Sunday, June 9, 2013

سزا، میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ

سزا

وہ دوپہر کے وقت پکڑا گیا۔ رنگ گندمی، چہرہ بلا کا کشش والا۔عمر یہی کوئی پندرہ یا سولہ سال۔ جو بھی پْلسیاء(پولیس والا) آتا اس کو ٹھوکر لگا جاتا۔ اْس کے سامنے روٹی کے ریت ملے ٹکڑے اور کنکر ملی دال کا شوربہ پڑا تھا۔ جو اْس نے مرغوب غذا سمجھ کر کھا رہا تھا۔
اْس کی ضمانت کے لیئے کوئی نہیں آیا تھا کیونکہ اْ س کاباپ پھیری لگاتا تھا اور ماں لوگوں کے گھروں میں صفائی اور برتن دھونے کا کام کرتی تھی۔
شام کو اْس کا باپ محلے کے معزز بندے کو لے کر آیا لیکن پولیس نے رقم کا مطالبہ کیا جو وہ پورا نہ کرسکا۔اس طرح شِیدے کو تھانے میں رات ہوگئی۔
رات کیا ہوئی قیامت ہوگئی۔ اس کو ایک کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا اور گندی سڑانڈ والی جگہ وہ دْبکا بیٹھا رہا۔ تقریباً رات کے بارہ بجے ایک پولیس والا اپنی ڈھیلی پتلون کو سیدھاکرتا ہوا کوٹھڑی میں داخل ہوا اور شِیدے کو ساتھ لے گیا۔ کہا کہ وڈے صاحب نے بلایا ہے۔ چند لمحوں میں شیدا وڈے صاحب کے سامنے تھا۔ چھ فٹ کا لمبا تڑنگا آدمی،اوپر سلوکا(ایک طرح کی بنیان ہوتی ہے جس پر بیشمار جیبیں لگی ہوئی ہوتی ہیں) اور نیچے دھوتی جو اْس نے گْھٹنوں تک اوپر کو اْٹھائی ہوئی تھی۔جس کی وجہ سے اس کی کالی اور بھدی ٹانگیں جو کہ گھنے اور کالے سیاہ بالوں سے اٹی ہوئی تھیں مزید بھدی لگ رہی تھیں۔ اور چہرے پر بڑی بڑی خوفناک مونچھیں تھیں۔ شیدا دیکھتے ہی ڈر گیا۔ خیر وڈے صاحب نے پْلسیئے (پولیس والے) کو جانے کو کہا۔ وڈے صاحب نے شیدے کو بلایا،
’’اْوئے ول ناں کی اے تیرا (او تمھارا نام کیا ہے)
’’جناب شیدا‘‘
’’اْوئے ول پورا ناں چا دس‘‘ (اوئے پورا نام بتاؤ)
’’جناب محمد رشید‘‘
’’منڈا تے ول کوْلا اے‘‘ (بچہ تو کشش والا ہے)
وڈے صاحب نے مونچھیں مروڑتے ہوئے کہا، ’’ ول میرے کول تے آ چا‘‘ (ذرا میرے پاس آؤ)
’’بھینڑ لنا سڑینداں نئی‘‘ (بہن کی گالی دیتے ہوئے کہا، سننا نہیں کیا)
’’ہد ھر آ چا میرے کافر نْو تے پَھڑ چا ول تینڈی بھرجائی انپڑیں پنڈ گئی اے‘‘ (میرے پاس آکے میرے کافر کو پکڑو ،تمھاری بھابھی اپنے گاؤں گئی ہوئی ہے)
رشید نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے حکم کی تعمیل کی اور اْس کے ساتھ وڈے صاحب نے وڈے صاحبوں والا کام کردیا۔رشید پْلسیاء (پولیس والا) واپس کوٹھڑی میں چھوڑ آیا۔ وہ اسی طرح لایا اور لے جاتا رہا اور ساری رات وڈے صاحب اْ س کا ریمانڈ لیتے رہے۔ رشید درد اور تکلیف کی وجہ سے چل نہیں سکتا تھا۔ بیچارہ نڈھال ہوکر بیہوش ہوگیا۔ صبح جب پْلسیئے(پولیس والے) نے ٹھوکر مار کر جگایا تو اْس نے پھر اپنی شلوار نیچے کردی، تو پْلسیاء (پولیس والا)کہنے لگا، ’’اْؤئے تینو تے چسکا ای پے گیا اے‘‘ (تمہیں تو چسکا ہی پڑ گیا ہے)
صبح وڈے صاحب کے وڈے صاحب نے تھانے میں دربار لگایا۔ اس کے سامنے رشید کے ماں باپ دونوں بیٹھے تھے۔ دونوں ساری رات سو نہ سکے اور رشید کی ماں نے اپنے چاندے کے کنگن نکالے اور وڈے صاحب کے سامنے رکھ دیئے، ’’موتیاں والیؤ میرے کول اے کْج ہی جے‘‘ (میرے پاس بس یہی کچھ ہے )
’’مائی تینو حیاء نئی آؤندی پولیس نو رشوت دینندی اے۔تینو پتا نئی اے وی جرم اے‘‘ (مائی تمہیں شرم نئی آتی،پولیس والوں کو رشوت دیتی ہو۔تمہیں پتا ہے یہ بھی جرم ہے)
وڈے صاحب نے حیات محمد کو بلایا،’’آوئے حیات محمدا اس مائی کولوں کنگن پھڑتے ادے پتر نو چھڈ دے‘‘ (اوئے حیات محمد اس مائی سے کنگن لے لو اور اس کے بیٹے کو چھوڑ دو)
رشید(عرف شِیدے ) کی آنکھیں لال سْرخ،چہرے کا رنگ زرد اور چل ایسے رہا تھا جیسے ابھی گر جائے گا۔
وڈے صاحب نے رشید کو ڈانٹتے ہوئے کہا، ’’اؤئے آ ئیندہ تو کسی بچے نال گندا کم کیتا تے کدی تیری ضمانت نئی ہووے گی‘‘ (اگر تم نے آئندہ کسی بچے کے ساتھ کوئی گندا کام کیا تو تمھاری ضمانت نہیں ہوگی)
’’شرم نئی آؤندی اِنا نوں۔ ادی عمر ویکھو۔ادے ماں پیؤ نو ویکھو تے بچے دے کرتوت ویکھو ‘‘ (شرم نہیں آتی ان کو۔اس کی عمر دیکھو، اس کے ماں باپ کو دیکھو اور اس کے کام دیکھو)
’’اْوئے حیات محمدا اِنوں کتھو پھڑکے لیائے سو‘‘ ( اوئے حیات محمد ،اسے کہاں سے پکڑ کے لائے تھے)
حیات محمد نے جواب دیا، ’’صاحب جی مسیت دے غسل خانے وچو‘‘ (صاحب جی مسجد کے غسل خانے سے )
’’شرم نئی آوندی انانوں خانہ ءِ خدا وی نئی چھڈدے‘‘ (شرم نہیں آتی ان کو۔خدا کا گھر بھی نہیں چھوڑتے)
’’چل اْوئے حرام خورا، دفعہ ہوجا اِتھوں‘‘ ’چلو حرام خور، دفعہ ہوجاؤ یہاں سے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرفراز بیگ ۱۹۹۷؍۰۷؍۲۴ لنڈن
SARFRAZ BAIG, LONDON, 24/07/1997

No comments:

Post a Comment