Sunday, June 16, 2013

پیاتسا گراندے، سائیں انٹرنیٹ، ناول، سرفراز بیگ، PIAZZA GRANDE



پیاتساگراندے

اریزو کی تاریخ تو پچیس صدیوں پر محیط ہے۔لیکن محکمہ آثارِ قدیمہ کے مطابق اریزو میں تہذیب و تمدن کا آغاز چھ سو سال قبل از مسیح میں ہوا۔ جب اریزو ETRUSCAN (ایترسکن)راجدھانی کا حصہ بنا۔پرانی دیواروں کے آثار ، POGGIO DEL SOLE (پوجو دل سولے) کے پاس قبرستان کا دریافت ہونا اور سب سے اہم چیزیں جو یہاں سے دریافت ہوئیں ان میں CHIMERA (کی میرا)اور MINERVA (منروا) کے مجسمے ہیں۔
CHIMERA (کی میرا) یونانی زبان میں CHIMAIRA (کی مائرا) کو کہتے ہیں جس کا مطلب ہے بکری۔ لیکن یونانی دیو مالائی کہانیوں میں CHIMERA (کی میرا) کا مطلب ہے ایسا عفریب، جس کا دھڑ بکری کا، سر شیر کا اور دم اژدھے کی ہو۔آجکل اس CHIMERA (کی میرا) کی نقل PORTA SAN LORENTINO (SAINT LORENTIN GATE) (پورتا سان لورن تینو، سینٹ لورنٹین دروازہ) میں نصب ہے اور اریزو شہر کا سرکاری نشان بھی ہے۔دوسرا مجسمہ منروا کا ہے۔ اہل روم کی دیو مالائی کہانیوں کے مطابق منروا، عقل و دانش، فنی مہارت اور ایجادات کی دیوی ہے۔ اپنی خوبیوں کے مطابق منروا یونانی دیوی ATHENA (ایتھنا)کی ہم عصر ہے۔یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں ایتھناکو لاطینی میں منروا کہتے ہیں۔
ا س کے علاوہ ETRUSCANS(ایت رسکن ز)کے گلدان بہت مشہور ہیں۔ جن کو BUCCHERO (بوکیرو یا بوشیرو) کہتے ہیں۔ایک خاص قسم کی ETRUSCAN (ایت رسکن ز) کالی مٹی سے بنائے جاتے تھے۔
۳۰۰ قبل از مسیح میں جب رومیوں نے اور ETRUSCANS (ایت رسکن ز) نے مل کر SENONINE GAULS (سینونن ز گال ز) کو شکست دی تو اس کے بعد رومیوں نے مستقل طور پے اپنا قلعہ یہاں قائم کرلیا۔پہلی صدی قبل از مسیح میں اریزو خانہ جنگی کا شکار ہوگیا۔ یہاں کے لوگوں نے MARIUS AND POMPEI(ماریوس اور پومپے) کا ساتھ دیا۔لیکن انھیںCEASER چیزر، یعنی سیزر) اور SILLA (سلا) ہاتھوں شکست کھانا پڑی اور اس طرح اریزو رومیوں کی نوآبادی اور باجگزار ریاست بن گیا۔
AUGUSTAIN (آگستین) کے دور حکومت میں اریزو شہر کو تھوڑی ترقی دی گئی۔اس کو MUNICIPIUM (میو نیچی پیئم) کا درجہ دیا گیا۔اس کی شہر پناہ بڑی کی گئی۔AMPHITHEATRE (ایمفی تھیٹر)اور THERMEA(ترمی آ) (جو کہ دوسری صدی عیسویں میں باربیرینز نے آکر تباہ کردیا) بھی تعمیر کیا گیا۔اریزو شہر کو زیادہ اہمیت اس وقت حا صل
ہوئی جب اریزو کے متمول خاندان ARETINI(ارتینی)کا آدمی CAIUS CILNIUS MECENATES (کاوس چیلینئس میچے ناتے) ، OCTAVIAN(اوکتاوین) کا مشیر و وزیر بنا۔اس دور میں اریزو کی صنعت کو بڑی ترقی ملی۔ خاص کر VASI CORALLINI ( وازی کورالانی یعنی لال گلدان) بہت مشہور ہوئے اور ان کی شہرت ہندوستان تک جا پہنچی۔ اس کے بعد نہ
صرف اریزو کو بلکہ سلطنتِ روما کو بھی BARBARIANS (باربیریئن ز) کا سامنا کرنا پڑا۔ اور سلطنتِ روما زوال پذیر ہوگئی۔یہ شہر LANGABARD (لانگابارد)اور CAROLINGIAN (کارولنگیئن)کا باجگذار علاقہ رہا۔اس وجہ سے اریزو کے مکینوں میں کمی واقع ہو گئی۔
اٹلی میں پہلی دفعہ اگر کسی نے BISHOPCOUNT (بشپ کاؤنٹ) کا لقب اختیار کیا تو وہ شخص اریزو کا ہی تھا۔ وہ PIONTA (پی اونتا) کے قلعے میں رہتا تھا۔وہ پہلا پادری تھا جس نے راجہ کا لقب اختیار کیا۔ یہ سلسلہ ۱۰۵۹صدی عیسویں سے لے کر کافی بعد تک چلتا رہا۔۱۰۰۰ عیسویں میں اریزو کو آزاد تحصیل کا درجہ دیا گیا۔اس کی آبادی میں اضافہ ہوا۔ معیشت کو ترقی ملی۔ ۱۰۰۰ عیسویں تا ۱۲۰۰ عیسویں تک اریزو کے گرد شہر پناہ کو دوبارہ مرمت کیا گیا اور ETRUSCO-ROMAN (ایت رسکو۔رومن))شہر پناہ کے ساتھ ملا دیا گیا۔اور اس نصف قطری سڑک کو BORGO MAESTRO (بورگو مائسترو)کا نام دیا گیا۔تیرھویں صدی عیسویں میں اریزو میں کئی اہم
تعمیرات کی گئیں۔ جن میں سب سے اہم PIEVE OF SANTA MARIA (پیوے آف سانتا ماریا)ہے۔یہ گرجا ROMANESQUE (رومن نیسک) طرزِ تعمیر کی خوبصورت مثال ہے۔ اس کے علاوہ اریزو میں GOTHIC(گوتھک) طرزِ تعمیر بھی اثر انداز ہوا۔اور دو نئے گرجے تعمیر کیئے گئے۔SAINT FRANCESCO (سینٹ فرانچیسکو)اور SAINT
DOMENICO (سینٹ دومینیکو)۔ تیرھویں صدی میں اریزو پر GHIBELLINES (گیبلائنز) کا قبضہ رہا۔GHIBELLINES (گیبلائنز)کے باجگزار علاقےMASSA TRABARIA, SANSEPOLCRO,VALDARNO,AMBRA VALLEY,CASENTINO اور VALDICHIANA (تراباریا،سانسے پولکرو،والدارنو،آمبراوادی،والدی کی آنا،کازن تینو)تھے۔انھوں نے ۱۲۵۸ میں ایک خونی جنگ کے دوران CORTONA (کورتونا)بھی فتح کرلیا۔لیکن اپنی ہمسایہ تحصیلوں SIENA,PERUGIA,FLORENCE اور CITTA DI CASTELLO(فلورنس، سینا، پیروجا،چتا دی کستیلو) سے مسلسل جھڑپوں کے دوران GHIBELLINES (گیبلائنز)کو CAMPALDINO (کمپلدینو) کے میدان میں۱۲۸۹ میں شکست ہوئی اور اس جنگ کے دوران اریزو کا بشپ GUGLIELMINO UBERTINO (جولی ایلمو اوبیرتینی) دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔اریزو کے کافی حصے فلورنس اور سینا کے پاس چلے گئے۔
۱۳۱۲ میں GHIBELLINES (گیبلائنز) کو دوبارہ فتح نصیب ہوئی۔ جب GUIDO TARLATTI (گوئیدو تارلاتی)کو عروج حاصل ہوا۔ انھوں نے اریزو کے کھوئے ہوئے حصے دوبارہ حاصل کیئے۔ لیکن جب GUIDO TARLATTI (گوئیدو تارلاتی) کے
بھائی PIER SACON (پی ایر ساکون)کو جب اقتدار حاصل ہوا تو اریزو دوبارہ زوال پذیر ہوگیا اور اریزو ۱۳۳۷ میں دوبارہ فلورنس کے زیرِتسلط ہوگیا۔GUELF (گئیلف) کو دوبارہ برتری حاصل ہوگئی۔ اریزو کو کئی دفعہ فتح و شکست نصیب ہوئی ۔ ۱۳۷۶ سے لیکر ۱۳۸۴ تک اریزو سیاسی انتشار کا شکار رہا۔آخر کار ۱۳۸۴ میں ENGUERRAND DE COUCY(آنگیراند دی کوشی)
نے اریزو کو ۴۰ ہزار سونے کے فلورنز(اس دور کی کرنسی کا نام) کے عوض فلورنس کو بیچ دیا۔
۱۵۰۲ سے لیکر ۱۵۳۰ تک اریزو کے لوگوں نے کئی دفعہ فتح حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اریزو ۱۴۳۴ سے لیکر ۱۵۶۹ تک MEDICI(میدیشی) خاندان کی ملکیت رہا۔ پھر اریزو کی باگ ڈور GRAND DUCHY OF TUSCANY (گریند ڈچی آف ٹسکنی) کے ہاتھوں آگئی۔
ان کا دورِ حکومت ۱۵۶۹ سے لیکر ۱۷۳۷ تک رہا۔پھر HOUSE OF LORRAINE (ہاؤس آف لورین)نے ۱۷۳۷سے ۱۸۵۹ تک حکومت کی۔ اس تین سو سال کے عرصے میں اریزو کی آبادی میں اضافے کے بجائے کمی واقع ہوئی۔۱۵۵۲ میں اریزو کی آبادی ۷۷۵۰ تھی جبکہ سن ۱۷۴۵ میں یہ گھٹ کر ۶۷۰۰ رہ گئی۔
GRAND DUKE LEOPOLD OF LORRAIN (گرینڈ ڈیوک لیوپولڈ آف لورین) نے ۱۷۷۲ میں ،اریزو کی MINICIPLE COMMITTE (میونسپل کمیٹی) کی بنیاد ڈالی۔۱۷۹۹ میں اریزو میں VIVA MARIA فسادات شروع ہوئے۔
VALDICHIANA (وال دی کی آنا) کی reclamation (پانی سے زمین حاصل کرنا یا نئی زمیں زیرِ کاشت لانا) میں اریزو کے مشہور ہائیڈرالک انجینیئر VITTORIO FOSSOMBRONI (وتوریو فوسونمبرونی) نے اہم کردار ادا کیا۔ جو کافی عرصے تک GRAND DUCHY (گرینڈ ڈچی) کا وزیرِاعظم رہا۔
۱۸۶۶ میں اریزو کا رابطہ ریلوے کے ذریعے فلورنس اور روم سے ہوا۔۱۸۶۷ میں پہلی ٹاون
پلیننگ کی گئی۔ جو کہ VIA GUIDO MONACO (وی آ گوئیدو موناکو) سے شروع ہوئی۔
دوسری جنگِ عظیم میں اریزو کو بھاری قیمت چکانی پڑی اور اریزو کا کافی حصہ ہوائی حملوں میں تباہ ہوگیا۔۱۶ جولائی ۱۹۴۴ کو اریزو کو نازی فاشسٹ سے الائیڈٹروپس نے نجات دلائی۔ اریزو کے ۳۱۱۰ فوجیوں نے اپنی جانیں قربان کیں۔ ۱۹۸۴ میںPRESIDENT SANDRO PERTINI (پریزیدنٹ ساندرو پیرتینی)کو اس کے عوض سونے کا تمغہ دیا گیا۔
دوسری جنگِ عظیم میں نہ صرف اطالوی فوجی مارے گئے بلکہ ہندوستانی (انڈیا، پاکستان،نیپال، برما)،کینیڈین، ساؤتھ افریقن آسٹریلین اور نیوزی لینڈین فوجیوں نے بھی اپنی جانیں قربان کیں۔
AREZZO WAR CEMETRY (1935--1944) (اریزو وار سیمٹری ۱۹۳۵ تا ۱۹۴۴)میں ۱۲۰۰ قبروں میں سے ۳۷۰ قبریں ہندوستانیوں کی ہیں جن میں ۱۷۰ کے قریب قبریں پاکستانیوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ FOIANO (فوئے آنو) اور SANSEPOLCRO (سانسے پولکرو) میں بھی ہندوستانی فوجی مدفون ہیں۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ نے دوبارہ سانس لینا شروع کیا کیونکہ یورپیئن مسلسل جنگ و جدل سے تنگ آچکے تھے۔دوسرے علاقوں کی طرح اریزو نے بھی اپنی تعمیر و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔۱۹۶۲ سے لیکر ۱۹۶۵ تک فنِ تعمیر کے ماہر LUIGI PICCINATO(لوئی جی پیچی ناتو) نے شہر کی تعمیر کی نئی سکیمیں پیش کیں اور ان پر عمل درآمد شروع ہوا۔اس کی بنیادوں پر چلتے ہوئے VITTORIO GREGOTTI (وتوریو گریگوتی) اور AUGUSTO CAGNARTI (آگوستو کانی آرتی) نے ۱۹۸۷ میں نئی رہائشی سکیمیں تیار کیں۔
۱۹۹۰ سے لیکر ۱۹۹۵ تک اٹلی میں امیگرنٹز کا سیلاب امڈ آیا۔ انھوں نے امیگریشن تو اس سے پہلے بھی کھولی تھی لیکن ۱۹۹۰ سے پہلے یورپ میں اٹلی کو اتنی اہمیت حاصل نہ تھی۔ لوگ دیگر یورپی ممالک میں غیرقانونی طور پے رہنا پسند کرتے،بجائے اس کے کہ وہ قانونی طور پیرہ کر اپنے جائز حقوق کے ساتھ کام کرتے اور کرتے بھی کیسے۔ خود اطالوی لوگ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ورزگار کی تلاش میں دوسرے ممالک کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔آج بھی جرمنی، انگلستان، سوٹزرلینڈ،امریکہ اور ساؤتھ امریکہ میں بے شمار اطالوی آباد ہیں۔فرق صرف اتنا ہے یہ لوگ دو دو تین تین عشرے پردیس میں گزار نے کے بعد جب واپس آئے تو ان کا ملک اپنے پاؤں پے کھڑا ہوچکا تھا۔ نہ صرف اٹلی بلکہ پورے یورپ کی تعمیرِنو کے لیئے اقوامِ متحدہ نے مدد کی۔ آسان اقساط پر ورلڈ بینک نے قرضے دیئے۔دوسری جنگِ عظیم کے بعد ورلڈ بینک سے جس ملک کو سب سے زیادہ مراعات ملیں وہ انگلستان تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اریزو دنیا کے مشہور مصوروں کی آماجگاہ رہا ہے۔جب ہندوستان اندرونی خانہ جنگیوں اور بیرونی حملہ آوروں کا مقابلہ کررہا تھا۔ اس وقت یورپ میں علم و ادب کی نئی دنیا جنم لے رہی تھی۔ جس کو لوگ نشاۃِ ثانیہ کا نام دیتے ہیں۔
نشاۃِ ثانیہ سے پہلے اور نشاۃِ ثانیہ میں اریزو کے مصوروں بڑا اہم کردار ادا کیا۔اگر آپ GIOTTO,CIMABUE, MARGARITO D'AREZZO (جوتو، چیمابوئے،مارگریتو دی اریزو)کی تصاویر دیکھیں تو اِن میں نشاۃِثانیہ کے جراثیم پیدا ہوتے دکھائی دیں گے۔
چودھویں صدی عیسویں میں جن قابلِ ذکر مصوروں نے اریزو کی مختلف جگہوں پے کام کیا ،اْن میں SIENA (سینا) کا رہنے والامصورPIETRO LORENZETTI (پی ایترو لورن تینو) تھا۔اس کے علاوہ ANDREA DI NERIO, SPINELLO ARETINO,PARI DI SPINELLO (آندریا دی نیریو،سپینیلو اریتینو، پاری دی سپینیلو) وغیرہ تھے۔
پندرھویں صدی میں کئی مشہور مصوروں نے اریزو میں اپنے فن کے جوہر دکھائے،جن میں قابلِ ذکر PIERO DELLA FRANCESCA (پی ایرو دالا فرانچیسکو)اور BARTOLOMEO DELLA GATTA (بارتولومیو دالا گاتا) تھے۔
جس طرح دیگر ادیبوں، شاعروں، مصوروں اور مجسمہ سازوں نے یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں اہم کردار ادا کیا اسی طرح PIERO DELLA FRANCESCO (پی ایرو دالا فرانچیسکو) کی FRESCOES (فریسکوز،پلستر پر بنی ہوئی تصاویر) نے بھی نشاۃِ ثانیہ میں اہم کردار ادا
کیا۔PIERO DELLA FRANCESCO (پی ایرو دالا فرانچیسکو) کی جائے پیدائش SANSEPOLCRO (سانسے پولکرو) تھی۔ اس نے گیارہ سال کے عرصے میں اصلی صلیب کی کہانی SAINT FRANCESCO (سینٹ فرانچیسکو) کے گرجے میں مکمل کی۔"THE LEGEND OF TRUE CROSS (دی لیجنڈ آف ٹرو کروس، یعنی اصلی صلیب کی کہانی) کو نہ صرف اٹلی میں بلکہ پوری دنیا میں اہمیت حاصل ہے۔ اسے عیسائیت کی وجہ سے ہی نہیں بلکہ مصوری کا خوبصورت نمونہ سمجھ کر بھی لوگ دیکھنے آتے ہیں۔PIERO DELLA FRANCESCO (پی ایرو دالا فرانچیسکو) نے ویسے تو بے شمار FRESCOES (فریسکوز، پلستر پر بنی ہوئی تصاویر)بنائیں لیکن جو FRESCOES (فریسکوز) اس نے SAINT FRANCESCO (سینٹ فرانچیسکو)گرجے میں بنائیں وہ قابلِ ستائش ہیں۔
۱) ADORAZIONE DEL LEGNO (لکڑی کی پرستش)
۲)SOGNO DI CONSTANTINO (کونسٹانٹین کا خواب)
۳) EPISODIO DEL RITROVIMENTO DELLE TRE CROCI (تین صلیبوں کی دریافت)
۴)VITTORIO DI CONSTANTINO SU MASSENZIO (ماسنزیو پر کونسٹانٹین کی فتح)
۵)INCONTRO DI SOLOMONE CON LA REGINA DI SABA (حضرت سلیمانؑ کی ملکہ صباء سے ملاقات)
۶)SANTA MARIA MADDALENA (سانتا ماریا مدلینا)
پندرھویں صدی کے آواخر اور سولھویں صدی کے آغاز میں جن مصوروں کو اریزو میں کام کرنے کا شرف حاصل ہوا ان میں CORTONA (کورتونا)کا مشہور مصور LUCA SIGNORELLI (لوقا سنیوریلی) تھا۔
سولھویں صدی کے آوائل میں اریزو میں ایک بڑی اہم شخصیت پیدا ہوئی۔ GIORGIO VASARIْ (جورجو وزاری)۔ جو اہمیت انگلستان میں SIR CHRISTOPHER WREN (سر کرسٹوفر رَین) کو حاصل ہے وہی حیثیت اٹلی میں GIORGIO VASARI (جورجو وزاری)کو حاصل ہے۔اس نے نہ صرف اریزو کی تعمیر میں مدد کی بلکہ دیگر شہروں کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ VASARI (وزاری)مصنف، مصور اور فنِ تعمیرات کا ماہر تھا۔۔ نئی تعمیرات کے علاوہ اس کے زیرِ نگرانی اریزو کی کئی عمارات مرمت کی گئیں۔ان سب میں قابلِ ذکر LOGGE VASARI (لوگے وزاری)ہے۔اس کے برآمدے گرمیوں کے دنوں میں سیاحوں سے کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ VASARI (وزاری)کا سب سے قابلِ ذکر کارنامہ نشاۃِ ثانیہ کے
مشہور مصوروں، مجسمہ سازوں اور فنِ تعمیر کے ماہروں کے حالات زندگی پے کتاب لکھنا ہے۔اس کتاب کے دو حصے ہیں۔ اس کے کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔ تاریخ، علم و ادب ،مصوری اور مجسمہ سازی کے شوقین کے لیئے یہ کتاب بڑی اہمیت کی حامل ہے۔اس کے علاوہ GIORGIO VASARI (جورجو وزاری) کا گھر جو، اب VASARI MUSEUM (وزاری میوزیئم)بن گیا ہے۔ VASARI (وزاری) کی بنائی ہوئی تصاویر سے مرصع ہے۔
سترھویں صدی میں دو مشہورمصوروں نے اریزو میں مصوری کے جوہر دکھائے۔TEOFILO TORRI اور SALVI CASTELLUCCI (تیو فیلو توری، سالوی کاستلوچی) ۔ CASTELLUCCI (کاستلوچی) کی MADONNA COL BAMBINO (بی بی مریم بچے کے ساتھ) اور SAINT DONATO (سینٹ دوناتو) دیکھنے لائق ہیں۔
سترھویں صدی کے اختتام اور اٹھارھویں صدی کے آغاز میں CARLO DOLCI اور VIVIANO CODAZZI (کارلو دولچی، ویوی آنو کوداتسی) کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی۔
اب تک یورپ میں علم و ادب ، مصوری ،فنِ تعمیر اور مجسمہ سازی میں انقلاب آچکا تھا۔CIMABUE اور GIOTTO (جوتو اور چیمابو اے) کی فنِ مصوری سے جنم لینے والا بچہ اب جوان ہوچکا تھا۔اور انجیلِ مقدس کی کہانیوں کو تصویری شکل دینے اور اِن میں رنگ بھرنے کے بجائے مصور دوسری طرف مائل ہورہے تھے۔بڑی آہستگی سے اطالوی حکومت پے پادریوں کا اثر وزرسوخ کم ہورہا تھا۔اٹھارھویں صدی کے آواخر اور انیسویں صدی کے آوائل میں FRAOIS GERARD اور ADRIAN CECIONI(فراوز جیرارد، آدریان چیکونی) نے بائیبل کے موضوعات سے ہٹ کر تصاویر بنائیں۔ ۱۹۲۲ اور ۱۹۲۳ کے دوران MONTE FIORE DEL LAZO (مونتے فیوری دل لاتسو) کے مشہور مصور ADOLFO DE CAROLIS (ادولفو دی کارولس) نے PALAZZO DELLA PROVINCIA (پلاتسو دالا پرو ونچا) میں اریزو کے نمائندہ لوگوں کی یادگار تصویر بنائی۔
عصرِ حاضر کے مصوروں میں FRANCO FEDELI, LUCIANO RADICATI,RAPINI, ROBERTO REMI, ENZO SCATRAGLI, GIANNI VILLORESI, SERGIO BIZZARRI, VITELIA ZACCHINI FRANCALANCI اور MAURO CAPITANI (فرانکو فیدیلی،راپینی، لوچی آنو رادیکاتی،روبیرتو ریمی، اینسو سکاترالی، جانی ولوریسی، سیرجو بتساری، ویتیلی آ،ماورو کاپیتانو، زاکینی فرانکالانچی) ہیں۔ لیکن ان میں سب سے زیادہ متاثر کن BAJRAM MATTO (بیئی رام ماتو)ایک البانوی مصور ہیں۔ جن کی تصاویر میں VAN GOGH (وین گوغ) کی جھلک نمایا ہوتی ہے۔اور دوسری CATERINA MARIUCCI (کیترینا ماریوچی)جو ایک جوان اور خوبصورت مصورہ ہیں۔
اریزو شہر مشہور مجسمہ سازوں کی وجہ سے بھی مشہور ہے۔ SAINT FRANCESCO (سینٹ فرانچیسکو) گرجے کے باہر ہائیڈرالک انجینئر VITTORIO FOSSOMBRONI (وتوریو فوسونمبرونی)کا مجسمہ ہے۔ اس کو فلورنس کے مشہور مجسمہ ساز PASQUALE ROMANELLI (پاسکوآلے رومانیلی) نے ۱۸۶۴ میں مکمل کیا۔اریزو کا جدید ترین مرکز PIAZZA GUIDO MONACO (پی آتسا گوئیدو موناکو) ہے۔اریزو کے مشہور موسیقار GUIDO MONACO (گوئیدو موناکو) (جسے لوگ GUIDO D'AREZZO گوئیدو دی اریزوکے نام سے بھی جانتے ہیں) کے مجسمے سے سجایا گیا ہے۔اس کا تخلیق کار SALVINO SALVINI (سالوینو سالوینی) ہے۔اس مجسمے میں GUIDO MONACO (گوئیدو موناکو) اپنا موسیقی کا کام ANTIFONARIO (اینتی فوناریو)
کھولے کھڑا ہے۔FERDINANDO III D'AUSTRIA (فردیناندو سوئم آف آسٹریاء)کا مجسمہ بھی اہمیت کا حامل ہے۔یہ پہلے PIAZZA GRANDE(پی آتسا گراندے) میں نصب تھا۔ بعد میں اس کی جگہ تبدیل کردی گئی۔
CORSO ITALIA (کورسو اطالیہ) اور LOGGE VASARI (لوگے وزاری)کے اختتام پر GIORGIO VASARI (جوجو وزاری) کی یادگار ہے۔اس مجسمے پر دو لوگوں نے کام کیا۔ G. CASTELLUCCI اور A.LAZZERRINI (کاستلوچی اور لاتزرینی) ۔اریزو شہر کے کتھیڈرل (DUOMO) کے باہر سیڑھیوں کے ساتھ FERDINANDO DI MEDICI (فردیناندو دی میدیشی)کا مجسمہ ہے۔ اس کامرکزی
خیال GIANBOLOGNA (جاں بلونیاء) کا تھا۔اور اس کو پایہءِ تکمیل تک FRANCA VILLA (فرانکا ولاء)نے پہنچایا۔PASSAGIO DEL PRATO (پساجو دل پراتو) میں اریزو کے مشہور شاعر FRANCESCO PETRARCA (فرانچیسکو پترارکا) کی یاد میں سرکاری اور عوامی ،باہمی امداد سے ایک یادگار تعمیر کی گئی۔جب ۱۹۲۸ میں ALESSANDRO LAZZARINI OF CARRARA (الیساندرو لاتسارینی آف کرارا)نے سنگِ مرمر کو تراش تراش کر یہ یادگار بنانی شروع کی تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ سنگِ مرمر کا زیاں ہے۔لیکن جب یادگار مکمل ہوگئی تو سب لوگ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔سب نے بہت تعریف کی۔
مٹی کی مجسمہ سازی بھی کی گئی۔ جن میں ANDREA DELLA RABIA (آندریا دالا رابیعہ)کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ PALAZZO ALBERGOTTI (پلاتسو آلبیرگوتی)اپنے مٹی کے مجسموں کی وجہ سے کافی مشہور ہے۔
اریزو کے فنِ تعمیر کو آپ دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ایک عبادت گاہیں اور دوسری دیگر تعمیرات۔
اٹلی کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں۔ وہاں DUOMO (دومو) کتھیڈرل کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔وہ SIENA (سینا) ہو یا PERUGIA(پیروجا)َ ۔فلورنس ہو یا PRATO (پراتو)۔ NAPLES (نیپلز) ہو یا MILAN(میلان)۔
بالکل اسی مناسبت سے اریزو کے سب سے اونچے مقام پر DUOMO (کتھیڈرل، دومو) ہے۔ اس کا آغاز تیرھویں صدی میں کیا گیااور مختلف وجوہات کی بنا پر اس کا کام روک دیا گیا۔ آخرکار رکاوٹوں کے باوجود سولھویں صدی میں یہ خوبصورت DUOMO (کتھیڈرل، دومو ) مکمل ہوگیا۔یہ ROMANESQUE GOTHIC, DUOMO (دومو، رومنیسک گوتھک)
طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔
اس DUOMO (دومو)میں بہت سے مصوروں اور مجسمہ سازوں نے کام کیا۔ لیکن اس DUOMO (دومو) کی سب سے خوبصورت چیز اس کی MOSIACS (موزیک، یعنی پچی کاری کا کام) ہیں۔یہ MOSIACS (موزیک) فرانس کے مشہور MOSIACIST (موزیشسٹ، یعنی پچی کاری کے کام کا ماہر) اور سٹین گلاس کے ماہر GUILLAUM DE MARCILLAT (گوئیلام دی ماغ سیلا) نے بنائیں۔ سورج کی کرنیں جب ان STAINGLASS MOSIACS (سٹین گلاس موزیک) سے چھن چھن کر DUOMO (دومو) میں داخل ہوتی ہیں تو بہت خوبصورت منظر پیش کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے سارا DUOMO (دومو)رنگ و نور میں نہا گیا ہو۔
اریزو کا دوسرا خوبصورت گرجا CORSO ITALIA (کورسو اطالیہ) اور PIAZZA GRANDE (پی آتسا گراندے) کے وسط میں واقع ہے۔ اس گرجے کی بنیاد ایک
پرانے گرجے کے کھنڈرات پر رکھی گئی۔ جو حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے ہزار سال بعد تعمیر کیاگیا تھا۔ اس کی تعمیر بارھویں صدی کے آواخر میں شروع ہوئی۔ یہ بھی ROMANESQUE (رومنیسک) طرزِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ PIEVE SANTA MARIA(پیوے سانتا ماریا) کا گھنٹی والا مینار جو کہ ۵۹ میٹر اونچا ہے۔ اریزو کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ تین منزلہ برآمدے ،
جن کی پہلی منزل پے مختلف ستون بنے ہوئے ہیں۔ پہلی منزل پے بارہ دوسری پے چوبیس اور تیسری پے بتیس ستون ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہر ستون دوسرے سے مختلف ہے ۔آپ کو ایک جیسے دو ستون نہیں نظر آئیں گے۔اس گرجے کی عمارت ROMANESQUE (رومنیسک) طرزِ تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔
اس کے علاوہ اریزو میں مندرجہ ذیل گرجے ہیں۔
BADIA S.FLORA LUCILLA, S.ANNUNZIATA CHURCH,S.DOMENICO CHURCH,S. BERNARDO CHURCH, S.MARIA DELLA GRAZIE, S.EUGIENE PARISH CHURCH, S.MICHELL CHURCH, S. FRANCESCO CHURCH , S.AUGUSTINO CHURCH ( بادیا سانتا فلورا لوچیلا،سانت اننسیاتو چرچ،سانت دومینیکو چرچ، برناردو چرچ، سانتا ماریا دالا گراسیا،سینٹ یوجینیو پیرش چرچ، سینٹ مائیکل چرچ،سینٹ فرانچیسکو چرچ، سینت اوگستینو چرچ) ۔
اریزو کی دیگر تعمیرات میں FRANCESCO PETRARCA (فرانچسیکو پترارکا) کا گھر،PIAZZA GRANDE (پی آتسا گراندے) اور PALAZZO PRETORIA پلاتسو پریتوری آ) اریزو شہر کے دروازے۔
اریزو شہر کا ذکر جب علم و ادب کی مناسبت سے آتا ہے تو ہم سب سے پہلے GUIDO MONACO (گوئیدو موناکو) کا ذکر کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اریزو کے شاعر FRANCESCO PETRARCA (فراچیسکو پترارکا) کا ذکر آتا ہے۔
PETRARCA (پترارکا) کے والدین اصل میں فلورنس کے شہری تھے۔ اس کے
والد فلورنس کے معروف وکیل تھے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر انھیں شہر بدر کردیا گیا۔اور یہ خاندان ۱۳۰۲ عیسویں میں اریزو آکر مقیم ہوگیا۔۲۰ جولائی ۱۳۰۴ عیسویں کو FRANCESCO PETRARCA (فرانچیسکو پترارکا)پیدا ہوا۔بعد میں یہ خاندان فرانس کے جنوب میں واقع شہر AVIGNON (آوینو)ہجرت کر گیا۔PETRARCA(پترارکا) کو
CARPENTRAS (کارپینتراس) پڑھنے کے لیئے بھیج دیا گیا۔ یہاں سے ۱۳۱۶ میں PETRARCA (پترارکا)قانون کی تعلیم حاصل کرنے MONTPELLIER (موں پلی ئیغ) آگیا۔۱۳۲۰ میں PETRARCA (پترارکا)اپنے بھائی GHERARDO (جیراردو) کے ساتھ مزید تعلیم حاصل کرنے واپس اٹلی کے شہر BOLOGNA(بلونیاء) آگیا۔لیکن والد صاحب کی فوتگی کے بعد اس نے قانون کی تعلیم حاصل کرنی ترک کردی اور چھ سال بعد فرانس کے شہر AVIGNON (آوینو)دوبارہ واپس چلا گیا۔اس نے شاعری کا آغاز اپنی والدہ کی یاد میں نظمیں لکھ کر کیا۔آخر کار ۱۸ اور ۱۹ جولائی ۱۳۷۴ کی درمیانی شب ، اریزو شہر میں پیدا ہونے والایہ شاعر دارِ فانی سے کوچ کرگیا۔PETRARCA (پترارکا)نے لاطینی اور اطالوی دونوں زبانوں میں شاعری کی۔نشاۃِ ثانیہ سے پہلے اطالوی ادب میں تبدیلی لانے والوں میں کئی لوگوں کا ہاتھ ہے۔لیکن ان میں قابلِ ذکر FRANCESCO PETRARCA , GIOVANNI BOCCACCIO اور ALLIGHIERI DANTE (جووانی بوکاچو، فرانچیسکو پترارکا، دانتے آلی ایری)
ہیں۔PETRARCA (پترارکا) کی پیدائش پہلے اریزو شہر میں ، اسی شہر کا ایک شاعر GUITTONE D'AREZZO (گوئیتونے دا اریزو) کے چرچے تھے۔ اس کے علاوہ دیگر قابلِ ذکر شخصیات اریزو کی تاریخ کا حصہ بنیں۔ جیسا کہ LEONARDO BRUNI(لیو ناردو برونی) ۔ انھوں نے HISTORIA FLORENTINA (تاریخِ فلورنس)جیسی قابلِ ذکر
کتاب لکھی۔ اریزو میں سائنس کے متعلق دو معروف شخصیات پیدا ہوئیں۔ جن میں ایک تو بوٹنی کے ڈاکٹر ANDREA CESALPINO (آندریا چیزل پینو) اور دوسرے ڈاکٹر، نیچرلسٹ اور ادبیات کے ماہر FRANCESCO REDI (فرانچیسکو ریدی)تھے۔
اریزو کے جدید شاعر ANTONIO GUADAGNOLI (انتونیو گوآدانولی)نے
طنزیہ و مزاحیہ شاعری میں اپنا مقام بنایا۔انیسویں صدی کے آواخر میںیہاں مشہور ریاضی دان FRANCESCO SEVERI (فرانچیسکو ساویری) پیدا ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم خان چغتائی کاغذات جمع کراچکا تھا۔ اس کے مزاج کا کوئی بھی نہیں تھا۔ حتیٰ کے داؤد بھی۔ وہ سارا سارا دن PALAZZO PRETORIA (پلاتسو پریتوری آ) میں واقع اریزو کی بڑی لائبریری میں کتابوں کے ساتھ سر کھپاتا رہتا۔اس طرح اسے اریزو شہر کی تاریخ جاننے کا موقع ملا۔ ترکی ، یونان میں اسے موقع نہ ملا۔ لیکن یہاں کام نہیں تھا۔ فراغت تھی۔وقت ہی وقت تھا اور اس نے اس کابھرپور فائدہ اٹھایا۔
آدم کو اریزو کی تاریخ، تہذیب و تمدن، علم و ادب ، برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ، تہذیب و تمدن اور علم و ادب کے سامنے ماند لگا۔کیونکہ ۱۷۰۰ قبل از مسیح میں جب آریاؤں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو وہاں دراوڑ موجود تھے۔جبکہ نہ صرف اریزو بلکہ پورے اطالیہ میں تہذیب کا ارتقاء۲۵۰۰ سال پہلے ہوا۔یعنی ۵۰۰ قبل از مسیح میں۔ گو کہ اطالوی تہذیب کا ارتقاء آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے paleolithic (پیلیو لیدھک) دور سے ملتا ہے لیکن ایک مربوط زندگی ، تہذیب و تمدن کا آغاز ۵۰۰ قبل ازمسیح میں ہوا۔اس کے بر عکس وادی ءِ سواں کی تہذیب دنیا کی پرانی ترین تہذیبوں میں سے ایک تصور کی جاتی ہے۔جب اریزو میں ETRUSCANS (ایترسکنز)پوری طرح تہذیب و تمدن کی بنیادیں بھی
نہ مضبوط کرپائے تھے اس سے کہیں پہلے مہنجو داڑو، چندوداڑو اور ہڑپہ دنیا کو اندازِ جہاں بانی سے روشناس کراچکے تھے۔
سدھارتھا گوتما بدھا، مہاویرا، لاؤتزے جیسی قابلِ ذکر ہستیاں ہندوستان اور چین کی سرزمیں پے اس وقت پیدا ہوئیں جب اطالوی شاید فلسفے کے نام سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔
آگر آپ ہندوستان سے ہٹ کر ایشیائی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو براعظم ایشیاء میں مولانا جلا الدین رومی اور عمر خیام جیسی شخصیات شاعری اور فلسفے کے وہ نادر نمونے پیش کرچکے تھے جن کا اطالیہ میں ابھی تصور بھی نہیں تھا۔FRANCESCO PETRARCA , GIOVANNI BOCCACCIO اور ALLIGHIERI DANTE (فرانچیسکو پترارکا، جووانی بوکاچو، دانتے آلی ایری) جیسے قابلِ ذکر شاعر ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔مسلمانوں نے جب سپین پر آٹھ سال حکومت کی تو انھوں نے اس دوران سسلی پر بھی دو سال حکومت کی۔ نہ صرف سسلی پر بلکہ REGGIO CALABRIA اور VENEZIA(وینیزی آ، ریجو کلابری آ) بھی ان کے زیرِ تسلط رہا۔VENEZIA (وینس)کی مصوری میں عربوں کے لباس اور تہذیب و تمدن کی جھلک نظر آتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یورپ کی نشاۃِ ثانیہ میں مسلمانوں کا بھرپور کردار ہے تو بے جا نہ ہوگا۔سسلی میں شاعری کی بنیاد سن ۱۰۰۰ میں پڑچکی تھی۔ بہت سے مسلمان مفکر جو عربی کے ساتھ ساتھ لاطینی اور اطالوی (جو بعد میں لنگا وا ولگارے lingua vulgareکہلائی) کے بھی ماہر تھے۔انھوں نے نایاب
کتابوں کے اطالوی اور لاطینی میں تراجم کیئے۔ جن میں ریاضی ، الجبرہ،علم الہندسہ، شاعری ، ادب اور تاریخ نمایاں ہیں۔
عبد الرحمن ابنِ محمد البوتیری، بارھویں صدی عیسویں میں سسلی کا مشہور شاعر گزرا ہے ۔ ا س کے علاوہ عبدالرحمن ابنِ رمضان ، مالٹا میں بارھویں صدی عیسویں میں پیدا ہوا اور سسلی میں شاعر کے طور پے نام کمایا۔ عبد الرحمن تراپانوی (TRAPANI) بھی سسلی کا شاعر تھا۔ عبد الرحمن ابنِ ایزرا، سپین کے شہر تولیدو (TOLEDO) میں ۱۰۹۲ میں پید ا ہوا اور ۱۱۶۷میں اس نے روم میں وفات پائی۔عبد الرحمن ایزرا کی تین کتابیں بہت مشہور ہیں جو اس نے اطالوی زبان میں لکھیں۔
۱) LA BILANCIA (المیزان)
۲) IL FONDAMENTO DELLA GRAMATICA (انشاء پردازی کی بنیاد)
۳) FORIDAMENO DEL TIMOR DI DIO (فوری دامینو دل تیمور دی دیو)
اس کے علاوہ ابو ادوع اور ابنِ قلاقس بھی بارھویں صدی کے سسلی کے مسلمان شاعر تھے۔انھوں نے "Il fiori che sorride (ال فیورے کی سوریدے، یعنی پھول جو مسکرائے), Mirando le virt249 di Ibn al Qasim (میراندو لے ورتو دی ابن القاسم) جیسی معروف کتاب لکھی۔الا دریس محمد مراکش کے شہر قیوطی (CEUTE) میں ۱۱۰۰ میں پیدا ہوا اور ۱۱۶۵ میں سسلی کے شہر پلیرموں(PALERMO) میں وفات پائی۔ آپ اپنے وقت کے مشہور جغرافیہ دان تھے، انھوں نے درج ذیل کتابیں لکھیں۔
۱)نظہت المشتاق فی الشتراق الافاق
۲)کتاب الرگیار (ho il libro de re reggero)
اس کے علاوہ ابنِ بشرون بھی سسلی کے مسلمان شاعر تھے۔
دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان ، یونان اور مصر کبھی تہذیب وتمدن ، علم و ادب اور جاہ و حشمت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ پھر یورپ کے جدِ امجد ملک یونان پرعلم وادب کا زوال آگیا۔ پندرھویں صدی عیسویں میں دوبارہ زندہ ہوا اور نشاۃِ ثانیہ کے نام سے جانا گیا۔اس کے بر عکس نہ تو مصر میں نشاۃِ ثانیہ ہوئی اور نہ ہی ہندوستان میں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو چند ایک دفتروں کی صفائی کا کام مل گیا اور کبھی کبھی VITTORIO VENETTO ROAD (وتوریو وینیتو روڈ) پے دوکانوں کے شیشے صاف کردیا کرتا۔ اور داؤد کو LOGGE VASARI (لوگے وزاری)میں پائے جانے ریستورانوں میں سے ایک میں برتن دھونے کا کام
مل گیا۔اس طرح وہ تکمیل بانڈے کے گھر کا خرچہ ادا کرپاتے۔ آدم سوچتا افسانے اور حقیقت میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ ابراہم لنکن اخبار بیچا کرتا تھا اور امریکہ کا صدر بن گیا۔ آدم اٹلی میں دوکانوں کے شیشے صاف کررہا تھا لیکن وہ کبھی بھی پاکستان کا وزیرِ اعظم نہیں بن سکتا تھا۔لنکن کے سامنے ایک مقصد تھا ۔آدم کے سامنے کوئی مقصد نہیں تھا۔آج امریکہ میں ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ اخبار بیچتے ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی امریکہ کا صدر نہیں بن سکے گا۔
دوسری طرف داؤد کا برا حال تھا۔وہ بہت روتا۔ اس کا باپ اسے صرف اتنا کہتا تھا، بیٹا آلو چھولے اور دھی بڑھے مت بیچو نہ ہی گاہکو کے جوٹھے برتن صاف کرو، صرف گاہکوں سے پیسے وصول کرلیا کرو اور حساب کتاب کا دھیان رکھو۔ لیکن داؤد کو گندے استعمال شدہ برتن دیکھ کر گھن آتی تھی۔ ویسے بھی وہ جینز پہن کر اگر ریڑھی پے کھڑا حساب کتاب کرتا تو اس کے کپڑے خراب ہوجانے کا ڈر ہوتا ۔اور اسے یہ بھی ڈر تھا کہ لال کرتی کی لڑکیاں اس پے ہنسیں گی۔ جن کے لیئے وہ بن سنور کے ان کے کالج کے باہر کھڑا ہوا کرتا تھا۔ اور اب وہ کیا کررہا تھا۔ لوگوں کے جوٹھے برتن ہی تو صاف کررہا تھا۔ وہ روز جب برتن دھونے شروع کرتا، اس کی یہی دعا ہوتی کہ آج گاہک کم آئیں۔ برتن کم گندے ہوں۔ لیکن وہ اس بات سے باخبر نہیں تھا کہ اگر گاہک کم ہوئے تو اس کا کام بھی ختم ہوجائے گا۔ اسے کیا پتا تھا
کہ انتظامی امور کیا ہوتے ہیں۔جب کبھی وہ برتن دھوتے ہوئے برتن دھونے والا محلول زیادہ استعمال کرتا، محلول جلدی ختم ہوجاتا۔ ریستوران کا مالک بہت چیختا چلاتا۔ داؤد کو کچھ بھی پلے نہ پڑتا کیونکہ اطالوی قوم میں ایک بڑی عجیب عادت ہے۔ جب غصے کا اظہار کریں گے تو بھرپورانداز میں ، شور کرتے ہوئے، جس طرح لاہور شہر میں گوالمنڈی کے لوگ کرتے ہیں۔ وہ باتوں اور گالیوں سے اپنے مخالف کو
اتنا ڈرا دیتے ہیں کہ ان کا حریف الٹے قدموں بھاگ جاتا ہے۔ شروع شروع میں داؤد کو بہت برا لگتا لیکن بعد میں وہ عادی ہوگیا۔ جس طرح وہ دوسری باتوں کا عادی ہوگیا تھا۔
اطالوی منہ سے کم اور ہاتھوں کے اشارے سے ز یادہ گفتگو کرتے ہیں۔ اسے آپ تمثیلی انداز تصور کرلیجئے یا بد تمیزی کے زمرے میں لے آئیں یہ آپ لا اپنا جانچنے کا پیمانہ ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب بھی لوگ کاغذات جمع کروارہے تھے اور کئی لوگ کاغذات جمع کرواکے ہمسایہ ممالک میں واپس چلے گئے تھے۔مارچ کے اختتام تک کاغذات جمع ہوتے رہے۔۔ اس کے بعد اطالوی حکومت نے مزید کاغذات وصول کرنے بند کردیئے۔
اب دوسرا مرحلہ شروع ہوناتھا۔ جس میں انھوں نے تمام کاغذات کی جانچ پڑتال کرکے لوگوں کو کاغذات دینے تھے۔ یعنی اٹلی میں رہنے کا اجازت نامہ جسے وہ PERMESSO DI SOGGIORNO (پرمیسو دی سجورنو)کہتے ہیں۔
جون کے مہینے میں فہرستیں لگنی شروع ہوئیں۔ بہت سے لوگوں کے نام آئے ۔ لوگ روزانہ کستورے کے باہر اپنے نام دیکھنے جاتے ۔ بہت سے ثبوت جعلی نکلے۔ آدم اور داؤد کی بھی بد قسمتی تھی انھیں پاسپورٹوں کی فوٹو کاپیوں اور نئے ثبوتوں کے ساتھ پیش ہونے کو کہا گیا کیونکہ ان کے ثبوت بھی جعلی نکلے۔
جس کو جو بھی خبر ملتی کہ فلاں جگہ سے ثبوت مل رہا ہے ، وہاں پہنچ جاتا۔ ہندو، سکھ،مسلمان ، سب ہی مذھبی پابندیوں کو بھول کر جہاں سے بھی ثبوت ملتا چلے جاتے۔CARITAS (کاریتاس، یعنی ایک رفاہی ادارہ جو عیسائیوں کے چرچ کے زیرِ اثر کام کرتا ہے) کا ثبوت سب سے زیادہ قابلِ قبول تھا۔ اس کے بعد اریزو شہر کے جتنے بھی پادری تھے ان کے رجسٹروں میں اندراج پایا جانا ثبوت مانا جاتا تھا۔جعلی قسم کے ثبوت تو کستورے والے لوگوں کے سامنے ہی پھاڑ دیا کرتے اور کہتے جاؤ دوسرا ثبوت لے کر آؤ۔
جب مسلمان ، گرجوں میں جاکر پادریوں سے ثبوت کی بھیک مانگتے ، تو اس وقت وہ یہ بالکل بھول جاتے کہ یہ پادری حضرت عیسیٰ کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں۔عیسائی شراب پیتے ہیں یہ لوگ نیم برہنہ بلکہ کچھ جگہوں پے تو بالکل برہنہ گھومتے ہیں۔ انھیں کبھی بھول کر یہ خیال نہ آتا کہ ان کے اس عمل سے نہ صرف پاکستان کا بلکہ پورے عالمِ اسلام عیسائیت کے سامنے جھک رہا ہے۔قیامت والے دن ہمارے پیغمبر کا سر ان کے پیغمبر کے سامنے جھک جائے گا۔ جیسے ہی لوگوں کو PERMESSO DI SOGGIORNO (پرمیسو دی سجورنو) یعنی رہنے اور کام کا اجازت نامہ ملتا وہ پھر اپنے پرانے فلسفے پر واپس آجاتے۔ یہ خنزیر کھانے والی قوم ہے اس کا کیا اعتبار۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل بانڈے نے سب کو یہی یقین دلایا کہ سب کو کاغذات ملیں گے ۔ آدم اور داؤد نے جو ثبوت جمع کروائے تھے وہ PRONTO SCORSO(پرونتو سکورسو) یعنی ابتدائی طبی امداد کے ادارے کے تھے۔ ان کی بد قسمتی تھی کی یہ ادارہ سارا COMPUTERIZED (کمپیوٹرائزڈ)
ہوچکا تھا۔اس لیئے پولیس کی جانچ پڑتال میں یہ ثبوت جعلی نکلے۔ تکمیل بانڈے نے دونوں سے کہا روم میں ایک آدمی ہے جو ثبوت بیچتا ہے۔ تقریباً ۵۰۰ پانچ سو ڈالر لیتا ہے۔ تم لوگوں کو ایک دفعہ کاغذات مل گئے تو ایسے کئی پانچ سو ڈالر کمالو گے۔کاغذات بہت بڑی چیز ہیں۔
جب کاریتاس اور گرجوں کے ثبوت بہت زیادہ آنے لگے تو پولیس نے وہاں چھاپا مارا اور ان کے تمام رجسٹر اٹھالیئے۔ اب یہ سلسلہ بھی بند ہوگیا ۔آدم اور داؤد کو اندھیرا نظر آنے لگا۔ ان کے ساتھ ساتھ کستورے نے بہت سے لوگوں کو نوٹس جاری کیا کہ ان لوگوں پر جھوٹا ثبوت پیش کرنے کا الزام لِہذٰا پندرہ دن کے اندر اندر آپ اٹلی چھوڑدیں۔ دوسری صورت میں اپیل کرسکتے ہیں، جو وکیل کے ذریعے کی جاسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دونوں کے پاس پیسوں کی شدید قلت تھی۔ وہ وکیل کی فیس کہاں سے ادا کرتے۔ وہ گھر والوں کو مزید پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ان کے والدین اور عزیز و اقارب یہی سمجھتے تھے کہ ان کے بچے یورپ میں پیسہ کما نے گئے ہوئے ہیں۔ دونوں نے ادھار وغیرہ لے کر وکیل کے ذریعے اپنی اپنی اپیل داخلِ دفتر کردی۔ اس دوران آدم کو کھیتوں میں کام مل گیا۔ صبح سورج نکلنے سے پہلے یہ لوگ کھیتوں میں تربوز توڑنے چلے جاتے۔ یہ تربوز پاکستانی تربوزوں کی طرح ہلکے نہ ہوتے بلکہ دس سے پندرہ کلو کے ہوتے اور کبھی کبھی بیس کلو کے بھی آجاتے۔ روز کھیتوں میں دیر تک کام کرتے۔ آدم کو تربوزوں کے کھیتوں میں کام کرنے کی اتنی عادت پڑگئی کہ وہ خواب میں بھی تربوز دیکھتا۔ وہ یہ سب کچھ اس لیئے کررہا تھا کہ جب سجورنو ملے گی (رہنے اور کام کرنے کا اجازت نامہ) تو کوئی بہتر کام تلاش کرلے گا۔ دوپہر کو کھانے کا وقفہ ہوتا۔ جس کسان کے لیئے وہ کام کرتے تھے وہ انھیں وقفے کے دوران گھر لے جاتا۔
ایک بہت بڑی میز پر کھانا چن دیا جاتا۔ پاستا (pasta) سلاد، گوشت، شراب،پانی اور دیگر اشیاءِ خورد و نوش چنی ہوئی ہوتیں۔آدم نے کافی عرصے سے مسجد کی شکل نہیں دیکھی تھی لیکن اس کے باوجود نہ وہ شراب پیتا نہ ہی سؤر کھاتا۔ جتنی دفعہ بھی یہ لوگ کھاناکھانے جاتے یہ سوال ضرور اٹھتا کہ مسلمان سؤر کیوں نہیں کھاتے۔آدم اطالوی زبان سے ناواقف تھا۔ ان کو بیان نہ کرپاتا۔ لیکن اس کے ساتھ دوسرے پاکستانی سؤر کا گوشت تو دور کی بات اس کا نام لینا بھی گناہ سمجھتے لیکن کھانے کے دوران وائن(wine) کا استعمال اس طرح کرتے جس طرح پانی ۔کسانوں کو اور اْن کے افرادِ خانہ کو موقع مل جاتاکہ شراب بھی تو تمھارے مذھب میں حرام ہے۔دوسرے پاکستانیوں کے کان پر جو تک نہ رینگتی لیکن آدم کا سر شرم سے جھک جاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست کے آغاز میں تربوز وں کاکام ختم ہوچکا تھا،لیکن توریاں توڑنے کام شروع ہو چلا تھا۔ آدم کو توریاں توڑنے کا کام بالکل مشکل نہ لگا کیونکہ وہ یونان میں پھولوں کے کھیتوں میں اس طرح کی ریڑھی کے ساتھ کام کرچکا تھا۔ صبح سارے لڑکے توریاں توڑنے کا کام کرتے اور وقفے کے بعد آڑو توڑنے کا کام۔
جوں جوں دن گزر رہے تھے نئی نئی چیزیں دیکھنے میںآرہی تھیں۔ آئے دن کسی نہ کسی کو سجورنو ملتی ، کوئی پاکستان جانے کی تیاری کرتا ، کوئی جرمنی اور کوئی فرانس لیکن آدم اور داؤد کی قسمت ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔وہ دونوں وکیل کے جواب کا انتظار کررہے تھے، جیسے ہی وہ کوئی خوش خبری سنائے وہ اس کرب سے نجات پائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
VIA GUIDO MONACO (وی گوئیدو موناکو) کے بالکل سامنے PETRARCA THEATRE (پترارکا تھیٹر) کے سامنے CAFFE DELL TEATRO (کیفے دل تی آترو)تھی۔ اس کے مالکان دو جوان لڑکا ،لڑکی تھے۔ آدم کی ان سے دوستی ہوگئی۔ جب بھی وہ کبھی پریشان ہوتا، یہاں آجاتا۔ یہاں سے CAPPUCCINO (کپوچینو، کافی میں دودھ کی زیادہ آمیزش سے ایک محلول بنتا ہے اسے کپوچینو کہتے ہیں)بھی پیتا اور گب شب بھی لگاتا۔ ANDREA (آندریا ) اور PAPINI(پاپینی)دونوں نہ صرف
خوبصورت تھے بلکہ اعلیٰ اخلاق کے مالک بھی تھے۔آدم جیسے ہی ان کی کیفے میں قدم رکھتا وہ اس کو پاکستانو کے نام سے پکارتے اور آدم کو روحانی خوشی ملتی، کیونکہ یورپی ملکوں میں زیادہ تر ASIANS(ایشیئنز) کو انڈین ہی سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ آدم نے ان دونوں کو پاکستان کے بارے میں مفصل بتایا تھا۔ نہ صرف ملک کے بارے میں بلکہ شاعری اور ادب کے بارے
میں بھی۔یورپیئن لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ انڈیاء، پاکستان میں بہت غربت ہے۔ لوگ وہاں بھوک سے مررہے ہیں۔سڑکوں پر سوتے ہیں۔حالانکہ ایشیائی ممالک کا سب بڑا مسئلہ آبادی ہے۔جس دن وہ آبادی کے مسئلے پر قابوں پا لیں گے ، ان کے آدھے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے۔
آدم اکثر ANDREA (آندریا) سے پوچھتا تمھارا غیرملکیوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔ وہ یہی کہتا میں چونکہ اس کیفے کا مالک ہوں۔ میرے نزدیک جو شخص کھانے پینے کے پیسے ادا کرتا ہے وہ میرا گاہک ہے ۔بھلے وہ پاکستانی ہو ، البانوی ہو یا اطالوی۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں تعصب پسند نہیں ہوں۔ میں خود پہلے فرانس میں کام کرتا تھا۔ وہاں سے جو پیسہ کمایا میں نے اور میری دوست نے مل کر یہ کیفے کھول لی۔ کچھ بینک نے قرضہ دیا۔ تعصب پسند تو و ہ لوگ ہیں جنھوں نے دوسرے ممالک کا سفر نہیں کیا ، حتیٰ کہ سیر کی غرض سے بھی کبھی باہر نہیں نکلے۔ وہ یہی سوچتے ہیں کہ غیر ملکی ہماری روٹی چرا کر لے جائیں گے۔ جب ہم لوگ دوسرے ملکوں میں کام کرنے جاتے ہیں تو وہ بھی ہمارے بارے میںیہی سوچتے ہونگے کہ اطالوی ہماری روٹی چرانے آگئے ہیں۔
ایک دن آدم ،ANDREA آندریا)سے پوچھ بیٹھا کہ، ’’اٹلی اور دیگر یورپیئن ممالک امیگریشن کیوں کھولتے ہیں۔ اگر اطالوی یہ سوچتے ہیں کہ غیرملکی ہماری روٹی اور نوکریاں چرانے آگئے ہیں‘‘۔ آندریا کہنے لگا، ’’اس کی بڑی خاص وجہ ہے۔ دوسرے یورپی ممالک کا تو مجھے تفصیلاً نہیں پتا لیکن اٹلی کے بارے میں،میں تمھیں بتا سکتا ہوں۔قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اٹلی کی آبادی جس شرح سے بڑھنی چاہیئے اس شرح سے نہیں بڑھ رہی۔ دوسر ی جنگِ عظیم کے بعد بے شمار اطالوی ہجرت کرکے غیر ممالک کو چلے گئے۔ ان میں زیادہ تر وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اٹلی کی شرح اموات اور شرح پیدائش میں توازن نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق اٹلی نے اگر امیگریشن کے قوانین میں نرمی نہ کی تو اٹلی کی آبادی آنے والے دور میں گھٹ کر اتنی کم ہوجائے گی کہ انھیں افرادی قوت کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ اس لیئے اٹلی گاہے بگاہے غیر قانونی طور پے مقیم لوگوں کو قانونی حق دیکر اپنے اس مسئلے کو حل کرتا
ہے۔ اس کے علاوہ پڑھے لکھے اٹالین کھیتوں میں کام کرنا پسند نہیں کرتے ۔اس طرح کی چھوٹی چھوٹی نوکریاان کی شان کے خلاف ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اس کے باوجود لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی روٹی چرانے آئے ہیں‘‘۔آدم کو پھر refugee blues (ریفیوجی بلوز) کا شعر یاد آگیا۔
come to the public meeting, the speaker got up and said
if we let them in they will steal our daily bread
he was talking of you and me, my dear,
he was talking of you and me.
w.h.auden
’’وہ لوگوں کے اجتماع میںآیا۔سپیکر نے کہا،
اگر ہم نے انہیں آنے دیا تو یہ ہماری روٹی چرالیں گے
وہ میری اور تمھاری بات کررہا تھا ،میرے پیارے
وہ میری اور تمھاری بات کررہا تھا‘‘
ڈبلیو ایچ آوڈن)
آدم نے جیسے ہی کہا، he was talking of you and me (وہ میری اور تمھاری بات کررہا تھا) تو ایک محترمہ جو پاس ہی بیٹھی تھیں کہنے لگیں، ’’auden (آوڈن) کی یہ نظم بہت اچھی ہے، کیا آپ نے اس کی نظم unknown citizenغیرمعروف شہری) پڑھی ہے‘‘۔
آدم کو اپنی سماعت پے یقین نہیں آرہا تھا۔ اریزو چھوٹا سا شہر ہے ۔ یہاں کم لوگ انگریزی جانتے ہیں۔اگر جانتے بھی ہیں تو بولنا پسند نہیں کرتے۔ اس کے علاوہ کچھ لوگوں کو فرنچ زبان آتی ہے۔آدم نے خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ جواب دیا،’’ہاں، یہ میرا پسندیدہ شاعر ہے۔ ویسے میں CHARLES BUADELAIR اور PAUL VERLAIN (شالس بودلیغ اور پال ویغلین)کو بھی پسند کرتا ہوں‘‘۔
محترمہ، ’’آپ کہاں کے رہنے والے ہیں‘‘۔
آدم کو بالکل ایسا لگا، جیسے کوئی کہہ رہا ہو، پچھو کتھو دے او۔ خیر اس جھٹ سے جواب دیا، ’’ میں پاکستانی ہوں اور آپ؟‘‘
محترمہ، ’’ اؤ! میں ۔۔۔۔۔۔۔میں اٹلی سے تعلق رکھتی ہوں۔میں ہوں تو اطالوی لیکن میری پیدائش انگلستان کی ہے‘‘۔
آدم، ’’آپ کب اٹلی آئیں‘‘۔
محترمہ،’’یہی کوئی بیس سال پہلے‘‘۔
آدم نے تعارف کرواتے ہوئے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا، ’’میرا نام آدم خان چغتائی ہے‘‘۔
اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’ میرا نام MASSARA CINCIRA (ماسارا چن چیرا)ہے‘‘۔
ّآدم نے کہا، ’’آپ کا نام اطالوی لوگوں سے بہت مختلف ہے‘‘ ۔ تو کہنے لگی ، ’’اصل میں میرے آباواجداد CATANZARO (کاتن زارو) سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ لوگ ہجر ت کر کے انگلستان چلے گئے
تھے۔ میرے والدین اور میں، ہم لوگ واپس اٹلی آکر سکونت پذیر ہوگئے ہیں۔ ویسے اطالوی لوگ اسے آدھا دن بھی کہتے ہیں۔ NAPOLI (NAPLES) (ناپولی) سے لیکر REGGIO CALABRIA (ریجو کلابری آ)تک‘‘۔
آدم ،’’آپ یہاں کام کرتی ہیں‘‘۔
مسارا، ہاں، میں یہاں انگریزی ادب پڑھاتی ہوں۔اور آپ آدم‘‘؟
آدم،’’میں پاکستان میں فلسفے کا طالبِ علم تھا۔اب یہاں ہوں‘‘۔
مسارا،’’آپ یہاں بھی پڑھ رہے ہیں‘‘۔
آدم، ’’نہیں میں یہاں نہیں پڑھ رہا ، حالانکہ میں چاہتا ہوں‘‘۔
مسارا، ’’میں پوچھ سکتی ہوں کیوں‘‘؟
آدم، ’’کیونکہ میں اپنے کاغذات کا انتظار کررہا ہوں‘‘۔
مسارا، ’’اچھا اب سمجھی۔لیکن آپ اطالوی زبان کے سکول میں تو داخلہ تو لے سکتے ہیں۔ CENTRO DI ASCOLTO ( چنترو دی اسکولتویعنی آپ کی آواز سننے والا ادارہ، ایک رفاہی ادارہ) میں جاکر فارم بھر یں۔ستمبر میں کلاسیں شروع ہونگی‘‘۔
آدم بڑا حیران ہوا۔ اسے کسی نے بتایا ہی نہیں تھا۔کہ وہ اطالوی زبان سیکھ سکتا ہے۔سکول جاسکتا ہے۔ اسے تو پتا ہی نہیں تھا کہ CENTRO DI ASCOLTO (چنترو دی اسکولتو)کس چیز کا
نام ہے۔، اسے صرف پرونتو سکورسو کا پتا تھا یا اریزو کے گرجوں کا۔ جہاں سے ایجنٹوں کو ثبوت ملنے کی امید ہوتی۔
آدم، ’’بد قسمتی سے میرا کوئی رابطہ نمبر نہیں لیکن میں یہاں اکثر آتا ہوں۔ آندریا میرا اچھا دوست ہے‘‘۔
مسارا، ’’آپ میرا نمبر لکھ لیجئے۔ آپ چاہیں تو مجھے فون کرسکتے ہیں‘‘۔
ابھی وہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ VIA GUIDO MONACO (وی آ گوئیدو موناکو) سے چند پاکستانی گزرے۔ آدم کو پہچانتے ہوئے کہنے لگے، ’’کتھوں پھڑی آ۔ سانوں وی لے آدے‘‘۔ ان میں سے ایک نے کہا، ’’ویکھو بھئی کاغذ وی نئی تے گوری پھسا لیئی اے۔ چْک کے رکھ کم نو‘‘۔
آدم سر سے پاؤں تک شرم سے پانی پانی ہوگیا،کیونکہ مسارا ان لوگوں کو مسکرا کر CIAO (چاؤ، اطالوی زبان میں سلام کو کہتے ہیں)کر رہی تھی۔اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ وہ لوگ اس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہیں، پوچھنے لگی، ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں‘‘۔
آدم نے جھوٹ موٹ جواب دیا،’’سلام دعا کررہے ہیں‘‘۔ لیکن وہ ان کے چہروں کو دیکھ کر جان گئی تھی کہ انھوں نے کوئی اچھی بات نہیں کی تھی۔ اسی لیئے آدم بغلیں جھانک رہا تھا۔ بالکل اس طرح جیسے کھسیانی بلی کھمبا نوچے۔آدم نے فون نمبر رکھ لیا اورCAPPUCCINO (کپوچینو) کے پیسے دینے کے لیئے اٹھا تو مسارا نے روک دیا اور کہنے لگی، ’’پیسے میں دونگی ‘‘۔ پیسے ادا کر کے اس نے آدم کو خدا حافظ کہا اور فون کرنے کی تاکید کی ۔دونوں نے اپنی اپنی راہ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام کو سارے اریزو کو پتا چل چکا تھا کہ آدم ایک لڑکی کے ساتھ CAFFEE DELL TEATRO (کیفے دل تی آترو) میں خوش گپیوں میں مصروف تھا۔ اس نے داؤد کو بتایا کہ’’ آج اسے ایک بڑی اچھی محترمہ ملیں۔ انھوں نے سکول کے بارے میں بتایا ۔ اگر ہمیں یہاں رہنا ہے تو یہاں کی زبان ضرور سیکھنی چاہیئے‘‘۔ داؤد کو ویسے بھی پڑھنے لکھنے سے چڑ تھی۔ اس نے کہا،’’چھوڑو یار ،ہم لوگ یہاں پڑھنے لکھنے تھوڑی آئے ہیں۔محنت مزدوری کرنے آئے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا،فرض کرو، اگر کاغذ مل جاتے ہیں۔ اگر ہمیں زبا ن آتی ہوگی ۔ہمیں یہاں رہنے میں آسانی ہوگی۔ یہاں کے سرکاری دفتروں میں جانے کے لیئے ہمیں کسی کی منت سماجت نہیں کرنی پڑے گی۔ قدم قدم پے ہمیں زبان کی ضرورت پیش آئے گی‘‘۔
آدم نے زبان سیکھنے کے موضوع پر اتنا خوبصورت لیکچر دیا کہ داؤد نہ ، نہ کہہ سکا۔ دونوں نے CENTRO DI ASCOLTO (چنترو دی اسکولتو) میں داخلے کے لیئے درخواستیں جمع
کروادیں۔ انھوں نے وکیل کے کاغذ کی فوٹو کاپی رکھ لی اور کہا ،’’خط لکھ کر اطلاع دیں گے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تکمیل بانڈے کو جب لڑکی والی بات پتا چلی تو اس کی اصلیت کھل کر سامنے آگئی۔ رات کو جب سب لوگ کھانا کھانے کے لیئے بیٹھے تو وہ بول پڑا۔آدم کو سو فیصد یقین تھا کہ وہ اس کے بارے میں بات کرے گا، ’’او جی یہاں لوگوں کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں آئے ۔ کاغذ بھی نہیں اور مہنگی مہنگی باروں
(bars) (بار)پے گوریوں کے ساتھ کافیاں پیتے ہیں۔ یہ گوریاں سٹیشن پے چھوڑ کے چلی جاتی ہیں۔ جب دل اکتاء جائے تو دوسرا ڈھونڈ لیتی ہیں اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اٹالین پاسپورٹ مل جائے گا۔ ایسا نہیں ہوتا۔ یہ اٹالین ہیں۔ اپنی پرانی جوتیاں بھی نہیں پھینکتے، لڑکی تو دور کی بات ہے‘‘۔ آدم اور داؤد چپ کر کے سنتے رہے کیونکہ دونوں کی صورت حال پیچیدہ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم جب بھی باہر جاتا ۔ سب پوچھتے گوری پھنسا لی ہے۔تیل پانی بدلی کرتے ہو کہ نہیں۔اگر نہیں تو کیا، تو کر گزرو۔ ایسے موقعے بار بار نہیں ملتے۔ ویسے اگر پیپر میرج کے لیئے مان جائے تو اچھی بات ہے۔ جب تمھارا کام بن جائے تو چھوڑ دینا۔
آدم لوگوں کی باتیں سن کر حیران و پریشان ہوتا۔ اسے ایک دفعہ لڑکی کے ساتھ دیکھ کر اتنا بڑا سکینڈل بنایا گیا۔ اگر حقیقت میں وہ کسی گوری یا اطالوی سے شادی کرلے تو پھر نہ جانے کیا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کورسو اطالیہ، اریزو شہر کی جان ہے۔ نہ صرف ا ریزو میں بلکہ پورے اٹلی میں کورسو اطالیہ نام کا بازار یا گلی پائی جاتی ہے۔یہاں روزانہ شام کو آٹھ سے پہلے پہلے لوگوں کی بھیڑ رہتی ہے۔ خاص کر جمعے اور ہفتے کی شام ،یہاں لوگوں کا جمِ غفیر ہوتا ہے۔
کورسو اطالیہ کے بالکل آغاز میں بینک ہے۔ اس کے دونوں اطراف میں مختلف قسم کی دوکانیں ہیں۔جن میں SASCH, SERGIO TACCHINO, ULTIMO, BATA, BERSO, CARTA CHIC, UINTED COLOURS OF BENETTON (ساش،سرجو تاکینی،التیمو،باٹا، بیرسو، کارتا چک،یو نائیٹڈ کلرز آف بینٹن) اور چند عدد کیفیز ۔مزید آگے آئیں تو PIEVE SANTA MARIA (پے وے سانتا ماریا)کی خوبصورت عمارت شروع ہوجاتی ہے۔ یہ اریزو شہر کا سب سے پہلا گرجا ہے۔
اس کی پچھلی طرف PIAZZA GRANDE (پی آتسا گراندے)ہے۔ اگرآپ مزید آگے چلتے چلیں جائیں تو آپ کو PALAZZO PRETORIA (پلاتسو پریتوری آ) نظر آئے گی۔ اس عمارت کو آجکل لائبریری کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی بیرونی دیوار پر ہر بادشاہ کا سرکاری نشان نصب ہے۔ بالکل درمیان میں سب سے بڑا نشان MEDICI (میدیشی) دور، حکومت کا insigna (انسینیایعنی امتیازی نشان) ہے۔اسی کتب خانے سے ملحق اریزو کے شاعر FRANCESCO PETRARCA (فرانچیسکو پترارکا) کا گھر ہے۔
کورسو اطالیہ میں نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ،خوبصورت کپڑوں میں ملبوس ، سرخی و غازے کا نقاب اوڑھے نیچے سے اوپر اور اوپر سے نیچے کی طرف آتے ہیں۔ یہی ان کی سب سے بڑی تفریح ہوتی ہے۔ہر لڑکا ،لڑکی خود کو GUCCI, ROBERTO CAVALLI, PRADA, ARMANI, VERSACE اور MOSCHINO (گوچی، روبیرتو کوالی، پرادا، موسکینو،آرمانی، ورساچی)کا ماڈل تصور کرتا ہے۔ کورسو اطالیہ میں سب سے منفرد دوکانیں SUGAR (شگر) والوں کی ہیں۔ یہ لوگ WINDOW DESIGNING(ونڈو ڈیزائیننگ) میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔
آدم اور داؤد بھی کورسو اطالیہ میں چہل قدمی کررہے تھے ۔چلتے چلتے آدم کی نظر اچانک مسارا پر پڑی۔ اس نے دیکھتے ہی CIAO, CIAO(چاؤ، چاؤ) کہا۔ وہ بھی آدم کو دیکھ کر خوش ہوئی۔ اس نے پاس آکرآدم کے دونوں گالوں کو چوما اور پھر ہاتھ ملایا۔ آدم ، داؤد کی موجودگی میں جھینپ گیا۔جیسے اچانک کسی نے حملہ کردیا ہو جس کے لیئے وہ تیار نہیں تھا۔ آدم نے اپنی خفت مٹانے کے لیئے داؤد کا تعارف کروایا، ’’داؤد۔۔۔۔۔۔۔۔مسارا،مسارا۔۔۔۔۔۔۔داؤد‘‘۔ مسارا نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’ piacere" " (پیا چیرے،یعنی آپ سے مل کر خوشی ہوئی)اور کہنے لگی،’’آدم میرے خاوند سے ملو GIUSEPPE ROSSI(جوزپے روسی) ‘‘۔ آدم نے آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا۔داؤد نے خالی خولی CIAO (چاؤ) کہا۔آدم نے کہا، ’’اس طرح کیوں نہ کیا جائے ، کہیں بیٹھ کر کچھ پیا جائے‘‘۔ مسارا نے کہا،’’پھر کبھی سہی ۔ اس وقت ہم ذرا جلدی میں ہیں۔ آپ نے فون نہیں کیا‘‘۔
آدم ، ’’ میں فون کرنا چاہتا تھا۔لیکن ذرا مصروف تھا‘‘۔ دونوں خدا حافظ کہہ کر چلتے بنے۔آدم چلتے چلتے رک گیا،( کیونکہ دونوں ونڈو شاپنگ کررہے تھے۔) اور SASCH (ساش )کی شیشے والی کھڑکی میں لگے کپڑے دیکھنے لگا۔ اس نے داؤد سے کہا، ’’اندر چل کے دیکھتے ہیں‘‘۔ داؤد نے کہا،’’یار مہنگے ہوں گے اور ویسے بھی ہمارے پاس کاغذ نہیں ‘‘۔ آدم کو بہت غصہ آیا اور کہنے لگا،’’تو کیا جن لوگوں کے پاس کاغذ نہیں ہوتے وہ اچھے کپڑے دیکھ بھی نہیں سکتے۔ ان کی کوئی خواہش ،کوئی ارمان نہیں ہوتا؟ کیا ان کا سانس لینا اور زندہ رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ہم کون سا خریدنے جارہے ہیں۔ صرف دیکھیں گے ہی‘‘۔ وہ دونوں جیسے ہی دوکان میں داخل ہوئے۔ دوکان دار کے کان کھڑے ہوگئے۔ دوکان میں ٹی وی لگا ہوا تھا۔ جس میں دوکان کے تمام فلورز اور حصے نظر آرہے تھے کہ کہاں ، کس منزل پے کیا ہورہا ہے۔ وہ دونوں دوسری منزل پے پہنچ گئے۔ وہاں ایک منحنی سی محترمہ کھڑی تھی۔ اس نے اٹالین میں کچھ کہا ۔ دونوں کے پلے کچھ نہ پڑا۔ آدم نے حسبِ عادت کہا، "I speak english" (میں انگریزی بولتا ہوں) اتنا سننا تھا کہ وہ چلی گئی۔ آدم نے ایک ٹی شرٹ پسند کی ۔ نیچے کاونٹر پے آکے پیسے دیئے۔ دوکان والے نے ترچھی نظر سے ان کو
دیکھا ، بقیہ پیسے اور رسید ان کے ہاتھ میں تھما دی۔
جب دونوں گھر پہنچے تو سب کی نظر تھیلے پر تھی۔ سب نے مل کر کہا،’’کیا لائے ہو‘‘۔ آدم نے کہا،’’ٹی شرٹ‘‘۔ آدم نے تھیلے سے نکال کر دکھائی۔ٹی شرٹ دیکھتے ہی سب کہنے لگے، ’’یہ کیسی ٹی شرٹ ہے۔ یہ تو دونمبر (مخنث) پہنتے ہیں‘‘۔ آدم بڑا پریشان ہوا۔ یہ سب کیا ہے۔ لالہ بشیر بولا، ’’کتنے میں لائے ہو‘‘۔ آدم نے کہا،’’تیس ملے، تقریباًپندرہ ڈالر کی ہوگی‘‘۔ قیمت سنتے ہی لالہ بشیر کہنے لگا، ’’اتنی مہنگی، تمھیں پتا ہے، باؤ آدم ، کورسو اطالیہ میں جو دوکانیں ہیں، وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ ہم لوگ یہاں مزدوری کرنے آئے ہیں۔ تم لوگوں کے پاس ابھی کاغذ بھی نہیں۔ تمھیں اگر بہت شوق ہے تو ہر ہفتے کو بازار لگتا ہے۔ وہاں سے خرید لیا کرو۔ یہ دیکھو میں بنیان لایا ہوں۔ اس طرح کی ایک اور بھی ہے۔ پچاس ملے کی دو،تقریباًپچیس ڈالر‘‘۔ آدم بڑا حیرا ن ہوا۔ میری ٹی شرٹ اور لالے بشیر کی بنیان میں پانچ ملے کا فرق ہے ۔لیکن لالے نے اسے پورا خطبہ سنا دیا۔
تکمیل بانڈے کو نہ جانے کیا ہو گیا تھا۔ اسے آدم اور داؤد ایک آنکھ نہ بھاتے ۔ اس کی یہی خواہش تھی کہ یہ دونوں یہاں سے چلے جائیں، لیکن وہ صاف لفظوں میں انھیں کبھی نہ کہتا۔ منافقت اس میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔اس کا فلسفہ تھا کہ انسان کو اتنا ذلیل کرو کہ وہ خود بھاگ جائے، تانکہ کسی کی بات نہ سننے نہ پڑے کہ بانڈے نے کسی کو گھر سے نکال دیا ہے۔ وہ ان کو سنانے کے لیے بولتا رہتا، ’’لوگوں کے پاس کاغذ بھی نہیں۔ گوریوں کے ساتھ کافیاں پیتے ہیں وہ بھی مہنگی مہنگی باروں پر اور اب تو کورسو اطالیہ کی مہنگی دوکانوں سے کپڑے بھی خریدتے ہیں۔ خود کو اٹالین تصور کرتے ہیں۔ ہمارا اور ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔ یہ لوگ صرف اپنے لیئے کام کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کو پیچھے والوں کا بھی سوچنا پڑتا ہے۔ہم اگر ایک ماہ خرچہ نہ بھیجیں تو پاکستان میں ہمارے ماں باپ اور بہن بھائی پریشان ہوجائیں۔ ہم لوگ پردیس میں اْنھیں کے لیئے تو مصیبتیں جھیلتے ہیں تانکہ وہ پرسکون زندگی گزار سکیں۔ ویسے بھی ہم لوگ یہاں آتے ہی مزدوری کرنے کے لیئے۔کپڑوں کا کیا پھٹ ہی جاتے ہیں۔ میں تو جرابیں بھی نہیں خریدتا‘‘۔ داؤد اس کی باتیں اس طرح سنتا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں لیکن آدم کے دل میں اس کی باتیں ایسے اترتیں جیسے کوئی قطرہ قطرہ کرکے تیزاب اس کے دل میں گرا رہا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھیتوں میں کام کرتے کرتے آدم کا رنگ کالا ہوگیا تھا۔ اور وہ اس امید پے کام کررہا تھا کہ سجورنو مل جائے گی تو کوئی بہتر کام کرلے گا۔ آدم اور داؤد نے سکول بھی جانا شروع کردیا تھا۔ شروع شروع میں طالبِ علموں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جن میں لڑکیاں اور لڑکے سب شامل تھے۔ رومانیہ، البانیہ، ہنگری، بنگلہ دیش، پاکستان، انڈیا، چیچنیاء اور قازقستان۔ ان تمام ملکوں کے لوگ زبان سیکھنے آتے۔ کچھ لڑکے ، لڑکیوں کے چکر میں بھی سکول آنے لگے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ان کی تعداد گھٹتی گئی اور اتنی گھٹ گئی کہ صرف چند لوگ رہ گئے۔ داؤد نے بھی چند دن پڑھائی کی اور چھوڑ دیا۔ آدم بڑے شوق سے پڑھتا رہا۔اب وہ اتنی اٹالین سیکھ گیا تھا کہ دوسروں کو اپنی بات سمجھا پاتا، کیونکہ اٹالین زبان کی گرامر فرنچ زبان
سے ملتی جلتی تھی۔ اس لیئے آدم کو اٹالین سیکھنے میں زیادہ دقت محسوس نہیں ہورہی تھی۔
آدم گاہے بگاہے، مسارا کوفون کردیا کرتا اور اسی طرح دن گزرتے رہے۔اس کے ساتھ رہنے والے یہی سمجھتے رہے کہ آدم کی معشوقہ ہے۔ آدم نے کئی دفعہ اْن کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی اوربتایا کہ وہ شادی شدہ ہے۔ اگر شادی شدہ نہ بھی ہوتی تو جسمانی تعلق والی بات نہیں۔ اس کا تعلق تو باہمی رضا مندی سے ہوتا ہے۔ جب تک کسی لڑکی کی مرضی نہ ہو آپ اس سے جسمانی تعلق کبھی قائم نہیں کرسکتے۔ لیکن یہ بات کسی کی عقلِ سلیم میں کبھی نہ آتی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دسمبر کے مہینے میں جیسے جیسے کرسمس قریب آرہی تھی اریزو میں رونق بڑھ رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس چھوٹے سے شہر کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا۔ لیکن آدم اور داؤد کی نہ کرسمس تھی نہ ایسٹر۔نہ ہی عید، بقر عید۔ ان کے پاس کاغذ نہیں تھے۔ آدم کا دل تو ویسے ہی بجھا سا رہتا۔ بقول شاعر،
’’ شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہو گویا چراغ مفلس کا‘‘
میر تقی میرؔ
آدم نے کرسمس سے چند دن پہلے مسارا کو فون کیا کہ اِس نے اْن کے لیئے کرسمس کا تحفہ خریدا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ آدم نے کہا،’’میں آپ تک یہ تحفہ کس طرح پہنچا سکتا ہوں‘‘۔ اس نے کہا،’’کل میں اپنے خاوند اور بچوں کے ساتھ اریزو آرہی ہوں۔ میرے خاوند کے موبائیل پے تم فون کر دینا۔ اس طرح ہم جگہ کا تعین کرلیں گے‘‘۔ آدم کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس نے لوگوں سے سن رکھا تھا کہ یورپیئین تعصب پسند ہوتے ہیں اور مسارا بالکل مختلف تھی۔
اگلے دن اس نے مسارا کے خاوند جوزپے کے موبائیل پے فون کیا۔ انھوں نے اسے CAFFE DEI COSTANTI (کیفے دائی کوستانتی)کے پاس آنے کو کہا۔ یہ اریزو کی مشہور کیفے ہے۔ اس کے سامنے SAN FRANCESCO CHURCH (سان فرانچیسکو
چرچ) ہے ۔جس کے اندر PIERO DELLA FRANCESCO (پی ئیرو دالا فرانچیسکو) نے اپنی فریسکوز بنائیں۔ کونے میں کتابوں کی دوکان PELLIGRINI (پیلی گرینی) ہے۔ کیفے کے بالکل ساتھ فائن آرٹ کی دوکان TI FRASCHET (فراسکیتی)ہے۔
آدم تحفہ لے کر وہاں پہنچا۔ اس کے ہاتھ سے تحفہ لے کر وہ دونوں بڑے خوش ہوئے۔ آدم کو کافی کا پوچھا، آدم نہ ، نہ کرسکا۔ پھر بڑی اپنائیت سے مسارا کہنے لگی، ’’ہم لوگ تمھیں کرسمس کے کھانے پے مدعو کرنا چاہتے ہیں۔ میرے والدین کے گھر(مسارا نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)۔ وہاں تم میرے پورے خاندان سے ملو گے۔ میری بہنیں، والد، والدہ اور باقی سب سے بھی‘‘۔
آدم کو یہ سن کر اپنے کانوں پے یقین یہ آیا اور کہنے لگا،’’ہاں ہاں میں ضرور آؤں گا لیکن مجھے پتا نہیں کہ آپ کہاں رہتی ہیں‘‘۔
مسارا، ’’تم اس کی فکر مت کرو۔ ہم تمھیں لینے آجائیں گے اور چھوڑ بھی جائیں گے‘‘۔
آدم فکرمندانہ انداز میں بولا، کیونکہ وہ جانتا تھا اگر گھر کاپتا دیا تو یہ لوگ گھر لینے آجائیں گے اور ایک نئی مصیبت کھڑی ہوجائے گی،’’آپ لوگ کہاں آئیں گے کیونکہ میں آپ کو زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ ایسا کیجئے آپ مجھے وقت بتادیجئے میں اس وقت اریزو ریلوے سٹیشن پے آجاؤں گا۔ وہاں سے آپ مجھے ساتھ لے جائیئے گا‘‘۔
مسارا کہنے لگی، ’’کوئی مسئلہ نہیں، ہم تمھیں سٹیشن سے لے لیں گے۔بارہ بجے دوپہر ٹھیک رہے گا، کیونکہ دوپہر کا کھانا ہے‘‘۔
آدم نے ہاں میں سر ہلایا ،کافی پینے کے بعد مسارا اور جوزپے نے اجازت چاہی۔ مسارا نے آدم کے گالوں کو چوما اور چلتی بنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچیس دسمبر کو، آدم صاف ستھرے کپڑے پہن کر سٹیشن پے گیارہ بجے ہی انتظار کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ مسارا کے گھر والے کیسے ہونگے، کیسا سلوک کریں گے۔ وہ سؤر نہیں کھاتا، شراب نہیں پیتا۔ خیر وہ صاف کہہ دے گا بھلے بھوکا ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ ابھی وہ اسی ادھیڑ بن میں تھاکہ ایک گاڑی آکر رکی۔ مسارا گاڑی کے اندر بیٹھے ہی چلائی ،’’آدم چلو چلیں‘‘۔ آدم جلدی سے مسارا اور جوزپے کی گاڑی میں بیٹھا۔ وہ دونوں میاں بیوی اطالوی میں آپ میں گفتگو کرنے لگے۔ پھر مسارا گردن موڑ کر آدم سے مخاطب ہوئی ، ’’آدم میں معذرت خواہ ہوں۔ اصل میں ہم بچوں کے بارے میں بات کررہے
تھے۔ میں اپنی چھوٹی بہن کو اپنے گھر چھوڑ آئی تھی۔ وہ میرے بچوں کو تیار کررہی ہے۔ ان کو ساتھ لے کر ہم امی کے گھر جائیں گے‘‘۔ آدم نے کہا،’’ہاں ہاں ٹھیک ہے‘‘۔
گاڑی شہر سے نکل کر اریزو کے مضافات میں داخل ہوگئی۔ پھر دونوں اطراف کھیت شروع ہوگئے۔ ابھی بمشکل پندرہ منٹ گزرے ہوں گے کہ آدم کی نظر ایک کتبے پرپڑی CHIASSA SUPERIORE (کی آسا سوپیری اورے)۔ مسارا نے کہا،’’آدم ہم لوگ پہنچ گئے ہیں۔ میں یہاں رہتی ہوں۔ اس جگہ کا نام CHIASSA SUPERIORE (کی آسا سوپیری اورے) ہے۔ میری والدہ کے گھر کے پچھلی طرف ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے۔ اس کا نام CHIASSA (کی آسا) ہے‘‘۔
گاڑی ایک جھٹکے کے ساتھ رکی۔ مسارا جلدی سے اتری اور آدم کا دروازہ بھی کھولا، کہنے لگی، ’’یہ میرا گھر ہے۔میں اپنے بچو ں اور بہن کو بلا کر لاتی ہوں۔ وہ تیار ہی ہونگے ۔ پھر ہم ایک ساتھ چلیں گے۔ میری ماں کا گھر پاس ہی ہے۔ دو قدم کے فاصلے پر‘‘۔ وہ جلدی سے اپنے بچوں اور بہن کو بلا لائی اور سب کی نمائندگی کرتی ہوئی ماں کے گھر لے گئی۔ باہر سے گھر خوبصورت تھا۔ سامنے کھلا صحن تھا اور باہر لوہے کا
جنگلہ لگا ہوا تھا۔ ایک چھوٹا سا دروازہ جو بمشکل دو فٹ اونچا ہوگا، یا شاید اس سے بھی کہیں کم۔ مسارا اس سے کود کر اندر داخل ہوئی۔ چند سیڑھیاں طے کرنے کے بعد اس نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ کھلتے ہی مسارا، جوزپے،ان کے دونوں بچے اور مسارا کی چھوٹی بہن اندر داخل ہوگئے۔آدم باہر ہی کھڑا رہا۔ مسارا دوبارہ باہر آئی اور آدم کو بلایا۔ آدم ہچکچاتے ہوئے اندر داخل ہوا۔ جیسے ہی اس نے دروازے کے اندر قدم رکھا۔مسارا کی ماں نے کہا، ’’تو آپ ہیں آدم صاحب۔ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔ مسارا آپ کا بہت ذکر کرتی ہے۔ میرے خاندان میں سب انگریزی بول سکتے ہیں۔ انگریزی سمجھ سکتے ہیں‘‘۔ آدم کا باری باری سب سے تعارف کروایا گیا۔مسارا کا باپ ، ماموں مامی،نانی، بہنوئی۔
آدم اس عزت افزائی سے بہت خوش ہوا۔ جب سے اس نے گھر چھوڑا تھا پہلی دفعہ اسے اتنی عزت اور مان ملا تھا۔
آدم ظاہراً ٹی وی دیکھ رہا تھا لیکن حقیقت میں وہ حسبِ عادت ان کی سرگرمیاں دیکھ رہا تھا۔ بچے مل کر کھیلنے لگے اور باقی سب اپنے اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ مسارا کی نانی آدم کے پاس آکر بیٹھ گئی۔ اس کی نانی کو انگلستان سے عشق تھا۔ وہ انگلستان کے قصے سنانے لگی۔ اسی اثناء مسارا کی ماں آئی اور کہنے لگی،’’ آدم آپ سب کچھ کھاسکتے ہیں کیونکہ آج کے کھانوں میں ہم نے سؤر کا گوشت استعمال نہیں کیا‘‘۔
آدم کو ایسے لگا، جیسے اس کا سارا جسم نور سے منور ہوگیا ہو۔وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا،و ہ لوگ گوروں کے بارے میں کتنا غلط تاثر قائم کرلیتے ہیں۔ ابھی وہ اپنی شخصیت کے اسی تھوڑ پھوڑ میں مصروف تھا کہ مسارا کی ماں پھر بولیں،’’مسارا نے جب ہمیں بتایا کہ آپ آرہے ہیں تو میں نے اسی مناسبت سے چیزیں بنائیں۔ کھانوں میں سؤر کے گوشت کا استعمال بالکل نہیں کیا‘‘۔ آدم سوچ رہا تھا کہ اب یہ پوچھیں گے ،تم مسلمان سؤر کیوں نہیں کھاتے؟ لیکن انھوں نے ایسا کوئی سوال نہ کیا۔
کھانے کی میز انواع و اقسام کے کھانوں سے چن دی گئی۔ سب سے پہلے CROSTINI (کروستینی) پیش کی گئیں۔ یہ گول گول چھوٹے چھوٹے رسک نماں ہوتے ہیں۔ ان پر مختلف چیزیں لگی ہوئی ہوتی ہیں۔mayyonaise, sauce, peanut butter, (میونیز،یہ مختلف چیزوں کا مرکب ہوتی ہے۔پی نٹ بٹر،یہ مونگ پھلی کی گریوں سے تیار کیا جاتا ہے )تازہ ٹماٹر وغیرہ۔
آدم نے بڑے شوق سے مختلف کروستینیاں کھائیں۔ اس کے بعدبْھنی ہوئی مرغی پیش کی گئی۔ آدم چھری کانٹے سے کھا رہا تھا۔ جبکہ مسارا کا باپ یہ کام ہاتھ سے ہی سرانجام دے رہا تھا۔ وہ آدم کو مصیبت میں دیکھ کر کہنے لگا،’’آدم، عورت اور مرغی ۔ ان دونوں کے لیئے نزاکت مت استعمال کرو۔ ان کو کھاؤ، اور ہاتھ لگاؤ۔ وحشی انداز میں۔تمھیں مزا آئے گا‘‘۔ آدم کھلکھلا کے ہنسا۔ عورتوں کی تعداد زیادہ تھی اس لیئے انھیں برا لگا۔ پھر سوپ پیش کیا گیااس کے ساتھ موٹی اور سخت سی روٹی تھی جسے اطالوی PANNE کہتے ہیں۔ جب سب کھا چکے تو ، پلیٹیں بدل دی گئیں۔ یہ سارا منظر آدم بالکل ایسے دیکھ رہا تھا، جیسے ٹی وی پے کوئی پراگرام دیکھ رہا ہو۔
پھر میٹھے کا دور چلا۔ مسارا کی ماں نے بہت اچھا SPONGE CAKE(سپونج کیک) بنایا تھا۔ سب سے آخر میں کافی پیش کی گئی۔ اطالوی لوگ کافی کے لیئے اتنی چھوٹی چھوٹی پیالیاں استعمال کرتے ہیں جیسے کوئی طاق میں رکھنے والی نمائشی چیز ہو۔ اس کے برعکس پاکستان میں کافی سٹیٹس سمبل کے طور پے پی جاتی ہے۔لوگ بلیک کافی کے مگ بھر بھر کر پیتے ہیں، حالانکہ کافی پاکستانی موسم کے مطابق سخت نقصان دہ ہوتی ہے۔
جب سب لوگ کھانے سے فراغت پاچکے تو گھر کے عین وسط میں تمام تحائف کھولے گئے۔ جس کی جتنی حیثیت تھی اس نے اس اپنی حیثیت کے مطابق تحفہ دیا اور کسی کے چہرے پر شکن تک نہ آئی۔ سب بہت خوش تھے اور مسارا کی چھوٹی بہن جو لگ بھگ بیس سال کی ہوگی۔ اپنے باپ کے ساتھ آتش دان کے قریب ایسے بیٹھی تھی جیسے دودھ پیتی بچی ہو۔ آدم ان کے گھر کا ماحول دیکھ کر بالکل حیران وہ گیا۔ آدم کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔پورے گھر میں پیار ہی پیار بکھرا تھا۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ ان لوگوں میں منافقت نہ تھی۔ اگر وائن پی تو سب نے مل کر پی۔ سگرٹ پیا تو سب نے ایک دوسرے کے سامنے ۔ نہ باپ نے بیٹی سے چھپایا نہ ہی بیٹی نے باپ سے۔ بلکہ باپ نے خود بیٹی کو سگرٹ سلگا کر دیا۔آدم کو بالکل ایسا لگا جیسے وہ مَنوں مٹی کے نیچے دب گیا ہو۔ ہم ایشیائی لوگ EUROPEANS (یورپیئنز)کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور یہ لوگ ہیں کیسے۔ چند ایک بری مثالیں دیکھ کر ہم ان کے بارے میں اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ ویسے بھی کسی ملک کا اندازہ فلمیں دیکھ کر نہیں لگانا چاہیئے۔
باہر کافی اندھیرا ہو چلا تھا۔ آدم نے کہا،’’میں اب چلتا ہوں‘‘۔ اس نے سب سے اجازت لی
اور بہت بہت شکریہ ادا کیا۔ مسارا نے اپنے خاوند سے کہا،’’اسے گھر چھوڑ آؤ۔ میں بچوں کو لے کر گھر جاتی ہوں‘‘۔ وہ بنا حیل حجت کے اٹھا اور آدم کوساتھ لے کر اریزو آگیا۔آدم کو ریلوے سٹیشن پر چھوڑ کر چلتا بنا۔
آدم کی زندگی کا یہ دن ، یادگار ترین دن تھا۔اس نے کرسمس کے بارے میں سنا تھا،لیکن کرسمس کیا ہوتی ہے ۔ اسے اس تہوار میں بھرپور طریقے سے شامل ہونے کا موقع پہلی دفعہ ملا تھا۔ اس پر کئی ایک باتیں عیاں ہوئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ آدم کا اس لڑکی کے ساتھ کوئی چکر چل رہا ہے۔پاکستانی قوم ویسے تو بے شمار خوبیوں کی مالک ہے لیکن یہ خوبی سب سے بڑھ کر ہے کہ ہم لوگ اپنے بارے میں کم اور دوسرون کے بارے میں زیادہ سوچتے ہیں۔ کون کیا کررہا ہے؟کیا کھا رہا ہے؟کیا پہن رہا ہے؟کہاں جاتا ہے؟اس کا پاسپورٹ کب ختم ہورہا ہے؟۔گھر والوں کو پیسے بھیجتا ہے کہ نہیں۔ کتنی دفعہ عورت کے ساتھ مباشرت و مجامعت کرچکا ہے؟ شراب پیتا ہے کہ نہیں؟
یورپ میں جتنے بھی لوگ آئے ہیں۔ کوئی اس بات کو ماننے کو تیار نہیں کہ وہ اپنی غربت دور کرنے آیا ہے یا معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے آیا ہے۔ بلکہ سب زمینوں ،جائیدادوں کے مالک ہیں۔ کسی کا جھگڑا چل رہا ہے۔ کسی کا سیاسی مسئلہ ہے۔ کوئی باپ سے لڑ کر آیا ہے۔ سب بڑے بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یورپ میں شوق کے ہاتھوں مجبور ہوکر آئیں ہیں لیکن اگر کسی کو کافی پلانی پڑجائے تو بالکل اس طرح اپنے مسائل کا پلندہ کھلولتے ہیں جیسے ان سے غریب شخص تو پوری دنیا میں کوئی نہیں۔شراب پینے کے لیئے اور دھندا کرنے والی عورتوں کے پاس جانے کے لیئے نہ جانے ان سب کے پاس رقم کہاں آجاتی ہے۔ عام زندگی میں ایک ایک ملے کی بچت کریں گے۔ اگر کسی گوری کو دو
ملے (mile lire)(ملے لیرے)کی کافی پلانی پڑجائے تو جان چھڑانا ہی پسند کرتے ہیں۔جبکہ سڑک پے کھڑی لڑکیوں پے دومنٹ کے مزے کے لیئے جھٹ سے پچاس ملے(mile lire) لٹا دیں گے۔ اپنی مردانگی کے قصے سب کو بڑھ چڑھ کے سنائیں گے۔ اگر ایک دفعہ مباشرت کی ہے تو دس دفعہ بتائیں گے۔ آدم کو یہ دوغلی شخصیت والے لوگ عجیب لگتے۔ ایک طرف تو بات بات پے سبحان اللہ،ماشاء اللہ،
توبہ توبہ، استغفار کرتے اور دوسری طرف یہ سب کچھ۔ ایک طرف تو یہ حال ۔۔۔۔کہ جہاں بھی جاتے ، حلال گوشت کی فرمائش، سؤر کھانا تو دور کی بات اس کا نام بھی لینا گناہ سمجھتے اور دوسری طرف شراب پینے میں انھیں کوئی قباحت نہ محسوس ہوتی۔ نہ ہی رنڈی باز ی کرتے وقت انھیں خیال آتا کہ یہ بھی تو اسلام میں منع ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مارچ کا مہینہ شروع ہوچکا تھا۔ سردیوں کا اختتام ہورہا تھا اور گرمیوں کی آمد آمد تھی۔ نہ کھیتوں میں کام تھا اور نہ ہی صفائی کا ۔ریستورانوں میں سب کاغذات والے لڑکوں کو کام مل گیا تھا۔ آدم اور دادؤ نے جو پیسے پس انداز کیئے تھے،انھیں پر گزارا کر رہے تھے۔ اچانک وکیل نے دونوں کو بتایا کہ عدالت نے ان کا کیس رد کر دیا ہے۔ اب ان کے پاس اپیل کا موقع بھی نہیں،۔ یہ آخری چانس تھا۔ جبکہ یہ دونوں سجورنو کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ وکیل نے انھیںیہ بتایا کہ پندرہ دن کے اندر اندر اٹلی چھوڑ دو ورنہ اگر پولیس یا CARABINIERI (کارابینیئیری)نے پکڑ لیا تو ڈیپورٹ کردیئے جاؤ گے۔
آدم اور داؤد پر تو جیسے بجلی ٹوٹ پڑی۔ ان دونوں کو بڑی امید تھی۔ اٹھانویں فیصد لوگوں کو کاغذات مل چکے تھے۔ دو فیصد لوگ بچے تھے۔ان لوگوں کی بد قسمتی تھی کہ ان دو فیصد لوگوں ان کا بھی نام تھا۔
تکمیل بانڈے دل ہی دل میں خوش ہوا۔ جیسے اسے بہت بڑی فتح نصیب ہوئی ہو۔ اسے تو
آدم ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، کیونکہ آدم کی شخصیت میں خوشامد نام کو نہ تھی۔تکمیل بانڈے نے انھیں حوصلہ دیا کیونکہ اس کے دماغ میں ان سے پیسے اینٹھنے کا ایک نیا منصوبہ جنم لے رہا تھا۔وہ ان دونوں سے مخاطب ہوا،’’میں تم دونوں کے جعلی CARTA D'IDENTITA (کارتا دی ایدن تیتا یعنی اٹلی کا شناختی کارڈ) بنوا دونگا۔ ہوں گے اصلی ،صرف تصویر بدل جائے گی۔ مجھے روم جاناپڑے گا لیکن اسکے لیئے تمھیں روم آنے جانے کا خرچہ ، تین تین سو ملا (اٹلی کی کرنسی کا نام ہے ملے کا مطلب ہراز۔تین سو ملے تقریباًڈیڑھ سو ڈالے ہوتے ہیں۔لیکن کرنسی کا اصل نام لیرا یالیرے ہے)بھی دینا ہوگا۔ اپنی دو تصاویر بھی۔ اس طرح تم دونوں بحاظت فرانس، جرمنی یا ہالینڈ جاسکو گے۔اگر دوبارہ امیگریشن کھلی تو پھر آجانا، میرے گھر کے دروازے تمھارے لیئے ہمیشہ کھلے ہیں‘‘۔
انھیں اچھا تو نہیں لگ رہا تھا، لیکن دونوں کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارا بھی تو نہیں تھا۔ اس پے طرہ یہ کہ وہ انھیں کہنے لگا، ’’تمھارا ایک پیسہ بھی مجھ پر حرام ہے۔ یہ تو روم کے ایجنٹ پیسے لیتے ہیں۔ وہ بھی تھوڑی ہی بناتے ہیں، بلکہ NAPOLI (NAPLES) (ناپولی)کے لوگ بناتے ہیں۔ ہم لوگ ، میرا مطلب ہے روم کے ایجنٹ تو ان کے لیئے کام کرتے ہیں۔
ان دونوں کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ اس کام کے لیئے باآسانی ادا کرسکتے تھے اور فرانس جانے کے لیئے ٹرین کا ٹکٹ خرید سکتے تھے۔
تکمیل بانڈے نے انھیں فرانس میں اپنے جاننے والے بندے کا موبائیل نمبر دیا۔ ویسے جتنے بھی لوگوں کو کاغذات ملے تھے ان میں سے زیادہ تر یا تو فرانس یا جرمنی چلے گئے تھے۔ پیرس میں آدم اور داؤد کی پہچان والے بھی کئی لوگ تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment