Thursday, September 5, 2013

اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، ab to koye pochta hi nahi, achi lagti hay. sarfraz baig




اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میر ی لامبی زلفیں جب لہراتی تھیں تو گھٹا چھا جاتی تھی
جب سے آئی ہے ان میں چاندی اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میری آنکھیں تھیں نشیلی اور ہونٹ تھے گلابی
دھنس گئیں آنکھیں، لالی بھی گئی، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میری ناک تھی ستواں اور گالوں پے تھی لالی
نہ ناک ہے ستواں، گل بھی پچکے، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

چہرہ تھا میرا ایسا جیسے شاعر کی غزل ہو
اب تو جھریوں سے بھرا،اب توکوئی پوچھتا ہی نہیں

میرا جسم تھا ایسا، پیراہن پھنس پھنس جاتے تھے
اب تو کفن میں لپٹا ہوا ڈھانچا ہوں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میرے کاندھے پے تل نشاں شاعروں کی تشبیہ تھا
اب بدنماں داغ لگے، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میرے جسم پے پھیلی ہوئی سبز و نیلی رگوں کا جال
اب بد صورتی کا پیکر لگتا ہے ، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میرے سینے کے زیر وبم، انگیاء سے باہر کو جھانکتے تھے
اب مرجھائے ہوئے ،لٹکے ہوئے ہیں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میں نے بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی تک کتنے سورماؤں کو زیر کیا
اب خود شکست خوردہ ہوں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میں جو چلتی تھی تو راستہ بھی جھوما کرتا تھا
اب لاٹھی سے چلوں تو لڑکھڑاوں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میں نے کتنے پیار سے اپنے خون سے سینچا اپنے بچوں کو
اب وہ آباد اور شاد ہیں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میں جو ہنستی تھی تو دانت موتی کی طرح چمکتے تھے
اب جو ہنسوں تو دانت ہی گر جائیں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

ٹانگیں تھی سڈول، جسم تھا گداز، بینائی تھی ٹھیک
کانپتی ٹانگیں، ہاتھوں میں رعشہ، کمزوربینائی، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

اک آنکھ کے اشارے پے کئی جواں دوڑے چلے آتے تھے
اب تو بوڑھے بھی نظر پھیر لیتے ہیں، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

میں کس پیار سے اپنے جسم کو زیور سے سجاتی تھی
اب تو زیور بھی بوجھ لگے، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

یہ جواں لڑکیاں اٹھلاتی، بل کھاتی، بن سنور کے آتی جاتی ہیں
بڑھاپے میں یہ بھی کہیں گی، اب تو کوئی پوچھتا ہی نہیں

سرفراز بیگ۔۔۲۰۰۴۔۔۰۸۔۱۹ اریزو، اٹلی
فلورنس کے ایک سٹور esselunga میں ایک بوڑھی عورت سے چند باتیں کرنے کے بعد اس سے متاثر ہوکر لکھی گئی نظم

No comments:

Post a Comment