Sunday, June 16, 2013

سوہو، ساٗییں انٹر نیٹ، ناول، سرفراز بیگ، SOHO








SOHO (سوہو)

برطانیہ چار حصوں پر منقسم ہے۔ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویل ز اور ناردرن آئرلینڈ۔ اس کے علاوہ اس کے چار عدد چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ہیں۔ تین فرانس کے بالکل نزدیک واقع ہیں اور ایک انگلینڈ اور آئرلینڈکے درمیان واقع ہے۔انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، ویل ز، ناردرن آئرلیند، ALDERNEY (آلڈرنی) GUERNSEY (گینزی) JERSEY (جرسی) اور ISLE OF MAN (آئیل آف مین) مل کر THE UNITED KINGDOM OF GREAT BRITIAN (دی یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ برٹن ) کہلاتے ہیں۔
برطانیہ میں بولی جانے والی زبانیں آریائی زبانیں تصور کی جاتیں ہیں۔جنھیں یورپیئن(european) اور انڈو یورپیئن(indoeuropean) زبانیں تصور کیا جاتا ہے۔ان انڈو یورپیئن (indoeuropean) زبانوں میں کیلٹک(celtic) کو خاص اہمیت حاصل ہے۔CELTIC (کیلٹک) آگے چل کر دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔GIODELIC (جیودے لک) اور BRYTHONIC (بریتھونک)۔GIODELIC (جیودے لک) آگے چل کے مزید تین زبانوں میں منقسم ہوئی۔ IRISH GAELIC (آئیرش گے لک)، MANX (مانکس) اور SCOTTISH GAELIC (سکوٹش گے لک)۔BRYTHONIC (بریتھونک) دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔OLD CORNISH, MODERN WELSH (اولڈ کورنش، موڈرن ویلش)۔ اس کے علاوہ انگریزی زبان پے NORTH GERMANIC (نورتھ جرمینک) اور WEST GERMANIC (ویسٹ جرمینک) زبانوں کا بھی اثر ہوا۔جدید انگریزی زبان چار مختلف GERMANIC DIALECTS (جرمینک ڈائے لیکٹز ) کا نچوڑ ہے۔ چار قبیلے SAXONS,JUTES, DANES,ANGLES (سیکسن،جوٹز،ڈینز، اینگلز) یہ چاروں قبیلے پانچویں صدی عیسویں میں برطانیہ آئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔
برطانوی راجدھا نی کا دارالحکومت لندن ، انگلستان میں واقع ہے ۔ اس کی آبادی ایک عام اندازے کے مطابق ایک کروڑ اسی لاکھ ہے۔یعنی اٹھارہ ملین۔حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ۵۵ سال پہلے مشہور رومی بادشاہ JULIUS CEASER (جولیس سیزر) نے لندن پر حملہ کیا۔رومیوں نے لندن کو LONDONIUM (لوندونیئم) کا نام دیا۔۴۳ عیسویں میں انھوں نے دریائے تھیمزپے پہلا پل تعمیر کیا۔ ۶۱ عیسویں میں ملکہ BONDICCA (بوندکا) نے ICENIAN (ای سینی ئن)قبیلوں کی مدد سے رومیوں کو مار بھگایا۔ ۲۰۰ عیسویں میں لندن کے ارد گرد دیوار تعمیر کی گئی۔ یہ دیوار چھ عدد دروازوں پر مشتمل تھی۔ ALD GATE, ALDERS GATE, LUD GATE, CRIPPLE GATE BISHOPS GATE, NEW GATE (آل گیٹ، آلڈر ز گیٹ،لْڈ گیٹ، کرپل گیٹ، بشپز گیٹ،نیو گیٹ) اس بات کا پتا نہیں چلا کہ SAXONS (سیکسنز) نے لندن پے کب قبضہ کیا۔
لندن شہر کو اہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب POP GREGORY I THE GREAT (پوپ گریگری اول دی گریٹ) نے ۵۹۷ وعیسویں میں روم سے SAINT AUGUSTINE (سینٹ آگسٹائن) کو بھیجا۔ AETHELBERHT THE KING OF KENT (ایتھل بھرٹ ، دی کنگ آف کینٹ) نے ۶۰۴عیسویں میں MELLITUS (مے لی ٹس) کو SAINT PAUL CATHEDRAL (اینٹ پال کتھیڈرل کا بشپ بنا کر بھیجا۔ اس دوران لوگ خشکی اور پانی کے راستے سے لندن میں داخل ہوتے رہے۔اس کے بعد یہ شہر سو سال تک ANGLO--SAXON (اینگلو ۔۔۔سیکسن) کی سرگزشتوں سے پاک رہا۔ALFRED THE GREAT (الفریڈ، دی گریٹ) کی موت ۸۹۹ عیسویں میں واقع ہوئی۔اور اس دوران ان کی DANES (ڈین ز ) کے ساتھ جھڑپیں بھی رہیں۔ لندن کو سیاسی ، معاشی اور دفاعی اہمیت اس وقت حاصل ہوئی جب NORMANS (نورمن ز) نے اسے فتح کیا۔WILLIAM I THE CONQUERER (ویلیئم اول ، دی کنقرر، یعنی فاتح ) نے عام معافی کا اعلان کیا۔ WILLIAM I (ویلیئم اول ) کے دور حکومت میں TOWER OF LONDON (ٹور آف لنڈن) کی بنیاد رکھی گئی۔RICHARD I (رچرڈ اول ) نے صلیبی جنگوں سے واپس کے بعد ان تعمیرات میں مزید اضافہ کیا۔HENRY I (ہنری اول) ۱۱۳۵ عیسویں میں دارِفانی سے کوچ کرگیا۔لندن کے شہریوں نے WESTMINSTER ABBEY (ویسٹ منسٹر ایبی) میںSTEPHEN (سٹیفن) کی تاج پوشی کی۔
۱۱۳۶ میں لندن میں آگ لگنے کی وجہ سے بہت سے گھر جل گئے۔ اس کی وجہ مکانوں میں لکڑی کا زیادہ استعمال تھا۔زیادہ ترمکان لکڑی کے بنائے جاتے۔اس کی لپیٹ میں SAINT PAUL CATHEDRAL (سینٹ پال کتھیڈرل ) بھی آگیا۔بارہویں صدی عیسویں کے آواخر تک لندنDANISH, GERMAN, GASCONS, FLEMISH, NORTHERN ITALIAN, JEWS (ڈینش، جرمن، گیسکن، فلیمش، نورتھرن اٹالین اور یہودیوں) کی آماجگاہ بنا رہا۔ صرف یہودیوں پر مظالم ڈھائے گئے۔ان پر تمام قسم کی پابندیاں لگائی گئیں۔آخر کار ۱۲۱۰ عیسویں میں انھیں لندن سے نکال دیا گیا اور کئی سال تک دوبارہ لندن میں داخل ہونے پر پابندی لگادی گئی۔
لندن کے پہلے میئر کا نام HENRY FITZAILWIN (ہنری فٹزیل ون ) تھا۔جو ۱۱۹۲ عیسویں میں مقرر ہوا۔ ابھی لندن کے لوگ صحیح طرح سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ طاعون نے پورے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چودھویں صدی عیسویں میں پورے یورپ میں طاعون کی وبا ء پھیلی ، قریباً ایک تہائی آبادی اس وباء کا شکار ہوگئی۔ ۱۳۴۵ عیسویں میں اس وباء کے بعد لندن نے دوبارہ سنبھلنا شروع کیا۔ GEOFFERY CHAUCER (جوفر ی چوسر یا جوفری شوسر) ،انگلستان کا پہلا شاعر اس وباء کے پھیلنے سے چند سال پہلے پیدا ہوا۔۱۳۸۱ میں لندن کے کسانوں نے بغاوت کردی۔CAXTON (کیکسٹن) نے پہلا چھاپا خانہ قائم کیا۔ اتنے مصائب سے گزرنے کے بعد لندن کی آبادی پھر سے بڑھنا شروع ہوئی۔۱۵۳۰ سے ۱۶۰۰ تک لندن کی آبادی تین گنا بڑھ چکی تھی۔ اس دوران لندن میں کئی فلاہی تنظیمیں قائم کی گئیں۔۱۶۰۵ میں لندن کی آبادی میں غیرمعمولی طور پے اضافہ ہوا۔۷۵۰۰۰ افراد شہر کے اندر اور ۰۰۰،۱۵۰ افراد شہر پناہ سے باہر اور اس کے مضافاتی علاقوں میں آباد تھے۔ اس وقت لندن کی مکمل آبادی ۲۵۰۰۰، ۲ تھی۔
ELIZABETH I (الزبیتھ اول) نے ۱۵۵۸ سے لے کر ۱۶۰۳ تک حکومت کی ۔ اس دوران لندن شان و شوکت کے بلند ترین مقام پر پہنچ گیا۔ خدا کو نہ جانے ان کی کون سی ادا ناپسند تھی۔ تھوڑا عرصہ خوشحالی دکھا کر کوئی نا کوئی مصیبت نازل کردیتا۔۱۶۶۴ تا ۱۶۶۵ لندن کا بدترین دور گزرا۔اس سال طاعون کی وباء ایک دفعہ پھر پھیل گئی۔جس میں ۷۵۰۰۰ ہزار افراد خالقِ حقیقی سے جا
ملے۔ طاعون کی بیماری کے دوران ہی ۲ ستمبر کی رات کو شاہی بیکری میں اچانک آگ بھڑک اٹھی ۔ جس نے پورے لندن کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس آگ کو THE GREAT FIRE OF LONDON (دی گریٹ فائر آف لنڈن، یعنی لندن کی تباہ کن آگ)کیونکہ لندن کا بہت سا علاقہ جل کر راکھ ہوگیا۔ اس کی وجہ بھی گھروں کی تعمیر میں کثرت سے لکڑی کا استعمال تھی۔ ہر گلی میں بیس سے تیس کے قریب گھر ہوتے اور ایک دوسرے سے ملحق، اس لیئے آگ زنجیر کی کڑیوں کی طرح جڑی ہوئی تھی۔
جومقام GIORGIO VASARI (جورجیو وضاری) کو اٹلی کے شہر AREZZO (اریزو) میں حاصل ہے۔اس سے کہیں زیادہ مقام SIR CHRISTOPHER WREN (سر کرسٹوفر رین) کو انگلستان میں حاصل ہے۔ SIR CHRISTOPHER WREN (سر کرسٹوفر رین ) بیشمار خصائل کے مالک تھے۔ آپ ریاضی دان، ماہرِ فلکیات، ماہرِ فزکس، اور انجنیئر تھے۔ لندن کے شہری کہتے ہیں سارا لندن شہر WREN (رین) کی یادگار ہے۔ آپ نے PUDDING LANE (یہاں ، بادشاہ کے بیکری کی چیزیں بنانے والے کا گھر تھا ۔جہاں سے آگ بھڑکی تھی) SAINT PAUL CHURCH, ROYAL HOSPITAL, KENSINGTON PALACE, GREENWICH HOSPITAL, HAMPTON COURT PALACE (پڈنگ لین، سینٹ پال چرچ، روئل ہسپتال، گرینچ ہسپتال، کین سنگٹن پیلس، ہیمٹن کوٹ پہلس) کی تعمیر دوبارہ کروائی۔
فرانس کے ساتھ جنگ کے دوران لندن شہر کے چالیس سوداگران نے مل کر بینک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس طرح ۱۶۴ عیسویں میں لندن کے پہلے بینک کا قیام وقوع پذیر ہوا۔پچاس پاؤنڈ کے نوٹ پر اسی بینک کے چوکیدار کی تصویر چَھپی ہوئی ہے۔THE TIMES (دی ٹائمز ) لندن کا
پہلا اخبار ۱۷۸۵ میں چھپنا شروع ہوا۔ ۱۸۲۰ میں GEORGE IV (جورج چہارم) تخت نشین ہوا۔اس نے نئی بنیادوں پر شہر کو ترقی دینی شروع کی۔ خدا ایک دفعہ پھر اس شہر پے مہربان ہوگیا۔اس شہر کی آبادی بڑھتے بڑھتے ۰۰۰،۱۱۰،۱ (گیارہ لاکھ دس ہزار) تک جاپہنچی۔۱۸۲۹ میں لندن میں METROPOLITIAN POLICE (میٹروپولیٹن پولیس) کا محکمہ قائم کیاگیا۔ گلیوں میں لگی ہوئی ،تیل سے جلنے والی قندیلیں، گیس سے جلنے لگیں۔اس سال OMNIBUSES (اومنی بس سز) کا بھی آغاز ہوا۔ تاج برطانیہ اپنی باج گزار ریاستوں سے لوٹی ہوئی رقم یا کمائی ہوئی رقم سے اپنے ملک کو بھرپور ترقی دینے لگا۔ ان کی کالونیوں میں EAST INDIA, WEST INDIES,CERTAIN AMERICAN STATES, CANADA, AUSTRALIA, NEW ZEALAND (ایسٹ انڈیا، ویسٹ انڈیز، چند امریکی ریاستیں، کینیڈا، آسٹریلیاء، نیوزی لینڈ اور بے شمار چھوٹے چھوٹے جزیرے۔جن میں چند ایک اب بھی برطانیہ کے زیرِ اثر ہیں)۔
لندن دنیا کاپہلا شہر ہے جہاں زیرِ زمین ٹرین چلانے کا آغاز کیا گیا(کچھ لوگوں کا خیال ہے اس کا آغازپہلے پیرس میں کیا گیا)۱۸۶۳ میں METROPOLITIAN LINE (میٹروپولیٹن لائن) سے لندن میں زیرِ زمین یعنی UNDERGROUND TRAIN کا آغاز کیا گیا۔ لندن سکول بورڈ کا قیام ۱۸۷۰ میں ہوا۔ ۴ نومبر ۱۸۹۰ کو PRINCE OF WALES (پرنس آف ویلز) نے دنیا کی پہلی بجلی سے چلنے والی ٹرین کا آغازکا افتتاح کیا۔۱۹۱۴ سے لے کر ۱۹۱۸ تک پہلی جنگِ عظیم کے دوران لندن کے ۲۶۳۲ لوگوں نے اپنے ملک کے لیئے جانیں قربان کیں۔۱۹۳۶ سے لے کر ۱۹۴۵ تک دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوائی حملوں سے تقریباً ۰۰۰،۳۰ لوگ مارے گئے اور ۰۰۰،۵۰ ہزار زخمی ہوئے۔بے شمار سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچا۔ جن میں WESTMINSTER ABBEY,HOUSE OF PARLIAMENT (ویسٹ منسٹر ایبی، ہاؤس آف پارلیمنٹ) اہم ہیں۔
