Sunday, June 9, 2013

حاجی چٹا، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


حاجی چٹا

حاجی چٹا ،آپ یہ نام سن کر حیران ہو گئے ہوں گے۔ حاجی اور چٹا۔ حاجی تو اس کا نام اس لیئے تھا کہ اس نے ایک نہیں کئی بار حج کرنے کا شرف حاصل کیا تھا۔ چٹا اس لیئے کیونکہ وہ ہمیشہ سفید شلوار قمیص زیب تن کیا کرتا تھا۔ بڑا عجیب نام تھا۔چٹا لفظ چونکہ پنجابی میں سفید رنگ کے لیئے استعمال ہوتا ہے اس لیئے حج اور سفید شلوار قمیص کی وجہ سے اس کا نام حاجی چٹا پڑگیا حالانکہ اس کا اصل نام اللہ بخش تھا۔ اگر لوگ اسے حاجی اللہ بخش کے نام سے پکارتے تو زیادہ مناسب ہوتا لیکن وہ حاجی چٹا کے نام سے ہی جانا جاتا تھا۔ جب پہلی دفعہ کوئی اس کا نام سنتا تو یہی سمجھتا شاید بہت گورا رنگ ہوگا یا برص (پھل بہری) کی وجہ سے اس کے جسم پے سفید سفید داغ ہوں گے۔اس لیئے لوگ اسے چٹا کہتے ہوں گے۔لیکن ایسا بالکل نہیں تھاکیونکہ ا س کا رنگ گندمی تھا۔حاجی شکل و صورت کا خوبصورت تھا۔عمر یہی کوئی ستر سال ہوگی یا تھوڑی کم لیکن اچھی خوراک اور چاک و چوبند رہنے کی وجہ سے اپنی عمر کے حساب سے کم عمر دکھائی دیتا تھا میرا مطلب ہے بہت بوڑھا نہیں لگتا تھا۔ قد درمیانہ تھا ۔ آنکھیں چھوٹی چھوٹی لیکن بڑی چمکدار تھیں۔ عمر کا اتنا حصہ گزارنے کی وجہ سے آنکھوں نے نیچے کالے کالے نشان پڑچکے تھے۔ ناک تھوڑی سی چپٹی تھی لیکن بری نہیں لگتی تھی۔ سفید داڑھی جو کہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ حجام سے ٹھیک کرواتا تھا۔ اس کی تراش خراش کرواتا تھا۔ لبیں کاٹتا تھا اس لیئے ناک کے بال باہر کو جھانکنے لگتے لیکن جب بھی اس کی نظر پڑتی وہ حجام سے کہتا انہیں یا کاٹ دو یا موچنے سے موچ دو۔موچنے سے چونکہ درد ہوتا تھا اور کبھی کبھی آنکھوں سے (آپ انہیں آنسوں تو نہیں کہہ سکتے) پانی بھی نکل آتا اوراس کے ساتھ ساتھ ناک کے اندر کوئی نا کوئی پھنسی بھی نکل آتی جو بڑی تکلیف دہ ہوتی اس لیئے زیادہ تر حجام ایک خاص قسم کی کینچی ہی استعمال کیا کرتا، میرا مطلب ہے ناک کے بالوں کے لیئے۔ سر کے بال مہینے دو مہینے میں منڈوادیا کرتا۔وہ تھے ہی کتنے۔جب بڑھتے تو سر کے کناروں پے جھالر سی بن جاتی لیکن وہ اس کی نوبت ہی نہ آنے دیتا۔ عام طور پہ اس کا سر ڈھکا رہتا لیکن کبھی کبھی خارش کرنے کے لیئے یا سر کو ہوا لگوانے کے لیئے وہ سر سے یہ سفید کپڑا (جو وہ باقاعدگی سے باندھا کرتا تھا) ہٹا دیا کرتا۔ماتھا اس کا چوڑا تھا لیکن اس پے تین بڑی بڑی لائنیں نمایاں طور پہ نظر آتی تھیں۔ ہاتھ اس کے پھولے پھولے اور ان پے بڑھاپے کی وجہ سے پھولی پھولی رگیں بھی نظر آتیں۔ حاجی چٹا ورکشاپی محلے کا رہنے والا تھا اور ا س کی سبزی منڈی کے پاس چاولوں کی آڑہت تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دالیں اورآٹا بھی ذخیرہ کیا کرتا تھا لیکن ذخیرہ اندوزی کے لیئے نہیں بلکہ بیچنے کے لیئے ۔