Sunday, June 9, 2013

فون، میرے افسانوی مجموعے کلندستینی سے ایک افسانہ


فون


لیوناردو دا ونچی
(Leonardo da Vinci)
بوڑھا ہورہا تھا۔ اس کے سارے دوستوں کی معشوقیں تھیں اور زیادہ تر کی شادیاں ہوچکی تھیں۔ وہ اس بات کے لیے بڑا پریشان تھا کیونکہ وہ اپنے وقت کا بہترین مصور، مجسمہ ساز اور ریاضی دان تھا۔ ان دنوں دا ونچی
(da Vinci)
ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا۔ یہ گاؤں ایمپولی
(Empoli)
سے قریب ہے۔ اس چھوٹے سے گاؤں کا نام ونچی
(Vinci)
تھا۔ اس لیے اس کا نام لیوناردو دا ونچی
(Leonardo da Vinci)
پڑگیا یعنی ونچی کا لیوناردو۔ پھر کچھ مدت بعد داونچی کے گھر والے ونچی سے نقلِ مکانی کرکے فلورنس آگئے۔ فلورنس میں کام کرنے کے بہت سے مواقع تھے۔ یہاں اس کی ملاقات میکل آنجلو
(Micalangelo)
، دوناتیلو
(Donatello)
اور رافیلو
(Rafealo)
سے ہوئی۔ آہستہ آہستہ اس کی فلورنس کے لوگوں سے جان پہچان بڑھنے لگی۔ ایک دفعہ ان چاروں دوستوں نے فلورنس کے مشہور ناچ گھر میں جانے کا ارادہ کیا۔ جہاں ان کی ملاقات ایک بہت خوبصورت لڑکی سے ہوئی۔ اس لڑکی کا نام مونا لیزا
(Monnalisa)
تھا۔ داونچی
(daVinci)
نے مونا لیزا
(Monnalisa)
کے ساتھ ناچنے کی خواہش کا اظہار کیا جو کہ اس نے تسلیم کرلی۔ اس دوران دونوں میں گفت و شنید ہونے لگی۔ انہوں نے ایک دوسرے کو اپنا اپنا ٹیلی فون نمبر دیا۔ رافیلو
(Rafealo)
، دوناتیلو
(Donatello)
اور میکلآنجلو
(Micalangelo)
کو بڑا تجسّس ہوا کہ آخرکار داونچی ایک عدد معشوقہ بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ انہوں نے اس سے مختلف قسم کے سوالات کرنے شروع کردیئے۔
ژ
اگلے دن داونچی نے سوچا کیوں نا مونا لیزا کے دیئے ہوئے ٹیلی فون نمبر کو ملایا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ نمبر وجود ہی نہ رکھتا ہو۔ اس نے نمبر ملایا۔ اُس کے ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ اچانک ایک نسوانی آواز آئی۔ داونچی جان گیا کہ یہ مونا لیزا کی آواز ہے۔ اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس کے بعد دونوں گفت و شنید میں مصروف ہوگئے۔ داونچی نے کہا، ’’ایسا ممکن ہے کہ ہم ملاقات کرسکیں‘‘۔ اس نے کہا، ’’دیکھو دا ونچی میں تمہیں جانتی تک نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ میں بہت کم عمر ہوں۔ تیسری اور آخری وجہ یہ ہے کہ میرے والدصاحب بہت سخت طبیعت کے مالک ہیں۔ اس دن، تم سے ناچ گھر میں ملاقات ہوئی، وہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ میں نے اپنے والدصاحب سے جھوٹ بولا تھا کہ میں امتحان کی تیاری کرنے اپنی سہیلی کے گھر جارہی ہوں اور رات کو اسی کے گھر ٹھہروں گی۔ اس کے باوجود انہوں نے میری گورنس کو ساتھ بھیجا تھا۔ اس لیے ہم صرف اور صرف ٹیلی فون پر بات کرسکتے ہیں۔ ایک بات یاد رکھنا، مجھے جب بھی فون کرو صبح دس بجے کے بعد اور شام کو چار بجے کے بعد۔ ایک بات اور ذہن میں بٹھالو، اگر کوئی اور رسیور اٹھائے تو بات مت کرنا، فون بند کردینا۔ دا ونچی سمجھدار آدمی تھا وہ اس کی گفتگو کا لُبِ لُباب سمجھ گیا۔
ژ
ابھی لیوناردو دا ونچی اور مونالیزا کے اس ٹیلی فونک معاشقے کو دو ہی ماہ گزرے تھے کہ داونچی کو کام کے سلسلے میں فرانس جانا پڑگیا۔ وہ صرف فرانس ہی نہیں جارہا تھا بلکہ اِس کے اُس شہر جارہا تھا جو فنکاروں کا شہر کہلاتا ہے۔ پیرس۔ لیوناردو دا ونچی نے مونا لیزا کو فون کرکے کہا کہ میں کام کے سلسلے میں پیرس جارہا ہوں کیونکہ ان دنوں اٹلی میں کام کے مواقع کم ہیں۔ مونا لیزا نے رونا شروع کردیا اور کہنے لگی، ’’دیکھو میں تمہیں منع تو نہیں کرتی بلکہ تمہیں تمہارے مقصد میں کامیابی کی دعا دیتی ہوں۔ لیکن ایک بات یاد رکھنا خود کو بُریجب اس نے اپنا ارادہ رافیلو اور میکل آنجلو پر ظاہر کیا، تو انہوں نے کہا، ’’ہم تمہارے ارادے سے متفق نہیں۔ تم اگر چلے گئے تو تمہیں بہت دکھ اٹھانے پڑیں گے۔ ہم یہ جانتے ہیں کہ عورتیں ثابت قدم نہیں ہوا کرتیں۔ تم تویہ جانتے ہو کہ یہ دنیا مردوں کی دنیا ہے۔ مونالیزا تصوراتی دنیا میں رہتی ہے، جسے عرفِ عام میں احمقوں کی جنت کہتے ہیں‘‘۔ باوجود اُن کے سمجھانے کے اس نے ان کی ایک نہ سنی۔ لیوناردو دا ونچی انتہائی عاشق مزاج واقع ہوا۔ وہ مونا لیزا کے لیے سب کچھ چھوڑ کے فلورنس واپس آگیا۔
ژ
مونا لیزا اور دا ونچی کے گھر قریب قریب تھے۔ دونوں کورسو اتالیہ میں رہتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے بہت قریب تھے۔ لیوناردو نے فلورنس پہنچتے ہی مونا لیزا کو فون کیا، ’’مونا میں ہوں داونچی۔ فلورنس سے بول رہا ہوں۔ کیا میں تم سے مل سکتا ہوں‘‘۔ مونالیزا نے بجائے خوش آمدید کہنے کے اسے عجیب و غریب خبر سنادی۔ اس نے کہا، ’’لیوناردو میں تم سے شادی نہیں کرسکتی۔ میرے کچھ گھریلو مسائل ہیں۔ مجھے معاف کردو‘‘۔ لیوناردو دا ونچی یہ سن کے پتھر کا ہوگیا۔ وہ حیران و ششدر تھا کہ یہ کیا ہوگیا۔ اس نے اپنے اعصاب پر قابو پاتے ہوئے کہا، ’’مونا، میں نے تمہارے لیے سب کچھ چھوڑ دیا۔ لندن، اپنی نوکری اور اپنے بہترین دوست، میکل آنجلو اور رافیلو۔ اب میرے پاس کچھ نہیں رہا۔ میں سب کچھ چھوڑ کے تمہارے پاس آگیا ہوں۔ اب تم یہ کہہ رہی ہو کہ مجھے معاف کردو۔ تم نے میری زندگی تباہ کردی ہے‘‘۔ ’’لیوناردو میں بہت شرمندہ ہوں لیکن میں کیا کروں۔ میں اپنے باپ کو نہیں چھوڑ سکتی۔ وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کا میرے علاوہ کوئی سہارا نہیں۔ میں اپنے باپ کے لیے اپنے پیار کو قربان کررہی ہوں۔ جب میں نے تمہیں فون پر کہا تھا کہ میں تم سے شادی کرنا چاہتی ہوں اس وقت حالات اور تھے۔ زندگی کسی اور ڈگر پر چل رہی تھی۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ اگر تم چاہو تو ہم اب بھی اچھے دوست رہ سکتے ہیں‘‘۔ لیوناردو کی دنیا اجڑ چکی تھی۔ وہ بالکل بکھر چکا تھا۔ اس نے کبھی خواب میں بھی ایسا نہیں سوچا تھا کہ اس کے ساتھ مونا لیزا اس طرح کرے گی۔ بہت مدت تک وہ اس صدمے سے باہر نہ نکلا لیکن آہستہآہستہ اس نے حالات کے ساتھ سمجھوتا کرلیا۔ وہ یہی سوچ کر خود کو ڈھارس بندھالیا کرتا، شاید میری قسمت میں یہی لکھا تھا۔ اس نے اسے معاف تو کردیا تھا لیکن دل سے نہیں کیونکہ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ دونوں اب بھی اچھے دوست تھے۔
ایک دن مونالیزا نے لیوناردو کو فون کیا اور کہا کہ ہم لوگ کورسو اتالیہ چھوڑ کے جارہے ہیں۔ ہم لوگ چیرتوزا
(Certosa)
کے پاس جارہے ہیں۔ جب یہ لوگ کورسو اتالیہ
(Corso Italia)
چھوڑ کے چیرتوزا
(Certosa)
جارہے تھے، اُن دنوں لیوناردو نے ان کی بہت مدد کی۔ اس دوران لیوناردو کا ان سے میل ملاپ اور بڑھ گیا۔ اس نے اس قربت میں ان لوگوں کی زندگی کے کئی نئے رنگ دیکھے۔ اس نے مونا لیزا کے بھی کئی نئے انداز دیکھے۔ اسے مونا لیزا، ٹیلی فون والی مونا لیزا سے مختلف لگی۔ وہ کچھ مشکوک سی شخصیت کی مالک تھی۔ لیوناردو دا ونچی کی مونا لیزا کے والدصاحب سے بڑی ہم آہنگی ہوگئی۔ یہ دونوں دوستوں کی طرح ملتے۔ مونا لیزا اور اس کے گھر والے چیرتوزا کے علاقے میں چند ماہ رہنے کے بعد اپنے کورسو اتالیہ والے گھر میں واپس آگئے کیونکہ چیرتوزا تقریباً فلورنس سے باہر تھا۔ وہ فلورنس کا مضافاتی علاقہ تھا۔ لیوناردو ان کی واپسی پر بڑا خوش تھا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ مونا لیزا اس کی نہیں ہوسکتی۔
اس طرح لیوناردو کا مونا لیزا کے گھر آنا جانا ہوگیا۔ وہ ان کے گھر اکثر آیا جایا کرتا۔ اکھٹے کھانا کھاتے، باتیں کرتے۔ اس دوران لیوناردو نے ایک بات بڑی شدت سے محسوس کی کہ مونالیزا کو ٹیلی فون سننے کا نشہ تھا۔ وہ زیادہ وقت فون کے ساتھ چپکی رہتی۔ جیسے ہی فون کی گھنٹی بجتی وہ تمام کام چھوڑ کے فون کی طرف بھاگتی۔ خواہ وہ غسل خانے میں کپڑے بدل رہی ہو، عبادت کررہی ہو، خواہ کچھ بھی کررہی ہو۔ فون اٹھا کے وہ گھنٹوں فون پر باتیں کیا کرتی۔ اُسے بالکل ہوش نہ رہتا کہ کون آیا، کون گیا۔ اس کے آس پاس کیا ہورہا ہے۔ اس کی کوئی کال ضائع نہ ہوتی کیونکہ اس نے ٹیلی فون کنکشن میں کال ویٹنگ سسٹم رکھا ہوا تھا۔ لیوناردو کو یہ بات کئی دفعہ ناگوار گزرتی لیکن خود کو تسلی دے لیا کرتا، ’’میں کون سا اس کا شوہر ہوں، یا وہ میری منگیتر ہے۔ مجھے اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔ نہ ہی میں اسکے ساتھ شادی کرنے جارہا ہوں۔ ہم تو صرف اچھے دوست ہیں‘‘۔
ژ
اٹلی میں قیام کے دوران لیوناردو کو کام کے سلسلے میں سینا
(Siena)
، پیروجا
(Perugia)
، اریزو
(Arezzo)
، ونیسز
(Venezia)
(وینس) اور پیسا
(Pisa)
جانا پڑتا۔ وہ جہاں بھی جاتا مونا لیزا کو فون کرنا نہ بھولتا۔ وہ آج تک اپنے اور مونالیزا کے اس تعلق کو سمجھ نہ پایا تھا۔ کیا یہ پیار تھا یا عشق۔ جنسی جبلت تھی یا دوستی۔ آخر کار وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔ اس نے دوبارہ لندن جانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے مونا لیزا کو اپنے اس ارادے کے بارے میں بتایا کہ وہ لندن واپس جارہا ہے کیونکہ اتنی تگ و دو کے بعد بھی وہ کوئی خاص رقم نہیں کما رہا۔ زیادہ کمائی اس کے سفری اخراجات میں ہی خرچ ہوجاتی ہے۔ اگر تم میرا ساتھ دیتیں اور مجھ سے شادی کرلیتیں تو شاید میں اچھی زندگی گزاررہا ہوتا۔ مجھ میں زیادہ پیسہ کمانے کی جستجو ہوتی۔ تمہارے بغیرمیں یہاں رہ کر کچھ نہیں کرسکتااس لیے دوبارہ لندن جارہا ہوں۔ لندن رہ کر کم از کم اتنی رقم پس انداز کرلوں گا کہ میرا بڑھاپا سکون سے گزر جائے گا۔ میں دوسرے شہروں میں کام کے لیے جاتا ہوں تو میرادھیان تمہاری طرف رہتا ہے۔ وہاں لندن میں اپنے دوستوں سے ملوں گا۔ تمہیں پتا ہے رافیلو اور میکل آنجلو نے اپنے فن پاروں کی سی ڈیز بھی بنا لی ہیں۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر ان کی ویب سائٹسز بھی ہیں۔ میں وہیں کا وہیں کھڑا ہوں۔ میں نے تو فنونِ لطیفہ کو چھوڑ ہی دیا ہے۔ مونا لیزا نے یہ لمبی تقریر سن کے رونا شروع کردیا۔ لیوناردو نے اس کی ہچکیاں سنتے ہوئے کہا، ’’تم رو رہی ہو۔ تم فکر نہ کرو۔ میں تمہیں ہمیشہ کی طرح باقاعدگی سے فون کیا کروں گا‘‘۔
لیوناردو دا ونچی ایک دفعہ پھر لندن پہنچ چکا تھا۔ اس نے دوبارہ وہیں کام شروع کردیا جہاں سے وہ چھوڑ کے گیا تھا۔ رافیلو اور میکل آنجلو اس سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے اسے مشورہ دیا کہ مونا لیزا کو بھول جائے۔ تمہیں کوئی اور مل جائے گی۔ رافیلو نے کہا، ’’میں ایک لڑکی کو جانتا ہوں۔ اس کا نام ہے لا ویلاتا
(La Velatta)
۔ میں تمہیں اس کا نمبر دیتا ہوں۔ تم اس سے پوچھ کر دیکھو۔ اگر وہ تمہیں اچھی لگی اور تم اُسے پسند آگئے توتم اسسے شادی کرلینا۔ لیوناردو نے انکار کردیا کیونکہ وہ بڑا پریشان تھا۔ اس کی پریشانی کی وجہ اس دفعہ مونا لیزا نہیں بلکہ برٹش گورنمنٹ تھی۔ انہوں نے اسے نوٹس بھیجا تھا کہ تم پچھلی دفعہ بھی جب اٹلی واپس گئے تھے تو ہم سے اجازت لے کر نہیں گئے تھے۔ اس لیے تم لندن میں کام تو کیا، رہ بھی نہیں سکتے۔ تمہیں لندن چھوڑنا ہوگا۔ اس نے اپنی رام کہانی مونا لیزا کے والدصاحب کو سنائی۔ وہ اثر رسوخ
والے آدمی تھے، لیوناردو کا خیال تھا کہ وہ اس کی اس سلسلے میں مدد کریں گے لیکن انہوں نے کہا، اٹلی واپس آجاؤ۔ میں تمہارے لیے کچھ نا کچھ ضرور کروں گا۔ لیکن مونا لیزا نے کہا، خبر دار! میرے والد صاحب کی باتوں میں بالکل نہ آنا۔ تم وہیں پر ہی رہو۔ بھلے تمہیں وہاں غیرقانونی طور پر ہی کیوں نا رہنا پڑے۔ اٹلی واپس مت آنا۔ لیوناردو پیار کرنے کی قیمت چکا رہا تھا۔ حتیٰ کہ وہ کئی لوگوں کا قرض دار بھی تھا۔
ژ
آخرکار لیوناردو ایک بار پھر فلورنس واپس آگیا۔ اسی گلی میں، کورسو اتالیہ میں۔ وہ آتے ہی مونا لیزا سے ملا۔ وہ اسے دیکھتے ہی رونے لگی اور کہنے لگی، ’’سارا قصور میرا ہے۔ میں نے تمہاری زندگی تباہ کردی‘‘۔ جب لیوناردو اس کرب سے گزر رہا تھا، سارا فلورنس شہر دیکھ رہا تھا، اس کی بے بسی پر ہنس رہا تھا۔ آخرکار لیوناردو کی بہن کامل پالیہ
(Camile Paglia)
سے اپنے بھائی کی یہ حالت دیکھی نہ گئی۔ اس نے لیوناردو سے کہا، ’’تمہاری تکلیف کا ایک ہی حل ہے، تمہاری شادی کردی جائے۔ اس طرح تمہاری زندگی میں ایک نیا رنگ آجائے گا۔ تم شادی کرلو اور نئی زندگی شروع کردو۔ لندن اور پیرس کو بھول جاؤ۔ تم یہاں فلورنس میں بھی اچھے خاصے پیسے کما سکتے ہو۔ آخر کو تم فن کار ہو۔ مصور ہو‘‘۔
لیوناردو کی بہن اور اس کے والد صاحب نے اس کے لیے جو سب سے پہلا رشتہ دیکھا، وہ تھا مونا لیزا کا۔ جب انہوں نے مونا لیزا کے والد صاحب سے مونا لیزا کا ہاتھ لیوناردو کے لیے مانگا تو انہوں نے فوراً ہاں کردی۔ یہ جان کر مونا لیزا اور لیوناردو دونوں بڑے خوش ہوئے۔ وہ یہ جان کر اور بھی حیران ہوئے کہ ان کے معاشقے کے بارے میں مونا لیزا کے والد صاحب بھی جانتے تھے۔ انہوں نے مونا لیزا سے اس لیے نہیں پوچھا کیونکہانہیں بارہا یہ خیال آتا، ہوسکتا ہے میرا تجزیہ غلط ہو۔ وہ لیوناردو کو بہت پہلے سے بڑی اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔ لیکن ایک اچھے انسان کے ناطے سے نہ کہ ایک دامادکی نظر سے۔ لیوناردو نے رافیلو اور میکل آنجلو کو فون کیا اور دوناتیلو کو بھی بتایا۔ رافیلو اور میکل آنجلو دونوں اپنی اپنی بیویوں کے ساتھ فلورنس آ دھمکے۔ لیوناردو کو یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی کہ رافیلو کی بیوی لاویلاتا تھی۔
لیوناردو نے اپنے گھر والوں سے درخواست کی کہ وہ اپنی شادی ہندوستانی انداز میں کرے گا۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ یہ ہندوستانی انداز کی شادی کیا ہوتی ہے۔ لیوناردو نے بتایا کہ جب وہ لندن میں رہتا تھا وہاں اس کی ملاقات کئی ایشیائی لوگوں سے ہوئی۔ اس نے چند ایک ہندوستانی اور پاکستانی شادیوں میں بھی شرکت کی۔ ان کی شادی کی تقریبات ہم سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ ان کے ہاں سب سے پہلے رسمِ حنا ہوتی ہے۔ جسے عرفِ عام میں مہندی کہتے ہیں۔ یہ لڑکے اور لڑکی کی علیحدہ علیحدہ بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن آجکل لوگ بچت کے لیے مل کر بھی کرلیتے ہیں۔ اسی طرح دو دن گزر جاتے ہیں۔ پھر اس کے بعد لڑکے والے بارات لے کر لڑکی والوں کے گھر آتے ہیں یا جہاں بھی انہوں نے انتظام کیا ہوتا ہے۔ بہت سی رسومات کے بعد لڑکی والے لڑکے والوں کو کھانا دیتے ہیں۔ بارات کی تقریب زیادہ تر رات کو ہی ہوتی ہے۔ اس کے بعد اگلے دن لڑکے والے دعوت ولیمہ پر سب لوگوں کو بلاتے ہیں۔
لیوناردو کی ہندوستانی انداز والی شادی کی تجویز سب کو بڑی پسند آئی۔ دونوں گھرانوں نے ویردی تھیٹر
(Verdi theatre)
کے پاس ایک بہت بڑا ہال بک کروایا۔ اس کو بہت اچھے طریقے سے سجایا گیا۔ اس کے علاوہ موسیقی کا بھی انتظام کیا گیا۔ ایک طرف مونا لیزا کے گھر والے اور اس کی سہیلیاں موسیقی اور ناچ گانے سے لطف اندوز ہو رہی تھیں اور دوسری طرف لیوناردوداونچی کے گھر والے اور اس کے دوست احباب رقص و سرور میں محو تھے۔ اس کی شادی کی تقریب میں رکی مارٹن
(Rickey Martin)
اور ترکی کے مشہور پوپ سنگر تارکان
(Tarkan)
کے گانے بڑے جوش و خروش کے ساتھ سنیگئے۔
مونا لیزا پیلے رنگ کا لباس پہنے ہوئے بہت اچھی لگ رہی تھی۔ اس کے پورے جسم پر ابٹن مل دی گئی تھی۔ اس کی کچھ سہیلیاں مہندی سے اس کے ہاتھوں پر مختلف قسم کے نقش و نگار بنارہی تھیں۔ دوسری طرف لیوناردو بسنتی رنگ کے شلوار قمیص میں بہت بھلا لگ رہا تھا۔ یہ رنگا رنگ تقریب بخیر و عافیت اپنے انجام کو پہنچی۔
دوسرے دن باقاعدہ شادی کی تقریب تھی۔ مونا اور لیوناردو کے گھر والے اور تمام مہمان فلورنس کے مشہور گرجا گھر، سنتا ماریہ نوویلا
(Santa Maria Nouvella)
پہنچ چکے تھے۔ پادری نے بائبل کی چند سطریں پڑھیں اور اس کے بعد ان دونوں کو لیوناردو اور مونا لیزا کے بجائے میاں اور بیوی کے نام سے پکارا۔
ژ
ان دونوں کی سہاگ رات کا انتظام پیرس کے مشہور ہوٹل رِٹز
(Ritz)
میں کیا گیا تھا۔ یہ مونا لیزا کے والدصاحب کی طرف سے ان دونوں کی شادی کا ایک تحفہ تھا۔ مونا لیزا اور لیوناردو دونوں کمرے میں داخل ہوئے۔ یہ کمرہ دنیا کے تمام کمروں سے زیادہ خوبصورت تھا۔ وہ دونوں یہ کمرہ دیکھ کر حیران رہ گئے۔
لیوناردو، مونا لیزا سے مخاطب ہوا، ’’میرے پاس تمہارے لیے ایک خاص تحفہ ہے‘‘۔ اس نے مونا لیزا کو تحفہ پیش کیا۔ اس نے بنا شکریہ کہے جلدی سے تحفہ کھول کر دیکھا۔ یہ ایک موبائیل فون تھا۔ مونا نے لیوناردو سے کچھ نہ کہا۔ اس نے پرس سے اپنی سِم نکالی اور موبائیل کو کھول کر اس میں سِم ڈالنے لگی تو لیوناردو نے کہا، ’’اسے چوبیس گھنٹے چارج کرنا پڑے گا۔ مونا نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، جھٹ سے موبائیل چارجنگ پر لگا دیا اور لیوناردو کے موبائیل میں اپنی سِم ڈال دی۔ جیسے ہی اس نے سِم ڈالی۔ لوگوں کے فون آنے شروع ہوگئے۔ وہ بڑی دیر تک باتیں کرتی رہی۔ اس دوران لیوناردو کی آنکھ لگ گئی۔ چار بجے صبح جب لیوناردوایک لمحے کے لیے جاگا تو اس وقت بھی مونا لیزا فون پر کسی سے بات کررہی تھی۔
ژ
چند سال بعد
اب مونا لیزا اور لیوناردو، سینا شہر منتقل ہوچکے تھے۔ فون بج رہا تھا، مونا نے رسیور اٹھایا اور کہا، ’’تم مجھے دس بجے کے بعد اور ایک بجے سے پہلے فون کرنا۔ اس وقت میرا خاوند کام پر ہوتا ہے۔ ‘‘
ژ

بیس سال بعد
اب مونا لیزا اور لیوناردو، پیروجا رہنے لگے تھے۔ ٹیلی فون کی گھنٹی بج رہی تھی۔ مونا نے فون اٹھایا اور کہا، ’’تم صرف اسی وقت بات کیا کرو۔ جب میں فون اٹھایا کروں، کیونکہ میرا بیٹا اور خاوند بالکل پسند نہیں کرتے کہ میں کسی سے فون پر بات کروں۔ ‘‘
ژ
تیس سال بعد
اب مونا لیزا اکیلی ہے۔ روم شہر اسے کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ لیوناردو اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اب اس کی عمر ستّر سال ہوچکی ہے۔ اب اس کی ایک پوتی اور پوتا بھی ہے۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ اس کا پوتا اسے تنگ کرتا ہے لیکن وہ بالکل پرواہ نہیں کرتی۔ مسلسل فون پر باتیں کرتی رہتی ہے۔
ژ
مرنے کے بعد
مونا لیزا اپنی قبر میں لیٹی ہے۔ دو فرشتے آکے سوال کرتے ہیں۔ فون کی گھنٹی بجتی ہے اور وہ فرشتوں کے سوالات کے جواب دینے کے بجائے فون پر باتیں کرنے لگتی ہے۔
ژ
خدا کے سامنے
مونا لیزا کو خدا کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ اسے دو فرشتوں نے پکڑا ہوا ہوتا ہے۔ وہکہتے ہیں، ’’حضور اس کی نیکیاں اور بدیاں دونوں برابر ہیں۔ اسے ہم جنت میں چھوڑ آئیں یا جہنم میں پھینک دیں۔‘‘ ابھی وہ گفت و شنید کرہی رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی بغل میں پڑا ہوا ٹیلی فون سیٹ بجنے لگتا ہے۔ ابھی اللہ تعالیٰ رسیور اٹھانے ہی لگتے ہیں کہ مونا لیزا فرشتوں کی گرفت سے خود کو آزاد کراکے رسیور اٹھانے کے لیے بھاگتی ہے اور زور زور سے چلانا شروع کردیتی ہے۔ میرا فون ہوگا۔ رسیور مت اٹھانا۔ میرا فون ہوگا۔ مونا لیزا کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے سرہانے رکھا ٹیلی فون بج رہا تھا۔ اس نے رسیور اٹھایا اور رسیور اٹھاتے ہی خدا کا شکر ادا کیا کہ یہ خواب تھا۔

SARFRAZ BAIG, AREZZO, ITALY

No comments:

Post a Comment