Sunday, June 9, 2013

الٹے بانس بریلی کے ,میرے افسانوی مجموعے دہریہ سے ایک افسانہ


الٹے بانس بریلی کے

جانی کی بڑی بہن پشاور شہر میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹایا کرتی ۔ قسمت کی ستم ظریفی تھی کہ جانی کا باپ آنکھوں سے دیکھ نہیں سکتا تھااور جانی کی بہن کسی معذوری کی وجہ سے چھوٹی رہ گئی تھی۔ اس کا قد نہ بڑھ سکا لیکن وہ جوان ہوچکی تھی۔ اس کے تمام نسوانی خطوط نمایاں ہوچکے تھے۔ یہ دونوں باپ بیٹی پشاور کی گلی گلی گھوم کے بھیک مانگا کرتے اور اس خیرات سے پورے گھر والوں کا پیٹ پلتا۔ خدا نے ان کے نصیب میں کچھ ایسا ہی لکھ دیا تھا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ وہ خود اپنا نصیب بدلنے کے لیئے ہاتھ پاؤں نہیں ہلاتے تھے۔یہ طریقہ انہیں آسان لگا اس لیئے اس طریقے کو اپناتے ہوئے ہوئے زندگی کی ڈور کو آگے بڑھانے لگے۔
ایک دن کیا ہوا ،یہ دونوں باپ بیٹی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ کسی عورت کی ان پے نظر پڑی۔ وہ عورت پنڈی کی رہنے والی تھی۔وہ اپنے کسی ذاتی کام سے پشاور آئی ہوئی تھی۔ اس نے انہیں دیکھتے ہی روک لیا۔ وہ سمجھے کچھ خیرات کرنا چاہتی ہے۔ اس لیئے رُک گئے۔ اس عورت کے مزاج میں مزاح کا عنصر زیادہ تھا اس لیئے پہلے تو وہ ہنسی لیکن پھرسنجیدہ ہوگئی۔ اسی اثناء وہ لڑکی جس کا قد چھوٹا تھا بولی، ’’عجیب رن اے، وت ہنسدی کیوں وے، گر خیرات دینڑی آ تے دے ۔اینویں مخول کیوں پی کرنی ایں۔منے کہہ اے وت سُنڑیئی‘‘۔ (عجیب عورت ہو۔کیوں ہنس رہی ہو، اگر خیرات کرنی ہے تو کرو ۔ہمارا تمسخر مت اڑاؤ۔میں کہتی ہوں تم نے سنا ہے کہ نہیں)۔ اس عورت نے کہا، ’’تم ناراض مت ہو۔تمہیں دیکھ کر میرے دل میں ایک خیال آیا تھا۔اس لیئے تمہیں روک لیا۔ اس کے بعد ایک اور خیال
نے مجھے چونکا دیا۔ اس لیئے میں اپنی ہنسی پے قابو نہ رکھ سکی‘‘۔ وہ کہنے لگی، ’’وت بجارتانہ پااَصُل گل کر‘‘۔ (پہلیاں مت بجھواؤ۔اصل بات بتاؤ) ۔اس عورت نے کہا، ’’تمہارے لیئے ایک لڑکا ہے۔ اگر تم شادی کرنا چاہوتو‘‘۔ لڑکی نے غصے سے کہا، ’’شکل سی پلی مانس نظُر آنی ایں پر گلاں فضول پیئی کرنی ایں‘‘(شکل سے تو معقو ل عورت نظر آتی ہو لیکن باتیں فضول کررہی ہو)۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ اس کے باپ نے ، جو دیکھ نہیں سکتا تھا ،بیٹی کا ہاتھ دبا دیا۔ اس کامطلب تھا چپ کرو۔ پھر وہ بولا، ’’تیئے وت چُپ کر ، کے ہویاجی اسی فقیر آں ۔ہے تے تو پرایا مال ایں۔وت کوئی گل بنڑدی اے تا کوئی حَرُج نی گا‘‘(بیٹی چپ کرو۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم فقیر ہیں لیکن ایک دن تمہاری شادی کرنی ہی ہے۔ اگر کوئی بات بن جائے تو کوئی حرج نہیں)۔ اس عورت نے بات بنتی ہوئی دیکھی تو کہا،’’آپ لوگ اپنا پتہ بتائیں۔میں لڑکے والوں کو لے کر آجاؤں گی۔ اگر انہوں نے ہاں کردی تو سادگی سے نکاح کرکے لے جائیں گے۔ اس آدمی نے اس عورت کو اپنا ایڈریس بتایا کہ فلاں فلاں محلہ اور گلی نمبر ہے۔