اس کا مال آتا اور بک جاتا ۔وہ صبح سویرے اٹھتا۔ اپنے بیٹوں کو بھی اٹھاتا۔یہ سب فجر کی نماز باجماعت پڑھتے تھے۔ آج سے نہیں بلکہ اس بات کو کافی عرصہ گزر چکا تھا۔ اب تو اس کے ماتھے پے کالے رنگ کا نشان بھی پڑچکا تھا۔ جسے محراب کہتے ہیں۔اس کے الٹے پاؤں پے بالکل ٹخنے کے اوپر بھی اس طرح کا نشان پڑچکا تھا لیکن میں یہ نہیں جانتا کہ اس نشان کو اردو میں کیا کہتے ہیں۔ویسے تو سارے محلے والے اسے حاجی صاحب ہی کہہ کر پکارتے کیونکہ سارے محلے والوں کو اس سے کبھی نا کبھی کوئی نا کوئی کام ضرور آن پڑتا لیکن اس کی غیرموجودگی میں سارے اسے حاجی چٹا ہی کہہ کر بلاتے کیونکہ اس محلے میں اور بھی حاجی تھے۔ جب کبھی ذکر ہوتا، کسی بھی حاجی کا تو صاحب کا اضافہ خواہ مخواہ کردیا جاتا۔پھر حاجی صاحب ، لیکن کون سے، تو لوگ حاجی اللہ بخش کے بجائے حاجی چٹا کہہ کر بلاتے۔ خود حاجی اللہ بخش بھی اس بات سے واقف تھا کہ لوگ اس کی عدم موجودگی میں اسے حاجی چٹا کہہ کر بلاتے ہیں۔اسے کوئی اعتراض نہیں تھا کم از کم لوگوں کو اتنا تو لحاظ تھا ۔ورنہ جس محلے یہ مکین تھا بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ یہاں کے پرانے مکینوں میں سے ایک تھا۔وہاں کسی کا لحاظ نہیں کیا جاتا تھا۔ ہر کسی کا کوئی نا کوئی نام رکھا گیا تھا۔ اس طرح کی تمام باتوں کا منبع و ماخذ مودی کی دوکان تھی۔ جہاں صبح سے لے کر شام تک مختلف قسم کے لوگ آتے ۔ بچوں سے لے کر بوڑھے تک، مرد عورتیں، بچیاں، لڑکیاں،جوان حتیٰ کہ مُخنث(کُھسرے)بھی ۔ مودی کی کریانے کی دوکان ایک طرح کا ایسا سٹور تھا ۔جہاں ہر طرح کی چیز مل جاتی تھی۔ صبح صبح سکول کے بچے کچھ ناکچھ لینے آتے۔ دودھ ، دہی، انڈے، آٹا، چینی، دالیں، ٹوتھ پیسٹ، دنداسہ (دانتن)، ڈنٹونک کیا نہیں تھا اس کے پاس۔ سگرٹ ، پان، ٹھنڈی بوتلیں، گرم قہوہ، پکوڑے، سموسے، برگر۔ اس کا بس چلتا تو وہ جوتے اور کپڑے بھی رکھ لیتا۔ بنیانے، انڈرویئر اور جرابیں تو وہ رکھتا ہی تھا اس کے ساتھ ساتھ پراندے، انگیاء، بال صفا ؤپاؤڈر، کالا کولا، بجن، خضاب، سوئی دھاگہ اور بٹن بھی۔ اب اس نے این رینچ کریم اور ای یو کریم بھی رکھنی شروع کردی تھی۔
اس کی دوکان سے کوئی گاہک خالی نہیں گیا۔ اس کی دوکان پے تمام محلے کی کہانیاں سنائی جاتیں۔کچھ کہانیاں اسے لوگ آکر سناتے اور کچھ وہ خود سے ہی گھڑہ لیا کرتا۔ اس کا کام ہوتا صبح سویرے دوکان کھولنا۔ پھر چیزیں وغیرہ ٹھیک ٹھاک کرکے، سامان وغیرہ اپنی اپنی جگہ رکھ کے غلے (گلے) پے ملازم کو بٹھاتا اور پھر سامنے والے ریسٹوران دودھ پتی منگواتا، ساتھ مکھ لگا بن(بند)اور ایک عدد فرائی انڈہ۔ وہ ناشتہ بھی کرتا اور اخبار کی سرخیاں بھی پڑھتا جاتا۔ اس کام سے فارغ ہوکے وہ ایک کونے میں بیٹھ جاتا۔