Sunday, June 9, 2013

اِ بِ لِ، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ

اِ بِ لِ

اِ بِ لِ، فِ لِ مِ،اِ بِ لِ، فِ لِ مِ۔امجد اپنے دیگر ہم جماعتوں کی طرح اپنے جسم کو اس انداز میں حرکت دے رہا تھاجیسے و ہ اپنا سبق یاد کرنے میں محو ہو۔وہ اپنے ہم جماعتوں میں سب سے خوبصورت اور گول مٹول بچہ تھا۔ مسجد کے صحن میں عصر کی نماز کے بعد بچوں کی آمد شروع ہوجاتی ۔ مولوی صاحب کسی دیہات کے رہنے والے تھے۔ گْو اْن کی عمر اتنی زیادہ نہ تھی۔مولوی صاحب قرأن حافظ تھے اور ابھی تک کنوارے تھے۔ پرانے وقتوں میں قرأن حافظ کی عزت ہوا کرتی تھی لیکن اب قرأن حافظ کے لیئے دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہے، شادی تو بہت دور کی بات ہے۔
مولوی صاحب میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو کہ ایک جوان مرد میں ہونی چاہئیں لیکن قرأن حفظ کرنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی بھی پروفیشنل کوالیفیکیشن
(proffessional qualification)
نہ تھی جس کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ کوئی سرکاری یا نیم سرکاری نوکری حاصل کرسکتے۔ سوائے اس کے کہ وہ مسجد میں نماز پڑھایا کرتے، رمضان المبارک میں نمازِ تراویح، بچوں کو دینی تعلیم تو کیا بس قرأن پڑھا دینا یہی ان کا کام تھا۔
عام طور پہ یہ تاثر ہے کہ قرأن حفظ کرنے والے کی سات پشتیں جنت میں جائیں گی یا جاتی ہیں۔ لیکن پیٹ روٹی مانگتا ہے۔ جسم کپڑے اور سر چھپانے کی جگہ بھی ضروری چیز ہے۔ اور جنسی تلذذ جو کہ ہر نوجوان اور جوان کا جائز حق ہے۔ اس طرف کبھی کسی غور ہی نہیں کیا۔
دنیا کے کسی مذھب میں جنسی تلذذ پے پابندی نہیں اس کے جائز ذرائع پیدا کیئے گئے ہیں لیکن مولوی اور حفاظ کو ان باتوں سے بعض اوقات کیوں مبراء تصور کیا جاتا ہے۔آجکل کسی گھر میں کوئی بچہ اندھا یا کسی طرح بھی اپاہج ہو اْسے مدرسے بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں وہ دنیا کی تمام تفریحات کی قربانی دیکر قرأن حفظ کرتا ہے۔ پانچ یا چھ سال کی عمر میں تیسویں سپارے سے شروع کرتا ہے اور جب قرأن حفظ کر کے مدرسے سے نکلتا ہے تو اپنی سات پشتوں کو بخشوانے کے ساتھ ساتھ اپنی عزت بھی لْٹوا کے نکلتا ہے۔ ہم جنس پرستی کا چَسکا اْسے مدرسے میں ہی پڑجاتا ہے۔ اِس کو وہ مزید آگے بڑھاتا ہے۔ ان تمام معاشرتی سیڑھیوں سے حافظ جمیل صاحب بھی گزر کے آئے تھے۔
روز کی طرح آج بھی بچے اپنا اپنا سبق یاد کررہے تھے اور مولوی صاحب یعنی حافظ جمیل صاحب دل ہی دل میں کچھ پڑھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ ہل بھی رہے تھے۔منہ کو کچھ اس طرح حرکت دے رہے تھے جیسے کچھ کھا رہے ہوں۔ بچے اپنا اپنا سبق یاد کررہے تھے۔ ایک عجیب قسم کا شور تھا۔ جس طرح بے شمار مکھیاں بھن بھنا رہی ہوں اور ایک طرف پیڈسٹل فین
(pedistal fan)
چل رہا تھا جو کڑک کڑک کی آواز اس طرح پیدا کررہا تھا جیسے کمانی والا چاقو کوئی کھولتا اور بند کرتا ہو۔
پھر اس کے بعد باری باری سبق سنانے کا مرحلہ آتا ہے۔ کوئی پہلے سپارے کا دسواں رکوع سنارہا ہے، کوئی چند آیتیں اور کوئی اِبِ لِ،فِ لِ مِ اور اس طرح اپنی خلاصی کرواتے ہوئے واپس چٹائیوں پر آجاتے ہیں۔ کوئی کسی کی چْٹکی کاٹ رہا ہے۔ کوئی مییفیئر ببل گم
(mayfair bubble gum)
سے نکلے ہوئے ٹیٹوز
(tattoes)
بازو پے لگا رہا ہے۔ اور کوئی کچھ کھا کے چھلکے چٹائی کے نیچے چھپا رہا ہے۔ اس دوران چھٹی ہوجاتی ہے اور سارے بچے گھر کی طرف اس طرح بھاگتے ہیں جس طرح کسی جیل سے قیدی بھاگتے ہیں۔ایسے میں کوئی کسی کی جوتی پہن رہا ہے اور کوئی کسی کی ٹوپی لے کربھاگ رہا ہے۔ چند افراد جو وضو کر رہے ہیں اور بچوں کو خاموش کرانے کی کوشش کررہے ہیں۔لیکن ناکام ٹھہرتے ہیں۔ سب بچے اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں لیکن امجد سب میں مختلف اپنی سوچوں میں گم گھرکی طرف جارہا ہے۔ گھر پہنچتے ہی اپنا بغدادی قاعدہ اپنے گھر کی قرأن مجیدوں والی الماری میں رکھتا ہے۔ جہاں گھر کے تمام قرأن مجید مختلف رنگوں کے ریشمی غلافوں میں پڑے ہیں۔ چھوٹے بڑے، ترجمے والے،تفسیر والے، تیس سپارے، پنج سورتے،دعائے گنج العرش اور اس قسم کی تمام اشیاء جن کا تعلق مذھب، رمضان المبارک ہے۔یا قرأن خوانی کے متعلق ہے۔ اس طرح کی تمام کتابیں اسی الماری میں رکھے ہوتے ہیں۔
جیسے ہی امجد سپارہ رکھتا ہے تو اس کی والدہ کی آواز آتی ہے، ’’بیٹا سپارہ پڑھ آئے۔کیا پڑھا، اِبِ لِ، فِ لِ مِ‘‘۔ وہ ہاں میں سر ہلاتا ہے۔ اور ٹی وی دیکھنے لگتا ہے۔ اتنے میں والدہ کہتی ہیں، ’’بیٹا حافظ جی کو کھانا دے آؤ‘‘۔امجد خوشی خوشی کھانا لے کر مسجد کی راہ لیتا ہے۔ مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ وہ وضو والی جگہ اپنی جوتیاں اتار تا ہے اور سیڑھیاں چڑھتا ہوا مولوی صاحب کے حجرے کی طرف جاتا ہے۔ جو کہ مسجد کی بالائی منزل پہ ایک کونے میں بنایا گیا ہے۔ امجد دروازہ کھٹکھٹاتا ہے۔اندر سے آواز آتی ہے، ’’کون‘‘۔تو امجد جواب دیتا ہے، ’’جی میں، امجد، مولوی صاحب‘‘۔ محافظ صاحب کی آواز رک جاتی ہے۔ سانس تیز ہوجاتی ہے۔ہاتھ پاؤں جلنے لگتے ہیں۔کان گرم ہوجاتے ہیں ایک عجیب قسم کی ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ بڑی مشکل سے خود پہ قابو پا کے کہتے ہیں، ’’اندر آجاؤ‘‘۔ امجد اندر داخل ہوتا ہے۔ تو حافظ جی کھانا ایک طرف رکھنے کو کہتے ہیں۔ امجد کو پاس بلا کر پیار کرنے لگتے ہیں اور پوچھتے ہیں ، ’’بیٹا جلدی تو نہیں‘‘۔امجد کہتا ہے، ’’نہیں حافظ صاحب میں امی سے اجازت لے کر آیا ہوں کہ آپ کو کھانا دینے کے بعد میں کھیلنے جاؤں گا۔ گھر کے پاس جو ریلوے کوارٹرز ہیں ان کے گراونڈ میں‘‘۔’’اچھا بیٹا ذرا میری ٹانگیں دبا دو‘‘۔ امجد انتہائی تابعداری سے ٹانگیں دبانی شروع کرتا ہے اور اسی دوران مولوی صاحب کی شلوار میں گردش شروع ہوجاتی ہے۔ اس طرح لگتا ہے جیسے کسی نے خیمہ گاڑ دیا ہو۔امجد کو اس دوران ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ حافظ صاحب کی ذہنی کیفیت کیا ہے۔ اور حافظ صاحب اس کو قریب لاکر چومنا شروع کردیتے ہیں۔ اِس کے عضوءِ تناسل کو مسلنا شروع کردیتے ہیں اور اس کے ہاتھ میں اپنا عضوءِ تناسل تھمادیتے ہیں۔ اسی دوران اپنا ازار بند کھولکے شلوار نیچے سرکانی شروع کردیتے ہیں۔امجد عزت ، احترام اور ڈر کے ملے جلے جذبات کی وجہ سے بالکل خاموش رہتا ہے اور ایک سْدھائے ہوئے ریچھ کی طرح حافظ صاحب کے اشاروں پے کام کرتا جاتا ہے۔ مولوی صاحب سرسوں کا تیل امجد کے مقعد پے لگاتے ہیں اور کچھ اپنے آلاءِ تناسل پے۔اس کے بعد ایک چیخ کی آواز آتی ہے اور حافظ صاحب اس کے منہ پے ہاتھ رکھتے ہوئے کہتے ہیں،’’کچھ نہیں ہوگا،کچھ نہیں ہوگا‘‘حافظ صاحب اس طرح ہل رہے ہوتے ہیں،جھٹکے لگا کے آگے پیچھے ہورہے ہوتے ہیں جس طرح گاڑی کا پسٹن
(piston)
اندر باہر جاتاہے۔ اسی دوران حافظ صاحب امجد کو جکڑ لیتے ہیں آہستہ آہستہ اْن کی گرفت ڈھیلی پڑجاتی ہے۔ پسینے شرابور ہوتے ہیں۔ ساری چٹائی خون سے بھر جاتی ہے۔امجد ڈر ،خوف،وحشت اور شرم کے ملے جلے جذبات میں کہتا جاتا ہے،’’اِبِ لِ، فِ لِ مِ ،اِ بِ لِ،فِ لِ مِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

سرفراز بیگ ۱۹۹۶؍۰۷؍۱۱ لنڈن
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)


No comments:

Post a Comment