Sunday, June 9, 2013

پیپر میرج ، میرے افسانویمجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ




پیپر میرج


وہ بہت تیز بھاگ رہا تھا، اتنا تیز جتنا کہ وہ بھاگ سکتا تھا۔ وہ پچھلے کئی سالوں سے بھاگ رہا تھا۔ اب وہ تھک چکا تھا۔ اس کی حالت بہت خراب تھی۔ اس کی سانسیں اُکھڑ رہی تھیں۔ اب اگر وہ مزید ایک قدم بھی بڑھاتا تو اس کی جان نکل جاتی۔ اس کے پھیپھڑے کام کرنا چھوڑ دیتے۔ یہ پہلا موقع نہیں تھا۔ جب بھی وہ پکڑے جانے کے بارے میں سوچتا ماضی کے نہاں خانوں میں چلا جاتا۔ ابھی وہ اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ فرینچ پولیس کے ترچھی ٹوپیوں والے اس کے قریب پہنچ گئے۔ ان میں سے ایک نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے پوچھا، ’’خبردار !محترم، مہربانی فرما کر اپنے کاغذات دکھائیں‘‘۔ وہ اس جملے سے نابلد تھا لیکن جیسے ہی اس نے فرانس میں قدم رکھا، تو وہ اس طرح کے جملوں سے واقف ہوگیا تھا۔ ان فرنگیوں کے ملک میں آپ تین چیزوں پر اعتبار نہیں کرسکتے، ’’کام، عورت اور موسم‘‘۔ حالانکہ جہاں وہ پیدا ہوا تھا وہاں کی زمین بھی برابر نہیں۔ وہ سطح مرتفع پوٹھوہار کا رہنے والا تھا۔ وہاں کے موسم کا بھی اعتبار نہیں۔ جہاں تک عورت کی بات ہے تو وہاں عورت پر اعتبارکیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں کی عورت کے پاس اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ میں بھی بات کو کہاں سے کہاں لے گیا۔ تو جیسے ہی وہ پکڑا گیا، اس سے سوال کیا گیا اور وہ کوئی جواب نہ دے پایا۔ وہ اسے تھانے لے گئے۔ وہاں انہوں نے اسے تھوڑی دیر بٹھائے رکھا پھر اسے چھوڑ دیا۔ نہ تو وہ اس کی انگریزی سمجھ سکتے تھے نہ ہیوہ ان کی فرنچ سمجھ سکتا تھا۔
ژ
اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ وہ بچ گیا، وگرنہ تو وہ اسے پاکستان بھیج دیتے۔ وہ میٹرو نمبر ایک پر بیٹھا اور شتلے لے
(Chatlet les Halles)
ہال آگیا۔ یہ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ وہ یوغج پومپیڈو سنٹر
(George Pompidou Centre)
کی آخری منزل پر چلا آیا۔ اس نے وہاں سے پیرس کا نظارہ کرنا شروع کردیا۔ اسے پیرس سے پیار ہوگیا تھا لیکن بِنا کاغذوں کے اسے پیرس جیل کی طرح لگتا تھا۔ اسے ایسا لگتا تھا جیسے تنہائی کی سزا کاٹ رہا ہو۔ آپ لاکھوں لوگوں کے درمیان رہتے ہیں اور آپ اکیلے ہوتے ہیں۔ اسے بہت ساری چیزوں کا ڈر اور خوف تھا۔ غربت کا ڈر تھا۔ پاکستان واپس جانے کا خوف تھا۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے پیرس میں تھا لیکن اس کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ تبدیلی سے مراد بینک بیلنس۔ ایک لگا بندھا ایشیائی فلسفہ کہ آپ یورپ میں پیسہ کماکے اپنے ملک میں کاروبار کریں۔ وہ اس دوران کوئی بھی ہنر نہ سیکھ سکا۔ جیسے کہ بجلی کا کام، رنگ کا کام یا کھانا پکانے کا کام۔ اس نے اس طرح کے کام کبھی پسند ہی نہ کئے حالانکہ وہ جن دنوں سکول پڑھا کرتا تھا، وہ محنت کی عظمت کا قائل تھا۔ سکول کالج کے علاوہ اس کا مذہب اسلام بھی ا س بات پر زور دیتا ہے کہ، ’’محنتی خدا کا دوست ہے‘‘۔ اس کے لیے یہ باتیں کتابوں تک ہی محدودتھیں۔ پاکستان میں جب وہ بی اے کررہا تھا، اس نے اس قسم کے حالات کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کے والد صاحب ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ بڑی مشکل سے گزراوقات ہوتی تھی۔ سارے اس کی پڑھائی کے لیے قربانی دے رہے تھے۔ یہی ان کا آخری سرمایہ تھا یا یوں کہنا چاہیے کہ کل اثاثہ تھا۔ معتصم باقی باللہ، یہی اس کا نا م تھا۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں کئی خواب بُنا کرتا تھا۔ وہ امتحان پاس کرے گا پھر جلد ہی اسے کوئی سرکاری نوکری مل جائے گی۔ وہ اپنا ماسٹرز پرائیویٹ طور پر کر لے گا۔ اس طرح وہ کام بھی کرے گا اور اپنی پڑھائی بھی جاری رکھے گا۔ وہ اپنے ماں باپ کا ہاتھ بھی بٹائے گا۔ اس کا ایک خوبصورت صاف ستھرا دفتر ہوگا۔ گھومنے والی کرسی ہوگی، سامنے ایک بہتبڑی میز ہوگی، جس پر تمام ضروری اشیاء ہوں گی اور ایک طرف کمپیوٹر ہوگا۔ ایک عدد گھنٹی بھی میز پر رکھی ہوئی ہوگی جو اُس کے کمرے کے باہر بیٹھے ہوئے پیئن کو بلانے کے کام آئے گی۔ اس کے کمرے میں داخل ہونے کے لیے ہر کسی کو اجازت لینی پڑے گی۔ پھر پیئن اندر آکے پوچھا کرے گا، ’’صاحب کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو اندر آنے دوں‘‘۔
ژ
لیکن جیسے ہی ا س نے بی اے پاس کیا، اس نے کئی جگہوں پر نوکری کی درخواست دی لیکن کہیں سے جواب نہ آیا۔ نہ اس کی کہیں واقفیت تھی نہ ہی اس کے پاس رشوت دینے کے لیے رقم تھی۔ اس کے والد صاحب اور گھر والے اس سے ناخوش رہنے لگے۔ اس طرح کی حالت میں رہنے والا بی اے پاس یہ نوجوان اکیلا نہیں تھا بلکہ پورا پاکستان ایسے نوجوانوں سے بھرا پڑا ہے۔ کئی تو اس سے بھی زیادہ لائق اور ذہین تھے لیکن بنا نوکری کے۔ ہمارا تعلیمی نظام سارا کا سارا لکھنے پڑھنے والا ہے۔ اس میں عملی زندگی کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ جس کی وجہ سے نوجوان ڈگری کرنے کے بعد معذور ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا میٹھا زہر ہے جو آپ کی رگوں میں بڑی آہستگی سے اتارا جاتا ہے۔ جیسے ہی یہ زہر آپ کی رگوں میں سرایت کرتا ہے تو آپ خود کو عام انسان نہیں سمجھتے بلکہ خود کو مافوق الفطرت شے سمجھنے لگتے ہیں۔ اس میں معتصم کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ دہائی ہی عجیب و غریب تھی۔ کوئی بھی حالات کو سمجھ نہیں پارہا تھا۔ خود معتصم اپنا زیادہ تر وقت سنوکر کلب میں گزارا کرتا، جہاں اس جیسے تمام نوجوان اکھٹے ہوا کرتے۔ سنوکر کھیلنا اس کے لیے عیاشی تھی۔ اس لیے وہ کم ہی کھیلا کرتا۔ اس کا اصل مقصد وقت کو گزارنا ہوتا۔ یا اپنے جیسے ستائے ہوئے لڑکوں سے ملنا، جن کو بی اے، ایم اے کرنے کے بعد بھی نوکری نہیں مل رہی تھی۔ اس کے علاوہ معتصم چائے کے ریستورانوں پر بھی بیٹھا کرتا۔ ان دنوں معتصم کو ڈھونڈنا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ یا تو وہ کسی ریستوران میں ہوتا یا کسی سنوکر کلب میں۔ وہ قریباً آوارہ گرد بن چکا تھا۔ گلیوں میں آوارہ پھرنا، ریستورانوں پر بیٹھنا، سنوکر کلب میں وقت گزارنا اور رات کو گھر دیر سے آنا یہیاس کا کام تھا۔
اچانک ویٹرس نے اس کو خیالوں اور یادوں کی دنیا سے واپس بلا لیا۔ یہ ویٹرس یا ویٹر کا ہنر ہوتا ہے کہ وہ گاہک کو ٹیبل پر زیادہ دیر بیٹھنے نہیں دیتا۔ گو کہ یوغج پومپیڈو سنٹر بہت بڑا ہے جہاں پر یہ ریستوران ہے، یہ سنٹر کی آخری منزل ہے، اس کا ٹیرس بھی بہت بڑا ہے لیکن یہ لوگوں سے ہر وقت کھچا کھچ بھرا رہتا ہے۔ اس لیے آپ یہاں پائے جانے والے اس چھوٹے سے ریستوران یا آپ کافی شاپ کہہ لیجئے میں زیادہ وقت گزار دیں تو ویٹر آپ کو کسی نا کسی بہانے سے اٹھا دے گا۔ ویٹر یا ویٹرس آپ کے ٹیبل پر آکے بل رکھ دے اور فرنچ میں کہہ دے کہ آپ کافی پی چکے ہیں تو اس کامطلب ہوتا ہے کہ بل ادا کیجئے اور چلتے بنئے کیونکہ ہمیں اور بھی کام ہیں۔ معتصم چونکہ کافی ختم کرچکا تھا اس لیے اس نے بل ادا کیا اور ٹیبل چھوڑ دیا۔
ژ
سب جانتے تھے اس کا نام معتصم باقی باللہ ہے لیکن کسی نے اس کو اس کے نام سے نہیں پکارا۔ سب اسے باؤ کہتے (بابو جی) اور کچھ اسے بلا کہہ کربلاتے۔ حالانکہ بلا، بِلا ہوتا ہے اور باللہ، باللہ ہوتا ہے۔ یعنی باللہ اپنی جگہ ایک علیحدہ لفظ ہے۔ سارے یہی سوچتے تھے کہ معتصم کی آنکھیں تو بلوری نہیں ہیں تو پھر اس کانام بلا کیوں ہے۔ وہ انہیں کئی دفعہ سمجھا چکا تھا کہ میرا نام معتصم باقی باللہ ہے نہ کہ معتصم باقی بلا۔ چونکہ یہاں زیادہ تعداد دیہاتوں سے آئے ہوئے لڑکوں کی تھی ا س لیے کسی کواس کی بات سمجھ نہیں آتی تھی۔ ان میں سے ایک نے معتصم کو کہا، ’’یار باؤ! تمہارے لیے ایک لڑکی ڈھونڈی ہے، پیپر میرج کے لیے۔ پچاس ہزار فرانک خرچہ آئے گا۔ تقریباً پانچ لاکھ روپیہ پاکستانی بنتا تھا۔ اس رقم سے آپ دو کمروں کا گھر خرید سکتے ہیں یا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کرسکتے ہیں۔
ژ
اسے دوبارہ ویٹر کی نوکری مل گئی۔ معتصم پڑھا لکھا تھا، شکل و صورت کا بھی اچھا تھا لیکن اس کی عادتیں بڑی عجیب تھیں۔ اس کی زندگی میں سکون اور قرار نہیں تھا۔ یا یوں کہہلیجئے کہ اس کی اپنی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں تھا۔ اس نے جہاں بھی کام کیا چھ یا سات ماہ سے زیادہ نہ کیا۔ وہ ویٹری کے دوران سوچا کرتا کہ وہ کیا کررہا ہے۔ کبھی کبھی اسے یوں لگتا جیسے کسی نے اسے ہزاروں منزلہ عمارت سے نیچے گرا دیا ہے۔ جب کبھی بھی اسے کوئی برے طریقے سے پیش آتا تو اِسے ایسا لگتا جیسے اُس کے الفاظ اِس کے جسم کو تیز دھار بلیڈ کی طرح کاٹ رہے ہیں۔ یا کسی نے لال انگارہ اس کے جسم پر رکھ دیا ہے۔ یا کوئی قطرہ قطرہ زہر اس کے جسم میں داخل کررہا ہے اور یہ زہر اس کی رگ و پر میں سرایت کرگیا ہے۔ وہ کسی کو کیا کہہ سکتا تھا۔ اس کے پا س پیپر نہیں تھے۔ یورپ میں پیپر نہ ہونا ایسا ہی ہے جیسے آپ حرامی ہیں یا کسی کی ناجائز اولاد ہیں۔ لیکن یہ راز اگر کسی کو پتا چل گیا تو آپ کسی کو منہ دکھانے لائق نہ رہیں گے۔ ہوتا کچھ یوں کہ وہ کام کے دوران جب بھی کسی لڑکی سے بات چیت کرنے کی کوشش کرتا اس کا مالک یعنی ریستوران کا مالک وہاں پہنچ جاتا۔ اُس کی سب پر نظر ہوتی۔ اس نے جب بھی کسی لڑکی سے تعلقات بنانے چاہے اس کے مالک نے گڑبڑ کردی۔ معتصم کو ویسے بھی ویٹر کی نوکری پسند نہیں تھی، لیکن وہ کیا کرتا اس کے پاس اور کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔ وہ عام سا ویٹر تھا لیکن ا س کا حوصلہ بہت بلند تھا۔ اس کو خود پر بہت زیادہ اعتماد تھا، اتنا کہ وہ ایک ٹھوکر میں پوری دنیا کو ہلا دے گا۔ اس نے کئی چھوٹی موٹی نوکریاں کیں لیکن اپنی ذات کی نفی نہ ہونے دی۔ اس نے کبھی ایسی حرکت نہ کی جس سے ملک اور قوم کی بدنامی ہو۔ اس کے لیے پیار ایک جبلت اور عیاشی سے زیادہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ وہ جب سے یورپ آیا تھا اس نے اپنے بہن بھائیوں، اور ماں باپ کی طرف ایک ٹکا بھی نہ بھیجا تھا کیونکہ وہ جب سے یہاں آیا تھا مسائل کا شکار تھا۔ شاید نکما تھا یا شاید بدقسمت۔ اسے کبھی بھی پتا نہ چلا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اسے جب بھی اندھیرے میں روشنی کی کوئی کرن دکھائی دیتی اس کے ساتھ کوئی نا کوئی حادثہ پیش آجاتا۔ وہ اس امید کی کرن کو بھول کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈنے نکل کھڑا ہوتا۔
ژ
صبح صبح یہ ریستوران کھولنے کی تیاریاں کررہے تھے۔ ابھی بمشکل انہوں نیکرسیاں سجائی ہی تھیں۔ صبح کے وقت چونکہ گاہک کم ہوتے تھے اس لیے دوپہر کے کھانے تک یہ لوگ تقریباً فارغ ہوتے۔ اس دوران یہ ریستوران کے دیگر کاموں میں مصروف رہتے۔ معتصم باہر میز اور کرسیاں سجاکے میزوں کے میز پوش ٹھیک کررہا تھا۔ یہ سب کرنے کے بعد اس نے ان پر گلاس سجادیئے۔
وہ میز نمبر تین پر بیٹھی تھی۔ یہ کوئی اتنی خاص بات نہیں تھی۔ اس نے اسے نظر انداز کردیا لیکن پھر اِس نے اُس کو مینوکارڈ پکڑا دیا۔ اس نے کہا، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ مجھے ایک کپوچینو (
Cappuccino)
اور دو عدد سموسے لادو۔ وہ دِکھنے میں اتنی بری نہیں تھی۔ اس نے آرڈر شیف کو بھیج دیا اور اس لڑکی پر اُچٹتی نظر ڈالی۔ معتصم کے دماغ میں اچانک ایک خیال آیا لیکن اس نے اس خیال کو وہیں ختم کردیا۔ دماغ کے نہاں خانوں میں محو کردیا۔
اس نے کپوچینو میز پر رکھی، اس کے بعد گرما گرم سموسے رکھے اور اس کے ساتھ اپنے ریستوران کی تین مخصوص چٹنیاں بھی رکھیں۔ وہ دور کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کپوچینو ختم کی اور سموسے بھی کھالیے۔ معتصم نے بڑے مہذب انداز میں پوچھا، ’’کیا آپ کھا چکی ہیں‘‘۔ اس نے کہا، ’’ہاں‘‘۔ معتصم نے بل پیش کیا۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ بھاگ جائے گی لیکن یہ کام بہت مشکل تھاکیونکہ آس پاس بہت سے لوگ دیکھ رہے تھے۔ گو کہ وہ اسے نہیں دیکھ رہے تھے لیکن اگر پکڑی جاتی تو تماشہ ضرور بن جاتی۔ معتصم اس کی دلی کیفیت جان گیا تھاکہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس نے کہا، ’’دیکھو میرے پاس پیسے نہیں ہیں لیکن تم میرا پاسپورٹ رکھ لویا میرا شناختی کارڈ رکھ لو۔ جب میں تمہیں پیسے دینے آؤں گی تو مجھے واپس کردینا‘‘۔ معتصم نے غصے میں کہا، ’’میں ان چیزوں کا کیا کروں گا‘‘۔ معتصم کا غصہ جائز تھا لیکن آپ اس طرح کی صورت حال میں کیا کرسکتے ہیں۔ آپ کو فوراً فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ پیسے بھی زیادہ نہیں تھے لیکن گھوڑاگھاس سے دوستی کرلے تو کھائے گا کیا۔ اچانک معتصم کے دماغ میں ایک عجیب خیال آیا۔ معتصم نے کہا، ’’سنو تم مجھے اپنا فون نمبر دے دو‘‘۔ اس نے جھٹ سے اپنا فون نمبر کاغذ پر لکھ کے معتصمکو تھمادیا اور ساتھ ساتھ یہ کہا کہ یقینامیں تمہارے پیسے لوٹا دوں گی۔ اس نے اتنا کہا اور چلتی بنی۔ یہ تمام واقعہ معتصم کے لیے کوئی نئی بات نہ تھی۔ یہ ایک عام سی بات تھی۔ فون نمبر پر اس نے ترچھی نظر ڈالی اور ڈائری پر لکھ لیا۔
ژ
آج سوموار تھا۔ ویسے تو زیادہ تر ریستوران خواہ وہ فرینچ ہوں یا دیگر ممالک کے اس دن بند ہی ہوتے ہیں۔ پیرس میں بھی انڈین اور پاکستانی ریستورانوں کی ایک بڑی تعداد سوموار کو بند ہوتی ہے اس لیے آج معتصم کی چھٹی تھی۔ وہ لانڈری پر کپڑے دھونے چلا گیا۔ مشین میں مطلوبہ سکے ڈالے اور اس میں سارے میلے کپڑے ڈال دیئے۔ جب پوری مشین چل چکی تو اس نے سارے کپڑے نکال کے سکھانے والی مشین میں ڈال دیئے۔ ا س کے بعد سارے کپڑے تہہ کرکے گھر لے آیا۔ اس نے کھانا تیار کیا۔ آج اس کی باری تھی۔ سارے کاموں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد اس نے عشق و محبت سے بھرپور ایک انڈین فلم دیکھی۔ شام کو وہ شانزے لیزے نکل کھڑا ہوا۔ وہ دوکانوں کی بڑی بڑی شیشے کی کھڑکیوں میں پڑی خوبصورت چیزیں دیکھتا رہا۔ یہاں اس نے میوزک سٹورز اور کتابوں کی دوکان کے چکر لگائے۔ فائن آرٹ کا دلدادہ تھا۔ وہ بڑی بڑی دوکانوں میں خوبصورتی سے سجے دنیا کے مشہور ڈیزائنرز کے بنے کپڑے دیکھتا رہا۔ جو کہ ا س کی استطاعت سے باہر تھے۔ چلتے چلتے وہ پیرس کے مشہور ہال لیڈو
(Lido)
کے سامنے سے گزرا۔ یہ بہت بڑا ہال ہے جہاں موسیقی کے مقابلے ہوتے ہیں اور کبھی کبھی تھیٹر بھی دکھائے جاتے ہیں۔ چلتے چلتے وہ سوچنے لگا، کیا نام تھا اس کا، یاد آیا شانتل۔ اس نے سوچا فون کروں کہ نہ کروں۔ وہ خود کلامی کے سے انداز میں باتیں کررہا تھا۔ اس کے پاس فرینچ ٹیلی کام کا ایک ٹیلی فون کارڈ تھا جس میں چند یونٹ بچے تھے۔ اس نے جلدی سے فون کیبن ڈھونڈااور کارڈ ڈال کے اس کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے فرینچ انداز میں آواز آئی، ’’آلو‘‘ (ہیلو)۔ معتصم نے ہیلو کہا اور پھر پوچھا کہ کیا میں شانتل سے بات کرسکتا ہوں۔ دوسری طرف سے جواب آیا، ہاں کیوں نہیں۔ میں شانتل ہی بول رہی ہوں۔ معتصم نے جواب میں کہا، ’’میں وہی پاکستانیبول رہا ہوں۔ ریستوران والا‘‘۔ ’’او معاف کرنا میں پیسے دینے نہ آسکی۔ میں بہت شرمندہ ہوں‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ایسی کوئی بات نہیں۔ میں نے پیسوں کے لیے فون نہیں کیا۔ ویسے آج تم کیا کررہی ہو‘‘۔ اس نے کہا، ’’کچھ نہیں‘‘۔ ’’اور آنے والے سوموار کو‘‘۔ ’’میں کچھ نہیں جانتی۔ لیکن وجہ‘‘۔ ’’میرا خیال ہے ہم لوگ ملیں۔ اگر تمہیں اعتراض نہ ہو تو ہم اگلے سوموار کو مل سکتے ہیں‘‘۔ شانتل نے کہا، ’’ہاں مل سکتے ہیں لیکن آنے سے پہلے فون ضرور کرنا‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ٹھیک ہے میں آنے سے پہلے فون کروں گا‘‘۔ اس نے یہ کہہ کر فون بند کردیا۔
ژ
آج معتصم بڑا اچھا لگ رہا تھا۔اپنے طور پر وہ پورا بنا ٹھنا ہوا تھا۔ اس نے ملاقات کی جگہ یوغج پومپیڈ
(George Pompidou)
ہی رکھی۔ اس نے فون کیا اور شانتل نے کہا کہ وہ آرہی ہے۔ وہ وقت مقررہ پر وہاں پہنچ گیا۔ ایک دو منٹ کے توقف سے شانتل بھی وہاں پہنچ گئی۔ اس نے سب سے پہلے معتصم کو سموسوں اور کافی کے پیسے ادا کئے لیکن معتصم نے لینے سے انکار کردیا۔ یہ بڑی معمولی رقم تھی۔ نہ ہی ا س نے شانتل کو پیسے وصول کرنے کے لیے بلایا تھا۔ گفت و شنید سے پتا چلا کہ شانتل ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ لوگ زیادہ امیر تو نہیں تھے لیکن اتنے برے حالات بھی نہیں تھے۔ وہ فائن آرٹ کے آخری سال میں تھی۔ اس کے بعد اس کو فائن آرٹ کی ڈگری مل جاتی لیکن یونیورسٹی میں اسے نشے کی لت لگ گئی۔ اس طرح اس کی پڑھائی ادھوری رہ گئی۔ اس وقت شانتل صرف یہی بات سوچ رہی تھی کہ معتصم نے ساتھ سونے کو کہا تو اسے مزید کچھ رقم مل جائے گی اور وہ اس سے اپنے نشے کا انتظا م کرلے گی۔ دوسری طرف معتصم کسی اور اُدھیڑ بُن میں تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ بات کیسے شروع کرے۔ اس کا ضمیر اسے اجازت نہیں دے رہا تھا۔ لیکن وہ ایک عرصے سے پولیس کے ڈر سے بھاگ رہا تھا، چھپ رہا تھا۔ اس نے بڑی ہمت کرکے شانتل کو اپنا مدعا بیان کیا اور بتایا کہ اس کا کیا طریقۂ کار ہوگا۔ شانتل نے معتصم کی بات بڑے غور سے سنی اور سوچا اس طرح تو اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔ معتصم نے کہا، ’’میں تمہیں چالیس ہزار فرینچ فرانک دوں گا لیکن تین اقساط کی صورت میں۔ پہلی قسط تمہیں رجسٹریشن کے وقت دوں گا، دوسری قسط اس وقت دوں گا جب مجھے کاخت سیوغ مل جائے گااور آخری قسط میں تمہیں اس وقت دوں گا جب ہمارے درمیان طلاق ہوگی۔ اس نے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
ژ
معتصم کی شادی ہوگئی اور اسے جلد ہی کاخت سیوغ
(Carte Sejour)
مل گیا۔ وہ بھی دس سال کا رہنے کا اجازت نامہ۔ وہ بہت خوش ہوا۔ اس دوران شانتل اور معتصم ایک دوسرے کے بہت قریب آگئے۔ معتصم کو ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ تھا اور شانتل کو فنونِ لطیفہ سے۔ شانتل کے ساتھ رہتے رہتے معتصم کے اندر مستقل مزاجی آگئی تھی۔ اس نے کافی عرصے سے کام نہیں بدلا تھا۔ شانتل نے نشہ کرنا کم کردیا تھا۔ اس سے پہلے معتصم آزاد پرندے کی طرح گھومتا تھا۔ اس نے زندگی کو کبھی بھی اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا تھا۔ وہ اب تندہی سے کام کرتا اور شانتل کو اقساط ادا کرتا، اس کے لیے پیسے اکھٹے کرنا ایک مشن بن گیا تھا۔ کبھی کبھی اس کا ضمیر ملامت کیا کرتا کہ اُس نے اِس لڑکی کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیاہے۔ وہ خود کو اپنی نظروں میں گرتا ہوا دیکھتا۔ دوسری طرف شانتل کو بھی اچھا نہ لگتا کہ اس نے ایک مجبور انسان سے اپنے نشے کی خاطر کتنا پیسہ بٹورا ہے۔ ان کی شادی کو دوسال گزر چکے تھے۔ طلاق کے دن قریب آرہے تھے، ابھی ایک قسط باقی تھی۔ ایسا پہلی دفعہ ہوا کہ معتصم ایک جگہ پر دوسال سے کام کررہا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ وہ لیگل کام کررہا تھا اور دوسری وجہ شانتل تھی کیونکہ اس سے پہلے ا س نے کسی جگہ دوسال سے زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ شانتل مصوری کوخیر باد کہہ چکی تھی لیکن جب سے اس کی
شادی (گو کہ پیپر میرج تھی) معتصم سے ہوئی تھی اس نے دوبارہ مصوری شروع کردی تھی۔ اس نے آرٹ گیلریز میں جانا شروع کردیا تھا۔ اب وہ مصوری کی کوئی نمائش ضائع نہ ہونے دیتی۔ یہ بہت بڑی بات تھی۔ اس کا اصل کام سوریل ازم تھا لیکن وہ ریل ازم، فریسکوز، کیوب ازم اور تجریدی آرٹ کی طرف زیا دہ مائل تھی۔ اب اس کی مائلیت اور توجہ کیوب ازم کی طرفبڑھ رہی تھی۔ آجکل وہ ایک تصویر پر کام کررہی تھی۔ نہ تو معتصم جانتا تھا کہ شانتل کے اندر یہ تبدیلی آچکی ہے اور نہ ہی شانتل جانتی تھی کہ معتصم بھی اب کافی تبدیل ہوچکا ہے۔ یہ دونوں اس بات سے ناواقف تھے۔
ژ
آج معتصم جب کام سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ شانتل ایک نوجوان سے گفتگو کرنے میں محو ہے۔ وہ دونوں گفتگو کے دوران ایک دوسرے میں گم تھے۔ معتصم نے دونوں کو سلام کیا اور واش روم میں چلا گیا۔ یہ بات ایک کڑوا سچ تھی کہ دونوں میاں بیوی نہیں تھے صرف اور صرف اپنی اپنی ضرورت کے تحت ایک دوسرے سے بندھے ہوئے تھے۔ اس کے باوجود معتصم کو یہ بالکل اچھا نہ لگا کہ وہ ایک نوجوان سے گفتگو کررہی ہے۔
بالکل اسی طرح چند ہفتوں بعد معتصم اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک لڑکی کے ساتھ فلم دیکھنے چلا گیا۔ آنا خوبصورت تھی یہ بات شانتل بھی جانتی تھی اس لیے شانتل کو بالکل اچھا نہ لگا۔ اسے ایسا لگا جیسے اس کا شوہر کسی نے چھین لیا ہو۔ وہ بہت دُکھی ہوئی لیکن وہ کیا کرتی دونوں کی شادی ضرورت کے تحت ہوئی تھی۔
جیسے جیسے طلاق کے دن قریب آتے گئے دونوں کی حالت غیر ہوتی گئی۔ دونوں ایک دوسرے کے عادی ہوچکے تھے۔ انہیں علیحدہ ہونے سے ڈر لگتا تھا۔ اس بات کا ذکر دونوں ایک دوسرے سے نہ کرسکے۔ وہ گو کہ تسلسل کے ساتھ اکھٹے کبھی نہ رہے تھے لیکن قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے انہیں اسی طرح رہنا پڑتا تھا جیسے وہ صحیح معنوں میں میاں بیوی ہوں۔ اگر وہ اس طرح نہ کرتے تو طلاق دینے کی صورت نہ بنتی۔
ژ
معتصم نے شانتل کو طلاق کے کاغذات دیئے اور اس نے ان پر دستخط کردیئے۔ تھوڑی سی سرکاری اور عدالتی موشگافیوں کے بعد عدالت نے دونوں کی طلاق تسلیم کرلی۔ اب یہ دونوں آزاد تھے۔ معتصم تو اسی وقت آزاد ہوچکا تھا جب اسے کاخت سیوغ ملا تھا لیکن اسے کئی ان جانے خوف تھے اس لیے اس نے طلاق تک انتظار کیا۔ جب یہ دونوں عدالت سے باہر آرہے تھے تو معتصم نے بڑی ہمت کرکے شانتل کو یوغج پومپیڈو جانے کے لیے کہا، جہاں وہ پہلی بار ملے تھے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ دوسری بار ملے تھے۔ اس نے کہا، ہم وہاں کچھ پئیں گے اور میں تمہیں آخری قسط بھی ادا کروں گا۔ شانتل کو معتصم کی تجویز پسند آئی۔ آج دن اچھا تھا۔ سورج پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ یہ دونوں بہت جلد ہی یوغج پومپیڈو سنٹر پہنچ گئے۔ وہاں انہوں نے کافی کا آرڈر دیا۔ شانتل معتصم سے مخاطب ہوئی، ’’معتصم اب کیا کرو گے‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’پاکستان جاؤں گا۔ اپنے ماں باپ سے ملوں گا۔ بہن بھائیوں سے ملوں گا۔ بہت عرصہ ہوگیا ہے اپنے ملک کو دیکھے ہوئے اور اپنے گھر والوں کو۔ وہاں جاکے شادی کروں گا اور تم شانتل‘‘۔ شانتل نے کہا، ’’میرا خیال ہے بلکہ میں نے سوچا ہے کہ میں فائن آرٹ کالج میں دوبارہ داخلہ لوں گی اور اپنی تعلیم مکمل کروں گی‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’اگر تم چاہو تو میرے پاس ایک آفر ہے۔ میں ایک پاکستانی کو جانتا ہوں۔ اس کے پا س کاغذ نہیں۔ تمہیں مزید پیسے مل جائیں گے اور اس کو کاغذات۔ وہ
اچھا انسان ہے‘‘۔
شانتل نے کہا، ’’نہیں معتصم، میں یہ نہیں کرسکتی۔ تم اندازہ نہیں کرسکتے میں نے اپنی زندگی کے یہ سال کیسے گزارے ہیں۔ یہ صرف اور صرف میں ہی جانتی ہوں کہ میں کس کرب سے گزری ہوں۔ پیپر میرج تو کومن لاء میرج
(Common law marriage)
(کومن لاء میرج ایک ایسی شادی ہوتی ہے جو باقاعدہ شادی نہیں ہوتی بلکہ کوئی بھی لڑکا لڑکی بنا شادی کے اکھٹے رہتے ہیں اور جب دل چاہے یا جی اکتا جائے تو علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے قانونی حقوق اتنے ہی ہوتے ہیں جتنے شادی شدہ جوڑے کے ہوتے ہیں) سے بھی زیادہ بری ہوتی ہے‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ یہ صرف ایک آفر تھی۔ یہ رہی تمہاری باقی ماندہ رقم‘‘۔ شانتل نے رقم پرس میں رکھ لی اور کہا، ’’چلو چلیں‘‘۔
ژ
معتصم کی حالت ایسی تھی جیسے، ’’نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن‘‘۔ وہ بہت اداس اور پریشان تھا۔ وہ بڑا عجیب و غریب محسوس کررہا تھا۔ اُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے بہتقیمتی چیز کھو دی ہو۔ دوسری طرف شانتل بھی پریشان تھی۔ دونوں اپنے اپنے گھر ٹیلی فون کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ معتصم نے ساری کالیں دیکھیں۔ دوسری طرف شانتل بھی ٹیلی فون کے ریکارڈ شدہ پیغامات سن رہی تھی لیکن معتصم کا کوئی پیغام نہیں تھا۔ اس طرح دن گزرتے گئے اور ایک دن شانتل کو کسی نے پیغام دیا کہ معتصم فلاں فلاں دن فلاں فلائٹ سے پاکستان جارہا ہے۔ وہ وہاں جاکے شادی کرے گا۔ یہ پیغام سنتے ہی اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے معتصم کا نمبر ملایا۔ معتصم نے فون اٹھایا اور ملنے والے پیغام کی تصدیق کردی کہ وہ پاکستان جارہا ہے اور وہاں جاکے شادی کرے گا۔ شانتل نے کہا، ’’میں جانتی ہوں کہ ہم دونوں میاں بیوی نہ تھے لیکن ہمارے درمیان ایک رشتہ تو تھا۔ اگر تمہیں ناگوار نہ گزرے تو کیا ہم مل سکتے ہیں‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ہاں کیوں نہیں۔ تم آج رات کھانا میرے ساتھ کھاؤ‘‘۔ شانتل نے کہا، ’’ٹھیک ہے‘‘۔
ژ
ہمیشہ کی طرح یہ دونوں وقتِ مقررہ پر ریستوران پر موجود تھے۔ انہوں نے ایک کونے والی ٹیبل پسند کی اور وہاں جاکے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں ویٹر مینو لے آیااور انہوں نے کھانے کا آرڈر دیا۔ دونوں بالکل خاموش تھے۔ آخرکار شانتل نے سکوت توڑا، اور کہا، ’’معتصم تم پاکستان میں کسی کو پسند کرتے ہویا لیکن، کیا، کیسے، کیا خدا تمہارے لیے اوپر سے کوئی لڑکی بھیج رہا ہے‘‘ ۔ معتصم، شانتل کی اس بدحواسی پر بڑاحیران ہوا۔ خیر اُس نے کہا، ’’ایسا کچھ نہیں ہے۔ میرے ماں باپ میرے لیے لڑکی ڈھونڈیں گے اور میں ایک تابعدار بیٹے کی طرح ہاں کردوں گا۔ خواہ وہ میں نے دیکھی ہو یا نہ دیکھی ہو‘‘۔ اگر لڑکی کسی دوسرے مذہب یا ملک کی ہو تو‘‘، شانتل نے رندھے ہوئی آواز میں کہا۔ معتصم نے انتہائی تحمل سے جواب دیا، ’’پھر اس لڑکی کو اپنا مذہب بدلنا ہوگا۔ ہماری تہذیب و تمدن کو اپنانا ہوگا۔ ہماری اخلاقی اقدار کی قدر کرنی ہوگی‘‘۔ شانتل نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، ’’معتصم کیا میں تمہیں ایک بات بتاؤں‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ہاں بتاؤ‘‘۔ شانتل بولی، ’’جب تم آنا کے ساتھ فلم دیکھنے گئے تھے۔ مجھے بالکل اچھا نہ لگا‘‘۔ ’’اور شانتل‘‘ معتصم نے اس کی بات کاٹتیہوئے کہا، ’’جب تم اس فرنچ لڑکے کے ساتھ گپ شپ لگارہی تھیں تو مجھے بھی اچھا نہ لگا‘‘۔ ’’اچھا وہ، وہ تو فائن آرٹس کالج میں میرا کلاس فیلو تھا۔ اسے تو یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ہماری پیپر میرج ہوئی ہے۔ وہ تو ہمیں میاں بیوی ہی سمجھتا تھا‘‘۔ ’’اور آنامیرے ساتھ کام کرتی ہے۔ اُس دن اُس کا بوائے فرینڈ سے جھگڑا ہوا تھا، بیچاری بڑی پریشان تھی۔ میں اس کی دل بستگی کے لیے اس کے ساتھ چلا گیا تھا‘‘۔ شانتل نے موضوع بدلتے ہوئے کہا، ’’چھوڑو ان باتوں کو، میرے
پاس تمہارے لیے کچھ ہے۔ اس نے کاغذ میں لپٹی ہوئی کوئی چیز کھولی اور معتصم کو دکھاتے ہوئے کہا۔ یہ تصویر میں نے تمہارے لیے بنائی ہے۔ جب سے تمہارے قریب آئی ہوں میں نے دوبارہ مصوری شروع کردی ہے اور ہاں میں نے نشہ کرنا بھی چھوڑ دیا ہے‘‘۔ ’’اور تمہیں پتا ہے شانتل، میں نے زندگی میں کبھی دل لگا کے کام نہیں کیا تھا۔ جب سے اپنا ملک چھوڑا ہے یہ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی میرے اندر پہلی دفعہ آئی ہے۔ تمہیں پتا ہے جب سے ہمارے درمیان طلاق ہوئی ہے میں سرد مہری اختیار کئے ہوئے ہوں۔ میں تمہیں آزاد دیکھنا چاہتا ہوں اور خود کو بھی ان تمام باتوں سے آزاد کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ ’’معتصم تم پاکستان جارہے ہو تمہیں یقیناپیسوں کی ضرورت ہوگی‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ہاں ضرورت تو پڑے گی اور ضرورت ہے بھی، لیکن تم اس بات کی فکر نہ کرو۔ میں نے کام والی جگہ سے ایڈوانس لیا ہوا ہے اور کچھ میرے پاکستانی دوستوں نے مدد کی ہے‘‘۔ شانتل نے مزید استفسار کیا، ’’معتصم کتنا عرصہ رکو گے‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’عین ممکن ہے دو مہینے یا اس سے بھی کم‘‘۔ ’’کیا میں ایئر پورٹ پر تمہیں الوداع کرنے آسکتی ہوں‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’ہاں کیوں نہیں‘‘۔ دونوں اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے اور دونوں جو بات کہنا چاہتے تھے وہ نہ کہہ سکے۔
ژ
چارلس ڈیگال
(Charles de Gaule)
ایئرپورٹ مسافروں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ معتصم انتظار گاہ میں بیٹھا انتظار کررہا تھا۔ وہ کسی کا انتظار کررہا تھا۔ اس نے ابھی تک بورڈنگ پاس نہیں لیا تھا۔ اس کے دوست اُسے مسلسل کہہ رہے تھے، تم خواہ مخواہ اس چٹیچمڑی والی کا انتظارکررہے ہو۔ یہ سب ایک جیسی ہوتی ہے۔ تم نے اپنا اُلو سیدھا کرلیا ہے۔ تم نے کون سا یہ کام مفت کیا ہے، اُسے رقم ادا کی ہے۔ اس نے بھی تم سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اب تم اپنے ملک اور مذہب کی لڑکی سے شادی کرنا۔ ابھی اس کے دوست اس طرح کی باتوں سے اس کے کان بھر رہے تھے کہ دور سے معتصم کو شانتل آتی دکھائی دی۔ اسے تھوڑی دیر ہوگئی تھی۔ وہ اس کی طرف بھاگتی ہوئی آرہی تھی۔ وہ ا س کے پاس پہنچی اور اسے گلے سے لگا لیا۔ زور زور سے رونے لگی حتیٰ کہ اس کی ہچکی بندھ گئی۔ وہ ساتھ ساتھ رک رک کے بول بھی رہی تھی، ’’تم کتنے کمینے ہو۔ تمہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ تم کسی کا دل توڑ کے جارہے ہو۔ صرف اپنے مطلب سے غرض تھی تمہیں۔ مطلب نکلا تو چل دیئے‘‘۔ اس نے پرس سے چالیس ہزار فرانک نکال کے دیئے۔ ’’یہ لو تمہارے چالیس ہزار فرانک اور مجھے میرے ضمیر کی عدالت سے نجات دلاؤ۔ تم سوچ نہیں سکتے میں نے یہ وقت کیسے گزارا۔ میں کبھی بھی ٹھیک طرح سو نہیں سکی۔ میرا ضمیر مجھے ہمیشہ ملامت کرتا رہا‘‘۔ ’’نہیں شانتل یہ پیسے تم رکھ لو۔ میری وجہ سے تمہیں بیروزگاری الاؤنس نہیں ملا‘‘۔ معتصم کے تمام دوست بڑی حیرت سے یہ تماشہ دیکھ رہے تھے، جیسے کوئی تھیٹر ہو۔
شانتل چلائی، ’’تم پاکستان چلے جاؤ۔ مجھے بھول جاؤ۔ وہاں شادی کرلو اور یہ بات ہمیشہ کے لیے بھول جانا کہ تم شانتل نام کی کسی لڑکی سے ملے تھے‘‘۔ ’’شانتل تم یہ کیا کہہ رہی ہو۔ ہم اچھے دوست رہیں گے‘‘۔ ’’تم اپنے پیسے رکھ لو۔ مجھے نہیں چاہیے تمہاری دوستی کیونکہ میں تم سے پیار کرتی ہوں۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ ایک دفعہ تم نے مجھ سے شادی کا کہا تھا، آج میں تم سے شادی کرنے کے لیے کہتی ہوں۔ اپنے مستقبل کے لیے‘‘۔ ’’لیکن شانتل میں مسلمان ہوں اور تم کرسچین‘‘۔ ’’میں اپنامذہب بدل لوں گی۔ ویسے بھی پیار میں مذہب کبھی حائل نہیں ہوا کرتا‘‘۔ معتصم نے کہا، ’’یہ میرے لیے کوئی اتنا بڑامسئلہ نہیں لیکن میرے ماں باپ بڑے مذہبی خیالات کے مالک ہیں۔ خیر جو بھی ہو اب ہم دونوں پاکستان جائیں گے کیونکہ میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔ میں تمہیں کافی پہلے بتانا چاہتا تھالیکن پیپر میرج
کرکے میں خود کو بڑا گھٹیا محسوس کرتا تھا۔ بلکہ میں اپنی نظروں میں گرگیا تھا۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا تھا جیسے پوری پاکستانی قوم، فرانس کے لوگوں کے آگے جھک گئی ہو۔ لیکن پکڑے جانے اور ملک بدر کئے جانے سے میں اتنا ڈر گیا تھا کہ مجھے مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا۔ میرے خوف نے میرے ضمیر کو شکست دے دی‘‘۔ ’’معتصم کیا تم جانتے ہو جب میں نے تمہاری آفر تسلیم کی، تم سے پیسے لیے تو مجھے ایسے لگا جیسے میں نے چند ٹکوں کی خاطر فرانس کی عظمت اور عزت کا سودا پاکستان کے ہاتھوں کردیا ہو۔ لیکن پھر پیار نے میرے دل کے دروازے پر دستک دی۔ تمہاری انسانیت اور ایمانداری نے مجھے متاثر کیا۔ میں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ سکتی تھی کہ پاکستانی کسی طرح بھی فرانس کے لوگوں سے کم تر ہوتے ہیں‘‘۔ ’’شانتل تمہیں پتا ہے میں بھی تمہارے پیار کی آگ میں جلتا رہا ہوں لیکن اظہار نہ کرسکا۔ میں یہی سوچتا رہا کہ اگر میں پیار کا اظہار کروں گا تو تم یہ سوچو گی کہ شاید میں پیسے بچانے کے چکر میں ہوں۔ اب شانتل ہمارے درمیان کوئی لالچ نہیں کوئی خود غرضی نہیں۔ ہم دوبارہ شادی کریں گے۔ شادی کاغذات پر لکھی جائے گی لیکن اس پیپر میرج کو ہم نام دیں گے۔ ان کاغذات کا تقدس ہوگا۔ اس لیے کہ ہم دونوں نے ضمیر کی عدالت میں فتح پائی ہے۔

No comments:

Post a Comment