کوئی آتا کوئی جاتا اور وہ اس کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتا اورساتھ ساتھ سکول جانے والی بچیوں کو بھی تاڑتا۔ کس کا ڈوپٹہ سینے پے ہے، کسی کی قمیص تنگ ہے۔ کون سی ان دنوں بیمار ہے۔ وہ چال سے اندازہ لگا لیا کرتا۔ ان میں سکول کی بچیاں، کالج جانے والی لڑکیاں۔ چند ایک ایسی بھی تھیں جو دفتروں میں کام کرتی تھیں اور کچھ استانیاں تھیں۔وہ سب کی خبر رکھتا۔ اس کی دوکان پے حاجی چٹا بھی جایا کرتا۔ وہ حاجی چٹے کو محلے بھر کی خبریں سنایا کرتا۔ کون سی عورت کو بچہ ہونے والا ہے۔
کس لڑکی کا چکر کس لڑکے کے ساتھ چل رہا ہے کون سا لڑکا آج کل غلط راستے پے چل رہا ہے۔ اس نے ایسے لڑکوں کے لیئے ایک خاص لفظ رکھا ہوا تھا جو ہم جنس پرستی کا شکار تھے۔ یعنی کچے روٹ پے چلنے والے لڑکے۔ جب حاجی صاحب نہ ہوتے تو حاجی صاحب کے بارے میں باتیں کیا کرتا۔سارا محلہ یہ بات جانتا تھا کہ حاجی چٹا، جوان لڑکوں کا شوقین ہے۔وہ لوطی نہیں تھا بلکہ اغلامی تھا۔ حاجی چٹے کو یہ بیماری (لوگ اسے بیماری کہتے ہیں لیکن یہ لت یا چسکہ بھی ہوسکتا ہے) بہت عرصے سے تھی۔ اس کے بیٹے ، بیٹیاں شادی شدہ تھے۔ وہ نانا ، دادا بن چکا تھا۔ حاجی ،نمازی، پرہیزگار تھا لیکن یہ عیب اس میں تھا۔ جب بھی کوئی جوان لڑکا اسے ملتا وہ اسے کسی نا کسی بہانے اپنی بیٹھک میں لے جاتا۔ امیر آدمی تھا۔محلے میں اس کے کئی مکان تھے۔ کچھ میں اس کے بچے رہتے تھے اور کچھ کا وہ کرایہ وصول کیا کرتا تھا۔ اس لیئے بیٹھک یا کمرے کی اسے کبھی پریشانی نہ ہوئی۔ اس جوان سے اپنی ضرورت پوری کرتا ، باوجود انکار کے اُسے کچھ رقم ضرور دیا کرتا۔اُسے کہتا ، کچھ کھا پی لینا۔جان بنانا۔ وہ جانتا تھا کہ مودی کی دوکا ن پے اس کے قصے چھڑتے ہیں لیکن کبھی کسی نے منہ نہ کھولا۔ اُڑتے اُڑتے باتیں بچوں تک پہنچ چکی تھیں لیکن وہ کیا کرسکتے تھے۔ساری جائیداد، مکان اور کاروبار حاجی چٹے کے نام تھا۔
***************
ان دنوں ورکشاپی محلے میں ایک نیا نوجوان وارد ہوا تھا۔ وہ لاہور، بلال گنج میں خراد کا کام سیکھا کرتا تھا۔ اس کے نام سے تو کوئی نہیں واقف تھا لیکن سارے اسے قاضی کہہ کر پکارتے ۔ ناک نقشہ بہت اچھا تھا اور رنگ بھی گورا چٹا۔ خراد کا کام مکمل طور پہ جانتا تھا۔ اپنے کام کا استاد تھا۔چونکہ یہاں پنڈی میں اس کی والدہ اکیلی رہتی تھیں اس لیئے واپس آگیا۔ بہن کی شادی ہوچکی تھی۔اب ماں کو قاضی کی فکر تھی۔ قاضییہاں پنڈی میں ہی سٹی صدر روڈ پے ایک بہت بڑی خراد کی دوکان پے کام کرتا تھا،پیسے بھی اچھے ملتے تھے اور کام والی جگہ بڑا اچھا نام تھا۔ ان لوگوں کو ورکشاپی محلے میں زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا لیکن قاضی
چند ہی دنوں میں بہت مشہور ہوگیا۔ ضلع جگت میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ اس کی دوستی مودی سے ہوگئی۔جہاں وہ اپنا چھٹی کا دن گزارا کرتا۔ مودی بڑی جلدی بھانپ گیا کہ قاضی بہت تیز بندا ہے۔ محنتی ہے، چرب زبان بھی ہے۔ وہ کسی کا لحاظ نہ کرتا۔ چونکہ مودی نے پورے محلے کی کہانیاں اسے سنادی تھیں اس لیئے قاضی کے لیئے کسی کو بھی زیر کرنا مشکل نہ تھا۔ اب تو یہ حالت تھی کہ لوگ اس سے بات کرنے سے پہلے سوچتے تھے کہ نہ جانے قاضی کیا جواب دے گا۔ قاضی چونکہ لاہور کا پانی پی چکا تھا اس لیئے وہ ضرورت سے زیادہ جگت بازی سے کام لیتا۔ اس میں لاہور شہر کا کوئی قصور نہیں تھا کچھ اس کی طبیعت ویسے ہی ہنسی مزاح اور طنز والی تھی کچھ لاہور کا رنگ اور کچھ وہ جس ماحول میں رہ کر آیا تھا اس کا اثر تھا۔ قاضی لباس کے معاملے میں بڑا نفیس تھا۔ وہ ہمیشہ بہترین شلوار قمیص پہنا کرتا۔ ویسے تو وہ اپنے کپڑے درزی سے ہی سلوایا کرتا لیکن کبھی کبھی ٹی جیز کے شلوار بھی خرید لیا کرتا۔ پتلون پہننا اسے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن خلافِ توقع وہ کبھی کبھی پتلون پہن لیا کرتا۔ قاضی کو پان اور سگرٹ کی عادت تھی۔ یہ دونوں چیزیں مودی کی دوکان پے دستیاب تھیں۔ اُسے مودی نے تو نہیں لیکن اِدھر اُدھر سے پتا چلا کہ حاجی چٹا اغلامی ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ اتنا نیک بزرگ، پانچ وقت کا نمازی، حاجی اور یہ کام۔ قاضی کی طبیعت میں طنز و مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔وہ اشارے کنائے میں حاجی صاحب کو بھی جگت لگا جایا کرتا(جسے اردو میں بھپتی کسنا کہتے ہیں)حاجی صاحب قاضی کی بات سمجھ جایا کرتے لیکن جانتے ہوئے بھی انجان بنتے اور ایسے ظاہر کرتے جیسے وہ ان کے بارے میں نہیں بلکہ کسی اور کے بارے میں بات کررہا ہے۔ ایک دو معزز اشخاص نے قاضی کو سمجھایا بھی لیکن قاضی ان کی بات پلے نہ باندھ سکا اور وہ اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ حاجی صاحب گھاگ آدمی تھے کبھی بھی اس کی ذومعنی گفتگو کا شکار نہ ہوتے لیکن آخر کب تک۔ ایک دن حاجی صاحب نے مودی کو کہہ دیا کہ یہ لڑکا آپے سے باہر ہوتا جارہا ہے۔ کسی دن اس کو منہ کی کھانی پڑے گی ۔مودی کہتا، ’’حاجی صاحب آپ کو کیالینا دینا، بدتمیز آدمی ہے۔سارا دن کام کرتا
ہے۔چھٹی والے دن میرے پاس آجاتا ہے۔ کیا کروں میرا تو گاہک ہے۔میں کچھ نہیں کہتا، میرا مشورہ تو یہی ہے کہ آپ اس کے منہ نہ لگیں‘‘۔ حاجی صاحب نے کہا، ’’میں تو اس کے منہ نہ لگوں گا لیکن وہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہے گا‘‘۔ حاجی صاحب نے اتنا کہا اور اجازت طلب کی۔
****************
قاضی ، مودی کی دوکان پے ایک ٹانگ اس کے لکڑی کے تختے پے رکھے سگرٹ پی رہا تھا اور ساتھ ساتھ کچھ چبا بھی رہا تھادھوئے کے مرغولے ہوا میں اڑ اڑ کے فضاء کو آلودہ کررہے تھے جو کہ پہلے سے ہی آلودہ تھی اور ہے۔ اس کی کالے رنگ کی گرہ والی جوتی(ایسی چپل جس کے ٹخنے والی جگہ چمڑے کی گرہ لگتی ہوئی ہوتی ہے) لَش لَش کررہی تھی۔پاؤں لکڑی کے تختے پے رکھنے کی وجہ سے اس کی شلوار اٹھ گئی تھی اور اس کی گوری گوری ٹانگ پے کالے کالے بال بہت بھلے لگ رہے تھے۔ وہ ایسا جان بوجھ کر کیا کرتا تانکہ دوکان کے پاس سے گزرنے والی لڑکیاں اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوں۔ کبھی کبھی وہ گانا بھی گُنگُنا دیا کرتا۔ سونک میوزک کمپنی والے ہر ماہ دو ماہ بعد ایک نئی اور نئے گانوں کی کیسٹ جاری کیا کرتے ہیں۔ جس میں انڈیا کی کچھ ایسی فلموں کے گانے ہوتے ہیں جو ریلیز ہوچکی ہوتی ہیں اور کچھ نے ابھی ریلیز ہونا ہوتا ہے۔قاضی ہمیشہ سونک کی یہ ’’نائس اینڈ نیو سونگز‘‘ والی کیسٹ ضرور خریدا کرتا اور مودی سے کہا کرتا کہ اس کی سِیل تم ہی کھولو۔ آج اس نے مودی کے ساتھ ایک عجیب و غریب ذکر چھیڑ دیا۔ کہنے لگا، ’’مودی جی آجکل میرا ایک دوست یورپ سے آیا ہوا ہے۔ وہ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں رہتا ہے۔وہ بتا رہا تھا وہاں بہت سے امیر بابے (بوڑھے) اغلامی کا شکار ہیں۔ اغلامی کا لفظ تو نہیں استعمال کرتا تھا بلکہ وہ کہتا تھا وہاں بہت سارے ممیثیئے ہوتے ہیں(یہ پنجابی یا پوٹھواری کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے کسی بھی شخص کو لواطت کا شوق ہو)مزے بھی لو اور پیسے بھی کماؤ‘‘۔ مودی اس کا اشارہ ایک دم سمجھ گیا۔ ابھی مودی نے کچھ بولنا ہی چاہا کہ قاضی پھر بول پڑا، ’’اب تو مودی جی پاکستان بھی یورپ سے کسی طرح
پیچھے نہیں۔ یہاں بھی امیر بابے ممیثیئے ہیں۔مزے بھی کرواتے ہیں اور پیسے بھی دیتے ہیں۔ کبھی بجلی ٹھیک کروانے کے بہانے گھر لے جاتے ہیں کبھی گیس کے بہانے اور کبھی ایئرکنڈیشنر کے بہانے‘‘۔ مودی اس کی باتیں مزے لے لے کر سنتا ۔ مودی خود بھی حاجی اللہ بخش کے بارے میں ایسا ہی سوچتا تھا لیکن ایک تو اپنے کاروبار کی وجہ سے ایسی کوئی بات نہ کرتا دوسرا وہ ڈرپوک بھی تھا۔ بس چھوٹی چھوٹی رپورٹیں اکھٹی کرتا رہتا اور آہستہ آہستہ کرکے ریلیز کرتا رہتا۔کسی کو ناگوار بھی نہ گزرتیں لیکن قاضی منہ پھٹ تھا، جو منہ میں آتا کہہ دیتا۔ اسے کسی کا نہ تو ڈر تھا نہ ہی خوف۔
**************
ایک دن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مودی کی دوکان پے قاضی اور حاجی اللہ بخش عرف حاجی چٹا کی مڈھ بھیڑہوگئی۔ قاضی نے ان کی عمر کا لحاظ نہ کرتے ہوئے کچھ ذو معنی باتیں کہہ دیں۔ جو حاجی صاحب کو بہت ناگوار گزریں۔ اُ س نے اسی وقت دل میں ٹھان لی کہ میں اس لڑکے کو سبق سکھا ؤں گا۔ وہ جانتا تھاکہ وہ عیبی ہیں۔اسے یہ بیماری یا عادت ہے لیکن حاجی چٹا نے ہمیشہ محلے کے ہر فرد کی مدد کی تھی۔ اس کی ذات سے کبھی کسی کو نقصان نہ پہنچا تھا۔ قاضی ، اغلامی سے (یعنی ممیثیئے) سے نجات حاصل کرنے کے طریقے بتارہا تھا۔ قاضی یہی چاہتا کہ حاجی صاحب اسے بھی کسی دن اپنے ساتھ لیکر جائیں اور پھر وہ حاجی صاحب کو مزید بدنام کرے۔ کیونکہ اب قاضی کھلے عام کہتا پھرتا تھا کہ حاجی چٹا ممیثیاء(اغلامی) ہے۔ وہ خوبصورت اور جوان لڑکوں کو کسی نا کسی بہانے گھر لے جاتا ہے ۔ وہ مزے لیتا بھی ہے اور مزے دیتا بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی جیب بھی گرم کرتا ہے۔مودی تماش بین تھا۔ وہ تماشہ دیکھنا چاہتا تھا کہ کسی طرح قاضی کو حاجی صاحب لے کر جائیں۔ اب اسے پکا یقین تھا کہ حاجی صاحب کو وہ بے نقاب کردے گا۔
*************
قاضی ،حاجی صاحب کے کمرے میں موجود تھا۔ عام طور پہ اغلامی (ممیثیئے) بڑے ڈرپوک ہوتے ہیں لیکن حاجی صاحب بڑے دلیر آدمی تھے۔ انہوں نے بڑی آہستگی سے قاضی کو کہا،’’دیکھو بیٹا ،میں نے سنا ہے کہ تم میری بیماری کا علاج جانتے ہو۔ آج میں چاہتا ہوں کہ تم میری اس بیماری کا علاج کرو۔ تانکہ یہ بیماری ہمیشہ کے لیئے ختم ہوجائے۔ کیا تم اس کام میں میری مدد کرو گے‘‘۔؟ قاضی نے کہا، ’’کیوں نہیں حاجی صاحب یہ تو میرا فرض بنتا ہے‘‘۔ ’’چلو پھر شلوار اتارو‘‘۔’’جی حاجی صاحب ‘‘۔’’ہاں ہاں شلوار اتارو۔مجھے اس وقت بڑی طلب ہورہی ہے۔ مجھے کوئی چیز کاٹ رہی ہے۔ جب تک تم میری تکلیف رفع نہیں کرو گے میں بے چین رہونگا۔‘‘۔ مودی نے شلوار اتار دی اور اس کا یہی خیال تھا کہ اب حاجی صاحب بھی شلوار اتار کے ،دوسری طرف منہ پھیر کے کھڑے ہوجائیں گے اور وہ ان کی طلب پوری کرے گا۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔اس نے جیسے ہی شلوار اتاری، حاجی صاحب نے ریوالور اس کی کن پٹی پے رکھا دیا اور گرج کے کہنے لگے ’’ قمیص بھی اتاردو۔اگر ذرا سی بھی گڑبڑ کی تو چھ کی چھ گولیاں کھوپڑی میں اتاردونگا اور پولیس سے کہوں گا کہ میرے گھر چوری کرنے آیا تھا۔ وہ دیکھو سامنے تجوری ، اس میں کروڑوں روپیہ ہے‘‘۔ قاضی نے قمیص بھی اتاردی۔ حاجی صاحب نے کہا، ’’اب منہ دوسری طرف کرو‘‘۔ قاضی ان کے پاؤں میں گر گیا ۔’’حاجی صاحب معاف کردیں‘‘۔ انہوں نے کہا، ’’خبردار ! کسی قسم کی چالاکی کرنے کی کوشش نہ کرنا، منہ موڑ کے کھڑے ہوجاؤ‘‘۔ اس نے ایسا ہی کیا ۔ حاجی صاحب نے اپنی شلوار کھول کے ذرا سی نیچے کوسرکائی اور قاضی کو کوئی گرم گرم چیز محسوس ہوئی۔ اسی اثناء حاجی صاحب بولے، ’’مودی ذرا جلدی سے آکر کے ایک فوٹو تو بناؤ۔ ایک دم فلیش لائٹ چلی اور کیمرے کی اپنی بھی آواز سنائی دی۔ حاجی صاحب نے قاضی کو کہا، ’’بیٹا اب جلدی سے کپڑے پہنو۔اب تمہیں اجازت ہے ۔تم جاکے لوگوں کو وہی کہو جو دوسرے کہتے ہیں۔
اس کے بعد مودی کی دوکان پے قاضی کبھی نظر نہ آیا۔
**************
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)
started 29/09/2006 completed 02/10/2006

No comments:

Post a Comment