Wednesday, September 4, 2013

ideal ki talash, achi lagti hay, sarfraz baig, آئیڈیل کی تلاش، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



آئیڈیل کی تلاش

وہ ہمیشہ آئیڈیل کی تلاش میں رہا
اسے کئی لوگ ملے
اچھے برے
لیکن وہ آئیڈیل نہ تھے
اسے تو کسی اجلے چہرے کی تلاش تھی
جو نہ صرف ظاہراً
بلکہ باطناً
اجلا و شفاف ہو
وہ اپنے آئیڈیل میں سب کچھ برداشت کرسکتاتھا
لیکن جھوٹ نہیں
بھلے سچ کتنا ہی کڑوا کیوں نہ ہو
آخر اسے ایک شخص ملا
جو اسے اپنی کھینچنے لگا
شایداس کا آئیڈیل تھا
اس میں وہ تمام خوبیاں تھیں
جن کا وہ تصور کرتا تھا
آہستہ آہستہ دونوں میں
قربت بڑھنے لگی
قربتیں اتنی بڑھیں
کہ عمر بھر ساتھ رہنے کا وعدہ کرلیا
وہ لفظوں کو سچ سمجھتا تھا
ان کی حرمت کا پاس کرتا تھا
ان کے وجود کو تسلیم کرتا تھا
اس نے لکھے کو سچ مانا
اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں سے
بھنور میں دھکیلتا چلاگیا
صرف اورصرف
اپنے آئیڈیل کے لیئے
آخرکار وہ دونوں اتنے قریب آئے
دونوں کی اچھائیاں، برائیاں
نظر آنے لگیں
اس کا آئیڈیل
کئی رنگوں کا تھا
ہر روز نیا رنگ بدلتا
کچھ رنگ اچھے کچھ برے
پھر مجبوریاں آڑے آئیں
اور ساتھ رہنے کا وعدہ ٹوٹ گیا
لیکن آئیڈیل پھر بھی وہیں تھا
بھلے بندھن میں نہ بندھے
لیکن ساتھ ساتھ رہے
پھر اسے اپنے آئیڈیل کا
وہ رنگ نظرآیا
جس سے اسے سخت نفرت تھی
وہ تھا
’’جھوٹ‘‘
اور اس طرح
آئیڈیل کی موت ہوگئی
کانچ کے برتن کی طرح
اس کا دل چکنا چور ہوگیا
اتنے ٹکڑے ہوئے کہ سمیٹنے مشکل ہوگئے
اب اسے کسی آئیڈیل کی تلاش نہیں

سرفراز بیگ۔ ۱۹۹۹۔۱۲۔۳۱ راولپنڈی

No comments:

Post a Comment