Sunday, June 16, 2013

لنڈن، سائیں انٹرنیٹ، ناول، سرفراز بیگ، LONDON


لنڈن
آدم کے پاس اتنی رقم تھی کہ وہ آسانی سے انگلستان جا سکتا تھا۔ ان دنوں کنٹینر (ٹرالے) میں بند کرکے لے جانے کا طریقہ استعمال کیا جاتا تھا۔اس کا ریٹ بارہ ہزار فرانک سے لے کر پندرہ ہزار فرانک تک تھا۔آدم کو داؤد نے بتایا تھا ۔جو شخص یہ کام کرتا ہے، اس کا جاننے والا ہے۔ پیسے پہنچ کر ادا کرنے ہوں گے۔داؤد نے اس ایجنٹ سے بات طے کرلی۔اس نے کہا۔ آج شام چھ بجے MADELEINE (مدلین) میٹرو سٹیشن پے آجانا۔ یہ سب کچھ بہت جلدی ہوا۔آدم کو اندازہ نہیں تھا کہ اتنی جلدی یہ سارا نتظام ہوجائے گا۔حالانکہ آدم کا خیال تھا کہ وہ کم از کم ایک ہفتہ پیرس کی جی بھر کے سیر کرے گا۔تمام تفریحی و تاریخ مقامات دیکھے گا۔ عجائب گھر، آرٹ گیلریز، MONUMENTS (مونومنٹز یعنی یادگاریں)۔ ایک آدھ دن آنا کے ساتھ گزارے گا ۔تاکنپ کو
بھی مل کر جائے گا۔ لیکن وہ ایسا کچھ نہ کرسکا۔کیونکہ آج شام ہی اسے نکلنا تھا۔چھ بجے کا وقت طے ہوا تھا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ داؤد اور آدم علیحدہ ہورہے تھے۔ داؤد اور آدم مقررہ وقت پے MADELEINE (مدلین) میٹرو سٹیشن کے باہر ملحق باغ میں آکر سنگِ مرمر کے بینچ پے بیٹھ گئے۔ داؤد نے آدم کو چند فون نمبر دیئے اور کہنے لگا، ’’یہ ان لوگوں کے فون نمبر ہیں جو ہمیں سامان فراہم کرتے ہیں۔ ان کی لنڈن میں کیش اینڈ کیریز ہیں۔اگر CALAIS (کَیلے ، فرانس کے بارڈر کاایک شہرجو کہ انگلستان کی طرف ہے لیکن بیچ میں انگلش چینل حائل ہے)پکڑے گئے تو سیدھے گھر واپس آجانا اور
اگر DOVER (ڈو ۔ ور، انگلینڈ کا بارڈرجو انگلش چینل کے پاس ہے) پکڑے گئے تو سیاسی پناہ کی درخواست دے دینا۔ اگر تم پکڑے گئے تو وہ لوگ تمہیں خود پوچھیں گے۔ اپنی زندگی مت برباد کرو۔ تمہیں میری دوستی کا واسطہ ہے ۔اگر میری دوستی کا واسطہ قابلِ قبول نہیں تو تمہیں اس کا واسطہ ہے جس سے تم سب سے زیادہ پیار کرتے ہو۔‘‘۔ آدم چپ کر کے سنتا رہا۔ کبھی کبھی سننا اچھا لگتا ہے اور ویسے بھی چار سال کی رفاقت تھی۔ دونوں جدا ہورہے تھے۔ اس لیئے آدم بھی سوچنے پر مجبور تھا کہ وہ کیا کررہا ہے۔
اچانک ایک آدمی نمودار ہوا۔ انتہائی خاموشی کے ساتھ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا، ’’"PAKISTANAIS" (پاکستانیز، یعنی پاکستانی)۔داؤد نے کہا، "oui" (ووئی،یعنی ہاں) ۔تو اس نے پھر اردو میں بات کی، ’’آپ میں سے داؤد کون ہے‘‘۔ داؤد نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا، ’’جی میں ہوں‘‘۔وہ بڑے تپاک سے بولا، ’’اچھا توآپ ہیں، داؤد صاحب۔بڑی تعریف سنی ہے آپ
کی۔آپ تو پساج براڈی کے سب سے اچھے شیف ، (باورچی) ہیں‘‘۔ داؤد نے عاجزی سے جواب دیا، ’’بس جی اللہ کا کرم ہے اور آپ جیسے لوگوں کی دعا ہے‘‘۔ آدم بْت بنا دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔داؤد نے پوچھا، ’’جناب کا اسم شریف‘‘۔توکہنے لگا، ’’جی مجھے ناصر الدین پراچہ کہتے ہیں‘‘۔ داؤد نے کچھ سوچ کر کہا، ’’اْو یاد آیا پراچہ صاحب، آپ کی تو ہرمال دس فرانک کی دوکان بھی ہے‘‘۔ بڑی جعلی قسم کی انکساری سے کہنے لگا، ’’جی بالکل ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ خدمتِ خلق بھی چلتی ہے۔اب دیکھیں نا، دکھی انسانیت کی خدمت کرنا بھی تو ہمارا فرض بنتا ہے۔یہ بیچارے نہ ٹھیک سے کام کر سکتے ہیں، نہ کہیں آجاسکتے ہیں۔ وہاں انگلستان میں نہ کوئی کاغذات کا پوچھتا ہے نہ ہی کام کا کوئی مسئلہ ہے‘‘۔ داؤد نے بڑے احترام سے کہا،’’یہ میرے دوست ہیں۔ ہم دونوں نے سارا یورپ اکٹھے رہ کر گزارہ ہے‘‘۔ آدم نے ایک دم ہاتھ ملانے کے لیئے بڑھایا اور اپنا تعارف بھی کروایا، ’’جی آدم خان چغتائی‘‘۔ لیکن پراچے نے ہاتھ دیکھا ان دیکھا کردیا۔ ہاتھ ملانا تک گوارا نہ کیااور کہنے، ’’اچھا اچھا تو یہ سامان آپ کا ہے۔ آپ بالکل فکرمت کیجئے داؤد صاحب ، خدا نے چاہا تو آپ کا سامان بخیرو عافیت پہنچ جائے گا۔ وہ بڑا غفور رحیم ہے‘‘۔
داؤد نے پریشانی کے انداز میں پوچھا، ’’پراچہ صاحب ان کے کام اور رہائش کا کوئی انتظام ہوجائے گا‘‘۔ پراچے نے بڑے پراعتماد اندازمیں کہا، ’’ہاں ہاں۔ کوئی مسئلہ نہیں۔میرے بیشمار رشتہ دار لندن رہتے ہیں‘‘۔ پراچے نے اتنا کہا اور داؤد سے اجازت لی اور انتظار کرنے کا کہہ کر چلا گیا۔
داؤد ، آدم کی دلی کیفیت سمجھ رہا تھا کہ وہ اندر ہی اندر کیا محسوس کررہا ہوگا۔ پراچے نے اسے سامان کہا تھا اور اس پے کمال یہ کہ سلام کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا۔آدم اور داؤد نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں دونوں نے گفتگو کی۔ وہ اس مباحثے میں نہیں پڑنا چاہتے تھے کہ آدم کی عزتِ نفس مجروح کی گئی ہے۔ آدم جانتا تھاکہ اس کے پاس کاغذ نہیں ہیں اور اگر کاغذ ہوتے تو اسے یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ وہ تو اس طرح کے کئی لمحات و واقعات سے گزر چکا تھا۔
دسمبر کے دن تھے۔ کرسمس کی آمد آمد تھی اور سورج تین ساڑھے تین بجے ہی زمین کی گود میں جاکے سوجاتا۔ ہر طرف اندھیرا تھا۔ آدم نے گھڑی دیکھی تو سات بج چکے تھے۔ سردی میں اضافہ ہوچکا تھا اور ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی جس کی وجہ سے سردی زیادہ محسوس ہورہی تھی۔
اچانک تین لڑکے نمودار ہوئے۔ انھوں نے گرم کپڑے اس طرح اوپر نیچے پہنے ہوئے تھے جس طرح کسی نے زبردستی لاد دیئے ہوں۔شکل سے ایشیائی لگے تھے ان کے قریب آنے پے پتا چلا عجیب و غریب زبان بول رہے تھے۔ باغ کے ایک کونے میں سفید رنگ کی ایک سوزوکی کیریئر نماں گاڑی آکر رکی، ہاتھ کے اشارے سے پراچہ ان کو بلارہا تھا۔ آدم اور دادؤ تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے گاڑی کے
پاس پہنچے اور ان کے پیچھے وہ عجیب و غریب زبان بولنے والے بھی چل پڑے۔ جیسے ہی گاڑی کے پاس پہنچے،پراچے نے ہاتھ کے اشارے سے سب کو گاڑی میں بیٹھنے کوکہا۔ آدم اور داؤد جلدی جلدی گلے ملے اور آدم دوسرے لڑکوں کے ساتھ گاڑی کی طرف لپکا۔ چاروں نے جلدی جلدی گاڑی کا سلائیڈنگ ڈور کھولا اور اندر گھستے چلے گئے۔گاڑی کے اندر سییٹیں نہیں تھیں۔ زمین پر دری بچھی ہوئی تھی۔ جیسے ہی سلائیڈنگ ڈور بند ہونے کی آواز آئی انھوں نے accelerator (ایکسلریٹر) دبایا اور گاڑی فراٹے بھرنے لگی۔ گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر دو آدمی بیٹھے تھے۔پراچہ گاڑی چلا رہا تھا اور دوسرا آدمی اس سے کچھ کہہ رہا تھا۔۔ آدم نے غور کیا تو پتا چلا ،پنجابی میں کچھ کہہ رہا تھا۔آدم خاموش تھا جبکہ باقی تین آدمی کیا گفت و شنید کررہے تھے آدم کے کچھ پلے نہیں پڑرہا تھا۔
آدم نے حسبِ عادت باہر دیکھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ وہ کس علاقے میں ہیں۔اس کی نظر ایک تختی پر پڑی۔FORT D'AUBERVILLIERS (فوخت دا او بغ ولیئیغ)۔ابھی وہ ٹھیک سے پڑھ بھی نہ پایا تھا کہ گاڑی ایک تنگ گلی میں مڑ گئی اور مڑتے ہی رک گئی۔
ایک بہت بڑاکپڑے کا گودام تھا۔پراچہ ڈرائیونگ سیٹ سے اترا، دھاڑ سے دروازہ بند کیا اور بڑے غصیلے انداز میں ان کا سلائیڈنگ ڈورکھولا۔ ان چاروں کوجانوروں کی طرح ہانکتا ہوااس گودام کے ایک ویران کمرے میں لے گیا۔ کمرے میں جابجا evian (ایویئن، فرانس میں بکنے والے منرل واٹر کی ایک قسم)اور volvic (وولوک،فرانس میں بکنے والے منرل واٹر کی ایک قسم)کی خالی بوتلیں پڑی ہوئی تھیں۔ پیشاب کی بدبو صاف محسوس ہورہی تھی۔ اس کے بھبھوکے نتھنوں میں گھستے محسوس ہورہے تھے۔۔ اس کمرے میں تین چار آدمی اور بھی تھے۔ یہ آدم کا اندازہ تھا۔ کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے صاف دکھائی نہیں د ے رہے تھے۔ لیکن بات چیت سے پتا چلتا تھا۔ پنجابی ہیں۔ یا تو سکھ ہوسکتے تھے یا پاکستانی۔ابھی آدم اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ پنجابی بولنے والوں کاان عجیب و غریب زبان بولنے والوں سے جھگڑا ہوگیا۔ جھگڑے کے دوران پتا چلاکے ایک پارٹی سکھوں کی ہے اور دوسری سری لنکنوں کی۔اس دوران پراچہ وقفے وقفے سے آتااور پائپ اٹھا کر چلا جاتا۔ یہاں پے بالکل سناٹا تھا۔اندھیرا ہونے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی خاموشی محسوس ہونے لگی۔ ایسے میں جب پائپوں کی آواز آتی توایک عجیب سا ارتعاش پیدا ہوتا۔اور خاموشی اور سناٹے کو یہ ہلکا سا ارتعاش درھم برھم کرکے چلا جاتا۔آدم اندھیرے میں اس خاموش تھیٹر کا مزہ لے رہا تھا۔ اتنی دفعہ ڈنکی کے ذریعے آنے جانے کے بعد اب اس کے اندر بالکل خوف نہیں تھا۔اسے VICTOR HUGO (وکٹر ہیوگو) کا ڈرامہ یاد آگیا۔ LES DERNIER JOUR DA CONDEMN (لے دیغ نیئیغ یوغ دا کوندم ن، یعنی مجرم کے آخری ایام)۔اسے یہ خدا کا لکھا ہوا لگ رہا تھا۔آدم تو پیرس سے لندن جارہا تھا۔لیکن باقی سارے سری لنکا اور انڈیا سے ڈنکیاں لگاتے لگاتے ،یہاں تک پہنچے تھے۔تقریباً دس دس لاکھ روپیہ دیا تھا۔ ان سب کی لندن تک بات طے ہوئی تھی۔اس دوران جو بھی خرچہ تھا وہ ایجنٹ کے ذمے تھا۔یہ تین گھنٹے کا انتظار آدم کو قید تنہائی کی طرح لگ رہا تھا۔رات کے گیارہ بجے ہوں گے۔ ایک دبلا پتلا شخص کمرے میں داخل ہوا۔ اس نے بتی چلائی اور سب کو ڈنکی کی تفصیلات سمجھانے لگا۔