۱۹۴۰ میں WINSTON CHURCHILL (ونسٹن چرچل ) برطانیہ کا پرائم منسٹر بنا۔ ۱۹۴۸ میں لندن اولمپکس منعقد ہوئیں۔ ۱۹۵۲ میں GEORGE VI (جورج ششم) کی وفات کے بعد ELIZABETH II (الزبیتھ دوئم)) تخت نشین ہوئیں۔ ۱۹۷۱ میں لندن برج کی تعمیر کی گئی۔ ۱۹۷۱ سے لے کر اب تک جو قابلِ ذکر چیز تعمیر کی گئی۔ان میں فرانس اور برطانیہ کی باہمی اشتراک سے تعمیر کی گئی CHANNEL TUNNEL (چینل ٹنل یا یورو ٹنل) ہے ۔ اس کا افتتاح ۱۹۹۴ میں کیا گیا۔
ان سارے حوادث سے گزرنے کے بعد لندن ایک کوسموپولیٹن شہر بن گیا۔ یہاں ہر علاقے ، ملک و قوم کے لوگ آکر آباد ہوگئے۔ ALDGATE EAST (آلگیٹ ایسٹ) بنگالیوں کا علاقہ گنا جانے لگا۔SOUTH HALL, EALING (ساؤتھ ہال، ایلنگ) کے علاقوں میں سکھوں کی آبادی زیادہ ہونے لگی۔BARKING ,ILFORD, ROMFORD (بارکنگ، الفرڈ، رامفرڈ) کے علاقوں میں پاکستانیوں کی آبادی بڑھنے لگی۔لیکن ایشیائی لوگوں کی آبادی لندن کے ہر علاقے میں پائی جاتی ہے۔خاص کر دو علاقے بہت مشہور ہیں۔ SOUTH HALL, GREEN STREET (ساؤتھ ہال، گرین سٹریٹ) اس کے علاو NOTTINGHILL GATE ,BRIXTON (نوٹنگ ہل گیٹ، برکسٹن) میں ویسٹ انڈیز کے لوگ آباد ہیں۔
لندن کے وسط میں فرانسیسی ، یونانی اور یہودی آباد ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ساؤتھ افریقہ کے لوگ بھی آنے لگے ہیں۔لندن کی شہرت کا یہ حال ہے کہ یورپئین یونین کے ممبران ممالک سے بھی لوگ کام کی غرض سے لندن آتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۵۴۰ میں ہندوستان کی بندرگاہوں پے پرتگالی قابض تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی ولندیزیوں (ہالینڈ کے لوگ) اور فرانسیسیوں نے بھی ہندوستان کا رخ کیا۔اس دوران انگریزوں نے مصالحہ جات کی تجارت کی غرض سے ہندوستان کا رخ کیا۔ (دیا سلائی لینے آئے اور گھر کے مالک بن بیٹھے، پاؤں دھرنے کی جگہ دی اور ہمیں ہی نکال باہر کیا)
انگریز شروع ہی سے DIVIDE AND RULE (تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو) کے کلیئے پے عمل کرتے آئے تھے۔ انھوں نے انڈیا میں بھی یہی کلیۂ استعمال کیا اور کامیاب رہے۔ مغل بادشاہوں نے دوسرے ممالک کے تاجروں کے مقابلے میں انگریزوں کو کافی مراعات دیں۔ مغل اس بات سے ناواقف تھے کہ یہی انگریز ایک دن ان مغلوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کردیں گے۔انگریزوں نے نہ صرف مغل بادشاہوں سے مراعات حاصل کیں بلکہ انھوں نے دیگر تاجران پر محصول اور لگان میں اضافی بھی کروادیا۔ جس کی وجہ سے تجارت میں انگریزوں کی اجارہ داری ہوگئی۔انگریزوں نے ۱۶۱۴ میں EAST INDIA COMPANY (ایسٹ انڈیا کمپنی) کی بنیاد لندن کے علاقے ALDGATE WAST (آل گیٹ ایسٹ) میں رکھی اور اس کی تجارت کاآغاز انھوں نے بمبئی سے شروع کیا۔ایسٹ انڈیا کمپنی اس لیئے نام رکھا کیونکہ ویسٹ اینڈیز کمپنی کی بنیاد وہ پہلے ہی سے رکھ چکے تھے۔
شروع میں ایسٹ انڈیا کمپنی مصالحہ جات اور دیگر اشیاء کی تجار ت کرتی تھی۔ آہستہ آہستہ انھوں نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے۔ مختلف حیلوں ، بہانوں سے اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کردیں۔ ہندوستان کم و بیش ہزار سال مسلمانوں کے زیرِ تسلط رہا۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کے چنگل سے آزادی حاصل کرنے کے لیئے انگریزوں کا ساتھ دیا۔
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر نے ۱۷۰۷ میں وفات پائی اور اس کے جانشینوں نے تھوڑی ہی عرصے بعد بنگال کھودیا۔
سراج الدولہ ، بنگال کا نواب تھا۔ اسے ۱۷۵۷ کی جنگِ پلاسی میں لورڈ کلائیو(LORD CLIVE) کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ اس جنگ میں پسِ پردہ ہندؤ تاجر تھے۔ جن کی نمائندگی اومی چند کررہا تھا۔ لیکن سامنے سراج الدولہ کے بھتیجے میر جعفر کو رکھا گیا۔لورڈ کلائیو نے نہ صرف سراج الدولہ کو شکست دی بلکہ فرانس کے قائم کردہ گورنر DUPLEIX (دوپلے) کو بھی شکست ی ۔یہ ہندوستان میں انگریزوں کی پہلی بڑی فتح تھی۔ تاج برطانیہ کی حکومت ہندوستان میں پھیلتی چلی گئی۔ اس میں ہندوؤں نے انگریز کا بھرپور ساتھ دیا۔ ۔ لیکن وہ اتنا نہیں جانتے تھے کہ وہ ایک غلامی سے نجات حاصل کرکے دوسری غلامی میں چلے جائیں گے۔ آزادی انھیں پھر بھی نہ نصیب ہوگی ۔حالانکہ خود ہندو ، ہندوستان کے رہنے والے نہ تھے۔ ۔آریاؤں کی نسل تھے۔ ہندوستان کے اصل مالک تو دراوڑ تھے۔ تامل، تیلگو، ملیالم، بنگالی اور کناڈا ہندوستان کے اصل مالک تو یہ لوگ تھے ااور ہیں۔
۱۸۴۵ میں برطانوی حکومت بنگال سے لے کر سندھ تک پھیل گئی۔ پنجاب میں سکھوں کا راج تھا۔ سکھوں کو ۱۸۴۸ میں انگریزوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ایرانیوں کے تختِ طاؤس سے چرایا ہوا کوہِ نور ہیرا مہاراجہ رنجیت سنگھ کے تاج کی زینت بنا۔ سکھوں کی شکست کے بعد دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا کوہِ نور WESTMINSTER (ویسٹ منسٹر) کے شاہی تاج کی زینت بنا۔۱۸۵۷ کی جنگِ آزادی کے بعد جسے انگریز غدر یعنی WAR OF MUTINY(وار آف میوٹنی) کا نام دیتے ہیں۔ انگریزوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کرلیا۔ لیکن ا س کی بنیاد لورڈ کلائیو نے رکھی۔ لورڈ کلائیو نے کبھی تصور بھی نہیں کیا ہوگا کہ جنگِ پلاسی کی فتح ،انگریزوں کو پورے ہندوستان میں قدم جمانے میں مدد دے گی۔ آج لندن کے علاقے BERKLEY SQUARE (برکلے سکوائر) میں اس کے مکان کے باہر نیلے رنگ کی تختی لگی ہوئی ہے۔ جس پے لکھا ہے لورڈ کلائیو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
SOHO (سوہو)کو لندن میں وہی اہمیت حاصل ہے جو پیرس میں PIGALLE (پیگال) HAMBURG (ہیمبرگ) میںRIPABAHN,SAINTPOLI (رپابان، سینٹ پولی) اور AMSTERDAM (ایمسٹرڈیم ) میں RED LIGHT AREA (ریڈ لائٹ ایریا) کو حاصل ہے۔
SOHO (سوہو) سولھویں صدی سے پہلے جھونپڑیوں کے جْھنڈ سے بھرا پڑا تھا۔سولھویں صدی میں فرانس کے مذھبی متاثرین نے سوہو کے علاقے میں آکر پناہ لی۔اس کے بعد ۱۶۷۷ میںیونانی آکر آباد ہوئے اور آخری مہاجرین اطالوی تھے۔ سوہو کی اہم سڑک OLD COMPTON ROAD (اولڈ کومٹن) ہے۔ جو WARDOUR STREET, MOOR STREET, DEANS STREET, FRITH STREET, GREEK STREET اور COMPTON ROAD (وارڈر سٹریٹ، مور سٹریٹ، ڈینز سٹریٹ، فرتھ سٹریٹ، گریک سٹریٹ اور کومٹن روڈ) کو کاٹتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔OLD COMPTON ROAD (اولڈ کومٹن روڈ )آگے چل کر CHARRING CROSS ROAD (چیرنگ کروس روڈ) سے جاملتا ہے ۔
سوہو کے چاروں طرف لندن کے مصروف ترین بازار ہیں۔OXFORD STREET, REGENT STREET,SHAFTESBURY AVENUE, CHARRING CROSS ROAD (آکسفورڈ سٹریٹ، ریجنٹ سٹریٹ، شیفٹ بری ایونیو، چیرنگ کروس روڈ)۔ چیرنگ کروس روڈ کتابوں کی دوکانوں کی وجہ سے بہت مشہور ہے ۔یہاں کی چند مشہور کتابوں کی دوکانیں DILLONS, BLACKWELL, WATERSTONE (ڈلنز، بلیک ویل، واٹرسٹون) اور سب سے نمایاں ،یورپ کی سب سے بڑی کتابوں کی دوکان FOYLES (فوئیلز) واقع ہے۔اس کے علاوہ اس روڈ پے پرانی کتابوں کی دوکانیں بھی ہیں۔لندن میں پیرس کی طرح BOUQUINIST (بوکینسٹ) نہیں۔پیرس میں دریائے سین کے کنارے بیشمار بوکینسٹ ہیں۔ OXFORD STREET (آکسفورڈ سٹریٹ ) پے دو مشہور سٹور ہیں۔SELFRIDGES (سیلف ری جز) اور JOHN LEWIS PARTNERSHIP (جون لوئس پارٹنرشپ)۔اس کے علاوہ DEBENHEM, MAD HOUSE SUPER STORE,C AND A (ڈیبینم، میڈ ہاؤس سپر سٹور، سی اینڈ اے ) اور انگلستان کا مشہور سٹور MARKS AND SPENCER (مارکس اینڈ سپینسر کی ایک برانچ یہاں بھی واقع ہے۔ جہاں آکسفورڈ سٹریٹ ،ریجنٹ سٹریٹ سے ملتی ہے، بالکل کونے میں TOP MAN (ٹوپ مین) کی دوکان ہے۔ریجنٹ سٹریٹ میں تمام مہنگے مہنگے ڈیزائنرز کپڑوں کی دوکانیں ہیں۔
شیفٹ بری ایونیو میں لندن کے مشہور تھیٹر اور ناچ گھر ہیں۔ اس علاقے کا مشہور تھیٹر PALACE THEATRE (پیلس تھیٹر) ہے۔جہاں کافی عرصے سے LES MISERABLES (لے مز رے بل ز) دکھایا جارہا ہے۔ اور مزید آگے آئیں تو چیرنگ کروس روڈ سے ملحق ویسٹ سٹریٹ ہے۔ جہاں AGATHA CHRISTIE (آگاتھا کرسٹی) کا ڈرامہ THE MOUSE TRAP (دی ماوس ٹریپ) گزشتہ ۴۵ سال دکھایا جارہا ہے۔ ڈین سٹریٹ میں دنیا کا مشہور فلاسفر اور معیشت دان KARL MARX (کارل مارکس) مقیم رہا۔کارل مارکس نے اپنی مشہور کتاب DAS KAPITAL (ڈاس کاپیٹال) کچھ اس گھر میں
اور زیادہ برٹش میوزم کی لائبریری کے ریڈنگ روم میں مکمل کی۔ OLD COMPTON ROAD (اولڈ کومٹن روڈ ) فرانسیسی مفکروں میں کافی مقبول رہا۔ PAUL VERLAIN (پال ویغلین) اور ARTHUR RIMBAUD (آغ تھغ غیم با) ان دونوں شعراء کے مصرف میں یہ روڈ زیادہ رہی۔ WARDOUR STREET (وارڈر سٹریٹ) فلمی دنیا کے حوالے سے زیادہ مشہور ہے۔یہاں بیشمار فلمی اداروں کے دفتر ہیں۔ سوہو ویسے تو ریڈ لائٹ ایریا ہونے کی وجہ سے مشہور ہے لیکن یہاں کی مشہور گلی BREWER STREET (بروئر سٹریٹ) ہے۔ جہاںآپ کو جابجا موڈل کا چھوٹا سا سائن بورڈ نظر آئے گا۔ یہ لال رنگ کا موڈل کا جلتا ہوا نشان اس بات کی نشاندھی کرتا ہے کہ یہاں جسم بیچنے والی عورت موجود ہے۔ اس لال رنگ کی مناسبت سے اس علاقے کو ریڈ لائٹ ایریا کہاجاتا ہے۔ خاص کر رات کے وقت یہ لال رنگ کا موڈل کا نشان دور سے جلتا دکھائی دیتا ہے۔ اس طرح کے لال نشان کئی بالکونیوں میں جلتے دکھائی دیتے ہیں۔ خاص کر BREWER STREET (بروئر سٹریٹ) میں اس طرح کے ریڈ لائٹ ایریئے، یعنی علاقے یا گلیاں پورے یورپ میں پائے جاتے ہیں سوائے اٹلی کے کیونکہ اٹلی میں اس کی ممانعت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اٹلی میں عورتیں جسم نہیں بیچتیں۔ اٹلی میں شہر سے ہٹ کے رات کے وقت سڑکوں کے کنارے پریاں دکھائی دیتی ہیں۔
SHAFTESBURY AVENUE (شیفٹ زبری ایونیو) کی پچھلی طرف GERARD STREET (جیرارڈ سٹریٹ) ہے۔ یہ علاقہ چائنہ ٹاون کہلاتا ہے۔ یہاں آ پ کو بیشمار چینی ریستوران ملیں گے اس کے علاوہ چینی اشیاءِ خورد و نوش کی دوکانیں ، ہیڈی کرافٹ کی دوکانیں بھی پائی جاتی ہیں۔ آپ جیسے ہی اس گلی میں داخل ہوتے ہیں، ایسالگتا ہے کہ آپ چین میں داخل ہوگئے ہیں۔
سوہو کے مشہور تھیٹر ، جن میں APOLLO, AMBASSADORS, GARRICK, GLOBE, LYRIC, PALACE, PHEONIX, PRINCE EDWARD, QUEENS, SHAFTESBURY, SAINT MARTIN, WYNDHAM (اپولو، ایمبیسیڈر، گیرک، گلوب، لیرک، پیلس، فینکس، پرنس ایڈورڈ، کوئینز، شیفٹزبری، سینٹ مارٹن ، وینڈھم) قابلِ ذکر ہیں۔ جبکہ ڈسکوتھیک ز میں LIME LIGHT, WAG, RONNI SCOTTS, ASTORIA, LA 2 (GAY CLUB), BORDERLINE, GOSSIPS, MADAM JOJO (لائم لائٹ، رونی سکوٹ، ویگ، ایسٹوریا، ایل اے ۲ گے کلب بارڈرلائن، گوسپز، مادام جوجو) وغیرہ۔
یہاں کے ریستورانوں اور بارز کی بھی اپنی ہی ترنگ ہے۔ BAR ITALIA, MAISON BERTAUX, POLLO, GOVINDA, BAR SOLONA, FRENCH HOUSE, ALGERIAN COFFE SHOP, LEFT HAND SHOP, (بار اطالیہ، میزوں بیغ تو، پولو، گووندا، بار سلونا، فرنچ ہاؤس، الجیرین کافی شاپ، لیفٹ ہینڈ شاپ) وغیرہ۔ اس کے علاوہ یہاں GAYS ,TRANSVESTINES, QUEENS (گے ز، ٹرانسویسٹائنزیعنی جو اپنے جنس کے مخالف کپڑے پہنے۔اگر لڑکے ہیں تو لڑکی کے کپڑے پہنے گیں اور اگر لڑکی ہیں تو لڑکوں جیسے کپڑے پہنے گیں، کوینز) کے کپڑوں اور کتابوں کی خاص خاص دوکانیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرسید احمد خان ان ہندوستانی مسلمانوں میں سے تھے جو انگلستان سیر و تفریح کے لیئے آئے۔ ۱۸۶۹ میں ان کے بیٹے کو انگلستان میں پڑھنے کے لیئے وظیفہ ملا تو آپ اپنے بیٹے کے ہمراہ انگلستان چلے آئے۔ آپ نے تقریباً ایک سال کا عرصہ لندن میں گزارا۔ اس دوران آپ کے زیرِ مطالعہ انگلستان کے کئی اخبارات رہے۔ لیکن جن مجلوں اور رسالوں نے آپ کو متاثر کیا وہ SIR RICHARD STEEL (سر رچرڈ سٹیل)اور JOSEPH ADDISON (جوزف اڈیسن) کے رسائل TATLER (ٹیٹلر) اور SPECTATOR (سپیکٹیٹر) تھے۔ آپ ان رسائل سے اتنے متاثر ہوئے کہ آپ نے انھیں رسائل کی بنیاد پر ہندوستان میں پہلا رسالہ، تہذیب الاخلاق نکالا۔اس رسالے میں علامہ شبلی نعمانی، حالی، مولانا محمد علی جوہر، ، محمد حسین آزاد نے تراجم کیئے۔ مثال کے طور پے’’انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا‘‘ ، محمد حسین آزاد نے ایک انگریزی مضمون "the man who wants to get rid of his burdens" (یعنی ایک ایسا آدمی جو اپنے تمام مسائل سے بوجھو سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے) کا اردو ترجمہ ہے۔ سرسید احمد خان کے علاوہ جس ہندوستانی ،مسلمان شخصیت کو انگلستان آنے کا اتفاق ہوا وہ تھے سید امیر علی۔
سید امیر علی نے کلکتہ میں انگریزوں کے سپونسر کردہ سکول سے ۱۸۶۷ میں بی اے کیا۔ آپ برِ صغیر پاک و ہند کے پہلے مسلمان گریجویٹ تھے۔ آپ نے ۱۸۶۸ میں تاریخ اور قانون کی ڈگری حاصل کی ۔پھر آپ سرکاری سکالرشپ پے مزید پڑھنے کے لیئے انگلستان چلے آئے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ LONDON INNER TEMPLE (لنڈن انر ٹیمپل) سے منسلک ہوگئے۔آپ ۱۹۰۸ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی لندن میں قائم کردہ شاخ کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ ۱۹۱۰ میں آپ نے لندن میں پہلی مسجد کی بنیاد ڈالی۔ آپ پہلے ہندوستانی تھے جن کو LAWLORD (لاء لورڈ ) بن کر PRIVY COUNCIL (پرائیوی کونسل) میں بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔
سید امیر علی کی کتاب THE SPIRIT OF ISLAM (دی اسپرٹ آف اسلام) کے کئی زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ آپ نے A SHORT HISTORY OF SARACENS (سراچنز کی مختصر تاریخ) اور MOHAMMADAN LAW (محمڈن لاء) جیسی معروف کتابیں بھی لکھیں۔آپ تیس اگست ۱۹۲۸ کو خالقِ حقیقی سے جاملے اور ESSEX (ایسکسز) میں مدفون ہوئے۔
ان لوگوں کی کوششوں اور انگریزی تعلیم کی طرف مائیلیت دیکھ کر مسلمانوں کے اندر انگریزی تعلیم کا رجحان بڑھنے لگا۔
مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر علامہ اقبال، چودھری رحمت علی، لیاقت علی خان اور محمد علی جناح جیسی قابلِ ذکر شخصیات نے جنم لیا۔ ان سب نے انگلستان جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور مسلمانوں کی آزادی کی کوششوں میں بھرپور ساتھ دیا۔ ان کی کوششیں رنگ لائیں۔ ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کی رات پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد ملک کے طور پے موجود تھا اور ہے۔
فرنگستان میں پڑھنے کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔ غلام محمد، سکندر مرزا، ایوب خان، یحییٰ خان، زولفقار علی بھٹو، محمد خان جونیجو، غلام مصطفی جتوئی، بینظیر بھٹو اور فاروق لغاری ان سب نے اپنی تعلیم انگلستان میں مکمل کی۔
پرانے وقتوں میں یا تو صاحبِ حیثیت لوگ انگلستان پڑھنے جایا کرتے تھے یا جن لوگوں کو انگریز سرکار سکالرشپ دیتی تھی۔ مثال کے طور پے سید امیر علی۔ لیکن آج کل انگلستان پڑھنے کی غرض سے وہی جاسکتا ہے جو صاحبِ حیثیت ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انگریز نے ہمیں ۱۹۴۷ میں آزاد کردیا۔ لیکن ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنما اور فوجی جرنیل جب انگلستان سے پڑھ کے آتے ہیں انھیں کے کلیؤں پرعمل کرکے یہ پانچ فیصد یا اس سے بھی کم لوگ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے پچانوے فیصد لوگوں کی قسمت کا فیصلہ سنادیتے ہیں۔اگر غور کیا جائے تو ہم ایک غلامی سے نکل کر دوسرے غلامی کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ بڑے بڑے مذھبی رہنماں جو فرنگیوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے ہاں کی عیاشی کی کثرت سے مخالفت کرتے ہے۔ان سب کے بچے ،بچیاں انھیں فرنگیوں کے ملکوں میں اعلیٰ تعلیم پاتے ہیں۔ان کے بچوں کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ ILLEGAL IMMIGRANT (الیگل امیگرنٹ) کیا ہوتا ہے۔ یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ایک دفعہ کسی نے سینٹ کے چیرمین وسیم سجاد کے بیٹے علی سجاد سے پوچھا ، تمھارا مستقبل کے بارے میں کیا خیال ہے تو اس نے پارلیمنٹ ہاؤس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، میرا مستقبل یہ ہے۔اگر مستقبل میں علی سجاد ، کبھی پاکستان کا وزیرِ اعظم یا سینٹ کا چیئرمین بنا تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم اور یار خان کی دوستی بڑھنے لگی۔دونوں ایک دوسرے کے ہمراز بن گئے۔ آدم کا تو صاف مسئلہ تھا کہ وہ الیگل امیگرنٹ تھا۔ لیکن یار خان کی کہانی ذرا مختلف تھی۔
یار خان کے والدین بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح یہی چاہتے تھے کہ اس کی شادی پاکستان میں کسی پاکستانی لڑکی سے کی جائے۔ اس طرح یار خان کا سلسلہ پاکستان اور اس کی تہذہب سے نہیں ٹوٹے گا۔ یار خان پڑھا لکھا تھا، خوبصورت اور سلجھا ہوا انسان تھا۔ انگریزی کے علاوہ وہ اردو بھی لکھنا ،پڑھنا اور بولنا جانتا تھا۔ رنگین مزاج تھا۔لیکن اپنی تمام سرگرمیاں صیغہ ءِ راز رکھتا ۔ اچانک یارخان کی ملاقات ایک ہسپانوی دوشیزہ سے ہوگئی۔ کیوپڈ کے تیر نے دونوں کو گھائل کیا۔کیوپڈ اندھا ہوتا ہے اس لیئے وہ نہیں جانتا تھا کہ دونوں کا مذھب ، ملک ،قوم علیحدہ علیحدہ ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے عشق میں اتنے محو ہوگئے کہ انھیں دنیا کی ہوش نہ رہی۔ آدم کئی دفعہ دلائل کے ساتھ یار خان کو قائل کر لیتا لیکن یار خان کو اس ہسپانوی لڑکی کو پانے کا جنون سوار تھا۔ دونوں آزاد تھے، آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ جا، آ سکتے تھے۔ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہ تھی۔ فرنگیوں کے قانون کے مطابق نہ تو یار خان کو اس
کے والدین روک سکتے تھے، نہ ہی MARIA ANDRIA DE BUONCA (ماریا اندریا دی بونکا) کو۔ کئی دفعہ وہ لندن اس غرض سے آئی کہ یارخان اس کے ساتھ کورٹ میرج کرلے۔لیکن ہر دفعہ کوئی نہ کوئی مصیبت آڑے آجاتی۔ کئی دفعہ یار خان سپین کے شہر SEGOVIA (سگوویا) جاتا کہ کوئی صورت بن پائے۔ لیکن کوئی صورت نہ بن پاتی۔ یار خان جب بھی SEGOVIA (سگوویا) جاتا تو ماریا کی ماں خاص طور پے یار خان کے لیئے MADRID (میڈرڈ) سے حلال گوشت لاتی ۔صرف اور صرف اس لیئے کہ یار خان اس کی بیٹی کا پیار تھا۔ حالانکہ MADRID (میڈرڈ ) SEGOVIA (سگوویا) سے ۱۰۰ سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ لیکن اپنی بیٹی کی خوشی کے سامنے یہ فاصلہ بہت کم تھا۔ دونوں جنون کی حد تک ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے۔ ماریا اْن یورپیئن لڑکیوں کی طرح نہیں تھی جو کئی لڑکوں سے دوستی کرنے بعد جب عمر ڈھلنے لگتی ہے تو شادی کرلیتی ہیں۔ وہ تو شروع سے ہی سچے اور باوفاء ساتھی کی تلاش میں تھی۔ جب ماریا کو یہ بیل منڈھے چڑھتی نہ دکھائی دی تو اس نے اپنے طور پے یار خان سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کرلیا۔ یارخان نے بڑی کوشش کی یہ عشق قائم رہے لیکن یار خان کی تہذیب اور مذھب آڑے آیا۔ یار خان جدید دنیا کا رومیوؤ تھا۔ وہ ہر اْس درخت ، بینچ اور ٹیلفون بوتھ کے پاس جاتا، جہاں انھوں نے پیار و محبت کی قسمیں کھائی تھیں۔آخری دفعہ یار خان پھر اپنی محبوبہ کو منانے کے لیئے SEGOVIA (سگوویا،سپین کا ایک شہر)گیا۔ ہر اس TAPAS BAR (ٹپاز بار) پے گیا ۔ جہاں وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ آیا کرتی تھی۔ وہ SEGOVIA (سگوویا ) شہر میں مریاء کے ہوتے بھی اس سے نہ مل سکتا۔ کاش کیوپڈ کی آنکھیں ہوتیں ۔ وہ دیکھ سکتا کہ یار خان مسلمان ہے اور غلطی سے برطانوی شہر ی ہے۔ اپنی مرضی سے برطانیہ میں نہیں پیدا ہوا۔ اور مریاء ہسپانوی عیسائی ہے۔ اپنی مرضی سے سپین کے شہر SEGOVIA (سگوویا) میں نہیں پیدا ہوئی۔ نہ ہی اپنی مرضی سے عیسائی خاندان میں پیدا ہوئی ہے۔
بلا آخر دل پے پتھر رکھ کر یار خان لندن واپس آگیا۔ اب اس کا لندن میں بالکل دل نہ لگتا۔ اس نے سوچا اپنے والدین کے پاس چلا جائے۔اور اس نے ایسا ہی کیا۔ وہ بریڈفورد چلا گیا۔ لیکن لندن جب بھی آتا ، آدم سے ضرور ملتا۔یار خان کے برعکس ،آدم خان چغتائی کی عشقیہ کہانی کا کوئی وجود نہیں تھا۔محض تصوراتی تھی۔ اْ س کی محبوبہ نادیہ بہرام کھرل امیر خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ دونوں میں عمر کا بھی خاصا فرق تھا۔ اورتھے بھی سات سمندر پار۔ اس چار سال کے عرصے میں آدم صرف اسے ، اس کی سالگرہ پے فون کرتا۔ وہ بھی اس کے والد کی آمد کے ساتھ رابطہ منقطع ہوجایا کرتا، کیونکہ نادیہ اپنے والد کی موجودگی میں کسی سے فون پر بات نہیں کرسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس چکن شاپ پے آدم کام کرتا تھا، وہاں اس کی ملاقات ایک اور پاکستانی سے ہوگئی۔ شروع شروع میں دونوں کھچے کھچے رہتے، لیکن آہستہ آہستہ مروت کی دیوار گر گئی اور دونوں بے تکلف دوست بن گئے۔ ابو الکلام باجوہ ،لاہور کے ایک پسماندہ علاقے کا رہنے والا تھا۔ دس جماعتیں پاس کرنے کے بعد اس نے گھر کے حالات دیکھے تو مزدوری کرنے کی غرض سے نکل کھڑا ہوا۔ باجوہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کے کوئی مربے نہیں تھے۔ نہ ہی امیر آدمی تھا۔ اپنے مالی حالات بہتر بنانے کے لیئے یورپ آیا تھا۔ باجوہ کی کہانی آدم سے ملتی جلتی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا کہ باجوہ غربت سے بھاگ کر آیا تھا اور آدم اپنی منزل کا تعین نہ کرسکا۔اس لیئے آیا تھا۔
آدم کو HOUNSLOW WEST (ہونزلو ویسٹ) سے FULHAM BROADWAY (فلہم بروڈوے) آنا بہت مشکل محسوس ہوتا۔ وہ اکثر اس بات کا ذکر باجوہ سے کرتا۔ باجوہ نے ایک دن آدم سے کہا، ’’ اس طرح کیوں نہیں کرتے، ہمارے ہاں آجاتے۔کرایہ تم وہاں بھی دیتے ہو اور یہاں بھی دو گے۔ WIMBELDON (ومبلڈن) سے فلہم بروڈوے زیادہ دور بھی نہیں۔اس طرح آدم اپنا سامان سمیٹ کر ابو الکلام باجوہ کے ہاں منتقل ہوگیا۔ سب نے آدم کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہاں کا ماحول HOUNSLOW WEST (ہونزلوویسٹ) کے صوفی ستار کے گھر سے کافی مختلف تھا۔ سب لڑکے پڑھائی کی غرض سے لندن آئے ہوئے تھے۔ کوئی اکاؤنٹینسی پڑھ رہا تھاتو کوئی F.R.C.S. (FELLOW OF ROYAL COLLEGE OF SURGEON) (ایف۔آر ۔سی ۔ایس یعنی فیلو آف روئل کالج آف سرجن)۔کچھ قانون کی تعلیم پارہے تھے۔ ۔ سب اپنی اپنی دنیا میں مگن تھے۔ آدم کو یورپ میں پہلی دفعہ عام ڈگر سے ہٹ کر ماحول ملا تھا۔سب لڑکے رات کو ٹیکسی چلاتے ۔رات گئے تک کام میں مصروف رہتے اور صبح دیر سے سو کر اٹھتے۔ شام کی کلاسوں میں اپنے اپنے کالج چلے جاتے۔ اس طرح نہ ان کے والدین پر مالی بوجھ پڑتا نہ ہی ان کی تعلیم کا نقصان ہوتا۔بلکہ چند ایک تو ایسے بھی تھے جو اپنے گھر والوں کی مالی اعانت کرتے۔ ان میں سے کوئی لڑکا بھی گاؤں کا رہنے والا نہ تھا۔ دو لڑکے پشاور کے تھے۔دو کراچی کے۔ باجوہ کا تعلق لاہور سے تھا اور آدم کا راولپنڈی سے۔آدم کو ایسا لگتا، جیسے اس کے کالج کے دن واپس آگئے ہوں۔ وہ انوار کیفے اور ڈرائیور ہوٹل کو یاد کرنے لگا۔ اسے ایسا لگتا جیسے کل ہی کی بات ہو۔ آدم کی خوب گب شپ رہنے لگی ۔ادب پے بات ہوتی، شاعر پے،پاکستان کے مختلف علاقوں پے بات ہوتی۔ اکٹھے فلم دیکھنے جاتے۔ آدم کو زندگی رنگین لگنے لگی۔ وہ خیالوں کے دریچوں سے ہوتا ہوا کہاں سے کہاں آگیا۔
ایران ،ترکی، یونان، اٹلی، فرانس اور اب انگلستان کا شہر لندن۔ ہر جگہ اس کا نئے انداز کے لوگوں سے واسطہ پڑا۔نئے انداز کے لوگ نہیں تھے بلکہ وہ خود ہی بہت بدل چکا تھا۔
لندن کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ کاغذات چیک کرنے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ کہاں تو غیرقانونی طور پے مقیم لوگ یورپ کے دیگر ممالک میں پولیس کو دیکھ کر یا تو چھپ جاتے ہیں یا جھینپ جاتے ہیں۔ اور لندن میں پولیس کو دیکھ کر ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے کچھ دیکھا ہی نہیں۔
آدم اتنا قانون جانتا تھا کہ برطانوی پولیس اسے اس وقت تک کچھ نہیں کہے گی جب تک وہ کوئی جرم نہیں کرے گا۔ دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی قانون ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسرے یورپیئن ملکوں کی پولیس کو اختیار ہے کہ وہ مشتبہ لوگوں سے کاغذات کا پوچھ سکتی ہے۔ لیکن برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔آدم ایسے کئی لوگوں کو جانتا تھا جن کو لندن میں غیرقانونی طور پے رہتے ہوئے دس دس سال ہوچکے تھے۔ لیکن ان کے ساتھ کبھی بھی کوئی ناخشگوار واقع پیش نہیں آیا تھا۔
ابوالکلام باجوہ ، عامر سہارنپوری، رضوان شیخ، ندیم کاظمی، واحد شیرازی اور آدم خان چغتائی ،ومبلڈن کے علاقے میں اس طرح رہ رہے تھے جس طرح پاکستان کے کسی محلے میں رہ رہے ہوںآدم بہت جلد سب کے ساتھ گھل مل گیا۔
آدم انھیں اپنے سفر کے واقعات سناتا تو سب بڑے حیران ہوتے، کیونکہ سوائے باجوہ کے سب سٹوڈنٹ ویزے لے کر آئے تھے۔ وہ تو یہ جان کر حیران رہ گئے کہ آدم فلسفے کا فائنل ایئر چھوڑ کر غیرقانونی طور پر سفر کرتا کرتا یہاں تک آیا ہے۔ حالانکہ اسے آسانی سیانگلینڈ کی کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا تھا۔ اور وہ باعزت طریقے سے انگلستان آسکتا تھا۔ سب سے حیران کن بات آدم کے لیئے یہ تھی کہ کسی نے آدم سے یہ نہ پوچھا ، ’’پچھو کتھے دے اؤ‘‘ یعنی پیچھے سے کہا ں کے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر سہارنپوری بڑی محنت سے اپنی گاڑی صاف کررہا تھا۔ اس نے سیٹ کور، میٹ ز ، ہینڈل ، دروازوں،جس جس چیز پے اس کی نظر پڑ رہی تھی صاف کررہا تھا۔ کسی کو نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ قصہ کچھ یوں تھا کہ اس نے جنگ لنڈن (لندن سے اردو میں شائع ہونے والا ایک اخبار) میں اپنی شادی کے سلسلے میں اشتہار دیا تھا۔ اسے کئی لوگوں نے فون کیئے ۔ کوئی قوم کی وجہ سے انکار کردیتا، کوئی قد وقامت کی وجہ سے۔ کسی کو اس کے سٹوڈنٹ ویزے پے اعتراض تھا۔ لیکن آج اسے جہاں بر دکھلاوے کے لیئے جانا تھا، انھوں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا۔ اس لیئے وہ خوش تھا کہ شاید کام بن جائے۔ اس کے باقی ساتھیوں میں سے کسی کی یہ خواہش نہیں تھیکہ برطانیہ میں مستقل رہنے کا کوئی چکر چلایا جائے۔ صرف عامر سہارنپوری کو شوق تھا۔ رضوان شیخ کراچی واپس جانا چاہتا تھا۔ ندیم کاظمی اور واحد شیرازی بھی تعلیم مکمل کرکے واپس جانا چاہتے تھے۔
ندیم کاظمی کو شرارت سوجھی، ’’ارے بھئی سنا ہے عامر میاں لڑکی دیکھنے جارہے ہیں‘‘۔باجوہ بولا، ’’یار تہانوں کی‘‘(یار آپ لوگوں کو کیا مسئلہ ہے)۔رضوان نے جواب دیا، ’’باجوہ بھائی یہ آپ کی پنجابی تو ہمارے پلے نہیں پڑتی۔ اگر سمجھ آبھی جائے تو ہم بول نہیں سکتے‘‘۔ واحد نے لقمہ دیا، ’’ارے بھئی سوچو، ٹنکو دولھا بنا کیسا لگے گا‘‘۔ عامر غصے میں سب کو گالیاں دے رہا تھا۔ آدم نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کے لیئے کہا، ’’عامر آپ کسی کو ساتھ بھی لے کرجائیں گے یا اکیلے ہی جانا ہے‘‘۔عامرنے جواب دیا، ’’ارے مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔ آپ کیوں نہیں چلتے میرے ساتھ۔ میرا حوصلہ ذرا بلند رہے گا اور ویسے بھی ایک سے بھلے دو‘‘۔ آدم نے جان چھڑاتے ہوئے کہا، ’’ارے بھئی میں وہاں جاکر کیا کروں گا۔کوئی الٹی سیدھی بات ہوگئی تو‘‘۔ عامر نے اسرار کرنے والے انداز میں کہا، ’’ارے کچھ نہیں ہوتا۔ میں ان میں سے کس کو ساتھ نہیں لے جانا چاہتا۔ یہ میرا کام بگاڑ دیں گے‘‘۔ آدم کے لیئے انکار کرنا مشکل تھا اس لیئے بولا، ’’اچھا ٹھیک ہے ،چلا جاؤنگا۔ لیکن کب چلنا ہے‘‘۔ عامر نے خوشی خوشی جواب دیا، ’’آج شام کو ، ویسے بھی آج آپ کی چھٹی ہے‘‘۔ باجوہ نے چھیڑا، ’’نہیں نہیں، آج CHELSEA (چیلسی) کا میچ ہے۔ رش ہوگا۔یہ کام پر جائے گا‘‘۔ عامر شیشہ صاف کرنے والا سپونج لے کر باجوے کے پیچھے بھاگااور ساتھ ساتھ گالیاں بھی دیتا جارہا تھا۔کاظمی نے با آواز بلند کہا، ’’تمہیں پتا ہے لڑکی والے پانی کے ٹب میں ننگا بٹھا کر جانچ پڑتال کریں گے۔ اگر بلبلے نکلے تو ۔آگے کیا عرض کروں تم خود سمجھدار ہو‘‘۔ عامر نے اپنی صفائی پیش کی، ’’میں ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ بلبلے نکلیں۔یہ کام تمھارے علاقے میں ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں نہیں‘‘۔ کاظمی نے جواب دیتے ہوئے کہا، ’’پیارے علاقے کی بات نہیں، یہ تو کیفیت کانام ہے۔ کسی پر بھی طاری ہوسکتی ہے‘‘۔ رضوان نے جلتی پر تیل چھڑکا،’’شوق شوق کی بات ہوتی ہے۔ ویسے لوگوں کا ذوق اب اتنا برا بھی نہیں‘‘۔ واحدنے دوبارہ گفتگو میں شامل ہوتے ہوئے کہا، ’’ارے ایسا نہیں کہتے، بڑے بڑے شوقین مزاج ہیں اس دنیا میں‘‘۔باجوہ نے کہا، ’’ہوتے ہوں گے لیکن اتنے بھی نہیں‘‘۔ آدم نے بھی ہلکی سی چٹکی لی، ’’ارے بھئی یہ اس کا ذاتی مسئلہ ہے۔ ویسے میرے نزدیک ہرکام ایک آرٹ ہے۔ بلکہ یہ کام تو فائن آرٹ ہے۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں۔ جہاں جمہوریت ہے۔ ہر شہری اپنی مرضی سے جو چاہے کرسکتا ہے‘‘۔ عامر کو سن کر تھوڑا سا حوصلہ ہوا۔ عامر نے آدم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ’’آدم بھائی آپ بھی کن لوگوں کو سمجھا رہے ہیں۔ ان کی عقل پر تو پردے پڑچکے ہیں‘‘۔ آدم نے موضوع بدلنے کے لیئے کہا، ’’اچھا بھائی عامر، تو بتائیں کب اور کدھر جانا ہے‘‘۔ عامر کو ڈھارس بندھ گئی ۔وہ بولا، ’’آج شام کو سات بجے، انھوں نے چائے پے بلایاہے۔ WALTHAMSTOW (والتھم سٹو) جانا ہوگا‘‘۔ آدم نے ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’ٹھیک ہے۔ کپڑوں کے بارے میں کوئی خاص تنبیہہ‘‘۔ عامر نے کہا، ’’جیسے آپ چاہیں۔ آپ تو خیر سارا یورپ گھوم چکے ہیں۔مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں،کہ کس موقعے پے کیا پہننا چاہیئے‘‘۔ آدم نے کہا، ’’لیکن آج مجھ سے زیادہ بہتر آپ دِکھنے چاہیئیں،کیونکہ آپ کے مستقبل کا سوال ہے‘‘۔ عامر نے پذیرائی کرتے ہوئے کہا، ’’بس یہی باتیں تو آپ کی مجھے پسند ہیں۔ آپ پنڈی کے پہلے شخص ہیں جو سمجھدار ہیں،ورنہ تو وہاں پہاپے ہی ہوتے ہیں‘‘۔ آدم نے کہا، ’’اور پہاپے نرے سیاپے ہوتے ہیں‘‘۔ عامر نے متحیر ہوکر پوچھا، ’’یہ نرے سیاپے کیا ہوتے ہیں‘‘۔ آدم نے ہنس کرکہا، ’’آپ نہیں سمجھیں گے‘‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عامر سہارنپوری اور آدم خان چغتائی ، لڑکی والوں کے گھر کے باہر کھڑے تھے ۔ عامر نے گھنٹی پے ہاتھ رکھا۔ وہ لوگ تو جیسے انھیں کے انتظار میں تھے۔ ایک دم سے دروازہ کھلا۔ ایک ادھیڑ عمر کے آدمی نے ، جس نے دروازہ کھولا تھا، انھیں اندر آنے کو کہا۔دونوں کو ڈرائینگ روم میں بٹھایا گیا۔ عامر بالکل چپ بیٹھا تھا۔ اور آدم کمرے کا جائزہ لے رہا تھا۔ دیواروں پے جابجا قرانی آیات لگی ہوئی تھیں۔ ایک کونے میں AQUARIUM (ایکوئیریم) رکھا تھا۔ جس میں کئی رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔ ایک کونے میں لکڑی کے چوکھٹوں میں بند BLACK AND WHITE (بلیک اینڈ وائٹ) تصویریں رکھی تھیں۔ زمین پے بچھا ہوا قالین استعمال ہو ہو کر اتنا گھس چکا تھا کہ ایک آدھ جگہ سے فرش نظر آرہا تھا۔ ایک طرف الماری تھی ۔اس میں چند عدد کتابیں رکھی ہوئی تھیں۔ جن کے عنوانات دوری کی وجہ سے ٹھیک طرح پڑھے نہیں جارہے تھے۔ اسی اثناء وہی ادھیڑ عمر کے آدمی، جنھوں نے دروازہ کھولا تھا ایک محترمہ کے ساتھ داخل ہوئے۔ عامر اور آدم اِن کے احترام میں کھڑے ہوگئے ۔ اِن محترم و محترمہ نے یک زبان ہوکر کہا، ’’بیٹھئے، بیٹھئے‘‘۔ دونوں دوبارہ صوفوں میں دھنس گئے۔ادھیڑ عمر کے آدمی نے سکوت توڑا، ’’آپ میں سے عامر سہارنپوری کون ہے‘‘۔ عامر نے جھٹ سے جواب دیا، ’’جی میں ہوں۔ معاف کیجئے گا، میرا نام عامر سہارنپوری ہے۔ یہ میرے دوست ہیں۔ آدم خان چغتائی (آدم کا ہاتھ دباتے ہوئے )۔میرے دوست، بھائی اور بزرگ ۔سب کچھ ہیں‘‘۔ محترم نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے کہا، ’’بیٹامیرا نام شمس الدین شیخ ہے۔ یہ میرے بیگم ہیں۔ ہماری دو بیٹیاں ہیں۔ ایک تو بیاہی جا چکی ہے۔دوسری کا مسئلہ ابھی اٹکا ہوا ہے‘‘ (ابھی وہ بول ہی رہے تھے کہ شیخ صاحب کی بیوی نے انہیں ٹہوکا لگا اور شیخ صاحب نے ٹریک بل لیا) ’’میرا مطلب ہے رشتے تو کئی آتے ہیں، ہم نے فیصلہ اپنی بیٹی پر چھوڑا ہوا ہے‘‘۔ عامر اور آدم یک زبان ہوکر بولے، ’’جی جی ، بالکل ایسا ہی ہونا چاہیئے‘‘۔ دورانِ گفتگو، پتا چلا کہ شیخ صاحب تیس سال پہلے اکاؤنٹنگ کا ڈپلومہ کرنے آئے تھے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ وہ واپس جانا چاہتے تھے (بقول ان کے )جس کمپنی میں ان کو کام ملا تھا وہ انھیں واپس جانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔یقیناًبڑے ہونہار ہوں گے۔
ابھی گفتگو کا سلسلہ جاری تھاکہ ایک محترمہ ، آپ لڑکی تو نہیں کہہ سکتے ۔عورت کہہ سکتے ہیں۔ عمر لگ بھگ تیس یا اس سے بھی زیادہ ہو گی۔ شلوار قمیص میں ملبوس ، دوپٹہ اوڑھے، چائے اور کھانے پینے کی اشیاء والی ٹرالی لے کر داخل ہوئیں۔ سب کو اپنے انداز میں ’’سلام لیکم‘‘ کہا، چائے پیش کی اور ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئیں۔
آدم سوچنے لگا۔ وہ برطانیہ میں ہے یا پاکستان کے کسی علاقے میں گھوم رہا ہے۔لڑکی زیادہ خوبصورت نہیں تھی۔ لیکن اتنی بری بھی نہیں تھی۔ اس دوران شیخ صاحب آدم سے گفتگو کرتے رہے۔عامر زیادہ دیر چپ ہی بیٹھا رہا۔ لڑکی کی ماں اپنے مجازی خدا سے مخاطب ہوئی، ’’اجی میں نے کہا، لڑکا لڑکی ذرا علیحدگی میں بات چیت کرلیں۔کیونکہ زندگی انھیں گزارنی ہے‘‘۔ لڑکی کی ماں نے
عامر اور اپنی بیٹی کو علیحدہ کمرے میں بٹھا دیا، تانکہ وہ آسانی سے ایک دوسرے سے سوال کرسکیں۔
آدم کی زندگی میں یہ پہلا اتفاق تھا کہ وہ رشتے کے سلسلے میں کسی کے ساتھ آیا تھا۔ بالکل شادی دفتر کا سا ماحول لگ رہا تھا
دوسری طرف عامر کا انٹرویو شروع ہوا۔لڑکی نے پہلا سوال کیا،
’’آپ کا نام‘‘۔
عامر، ’’جی عامر سہارنپوری‘‘
لڑکی، ’’میرا نام لیلیٰ بنتِ شمس ہے۔ عامر آپ یہاں کیا کرتے ہیں‘‘۔
عامر، ’’جی میرا ایم بی اے کا آخری سال ہے اورآپ‘‘؟
لیلیٰ میں نے I.T. (آئی ٹی) میرا مطلب ہے IINFORMATION TECHNOLGY (انفورمیشن ٹیکنولوجی) میں ڈگری کی ہے۔آج کل ایک فرم میں کام کررہی ہوں‘‘۔
عامر نے عجیب و غریب سوال کیا، ’’آپ کو کیسا لگتا ہے جب آپ کو کوئی دیکھنے آتا ہے‘‘۔
لیلیٰ نے بڑے تحمل سے جواب دیا، ’’بالکل عجیب نہیں لگتا، کیونکہ میں روزکئی نئے لوگوں سے ملتی ہوںیہ بھی زندگی کا حصہ ہے۔ میرے والدین کی خواہش ہے کہ میں گھر بسالوں‘‘۔
عامر نے کہا، ’’آپ کسی سے بھی شادی کرسکتی ہیں۔تو صرف پاکستانی لڑکا ہی کیوں اور وہ بھی جو پڑھنے کی غرض سے آیا ہو۔ جس کا سٹیٹس ایک طرح سے لیگل تو ہو لیکن مستقل نہ ہو‘‘۔
لیلیٰ نے جواب دیا، ’’مسٹر عامر، آپ باکل ٹھیک درست فرماتے ہیں۔ میں کسی سے بھی شادی کرسکتی ہوں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں کسی سے بھی (زور سے ہنستے ہوئے جس میں قہقہے کم اور کرب زیادہ تھا )شادی نہیں کرسکتی۔ میں اپنے والدین کی مرضی کے بغیر شادی نہیں کرسکتی‘‘۔
عامر نے مستعجب ہوتے ہوئے کہا، ’’مس لیلیٰ،آپ تو یہاں پیدا ہوئی ہیں‘‘۔
لیلیٰ نے پرسکون انداز میں جواب دیا، ’’یہ ٹھیک ہے میں برطانوی شہری ہوں۔قانوناً مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔لیکن ہماری تہذیب و تمدن ہمیں روکتی ہے۔یا یوں کہنا چاہیئے کہ میرے والدین کی تہذیب و تمدن انھیں روکتی ہے ۔ ہمارے والدین اپنے معاشی مسائل سے بھاگ کر یہاں آئے ۔ جب اولاد پیدا ہوئی تو تہذیب و تمدن کا رونا رونے لگے۔اگر اپنی اقدار ، تہذیب وتمدن سے اتناپیار ہوتا تو نہ اپنے وطن کو چھوڑتے نہ ہی تہذیب و تمدن کو۔جن کے ہاں بیٹے پیدا ہوتے ہیں، انھیں یہاں کی تہذیب اور یہاں کے تمدن میں کوئی برائی نظر نہیں آتی۔لیکن جن کے ہاں بیٹیاں پیدا ہوتی ہیں، انھیں یہاں کے معاشرے کا ننگا پن نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ حالانکہ کون سا ایشیئن مرد ہے جو لندن کے RED LIGHT AREA (ریڈ لائٹ ایریا) میں نہیں جاتایہی کام اگر لڑکی کرے تو اسلام یاد آجاتا ہے۔تہذیب و تمدن یاد آجاتا ہے۔ اس CULTURAL SCHISM (کلچرل سکزم، یعنی تہذیبی تفرقہ یا انتشار) میں نہ تو ہمارے والدین کا کوئی قصور ہے نہ ہی ہمارا۔ لیکن سب سے زیادہ ہم لوگ پستے ہیں۔ہماری ایک ٹانگ پاکستانی تہذیب میں اٹکا دی جاتی ہے اور دوسری برطانوی یا یوں کہہ لیجئے کہ یورپی تہذیب میں اٹکا دی جاتی ہے۔ یہ درست ہے ،کچھ اقدار ان لوگوں کی اچھی ہیں، کچھ ہماری جیسے یورپ کی جوانی رنگین اور پاکستان کا بڑھاپا پرسکون۔یہاں کی دولت سے وہاں کی خریدی ہوئی آسائشیں‘‘۔
عامر کو ایسا لگا، جیسے اس نے لیلیٰ کی دکھتی رگ پے ہاتھ رکھ دیا ہو۔عامر نے تھوڑا سا گھبراتے ہوئے موضوع بدلنے کے لیئے کہا، ’’آپ سے ایک ذاتی سوال پوچھ سکتا ہوں ۔اگر آپ کوبرا نہ لگے تو‘‘۔
لیلیٰ کہنے لگی ،’’جی پوچھیئے، پوچھیئے‘‘۔
عامر ابھی اتنا ہی کہہ پایا ، ’’آپ نے ‘‘۔لیلیٰ نے جھٹ سے جواب دیا، جیسے وہ سمجھ گئی ہو کہ اگلا سوال کیا ہوگا، ’’یہی کہ میں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی۔ کیونکہ میں اپنی مرضی سے شادی نہیں کرسکتی۔ جب میں نے اے لیول پاس کیا۔ تو ہم سب لوگ کراچی گئے۔ میں آپ کوبتانا بھول گئی کہ میرے والدین نارتھ ناظم آباد کے رہنے والے ہیں۔وہاں ہماری دو کوٹھیاں ہیں۔ایک کرائے پر چڑھائی ہوئی ہے اور ایک میں ہمارے چچا رہتے ہیں۔ ہاں تو میں آپ کو بتا رہی تھی، میرے والدین کا خیال تھاکہ میں اپنے خاندان کے کسی لڑکے سے شادی کرلوں۔لیکن آپ کو جان کر حیرت ہوگی کہ برطانیہ کی شہریت ہونے کے باوجود مجھے میرے کسی بھی کزن نے پسند نہیں کیا۔ یہ بات بارہ سال پہلے کی ہے۔ میرے سارے کزنز کی گرل فرینڈز تھیں۔ میرے والدین مایوس لوٹ آئے۔ اس طرح میں اپنی تعلیم میں مصروف ہوگئی‘‘۔
عامر نے ڈرتے ڈرتے پھر سوال کیا، ’’تو یہاں کوئی پاکستانی لڑکا میرا مطلب ہے‘‘۔
لیلیٰ نے کہا، ’’میرے والدین کا خیال ہے ،جو لڑکے یہاں پیدا ہوتے ہیں۔شراب پیتے ہیں۔گوریوں سے دوستی رکھتے ہیں‘‘۔
عامرنے با حوصلہ ہوکر جوا ب دیا، ’’لیکن شراب تولوگ پاکستان میں بھی پیتے ہیں‘‘۔
لیلیٰ نے کہا،’’یہ بات آپ میرے والدین کو سمجھائیں۔(اس نے سوالیہ انداز میں کہا) ویسے عامر صاحب آپ مجھ سے کیوں شادی کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
عامر تھوڑا سا کھسیانہ ہوکر بولا، ’’دراصل بات یہ ہے کہ‘‘۔
لیلیٰ نے اس کی بات بھی مکمل نہ ہونے دی اور بول پڑی، ’’یہی کہ آپ کے پاسپورٹ پے LEAVE TO ENTER (لیو ٹو اینٹر، یعنی آنے جانے کا اجازت نامہ) کی مہر لگ جائے گی‘‘
عامر نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بات نہیں ہے۔ آپ تو جانتی ہیں کراچی کے حالات کو‘‘۔
لیلیٰ نے جواب دیا، ’’لیکن اب تو سنا ہے کافی بہتر ہوگئے ہیں‘‘۔
عامر نے تائید کرتے ہوئے کہا، ’’جی کافی بہتر ہوگئے ہیں لیکن جس علاقے کا میں رہنے والا ہوں،وہاں ا بھی کافی مسئلہ ہے‘‘۔
لیلیٰ نے پوچھا، ’’کہاں کے ہیں آپ؟‘‘
عامر نے کہا، ’’جی کھارادر کا‘‘۔
لیلیٰ نے کہا، ’’آپ تو بالکل کراچی کے دل میں رہتے ہیں‘‘
عامر نے سوالیہ انداز میں کہا، ’’آپ نے کراچی دیکھا ہے‘‘۔
لیلیٰ نے کہا، ’’جی میں کراچی سے پیار کرتی ہوں۔وہاں کی ہر چیز سے مجھے پیار ہے‘‘۔
لیلیٰ نے گفتگو چھوٹے سے توقف کے بعد جاری رکھتے ہوئے،بڑی طنزیہ انداز میں کہا، ’’پیار تو آپ بھی کرتے ہونگے ۔ بس آپ کو وہاں رہنا پسند نہیں‘‘۔
عامر بغلیں جھانکنے لگا۔وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولا، ’’بات یہ نہیں ہے۔ میرے والدین میری شادی اپنی مرضی سے کرنا چاہتے ہیں۔اور میں اپنی زندگی اپنے انداز سے جینا چاہتا ہوں۔ اس لیئے ، میرا خیال ہے جب انھیں میری شادی کا پتا چلے گا ۔شروع میں ناراض ہونگے۔بعد میں معاف کردیں گے‘‘۔
لیلیٰ نے مزید طنز یہ لہجے میں کہا، ’’اگر یہی کام آپ کی بہن کرے تو؟‘‘
عامر نے کہا، ’’مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ہر انسان کو اس دنیا میں جیسے کا پورا حق ہے‘‘۔
لیلیٰ نے کہا، ’’یہ صرف کتابی باتیں ہیں، حقیقی دنیا اس سے بہت مختلف ہے‘‘۔
عامر نے یقین دلاتے ہوئے کہا، ’’مس لیلیٰ میں تو اس معاملے میں بڑا آزاد خیال ہوں‘‘۔
لیلیٰ نے عامر کی آزاد خیالی جانچنے کے لیئے کہا، ’’عامر صاحب ، اگر آپ کی بہن بھرے بازار میں کسی لڑکے کے ساتھ فرنچ کسنگ (french kissing) کررہی ہو تو کیا آپ برداشت کرپائیں گے۔حالانکہ آپ لندن کی گلیوں ، بازاروں میں بیشمار لڑکے لڑکیوں کو کسنگ (kissing) کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ آپ نے بھی کئی ایک سے کی ہوگی۔ آپ کرسکتے ہین۔آپ مرد ہیں‘‘۔
عامر کی حالت ایسی تھی ،کاٹو تو بدن میں لہونہیں۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اسے اس طرح کے حالات کا سامنا کرناپڑے گا۔
لیلیٰ ،عامر کو خاموش دیکھ کے بولی، خیر چھوڑیئے۔آپ کی قسمت اچھی ہے کہ میرے والد صاحب نے آپ کا قد نہیں ماپا، نہ ہی آپ سے انگریزی اور اردو کا امتحان لیا۔ ورنہ آپ سے پہلے جو آئے ان کے تو دانتوں کی بھی جانچ پڑتال ہوئی ہے۔ اب میں چونکہ بوڑھی ہوگئی ہوں۔ میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اس لیئے اب ان کے اصولوں میں نرمی آگئی ہے۔اب تو کہتے ہیں میں اپنی مرضی سے شادی کرلوں۔لیکن میں نے سارا فیصلہ ان پے چھوڑ دیا ہے۔ اگر میرے والدین آپ کو پسند کریں گے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ جس طرح گھر میں میز ،کرسی یا ٹی وی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک خاوند کی بھی۔ اچھا اب خدا حافظ، میری کوئی بات بری لگی ہو تو معاف کردیجئے گا۔ میری عادت سی ہوگئی ہے۔ کیونکہ اتوار کو کوئی نا کوئی رشتہ آتا ہے ، ہمیشہ چپ رہتی ہوں۔آج نہ جانے کیا ہوا، آپ کے سامنے سب کچھ کہہ دیا‘‘۔
عامر کو کمرے سے نکلتے ہوئے اپنے پاؤں من من بھاری لگ رہے تھے۔ چہرا اترا ہوا اورآتے ہی آدم سے کہنے لگا، ’’چلو چلیں‘‘۔ شمس الدین شیخ نے کہا، ’’اچھا بیٹا ہم لوگ فون کرکے آپ کو بتا دیں گے۔اصل فیصلہ ہماری بیٹی ہی کرے گی ۔ہمیں توآپ پسند ہیں۔ بس آپ کا (عامر کا قد دیکھتے ہوئے، کیونکہ عامر کا قد ان کی بیٹی کے مقابلے میں ذرا چھوٹا تھا) ‘‘۔ ابھی وہ بات مکمل بھی نہ کرپائے تھے کہ عامر نے اجازت لی اور گھر کی راہ لی۔ آدم نے راستے میں کئی دفعہ کریدنے کی کوشش کہ کیا بات ہوئی ، لیکن عامر نے کوئی جواب نہ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو لندن آئے ہوئے سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔اسے آج تک پولیس نے چیک نہیں کیا تھا۔نہ ہی کسی نے پوچھا تھا کہ وہ لیگل ے یا الیگل ہے۔
اس دوران جب بھی چھٹی ہوتی وہ لندن کے تفریحی مقامات دیکھتا۔ جو خواہشات وہ ترکی، یونان اوراٹلی میں دبائے بیٹھا تھا، ان خواہشات کو اس نے جی بھر کے لندن میں پورا کیا۔TATE GALLERY, NATIONAL GALLERY, HAYWARD GALLERY, LONDON BRIDGE, BUCHINGHAM PALACE, PARLIAMENT HOUSE, WESTMINSTER ABBEY, SAINT PAUL CHURCH, MADAM TASSAUD MUSEUM, BRITISH MUSEUM, BIG BEN, TOWER OF LONDON, VICTORIA AND ALBERT MUSEUM (ٹیٹ گیلری، نیشنل گیلری، ہیورڈ گیلری، لنڈن برج، بکنگم پیلس، پارلمنٹ ہاؤس، ویسٹ منسٹر ہاؤس، سینٹ پال چرچ، مادام توساؤ میوزیم، برٹش میوزم، بگ بین، ٹاور آف لنڈن،وکٹوریہ اینڈ ایلبرٹ میوزیم) یہ تمام جگہیںآدم نے ان کے تاریخی پس منظر اور مفصل مطالعے کے ساتھ دیکھیں۔
آدم کو CHARLES DICKENS (چارلس ڈکنز) کا وہ گھر دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا جہاں اس نے ۱۸۳۷ سے لے کر ۱۸۳۹ تک کا وقت گزارا۔ اور اسی گھر میں اس نے تین مشہور ناول لکھے۔ OLIVER TWIST, NICHOLAS NICKELBY, PICKWICK PAPER (اولیور ٹوئسٹ، نکلس نکلبی، پک وک پیپر) اس کے علاوہ JOHN KEATS, KARL MARX, MOHAN CHAND GANDHI, D.H.LAWRENCE, SHELLEY, LEIGH HUNT, THACKERY (جون کیٹ ز، کارل مارکس، ، موہن چند گاندھی، ڈی ۔ایچ۔لارنس، شے لی، لے ہنٹ، تھیکری) جیسی قابلِ ذکر شخصیات کے گھر بھی دیکھنے کا موقع ملا۔
آدم کو CRYSTAL PALACE (کرسٹل پیلس) کے بارے میں جان کر بڑی حیرت ہوئی ۔ ۱۸۵۱ میں HYDE PARK (ہائیڈ پارک) میں ایک میلے کا افتتاح ہوا۔ اس میلے کی سب سے خوبصورت چیز کرسٹل پیلس تھا۔ ۱۸۵۱ میں مئی سے لے کر اکتوبر تک اس کو چھ ملین یعنی ساٹھ لاکھ لوگ دیکھ چکے تھے ۱۹۳۶ میں آگ لگنے سے سارا پیلس تباہ ہوگیا۔ یہ ایک یادگار ہے جو اب آپ صرف تصویروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ ۱۹۵۱ میں ROYLA FESTIVAL HALL (رائل فیسٹیول ہال ) بھی تعمیر کیا گیا۔ لندن جہاں تاریخی عمارتوں کا شہر تھا وہاں نئی تعمیرات بھی کی گئیں۔ جن میں TELECOM TOWER (ٹیلی کام ٹاور ) جس کی اونچائی ۱۸۰ میٹر ہے ، کا افتتاح ۱۹۶۴ میں کیا گیا۔ LLOYD PLACE (لوئڈ پلیس) لندن کی جدید ترین عمارتوں میں سے ایک ہے۔ اس کومشہور ARCHITECT ,RICHARD ROBERT , (آرکیٹیکٹ، رچرڈ روبرٹ) نے تخلیق کیا۔ اس کا افتتاح ۱۹۸۶ میں کیا گیا۔ ۱۹۹۱ میں لندن میں دو عمارتوں کا افتتاح ہوا۔ ایک تو THE CANADA TOWER (دی کینیڈا ٹاور ) ہے ۔ جس کی اونچائی لندن کی تمام عمارات سے زیادہ ہے قریباً ۲۵۰ میٹر بلند ہے۔ اور دوسری عمارت تھیمز دریا کے کنارے CHARING CROSS (چیرنگ کروس ) کی ہے۔
لندن میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کی مناسبت سے کئی چھوٹی بڑی مساجد قائم کی گئیں ہیں۔لیکن دو مساجد مشہور اور بڑی ہیں۔ایک جامع مسجد BRICK LANE (برک لین) ہے اور دوسری REGENT PARK (ریجنٹ پارک ) کی جامع مسجد ہے۔
BRICK LANE (برک لین) کی جامع مسجد۱۷۴۳ میں تعمیر ہوئی ۔لیکن یہ پہلے یہودیوں کا SYNAGOGUE (سیناگوگ، یعنی یہودیوں کی عبادت گاہ) تھا۔ بیسویں صدی عیسویں میں اسے مسجد میں تبدیل کردیا گیا۔اس علاقے میں بنگالیوں کی تعداد بکثرت ہے۔ اس مسجد کے داخلی دروازے پے اب بھی لاطینی زبان میں لکھا ہوا ہے OMBRA SUMUS (اومبرا سومس)۔ لندن کی سب سے بڑی جامع مسجد ، جامع مسجد لنڈن کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ درختوں کے جھنڈ میں گھری ہوئی ہے۔ ریجنٹ پارکمیں واقع یہ مسجد SIR FREDERIC GIBBARD (سر فریڈرک گبرٹ) کی زیرِ نگرانی ۱۹۷۸ میں مکمل ہوئی اس میں ۱۸۰۰ نمازیوں کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو کام کے دوران باجوہ نے بتایا کہ آج کام ختم کرنے کے بعد EQUINOX DISCOTHEQUE (ئیک وی نوکس ڈسکوتھیک) جایا ہے۔کاظمی، شیخ، شیرازی اور سہارنپوری بھی وہیں ہونگے۔ان کا کوئی دوست پاکستان سے آیا ہے اس کی آمد کی خوشی میں دعوت ہے۔ ۔ کسی ایم۔ این۔اے۔ کا بیٹا ہے۔ سب نے خاص طور پے تمھیں بلایا ہے۔ کیونکہ تم ڈانس بہت اچھا کرتے ہو۔ ویسے کل ہماری چھٹی ہے ‘‘۔ آدم نے کہا، ’’ٹھیک ہے ،لیکن ہم واپس کیسے آئیں گے۔ ‘‘۔ توباجوہ نے کہا،’’اس کی تم فکر نہ کرو۔ سب کے پاس گاڑیاں ہیں۔ ہم کسی نا کسی کے ساتھ واپس آجائیں گے۔
آدم اور باجوہ کام کرکے تھک چکے تھے۔ لیکن EQUINOX (ئیک وی نوکس، یہ لندن میں ایک ڈسکوتھیک کا نام ہے یعنی ناچ گھر۔وہ وقت جب سورج استوا کو قطع کرتا ہے ۔دن اور رات برابر ہوتے ہیں) کے باہر جب رونق دیکھی تو سب کچھ بھول گئے۔ باجو ہ نے تو قطار میں ہی ہلنا شروع کردیا۔ کھڑکی پے ایک کافر ادا حسینہ بیٹھی ہوئی تھی۔ یہاں روشنیوں کی اتنا چکاچوند تھی کہ ہر چیز چمکتی
ہوئی اور اچھی بھی دکھائی دے رہی تھی۔ رات کے بارہ بجے ہونگے۔ لیکن دن کا سا سماں تھا، دونوں ٹکٹ لے کر جلدی جلدی اندر داخل ہوئے۔پھر CLOAK ROOM (کلاک روم، یعنی جہاں آپ اپنا کوٹ، جیکٹ یا کوئی بھی چیز رکھ چھوڑتے ہیں اور واپسی پے قیمت ادا کرکے یا کبھی کبھی پہلے قیمت اداکرکے اپنی چیزیں واپس لے لیتے ہیں)کی لائن میں لگ گئے۔ اپنی اپنی جیکٹیں جمع کرواکے ٹوکن جیب میں رکھے اور سیڑھیاں اتر کے DANCING FLOOR (ڈینسنگ فلور) پے پہنچے۔اندر روشنیاں ہی روشنیاں تھیں۔جلتی بجھتی اور TECHNO MUSIC (ٹیکنو میوزک ) دھمک پورے EQUINOX (ئیک وی نوکس) میں گونج رہی تھی۔ آدم کالی جینز اور کالی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ میوزک سنتے ہی اسے دورہ سا پڑجاتا اور TECHNO (ٹیکنو) میوزک پے تھرکنا شروع کردیتا۔ ابھی انھوں نے قدم ہی رکھا تھاکہ پیچھے سے عامر سہارنپورینے آواز دی ۔ ان کو سنائی نہ دیا۔ پھر وہ قریب آگیا۔ ۔ ان کا گروہ ایک کونے میں جیکٹیں اور سویٹریں زمین پے رکھے ان کے گرد ڈانس کررہا تھا۔ کچھ کے ہاتھ میں بیئر تھی۔ ،کچھ ہاتھ میں کوک (کوکا کولا) ، آدم پانی کی بوتل لے کر آکر گیا۔ اور ان کا ساتھ دینے لگا۔ پورے ڈسکو تھیک میں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ لڑکے لڑکیاں میوزک پے اس طرح ڈانس کرنے میں محو تھے جیسے انھیں دنیا کی کسی چیز کی کوئی فکر نہ ہو۔ TECHNO (ٹیکنو) میوزک چیز ہی ایسی ہے۔ ندیم کاظمی نے آدم کے کان میں کہا، ’’ڈسکو تھیک میں لڑکی پٹانی ہو تو لڑکیوں کے ٹائیلٹ کے باہر جاکر کھڑے ہوجاؤ،کیونکہ لڑکیاں کھڑے ہوکر پیشاب نہیں کرسکتیں‘‘۔آدم نے یہ سن کر ہنسنا شروع کردیا کہ کاظمی کا دماغ کیسی کیسی باتیں سوچتا ہے۔ اچانک D.J (DISK JOCKEY) (ڈی جے، ہر نائٹ کلب ،یا ڈسکو تھیک میں ایک ڈی جے ہوتا ہے جو وہاں نئے اور پرانے میوزک کے ریکارڈز ریمکس کرتا ہے اور کبھی کبھی فرمائشی گانے بھی بجاتا ہے) نے JASON NAVIN (جے زن نیون ) اور RUN D.M.C. (رن ڈی ایم سی) کا گانا IT'S LIKE THAT AND THAT'S THE WAY IT IS ,CHECK THIS OUT چلایا، سارا EQUINOX (ئیک وی نوکس) جیسے اسی گانے کے انتظار میں تھا۔ BREAK DANCE (بریک ڈینس) کے جتنے بھی ماہر تھے۔انھوں نے اپنے اپنے جوہر دکھانے شروع کریئے۔ کوئی WAVING (وے ونگ) کررہا تھا اور کوئی KNEE SPIN (نی سپن، یعنی گھٹنے پے گھومنا)۔ کوئی HEAD SPIN (ہیڈ سپن، سر کے بل گھومنا،اس میں گردن کی ہڈی ٹوٹنے کا بھی ڈر ہوتا ہے) کررہا تھا اور کوئی BACK SPIN (بیک سپن، یعنی کمر پے گھومنا)۔ آدم بھی بری بھلی جیسی بھی بریکنگ اسے آتی تھی کرتا کرتا ڈینسنگ فلور کے درمیان آگیا۔کافی سارے steps (سٹیپس یعنی توڑے لیئے) کرنے کے بعد جب اس نے BACK SPIN (بیک سپن) کی تو سب نے بھرپور تالیاں بجائیں۔ لیکن اچانک ایک دبلا پتلا JAMAICAN (جمیکن) لڑکامجمعے کو چیرتا ہواآدم کے سامنے آگیا۔ اس نے breaking (بریکنگ ) کے وہ جوہر دکھائے کہ سب دنگ رہ گئے۔ آدم نے پیچھے ہٹنا ہی مناسب سمجھا۔ پھر اس نے بہت خوبصورت WIND MILL (ونڈ مل، یعنی آپ اپنی ٹانگو ں کو لیٹ کر اس طرح گھماتے ہیں جیسے پن چکی کا پنکھا گھومتا ہے) پیش کی۔سب نے بھرپور تالیوں سے اس کی پذیرائی کی۔ آدم نے بھی اس کی حوصلہ افزائی کی۔
آدم کو آخری دفعہ یار خان یار خان کے ساتھ MINISTRY OF SOUND (منسٹری آف ساونڈ، لندن کا ایک بہت بڑا ڈسکوتھیک ،بلکہ یورپ کا سب سے بڑا ڈسکو تھیک ، SPANISH ISLAND IBIZA (ہسپانوی جزیرے ابی زا کو چھوڑ کے) ہے ۔ وہاں دونوں نے بڑا لطف اٹھایا تھا۔یا آج کافی عرصے بعد آدم نے باجوہ وغیرہ کے ساتھ ناچنے کا بھرپور لطف اٹھایا تھا۔ سب کہنے لگے ، ’’ہم لوگ بیئر پی کر ٹن ہوجاتے ہیں اور تمھیں پانی سے ہی نشہ چڑھ جاتا ہے۔
صبح چار بجے سارے EQNINOX (ئیک وی نوکس) سے نکلے۔ سب کا بھوک کے مارے برا حال تھا۔ ڈسکوتھیک سے چند قدم کے فاصلے پر میکڈونلڈہے۔ گرمی ہو یا سردی، جمعے اور ہفتے کی رات سارے لندن میں رونق رہتی ہے۔ خاص کر ویسٹ اینڈ(لندن کا وسطی علاقہ، جہاں تمام اس قسم کے لوازمات ہیں)کے اس علاقے میں جہاں EQUINOX (ئیک وی نوکس) اور HIPPODROME (ہپو ڈروم، لندن کا ایک اور ڈسکو ٹھیک ، ہپوڈروم کا مطلب ہے رتھوں کی دوڑ کی جگہ ) ہیں۔ ایک طرف PICCADILY CIRCUS (پکاڈلی سرکس) کا underground station (انڈر گراؤنڈ سٹیشن) ہے اور دوسری طرف LEICESTER SQUARE (لیسٹر سکوئیر) کا زیرِ زمین سٹیشن ہے۔ ا ن دونوں زیرِ زمین سٹیشنوں کے درمیان صبح تک رونق رہتی ہے۔
میکڈونلڈ سے سب نے جلدی جلدی کھاناکھایا اور گھر کی راہ لی۔ سب نے آدم کے ڈانس کی تعریف کی۔ سب نے سنا تھا کہ آدم اچھا ڈانس کرتا ہے لیکن اتنا اچھا کرتا ہے ، یہ نہیں جانتے تھے۔ سارے تھوڑے تھوڑے نشے میں تھے۔ اور نشے میں یہ محسوس کررہے تھے کہ ان کی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی۔اس لیئے کافی شور پیدا ہورہا تھا۔جیسے ہی گھر کے باہر ان کی گاڑیاں رکیں۔، سب نے دھاڑ دھاڑ اپنی اپنی گاڑیوں کے دروازے بند کیئے اور گھر کا تالا کھول کر باری باری اندر داخل ہونے لگے۔ صبح ہو چلی تھی۔ پو پھٹ چکی تھی۔ ومبلڈن کے علاقے میں بالکل خاموشی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے شور کی آواز دور تلک جارہی تھی۔ ان کے ہمسائے میں ایک پاکستانی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ وہ ان سے نالاں تھا۔ کیونکہ ان کی وجہ سے اسے کافی زحمت اٹھانا پڑتی تھی۔ آج بھی جب یہ لوگ آئے تو اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے گھر کی بتی جلائی اور پھر بند کردی۔
آدم نے سب کو خاموش رہنے کو کہا، لیکن کوئی بھی ا س کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سب ٹپسی تھے۔ یعنی تھوڑے تھوڑے مدہوش تھے۔ ۔ ایک دفعہ ان کے ہمسائے نے دیوار کو ٹھوکا بھی لگایا، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ نہ جانے کب سب اپنے اپنے کمروں میں جاکر سو گئے۔
گھنٹی بجنے کی آواز آئی۔ آدم یہی سمجھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ لیکن پردہ ہٹا کر دیکھا تو باہر روشنی تھی ہوچکی تھی۔ اس نے سوچا کوئی نا کوئی ملنے آیا ہوگا۔ اس نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو سامنے کیا دیکھتا ہے ۔دو تین پولیس والے کارڈ دکھا کر اندر داخل ہوگئے۔ آدم کو سرچ وارنٹ کے پوچھنے کی مہلت ہی نہ ملی۔سارے کمروں میں پھیل گئے۔ سب کے کمبل اور رضائیاں کھینچ کھینچ کر اٹھایا۔ سارے یہی سمجھ رہے تھے کہ ان کے ہمسائے نے شکایت کی ہے۔ لیکن بات کچھ اور تھی ۔ کسی ایشیئن لڑکے نے پولیس والے پے ہاتھ اٹھایا تھا اور پکڑے جانے پر اپنا پتہ یہاں کا لکھوایا تھا ، جہاں یہ لوگ رہ رہے تھے۔ پولیس اس کی تلاش میں آئی تھی۔سب کے کاغذات طلب کیئے گئے۔ باقی چاروں تو سٹوڈنٹ ویزے پر تھے اور باجوہ سیاسی پناہ گزین تھا۔ لیکن آدم کے پاس کوئی کاغذ نہیں تھا۔ پولیس شک کی بنیاد پر اسے ساتھ لے گئی۔تفتیش کے دوران پتا چلا کہ آدم الیگل امیگرنٹ ہے۔ اسے انھوں نے DETENTION CELL (ڈیٹینشن سیل ، ایک طرح کی نظربند کرنے کی جگہ یا جیل کہہ لیجئے)بھیج دیا ، جو HEATHROW AIRPORT (ہیتھرو ایئرپورٹ) کے پاس ہی تھی۔ آدم اس آفتِ ناگہانی کے لیئے بالکل تیار نہیں تھا۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ برطانیہ اس طرح ہوگا۔ اس نے detention cell (ڈیٹینشن سیل ) سے باجوہ کو فون کیا۔ باجوے نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا، کیونکہ آدم نے کبھی ذکر تک نہیں کیا تھا کہ وہ غیرقانونی طور پے رہ رہا ہے۔ سب یہی سمجھ رہے تھے کہ اس نے کم از کم سیاسی پناہ کی درخواست تو ضرور دی ہوگی۔ انھوں نے سیل میں بھی آدم کو سیاسی پناہ کی درخواست دینے کی پیش کش کی لیکن آدم نے انکار کردیا۔ حالانکہ وکیل بھی انھیں کی طرف سے تھا۔ آدم کے سارے دوستوں نے بڑی منت سماجت کی کہ موقعے کا فائدہ اٹھاؤ۔لیکن آدم نے کسی کی ایک نہ سنی۔ آخر تھک ہار کر آدم کا سوٹ کیس یا اسباب جو بھی اس کے پاس تھا تیار کرکے باجوہ DETENTION CELL (ڈیٹینشن سیل ) چھوڑ آیا۔ آدم سے آخری ملاقات کی۔ آدم نے اس دوران کچھ رقم پس انداز کر لی تھی۔ اس نے سوچا پاکستان جاکر کوئی چھوٹا سا کاروبار کرلے گا اور اگر ہوسکا تو اپنی LOLITA (لولیٹا) کے ساتھ شادی کا کوئی سلسلہ چلائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آدم کو جہاز میں بٹھانے کے لیئے دو ریٹائرڈ فوجی بھی ساتھ تھے۔ آدم یہی سمجھا کہ وہ جہاز تک چھوڑ کر واپس چلے جائیں گے،لیکن اسے یہ نہیں پتا تھا کہ اس نے جرم کیا ہے۔ برطانیہ میں غیرقانونی طور پے مقیم تھا۔ اس لیئے اسے اسلام آباد ایئر پورٹ تک چھوڑ کرآئیں گے۔
انھوں نے آدم کا پاسپورٹ پائلٹ کو دیا اور آدم کے ساتھ جہاز میں آکر بیٹھ گئے۔ دونوں کا رویہ آدم کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ انھوں نے راستے میں آدم سے کہا، ’’تم کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کر لیتے یا سیاسی پناہ کی درخواست دے دیتے۔اس طرح برطانیہ میں رکنے کا موقع مل جاتا۔ تمھیں پتا ہے برطانیہ کا ویزا لینے کے لیئے پاکستان میں BRITISH HIGH COMMISSION (برٹش ہائی کمشن) کے باہر کتنی لمبی لائن لگی ہوتی ہے‘‘۔ آدم نے پوچھا، ’’آپ کو کیسے پتا ہے‘‘۔ تو اس ان میں سے ایک نے کہا، ’’میرے کزن نے مہنگے تحائف (یورپ میں رشوت کو تحفے کے طور پے دیا جاتا ہے۔وہ پیسوں کی صورت میں نہیں بلکہ کسی چیز کی صورت میں ہوتی ہے)دیکر پاکستان میں واقع BRITISH HIGH COMMISSION (برٹش ہائی کمشن) میں اپنی تبدیلی کروائی ہے۔ وہ ہر سال چھٹی پے آتا ہے تو رنگ رنگ کے قصے سناتا ہے ‘‘۔ آدم ان ریٹائرڈ فوجی افسروں کی باتین سن کر بڑا حیران ہو۔
صبح آٹھ بجے ان کا جہاز اسلام آباد و راولپنڈی کی فضاؤں میں داخل ہوا۔ آدم کومکان چھوٹے چھوٹے لگ رہے تھے۔ اسلام آباد ایسے لگ رہا تھا جیسے ان گنت چھوٹے چھوٹے ڈبے زمین پے رکھے ہوں۔ آہستہ آہستہ جہاز کی اونچائی اور رفتار میں کمی واقع ہونا شروع ہوئی۔ آدم کو ملک چھوڑے ہوئے پانچ سال ہونے کو آئے تھے۔ وہ جہاز میں پہلی دفعہ بیٹھا تھا۔ ورنہ تو ہمیشہ ڈنکیاں لگاتے لگاتے ترکی سے یونان، یونان سے اٹلی ،اٹلی سے فرانس اور فرانس سے انگلینڈ پہنچا تھا۔ اورقسمت کا کھیل دیکھئے،جن ملکوں میں پکڑے جانے کا ڈر تھا وہاں سے صاف بچ نکل آیاتھا۔ اور جہاں پے پکڑے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، وہاں سے ڈیپورٹ ہوکر آرہا تھا۔ اسے خوشی تھی کہ اپنی سرزمین پے پانچ سال بعد قدم رکھ رہا تھا۔ یہاں اسے پولیس کا کوئی ڈر نہیں ہوگا۔ عزتِ نفس مجروح نہیں ہوگی۔ وہ کھل کے ہنسے گا۔ کھل کے روئے گا۔ کھلی فضا ء میں سانس لے گا۔ اسے کوئی نہیں کہے گا ، "DOCUMENTI, PAPIER S'IL VOUS PLAIT" (دوکومنتی، پاپیئے سل وو پلے، کاغذات دکھائیں مہربانی فرما کر)اور پاکستانی کہتے ، ’’پکے ہو کہ کچے‘‘۔ ان تمام سوالوں سے نجات مل جائے گی۔ اس کی سوچوں کا سلسلہ ٹوٹا۔ جب جہاز کے پہیئے ایک جھٹکے کے ساتھ زمین پر ٹکرائے۔ رن وے پے چلنے کے بعد ایک کونے میں آکر جہاز رک گیا جہاز کے ساتھ سیڑھی لگی اور ایک ایک کر کے مسافروں نے اترنا شروع کیا۔ سب مسافر امیگریشن کے کاؤنٹر سے پاسپورٹ پر مہر لگوا کر باہر جارہے تھے۔ بیلٹ پے چلتے ہوئے بَیگوں میں سے اپنا سامان ڈھونڈ رہے تھے۔ لیکن آدم کو ان دو فوجیوں نے فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی کے حوالے کردیااور آدم کو خداحافظ کہہ کر چلے گئے۔
اسے ایک کمرے میں بٹھایا گیا۔ ایف۔آئی ۔اے ۔ کے کارکن آرہے تھے، جارہے تھے۔ کوئی اسے گھور کر دیکھتا، کوئی پوچھتا کون ہے، جواب ملتا برطانیہ سے آیا ہے ،ڈیپورٹ ہوکر۔ پھر تو خوب مال لایاہوگا۔ وہاں جاکر سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں اور ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ اوے وہاں عیاشی بہت ہے۔ شراب بھی کھلی ملتی ہے۔اس لیئے تو وہاں سے ہٹے کٹے ہوکر آتے ہیں۔آدم سب کی یہ ملی جلی گفتگو سن رہا تھا۔ ایک آدمی آیا اور اسے اپنے ساتھ لے گیا۔کہنے لگا، ’’تمھیں صاحب نے بلایا ہے‘‘۔ آدم حیران پریشان تھا کہ وہ کہاں پھنس گیا ہے۔ اسے اپنی سرزمین پے قدم رکھے دو گھنٹے ہوچلے تھے لیکن ایئرپورٹ سے باہر نہ نکل پایا تھا۔
آدم اس آدمی کے ساتھ چلتا چلتا صاحب کے کیبن کے پاس پہنچا۔ کیبن میں قدم رکھا تو وہاں بنا یونیفارم کے ایک آدمی کرسی پر براجمان تھا۔ وہ سر جھکائے کچھ کاغذات دیکھ رہا تھا۔ ہاتھ کے اشارے سے آدم کو بیٹھنے کو کہا اور جو شخص اس کے ساتھ آیا تھا اس کو چائے پانی لانے کو کہا۔پھر آدم سے مخاطب ہوا، ’’بیٹا بات دراصل یہ ہے کہ تم نے جرم کیا ہے۔اگر تفصیلات میں جاؤ گے تو کیس مزید مشکل ہوجائے گا۔ اس لیئے جس طرح میں کہتا ہوں کرو۔ اس نے رقم CALCULATOR (کیلکولیٹر
) پر لکھتے ہوئے اس کی سکرین آدم کے سامنے رکھ دی۔ اور کہنے لگا، ’’نذرانہ دے دو، تمھاری بڑی آسانی سے خلاصی ہوجائے گی‘‘۔ آدم نے رقم پر نظر ڈالی ۔ بیس ہزار روپے۔آدم نے کہا، ’’پاؤنڈ چلیں گے‘‘۔تو صاحب کہنے لگے، ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔تم واش روم میں چلے جاؤ ،میرا آدمی تمھارے ساتھ جائے گا۔ تم اسے ڈھائی سو پاؤنڈ دے دینا‘‘۔ آدم نے آس پاس نظر دوڑائی ۔اس کی نظر کیمروں پڑی اور حقیقت سمجھ گیا۔صاحب نے گھنٹی دبائی اورآدم اس آدمی کے ساتھ چلا گیا جو گھنٹی کے آواز پے اندر آیا تھا۔ اس نے واش روم میں جاکر اپنی اندر والی جیب سے ڈھائی سو پاؤنڈ نکالے اور اس آدمی کو تھمادیئے۔ وہ آدمی کہنے لگا، ’’پچاس پاؤنڈ دے دیں‘‘۔ آدم نے پچاس پاؤنڈ اور دیئے اور دونوں صاحب کے پاس آئے۔ ملازم نے اوکے کا اشارہ کیا۔ صاحب نے آدم کو بیٹھنے کو کہا۔ اس دوران چائے آگئی۔ آدم نے جلدی جلدی چائے پی اور خداحافظ کہنے لگا تو صاحب نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور کہنے لگے، ’’بیٹا اگر کوئی مسئلہ ہو تو میرے موبائیل نمبر پے رنگ کرنا۔ اور ہاں باہر جاتے ہوئے کوئی پوچھے تو کہنا میرے انکل ہیں۔ حال احوال پوچھ رہے تھے۔ بھول کر بھی کوئی ایسی ویسی بات نہ کرنا‘‘۔ آدم ا کافی سمجھدار ہوگیا تھا۔ اس نے
ایسا ہی کیا۔ ملازم اسے باہر تک چھوڑنے آیا اور اس نے سب کو بتایا کہ اے۔ بی ۔سی۔ صاحب کا آدمی ہے۔سب نے راستہ چھوڑ دیا۔ جیسے ہی وہ سامان کی ٹرالی لے کر باہر نکلا تو اس نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔بڑی بڑی مونچھو والے آدمی، کلف لگے شلوار قمیص، عورتیں بچے، لڑکیاں ہاتھ کے اشاروں سے اپنے اپنے مہمان کو بلا رہے تھے۔ ایک کونے میں پرائیویٹ ٹیکسیوں والے شور کررہے تھے۔
ہٹ اوئے ہٹ اے میرا اے
نئی اوئے نئی اے میرا اے
آؤجی باؤ جی کتھے جانڑا اے
ایک نے حد کردی "hello come my car" (جناب میری گاڑی)
آدم پکڑے جانے کی وجہ سے اتنا بدحواس ہوچکا تھا، اس نے پیسے بھی تبدیل نہیں کروائے تھے۔
آدم کو دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ لوگ ایئر پورٹ پے ایسے گھوم رہے تھے جیسے کوئی سیرگاہ ہوتی ہے۔ یہی حال پاکستان میں ہسپتالوں کا ہوتا ہے۔
آدم کو ایک ٹیکسی والا بڑا شریف آدمی دکھائی دیا۔ ایسا نہیں تھا کہ باقی ٹیکسیوں والے شریف نہیں تھے۔بس وہ آواز ذرا کم لگا رہا تھا۔ آدم ابھی اس کے پاس جا ہی رہا تھا کہ ایک نوجوان لڑکا ،اس کے پاس آیا۔ اس کے پاس پلاسٹک ٹیلی فون کارڈ تھے۔ وہ تاش کے پتوں کی طرح ان کو پھینٹتا ہواکہنے لگا، ’’باؤ جی فون تو نہیں کرنا‘‘۔ آدم نے جان چھڑانے کے لیئے کہا، ’’میں تو لاہور سے آرہا ہوں‘‘۔ اس طرح اس کی خلاصی ہوئی۔
ٹیکسی کی چھت پے سامان رکھا اور آدم ٹیکسی ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ بیٹھ گیا اور تیز تیز سانس لینے لگا۔وہ آزاد ملک کی آزاد فضاء میں بھرپور طریقے سے سانس لینا چاہتا تھا۔ یہاں اسے کوئی نہیں پوچھے گا، ’’پچھو کتھے دے او، پنڈ کیڑا اے‘‘۔ان جملوں کے جواب دے دے کر وہ تنگ آچکا تھا۔
ٹیکسی ایئر پورٹ کی حدود سے باہر نکلی۔ آدم کو بجلی کے کھمبے، تاریں، در ودیوار عجیب عجیب لگنے لگے۔ وہ سوچنے لگا،کہاں آگیا ہے۔ پانچ سال پہلے یہ جگہ ایسی تھی اور آج بھی ویسی ہی ہے۔ بالکل بھی تو نہیں بدلی۔ اسے ٹریفک کا نظام بڑا غیرمنظم لگا۔ کوئی بھی اپنی LANE (لین) میں نہیں جارہا تھا۔ سب گاڑیوں والے زور زور سے ہارن بجا رہے تھے۔ حالانکہ یورپ میں صرف شادی بیاہ پے لوگ گاڑیوں کے ہارن بجاتے ہیں۔اس کے علاوہ کوئی ہارن بجائے تو اس کامطلب ہوتا ہے کہ آپ نے یقیناًٹریفک کے کسی قانون کی خلاف ورزی کی ہے یا غلط اوور ٹیک کیا ہے۔ اور آپ کو ہارن کی صورت میں گالی دی گئی ہے یا متنبہ کیا گیا ہے۔ اگر کوئی ہیڈ لائٹ بار بار جلائے اور بجھائے اس کامطلب ہوتا ہے کہ آگے ٹریفک کنٹرول کرنے والا کیمرہ نصب ہے، سپیڈ کم کرلیں یا کاغذات چیک کیئے جارہے ہیں۔
آدم کوکئی دفعہ ایسا لگا، جیسے سامنے والی گاڑی ان کی ٹیکسی سے ٹکرا جائے گی۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔ ان کی ٹیکسی چند لمحوں میں ہی پانچ سڑکی پٹرول پمپ کے پاس پہنچی گئی۔ ٹیکسی والے نے آدم کی بتائی ہوئی سڑک پے گاڑی موڑ دی اور آدم کے گھر کے سامنے لاکر بریک لگا دی۔گاڑی ایک چی کی آواز کے ساتھ رک گئی۔
آدم کے پاس پاکستانی کرنسی نہیں تھی۔ اس نے ٹیکسی والے کو دس پاؤنڈ دیتے ،تو وہ کہنے لگا، ’’باؤ جی سو پاؤنڈ دے دیں‘‘۔ آدم سوچنے لگاکیسا آدمی ہے۔سو پاؤنڈ کمانے کے لیئے مجھے ساٹھ گھنٹے کھڑاہوکر کام کرنا پڑتا تھا ۔ اپنے مالک کی سو باتیں سننا پڑتی تھیں ۔تب جاکر ہفتے بعد سو پاؤنڈ نصیب ہوتے تھے۔ اور یہ آدمی کتنے آرام سے کہہ رہا ہے ،سو پاؤنڈ دے دیں۔ سو پاؤنڈ نہ ہوگئے سو روپے کا نوٹ ہوگیا۔ آدم نے دس پاؤنڈ دیئے اور جلدی سے سامان اتارا۔ وہ آدمی سخت ناراض تھا۔ اس نے آدم کو دل ہی دل میں گالیاں دیں اور ٹیکسی لے کر چلتابنا۔
دوپہر کاوقت تھا۔ گلی میں کوئی بھی نہیں تھا۔ آدم نے اپنے گھر کی گھنٹی پے ہاتھ رکھا۔ اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ وہ گلی میں ہی سوٹ کیس،رکھ کے اپنے سوٹ کیس کے اوپر بیٹھ گیا۔ کئی دفعہ خیال آیا کہ کھرل صاحب کے گھر کی گھنٹی دبا دے یا نجمہ بیگم کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دے، لیکن اس نے مناسب نہ سمجھا۔ وہ سوٹ کیس پے بیٹھے بیٹھے سوچنے لگا کہ وہ دنیا کے کتنے ممالک گھوم کر آگیا ہے۔ اور واپس وہیں کھڑا ہے۔ جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔ گلی کے تمام مکان نئے بن چکے تھے، سوائے ان کے گھر کے۔ اس نے اور داؤد نے پانچ سال پہلے رختِ سفر باندھا تھا۔ داؤد کسی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا لیکن آدم تو اپنی منزل کا تعین ہی نہ کرپایا تھا۔ اس لیئے اس کا مقصد تھا ہی نہیں، جو وہ پاتا۔منزل کا تعین کرپاتا تو مقصد پاتا۔ سفر کی تکان کی وجہ سے سوچتے سوچتے اس کی سوٹ کیس پے بیٹھے بیٹھے ہی آنکھ لگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment