ہے جو مجھے بھی بلایا ہے‘‘۔
گلبدین بولا، ’’تم نے وہ کیا ہے جو میرا بھائی دوسال میں نہیں کرسکا۔ مجھے سوس آئے ہوئے دوسال ہوچکے ہیں۔ میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے سے پہلے اسی کے پاس رہتا تھا۔ میں اس سے روز کہتا تھا مجھے ہسپتال لے جاؤ لیکن وہ مجھے ہمیشہ ٹالتا رہتا تھا۔جب میں ازیل ہائم میں آیا تو یہاں آنے کے بعد بھی وہ میرے ساتھ
بہانے بناتا رہا۔ میں تو سوس آیا ہی علاج کروانے تھا۔تم نے ہاوس ماسٹر سے بات کی، ونٹرتھور کے ڈاکٹر سے بات کی۔اب میں ٹھیک ہوں ،میں دونوں آنکھوں سے دیکھ سکتا ہوں صرف تمہاری وجہ سے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو میرا فرض تھا‘‘
وہ کہنے لگا، ’’تو اس کا مطلب ہے تم آؤ گے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کب ہے دعوت ‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’دعوت تو ستمبر میں ہے۔ لیکن ہم لوگ تمہیں بتانے ابھی آگئے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ضرور آؤں گا‘‘۔
وہ بولا، ’’تمہیں پتا ہے مقصود کا کیاحال ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’کون مقصود‘‘۔
وہ بولا، ’’وہی مقصود جس کے ساتھ تم جھیل کے کنارے جایا کرتے تھے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں یاد آیا۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی بھی ہوتی تھی‘‘۔
’’ہاں وہی ،ا س نے شادی کرلی ہے۔ اسی لڑکی کے ساتھ ۔دومہینوں میں اس نے خوب رنگ روپ نکالا ہے۔ موٹا تازہ ہوگیا ہے۔ کام بھی کرتا۔اس نے زیورک میں اپنا فلیٹ لے لیا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔تم بھی کوئی لڑکی ڈھونڈ لو‘‘۔
کہنے لگا، ’’میں شادی شد ہ ہوں۔میرے دو بچے ہیں۔ یہاں کوئی انتظام ہوگیا تو ان کو بھی بلالوں گا ۔شادی کی بھی تو کاغذوں کے لیے کروں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’اپنے بھائی سے بات کرو نا،وہ کسی نا کسی لڑکی کو جانتا ہوگا‘‘۔
’’ایسا نہیں ہوسکتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’چھوڑوں ان باتوں کو میں تم لوگوں کے لیئے چائے بناکے لاتا ہوں‘‘۔
چائے کے دوران مختلف موضوعات پے باتیں ہوتی رہیں۔ میں کرپال کو سکھوں کے لطیفے سنائے اور کرپال نے پنجابیوں کے لطیفے سنائے۔ شاہ صاحب اور گلبدین ہمارے اس لطیفوں کے ملاکھڑے سے لطف اندوز ہوتے رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے جیسے دن گزر رہے تھے میرا دل ازیل ہائم سے اچاٹ ہورہا تھا۔ اس دوران ایک سری لنکن لڑکا بھی آگیا تھا۔ وہ ہر وقت شراب کے نشے میں رہتا۔ اس کو جرمن زبان پے عبور حاصل تھا۔ وہ سارا دن سوس حکومت کو گالیاں دیتا رہتا۔ کبھی کپڑے اتار کے ننگ دھڑنگ میز پے چڑھ کے ناچنا شروع کردیتا۔ کبھی ہنستا، کبھی رونے لگتا۔ ہمیں یہی ڈر تھا کہ جس دن ہمیں خیرات ملے گے ،میں سوشل کو خیرات ہی کہتا تھا۔ اس دن کوئی نا کوئی ڈرامہ ضرور ہوگا ۔ ایسا ہی ہوا۔ جمعرات کے دن ہم سارے ان چار مستطیل میزوں کے ارد گرد کرسیاں سجائے بیٹھے تھے۔ کچھ نئے لوگ تھے کچھ پرانے تھے۔ کیونکہ مجھے یہاں رہتے ہوئے قریباًدو ماہ ہوچلے تھے۔ ہمیشہ کی طرح کبھی شیفر بولتا اور کبھی شنائیڈر بولتا۔ جیسے ہی سوشل کا ٹوکن دیا گیا تو اس سری لنکن نے شور شروع کردیا۔ ہم سارے اسے حیرت سے دیکھنے لگے۔ وہ جرمن زبان میں کچھ کہ رہا تھا۔ کبھی وہ بولتا اور کبھی شنائیڈر ۔بات اتنی بڑھی کہ شنائیڈر کو پولیس بلانی پڑی کیونکہ صاف لگ رہا تھا کہ دونوں میں تو تو میں میں ہورہی ہے گوکہ سوائے شیفر کے کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ دونوں کیا گفتگو کررہے ہیں ۔کس بات پے جھگڑا ہورہا ہے۔
خیر اس کو قابو کرنامشکل ہو گیا۔ پولیس آئی اور انہوں نے اس کو قابو کیا اوراپنے ساتھ لے گئے۔ شنائیڈر بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ میں بڑاحیران ہوا کہ ماجرا کیا۔
میں نے شیفر سے پوچھا، ’’بات کیا ہے‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’اس سری لنکن لڑکے نے پینتالیس سوس فرانک لینے سے انکار کردیا تھا اور وہ بحث کررہا تھا کہ یہ رقم تو ایک دن کے لیئے بھی تھوڑی ہے اور تم لوگ یہ رقم سات دن کے لیئے دیتے ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہاراکیا خیال ہے‘‘
وہ کہنے لگا، ’’میں تم سے اتفاق کرتاہوں لیکن بہت ساری چیزیں ہیں، بہت سارے مسائل ہیں۔ ہم لوگ تو صرف ملازم ہیں۔جیسے ہمیں کہا جاتا ہے ہم ویسے کرتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’چھوڑو پیسوں کو اس سری لنکن کے بارے میں بتاؤ،اس کا اصل مسئلہ کیا ہے‘‘۔
’’یہ جب یہاں آیا تو میں نے اس کی فائل پڑھی تھی۔ جو میں نے پڑھا وہ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ یہ دس سال پہلے سوس آیا تھا ۔اس نے جرمن زبان پے عبور حاصل کیا۔ پھر اس کو سری لنکا واپس جانا پڑا لیکن سیاسی پناہ کے بڑے دفتر کی بیوروکریسی عجیب و غریب ہے۔ انہوں نے اس کا پاسپورٹ نہ دیا اور وہاں سری لنکا اس کے خاندان سارے بندوں کو قتل کردیا گیا۔ بعد میں اس کا پاسپورٹ دے کے اس کو ڈیپورٹ کردیا گیا۔ یہ وہاں رہ کر کیا کرتا ۔پھر کسی نا کسی طریقے سے واپس آگیا۔ یہ ذہنی مریض ہے۔ یہ پہلے ہسپتال میں تھا ۔جب تھوڑا ٹھیک ہوا تو انہوں نے اسے یہاں بھیج دیا۔ آج پھر اسے دورہ پڑا ۔اس کے علاوہ یہ شراب بہت پیتا ہے‘‘۔
’’اسے جیل میں بند کردیں گے‘‘۔
’’نہیں اسے ایک دو دن رکھ کے واپس یہاں بھیج دیں گے‘‘۔
’’ویسے کام کی اجازت کب تک مل جاتی ہے۔ بندے کا ذہن مصروف رہتا اور الٹی سیدھی حرکتیں بھی نہیں کرتا‘‘۔
’’کام کی اجازت چھ ماہ بعد ملتی ہے یا جس کا کیس پاس ہوجائے اس کو کام کی اجازت ملتی ہے‘‘۔
’’مجھے دو ماہ ہوچلے ہیں۔اس کا مطلب ہے مجھے چار ماہ اور گزارنے پڑیں گے‘‘۔
شیفر بولا، ’’مجھے تمہیں بتانا یاد نہیں رہا تمہارا پارسل آیا ۔انیتا سے لے لینا‘‘۔
’’کہاں سے آیا ہے‘‘۔
’’میرا خیال تمہارا انٹرویو ہے اس کے بارے میں کیونکہ پارسل پے سیاسی پناہ کے بڑے دفتر کا ایڈریس ہے‘‘۔
’’یہ بڑا دفتر کہاں ہے‘‘۔
’’زیورک میں ہے۔ اس میں سارا کچھ لکھا ہوگا، کب انٹرویو ‘‘۔
’’اس انٹرویو کے بعد کیا ہوگا‘‘۔
’’اس کے بعد ہوسکتا ہے تمہاری کرائس بدل جائے کیونکہ یہاں تم تین ماہ سے زیادہ نہیں رہ سکتے ‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے میں یہاں مہمان ہوں‘‘۔
’’کہہ سکتے ہیں‘‘۔
’’مجھے کہاں بھیجیں گے‘‘۔
’’جہاں جگہ خالی ہوئی۔ ویسے تمہیں زیورک کے آس پاس ہی بھیجیں گے۔خیر تم انیتا سے پارسل لے لینا ،مجھے اب اجازت دو‘‘۔اس نے جرمن زبان میں چاؤ چْس کہا اور چلا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment