Sunday, June 9, 2013

گاما، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ







گاما


میلانوں کے چھوٹے سے پنڈ
DESSIO
(دے زیو) کے ہسپتال میں جب چودھری غلام رسول کو لایا گیا تو اس کے داہنے بازو کی حالت نا گفتہ بہ تھی۔ جب ڈاکٹروں نے باہمی مشورے سے یہ فیصلہ کیا کہ چودھری غلام رسول کی جان بچانے کا ایک ہی راستہ ہے، اگر اس کا داہنہ بازو کاٹ دیا جائے۔
ڈاکٹروں کے لیے یہ روز مرہ کا کام ہے۔ ان کا کام زندگی بچانا ہوتا ہے لیکن پھر بھی ان کے سامنے کئی مریض دم توڑ دیتے ہیں۔ وہ اپنی بے بسی پر ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر
GIUSSEPE GALVANI
(جوزپے گلوانی) نے بڑی مشکل سے دل کو مضبوط کیا اور آکر پاکستان کے اس پنجابی گھبرو جوان کو بتایا کہ تمہاری بازو کاٹ دی جائے گی۔ یہی ایک راستہ ہے تمہاری جان بچانے کا۔ چودھری صاحب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے اور گہری سوچ میں پڑگئے۔
ژ
گاما یعنی غلام رسول بڑے پاپڑ بیل کر جرمنی پہنچا تھا۔ اس کا باپ ایک مزارع تھا۔ اس نے ساری زندگی چودھریوں کے حقے تازے کئے تھے، لیکن گامے کے سر پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ وہ کسی طرح با ہر چلا جائے، اور وہ اپنی منزل پر پہنچ چکا تھا۔ گاما جرمنی پہنچتے ہی گامے سے غلام رسول بن چکا تھا۔
اسے کسی نے مشورہ دیا کہ سیاسی پناہ کی درخواست دے دے۔ چونکہ گاما یعنی غلام رسول، یہاں چند ماہ رہ کر یہاں کے ماحول سے آشنا ہوگیا تھا، اس لیے اس نے ماحول کے مطابق اپنے نام میں شاہ کا اضافہ کرلیا تھا۔ اس نے سیاسی پناہ کی درخواست بھی اسی نام سے درج کروائی تھی۔ اب سب اسے شاہ صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ سارے اسے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ گاما صبح سویرے اٹھ کے pizzeria
(پیزیریاء) کی
special offers
(سپیشل آفرز) کے
pamphlets
(پمفلٹ) گلی گلی جاکر لوگوں کے گھروں میں تقسیم کرکے آتا اور شام کو اسی
pizzeria
(پیزیریاء) میں
pizza
(پیزا) بنانے والے کی مدد کرتا، سلاد کاٹتا،، برتن دھوتا، باورچی خانے کی صفائی کرتا وغیرہ۔ رہائش اور کھانا مفت تھا۔ اس کے علاوہ سوشل سیکیورٹی (یورپ کے کچھ ملکوں میں جب تک سیاسی پناہ گزین کا فیصلہ نہ ہو، سرکار انہیں رہنے کو مفت جگہ دیتی اور اس کے علاوہ خرچہ بھی دیتی ہے) اور جو رقم وہ کماتا اپنے باپ کو بھیج دیتا۔ گاما یعنی غلام رسول یعنی شاہ صاحب نے شاید ہی کو ئی رنڈی چھوڑی ہو۔ جس علاقے میں وہ رہتا تھا، وہاں ایک بہت بڑا چکلا تھا۔ گاما ہر ہفتے پابندی سے کسی نہ کسی نئی لڑکی کے پاس جاتا اور کئی دفعہ ہفتے میں دو دفعہ بھی۔ شراب گاما اندر کے جراثیم مارنے کے لیے پیتا، کبھی کبھی تھکن زیادہ ہوجاتی تو وہ چرس بھی پی لیا کرتا۔ گامے کو اب گامے یا غلام رسول کے نام سے کوئی نہیں جانتا تھا۔ سب اسے شاہ صاحب کہہ کر بلاتے تھے۔ اس کے باپ نے اس کی بھیجی ہوئی رقم سے کافی زمین خرید لی تھی اور مکان بھی پکے کروالیے تھے۔ اب گامے کا خواب تھا کہ شہر میں بھی پکا گھر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے، اس کے باپ نے شہر میں زمین خرید لی تھی۔ گامے کی سیاسی پناہ کی درخواست نامنظور ہوچکی تھی لیکن وہ اپیل کرچکا تھا اس لیے جب تک اپیل کا جواب ہاں یا نہ میںآئے وہ جرمنی میں رہ سکتا تھا۔ اسی دوران اٹلی نے امیگریشن کھول دی اور گاما اپنے تمام لوازمات سمیٹ کر میلانو (میلان) آگیا۔ گاما بہت ہی چالاک تھا۔ اس نے جرمنی سے اٹلی آنے کے لیے ایک پیسہ بھی خرچ نہ کیا، وہ اپنے شاہ ہونے کا فائدہ اٹھاتا رہا۔ جرمنی میں شاید ایک آدھ شخص اس کی اوقات اور اصلیت سے واقف تھا لیکن اٹلی میں تو بالکل کوئی نہیں جانتا تھا۔ نہ وہ گھرمیں کھانا پکاتا، نہ صفائی کرتا، حتیٰ کہ ایک شخص نے اس کے کاغذات جمع کرانے کی حامی بھی بھر لی۔ اس کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کی مدد کرکے وہ اپنی آخرت سنوار لے گا۔ اب کے شاہ صاحب یعنی گامے کو کسی نے مشورہ دیا کہ آپ کے جرمنی میں فنگر پرنٹز (یورپ میں جو بھی غیر ملکی آتے ہیں ان کے ہاتھوں کی ساری انگلیوں کے پوروں کے نشان لیے جاتے ہیں) ہوچکے ہیں اور اگر آپ نے نام اور تاریخ پیدائش نہ بدلی تو آپ کو مشکل پیش آئے گی۔ اس لیے گاما، غلام رسول، غلام رسول شاہ سے چودھری غلام رسول بن چکا تھا۔ پہلے شاہ بن کر عزت و تکریم حاصل کرتا تھا، اب چودھری بن کے رعب و داب جماتا۔
گامے کی قسمت اچھی تھی، جلدی ہی پیپرز بھی مل گئے اور کام بھی۔ گاما فیکٹری میں چھ دن کام کرتا، overtime
(اوور ٹائم) بھی کرتا، لیکن اس کے حساب کتاب میں فرق تھا۔ وہ جتنی بچت جرمنی میں کیا کرتا تھا اٹلی میں نہیں کررہا تھا۔ وہ بڑا پریشان ہو ا۔ پیپرز کا فائدہ تو ہوا لیکن اخراجات بڑھ گئے۔ گامے کو کسی نے مشورہ دیا، بیماری کی درخواست دیکر کسی جگہ غیرقانونی طور پر کام کرلے۔ اس نے ایسا ہی کیااور وہ کئی دفعہ بیماری کی درخواست دیکر، شام سے رات گئے تک غیرقانونی طور پر کام کرتا، لیکن گامے کا بجٹ صحیح نہیں ہو پارہا تھا۔ کیونکہ اس کے باپ نے شہر والے مکان کی تعمیر شروع کروا دی تھی۔ اس نے ہر کمرے میں پنکھے، اپنے کمرے میں، جہاں اس نے سہاگ رات منانی تھی، کمرا ٹھنڈا کرنے والی مشین بھی لگوانی تھی۔ حتیٰ کہ اس کا ارادہ تھا، برامدوں میں بھی پنکھے لگوا ئے گا۔ اس کے باپ نے گامے کے لیے ایک بی اے پاس لڑکی بھی ڈھونڈ لی تھی۔ ان تمام کاموں کے لیے گامے کو ٹھیک ٹھاک رقم چاہیے تھی۔ وہ اپنے ٹارگٹ تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔ اب کے گامے نے
infortunio
(انفورتونیو) کا سہارا لیا۔ یعنی کام کے دوران زخمی ہونا۔ اس نے جان بوجھ کر اپنی انگلی زخمی کرلی۔ اب جب تک وہ ٹھیک نہ ہوتا اسے
INAIL
(انائیل) والوں نے پیسے دینے تھے۔ گامے کی
infortunio sul lavoro
(انفورتونیو سل لاوورو، یعنی کام کے دوران حادثہ) چھ ماہ تک چلی۔ اب وہ کچھ کچھ اپنے ٹارگٹ تک پہنچ چکا تھا۔ وہ بڑی بے دلی سے
infortunio
(انفورتونیو) بند کرا کے دوبارہ کام پر چلا گیا۔لیکن چند ماہ بعد پھر اس کی انگلی زخمی ہوگئی اور اس طرح چھ ماہ اور گزر گئے۔
گاما جہاں کام کرتا تھا انھیں شک ہوچلا تھا لیکن وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے اسے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے، کیونکہ وہ
inail
(انائیل) اور
inps
(انپس) کو ٹیکس ادا کرتا تھا۔ وہ کیا ادا کرتا تھا، سیدھے سیدھے اس کی پر سلپ
(busta baga)
(بستہ پاگا) سے کٹ جاتے۔
اب کہ جب گامے نے
infortunio
(انفورتونیو) بند کرائی تو اسے کسی نے مشورہ دیاکہ اگرتمہاری ایک انگلی کٹ جائے یا دو، تو تمہیں ساری زندگی کے لیے پیسے ملیں گے اور تم غیرقانونی طور پر کام بھی کرتے رہنا۔ گامے کو پھر چوٹ لگی۔ وہی انگلی دوبارہ زخمی ہوئی، جس پر دوبار پہلے چوٹ لگ چکی تھی۔ اب کہ اس نے علاج میں احتیاط نہ برتی کیونکہ اس نے اپنی انگلی کٹوانی تھی اور پینشن لگوانی تھی۔ گامے کی انگلی میں پس پڑگئی اور وہ اسی طرح، جہاں وہ غیرقانونی طور پر کام پر جاتا تھا، جاتا رہا۔
ایک رات گامے کو شدید تکلیف ہوئی اور اسے
pronto scorso (first aid)
(پرونتو سکورسو) لے جایا گیا اور گامے کو ہسپتال میں داخل کرلیا گیا۔ ڈاکٹروں نے گامے کے کاغذات دیکھے وہ
infortunio
(انفورتونیو) پر تھا۔ کاغذی کاروائی بالکل ٹھیک تھی۔ گاما درد سے چلا رہا تھا لیکن دل ہی دل میں خوش تھا کہ اس کی انگلی کٹ جائے گی اور پینشن لگ جائے گی۔
ڈاکٹروں نے
X-RAY
(ایکس رے) اور
SCANNING
(سکیننگ) کے بعد بتایا کہ زخم کا زہر آہستہ آہستہ بازو میں سرایت کررہا ہے اور اگر بازو نہ کاٹی گئی تو گامے کی موت واقع ہوجائے گی، وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرجائے گا۔ یہ بات سنتے ہی گامے کی آنکھوں سے یعنی چودھری غلام رسول شاہ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔
سرفراز بیگ ، اریزو

No comments:

Post a Comment