Wednesday, September 4, 2013

mein janta hon, achi lagti hay, sarfraz baig, میں جانتا ہوں اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



میں جانتا ہوں

میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
کسی خط کے انتظار میں رہتا ہوں
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
پرانی تحریروں میں تمہیں تلاش کرتا ہوں
ذہن کے نہاں خانوں میں پرانی باتیں دھراتا ہوں
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
فضاؤں میں تمہاری بازگشت سنائی دیتی ہے
تمہاری مترنم آواز کانوں میں رس گھولتی ہے
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
تنہائی میں کسی کے قدموں کی آہٹ سنتا ہوں
اور اکیلے میں تمہاری شبیہہ دکھائی دیتی ہے
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
اک امید پے جیئے جاتا ہوں میں
اور اک انجانا خوف بھی ہے مجھ کو
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
تمہارے ساتھ جینے کے کواب دیکھتا ہوں
اور تمہارے چھن جانے کا خیال بھی ہے مجھ کو
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں
ہر لمحہ تمہیں یاد کرتا ہوں
اور تمہاری طرف سے اک عجب سرد مہری ہے
میں جانتا ہوں
اک مدت سے ہمارا کوئی ربط نہیں
پھر بھی نہ جانے کیوں

سرفراز بیگ ۱۹۹۹۔۰۴۔۱۹ پیرس

No comments:

Post a Comment