***************
وہ عورت لڑکے والوں کو لے کے اندھے فقیر کے بتائے ہوئے پتے پے پہنچ گئی۔ وہ لوگ لڑکے کو بھی ساتھ لائے تھے۔ لڑکے کے ساتھ بھی وہی مسئلہ تھا جو لڑکی کے ساتھ تھا۔ اس طرح دونوں رشتہءِ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔
یہاں میں ایک بات بیان کرنا چاہوں گا ۔پشاور میں دو طرح کے لوگ آباد ہیں۔ (ویسے تو کئی اقسام ہیں)۔ایک وہ جو پشوری کہلاتے ہیں لیکن پٹھان نہیں ہوتے ۔ہندکو بولتے ہیں۔ اور دوسرے ظاہر ہے پٹھان ،جو پشتو بولتے ہیں۔دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ یہ لوگ گو کہ فقیر تھے لیکن پشوری تھے۔ہندکو بولنے والے۔ ان پشوریوں کی ایک عادت بڑی عجیب ہوتی ہے۔ جہاں بہنوں کی شادیاں کرتے ہیں وہاں ضرور جا کے رہتے ہیں اور ایسے قیام کرتے ہیں کہ واپس آنے کا
نام نہیں لیتے۔ بالکل اسی طرح اس محترمہ کے ساتھ ہوا۔ اس کی شادی پنڈی کیا ہوئی جانی صاحب بھی جہیز میں آگئے۔ اس ساری کہانی کو بیان کرنے کا مقصد جانی صاحب کی پنڈی آمد کے متعلق تھا۔
جانی صاحب کی بہن تو اپنی گزشتہ زندگی بھول کر اپنی نئی زندگی میں گم ہوگئی۔ اس کے شوہر نے اپنے سالے کو بھی مکان کے نچلے حصے میں کمرہ دے دیا۔ آپ اسے بیٹھک کہہ سکتے ہیں۔ جانی خوبصورت تھا،جوان تھا اورچرب زبان بھی۔ بس ایک میں ایک ہی خامی تھی کہ وہ ذرا چھوٹے قد کا تھا لیکن یہ اس کا عیب نہیں تھا۔ جانی کو رہنے کی جگہ مل گئی۔تین وقت کا کھانا مل جاتااور کبھی کبھی کچھ پیسے بھی مل جاتے۔ لیکن اس کی غیرت نے گوارہ نہ کیا اور اس نے کام کے لیئے ہاتھ پاؤں مارنے شروع کردیئے۔ اسے کچہری میں منشی کی نوکری مل گئی۔ اس نے وہاں رہ کر سارا کام سیکھا۔ پہلے تو وہ دوسرے لوگوں کے پاس ’’چھوٹے ‘‘ کا کام کرتا رہا لیکن بعد میں اپنا اڈا بنالیا۔
شام کو جب کام سے واپس آتا تو اپنی بیٹھک میں بھی چھوٹے موٹے کام کردیا کرتا۔ جانی کی آمدن اچھی تھی لیکن نہ جانے اس نے گھربسانے کا کبھی کیوں نہ سوچا۔ جب بہن نے دیکھا کہ جانی شادی میں دلچسپی نہیں لیتا تو اس نے اصرار کرنا ہی چھوڑ دیا۔
جانی تھوڑی ہی مدت میں پورے محلے میں مشہور ہوگیا۔ محلے کے لوگ چھوٹے موٹے کاموں کے لیئے اس کے پاس آتے۔اس کی شہرت دیکھ کر محلے کے کونسلر نے اسے اپنا سیکریٹری مقرر کرلیا۔ اس طرح جانی سیکریٹری مشہور ہوگیا۔ صبح کچہری جاتا ،شام کو سیکریٹری کے فرائض انجام دیتا۔ اس طرح زندگی گزرنے لگی۔ آہستہ آہستہ وہ مسجد کمیٹی کا بھی صدر بن گیا پھر نعت خوان کمیٹی کا صدر بنا۔ جانے نے اپنا دل پنڈی میں اس طرح لگا لیا کہ وہ پشاور کو بھول ہی گیا۔
جانی کے مالی حالات اتنے اچھے تھے کہ وہ اپنا مکان خرید سکتا تھا لیکن جب بھی کوئی اس سے پوچھتا تو کوئی خاطر خواہ جواب نہ دیا کرتا۔ ایک طرف جانی کی بہن کو تجسس تھا کہ میرا بھائی اپنی کمائی
کا کیا کرتا ہے دوسری طرف محلے والے بھی اس بات پے حیران تھے کہ جانی اتنے پیسوں کا کرتا کیا ہے۔وہ کچہری سے بھی ایک معقول کما کر لاتا تھا اور کونسلر بھی اسے کچھ نا کچھ مل جاتا تھا۔ وہ لوگوں کے کئی ایسے کام بھی کردیا کرتا جن کا ہونا ناممکن ہوتا۔
لوگوں کو آہستہ آہستہ شک ہونے لگا کہ جانی یا تو نامرد ہے اگر نامرد نہیں تو اس کی رغبت اغلام بازی کی طرف ہے۔ اس لیئے وہ شادی نہیں کرتا اور نہ ہی ا س نے رقم پس انداز کی ہے۔ کئی لوگوں نے اسے سیروز سینما کے سامنے بھی دیکھا۔ وہاں وہ اکثر جاتا۔ اس کے بارے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں کہ جانی سیروز سینما جاکر خوبصورت لڑکوں کو اپنے جال میں پھنساتا ہے اور ا س کے بعد ان سے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اس کام کے لیئے وہ انہیں معقول رقم ادا کرتا ہے۔
جانی سے کبھی کوئی پوچھتا کہ تم سیروز سینما کیا کررہے تھے تو جواب دیا کرتا کہ ایک وکیل کا انتظار کررہا تھا۔ جانی نے محلے میں کبھی بھی ایسی کوئی حرکت نہیں کی جس سے اس بات کا ثبوت ملتا کہ وہ ہم جنس پرست ہے لیکن کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔
***************
اب تو محلے والوں کو یقین ہوچلا تھا کہ جانی ہم جنس پرست ہے ۔پہلے انہیں شک تھا۔ جانی کی سرگرمیاں اتنی تعمیری اور اچھی تھیں کہ کسی کو بھی جرأت نہ ہوتی کہ اس سے اس بارے میں بات کرے۔ حتیٰ کہ یہ بات جانی کے کانوں تک بھی اڑتی اڑتی پہنچی۔لیکن اس نے کبھی کسی کی بات پے کان نہ دھرے۔ وہ اپنی دھن میں مگن رہتا۔
آج چھٹی کا دن تھا جانی چھٹی والے دن ہمیشہ دیر سے اٹھتا اور شام کو لوگوں وغیرہ سے ملتا۔آج وہ ناشتے کے لیئے بھی نہ نکلا۔ اس کی بہن نے سوچا شاید بہت تھکا ہوا ہے اس لیئے ابھی تک سو رہا ہے۔ لیکن دوپہر ہوچلی تھی اور اس کی بیٹھک کا دروازہ بند تھا۔ قریباًدن کے دو بجے ہوں گے۔ گلی میں
کچھ بچے کرکٹ کھیل رہے تھے۔ ان میں سے ایک لڑکا بال کو کیچ کرتے ہوئے دھڑام سے جانی کی بیٹھک کے دروازے کے ساتھ ٹکرایا۔ دروازے کے دونوں پٹ کھل گئے اور وہ لڑکا اندر گر گیا۔ اس نے خود کو سنبھالا، جب اس کی نظر چارپائی پر پڑی تو حیران رہ گیا۔جانی خون میں لت پت بے سدھ پڑا ہے۔ کمرے کا سارا سامان غائب ہے۔لڑکوں نے فوراً اس کی بہن کو بتایا ۔سارے لوگ اکھٹے ہوگئے۔جانی ابھی سانس لے رہا تھا۔اسے فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی حالت کافی نازک تھی۔لیکن اس کا اثر ورسوخ کام آیا۔ جانی دو دن میں ٹھیک ہوکے گھر واپس آگیا۔ لیکن وہ اتنا کمزور ہوگیا تھا کہ ٹھیک سے چل بھی نہیں سکتا تھا۔ ڈاکٹروں نے اس بات کو صیغہءِ راز رکھا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ جانی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
چند دنوں تک جانی کے بارے میں باتیں ہوتی رہیں لیکن پھر آہستہ آہستہ لوگ اس بات کو بھول گئے۔ اس واقع کے بعد ایک تبدیلی ضرور آئی۔جانی جو بھی پیسے کماتااپنے ضروری اخراجات کے علاوہ ساری رقم بینک میں جمع کروادیا کرتا۔ اس نے اپنی بہن سے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہ شادی کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات کونسلر بھی جانتا تھا۔ نعتیہ کمیٹی کے ممبران بھی جانتے تھے اور مسجد میں بھی لوگ اس بات سے واقف تھے۔
ایک سال کے عرصے میں جانی نے اپنا گھر خریدا، شادی کی ۔اب جانی کے دو بچے ہیں لیکن بیٹھک والی بات کیا تھی یہ راز کوئی نہ جان سکا۔
SARFRAZ BAIG (baigsarfraz@hotmail.com)
arezzo 22/11/2006


No comments:

Post a Comment