Wednesday, September 4, 2013

میں کب یہ کہتا ہوں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، mein kab yeh kehta hon, achi lagti hay, sarfraz baig



سب کو فنا ہونا ہے

میں کب یہ کہتا ہوں ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۷
کہ تم اِک پھول کی طرح
کسی کے کوٹ کے کالر میں
سجی رہو
اور پھر مرجھا جاؤ
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی، مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
کہ تم اِک تصویر کی طرح
کسی ایک فریم میں رہو
کسی عالی شان گھر کی دیوار پر
سجی رہو
اور پھر اپنے رنگ کھو بیٹھو
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
کہ تم اک کرسی کی طرح
کسی گھر کے اک کونے میں پڑی رہو
اور پھر تمھارا رنگ و روغن ماند پڑجائے
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
کہ تم کسی بیوی کی طرح
کسی ایک شخص کے استعمال میں رہو
گھر کی زینت بنو
اور بچے پیدا کرو
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہوں
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
کہ تم کسی سچ کی طرح
تم ہمیشہ جھوٹ بولو
اور بااعتماد بنو
اور خدشات سے دور رہو
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
تم کسی معشوق کی طرح
ایک شخص سے عشق کرو
اْس کا خواب و خیال بنو
اْس کی تشبیہہ و استعارہ بن جاؤ
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتاہوں ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۹
کہ تم اک یاد کی طرح
میرے سینے میں دھڑکتی رہو
اور کسک بن جاؤ
اور میٹھے درد کا باعث بنو
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

میں کب یہ کہتا ہوں
کہ تم کسی مومن کی طرح
کسی ایک خدا پے یقین کرو
اور موحد بن جاؤ
اور جنت کے لارے پے رہو
لیکن آخر کب تک
سب کو فنا ہونا ہے
تمہیں بھی مجھے بھی

سرفراز بیگ ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۷ تا ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۹ راولپنڈی


No comments:

Post a Comment