Monday, June 17, 2013

آٹھارہواں، پس آئینہ، ناول، سرفراز بیگ، SARFRAZ BAIG








۱۸
آج صبح ثقلین کو نیائش کی فیکٹری جانا تھا۔ میں ناشتہ کرکے فارغ ہوا تو لائبریری چلا گیا۔ لائبریری سے میں دن کے دو بجے واپس آگیا۔ ہمارے گھر کے نیچے ولاجو گاتولینوں(Villaggio gattolino) کا جو بس سٹاپ تھا وہاں
لوگوں کے انتظار کے لیئے بنی ہوئے شیڈ میں رکھے ہوئے بینچ پے ثقلین بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ اس کو کام مل گیاہے۔ میں نے دور سے ہی کہا، ’’ثقلین یہاں کیا کررہے ہو۔آتی جاتی گاڑیاں گن رہے ہو‘‘۔ ہ میری حس مزاح سے واقف تھا ۔پہلے مسکرایا اور پھر بولا، ’’اچھی خبر ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’کام مل گیا ہے لیکن نیا ئش کا مالک کہتا ہے کانٹریکٹ نہیں کروں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’کام ہونا چاہیئے‘‘۔
ہم دونوں ساتھ ہولیئے۔ گھر کا دروازہ کھولا۔ سیڑھیاں چڑھ کے اوپر پہنچے۔ ثقلین بولا، ’’آج میں گیارہ بجے نیائش کی فیکٹری گیاتھا۔ اس کے مالک نے میری ٹرائی لی اور میرا کام دیکھتے ہی کہنے لگا کل سے کام پے آجاو لیکن کانٹریکٹ نہیں کروں گا۔میں نے ہاں کردی۔ میں تمہیں فون کرنا چاہتا تھا لیکن تم موبائیل استعما ل ہی نہیں کرتے اور ابھی تک وجہ بھی نہیں بتائی۔ تم نے کہا تھا کہ کتاب میں اس کا ذکرآئے گا لیکن ابھی تک اس کا کوئی ذکرنہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تھوڑا سا صبر اور،اب تو ویسے بھی اختتام کی طرف جارہا
ہے‘‘۔
وہ بولا، ’’کمال ہے چار سو صفحے تھوڑے ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’چھوڑو کتاب کو یہ بتاؤ کھانا کھایا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’نہیں‘‘۔
میں نے جلدی سے پیاز،ٹماٹر اور انڈ ے بنائے۔ ہم دونوں نے مل کے روٹیاں بنائیں۔ کھانا کے بعد چائے کا دور چلا اور اس کے بعد ہم دونوں انڈین فلم دیکھنے لگے۔ میں’’ کھبی خوشی کبھی غم ‘‘پہلے بھی کئی دفعہ دیکھ چکا لیکن یہ ملٹی سٹار فلم ہر دفعہ دیکھ کے اچھی لگتی۔ اس کے گانے بھی اچھے تھے۔ جب فلم ختم ہوئی تو ثقلین اگلا باب لے کر چلا گیا اور میں شام کے کھانے کی تیاری کرنے لگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہفتے کے دن میں اووربیول کی ازیل ہائم میں ناشتہ کررہا تھا ،سامنے سے شیفر آتا دکھائی دیا اس کے ہاتھ میں اخبار تھا۔ وہ مجھے دیکھ کے مسکرایا۔ میں نے پوچھا، ’’کیوں مسکرارہے ہو‘‘۔
کہنے لگا، ’’خود ہی دیکھ لو‘‘۔
میں اس کے ہاتھ سے اخبار لیا اور دیکھنے گا۔ اس میں میری فوٹو تھی اور کئی جگہ میرا نام تھا۔ اس کا مطلب ہے میرا انٹرویو چھپا ہے۔ میں نے شیفر سے پوچھا ،’’اس میں کیا لکھا ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’جو تم نے بتایا ہے۔ ویسے تمہارے بارے میں بہت اچھا لکھاہوا ہے۔ ہم لوگ یہا ں کے رہنے والے ہیں لیکن ہمارا انٹرویو آج تک نہیں چھپا لیکن تمہیں یہاں آئے ہوئے دس دن بھی نہیں ہوئے اور دیکھو تمہارے بارے میں کتنا اچھا لکھا ہوا ہے‘‘۔
مجھے انٹرویو دیکھ کے بہت خوشی ہوئی ۔میں نے اسی وقت پیٹر کو ایس ایم ایس کیا اور تمام تفصیل لکھی ۔اس کے جواب میں اس نے لکھا کہ تم
نے میل کا جواب دیر سے دیا اس لیئے جمعے کے بجائے انٹرویو ہفتے کو چھپا اس کے لیئے معذرت خواہ ہوں۔ ہفتے کا دیر لانڈبوتے سب نے باری باری دیکھا۔ شیفر کہنے لگا ،’’میں ایک کاپی اور لاؤں گا اور اس انٹرویو کی کٹنگ یہاں نوٹس بورڈ پے لگاؤں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’شیفر تمہیں میرے انٹرویو چھپنے کی خوشی ہوئی ہے‘‘۔
کہنے لگا، ’’بہت‘‘۔
مجھے ونٹرتھور ہسپتال جانا تھا کیونکہ گلبدین کاآپریشن ہوچکا تھا۔ اس کا بھائی ،شاہ صاحب اور کرپال سنگھ اس کے پاس تھے۔ وہاں رکنے کی اجازت تو نہیں تھی لیکن وہ ہسپتال کے آس پاس ہی رہتے ۔ میں نے رضا سے بھی ملنا تھا لیکن اس نے کل آنا تھا۔ میں جلدی سے تیار ہوا اور بس سٹاپ پے آگیا ۔ہفتے اور اتوار کو بسیں کم ہوتیں۔ اس لیئے مجھے بس سٹاپ پے آدھا گھنٹا انتظار کرنا پڑا۔ بس اپنے ٹھیک وقت پے آئی اور میں اس میں سوار ہوا۔ آج میں دلی طور پے بہت خوش تھا۔ ایک عجیب قسم کا سرور محسوس کررہا تھا۔ بس جب سٹیشن کے سامنے رکی تو میں بس سے اتر گیا۔ وہاں سے میں سٹڈ ہاوس سترازے پے آگیا۔ چند قدم پے ہسپتال تھا۔ میں نے کاونٹر سے پوچھا کہ گلبدین کمرہ کون ساہے ۔کاونٹر پے بیٹھی ہوئی لڑکی نے مجھے بتایا کہ دوسری منزل پے ہے لیکن وہاں شور کرنا بالکل منع ہے۔ میں لفٹ کے بجائے سیڑھیوں سے ہوتا ہوا دوسری منزل پے پہنچا ۔دوسرا کمرہ گلبدین کا تھا۔ میں جیسے ہی دروازے سے اندر داخل ہوا ،ایک شخص اٹھ کے میرے گلے لگا۔ میں نے کہا، ’’آپ کون‘‘۔
وہ بولا، ’’میں گلبدین کا بھائی ہوں ۔یہ جب بھی زیورک آتا ہے آپ کی بڑی تعریف کرتا ہے۔ میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے اس کے چیک اپ کے لیئے اس کی بہت مدد کی ہے۔ میں زیورک ہوتا ہوں ۔کام سے چھٹی ہی نہیں ملتی‘‘۔
میں نے کہا، ’’کوئی بات نہیں ۔یہ تو میرا فرض تھا اور ویسے بھی ہم لوگ فارغ ہوتے ہیں کوئی کام تو ہوتا نہیں۔ اگر ہم کسی کے کام آجائیں تو کون سا ہماری جان چلی جاتی ہے‘‘۔
مجھے اس لڑکی کی بات یاد آئی کہ وہاں پے خاموش رہنا ہے ۔اس کے بعد میں کچھ نہ بولا۔ گلبدین ایک معصوم بچے کی طرح سو رہا تھا۔ اس کی ایک آنکھ پے پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اتوار کا دن تھا اور شام کو بھی بہت گرمی تھی۔ میں اور رضا اس کی ازیل ہائم کے باہر ایک کونے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم دونوں مختلف موضوعات پے بات کرتے رہے پھر میں نے اسے کہا، ’’اس دن دہشت گردی پے بات ہورہی تھی۔ اگر آپ کو برا نہ لگے مزید روشنی ڈالیں‘‘۔
وہ بولا، ‘’میں تمہیں اتنا کچھ بتا چکا ہوں،ابھی تک تمہاری تسلی نہیں ہوئی۔ ویسے مجھے خوشی ہے کہ تم نے انٹرویو میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا‘‘۔
’’آپ کو جرمن زبان آتی ہے‘‘۔
’’یہ کون سا مشکل کام ہے۔ ویسے میرے ہاوس ماسٹر نے مجھے اس کا ترجمہ کرکے سنایا تھا۔ تم تاریخ اور مصوری میں زیادہ دلچسپی لیتے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں ٹورسٹ گائیٖڈ جو ہوں۔ تعلیم مکمل کر کے تاریخ ہی تو پڑھی ہے یا بدھ ازم اور ہندوازم ‘‘۔
’’میں تمہیں اس وقت ایک فرنچ جرنلسٹ کے بارے میں بتاتا ہوں جس نے اس موضوع پے کتاب لکھی ہے ۔ اس کانام ہے Thierry Meyssan (تھیئیری میساں) ۔اس نے ایک کتاب لکھی ہے اور اس کتاب کا نام ہے L'Effroyable imposture ۔ اس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوچکا ہے ۔میں نے یہ کتاب فرنچ میں بھی پڑھی ہے اور انگریزی میں بھی ۔ انگریزی میں اس کا عنوان ہے 9/11: The Big Lie یعنی گیارہ ستمبر ،بہت بڑا جھوٹ۔اب آتے ہیں کتاب کی طرف ۔ اس کتاب کا لبِ لباب یہ ہے کہ تھیئیری میساں نے اا ستمبر کے واقعے کو امریکہ کی جنگی حکمت عملی کا نام دیا ہے۔ جس کے ذریعے انہوں نے افغانستان اور عراق میں حملہ کرنا تھا‘‘۔
میں نے کہا، ’’یہ بات ٹھیک ہے کہ امریکی فوجیں افغانستان میں ہیں لیکن انہوں نے عراق پے تو حملہ نہیں کیا‘‘۔
’’لیکن اس کے تجزیئے کے مطابق وہاں بھی جائیں گے۔ خیر پہلے حصے میں اس نے اس بات کو بیان کیا کہ یہ اس سارے ڈرامے کا پلاٹ امریکہ کی میں ہی تیار ہوا نہ کہ ان عمارتوں کو خود کش حملہ آوروں نے گرایا ہے۔دوسرا حصے کو امریکہ میں جمہوریت کی موت کا نام دیاہے۔ اس کے مطابق امریکہ کا افغانستان جانا ۱۱ ستمبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا پلاٹ وہ برٹش پرائم منسٹر ٹونی بلیئر سے مل کے پہلے ہی تیار کرچکے تھے۔ ۱۱ ستمبر کا ڈرامہ رچا کے انہوں نے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے اور اپنے مرضی کے مطابق ملٹری ایکشن لیا۔ دنیا کے کسی ملک نے بھی ان کی مخالفت نہیں کی۔ وہ کہتا ہے یہ جدید دور کی صلیبی جنگ ہے۔ تیسرے حصے میں اس نے لکھا ہے کہ اسامہ بن لادن امریکہ کا تیار کردہ بندا ہے اور وہ امریکن سی آئی اے کے لیئے کام کرتا تھا اور کرتا ہے۔ اس کی تحقیق کے مطابق اسامہ بن لادن اور بش فیملی کے کاروبار میں شراکت داری ہے۔ جس میں ہتھیار، تیل اور دوائیاں شامل ہیں اور اس کمپنی کا نام ہے کارلائیل گروپ(Carlyle Group)۔ ا س کتاب کی نہ صرف فرانس میں فرینچ اخبار نویسوں نے مخالفت کی بلکہ امریکہ نے بھی اس بات کو ماننے سے انکار کردیا کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سچ ہے۔
اس سلسلے میں دوسرا بندا جس نے اس بارے میں تحقیق کی وہ ہے جرمن اخبار نویسMathias Br246ckers (میتھیاس بروکرز)۔یہ جرمن اخبار Die Tageszeitung کا اڈیٹر ہے۔ اس نے بھی اس بات کی مخالفت کی ہے کہ ۱۱ ستمبر کے واقعے میں مسلمانوں کا ہاتھ ہے نہ ہی وہ اس بات کو ماننے کو تیار ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں، اس نے تو ۱۳ ستمبر کو ہی ایک آن لائن اخبار (Telepolis 1) میں لکھ دیا تھا کہ یہ مسلمانوں کے خلاف کوئی گہری سازش ہے۔اس کے بعد اس نے اپنی مہم جاری رکھی اور اس بارے میں لکھتا رہا کہ گیارہ ستمبر کے واقعے سے نہ اسامہ بن لادن کا ہاتھ ہے نہ ہی اس میں القاعدہ کا کوئی عمل دخل ہے لیکن اس طرح کے حالات تخلیق کرکے لوگوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ساری کارستانی ان لوگوں کی ہے۔ اس سلسلے میں اس نے جرمن زبان میں دو کتابیں لکھیں ایک کاانگریزی میں نام ہے Conspiracies, Conspiracy Theories and the Secrets of 9/11 اور اسی سلسلے کی دوسری کتاب جس کا عنوان ہےFacs, Forgeries and the Suppressed Evidence of 9/11 ۔
اس سلسلے میں تیسرا نام ہے ایک جرمن سیاسی لیڈر، مصنف، اور وکیل Andreas von B252low (آندریاس فون بیلو) ہے جو مختلف حکومتوں میں بھی رہا ہے۔ آج کل وہ اس موضوع پے کتاب لکھ رہا ہے جس کانام ہے The CIA and September 11 (Die CIA und der 11. September۔اس نے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بارے میں جرمنی کے خبارات کو انٹر ویو دیتے ہوئے اس بات سے انکار کردیا تھا کہ اس واقعے سے القاعدہ کا تعلق ہے یا اس میں اسامہ بن لادن شامل ہے۔ اس نے اپنے بیان میں کہا تھاکہ یہ کہانی سراسر جھوٹ پر مبنی ہے کہ ۱۹ مسلمان پائیلٹ ڈھونڈنا اور ایک گھنٹے کے وقت میں ان کا ایک نہیں چار جہاز ہائی جیک کرناوہ بھی چھوٹے نہیں بلکہ بڑے جہاز جن کے لیئے تجربہ کار پائیلٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح کے واقعے کے لیئے بغیر سرکاری مدد کے کبھی بھی عمل درآمد نہیں ہوسکتا۔ اس کے مطابق اگر اس کیس کے یہی حقائق سامنے لائے جائیں تو امریکہ کئی سرکردہ ارکان کو ساری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنی پڑے۔ امریکی حکومت نے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے اور اس حادثے کے تمام ثبوت اور حقائق مٹادیئے ہیں‘‘۔
میں رضا کی شکل دیکھنے لگا۔ میں کیا ساری دنیا کے مسلمان اس بات کو جانے انجانے میں مان چکے ہیں اور یہ جرمن اور فرنچ کیسے کیسے ثبوت لے کر سامنے آئے ہیں کہ امریکہ کی سازش کھل کے سامنے آگئی ہے۔ میں یہ سب جان کر واقعی ہی حیران ہوا ۔ میں نے رضا کو کئی دفعہ کہتے ہوئے سنا کہ کوئی تھیوری ہے جس کے بارے میں سب نے لکھا ہے conspiracy theory میں اس بارے میں جانا چاہتا تھا۔ رضا مجھے سوچ میں ڈوبے ہوئے دیکھ کہ کہنے لگا، ’’کیا سوچ رہے ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں کونسپیریسی تھیوری کے بارے میں سوچ رہا ہوں ‘‘۔
وہ بولا، ’’میں تمہیں اس بارے میں بھی بتاتا ہوں ۔ سب سے پہلے تو اس کانام ہے
9/11 conspiracy theories یعنی گیارہ ستمبر ایک گہری سازش ۔ اس کو false flag operation کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ میں تمہیں ایک ایک کرکے بیان کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو اس طرف آتے ہیں کہ چار بڑے جہاز ہائی جیک کیئے گئے ۔ ان میں سے دو تو ورلڈ ٹرید سنٹر کے ٹون ٹاورز سے ٹکرائے جس کی وجہ سے یہ عمارتیں منہدم ہوئیں۔ان ہائی جیکرز نے تیسرا جہاز پینٹاگون پے گرایا اور چوتھاجہاز پیسلووینیا (Pennsilvenia)کے علاقے شیکرز ول (Shakersville)کے کھیتوں میں گرایا ۔ اور امریکی حکومت نے اس بارے میں ریپورٹ پیش کی ہے کہ ہمیں اس واقعے سے پہلے وارننگز ملتی رہی ہیں۔
جیسے ہی جہاز ان عمارتوں سے ٹکرائے مختلف قسم کے مفروضے تخلیق کیئے گئے۔ جس میں القاعدہ ،اسامہ بن لادن اور موساد کا ذکر سننے میں آیا۔ پہلے یہ خبر مشہور کی گئی کہ اس واقعے میں کوئی بھی یہودی نہیں جاں بحق ہوا جبکہ انشورنس کمپنی کے کوائف کے مطابق اس حادثے میں چار سو یہودی بھی جاں بحق ہوئے۔
اس کے علاوہ Steven E. Jones, جو ماہر فزکس ہے اور Richard Gageجو مشہور آرکیٹیکٹ ہے ان کے بیان کے مطابق کسی بیرونی طاقت کے بغیر کوئی بھی عمارت نہیں گر سکتی ہے ۔یعنی کہ جہازوں کے ٹکرانے سے کسی بھی عمارت کا اس طرح منہدم ہونا ناممکن ہے جیسے کہ لوگوں کو دکھایا گیا ۔ اس کے لیئے ان عمارتوں کے نیچے ایسا مادہ رکھا گیا جس سے یہ دھڑام سے نیچے آگئیں۔
سٹیو جونز نے ایک پوپولر سائنس میگزین میں لکھا کہ ان عمارتوں کو تباہ کرنے کے لیئے تھرمائٹ (Thermite)یا نیوتھرمائٹ (Neothermite)استعمال کیا گیا ہے کیونکہ ان عمارتوں کی راکھ کی تحقیق کرنے کے بعد یہ چیز سامنے آئی۔ امریکہ کے ادارے نسٹ (نیشنل انسٹیٹیوٹ آف سٹینڈرڈز اینڈٹیکنالوجی ) "National institute of Standards and Technology"نے کونسپیریسی تھیوری کوماننے سے انکار کردیا کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ ان عمارتوں کی راکھ کی تحقیق ہی نہیں کی گئی
۔جیسے ہی یہ عمارتیں تباہ ہوئیں ان کے بارے میں امریکہ اور دنیا کے دیگر اخبارات میں کہانیاں چھپنے لگیں کہ یہ عمارتیں، عمارتوں میں استعمال ہونے والے سٹیل اور المونیم کے پگھلنے سے گری ہیں۔ میں نے تمہیں پہلے اسی لیئے بتایا تھا کہ سٹیل اور المونیم کا میلٹنگ اور بوئیلنگ پوانٹ کیا ہے۔ یہ کتنے درجہ حرارت پے پگھلتا ہے۔ جب اس طرح کی کہانیوں کے بارے میں سائنسدانوں نے تٖفصیل لکھنی شروع کی تو امریکہ کے ادارے نیسٹ نے اپنا بیان بدل دیا اور یہ کہنا شروع کردیا کہ عمارتوں میں استعمال ہونے والا سٹیل گرمی کی وجہ سے کمزور پڑ گیا تھا اور اس لیئے یہ عمارتیں گر گئیں۔ سائنسدانوں نے اس بات کو غلط ثابت کردیا کہ سٹیل کے گرم ہونے سے اگر عمارتیں گری بھی ہیں تو ان عمارتوں کا دس فیصد حصہ گرنا چاہءئے تھا کیونکہ سٹیل کا درجہ حرارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتا ہے نہ کہ بڑھتا ہے۔
فرانس کے جس مصنف کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اور اخبار نویس Thierry Meyssan اور Dylan Avery ان دونوں کا خیال ہے کہ جو جہاز پینٹاگون پے گرایا گیا وہ جہاز نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول سے چلایا جانے والا میزائیل ہے۔ ان کے خیال کے مطابق پنٹاگون میں جو سوراخ دکھائے گئے ہیں وہ بہت چھوٹے ہیں۔ تھیئیری میسن کا کہنا ہے کہ بوئنگ ۷۵۷ کی چوڑائی ۱۲۵ فٹ ہوتی ہے اور لمبائی ۱۵۵ فٹ جبکہ پنٹاگون میں ہونے والے سوراخ کی چوڑائی ۶۰ فٹ ہے۔ اس کے علاوہ کونسپیریسی تھیوری والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے چار جہاز اڑیں اور وہ چار مختلف مقامات پے گریں اور کسی ایک کا بھی بلیک بوکس نہ ملے۔ اگر بلیک بوکس ملے تو انہیں غائب کردیا گیا یا ان عمارتوں کو گرانے کے لیئے جہاز استعمال کیئے ہی نہیں گئے۔
اب آتے ہیں ہائی جیکرز کی طرف ۔جیسے ہی یہ واقع پیش آیا ،انگلینڈ کے نیوز چینل بی بی سی نے ان ۱۹ ہائی جیکرز کے نام اور کوائف ٹی وی پے دکھا دیئے۔ چند دنوں کے تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ان میں سے کئی ہائی جیکرز زندہ ہیں ۔ یعنی خود کش حملے کے بعد مرجانا اور بعد میں اس کا زندہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے جن ہائی جیکرز کے نام بی بی سی اور دیگر ٹی وی چینلز نے دکھائے تھے وہ خود سے تخلیق کیئے گئے تھے جو کہ کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔ اس کے بارے میں ایک اور بات بھی سامنے آئی کہ ان ۱۹ افراد
جن کے نام ایف بی آئی اور بی بی سی نے پوری دنیا کو دکھائے ان میں سے سولہ کے پا س یا ویزہ نہیں تھا یا ان کے پاسپورٹز کا کوئی مسئلہ تھا۔ اگر کسی ڈرامے کے ۱۹ کردار ہوں اور سولہ کرداروں کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو تو تین بندے ڈرامہ کیسے پیش کریں گے۔
اس حادثے کو فوراً بعد تمام ثبوت بڑی خوبصورتی کے ساتھ مٹا دیئے گئے جبکہ ایف بی آئے کا کہنا ہے کہ ہمیں چار بلیک بوکس ملے جن میں سے دو بری تبا ہ ہوچکے تھے اور دو ٹھیک تھے۔ اس حادثے کے فوراً بعدمختلف انٹرویوز ،آڈیو اور وڈیو ٹیپس کے ذریعے پوری دنیا کو دکھایا گیا کہ اسامہ بن لادن نے اس بات کو ما ن لیا ہے اس کام میں اس کا ہاتھ ہے۔ پہلے ا س نے انکار کیا تھا لیکن بعد میں وہ مان گیا ۔ یہ وڈیو ٹیپ امریکی کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ریلیز کی اور دنیا کے کئی اسلامی ممالک نے اس ٹیپ کی صداقت پے شک کیا۔ میں نے اس لیئے وڈیو کریسی کے بارے میں بتایا کہ کس طرح کوئی بھی چیز جب ہم ٹی وی یا فلم میں دیکھتے ہیں تو ا س کا ہمارے دماغ پے کیسا اثر پڑتا ہے۔ ہم بنا ثبوت کے اس کے خلاف یا اس کے حق میں اپنے ردِعمل کا اظہار کرتے ہیں۔
پھر ایک یہ بھی فلسفہ بھی زیرِ بحث رہا کہ اس حادثے کے لیئے جہازوں کا استعمال کیا ہی نہیں گیا۔ اگر جہازوں کا استعمال نہیں کیا گیا بلیک بوکس کا پایا جانا اور ان کا غائب کیا جانا یا ان کی صداقت پے یقین کرنا یا یہ کہنا کہ ایک بلیک باکس کی کچھ ریکارڈنگ مجبوری کے تحت لوگوں کے سامنے لانی پڑی ،یہ ساری باتیں جھوٹی ہیں‘‘۔
میں نے بیچ میں ٹوکا، ’’لیکن یہ جہازوں کے نہ ہونے کا تصور بھی تو کسی نے پیش کیا ہوگا‘‘۔
رضا بولا، ’’بش کی لیبر ڈیپارٹمنٹ کے دو معاشیات دانوں Nico Haupt اور Morgan Reynolds ،ان دواشخاص کا خیال ہے کہ گیارہ ستمبر۲۰۰۱ کو ان جڑواں عمارتوں کو گرانے کے لیئے جہازو کااستعمال ہوا ہی نہیں کیونکہ جہاز بنانے کا لیئے ایلمونیم کا استعمال ہواہے اور ان عمارتوں میں سٹیل کا استعمال کثرت سے کیا گیا تھا اس لیئے جہازوں کا ان کے اندر داخل ہونا اور سوراخ کردینا اور ان کو تباہ کردینا ناممکن ہے۔ رینالڈز کا کہنا ہے نہ ہی جہاز تھے نہ ہی ہائی جیکرز تھے۔ ایک شخص David Shayler کا خیال ہے کہ ان عمارتوں کو گرانے کے لیئے جہاز نماں میزائل استعمال کیئے گئے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر آپ ان عمارتوں کے گرنے کی فوٹج دو تین بار دیکھیں اور اس کو سلوموشن کرکے دیکھیں تو صاف نظر آیا ہے سگار نماں میزائل ان عمارتوں کی طرف جارہے ہیں اور یہ میزائل ان عمارتوں سے ٹکراتے ہیں۔ اس طرح کے نظریات کا اظہار کرنے والوں کو بری ڈرادھمکایا گیا اور انٹرنیٹ سے اس طرح کی تمام سائیٹس غائب کردی گئیں‘‘۔
’’لیکن ان عمارتوں کو گراگے ،اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرکے ،الزام مسلمانوں کے سر تھوپ کے امریکہ کو کیا فائدہ ہوا‘‘۔
رضا بولا، ’’میں اس بارے میں تمہیں شاید پہلے بھی بتا چکا ہوں۔ پرانے زمانے میں لوگ کسی ملک پے حملہ کرتے تھے تو اس کے لیئے کوئی خاص وجہ نہیں چاہیئے ہوتی تھی ۔محمد بن قاسم کو انڈیاء اس لیئے بھیجا گیا تھا کہ وہاں کے بادشاہ نے عربوں کو جہاز لوٹ لیا تھا اور تاجروں کو قید کرلیا تھا۔ یہ وجہ کافی تھی انڈیا پے حملہ کرنے کے لیئے۔ موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کو سپین فتح کرنے کے لیے اس لیئے بھیجا تھا کیونکہ اس کو کاونٹ جولین نے خود خط لکھا تھا کہ حالات ساز گار ہیں تم کسی وقت بھی حملہ کرسکتے ہو۔ سکندر اعظم نے جب ہندوستان پے حملہ کیا تو اس کو ٹیکسلا کے بادشاہ امبھی نے دعوت دی تھی کیونکہ وہ جہلم کے بادشاہ پورس سے بہت تنگ تھا۔ صلیبی جنگوں کے لیئے عیسائیوں نے قبلہ اول کو سامنے رکھ کے اپنے عوام کو بیوقوف بنایا اور یروشلم پے حملہ کردیا۔ آج کے دور میں ہم اگر کسی ملک پے حملہ کرتے ہیں تو پہلے اس کے لیئے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیئے ۔اس کے بعد ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ اگر پروپگنڈہ کامیاب ہوگیا تو وہاں جاکے فائدہ کیا ہوگا جو حملے کی اصل وجہ ہوتی ہے۔ امریکہ کو جن ملکوں میں تیل نکلتا ہے وہاں داخل ہونے کے لیئے ان کو ختم کرنے کے لیئے کوئی ایسی وجہ چاہیئے تھی جس سے کوئی ان کو غلط نہ کہے۔ افغانستان پے حملہ کرنا تھا ،اس کے بعد ان کا پروگرام عراق پے حملہ کرنے کا ہے اور اگر موقع ملا تو ایران پے بھی حملہ کریں گے ۔اب وہاں جانے کے لیئے وہ پوری دنیا کو کہتے ہیں کہ ہم وہاں جارہے ہیں تو سب لوگ ان کو روکیں گے۔ اس لیئے انہوں نے اپنے ہی ملک میں ،شہر کے بیچو بیچ یہ عمارتیں گرادیں۔ اس کے لیئے وہ کئی سالوں سے پلاننگ کررہے تھے۔ جب لوگوں نے عمارتوں کو گرتے دیکھا اور اس کے بارے میں میڈیاء کے ذریعے یہ پروپگنڈہ کروایا گیاکہ اس میں طالبا ن کا ہاتھ ،القاعدہ کا ہاتھ ہے، یہ سب کچھ اسامہ بن لادن نے کروایا ہے۔ پروپگنڈہ اتنا زبردست کیا گیا کہ دنیا کے کئی اسلامی ملک بھی ان کے سا تھ ہوگئے۔اب امریکن فوجیں افغانستان میں داخل ہوچکی ہیں۔ وہاں سے ان کا اگلہ ٹارگٹ عراق ہوگا اس کے بعد ایران ۔ سعودی عرب کے شیخوں کاتیل تو امریکی نکا ل ہی رہے ہیں اب یہ عراقیوں اور ایرانیوں کا تیل نکالنا چاہتے ہیں۔ تیل کی ضرورت ہر کسی کو ہے ۔اگر ہمارا تیل نکل گیا تو ہم کیا کریں گے‘‘۔
میری ہنسی نکل گئی ،’’واقعی آغائی رضا اگر آپ لوگوں کا تیل نکل گیا تو آپ کیا کریں گے‘‘۔
’’خیر یہ تو بعد کی بات ہے لیکن کئی دفعہ سارا کچھ پلین کے مطابق نہیں ہوتا کئی دفعہ ترکیب الٹی بھی ہوجاتی ہے۔ جب سے ان عمارتوں کا واقع پیش آیا ہے امریکہ کی معیشت خطرے میں ہے۔ وہاں کی سٹاک ایکس چینچ گھاٹے میں جارہی ہے۔ نہ صرف امریکہ کی بلکہ پوری دنیا کی معیشت بری طرح مجروح ہوئی ہے‘‘۔
’’لیکن آغائی تیل حاصل کرنے کے اور بھی تو طریقے ہیں۔یہ طریقہ اپنانا ضروری کیوں سمجھا گیا‘‘۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ جیسے سعودی عرب امریکہ کی طے کردہ قیمت کے مطابق تیل بیچتا ہے اور وہ بھی خام حالت میں۔ بعد میں وہ اس کو مختلف کاموں میں لاتے اور لوگوں کو اپنی قیمت لگا کے بیچتے ہیں۔ وہ عربوں کا تیل خریدتے ہیں۔امریکہ جہاز اور اسلحہ بناتا ہے۔ تیل تو بک گیا۔ اسلحہ کون خریدے ۔اس کے لیئے جنگ کی ضرورت ہے۔ جنگ کس سے کریں۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم تو ہوگئی۔ کہاں جائیں،کیا بہانہ کریں۔ امن کے لیئے یونائیٹڈ نیشن تو بنا دی لیکن امن ہوا تو اسلحہ تو فیکٹریوں میں پڑا پڑا خراب ہوجائے گا۔ اتنی بڑی انوسٹمنٹ تو کباڑی کے ہاتھ لوہے کے بھاؤ بکے گے۔ اب کوئی ایسا بہانہ تراشیں جس سے سب کا فائدہ ہو۔ کسی ملک پے حملہ کریں۔ اور ملک بھی ایسا ہونا چاہیئے جہاں کچھ نکلتا ہو۔ اگر تیل ہو تو بہت اچھا ہے۔ نہیں تو ہیروں کی کانیں ہونی چاہیئے یا سونا نکلے۔ جیسے ہی ملک پے حملہ ہوا اس ملک کو جدید اسلحیسے راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ جب مکمل قبضہ ہوگیا تو اس راکھ کے ڈھیر کو تعمیر بھی کرنا ہے۔ اپنی مرضی کا کٹھ پتلی باشاد بھی بٹھانا ہے۔ جو نہ تیل نکالے سے منع کرے نہ ہی ان کے معاملات میں دخل در معقولات کرے۔ اس کے بعد ملک کی تعمیر کے لیئے ٹھیکے بھی امریکن اور برٹش کمپنیوں کو ملتے ہیں۔ سرمایہ امریکہ کا، آرکیٹیکٹ فرانس یا جرمنی کے،فورمین اٹلی اور یونان کے اورآخر میں پاکستانی ،انڈین اور بنگالی مزدوری کے لیئے۔ آم کے آم گھٹلیوں کے دام۔ ایک طرف مسلمانوں کی مخالفت ،مسلمان دہشت گرد اور دوسری طرف مزدوری کے لیئے بھی یہی لوگ۔ پھر کبھی کبھی ان کو نماز کی اجازت د ے دی ۔عید وغیرہ پے کوئی تعریف کردی یا تحفہ دے دیا تو یہ غریب مزدور خوش ہوجاتا ہے کہ یہ غیر ملکی گورے تو بہت اچھے ہیں۔ مسلمانوں نے خواہ مخواہ ان کے ملک میں جاکے ان کی دو بڑ ی عمارتیں تباہ کردی ہیں‘‘۔
’’آغائی اس کے علاوہ کوئی اثر ہو ا ہو‘‘۔
’’اس کے علاوہ یہ ہوا کہ ہوائی کمپنیوں کا کاروبار خصارے میں چلا گیا اس لیئے اس پروپوگنڈے کو کم کردیا گیا۔ اس واقعے کے بعد جہاں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پوری دنیا میں مسلمانوں اور اسلام کے خالف نفرت کی لہر دوڑ گئی وہاں لوگوں نے اسلام کے بارے میں پڑھنا شروع کردیا۔ مذہب اسلام کے بارے میں اخبارات میں چھپنے لگا۔ اب پوری دنیا کو پتا چل گیا ہے رمضان کیا ہوتا ہے، مسلمان حج کیوں کرتے ہیں۔ زکوۃ کیوں دیتے ہیں ۔ ان کے کتنے فرقے ہیں ۔ جہا ں تنقید کرتے ہیں وہاں تعریف بھی کرتے ہیں ۔ بہت سے غیرملکیوں نے تو اسلام قبول بھی کرلیا ہے بلکہ امریکہ میں تو اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے‘‘۔
’’اب مجھے لگتا ہے ہم مسلمان دہشت گرد نہیں بلکہ اصل دشت گرد امریکی ہیں‘‘۔
’’نہیں امریکی شہری دہشت گرد نہیں بلکہ امریکی شہری تو بہت معصوم ہیں۔ یہ تو ان کے پالیسی میکرز کا کام ہے۔ ان کے سیاسی لابیوں کا کام ہے۔ امریکہ کا کمال یہ ہے کہ آرنلڈ شوازنیگر امریکہ باڈی بلڈنگ کے لیئے آیا تھا لیکن وقت ساتھ ساتھ وہ کیلیفورنیاء کا گورنر بن گیا حالانکہ وہ آسٹرین تھا جبکہ پاکستان یا ایران میں ایسا ناممکن ہے۔ امریکہ ایک ملٹی کلچرل ملک ہے۔ یہاں ہر ملک ،نسل، مذہب اور قبیلے کے لوگ آباد ہیں۔ دوسو سال پہلے یہاں پے ہسپانویو ں، فرانسیسوں اور انگریزوں میں خانہ جنگی ہوتی رہی ۔پھر ہسپانویں ایک طرف چلے گئے، فرانسیسی ایک طر ف اور امریکہ گوروں کے قبضے میں آگیا۔ پھر ہر رنگ و نسل کے لو گ یہاں آنے لگے۔ ان میں ایرانی، انڈین، پاکستانی، چینی ہر طرح کے لوگ یہاں آکر آباد ہوئے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگو ں بہت کچھ پیش کرتا ہے۔ کام، آسائشیں،یعنی جس کے اندر کچھ کرنے کی دھن ہے اسے سب کچھ دیتا ہے‘‘۔
’’اب کیا ہوگا‘‘۔
’’ہونا کیاہے کچھ عرصہ یہی ریکارڈ بجتا رہے گا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ پھر خبر آئے گی کہ طالبان کا خاتمہ ہوگیا ۔دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگیا۔ پھر ہالی ووڈ والے طالبان اور اسامہ بن لادن پے فلمیں بنائیں گے ۔اس کو ہر فلم میں ولن دکھائیں گے۔جس طرح ہٹلر کو آج تک ولن دکھایا جاتا رہا ہے۔ یا امریکہ آج تک ویت نام میں ہاری ہوئی جنگ پے فلمیں بنارہا ہے۔ پھر افغانستان پے فلمیں بنیں گی،عراق پے فلمیں بنیں گی۔ خود کو سچا ثابت کرنے کے لیئے خوب پیسہ لگائیں گے۔ چند ایک فلموں کو آسکر ایوارڈ بھی دے دیں گے اور اس موضوع پے کتابیں لکھنے والوں کو نوبل پرائز دے دیں گے یا اس کے ناول کی اچھی پبلک سٹی کرکے اس کو بیسٹ سیلر بنا دیں گے۔ تم اگر کسی کتابوں کی دوکان پے جاؤ تو تمہیں کئی افغانی ،ایرانی اور عراقی لوگوں کی کتابیں ملیں گے جنھوں نے کسی صحافی کی مدد سے کتاب لکھی ہوگی ۔ اس میں وہاں کے نظام کے بارے میں تنقید ہوگی اور امریکہ یا یورپیئن ملک جو بھی کرتے ہیں اس کی تعریف ہوگی‘‘۔
’’ہاں یہ تو ہے ۔آج بھی یورپیئن ہندوستانیوں کو سانپ پکڑنے والا سمجھتے ہیں۔ پاکستان کے بارے میں صرف اتنا جانتے ہیں کہ وہاں کا کوئی سنگر ہے نصرت فتح علی خان ہے اور اب پاکستان دہشت گردی کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے، سینیگال کا یوسن دور ہے ‘‘۔
’’اس میں میڈیاء کابڑا ہاتھ ہے‘‘۔
’’میڈیاء تو اس دور کا سب سے بڑاہتھیار بن گیا ہے۔ پہلے ہر ملک کا ایک ٹی وی سٹیشن ہوتا تھا۔ اب پرائیویٹ چینلز کی وجہ سے ہر ملک میں دس دس یا اس سے بھی زیادہ ٹی وی چینل ہوتے ہیں۔ ہر ملک میں دنیا کے حالات پے بحث و مباحثہ ہوتا ہے ۔حل کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ ان پروگراموں کے اینکر یا جو بھی پروگرام کنڈکٹ کرتے ہیں بھاری رقم وصول کرتے ہیں‘‘۔
’’ایسا بھی تو ہوسکتا ہے کہ ان کو پروگرام سے پہلے بریفنگ ملتی ہو کہ صرف بحث و مباحثہ ہی کرنا ہے اس کا حل نہیں بتانا‘‘۔
’’تم بالکل ٹھیک سمجھے ہو۔ اب ایک طرف یورپیئن اور امریکن ٹی وی پوری دنیا کو بتا رہا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں اور دوسری طرف الجزیرہ ٹی وی نئی نئی آڈیو اور وڈیوٹیپس لانچ کررہا ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسا ن نہیں ٹی وی چینل آپس میں لڑ رہے ہیں‘‘۔
’’اس کا مطلب ہے ان ٹی وی چینلز کو اس طرح کے کام کرنے کے لیئے کوئی نا کوئی مالی امداد کرتا ہے ‘‘۔
’’امداد وہی کرتے ہیں جو اپنے مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہیں۔وہ اپنے مقصد میں کافی حد تک کامیاب ہو بھی جاتے ہیں اور ہوچکے ہیں‘‘۔
’’آغائی ہم مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیئے‘‘۔
’’ہمیں پڑھنا چاہیئے، تحقیق کرنی چاہیئے بجائے اس کہ ہم لوگ فضول کاموں میں اپنا وقت ضائع کریں‘‘۔
’’آغائی میں آپ سے ملنے سے پہلے خود کو بہت ذہین سمجھتا تھا تاریخ کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد یہی سمجھتا تھا کہ مجھے سب کچھ پتا ہے لیکن جب سے آپ سے ملا ہوں مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا حالانکہ میں کئی سال ٹورسٹ گائیڈ رہا ہوں۔ فرنچ زبان سیکھی، انگریزی زبان سیکھی ،اٹالین زبان سیکھی لیکن علم میں بہت پیچھے رہا‘‘۔
’’فرشتہ تم بہت سے لوگوں سے بہتر ۔تم تین یورپیئن زبانیں جانتے ہو‘‘۔
’’یہ بات تو میرے دادا بھی کہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک شخص اگر ایک سے زیادہ زبانیں جانتا ہوں تو وہ جتنی بھی زبانیں جانتا ہے وہ اتنے ہی انسانوں کی طاقت کا مالک ہوجاتا ہے‘‘۔
’’تمہارے دادا صاحب علم آدمی تھے‘‘۔
’’میرے اندر علم کی شمع جلانے والے وہی تھے۔ میرے اندر یہ جو تجسس کی بھرمار ہے وہ میرے دادا کی وجہ سے ہی ہے‘‘۔
’’اور تمہارے والد صاحب ‘‘۔
’’میرے والدصاحب پاکستان کے بہت بڑے سرمایہ دار ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی مالی امداد کرتے ہیں‘‘۔
’’اور تم اس طرح کی زندگی گزار رہے ہو‘‘۔
’’میں خوش ہوں۔ میں یہ جان گیا ہوں کہ مسلمان دہشت گرد نہیں۔ان کا گیارہ ستمبر کے واقعے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے جب سے ٹی وی پے دیکھا تھا مجھے اپنا آپ برا لگنے لگا تھا۔ مجھے ایسا لگتا تھا جیسا میں نے ورلڈ ٹریڈ سنٹر گرائے ہیں لیکن اگر میں یہاں نہ آتا ،آپ سے نہ ملتا تو مجھ پے یہ راز کبھی بھی آشکارہ نہ ہوتا کہ اصل حقیقت کیاہے‘‘۔
جس ازیل ہائم میں رضا رہتا تھا وہاں کا ہاوس ماسٹر آیا اور کہنے لگا ،’’تم دونوں کو یہاں بیٹھے ہوئے کافی دیر ہوچکی ہے اندر چلے جاؤ‘‘۔
رضا بولا، ’’مہمان آیا ہے‘‘۔
اس کے آنے سے گفتگو کا سلسلہ ایسا ٹوٹا کہ پھر بات چیت ہی نہ ہوئی۔ میں نے رضا سے اجازت لی اور وہاں سے پیدل ہی اپنی ازیل ہائم آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تین چار دن اسی طرح ہی گزر گئے۔ میرے انٹرویو چھپنے کی دیر تھی۔ مجھے کئی لوگوں کے خط اور پوسٹ کارڈ موصول ہوئے۔ ان میں ایک پوسٹ کارڈ تو کیتھرین کا تھا۔ ایک کارڈ کسی ایرون شاٹس مین(Ervin Shatzman) کا تھا۔ایک کارڈ ونٹرتھور میوزم کی ڈائیریکٹر کا تھا۔ کیتھرین نے میرے تعریف میں کافی کچھ لکھا تھا۔
ایرون شاٹسمین نے مجھے اپنے گھر بلایا تھا۔ اس نے اپنا فون نمبر بھی لکھا تھا۔ میوزیم کی ڈائیریکٹر نے مجھے میوزیم دیکھنے کی دعوت دی تھی۔ میں جہاں بھی جاتا لوگ مجھے پہچان جاتے۔ لائبریرین اب مجھے گھور گھور کے نہ دیکھا کرتی۔ جم میں ایک نوجوان لڑکا کام کرتا تھا اس نے مجھے اپنا لائبریری کارڈ دے دیا تھا کہ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق ہے میں جب چاہوں لائبریری سے کتاب یا فلم لے سکتا ہوں ۔ونٹرتھور میں ایک دوکان تھی اس کے پاس دنیا کے ہر ملک کی چائے کی پتی تھی ۔میں اس سے پتی لینے گیا تو اس نے مجھ سے پیسے ہی نہ لیئے۔ میں بازار سے گزرتا تو کئی لوگ مجھے پہچان جاتے تھے۔ اور تو اور جب میں ٹورسٹ انفارمیشن سنٹر جاتا تو وہاں کا ڈائیریکٹر میرے ساتھ بڑے اچھے طریقے سے پیش آتا۔ شیفر کا رویہ تو میرے ساتھ پہلے ہی اچھا تھا لیکن اب شنائیڈر بھی مجھ سے ٹھیک طریقے سے پیش آنے لگا۔ میں جمعرات کو جب سوشل لینے گیاجسے میں خیرات یا بھیک سمجھتا تھا اور یہ بات میں انٹرویو میں بھی کہی تھی تو بینک کا کلرک مجھے مسکراء کے دیکھ رہا تھا۔ میرے خیال میں میں پہلا شخص تھا جس نے اس رقم کو بھیک کا نام دیا تھا۔
اب گلبدین ازیل ہائم واپس آگیا تھا اور میری رضا سے کئی دنوں سے ملاقات بھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ کئی دفعہ زیورک چلا جایا کرتا اور وہاں کئی دن رہ کر آتا۔ میں جمعے کے میوزم چلا گیا ۔وہاں کی ڈائیریکٹر مجھے دروازے پے ملنے آئی ۔مجھ سے ہاتھ ملایا اور اپنا تعارف کروایا۔ میں نے کہا۔ مجھے تمہارا کارڈ مل گیا تھا۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ پھر اس نے مجھے پورے میوزم دکھایا۔ اور کہنے لگی یہاں ایک میوزم ہے اس کا نام ہے ولا فلورہ (villa flora)۔ وہاں پے ہالینڈ کے پینٹر وین گوگغ(van gogh) کی تصاویرکی نمائش کے لیئے لائی جارہی ہیں۔ تم نے اپنے انٹرویو میں اس کا ذکر بھی کیا تھا۔ اس لیئے میں تمہیں دو ٹکٹ دیتی ہوں ۔تم جب چاہوں دیکھنے جاسکتے ہوں۔ میرا خیال اگلے ہفتے اس کی تصاویر کی نمائش شروع ہوجائے گی۔
میں ونٹرتھور کا میوزم دیکھ کے اتنا متاثر نہ ہوا۔ میں پاکستا ن میں ٹیکسلامیوزم دیکھ چکا تھا، لاہور میوزم دیکھ چکا تھا، پشاور کا میوزم دیکھ چکا تھا اس کے علاوہ چارسدہ اور سوات کا میوزم دیکھ چکا تھا جہاں بدھ ازم کے نادر نمونے تھے۔ جہاں تین ہزار سال پرانے مجسمے تھے۔ خیر میوزم دیکھنے کے بعد میں نے اس عورت کا شکریہ ادا کیا اور اس سے ولا فلورا (villa flora)کے دو ٹکٹ بھی لے لیئے۔میری خواہش تھی کہ ایرون شاٹسمین سے بھی مل لوں کیونکہ اس نے اپنے کارڈ میں پاکستا ن کا ذکر بھی کیا تھا اور یہ بھی لکھا تھا کہ وہ پاکستان کے شمالی علاقاجات کی سیر کرچکا ہے اور اس نے ان کی بہت تعریف کی تھی۔ میں میوزم سے واپس آیا تو شیفر سے کہا کہ میں ایرون شاٹسمین سے ملنا چاہتا ہوں۔ اس نے مجھے بس کا نمبر بتایا ،سٹاپ کا بتایا اور اس کے بعد کمپیوٹرسے اس کے گھر کے راستے کا پرنٹ آوٹ نکال کے لے آیا۔میں نے سوچا آج شام کو اس سے مل ہی لینا چاہیئے۔ اس نے کارڈ پے اپنا موبائیل نمبر بھی لکھا تھا۔ اس لیئے میں نے اس کا موبائیل نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے جرمن انداز میں ہیلو کی آواز آئی۔ میں نے اپنا تعارف کروایا توکہنے لگا آج شام کو میں گھر پے ہی ہوں۔ میں آج کل ایک پراجیکٹ پے کام کررہا ہوں۔تم آسکتے ہو۔تمہارے ازیل ہائم کے سے اوپرکی طرف ایک راستہ ہے ۔وہ سیدھامیرے گھر کی طرف آتا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں بس کے ذریعے آوں گا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’بس سے اتر کے ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردینا ۔تمہیں میراگھر دور سے ہی نظر آجائے گا۔ میرا گھر عجیب غریب ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ٹھیک ہے شام کو ملاقات ہوتی ہے‘‘۔میں نے یہ کہہ کے فون بند کردیا۔
شام کو میں شیفر کی بتائی ہوئی بس پے بیٹھ کے شاٹسمین کے گھر روانہ ہوگیا۔ بس سے اتر کے ریل کی پٹڑی کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیا۔ راستے سے گزرتے ہوئے ایک شخص سے پوچھاکہ شاٹسمین کا گھر کون سا تو اس نے بتایا وہ کونے میں جو رنگ برنگی گھر ہے وہ شاٹسمین کا گھر ہے ۔ یہ گھر ایک پرانی سی عمارت تھی۔ اسکے صحن میں بہت سارے لکڑی کے مجسمے پڑے ہوئے تھے۔ ایک لکڑی کا دروازہ تھا ۔میں دروازے کواندر کی طرف دھکا دے کے اندر داخل ہوگیا۔ ایک کونے میں ایک شخص لکڑی کی مجسمے کی نوک پلک سنوار رہاتھا ۔میں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں ازیل ہائم سے آیاہوں ۔میرا نام فرشتہ سبزواری ہے ۔میں سمجھا یہ ایرون شاٹسمین ہے جس نے مجھے بلایا ہے لیکن وہ کہنے لگا ،’’میں نے پہچانا نہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم ایرون شاٹس مین نہیں ہو‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’اوخو اب یاد آیا تم ایرون شاٹسمین سے ملنے آئے ہو۔ وہ اندر کمرے میں ہے ۔میں اسے ابھی بلاتاہوں۔ ہم دونوں اکھٹے کام کرتے ہیں۔ آج کل ہمیں ایک ریسٹورنٹ کے لیئے لکڑی کے سٹو ل بنانے کاٹھیکہ ملاہوا ہے‘‘۔ وہ یہ کہہ کر اندر چلاگیا ۔ تھوڑی دیر بعداس کے ساتھ ایک عجیب وغریب ہیت و حلیئے کا شخص وارد ہوا۔ دبلا پتلا، داڑھی بڑھی ہوئی اور اتنی بڑھی ہوئی کہ اسکی شکل کا اندازہ کرنامشکل تھا۔داڑھی کافی لمبی تھی اور اس کو بل دے کے اس کے آخری سرے میں بڑے بڑے منکے پروئے ہوئے تھے۔ سرسامنے سے گنجا تھا لیکن دونوں اطراف کے بالوں کوبڑھاکے ان کی چٹیاں کی ہوئی تھی۔ یہ شخص کہہ سکتاتھاکہ وہ گنجا بھی ہے اورلمبے بال بھی رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے جینزکے اوپر ایک لمبا سا عجیب وغریب چوغا پہنا ہواتھا جس کی وجہ سے اس کی قمیض نہیں نظر آرہی تھی۔ آتے ہی جرمن اندازکی انگریزی میں مجھے ہیلو کہا۔میں خوش ہوا چلو استقبال تو اچھا ہوا۔ اس نے ہاتھوں میں بہت ساری انگوٹھیاں پہن رکھی تھیں۔ میں نے کہا، ’’توآپ ہیں ایرون شاٹسمین‘‘۔
کہنے لگا، ’’آپ کیا ہوتا ہے تم کہو۔ میں نے تمہارا انٹرویوپڑھا بہت خوشی ہوئی اور زیادہ خوشی اس بات کی ہوئی کہ تم پاکستانی ہو‘‘۔
میں نے کہا، ’’ڈر نہیں لگا کہ ایک دہشت گرد کا انٹرویو پڑھا ہے ۔یاغصہ نہیں آیا‘‘۔
کہنے لگا،’’چھوڑوان باتوں کو کیاپیؤگے۔ وہسکی، وائن یاکوئی اور چیز ‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں شراب نہیں پیتا ‘‘۔
تو کہنے لگا،’’میں تمہارے لیئے ملک شیک بنا کے لاتاہوں۔ بلکہ ایسا کرواندر ہی آجاؤ۔ باہر بہت دھوپ ہے‘‘۔
میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوگیا۔ اس کادوست باہر لکڑی کے مجسمے کے ساتھ ہی کام کرتارہا۔ میں گھر کے اندر داخل ہوا۔ گھر کیا تھاعجائب گھر تھا۔ اس نے مجھے گھر کی سیر کروانی شروع کی۔ کہنے لگا، ’’اس گھر میں تم جو بھی چیزدیکھ رہے ہو میں نے خود بنائی ہیں صرف اس کاکھوکامیں نے سوس حکومت سے خریداہے۔ یہ ایک پرانہ گھر تھا۔اس علاقے کے میئر کاخیال تھایہاں کے تمام پرانے گھر گرا دیئے جائیں۔ میں نے چند لوگوں سے مل ملاکے یہ گھر خرید لیا۔ اس کاباتھ میں نے خودسجایاہے‘‘۔ اس کے گھر کی ہر چیز عجیب وغریب تھی۔کہیں سے سیڑھیاں اوپر جارہی ہیں کہیں نیچے کوسیڑھیاں جارہی ہیں۔ پھر اس نے مجھے اپناسٹوڈیودکھایا۔ جہاں پے وہ کسی پینٹنگ پے کام کررہا تھا۔ کہنے لگا، ’’ویسے تو میں سوس کامشہور مجسمہ ساز ہوں لیکن میں کبھی کبھی مصوری بھی کرتی ہوں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تمہارے بنائے مجسمے نظر نہیں آرہے ‘‘۔
میرے ذہن میں مجسمہ صرف سنگِ مرمر یاپتھر کا ہوتا ہے اس لیئے میں یہ سوال کیاتھا۔
وہ کہنے لگا، ’’میں لکڑی کے مجسمے بناتاہوں۔ ہم لوگ اٹالین یاگریکس کی طرح نہیں‘‘۔
میں نے کہا،’’گندھارا آرٹ میں بھی تو پتھر کے مجسمے بنائے جاتے تھے‘‘۔
کہنے لگا، ’’آؤں تمہیں تصاویر دکھاوں۔اس نے البم کھولی تومجھے گائیڈنگ کا دور یاد آگیا۔ ان تصاویر میں چترال ،گلگت،ہنزہ،کافرستان،پشاورٹیکسلا اور تخت بائی کی تصاویر تھیں۔ تصاویر میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھے۔ یہ سارے ایک ٹرک میں سوار تھے۔ شاٹسمین مجھے بتانے لگا، ’’یہ تصاویر ۱۹۷۷ کی ہیں۔ ہم لوگ ٹرک کے ذریعے انڈیاء ،پاکستا ن اور افغانستان کی سیر کرنے گئے تھے۔ پاکستان بہت خوبصورت ہے۔وہاں کے پہاڑ،پانی اور وادیاں بہت خوبصورت ہیں ۔سب سے بڑھ کے وہاں کے لوگوں کی مہمان نوازی‘‘۔
میں نے کہا،’’اوروہاں کی دہشت گردی‘‘۔
کہنے لگا، ’’سب پروپوگنڈاہے۔ میں تو اسامہ بن لادن کا بہت بڑافین ہوں۔ اس نے مجھے اسامہ بن لادن کابہت بڑاپوسٹر دکھایا۔ کہنے لگا، ’’شکر ہے کسی نے امریکہ کوبھی آنکھیں دکھائی ہیں‘‘۔
میں نے اسے کوئی جواب نہ دیا ۔کیونکہ میری رضاسے جوبھی بات ہوئی تھی میں کسی کو نہیں بتاناچاہتاتھا۔ اس دوران اس نے مجھے ملک شیک پلایا۔ ہم دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ بہت دلچسپ آدمی تھا۔ پھر میں نے کہا، ’’ا ب میں چلتاہوں ۔اگر تمہیں کسی وقت موقع ملے توازیل ہائم آنااکھٹے کھاناکھائیں گے‘‘۔
کہنے لگا، ’’کھاناچھوڑو ۔میں ابھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ۔تم مجھے پاکستانی چائے پلانا‘‘۔
میں نے کہا، ’’چلو‘‘۔
اس نے ایک ٹوٹی پھوٹی سائیکل نکالی اور میرے ساتھ ہولیا۔ کہنے لگا، ’’میرے گھر کے پاس ایک چھوٹا ساجنگل ہے ۔یہاں سے سیدھاراستہ تمہارے ہائم کی طرف نکلتا ہے‘‘۔
ہم دونوں اس کے گھر سے نکلے ۔ چند قدم چلیں ہونگیں تو گھنے اور سرسبز درختوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ راستے میں کئی ادھ جلی لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میرے خیال میں لوگ یہاں پکنک منانے آتے ہوں گے۔ ہم دونوں پندرہ منٹ چلتے رہے اور مختلف موضوعات پے باتیں کرتے رہے ۔اس نے گفتگو کے دوران مجھے بالکل ظاہرنہ کیا کہ میں ایک ایسے ملک سے آیا ہوں جو پوری دنیا میں دہشت گردی کے لیئے مشہور کردیا گیا ہے۔ ایک اونچی سی پگڈنڈی آئی ۔شاٹسمین بولا، ’’وہ نیچے دیکھو تمہار ی ازیل ہائم ‘‘۔
میں نے درختوں کے جھنڈ سے نیچے دیکھا تو نیچے ازیل ہائم نظر آرہی تھی۔ ہم دونوں اس پگڈنڈی سے نیچے اترے اور ازیل ہائم کے باہر بنے ہوئے چھوٹے سے باغیچے کے پاس پہنچ گئے۔ ہم دونوں جیسے ہی ازیل ہائم کے اندر داخل ہوئے تو شیفر میرے ساتھ ایرون شاٹسمین کو دیکھ کے حیران رہ گیا۔ عام طور پے شیفر جلدی چلا جاتا تھا لیکن آج اسے ازیل ہائم میں کوئی کام تھا اس لیئے وہ رک گیاتھا۔ میں نے ایرون کو کرسی پیش کی اور خود چائے بنانے چلا گیا۔ ازیل ہائم میں ہمیشہ کی طرح چہل پہل تھی۔ میرے اور شیفر کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ میرے ساتھ کون آیا ہے۔ جب میں چائے بناکے باہر آیا تو شیفر اور ایرون باتیں کررہے تھے۔ شیفر کہنے لگا، ’’تم جانتے ہو یہ کون ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں یہ یہاں کا مشہور مجسمہ ساز ہے‘‘۔
شیفر بولا، ’’یہ ونٹرتھور کا نہیں بلکہ پورے سوس کا مشہور مجسمہ ساز ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ہاں میں نے اس کے مجسمے دیکھے ہیں۔ میں ابھی اس کے سٹوڈیو سے ہی آرہا ہوں‘‘۔
چائے کے دوران ایرون نے مجھے بتایا کہ وہ پاکستان کی سیاحت کے دوران کتنی چائے پیتے تھے ۔پھر مجھے بتانے لگا کہ وہ پہلے بہت غریب تھا۔ اس نے کسی بھی فائن آرٹ سکول سے کسی قسم کی کوئی ڈگری نہیں لی۔ سارا کام خود سیکھا۔ میں نے سائیکالوجی میں ڈگری کی لیکن مجھے مجسمے بنا نے کا شوق تھا۔ یہاں پے لکڑی بکثرت مل جاتی ہے اس لیئے میں لکڑی کے مجسمے بنانے شروع کیئے۔ میں ونٹرتھور کے علاقے گرابن میں ایک چھوٹے سے ایک کمرے کے مکان میں رہتا تھا۔ قسمت نے میرا ساتھ دیا اور میرے بنائے ہوئے مجسمے بکنے لگے‘‘۔
میں نے کہا، ’’اور اب‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’اور اب مجھے ایک کمپنی کے اشتہار کے لیئے ایک ہزار سوس فرانک مل جاتے ہیں۔ جتنی دفعہ بھی ایڈ چلتی ہے یا اخبار میں چھپتی ہے مجھے ہزار سوس فرانک یا اس سے بھی زیادہ مل جاتے ہیں‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے شادی نہیں کی‘‘۔
کہنے لگا، ’’وقت ہی نہیں ہے۔ ویسے بھی مجھے شادی کی کیا ضرورت ہے۔ لڑکیاں خود میرے پاس آجاتی ہے۔خیر چھوڑو تم نے انٹرویو میں کہا تھا کہ تم سیر کرنے کے شوقین ہو۔ تم یہ بتاؤ کے تم کب میرے ساتھ سوس کی سیر کرنے جاسکتے ہو۔ میرے پاس اپنا کیراوان ہے۔ اس میں سب کچھ ہے‘‘۔
میں نے کہا،’’میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ‘‘۔
اس نے چائے ختم کی اور بہت شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا، ’’اب میں چلتا ہوں۔ میرا کارڈ تمہارے پاس ہے ۔جب دل چاہے مجھے فون کرکے آجانا ۔مجھے جانا ہوگا کیونکہ ہمیں ایک کام ملا ہوا ہے ۔میں صبح سے کام کررہا تھا۔ میں نے سوچا تمہارے ساتھ چائے بھی لو ں گا اور تھوڑی تازہ ہوا بھی لے لوں گا‘‘۔
میں نے کہا، ’’میں تمہیں نہیں روکوں گا‘‘۔
میں اسے باہر تک چھوڑنے آیا۔ اس نے اپنی سائیکل لی اور اسی جنگل میں گم ہوگیا جہاں سے ہم دونوں آئے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ازیل ہائم میں ایک اور بھی سلسلہ چلا ہوا تھا۔ یہاں ایک دو لڑکے مل کے تھوڑی پیسے ڈال کے زیورک تک کا پاس بنالیتے اور کسی کو زیورک جانا ہوتا تو اس سے پیسے لے کر پاس اسے دے دیتے کیونکہ روز تو زیورک کوئی نہیں جاتا تھا۔ اس بنگالی نے بھی زیورک کے لیئے پاس بنایا ہوا تھا جس نے شاکیرہ کے گانے پے ڈانس کیا تھا۔ وہ اس پاس کا کاروبار کرتا تھا۔ مجھے سینیگال کے لڑکے ممدو تراوالی نے بتایا تھا۔ خیراتوار کے دن میرا زیورک جانے کا پروگرام بنا ۔ میں نے اس
سے پاس مانگا تو اس نے مجھے بنا حیل حجت پاس دے دیا کیونکہ میں نے اس کا موبائیل فون ایکٹیویٹ کروایا تھا کیونکہ اس کو کسی نئے ماڈل کا موبائیل بیچا تھا اور غلط پن نمبر کی وجہ سے بلاک ہوگیا تھا۔ اس لیئے وہ میرا فین تھا۔ میں نے اس سے پاس لیا اور بس سٹاپ پے آگیا۔ اتوار کو بسیں کم ہوتی ہے اس لیئے میں نے آدھا گھنٹہ بس سٹاپ پے انتظار کیا۔ مقررہ وقت پے بس آئی اور میں ونٹرتھور پہنچا۔ سوس میں ایک بات اچھی تھی کہ بسیں اور ٹرینیں وقت پر آتی تھیں اور دوسری اچھی بات یہ تھی کہ ویک اینڈ پے بڑے شہروں کے لیئے زیادہ ٹرینیں ہوتیں۔ میں زیورک جانے والی ٹرین پے بیٹھا۔ ٹرین میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ گرمی بہت زیادہ بہت سے لوگ زیورک کی مشہور جھیل بیلاریو دیکھنے جارہے تھے۔ میں نے زیورک کا ریلوے سٹیشن دیکھا تھا۔اس کے بعد کرائس لنگن سے واپسی پے یہاں رکا تھا اس کے بعد اب زیورک جارہا تھا۔ ایک سٹاپ کے بعد مجھے ٹرین میں جگہ مل گئی۔ میں ٹرین کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ ٹرین کب زیورک پہنچی مجھے پتا ہی نہ چلا۔ میں سٹیشن سے باہر نکلا۔ میرا ٹکٹ ٹرام ،بس اور ٹرین سب کے لیئے ویلڈ تھا۔ میںآج تک ٹرام میں نہیں بیٹھا تھا اس لیئے میں سوچا میں بیلاریو ٹرام پے بیٹھ کے جاؤں گا کیونکہ میں نے کئی انڈین فلموں اداکاروں کو ٹرام میں سفر کرتے دیکھا تھا۔ میں سٹیشن سے باہر نکلا اور باہن ہوف سترازے والی ٹرام پے بیٹھ گیا۔ اس کے تین ڈبے تھے۔ اندر جابجا کھڑکیاں تھی۔زمین پے ریل کی پٹڑی کی طرح لوہے کی پٹڑیاں زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور اوپر کسی بجلی کے تار کے ساتھ اس کا کنکشن تھا۔ میں ٹرام میں جیسے ہی سوار ہوا میں یہی سوچنے لگا انڈین فلم کی طرح سارے لوگ مجھے دیکھنے لگیں گے لیکن کسی نے میری طرف نہ دیکھا۔ میرا سٹاپ آیا اور میں اتر گیا۔ میں نے ٹرام سے اتر کے سڑک پار کی اور پل پے چلنے لگا۔ سامنے بہت بڑی جھیل تھی ۔اس کانام بیلاریو جھیل بھی ہے اور زیورک سے یعنی زیورک جھیل بھی ہے۔ جھیل کے ساتھ ایک راستہ بنا ہوا تھا۔ جابجا کھانے پینے کی چیزوں کے ٹھیلے لگے ہوئے تھے۔ میں کافی دیر چلتا رہا۔ لوگ ہی لوگ تھے۔ ایک جگہ جرمن زبان میں کچھ لکھا ہوا تھا ۔مجھے کچھ سمجھ نہ آیا۔میں چلتا چلا گیا۔ جیسے جیسے چلتا گیا مجھے بنا کپڑوں کے لوگ نظر آتے گئے۔ بچے، بوڑھے، عورتیں ،لڑکیاں۔ہر عمر کے لوگ تھے۔ کسی نے کپڑے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ میں نے اتنی تعداد میں بنا کپڑوں کے لوگ کبھی نہیں دیکھے تھے۔ میں واحد شخص تھا جس نے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ مجھے اپنا آپ عجیب سا لگ رہا تھا اس لیئے میں یہاں سے واپس چلا آیا۔
میں گھر سے سینڈوچ بنا کے لایا تھا۔ ساتھ کوک کا ٹن تھا ،پانی کی بڑی بوتل تھی۔ میں پورا ٹورسٹ بن کے آیا تھا۔ میں نے بیگ سے سینڈوچ نکالا اور کھانے لگا۔ سامنے ایک افریقن لڑکا مکئی کے بْھٹے بیچ رہا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اوردیکھ کے حیران رہ گیا کہ ۔میرے سامنے یادونے چکوچان کھڑا تھا۔ اس نے مجھے پہچان لیا۔
میں نے کہا، ’’یہ کیا‘‘۔
کہنے لگا، ’’میری ازیل ہائم یہاں زیورک میں ہی ہے۔ سوشل سے گزارا نہیں ہوتا اور سار دن بور ہوتارہتا ہوں اس لیئے یہاں مکئی کے بْھٹے بیچتا ہوں۔ اچھے پیسے بن جاتے ہیں۔یہاں پے پولیس کا کنٹرول بھی اتنا نہیں ہوتا‘‘۔
میں نے کہا، ’’تم نے موبائیل کی بات ادھوری چھوڑ دی تھی۔ اس لیئے خدا نے ہمیں دوبار ملا دیا‘‘۔
وہ کہنے لگا، ’’کچھ کھایا ہے‘‘۔
میں نے کہا، ’’ابھی ابھی دو سینڈوچ ختم کیئے ہیں اور کوک کا کین پیا ہے ۔پیٹ بھر گیاہے لیکن مکئی کے بْھٹے دیکھے تو سوچا ایک لے لوں مجھے کیا پتا تھا یہاں یادونے چکوچان ہوگا‘‘۔
وہ بڑا حیران ہوا کہ مجھے اس کا نام یاد تھا۔ وہ ساتھ ساتھ باتیں کرتا رہا اور مکئی کے بْھٹے بھی بیچتا رہا۔ میں نے اسے رضا کے بارے میں بتایا ۔کچھ اس سے کی ہوئی گفتگو کے بارے میں بتایا۔
گفتگو کے دوران اس نے مجھے بتایا کہ موبائیل فون میں دو چیزیں بہت ضروری ہوتی ہیں۔ سلیکا اور ڈائمنڈ ۔یہ دونوں چیزیں سیئیرالیون میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی موبائیل کمپنیاں سیئیرالیون میں جنگ کے لیئے سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ جس سے ملک کی معیشت تباہ ہوتی ہے اور اس کی پیسے کی قیمت گر جاتی ہے اور یہ بڑی بڑی کمپنیاں سستے داموں سیئیرالیون سے سلیکا اور ڈائمنڈ لیتی ہیں۔ اس لیئے موبائیل چھوٹا اور سستا ہوگیا ہے۔ ا س نے مجھے مزیدبتایا کہ وہ موبائیل اسی لیئے استعمال نہیں کرتا کیونکہ اسے ایسا لگتاہے جیسے موبائیل فون سے معصوم انسانوں کاخون رس رہا ہے۔
میں شام چار بجے تک جادونے چکوچان کے پاس بیٹھا رہا۔ پھر ہم ایک ٹھیلے سے کپوچیوں پینے چلے گئے۔ کپوچینو پینے کے بعد اسے دوبارہ ای میل ایڈریس دیا، موبائیل نمبر دیا اوراس سے اجازت لی۔ٹرین میں سارے راستے سوچتارہاکہ موبائیل فون سے خون رستا ہے۔ جیسے ہی ازیل ہائم پہنچا میں نے سب سے پہلے ہاوس ماسٹر سے پیچ کس لیا۔ہال میں پڑے ہوئے مستطیل میزوں میں سے ایک پے بیٹھ کے موبائیل فون کھولا۔ اس میں سے مجھے انسانوں کاخون رستا دکھائی دیا۔ انسانوں کی سسکیاں سنائی دیں۔ میں نے موبائیل ا سی وقت زمین پے دے مارا۔ ازیل ہائم میں نوکیہ فون کے
پلاسٹک ٹکڑے بکھر گئے۔ یہ وہی فون تھا جو میں کرائس لنگن انٹرنیٹ کیفے پے چھوڑ آیا تھا اور کیتھرین نے مجھے پارسل کے ذریعے بھیجا تھا۔ دوسراموبائیل میں نے بلبیر سنگھ کو دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



No comments:

Post a Comment