۱)پیراشوٹ جیکٹیں(ایک خاص قسم کا کپڑا جو آواز پیدا کرتا ہے)
۲)سکے کسی بھی ملک کے
۳)آلارم والی گھڑیاں
۴)آواز پیدا کرنے والے کڑے
یہ تمام اشیاء ساتھ لے کر نہیں جاسکتے۔اس کے علاوہ چھینکنا، باتیں کرنا، لڑائی کرنا، سرگوشیاں کرنا، کھانسنا، سونا،ڈکار لینا۔سب منع ہے۔جہاں تم لوگوں کو بٹھایا جائے گا، وہاں دو بوتلیں ہونگی۔ ایک میں پینے کا پانی ہوگا اور دوسری خالی بوتل پیشاب کر نے کے لیئے ہوگی۔ جیسے ہی کنٹینر(ٹرالہ) لندن کی
مضافات میں داخل ہوگا تم لوگوں کو ڈرائیور ایک ایک کر کے اتار دے گا۔وہ ساری باتیں سمجھانے کے بعد پوچھنے لگا۔سب کو سمجھ آگئی۔ سب نے ہاں میں سر ہلایا لیکن سری لنکن اسی طرح دیکھتے کے دیکھتے رہے۔وہ سمجھ گیا کہ سری لنکنوں کو کچھ سمجھ نہیں آئی۔اس نے فرنچ میں ایک سری لنکن لڑکے کو بلایا اور اسے کہا کہ اپنے ملک کے لڑکوں کو ضروری باتیں سمجھا دو۔ وہ سری لنکن اس تعفن زدہ کمرے میں داخل ہوا او ر سری لنکن زبان میں ان کوسمجھا کر چلا گیا۔
پھر وہی دبلا پتلا آدمی ان کو ایک ایک کرکے جانوروں کی طرح ہانکتا ہوا لے گیا۔ سب سے آخر میںآدم کی باری آئی۔وہ یہی سوچ رہا تھاکہ داؤد کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آئے گا۔لیکن اس کا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا تھا۔ جیسے وہ انسان نہیں بھیڑ بکریاں ہوںآدم کو بھی وہ ہانکتا ہوا کنٹینر(ٹرالے )کے پاس لے گیا۔آدم نے کیا دیکھا،کنٹینر(ٹرالہ) evian اور volvic کےcases (کیسوں)سے بھرا ہواہے۔ایک کیس میں بارہ پانی کی بوتلیں اور ہر بوتل کا وزن ۵.۱لیٹر تھا۔یعنی ایک کیس کا وزن ۱۸ لیٹر تھا۔ایک آدمی کنٹینر (ٹرالے)کے اندر کھڑا ان کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر اوپر کھینچتا اور آگے لے جاکر ایک قبر نماں جگہ اتار دیتا۔ یہ جگہ انھوں نے کنٹینر (ٹرالے)کے اس حصے میں بنائی ہوئی تھی جو حصہ ڈرائیور کی پچھلی طرف آتا ہے۔یہ قبر نماں جگہ انھیں پائپوں سے بنائی گئی تھی۔جن پائپوں کے لانے ،لیجانے کی آواز آرہی تھی۔بڑی مشکل سے دس آدمی گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوئے تھے۔جن میں سری لنکن ، سکھ اور دو عدد پاکستانی بھی تھے۔جب تمام لوگ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ چکے تو انھوں نے کنٹینر(ٹرالے) کی خالی جگہیں بھی پر کردیں۔ اب کنٹینر (ٹرالے)کے اندر بالکل اندھیرا تھا، چند لمحوں تک کسی کو کچھ نہ دکھائی دیا۔ پھر اندھیرے میں ایک دوسرے کے ہلکے ہلکے چہرے دکھائی دینے
لگے۔ آدم ایک کونے میں دبکا بیٹھا تھا۔ اپنے اصولوں کی سزا پارہا تھا۔لیکن اس کا ضمیر ملامت نہیں کررہا تھا۔اس نے اپنے مقصد کے لیئے اپنی جان کو تکلیف دی تھی۔کسی کے جذبات سے نہیں کھیلا تھا۔اپنے
ضمیر کو ملا مت زدہ نہیں کیا تھا۔
باہر گفتگو کی آواز آرہی تھی۔ ان کا ڈرائیور فرنچ تھا۔اس کے تلفظ اوراندازِ گفتگو سے لگ رہا تھا اور ویسے بھی فرانس ہو یا اٹلی،یونان ہو یا انگلستان،آپ کسی بھی ملک میں، اس ملک کے لوگوں کی مدد کے بغیر کوئی غلط کام کر ہی نہیں سکتے۔اس کا تجربہ تو آدم کو یونان اور اٹلی میں ہوچکا تھا۔
کنٹینر (ٹرالے) کا شٹر گرنے کی آواز آئی اور رہی سہی روشنی بھی جاتی رہی۔آدم کا دھیان باہر کی طرف تھا۔ اسے تالا بند کرنے کی آواز سنائی دی۔ تھوڑی دیر بعد زور کا جھٹکا لگا۔ انھیں ایسا لگا کنٹینر(ٹرالہ) زمین سے تھوڑا اوپر کو اٹھ رہا ہے۔جیسے ہی یہ سلسلہ مکمل ہوا ان کا کنٹینر (ٹرالہ )چل پڑا۔ اس قبر نماں جگہ پے جہاں یہ لوگ بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی۔پھر سری لنکنوں اور سرداروں نے آپس میں سرگوشیاں کرنی شروع کر دیں۔ایک سردار ان سب کو چپ کرانے کی کوشش کررہا تھا۔ جس کی وجہ سے شور میں اضافہ ہوچلا تھا۔کنٹینر(ٹرالہ) کافی دیر چلنے کے بعد رکا۔سب کی اوپرکی سانس اوپر اور نیچے کی سانس نیچے رک گئی۔کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ تالا کھلنے کی آواز آئی۔شٹر اوپر اٹھا۔ اندر ٹورچ کی
روشنی پڑی۔ سب چوکنے ہوگئے۔اب ڈیپورٹ ہوجائیں گے۔لیکن چند لمحوں میں شٹر نیچے گرا دیا گیا۔اور پھر تالا بند کرنے کی آواز سنائی دی۔سب نے سکھ کا سانس لیا۔ کافی دیر سب خاموشی اختیار کیئے رہے۔ انھیں یہ نہیں پتا تھا کہ مقامی پولیس چوکی ہے۔ اصل چیک پوسٹ آگے آئے گی۔کنٹینر(ٹرالہ) پھر چلنے لگا۔ اس دوارن پینے کا پانی ختم ہوچکا تھا اور دونوں بوتلیں پیشاب سے بھر چکی تھیں۔ سب لوگ
اتنے قریب تھے کہ ان کو ایک دوسرے کی گرم سانسیں بھی محسوس ہورہی تھیں۔سب کی خارج شدہ ہوا نے سانس لینا بھی مشکل کردیا تھا۔کبھی کسی کی آنکھ لگ جاتی، کبھی کوئی چھینکتا۔ کبھی کسی کا گھٹناکنٹینر(ٹرالے) کی دیوار سے ٹکڑا جاتا۔ یہ سب باتیں ان لوگوں کے لیئے خطرناک تھیں۔کسی ایک کی غلطی سب کو مصیبت میں پھنسا سکتی تھی۔ آدم سارے راستے،حضرت آدم ؑ اور آما حوا کی دعا پڑھتا رہا،’’اے رب ہم
نے اپنی جانوں پے ظلم کیا، اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا تو ہم بھی گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں گے‘‘۔
کافی دیر کنٹینر(ٹرالہ) چلنے کے بعد رکا۔اب کے کافی دیر تک رکا رہا۔سب اس طرح چپ سادھ کے بیٹھے تھے جیسے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو۔جیسے ہی کنٹینر(ٹرالہ) پھر چلنا شروع ہواسب کی جان میں جان آئی۔ اب بالکل ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے کنٹینر (ٹرالہ) لکڑی کے تختوں پے چل رہا ہو۔چند لمحوں بعد کنٹینر (ٹرالہ) ساکت ہوگیا۔آدم کو یقین ہوچلا تھا کہ اب ان کا کنٹینر (ٹرالہ )کسی بڑے بحری جہاز میں داخل ہوچکا ہے۔جیسے ہی ان کا کنٹینر (ٹرالہ) رکا،آدم کا جی متلانے لگا۔ابھی اسے یہ محسوس ہی ہورہاتھا کہ سامنے والے سری لنکن نے قے کا فوارہ چھوڑا اور سامنے والے سردار پے جا پڑا۔ ابھی سردار اس سری لنکن کو جھاڑے کا ارادہ کر ہی رہا تھاکہ باہر کتوں کے بھونکنے کی آواز آنے لگی۔یہ کتے کنٹینر (ٹرالے) اور گاڑیوں کے پاس اس لیئے گزارے جاتے تانکہ غیرقانونی اشیاء خاص کر HARD CORE DRUGS ( ہارڈ کور ڈرگز یعنی مہلک اور انسانی زندگی تباہ کرنے والی نشے کی چیزیں)کی نقل و حمل کو روکا جاسکے۔جس کنٹینر (ٹرالے )پے شک ہوتا اسے کھلوا کر دیکھتے۔ لیکن ان کا کنٹینر (ٹرالہ) نہ کھلوایا گیا۔ آدم سوچ رہا تھا کہ CALAIS (کَیلے، فرانس کا شہر جہاں سے برطانیہ داخل ہوتے ہیں لیکن بیچ میں انگلش چینل حائل ہے)کی چیک پوسٹ سے یہ لوگ گزر آئے ہیں۔لیکن آدم کو اس بات پتا نہیں تھا فرنچ امیگریشن اور برٹش امیگریشن ایک ساتھ ہی ہوجاتی ہے۔بحری جہاز سے کنٹینر (ٹرالہ) نکلنے کے بعد کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ جب تک کنٹینر (ٹرالہ) بحری جہاز میں کھڑا تھاسب کی جان اٹکی ہوئی تھی۔ پھر گاڑیوں کے چلنے کی آواز آئی۔ ایک جھٹکے کے ساتھ ان کا کنٹینر (ٹرالہ) بھی چل پڑا۔ان کا کنٹینر (ٹرالہ) آڑھے ترچھے راستوں پے چل رہا تھا۔یہ سب آدم دیکھ نہیں سکتا تھالیکن وہ کنٹینر (ٹرالے) کے ہچکولوں سے محسوس کرسکتا تھا۔جیسے ہی آڑھا ترچھا راستہ ختم ہوا، کنٹینر
(ٹرالے)کے ڈرائیور نے رفتار بڑھا دی اور اس انداز سے رفتار بڑھائی کہ ان کے اوپر پائپوں کا فریم اور اس پے لدا ہوا سامان ، ایسا لگتا تھا کہ ان کے اوپر آجائے گا۔گھنٹہ بھر کنٹینر (ٹرالہ)چلا ہوگا۔پھر کنٹینر (ٹرالہ) رکا۔اور تالا کھلنے کی آواز سنائی دی۔ شٹر کھلا اور ہلکی ہلکی روشنی پیدا ہوئی۔سب کی آنکھیں چندھیا گئی۔اس خیرہ کن روشنی میں سب دیکھنے کی کوشش کرنے لگے اور آہستہ آہستہ مدھم تصویریں اصلی روپ دھارنے لگیں۔پھر پنجابی میں کسی کی آواز آئی۔ ایک ایک کرکے باہر آجاؤ۔لیکن شور بالکل نہیں کرنا ورنہ پولیس کے حوالے کردوں اور ڈیپورٹ کردیئے جاؤ گے۔مرے ہوئے کو کیا مارنا۔ وہ تو پہلے سے ہی اتنے سہمے ہوئے تھے۔ سب ایک ایک کر کے اس قبر نماں جگہ سے باہر آگئے۔ سب سے آخر میں آدم باہر آیا،اسے کوئی جلدی نہ تھی۔ایک آدمی ان کو ہانکتا ہواتہہ خانے میں لے گیا اور ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کو کہا۔تہہ خانے میں کافی سردی تھی انھوں نے سب کورضائیاں لاکر دیں پینے کے لیئے کوکا کولا اور آلوؤں کے چپس کے بڑے بڑے پیکٹ لاکر دیئے۔ جن کی آدائیگی ہوتی جارہی تھی۔ ان کے ٹیلیفون نمبر لے کر ان کے بھائیوں اور عزیزوں کو ٹلیفون کیئے جارہے تھے۔ داؤد کو بھی اطلاع مل چکی تھی کہ آدم بخیر و عافیت لندن پہنچ چکا ہے۔آدم نے ضروری ٹیلفون نمبر زبانی یاد کیئے ہوئے تھے۔اس نے بھی دادؤ کے جاننے والوں کا نمبر لکھ کر دیا۔لیکن دیئے گئے نمبر پے کوئی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ایک ایک کرکے سب جارہے تھے۔ کسی کو اس کے عزیز برمنگھم(انگلستان کا ایک شہر جہاں کافی تعداد میں غیرملکی آباد ہیں)اور کسی کو بیڈفورڈ(انگلستان کا ایک شہر)سے لینے آئے تھے۔لیکن آد م تہہ خانے میں دبکا بیٹھا رہا۔ درد کے مارے اس کا سر پٹھا جارہا تھا۔ وہ سیڑھیاں طے کرکے اوپر چلا گیا۔ اس کی مڈبھیڑ ایک آدمی سے ہوگئی۔ وہ اسے رعب جھاڑنے لگا۔ آدم نے ترکی با ترکی جواب دیئے۔کہنے لگا، ’’میں کوئی اللہ واسطے تو نہیں آیا۔ تم لوگوں کو قیمت ادا کی ہے‘‘۔ ایک آدمی جو دیکھنے میں ذرا سلجھا ہوا لگتا تھا ۔ اس نے آدم کو لے جاکر باورچی خانے میں بٹھایا اور کہنے لگا، ’’اْؤئے چاء بناؤ منڈے کے لیئے، گھبرا گیا ہے‘‘۔ آدم کو چائے پیش کی گئی۔ساتھ میں ANADIN EXTRA (ایناڈین ایکسٹرا، ایک درد رفع کرنے والی دوا جو ایسپرین یا پیراسیٹامول کاکام دیتی ہے)کی گولی بھی دی گئی۔ اب آدم تھوڑا سکون میں تھا۔وہ شخص کہنے لگا، ’’آپ کے دیئے گئے فون نمبر پے رابطہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔مسلسل گھنٹی بج رہی ہے لیکن اٹھا کوئی نہیں رہا۔آدم کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ شخص اسے آپ جناب کرکے بلا رہا ہے۔ہوسکتا ہے اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ آدم صبح سے بیٹھا تھا۔تھکن اور نیند اس کا برا حال تھااور اس کے منہ کا ذائقہ اتنا خراب ہورہا تھا کہ سانس لینا مشکل تھی۔اسے محسوس ہورہا تھا کہ اس کے منہ سے بو آرہی ہے۔باہر بالکل اندھیرا تھا۔ آدم کو بالکل نہیں پتا تھا کہ وہ لندن کے کس حصے میں ہے۔نہ جانے کیوں ان لوگوں کو رحم آگیا۔ آدم کو گاڑی میں بٹھایااور EARLS COURT (آلزکوٹ) لاکر EARLS COURT FOOD AND WINE (آلز کوٹ فوڈ اینڈ وائن) پے لاکر چھوڑ دیا۔دوکان کے مالک کو بتایا کہ اس کے عزیزوں کا نمبر نہیں مل رہا، آپ اسے ایک دو دن اپنے پاس رکھ لیں۔ اتنی بات کی اور وہ چلتے بنے۔
آدم آتے جاتے گاہکوں کودیکھتا رہا۔پھر دوکان سے باہر آگیا۔EARLS COURT ROAD (آلز کوٹ) روڈ پے کافی رونق تھی۔جگہ جگہ CHRISTMIS TREES (کرسمس ٹریز) لگے ہوئے تھے اور بجلی کے کھمبوں کو بھی سجایا گیا تھا۔آدم ایک لمحے کے لیئے سوچنے لگا۔یہ وہی ملک ہے جس کا سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج اس ملک میں سورج طلوع ہی نہیں ہوتا۔ سڑک پے چلتے چلتے اس کی نظر کتابوں کی دوکان پے پڑی۔ اس کے ماتھے پے لکھا تھا،WATERSTONE (واٹرسٹون)۔ آدم دوکان کے اندر داخل ہوا۔ ان سے پوچھنے لگا، "what time you close" (آپ کے بجے بند کرتے ہیں)۔کاؤنٹر پے بیٹھے ہوئے آدمی نے COCKNEY (کوکنی، لندن کا بولنے کا ایک انداز جو کہ صرف وہاں کے رہنے والے لوگوں کو ہی سمجھ آتا ہے ۔ورنہ غور کرنے پر پتا لگتا ہے کے کیا کہہ رہے ہیں)لہجے میں کہا "eight o clock" (اے او کلو، یعنی آٹھ بجے)۔کتابوں کی دوکان بند ہونے میں ابھی کچھ وقت تھا۔آدم نے نظر دوڑائی اور CONTEMPORARY FICTION (عصرِ حاضر کا ادب) والے سیکشن میں چلا گیااور کتابیں دیکھنے لگا۔کتابیں دیکھتے دیکھتے ، اسے پتا ہی نہ چلا کہ آٹھ بج چکے ہیں۔وہ EARLS COURT FOOD AND WINE (آلز کوٹ فوڈ اینڈ وائن) پے واپس آگیا۔ایک بوڑھا سا آدمی ، شلوار قمیص میں ملبوس ، ہاتھ میں تسبیح اور سر پے جالی دار ٹوپی پہنے کاؤنٹر پے کھڑا تھا۔داڑھی مونڈ مونڈ کے اس کا منہ بالکل ایسے ہوگیا تھا جیسے کسی مرغی کے تمام پَر نوچ دیئے جائیں۔ آدم حسبِ عادت ابھی اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ وہ بول پڑا،’’تاڑا کے نا اے آ(تمھارا نام کیا ہے)۔آدم نے اسی کے انداز میں جواب دیا، ’’جی ماڑا ناں آدم تھے آ(جی میرا نام آدم ہے) ۔بوڑھے آدمی نے دوبارہ سوال کیا، ’’کْتھے رہنڑاں اے‘‘ (کہاں رہتے ہو)۔اس سے پہلے آدم کوئی جواب دیتاایک درمیانی عمر کا آدمی بول پڑا، ’’ابا جی کے آنخڑیں او، پائی اشرف نال اَچھے آ اے‘‘(آپ اس کو کیا پوچھتے ہیں۔اشرف بھائی کے ساتھ آیا ہے)۔بوڑھا آدمی بولا، ’’مِیں وی دسو نا مِیں کے پتا اے آ‘‘(مجھے بھی بتائے نا،مجھے کیا پتا)۔ وہ آدمی بولا ، ’’اؤئے فرید تاڑی چھٹی ہوئی گئی اے۔ کل صبح ست بجے اَچھیا اے،اس کی صوفی نے کہار چھوڑی آ(اؤئے فرید تمھاری چھٹی ہوگئی ہے۔ کل صبح سات بجے آنا۔اس کو صوفی کے گھر چھوڑ آؤ‘‘۔
آدم سمجھ گیا کہ یہ لوگ میر پور یا گجر خان کے کسی علاقے کے ہیں۔اس نے جس کالج سے گریجوئیشن کی تھی وہاں زیادہ تر لڑکے گجر خان سے تعلق رکھتے تھے۔اور سب پوٹھواری زبان بولتے تھے۔اس لیئے آدم کو ان کی زبان سمجھنے میں بالکل دقت محسوس نہ ہوئی۔
فرید کی تراش خراش بالکل مختلف تھی۔ وہ جب پوٹھواری بولتا تو انگریزی اور پوٹھواری ملا کر بولتا،
جیسے یہ کوئی PIDGIN (پجن،وہ زبان جو چینی تجارت کے دوران انگریزی کو بگاڑ کر بولا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ کوئی بھی زبان جو بگڑ جائے پجن کہلائے گی) یا CREOLE (کریول) تخلیق ہوئی ہو۔
دونوں گاڑی میں بیٹھے اور وہ مختلف سڑکوں پے گاڑی چلاتا اسے جانے کس علاقے میں لے آیا تھا۔آدم نے تختی پڑھنے کی کوشش کی لیکن کچھ سمجھ نہ آیا۔جب ان کی گاڑی HOUNSLOW WEST (ہاؤنزلو ویسٹ) ریلوے سٹیشن کے پاس سے گزر ی تو آدم کو پتا چلا کہ اس علاقے کانام HOUNSLOW (ہاؤنزلو) ہے۔ دو تین گلیوں میں گھومنے کے بعد فرید نے گاڑی ایک مکان کے سامنے روک دی۔اور آدم کو اترنے کا اشارہ کیا۔چند قدم چل کر وہ ایک گھر کیاسامنے رکے۔اس لڑکے نے دروازہ کھٹکھٹایا۔اندر سے ایک آدمی نکلا۔ لمبے لمبے بال ، رنگ گورا چٹا، مونچھوں کا انداز اس طرح کا کہ کبھی لگتا ۔۔ہیں، کبھی لگتا نہیں ۔۔ہیں۔ دونوں کانوں میں سونے کی بالیاں ، شلوار قمیص زیب تن کیئے ہوئے تھا۔جیسے ہی دروازہ کھولا، کہنے لگا، ’’لنگی آؤ، لنگی آؤ۔پائی اوری کونڑ اے‘‘(آئے آئے،یہ
صاحب کون ہیں)۔اس لڑکے نے جواب دیا، ’’اے پائی اشرف نال اَچھے سے۔اْنا آخیا سا تاڑے کول کِنی اَچھاں‘‘(یہ اشرف کے ساتھ آئے تھے۔ انھون نے کہا تھا آپ کے پاس چھوڑ جاؤں)۔فرید نے COCKNEY (کوکنی ) انداز میں آدم کا نام پوچھتے ہوئے کہا، ’’"wa yo name" (وا یو نیم، تمھارا نام کیا ہے)۔آدم نے جواب دیا، ’’آدم‘‘۔وہ محترم جنھوں نے دروازہ کھولا تھا کہنے لگے، ’’اَچْھو اَچْھو اتھے کیں آں سٹینڈی گے او‘‘(آؤ آؤ ،یہاں کیوں کھڑے ہوگئے ہو)۔جیسے ہی آدم نے اندر قدم رکھا اسے ایک عجیب سی بو آنے لگی۔ زمین پر ہر جگہ قالین بچھا ہوا تھا۔ کمرے میں داخل ہوئے تو قالین ان کے پاؤں سے چپکنے لگا۔ جس کمرے میں آدم کو بٹھایا گیا، اس میں تین عدد چارپائیاں، ایک طرف کپڑے رکھنے والی الماری، دیواروں کا کاغذ جابجا اترا ہوا تھااور کھڑکی پر جالی دار پردے لٹک رہے تھے، جو کہ اتنے غلیظ تھے کہ میل کی وجہ سے ان کے سوراخ بند ہوچکے تھے۔ کمرے میں روشنی بہت کم تھی۔تقریباً۴۰ واٹ کا بلب لٹک رہا تھا۔یہ تینوں بڑی ہلکی آواز میں گفتگو کررہے تھے۔ جیسے ہی آواز بلند ہوتی ،اس کمرے سے ملحقہ کمرے کی دیوار بجتی۔ اس کامطلب ہوتا آہستہ باتیں کریں۔کیونکہ اسے صبح پانچ بجے کام پے جانا تھا۔فرید نے خدا حافظ کہا اور چلا گیا۔صوفی ستار نے آدم کو بتایا کہ ،’’یہ تمھارا بستر ہے ۔تمھارے کمرے میں دو آدمی اور ہیںیہ دونوں رات کو کام پے چلے جاتے ہیں اور صبح آکر سوجاتے ہیں۔ اس لیئے تمھیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ انشاء اللہ ایک دو دن میں کام بھی مل جائے گا۔تب تک کرائے اور کھانے پینے کی فکر مت کرنا‘‘۔ آدم نے کہا، ’’نہیں جناب میں آپ کو کرایہ بھی دونگا اور کھانے پینے کے پیسے الگ سے‘‘۔آدم کے پاس سو پاؤند تھے۔باقی وہ داؤد کے پاس چھوڑ آیا تھا۔
صوفی ستار نے اسے کھانا پیش کیا۔اس کے بعد چائے پلائی۔ ٹیلی ویژن بھی چلا دیا۔آدم تھوڑی دیر تک ٹی وی دیکھتا رہا اور اپنی قسمت کو کوستا رہا۔ جیسے کسی گاؤں میں آگیا ہو،لیکن اس کے علاوہ کوئی اور حل بھی تو نہیں تھا۔رات کافی ہوچکی تھی۔آدم اپنے کمرے میں آکرسوگیا۔آدم صبح جب سوکر اٹھا تو اس کا سر درد سے پٹھا جارہا تھا۔ وہ باورچی خانے میں آیا تو ایک صاحب چائے بنا رہے تھے۔آدم نے سلام کیا، اپنا تعارف کروایا، ’’جی میرا نام آدم خان چغتائی ہے اور آپ‘‘؟تو ان محترم نے جواب دیا، ’’جی میرا نام طاہر جمیل کاشانی ہے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’جی نام تو بڑا شاعرانہ ہے۔ آپ کام پر نہیں گئے‘‘۔کاشانی صاحب کہنے لگے، ’’جی وہ ہفتے اور اتوار کو میری چھٹی ہوتی ہے‘‘۔ آدم نے پھر سوال کیا، اب اس کی بھی عادت بن چکی تھی،لوگوں سے سوال کرنے کی، ’’کیا کام کرتے ہیں‘‘۔ وہ کہنے لگے،’’جی میں ٹرک ڈرائیور ہوں۔ کیش اینڈ کیریز کا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتا ہوں‘‘۔ آدم نے بے تکلفانہ انداز میں کہا، ’’کاشانی صاحب میرا سر درد سے پھٹاجارہا ہے آپ کے پاس سر درد کی کوئی گولی ہوگی‘‘۔ کاشانی صاحب بڑے دوستانہ انداز میں کہنے لگے، ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔لیکن پہلے ناشتہ کرلیجئے۔پھر گولی کھالیجئے گا۔دونوں نے مل کر ناشتہ کیا۔ اس کے بعد آدم نے سر درد کی گولی کھائی۔ اسے ایسا لگا جیسے اسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ لیکن اس کے گھٹنوں میں شدید درد ہورہاتھا۔کنٹینر (ٹرالے) میں تقریباًآٹھ نو گھنٹے وہ اپنی ٹانگیں سیدھی نہ کرسکاتھا۔
آدم کاشانی صاحب سے مخاطب ہوا، ’’کاشانی صاحب ، مجھے چند عدد چیزیں خریدنی ہیں۔ یہاں نزدیک کوئی دوکان یا سٹور آپ کو پتا ہو‘‘۔ کاشانی صاحب کہنے لگے، ’’آدم صاحب آپ میرے ساتھ چلیں۔ میں بھی وہیں جارہا ہوں۔دوپہر کے کھانے کے لیئے گوشت وغیرہ لانا ہے۔صرف دو ہی دن میں گھر کھاناپکاتا ہوں۔ باقی دنوں میں ، کبھی برگر، کبھی پیزا اور کبھی کبھار ڈونر کباب کھالیتا ہوں‘‘۔دونوں نے کپڑے بدلے اور گاڑی میں بیٹھ لر HOUNSLOW WEST (ہاؤنزلو ویسٹ) کے سنٹر میں آگئے۔کاشانی صاحب نے گاڑی پارک کی اور دونوں چلتے چلتے HOUNSLOW FOOF AND WINE (ہاؤنزلو فوڈ اینڈ وائن) میں داخل ہوئے۔ بہت بڑی دوکان تھی۔ جہاں تقریباًکھانے پینے کی تمام اشیاء موجود تھیں۔اور تمام ملازمین پاکستانی۔
آدم حیرت زدہ ہو کے دیکھتا رہا۔اس نے ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ شیونگ مشین اور تولیہ ہاتھ میں لیا۔ جب کاؤنٹر پے پیسے ادا کرنے آیا تو سوچنے لگا، انگریزی میں پوچھے یا اردو میں یا پوٹھواری میں۔اس کا مسئلہ خود بخود حل ہوگیا، جب آواز آئی "nine pound and ninetynine pence please" (نو پاؤنڈ اور ننانویں پینیاں، مہربانی فرما کر)۔"would you like bag" (کیا آپ کو شاپنگ بَیگ چاہیئے)۔آدم نے پچاس پاؤنڈ کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔اس نے مطلوبہ رقم رکھ لی اور بقایا واپس کردیئے۔ کاشانی صاحب بھی گوشت خرید چکے تھے۔’’چلیں‘‘۔آدم نے کہا، ’’ہاں ہاں‘‘۔ آدم نے prepaid telephonecard (پری پیڈ ٹلیفون کارڈ، یعنی پہلے سے قیمت چکایا ہوا)خریدا اور داؤد کا نمبر ملایا۔یہ ایک معجزے سے کم نہیں تھاکہ رسیور داؤد نے ہی اٹھایا، ورنہ دادؤ کچن میں ہی مصروف رہتا۔کیونکہ آدم، دادؤ کی آواز پہچانتا تھا۔ داؤد بھی آدم کی آواز پہچانتے ہوئے کہنے لگا، ’’ہاں آدم خیریت سے پہنچ گئے۔ پراچہ صاحب کا آدمی بتا رہا تھا ۔انھوں نے تمھاری کافی مدد کی اور تمہیں اپنے واقف کاروں کے پاس چھوڑ کر آئے ہیں۔اور ہاں اس نمبر کا کیا ہوا‘‘۔آدم نے جواب دیا، ’’وہ لوگ اس نمبر پے ملے ہی نہیں‘‘۔ تو داؤد کہنے لگا، ’’میں نے انھیں فون کیا تھا۔ وہ کہنے لگے ہم جب وہاں پہنچے تو آدم وہاں سے جاچکا تھا۔خیر کوئی بات نہیں۔تمھاری امانت میرے پاس ہے۔ جب چاہوگے بھیج دونگا۔اور ہاں کسی چیز کی ضرورت ہو تو فون کردینا‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’میرا کوئی فون تو نہیں آیا تھا۔میں نے اپنی چند سہیلیوں کو گھر کا نمبر دیا تھا۔اور میں انھیں بتا کر نہیں آیا‘‘۔ داؤد نے جواب دیا، ’’ہاں آیا تھا۔ ایک کا تو مجھے نام یاد نہیں ،بڑا مشکل تھا تک نی اور دوسری تھی آنا۔ آدم تم نے ذکر نہیں کیا۔ شاید شادی وغیرہ کا کوئی چکر چل جاتا۔ تمھارے کاغذات بن جاتے۔ خیر اب لنڈن میں ہی کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کرلینا۔ سنا ہے ، وہاں پاکستانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے‘‘۔آدم نے کہا، ’’اچھا کرلونگا۔ تم بتاؤ، بٹ سے معاملہ طے ہوا‘‘۔ داؤد نے کہا، ’’ہاں ، میں نے ایک اسسٹنٹ کْک رکھا (مددگار باورچی) ہے اسے کام سکھا رہا ہوں۔ جیسے ہی اسے تھوڑا بہت کام آگیا میں پاکستان چلا جاؤں گا۔ ویسے میں نے ۲۸ جنوری کی سیٹ ریزرو کروالی ہے۔ ہوسکتا ہے میری اور ببلی کی شادی بھی ہوجائے۔ ایک بات کا دکھ ہے کہ شادی تمھاری غیر موجودگی میں ہوگی۔ ہاں یاد آیا۔ میری بہن کی بھی شادی طے ہوگئی ہے۔ سب لوگ میرا انتظار کررہے ہیں۔تمھارا کوئی کام ہو تو بتاؤ۔تمھارے گھر والوں کو پہنچا دونگا‘‘۔ آدم
نے سرد آہ بھر تے ہوئے کہا، ’’میں کیا پیغام بجھواؤں گا۔ہاں اگر ہوسکے تو انھیں کچھ پیسے دے آنا۔ پتا نہیں مجھے کام کب ملے‘‘۔داؤد کہنے لگا۔ ’’تم فکر مت کرو‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اچھا خدا حافظ،چاآؤ (اطالوی میں سلام) ‘‘ اور رابطہ منقطع ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو FINNEGANS WAKE FOOF AND WINE (فنیگن وئیکس فوڈ اینڈ وائن) پے کام مل گیا۔ تنخواہ بھی معقول تھی۔آدم کو بڑی حیرت ہوئی، دوکان کا نام بڑی ادبی قسم کا تھا کیونکہ FINNEGANS WAKE (فنیگن وئیکس) آئرش ناول نگار JAMES JOYCE (جیمز جوئس) کی کتا ب کا نام ہے۔
آدم کو یورپ میں کئی طرح کے کام کرنے کا تجربہ ہوچکا تھا۔ اس لیئے اب کوئی کام بھی اسے عجیب نہیں لگتا تھا۔آدم کاکام تھا دوکان کے شیلفوں میں جو چیز کم ہوجائے اسے تہہ خانے سے لاکر خالی جگہ پے بھر دینا۔جس جگہ ان کی دوکان تھی یہاں لندن کا مزدور طبقہ، (ورکنگ کلاس) رہتا تھا۔اس کی دوکان ، جہاں آدم کام کرتا تھا اس روڈ کا نام تھا WANDSWORTH (وانڈزورتھ)اس کی خاص بات یہ تھی کہ یہ CHELSEA FOOTBALL (چیلسی فٹبال ، انگلستان کا ایک نمایاں فٹ بال کلب جو کہ لندن میں ہے)گراؤنڈسے زیادہ دور نہیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ کاروباری نقطہ ء نگاہ سے یہ دوکان بہت بہتر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرسمس گزرچکی تھی۔ نئے سال کی آمد آمد تھی۔ سردی کی شدت میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔آدم کو یورپ میں تقریباًچار سال ہونے کو آئے تھے لیکن تمام یورپی ملکوں کے مقابلے میں انگلستان میں سردی زیادہ تھی۔ جو لوگ یہاں تیس چالیس سال پہلے آئے تھے، وہ بتاتے ہیں کہ پہلے سردی اس سے بھی زیادہ ہوا کرتی تھی۔اب آلودگی کی وجہ سے سردی کی شدت میں کمی واقع ہوگئی ہے۔
آدم کوکام کے اوقاتِ کار بڑے پسند آئے۔ وہ دوپہر ایک بجے کام شروع کرتا اور رات گیارہ بجے کام ختم کرکے زیرِ زمین ٹرین پے گھر آجاتا۔ جس طرح پیرس میں میٹرو تھی اسی طرح لندن میں میٹرو کو UNDERGROUND (انڈرگراؤنڈ) کہتے ہیں۔
جس کمرے میں آدم رہائش پذیر تھا۔ وہاں اس کے ساتھ دو لڑکے اور بھی تھے۔دونوں ساری ٹیکسی چلاتے، جسے لندن کی زبان میں منی کیبنگ (MINI CABING)کہتے ہیں اور صبح پانچ ،چھ بجے ان کی واپسی ہوتی۔ آدم چونکہ صبح دیر سے اٹھتا ،اس لیئے اسے کوئی پریشانی نہ ہوتی۔ کبھی کبھی جلدی بھی آجاتے۔ وہ آپس میں عجیب و غریب زبان بولتے۔نہ انگریزی لگتی نہ ہی پوٹھواری۔ روزانہ رات کو ہیروئن پیتے۔ ایک دن آدم سے پوچھنے لگے، ’’آپ کوکوئی اعتراض تو نہیں‘‘۔ آدم نے جواب دیا، ’’آپ لوگ اپنی ذات کے ساتھ جو بھی کریں مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ آپ مجھے نقصان تھوڑی پہنچاتے ہیں‘‘۔ ان میں سے ایک نے سوال کیا، ’’بھائی صاحب آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ آدم نے جواب دیا، ’’جی آدم خان چغتائی اور آپ دونوں کا؟‘‘دونوں نے باری باری اپنا تعارف کروایا، ’’راجہ ریاست خان سیال‘‘ اور دوسرے نے کہا، ’’سہیل احمد خان ستی‘‘۔آدم نے فضول سوال کیا، ’’آپ دونوں رشتہ دار ہیں‘‘۔ ستی نے جواب دیا، ’’نہیں۔۔۔لیکن ہمارے بزرگ ایک ہی گاؤں کے ہیں۔ہم دونوں کی جائے پیدائش بریڈ فورڈ ہے‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’آپ لوگ پڑھتے ہیں؟‘‘ ستی نے ترنگ میںآکر جواب دیا،’’میں نے ہائی سکول تک پڑھا ہے لیکن انگریزی پاکستان کے ایم اے پاس سے زیادہ اچھی بولتا ہوں۔فرفر۔وہاں کی تو تعلیم ہی بیکار ہے۔پڑھے لکھے لوگ بھی غلط انگریزی بولتے ہیں‘‘۔سیال نے لقمہ دیا، ’’ہاں ہاں میں نے بھی او لیول کیا ہے لیکن میرے سامنے پاکستان کے افسر بھی چپ ہوجاتے ہیں۔آپ کو بھائی صاحب انگریزی آتی ہے‘‘۔آدم نے عاجزانہ انداز میں جواب دیا، ’’تھوڑی بہت بول لیتا ہوں۔گزارا کر لیتا ہوں‘‘۔ ستی نے سوال کیا، ’’پاکستان میں کیا کام کرتے تھے‘‘۔ آدم نے جلدی سے جواب تخلیق کیا اور کہنے لگا، ’’جی وہاں گرمیوں میں آم بیچا کرتا تھا ، سردیوں میں خشک میوہ جات۔ بعد میں ریڑھی بیچ کر انگلستان آگیا۔ ویسے بھی پڑھائی میں کیا رکھا ہے۔ جب یہاں رہ کر انگریزی سیکھ جاؤں گا تو پاکستان کے ایم اے پاس بھی میرا مقابلہ نہیں کرسکیں گے‘‘۔ ستی نے آدم کے ذہن کی اس تخلیق کردہ کہانی پے یقین کرتے ہوئے کہا، ’’بالکل درست فرمایا آپ نے۔آپ کی شادی ہوئی ہے؟‘‘ آدم نے کہا، ’’جی نہیں۔ میں لندن میں الیگل ہوں اور الیگل آدمی اچھوتوں کی طرح ہوتا ہے۔ آپ نے جنگ لنڈن میں ضرورت رشتہ کے اشتہارات نہیں پڑھے۔ جن کے آخر میں لکھا ہوا ہوتا ہے۔الیگل اور سیاسی پناہ گزین سے معذرت کے ساتھ‘‘۔ ستی نے جواب دیا، ’’ہم نے تو کبھی اشتہار دیا ہی نہیں۔ میری شادی تو گجر خان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی لڑکی سے ہوئی ہے۔وہ میری ماسی کی لڑکی ہے‘‘۔ آدم نے سیال صاحب سے پوچھا، ’’اور آپ کی سیال صاحب‘‘؟ سیال نے بھی اسی طرح پراعتماد انداز میں جواب دیا، ’’میں نے بھی گجر خان سے شادی کی ہے‘‘۔ آدم نے چوٹ کرتے ہوئے کہا، ’’آپ دونوں نے ان لڑکیوں سے شادی کیوں نہیں کی جو انگلستان میں پیدا ہوئیں ہیں اور جن کے والدین پاکستانی ہیں۔ انھیں تو پاکستانی افسروں سے بھی اچھی انگریزی آتی ہے‘‘۔ ستی ، آدم کو سمجھاتے ہوئے کہنے لگا، ’’جو لڑکیاں یہاں پیدا ہوتیں ہیں۔وہ آزاد خیال ہوجاتی ہیں۔اپنے حق کے لیئے لڑنا جانتی ہیں۔ اس کے برعکس وہاں کی لڑکیاں، چاہے ہم شراب پیئیں، ہیروئن پیئیں۔ انھیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ ہم اگر رنڈی بازی بھی کریں تو وہ نہیں بولتیں۔ لیکن یہاں کی بورن لڑکیاں زیادہ دن برداشت نہیں کرتیں۔طلاق لے لیتی ہیں‘‘۔آدم نے سوالیہ انداز میں پوچھا، ’’لیکن ان لڑکیوں کا کیا ہوتا ہے ۔جن سے آپ شادی نہیں کرتے‘‘۔ سیال نے بڑی سادگی سے جواب دیا، ’’وہ پاکستان جاکر کسی نہ کسی کزن سے شادی کرلیتی ہیں‘‘۔ آدم نے گفتگو میں دلچسپی لیتے ہوئے کہا، ’’یہاں کے الیگل اور سیاسی پناہ گزین لڑکوں میں کیا خرابی ہے‘‘۔ ستی، آدم کو قائل کرنے کے انداز میں بولا، ’’یہاں جو لڑکے آکر رہتے ہیں۔وہ ماحول کے عادی ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ زیادہ تر لڑکے پاکستان میں شادی شدہ ہوتے ہیں یا ان کی منگنیاں ہوچکی ہوتی ہیں۔ کاغذات ملنے پر یہاں کی لڑکی کو طلاق دے دیتے ہیں۔کاغذات ملتے ہی ان کو اپنی پاکستانی معشوقائیں یاد آنی شروع ہوجاتی ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اس کا مطلب ہے سارے پاکستانی دھوکے باز ہوتے ہیں۔ آپ لوگ بھی تو پاکستانی ہیں‘‘۔ سیال نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’ہم لوگ برٹش ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’آپ کے والدین‘‘۔سیال بولا، ’’ہمارے والدین پاکستانی نہیں بلکہ کشمیری ہیں اور کشمیری دھوکے باز نہیں ہوتے‘‘۔ آدم نے متحیر و مستعجب ہوکر پوچھا، ’’تو کیا گجر خان پاکستان میں نہیں؟آپ لوگ ،میرا مطلب ہے آپ کے والدین جب تیس سال پہلے انگلستان آئے تھے تو کیا ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ نہیں تھا‘‘۔ ستی نے بڑے وثوق سے کہا، ’’بالکل گجر خان ، پاکستان میں ہے اور ہمارے والدین ،پاکستانی پاسپورٹ پے سفر کرکے انگلستان آئے تھے۔لیکن کسی ملک کا پاسپورٹ ہونے سے آپ اس ملک کے تھوڑی ہی ہوجاتے ہیں ۔ہمار ے والدین کے پاس پاکستانی شہریت تھی لیکن وہ ہیں تو کشمیری‘‘۔ آدم نے کہا، ’’بالکل اسے طرح ، جس طرح آپ انگریز نہیں ہیں بلکہ برٹش ہیں۔ آپ کے پاس برطانیہ کی شہریت تو ضرور ہے لیکن کسی ملک کی شہریت یا پاسپورٹ ہونے سے انسان انگریز تو نہیں ہوجاتا‘‘۔ سیال، آدم کے نقطے کو نہ سمجھ سکا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور آدم کی پذیرائی کرتے ہوئے کہنے لگا، ’’آدم صاحب آپ تو بڑی سمجھدار آدمی ہیں‘‘۔آدم نے عاجزانہ انداز میں کہا، ’’بس جی آپ لوگوں کی قربت کا اثر ہے‘‘۔ستی نے سوال کیا، ’’آپ شراب پیتے ہیں‘‘؟ آدم نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جی میں سگریٹ پیتا ہوں نہ ہی شراب‘‘۔سیال نے مزید سوال کیا، ’’اور رنڈی بازی‘‘۔ آدم نے ازراہِ تفنن کہا، ’’پیدائش کے بعد دوبارہ دیکھنی نصیب ہی نہیں ہوئی‘‘۔ ستی اور سیال کو آدم کا حس، مزاح قریب سے بھی چھو کر نہ گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو لندن رہتے ہوئے چند ماہ گزر چکے تھے لیکن جو تصور اس کالندن کے بارے میں تھا۔ اس سے بالکل مختلف پایا۔ اسے لندن انڈرگراؤنڈ سمجھنے میں بھی زیادہ دقت محسوس نہ ہوئی۔جس طرح فرانس میں میٹرو نمبر تھے۔ایک دوتین اس طرح لندن میں انڈرگراؤنڈ رنگوں اور ناموں سے جانی جاتی تھی۔ جیسا کہ BAKERLOO LINE, CIRCLE LINE, PICCADILLY LINE, DISTRICTT LINE, JUBILEE LINE (بیکر لو لائن، سرکل لائن، پکاڈلی لائن، ڈسٹرکٹ لائن ، جوبلی لائن) وغیرہ۔اور ہر لائن کے رنگ تھے۔
آدم HOUNSLOW WEST (ہاؤنزلو ویسٹ ) سے جوبلی لائن پے بیٹھتا اور EARLS COURT (آلز کوٹ) آکر اتر جاتا۔ یہاں سے ٹرین بدلنی پڑتی۔یہاں بھی پیرس کی طرح ڈائیرکشن دیکھنی پڑتیں۔کیونکہ ڈسٹرکٹ لائن کی کئی ڈائیرکشنز تھیں۔ EALING BROADWAY, RICHMOND, EDGEWARE ROAD,WIMBLEDON, UPMINSTER,KENSINGTON OLYMPIA (ایلنگ بروڈوے، رچمنڈ، ایج ویئرروڈ، ومبلڈن،اپمنسٹر، کینسنگٹن اولمپیاء) ۔ آپ نے ذرا سی غلطی کی نہیں اور کہاں کے کہاں پہنچ گئے۔آج سے تیس سال پہلے آنے والے پاکستانی یا انڈین اپنی مطلوبہ ٹرین پے بیٹھنے کے لیئے اور کہاں سے بدلنی ہے ، رنگین کپڑا باندھ دیا کرتے تھے۔اور بالکل اس طرح محسوس ہوتا کہ کسی زیارت کے درخت پے رنگ برنگی کپڑے باندھ دیئے گئے ہوں۔ اگر بد قسمتی سے کسی نے وہ کپڑا کھول دیا تو اس دن وہ شخص کام پر نہیں جاسکتا تھا۔لیکن جیسے جیسے وقت گرزتا گیا، لوگوں میں شعور آتا گیا اور لوگ انڈرگراؤنڈ کے استعمال سے واقف ہوگئے۔اب تو چھوٹے سے نقشے پے دیکھ کر آپ اپنی منزل کا تعین کرسکتے ہیں۔اس کے باوجود آدم کے ساتھ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا۔وہ جلدی میں تھا کیونکہ کام پر پہنچنے میں دیر ہورہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد تاجِ برطانیہ نے اپنی کالونیوں اور باج گذار ریاستوں کو آزاد کرنا شروع کیا۔ان کی باج گزار ریاستوں اور ملکوں میں پاکستان، انڈیاء،نیپال، بھوٹان، برما، بنگلہ دیش، تبت اور سری لنکاتھے۔جو پہلے غیر منقسم ہندوستان یا برِ صغیر پاک و ہند کے نام سے مشہور تھے۔لیکن ان کا وائسرائے انگلستان کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا۔
پہلی جنگِ عظیم میں چوہتر ہزار تین سو بتیس، (۷۴۳۳۲) برِصغیر پاک و ہند کے فوجی جوانوں نے انگریز سرکار کی خاطر اپنی جانے دیں، جو دنیا کے مختلف قبرستانوں میں مدفون ہیں۔ اس کے بدلے میں ہندوستانی عوام سے وعدہ کیا گیا(جن میں مذکورہ بالا تمام ملک شامل ہیں)کہ ان کو آزادی دی جائے گی، انھوں نے خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کے لیئے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو مروایا لیکن ہندوستان کے عوام آزادی کی نعمت سے پھر بھی محروم رہے۔دوسری جنگِ عظیم میں چھیاسی ہزار نو سوسترہ (۸۶۹۱۷) ہندوستانی فوجی جوانوں نے انگریز سرکار کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں،اور یہ سب بھی دنیا کے مختلف قبرستانوں میں مدفون ہیں۔دوسری جنگِ عظیم کے بعدتاجِ برطانیہ نے اپنا وعدہ پورا کیا کیونکہ انھوں نے ہندوستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا تھا۔ جب اخراجات زیادہ اور منافع کم ہوگیا تو انھوں نے ہندوستان کو آزاد کرنا ہی مناسب سمجھا۔لیکن انگریز جاتے جاتے بھی ہندوستان کو اس طرح تقسیم کرکے گیا کہ آزادی کے پچاس سال گزرنے کے باوجود یہ ملک سنبھل نہ پائے۔
۱۴ اگست ۱۹۴۷ کی درمیانی رات کو دو نئے ملک معرضِ وجود میںآئے۔ان میں ایک پاکستان بھی تھا۔ جہاں برِ صغیر پاک و ہند کے سیاسی رہنماؤں ، عورتوں، بچوں، بوڑھوں نے آزادی کے لیئے جدوجہد کی وہاں ان ایک لاکھ اکسٹھ ہزار دو سو انچاس(۱۶۱۲۴۹) غیر منقسم افواجِ ہندوستان کا بھی برِ صغیر پاک و ہند کی آزادی میں برابر کا حصہ ہے۔ ان فوجی جوانوں میں ہندو، مسلمان، سکھ، نیپالی، سری لنکن، تبتی،بدھ مت کے لوگ، ہر مذھب و قوم کے لوگ تھے۔ ان ۱۶۱۲۴۹لوگوں نے اپنی جانیں تاجِ برطانیہ کے لیئے نہیں قربان کیں بلکہ آزادی کی قیمت چکائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودھویں صدی عیسویں میں پورا یورپ کالی موت ، (جسے انگریز بلیک ڈیتھ کا نام دیتے ہیں) کا شکار ہوا۔جس میں انگلستان بھی شامل تھا۔ایک عام اندازے کے مطابق یورپ کی ایک تہائی آبادی اس موت کا شکار ہوئی۔ گیارھویں صدی میں انگلستان کی آبادی تقریباًبیس لاکھ (۲۰۰۰۰۰۰لاکھ)تھی۔ انیسویں صدی کے آواخر میں یہ آبادی بڑھ کر ایک کروڑ بیس لاکھ (۲۰۰۰۰۰۰،۱، ) ہوگئی۔انگلستان میں شرح پیدائش ۱۸۷۱ تک بڑھتی رہی۔اس کے بعد شرح اموات بڑھنے اور شرح پیدائش میں اضافے کے باوجود،آبادی میں اضافے کی شرح کم ہورہی تھی۔
انگلستان کی آبادی میں کمی اس وقت واقع ہوئی جب انگلستان کے لوگوں نے پہلی جنگِ عظیم کے بعد بہتر روزگار کی خاطر کینیڈااور آسٹریلیاء کوچ کرنا شروع کیا۔ اور یہ سلسلہ ۱۹۳۰ تک جاری رہا۔ لیکن اس دوران یورپ کے کئی ممالک سے لوگ ہجرت کرکے انگلستان آگئے۔انگلستان کے لوگوں کا دوسرے ممالک میں ہجرت کا سلسلہ دوسری جنگِ عظیم تک جاری رہا۔لیکن یہ سلسلہ ۱۹۵۱ میں کم ہوگیا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد انگلستان نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیئے ورلڈ بینک سے آسان اقساط پر بھاری قرضے منظور کروائے۔لیکن ملک کی تعمیر و ترقی کے لیئے افرادی قوت کی ضرورت تھی۔اس کی کمی نئے دولت مشترکہ کے ارکان ممالک سے پوری کی گئی۔جن میں پیش پیش ویسٹ انڈیز کے سیاہ فام تھے۔اس کے علاوہ پاکستانی، ہندوستانی، کشمیری بھی شامل ہیں۔۱۹۵۱ سے لے کر ۱۹۶۰ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ نئے دولت مشترکہ ممالک کے ارکان کی آبادی انگلستان میں تیزی سے بڑھنے لگی۔اور یہ تعداد ۱۹۷۰ میں بڑھتے بڑھتے تیرہ لاکھ تک پہنچ گئی۔
مہاجرین کی تعداد میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب یوگنڈا کے ایشیائی لوگوں نے بھی انگلستان کا رخ کیا۔ انھیں سرکاری طور پے برٹش پاسپورٹ دیئے گئے۔اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔لیکن جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں۔نئے آنے والوں کے لیئے انگلستان میں مستقل رہنے کے راستے تنگ ہو رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم جس فوڈ اینڈ وائن پے کام کرتا تھا وہ میرپور کے ایک شخص کی تھی۔ اسے یہاں آئے ہوئے تیس سال سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ بیس سال کی عمر میں اپنے عزیزوں کے مظالم سے تنگ آکر وہ براستہ افغانستان ،نہ جانے کہاں کہاں سے ڈنکیاں لگاتا لگاتا جب انگلستان پہنچا تو اس نے سْکھ کا سانس لیا۔
علی سردار گوندل نے جب انگلستان میں قدم رکھا تو اس وقت بہت کم ہندوستانی، پاکستانی نظر آتے تھے۔ انھوں نے آتے ہی ڈرائیونگ ٹیسٹ پاس کیا اور بس ڈرائیور بن گئے۔ گوندل صاحب کی تعلیم واجبی سی تھی لیکن بلا کے ذہین تھے۔انگریزی سیکھنے پر بھرپور زور دیا اور ہزاروں پاکستانیوں سے بہتر انگریزی بولتے اور سمجھتے تھے۔نہ صرف بولتے اور سمجھتے تھے بلکہ لکھ پڑھ بھی لیتے تھے۔ورنہ تو کئی پاکستانی و ہندوستانی ، تیس تیس ،پینتس پینتس سال سے یہاں آبا د ہیں لیکن انھوں نے انگریزی سیکھنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی۔ اس لیئے جب بچے سکول میں انگریزی اور گھر میں پوٹھواری یا پنجابی بولتے ہیں تو نئی زبان وجود میں آتی ہے۔جیسا کہ،
’’ڈار کی شٹی چھوڑ۔۔۔ونڈ اشھڑیں اے‘‘ (دروازے کو بند کردو ۔۔۔۔ہوا آرہی ہے)‘‘
’’ چنگیرin the پراٹھاز there are some‘‘ (چنگیر میں کچھ پراٹھے پڑے ہوئے ہیں)
لیکن گوندل صاحب کا سلسلہ اس سے مختلف تھا۔ گوندل صاحب نے شروع سے اپنا رہن سہن دوسرے پاکستانیوں سے مختلف رکھا۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے، شراب و شباب سے دل بہلاتے، مذھبی پابندیوں سے خود کو بالکل آزاد تصور کرتے تھے۔ لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ انگلستان میں نئے نئے وارد ہوئے تھے۔شادی شدہ نہیں تھے۔ نوجوان تھے۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ ان کے اندر منافقت بڑھتی گئی اور صاف گوئی ، بذلہ سنجی اور حسِ مزاح کم ہوتی گئی۔ ۱۹۷۰ میں انھوں نے لوگوں کو بارڈر پار کرانے کا کام سنبھال لیا۔ جسے آجکل ڈنکی کا نام دیا جاتا ہے۔جیسے ہی اس کاروبار میں نئے لوگوں کی آمد شروع ہوئی ۔انھوں نے لندن میں اپنا چھوٹا موٹا کاروبار شروع کردیا۔ چند سال اس کام میں مشغول رہے۔ پھر بینک افسر اور اکاؤنٹنٹ کے ساتھ ساز باز کر کے کاروبار کود یوالیہ ظاہر کردیا۔ اس سے انھیں جو فائدہ ہوا ، وہ ان تینوں نے آپس میں بانٹ لیا۔ لیکن اس کانقصان یہ ہوا کہ گوندل صاحب پے تین سال کے لیئے کاروبار کرنے پے پابندی لگ گئی۔
اس عرصے میں انھوں نے پاکستان جاکر شادی کی۔گھر وغیرہ بنایا اور تین سال ٹھاٹھ کے ساتھ پاکستان گزار کر آئے۔ جو رشتے دار ان کے خون کے پیاسے تھے ۔اب ان کے گرویدہ ہوگئے تھے۔ان کا دم بھرنے لگے تھے۔پھر اچانک گوندل صاحب کو جانے کیا سوجھی اپنے ایک عزیز کے ساتھ مل کر منشیات کی سمگلنگ کا کاروبار (وہ اسے کاروبار ہی کہتے تھے)شروع کردیا۔اس کاروبار کو گوندل صاحب بڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہے۔ لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ ایک دن انھیں BRIXTON (برکسٹن) جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا۔لیکن بالکل ہمت نہ ہارے۔ تین سال کی قلیل مدت گزارنے کے بعد جب باہر آئے تو سرمنڈوا دیا۔ لمبی داڑھی رکھ لی۔ہاتھ میں تسبیح اور پانچ وقت کی نماز شروع کردی۔ اب گوندل صاحب زیادہ وقت پاکستان میں ہی گزارتے۔ غیرقانونی طور پے انھوں نے کافی پیسہ اکٹھا کرلیا تھا۔دکھاوے کے لیئے خود کو ہر وقت دینی کاموں میں محو رکھتے۔اچانک گوندل صاحب کو سونا بنانے کی ترکیب جاننے کی سوجھی۔اس جستجو میں انھوں نے تمام غیبی علوم کے ماہران سے رابطہ قائم کرنا شروع کردیا۔۔ جب اس میں انھیں کامیابی نصیب نہ ہوئی تو انھوں نے پیرو فقیروں کے آستانوں پے چکر لگانے شروع کردیئے۔ یہیں ان کی ملاقات فتاؤۃ الملائک شاہانی صاحب سے ہوئی فتاؤۃ الملائک شاہانی صاحب اسی سالہ باریش بزرگ تھے۔ وہ گوندل صاحب کے ارادے کو بھانپ گئے، کہ یہ موصوف بھی سونے کی تلاش میں اپنا سونا جاگنا برباد کربیٹھے ہیں۔
شاہانی صاحب بھی بڑے کمال کی شخصیت تھے۔ پاکستان اور ہندوستان جب غیرمنقسم تھا تو ان دنوں شاہانی صاحب گورنمنٹ کالج میں ریاضی کے پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ جیسے ہی پاکستان دنیا کے نقشے پے ایک آزاد ملک کے طور پے نمودار ہوا۔انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔اور پاکستان میں ہی رہناپسند کیا۔کیونکہ و ہ اپنی پرسکون زندگی برباد کرنا نہیں چاہتے تھے۔انھوں نے اپنا نام جوگندر پال سکسینہ سے بدل کر فتاؤ ۃ الملائک شاہانی رکھ لیا۔ اس نام کی مناسبت سے وہ ہر مسلک میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے۔انھوں نے انتہائی سوچ سمجھ کر یہ نام چنا تھا۔ شاہانی صاحب پاکستان و ہندوستان کی پیدائش کے چند سال بعد ہی جان گئے تھے کہ ان ملکوں کا سیاسی ڈھانچہ اور معیشت بہت کمزور ہے۔اور آئندہ آنے والے سالوں میں، اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اس لیئے ۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰کے درمیانی عرصے میں وہ بمعہ اہل و عیال امریکہ ہجرت کرگئے۔انھوں نے گوندل صاحب کا طریقہ نہیں اپنایا۔بڑے گھاگ انسان تھے۔ شروع سے ہی مذھبی بنیادوں پر زندگی اس طرح اسطوار کی کہ کسی کو شائبہ تک نہ گزرتا کہ شاہانی صاحب امریکہ اور پاکستان کے درمیان خفیہ ایجنٹ کا کام کرتے ہیں۔ امریکن شہری ہونے کے ناطے وہ ساری دنیا اس طرح گھومتے ،جیسے کوئی بچہ دنیا کو گلوب سمجھ کر کھیلتا ہے۔ گوندل صاحب اور شاہانی صاحب میں بڑی گہری دوستی ہوگئی تھی۔شاہانی صاحب کو بالکل ایسا لگتا جیسے گوندل صاحب ان کے نقشے قدم پے چل رہے ہیں۔
آجکل گوندل صاحب نے خود کو مصروف رکھنے کے لیئے فوڈ اینڈ وائن کا کاروبار شروع کیا ہوا تھا۔ دوکان کے داخلی دروازے کے بالکل اوپر ، رزق کی فراوانی کے لیئے قرانی آیات آویزاں تھیں۔ گوندل صاحب کے فلسفے کے مطابق شراب حرام نہیں بلکہ مکروہ تھی، اس لیئے وہ اس کے استعمال کو تو برا تصور کرتے لیکن اس کو بیچنے اور منافع کمانے کو بالکل برا نہ تصور کرتے۔ بلکہ کوئی اشارہ کرتا بھی تو اسے بھرپور دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ شراب حرام نہیں۔
گوندل صاحب پیسے کے معاملے میں کسی پر اعتبار نہیں کرتے تھے۔ دن میں کئی دفعہ جو بھی بِکری ہوتی ان پیسوں کی گنتی کرتے۔ اس کے علاوہ فوڈ اینڈ وائن کے آس پاس تمام ڈسٹ بنوں (راستوں میں لگے ہوئے چھوٹے چھوٹے ڈبے جن میں چھوٹی چیزیں پھینکتیں ہیں)کی جانچ پڑتال انتہائی فنکاری کے ساتھ کرتے اور کسی کو پتا نہ چلنے دیتے کہ گوندل صاحب کیا کررہے ہیں۔کیونکہ انھیں یہی شک رہتا کہ ملازمین نے کوئی کھانے پینے کی چیز تو نہیں اڑالی۔کوئی جوس، یا انرجی ڈرنک پی کر اس کا خالی ڈبہ (کین) تو نہیں یہاں پھینک دیا۔بسکٹوں، چاکلیٹوں اور پائیوں(ایک قسم کی ایک میٹھی چیز جس کے اندر زیادہ تر سیب کا مربہ ہوتا ہے)کی پنیوں پے غور کرتے ،کہیں ان کی دوکان کے سٹکروالی پنیاں تو نہیں۔کیونکہ پرائس ٹیگوں اور پرائس لیبلوں پر ان کی دوکان کا نام لکھا ہوا ہوتا۔گوندل صاحب سے جب کوئی ملازم کھانے کے بارے میں پوچھتا، خواہ دوپہر کا کھانے کا وقت ہو یا رات کے کھانے کا ۔انھیں یہ بات بہت ناگوار گزرتی۔وہ یہی چاہتے کہ ملازم بنا کھائے پیئے سارا دن کام کرتا رہے۔ اور کام ختم کرنے کے بعد گھر جاکر اپنے پیٹ کی آگ کو بجھائے۔دوکان پے CCTV TELECAMERA SYSYEM (سی سی ٹی وی ٹیلی کیمرہ سسٹم)بھی نصب تھا۔ہر روز رات کو دوکان کی کیسٹ جاکر دیکھتے کہ دوکان کی نقل و حمل کیا ہے۔تہہ خانے میں، کاؤنٹرپر، شیلفوں میں کوئی گڑ بڑ تو نہیں، بہت کم ایسا ہوتا کہ انھیں کامیابی نصیب ہوئی ہو۔لیکن اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور تھے۔ گوندل صاحب نماز کے پابند تھے۔کچھ بھی ہوجائے نماز کی ادائیگی سے نہ چوکتے۔ ایک دن اچانک ان کے دل میں جانے کیا آئی ۔ انھوں نے FINNEGAN WAKE FOOD AND WINE (فنیگن ویک فوڈ اینڈ وائن) بیچ دی اور سب چھوڑ چھاڑ کر پھر پاکستان چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم پھر بیروزگار ہوگیا۔ لیکن چند دن کے بعد اسے ایک چکن شاپ پے کام مل گیا۔ آدم سارا دن مرغیوں کی کھالیں اتارتا۔ یہ چکن شاپ FULHAM BROADWAY (فلہم بروڈوے)ریلوے سٹیشن سے قریب تھی۔ اس کے پاس لندن کے مشہور PUB (پب) THE SLUG AND LETTUCE (دی سلگ اینڈ لیٹس) کی شاخ تھی۔ اس کی بالکل مخالف سمت پے BOOTSY BROGAN (بوٹسی بروگن) ایک آئرش پب تھا۔ جو کبھی SWAN (سوان) کے نام سے مشہور تھا۔FULHAM BROADWAY (فلہم بروڈوے) پے غیرملکیوں کا قبضہ تھا۔آدم جس چکن شاپ پے کام کرتا تھا اس کے بالکل سامنے جتنی بھی عمارات تھیں وہ زیادہ تر سکھوں کی ملکیت تھیں۔جو تیس پینتس سال پہلے انگلستان آئے تھے۔اپنا خون پسینہ بہا کر انھوں نے جو رقم پس انداز کی، اس سے انھوں نے فرنگیوں کے ملک میں یہ جائیداد بنائی تھی۔آدم کبھی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ وہ زندگی میںFULHAM BROADWAY (فلہم بروڈوے ) آکر کام کرے گا۔ اس نے گریجوئیشن کے دنوں میں ایک کہانی پڑھی تھی۔ ANGUS WILSON (اینگس ولسن) کے اس افسانے میں FULHAM BROADWAY (فلہم بروڈوے) پے ایک کتا کار کے نیچے کچلا جاتا ہے۔ پہلے لوگ چہ میگوئیاں کرتے رہتے ہیں۔جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے لوگ اس واقع کو بھولتے جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کا TAKE AWAY (ٹیک آوے) یعنی چکن شاپ جہاں وہ کام کرتا تھا۔SLUG AND LETTUCE (سلگ اینڈ لیٹس ) پب کے ساتھ تھا۔ اس لیئے دن کو زیادہ رش نہ ہوتا۔لیکن جیسے جیسے شام ہوتی رش بڑھتا جاتا۔بدھ اور اتوار کو CHELSEA GROUND (چیلسی گراؤنڈ)جو کہ پاس ہی تھا ، میں کبھی کبھی F.A. CUP (ایف ۔اے۔کپ) کے فٹبال میچز ہوتے ۔ان دنوں HOLIGANS (ہولیگنز) بھرپور طور پے اپنا رنگ دکھاتے۔اشیاءِ خورد و نوش کی دوکانوں پے قطاریں بندھ جاتیں۔گورے کثرت سے بیئر پیتے اور جب نشہ اور جوش زیادہ بڑھ جاتا تو بیئر کے خالی ڈبے(کین) اور بیئر کی خالی و بھری ہوئی کانچ کی بوتلیں، جہاں جی چاہتا پھینکتے۔ کبھی کبھی پولیس کو آس پاس کی دوکانیں بند کروانی پڑتیں۔کیونکہ اگر CHELSEA (چیلسی) جیت جاتی تو جوش میں آکر دوکانوں پے خالی بوتلیں اور ڈبے پھینکتے اور اگر ہار جاتی تو دکھ اور غصے میں خالی ڈبے اور بوتلیں دوکانوں کی طرف پھینکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گورے جہاں بھی گئے ،انھوں نے DIVIDE AND RULE (ڈیوائڈ اینڈ رول، یعنی تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو)والے کلیئے پے عمل کرتے ہوئے ہر جگہ فتح پائی لیکن کھیل کے میدان میں فتح و شکست اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔گولف، کرکٹ،سکائش اور بلیئرڈ جیسے شاہانہ کھیل جن
کو کھیلنا تو دور کی بات دوسری قومیں جو ان کے زیرِ تسلط تھیں ،ہاتھ لگانے کی بھی جرائت نہیں کرسکتی تھیں۔آج جب انھیں کے غلام، آزادی حاصل کرکے ،انھیں کے میدانوں میں انھیں کے عوام کے سامنے انھیں شکست دیتے ہیں تو ان کے اندر کا غرور و تکبر جاگ اٹھتا ہے۔ وہ اس شکست کو کبھی برداشت نہیں کرسکتے۔ اس کی روشن مثال، پاکستان کا کرکٹ ولڈکپ جیتنا تھا۔ جب انگریزوں نے فائنل میں شکست کھائی تو انگلستان کے جن علاقوں میں پاکستانی امیگرنٹس کی تعداد زیادہ تھی، وہاں باقاعدہ جھڑپیں ہوئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم سارا دن مرغیوں کی صفائی کرتا، ان کو خاص قسم کا آٹا لگاتا۔ جس سے ان مرغیوں کے ٹکڑوں کو تلنے (فرائی) میں آسانی ہوتی۔آہستہ آہستہ اس کو کاؤنٹر پے آنے کی اجازت مل گئی۔ یہاں اس کی ملاقات اللہ یار خان سے ہوئی۔ آدم یہی سمجھتا رہا کہ بڑا مغرور انسان ہے۔ لیکن چند ایک ملاقاتوں کے بعد دونوں میں دوستی ہوگئی۔ دوستی کی وجہ آدم کا پاؤں کا درد تھا۔وہ دس دس ،بارہ بارہ گھنٹے کھڑا ہوکر کام کرتا اور مسلسل کھڑا رہنے کی وجہ سے اس کے خون کی گردش ہوتی تو ضرور لیکن اس طرح نہیں جس طرح کے ہونے چاہیئے۔اسے کام کے دوران تو پتا نہ چلتا لیکن جیسے ہی گھر آکر ،نہا دھوکر بستر پے آتا تو ایسا لگتا جیسے اس کے پاؤں کے تلوؤں سے آگ نکل رہی ہے۔۔اس کا دل چاہتا کسی برف کی سِل پے اپنے پاؤں رکھ دے۔
اللہ یار خان نزدیک ہی ایک انڈین گجراتی پٹیل کی فارمیسی پے فارماسسٹ کے طور پے کام کرتا تھا۔اللہ یار نے بی فارمیسی آنرز کے ساتھ پاس کی تھی۔آدم اس سے پہلے برطانیہ میں پیدا ہوئے پاکستانی بچوں سے مل چکا تھا۔ اس کا ان کے بارے میں کوئی زیادہ اچھا تاثر قائم نہیں ہوا تھا۔یا یوں کہنا چاہیئے کہ وہ کوئی زیادہ اچھا تاثر نہیں قائم کرسکے تھے۔اس کے کمرے میں دو عدد برٹش بورن لڑکے تھے۔ وہ دونوں ہارڈ کور ڈرگز (hardcore drugs) کا استعمال کرتے تھے۔اس کے علاوہ انھیں اپنے برٹش ہونے پر بڑا بڑا ناز تھا اور اپنی انگریزی دانی کو بھی وہ بڑی قابلِ فخر بات سمجھتے تھے۔لیکن اللہ یار خان سے ملنے کے بعد آدم کو اپنی رائے بدلنی پڑی۔ ویسے اس نے اپنی رائے کا اظہار کسی سے نہ کیا تھا۔۔
اللہ یار خان انتہائی مہذب ، سلجھا ہوا، گفت و شنید کے آداب سے واقف ۔ اسے اس بات کا زعم بھی نہیں تھا کہ وہ انگلستان میں پیدا ہوا ہے۔آدم کو داؤد کی کمی شدت سے محسوس ہوت۔ اس کمی کو اللہ یار خان کی دوستی نے پورا کیا۔دونوں اکٹھے DISCOTHEQUES (ڈسکوتھیکز، یعنی ناچ گھر)جانے لگے۔اللہ یار نہ صرف پڑھا لکھا تھا بلکہ دل کا بھی اچھا تھا۔ بس اس میں ایک خاص بات تھی۔جب وہ کسی لڑکی سے بات کرتا تو وہ بالکل بھول جاتا کہ اس کے آس پاس کوئی کھڑا ہے۔جب وہ لڑکی کافی یا کچھ پینے پلانے کو تیار ہوجاتی تو کہتا، "ADAM I GOTTA GO" (آدم مجھے جانا ہوگا)۔ آدم تھوڑے عرصے میں اس کی اس عادت جان گیا تھا۔ اس لیئے اسے بالکل برا محسوس نہ ہوتا۔ اس عادت کے باوجود اللہ یار بیشمار خوبیوں کا مالک تھا۔جس کی وجہ سے وہ قابلِ ستائش تھا۔اللہ یار خود بھی مانتا تھا کہ پاکستانیوں کے برٹش بورن بچے چند ایک نقائص کے مالک ہیں۔اس میں ان بچوں کا کوئی قصور نہیں۔وہ تو CULTURAL SCHISM (کلچرل سکزم، یعنی تہذیبی تفرقہ) کے شکار ہوگئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا میں کوئی بھی انسان نہ تو اپنی مرضی سے پیدا ہوتا ہے نہ ہی مرتا ہے۔ نہ ہی اپنی پسند کے مذھب میں وہ پیدا ہوسکتا ہے۔جب بچہ پیدا ہوتا ہے ، اسے تو یہ پتا ہی نہیں ہوتا کہ وہ ہندو کے گھر میں پیدا ہوا ہے یاعیسائی کے ۔مسلمان کے گھرپیدا ہوا ہے یا یہودی کے۔ بچے کو اس کے والدین بتاتے ہیں کہ وہ کس مذھب کا ہے۔ اس کا خاندان کیا۔ بقیہ ماندہ چیزیں وہ معاشرے سے سیکھتا ہے۔
بچہ اگر انگلستان میں پیدا ہوتا ہے یا فرانس میں۔پاکستان میں پیدا ہوتا ہے یا جرمنی میں۔اس میں اس بچے کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ اپنی خواہش کے مطابق نہ تو پیدا ہوسکتا ہے نہ ہی مرسکتا ہے۔
انگلستان میں پاکستانیوں کے بچے جب سکول جاتے ہیں۔ تو سکول کا ماحول عین انگریزی طرز کا ہوتا ہے ۔سارا دن انگریزی بولتے ہیں۔ جب گھر آتے ہیں۔انھیں ایسا لگتا ہے جیسے چھوٹے سے پاکستان میں آگئے ہوں۔گھر پے پوٹھواری یا کوئی بھی علاقائی زبان بولتے ہیں۔ پاکستان کے معاشرے اور انگلستان کے معاشرے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۹۵۷ سے لے کر ۱۹۷۰ کے عرصے میں جو پاکستانی انگلستان آئے۔ وہ نہ صرف معاشی بلکہ تعلیمی لحاظ سے بھی پسماندہ تھے۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب پاکستانی روپے اور انگلستان کے پاؤنڈ میں زیادہ فرق نہیں ہوا کرتا تھا۔ لیکن ان دنوں پاکستانی پاسپورٹ بنانا اتنا ہی مشکل ہوا کرتا تھا جتنا کہ آجکل پاکستانی پاسپورٹ پے کسی بھی یورپی ملک یا امریکہ ، آسٹریلیاء کا ویزا لینا مشکل ہوتا ہے۔
ساٹھ اور ستر کے درمیانے عرصے میں جہلم، کیمبل پور (اٹک ) اور گجرخان کے لوگ بکثرت نقلِ مکانی کرکے انگلستان چلے آئے۔ ان دنوں پاکستان کو بنے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ملک تعمیر ہورہا تھا۔افرادی قوت کی پاکستان کو بھی ضرورت تھی۔لیکن ابتداء ہی سے سیاسی انتشار کا شکار ہوگیا۔ اور ملکی حالت عجیب ہوگئی۔پاکستان بننے کے فوراًبعد پاکستان کو کئی جانکاہ حادثات کا سامنا کرناپڑا۔ مسلسل حکومتوں کی تبدیلی، مارشل لاء وغیرہ۔
ان دنوں جو لوگ نقلِ مکانی کرکے آئے ان میں زیادہ تر لوگوں کی تعلیم واجبی تھی۔ دینی مسائل سے بھی زیادہ تر نابلد تھے۔ بس ان پے ایک ہی دھن سوار تھی کہ اپنی غربت دور کرنی ہے اور بہت سارا پیسہ کمانا ہے۔ دن رات فیکٹریوں، کارخانوں اور ملوں میں مزدوری کرتے۔ انگلستان کی تعمیر میں ان کی مدد کرتے اور اس کے عوض اچھی تنخواہ پاتے اور جیسے جیسے روپے کی قیمت گرتی اور پاؤنڈ کی قیمت بڑھتی۔ یہ پاکستانی خوش ہوتے،چلو اب ہم اتنے لاکھ روپے کماتے ہیں۔ لیکن ان کے دل میں یہ خیال کبھی نہ آیا کہ جس ملک میں وہ پیدا ہوئے تھے اس کی معیشت کمزور ہورہی ہے۔ روپے کی قیمت گر رہی ہے نہ کہ پاؤنڈ کی قیمت بڑھ رہی ہے۔اس میں خوشی کی نہیں افسوس کی بات ہے۔
بہت کم لوگ تھے جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے یا مذھبی تعلیمات سے واقف تھے۔ جن لوگوں نے پیس کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کی تربیت پر بھی زور دیا، ان کے بچوں کو نہ تو انگلستان میں نہ ہی پاکستان میں شرمندگی اٹھانی پڑتی۔لوگ ان کے ماں باپ کو دعائیں دیتے ہیں کہ ان بچوں کی تربیت اچھی بنیادوں پر ہوئی ہے۔
اللہ یا رکے والد صاحب انھیں لوگوں میں سے ایک تھے جو تیس پینتیس سال پہلے انگلستان روزگار کی تلاش میں آئے تھے۔اللہ یار کی والدہ شہر سے تعلق رکھتی تھیں اور تھیں بھی تعلیم یافتہ۔ وہ پاکستان میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھیں۔ اللہ یار کے والد کے ساتھبیاہ کر جب انگلستان آئیں تو وہ انگریزی سے واقف تھیں۔
انھیں فرنگیوں کے ماحول کو سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی۔اللہ یار کی والدہ نے اپنی تمام تر توانائیاں بچوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کردیں۔ یہی تربیت اللہ یار خان کو دوسرے پاکستانی برٹش بورن بچوں سے ممتاز کرتی تھی۔اور یہی وجہ تھی کہ اللہ یار خان کی شخصیت میں کسی قسم کاتکبر اور انگلستان میں پیدا ہونے کا گھمنڈ نہیں تھا۔ نہ ہی اسے اس بات کا زعم تھا کہ وہ انگریزی ،انگریزوں کی طرح بولتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرے شخصیت جس سے آدم متاثر ہوا۔ وہ تھے ایک ہندو بزرگ۔ لکشمی کانت چٹوپادے۔لکشمی کانت چٹوپادے کی عمر لگ بھگ پچھتر سال ہوگی۔ رنگ گہنواں،سر پے کم کم بال لیکن جو تھے سارے سفید تھے۔صحت بہت اچھی، قد میانہ، ناک نہ ستواں نہ چپٹی۔ چہرے مہرے اور اپنی اچھی صحت کی وجہ سے اپنی عمر سے کہیں کم دکھائی دیتے۔ ہندی ٹوٹی پھوٹی اور رک رک کے بولتے۔ چٹوپادے صاحب نے ہندوستان اور پاکستان کو بنتے دیکھا تھا(بقول ان کے ٹوٹتے دیکھا تھا) ۔ بِہار کے پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے آباؤ اجداد LAND OWNING BRAHMAN (لینڈ اوننگ براہمن، یعنی ایسے براہمن جو زمین جائیداد رکھ سکتے ہیں)تھے۔ لیکن چٹوپادے صاحب کو بچپن سے ہی یہ راستہ پسند نہیں تھاکہ براہمن صرف مذھبی تعلیم حاصل کرے ، صرف مذھب کی رکھوالی کے عوض ان کو دنیا کی تمام سہولتیں میّسر ہوں،دستیاب ہوں اور دوسرے ان سے کم تر تصور کیئے جائیں۔ جب چٹوپادے صاحب نے بنیادی تعلیم مکمل کی تو گھر والوں نے ان کی شادی کردی۔ جس سے ان کے ہاں ایک بیٹی پیدا ہوئی۔چٹوپادے صاحب کی دھرم پتنی ان سے مختلف تھی۔ گرہستن اور استری دھرم کو خوب سمجھتی تھی۔ اس کے برعکس چٹوپادے صاحب میں تجسس کوٹ کوٹ کر بھراہوا تھا۔وہ کہتے ہیں نا "CURIOSITY IS THE FATHER OF KNOWLEDGE" (یعنی تجسس علم کا باپ ہوتا ہے) یہی بات تھی۔
چٹوپادے صاحب کو فنِ مصوری سے بہت لگاؤ تھا۔ایک براہمن پوجا پاٹ چھوڑ کے فنِ مصورے کی طرف چلا جائے،اچھمبے کی بات تھی۔آپ بھی ضد کے پکے تھے۔ آپ ایک دن سب کچھ تیاگ کر بنگلہ دیش میں رابندرناتھ ٹیگور کے بھائی کے شانتی نکیتن میں داخل ہوگئے۔گو کہ یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں تھا۔تمام گھر والوں نے بڑی مخالفت کی لیکن وہ ہٹ کے پکے تھے۔ انھوں نے کسی کی ایک نہ سنی۔یہاں آکر انھوں نے بنگلہ زبان پے عبور حاصل کیا۔اور اس کے ساتھ ساتھ فنِ مصوری میں بھی طاق ہوگئے۔اس دوران انھیں اٹلی کے مشہور ادارے، "MILANO INSTITUTE OF FINE ART" (میلانوں انسٹیٹیوٹ آف فائن آرٹ) کا وظیفہ مل گیا۔مزید تعلیم حاصل کرنے اٹلی چلے آئے۔ پانچ سال میں اپنا ڈپلومہ مکمل کیا ۔گھر والے ان سے نالاں تھے اس لیئے چٹوپادے صاحب نے یہیں اٹلی میں سکونت اختیار کرلی۔ پھر جانے انھیں کیا سوجھی، انگلستان چلے آئے۔پہلے پہل انھیں ایک male nurse (میل نرس) کی نوکری ملی۔بڑی خوش اسلوبی سے اپنی نوکری کونبھاتے رہے۔ لیکن اس دوران انھوں نے کبھی بھی فنِ مصوری کو ذریعہ معاش نہیں بنایا۔وہ تخلیق کو پیسوں کے ترازو میں تولنے کے خلاف تھے۔اس سے انسان میں لالچ پیدا ہوتا ہے۔ اور فنکار ، فن کی اس معراج کو نہیں پہنچ سکتا، جس پے اسے ہونا چاہیئے۔ اس کی مثال وہ کچھ اس طرح دیا کرتے۔ ’’کوئی شخص جو کہ شاعر ہے۔اور وہ فلمی نغمیں لکھنا شروع کردے۔فلمی شاعری کا ادب میں وہ مقام نہیں ہوتا جو غزل، نظم یا دیگر اصناف کا ہوتا ہے۔حالانکہ کئی دفعہ فلمی شاعری بڑی معنی خیز اور ادبی چاشنی سے بھرپور ہوتی ہے۔لیکن فلمی نغمیں ٹھیکے پے لکھے جاتے ہیں۔ دوماہ میں چھ نغمے، گانے ۔ جبکہ عام شاعری میں کبھی کبھی ایک دن میں دو دو غزلیں لکھی جاتی ہیں اور کبھی کبھی ایک غزل کو مکمل کرنے میں کئی سال لگ جاتے ہیں‘‘۔
چٹوپادے صاحب کی دھرم پتنی کی جب ارتھی اٹھی اس وقت بھی انڈیا نہ جاسکے۔اور نہ ہی اس وقت جب ان کی اکلوتی بیٹی ی شادی ہوئی۔
پینتالیس سال کے عرصے میں کئی دفعہ واپس جانے کا سوچا لیکن ہمیشہ ارادہ ترک کردیا۔ ہمیشہ ان کے بھائی رقم کا مطالبہ کرتے جس کو پورا کردیتے ۔ہر روز دیر سے اٹھتے، پہلا کام اخبار خریدنا، چٹوپادے صاحب کا پسندیدہ اخبار THE GUARDIAN (دی گارڈیئن) تھا۔ویسے تو انگلستان میں اور بھی کئی اخبار نکلتے، THE TIMES, INDEPENDENT, SUN, MIRROR, SPORTS, FINANCIAL TIMES وغیرہ لیکن GUARDIAN ان کے دل کو بھا گیاتھا۔
روزانہ داڑھی مونڈتے۔ سردیوں میں بھی ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر گھومتے۔ کہتے میرے خون کے جرثومے اس سردی کے عادی ہوگئے ہیں۔آہستہ آہستہ قدم اٹھا کے چلتے اور آتے جاتے آدم کو کوئی نہ کوئی نئی خبر سناجاتے۔ٹی وی دیکھنا، فلم دیکھنا بالکل پسند نہ کرتے تھے۔ ان کے چھوٹے سے کمرے میں ایک ریڈیو تھا۔جو انھوں نے خبریں سننے کے لیئے رکھا ہوا تھا۔ ان کا مستقل ڈیرا ایک AMERICAN BAR (امریکن بار) پے ہوتا۔ جس کا مالک قبرص (CYPRUS)ایک ترک مسلمان تھا۔ چٹوپادے صاحب شام کو اس بار میں داخل ہوتے اور رات گئے تک یہیں بیٹھے رہتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتے۔ اس بار میں چٹوپادے صاحب کو آتے ہوئے بیس سال ہوچکے تھے۔ اس لیئے آپ اس بار کا حصہ تھے۔ ایک ٹیبل ان کے لیئے مخصوص تھی۔ ہاتھ میں بال پین لیئے GUARDIAN (گارڈیئن) کی ایک ایک خبر پڑھتے اور جو خبر خاص ہوتی اس پے بال پین کے ساتھ نشان لگاتے جاتے۔ نوٹ لکھتے اور بعد میں آدم کو دے دیتے۔آدم اس باسے اخبار سے ادبی وثقافتی حصے کو پڑھتا۔ باقی پھینک دیتا۔ اس کے علاوہ چٹوپادے صاحب NEW SCIENTIST (نیو سائنٹسٹ) باقاعدگی سے خریدتے، کبھی کوئی خاص چیز ہو تو آدم کو بھی پڑھنے کے لیئے دیتے۔ان کے ساتھ میل ملاقاتوں میںآدم کو FICTION (فکشن) کے علاوہ POPULAR SCIENCE (پاپولر سائنس) سے بھی لگاؤ پیدا ہوگیا۔چٹوپادے صاحب جب بھی کوئی کتاب خرید کرلاتے، آدم کو ضرور دکھاتے۔ انھوں نے آدم کو مستند کتابیں تجویز کیں۔جنھیں پڑھ کر آپ کے دماغ کے کئی نہاں خانے کھلتے ہیں۔ ان میں STEPHEN JAY GOULD,STEPHEN HAWKINGS, FRITJOF CAPRA, RICHARD DAWKINS, PAUL DAVIES, STEVEN PINKER, JARED DIAMOND, CARL SAGAN, RICHARD LEAKEY, JACQUES MONOD اور کئی لکھنے والے تھے۔ پاپولر سائنس کے علاوہ ادب میں چٹوپادے صاحب نے آدم کو چند لوگ متعارف کروائے، جن میں ITALO CALVINO, PAOL COEHLO, VIKREM SETH, VIKREM CHANDRA, ROHINTON MISTRY, MILAN KUNDERA, MICHEAL ONDATJI, ALEJO CARPENTIER, JORGES LOUIS BORGES (اتلو کلوینو، پال کوئیلو، وکرم سیٹھ ، وکرم چندرا، روہنتن مستری، میلان کندرا، مائیکل اوندت جی ، آلیجو کارپینت ئیر، جورج لوئی بورخیس)وغیرہ۔چٹوپادے
صاحب بہت خوش ہوتے جب کوئی انڈین قلمکار ، ادب میں خاص مقام حاصل کرتا۔ پچھلے سال ہندوستان کی نوجوان مصنفہ ARUNDHATI ROY (اروندھتی رائے) کو BOOKER PRIZE (بْکرز پرائز) ملاتو بہت خوش ہوئے۔ اس کی کتاب "THE GOD OF SMALL THINGS" (دی گوڈ آف سمال تھنگز)آدم کو تحفے کے طور پے دی۔ یہ انعام دوسری دفعہ کسی ہندوستانی کو ملا تھا۔ چٹوپادے صاحب خاص طور پے HAYWARD GALLERY (ہیورڈ گیلری) گئے، جب ایک انڈین نژاد مصور و مجسمہ ساز انیش کپور کے فن پاروں کی وہاں نمائش کی گئی۔کسی ہندوستانی کے لیئے یہ بڑے اعزاز کی بات تھی کہ اس کی تخلیقات کو HAYWARD GALLERY (ہیورڈ گیلری) میں نمائش کے لیئے جگہ دی گئی تھی۔اس کے علاوہ ایم ۔ایف حسین بھی اپنی مصوری کی نمائش انگلستان میں کر چکے تھے۔
آدم ان کو پاکستان کے ادیبوں اور مصوروں کے بارے میں بتاتا، لیکن بہت کم ایسا ہوتا کہ انھوں نے کسی کا نام سنا ہوتا۔وہ صرف پروفیسر عبد السلام کو جانتے تھے جنھیں فزکس میں کارہائے نمایاں انجام دیتے پر STEVEN WEINBERG (سٹیون وینبرگ)کے ساتھ نوبل انعام ملا۔
مرزا اسدا للہ خان غالب کے بارے میں جانتے تھے لیکن چٹوپادے صاحب کو عشقیہ شاعری پسند نہیں کرتے تھے۔ آدم نے انھیں فیض احمد فیض، سعادت حسن منٹو اور احمد فراز کے بارے میں بتایا۔ اور اس کے علاوہ اس نے صادقین، گل جی، استاد اللہ بخش اور عبدلرحمٰن چغتائی کا بھی ذکر کیا۔ چٹوپادے صاحب ان تمام ناموں سے ناواقف تھے۔ اس میں چٹوپادے صاحب کا کوئی قصور نہیں تھاکیونکہ پاکستانی ثقافتی اداروں نے اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ کام نہ کیا۔ یہی وجہ تھی کہ آدم کو کئی دفعہ سننا پڑتا کہ پاکستان کہاں واقع ہے۔ وہاں کی زبان کون سی ہے۔ سب یہی سمجھتے کہ ہندوستان کا حصہ ہے۔ لیکن انگلستان والوں کو پاکستان کے بارے میں خوب پتا ہے۔ ڈیڑھ سو سال حکومت کرکے گئے ۔ اس کے علاوہ سکائش اور کرکٹ میں کئی دفعہ پاکستان نے انھیں شکست دی۔ سکائش میں تو جہانگیر خان اور جان شیر خان کافی عرصے تک اپنا سکہ قائم کیئے رہے۔اور اب پاکستان کی جانے جانے کی سب سے بڑی وجہ ایٹمی دھماکہ بھی ہے۔ ہندوستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھی جانا جانے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment