Monday, September 2, 2013

سراب، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، SARAB, ACHI LAGTI HAY, SARFRAZ BAIG




سراب

سراب دَر سراب دَر سراب آئے
ان سرابوں سے پرے سراب تھی وہ

ہم جسے عمر بھر عشق کرتے رہے
اْس کے پاس جو پہنچے، سراب تھی وہ

تا عمر جِس زر کے پیچھے بھاگتے رہے
اْس کو پا کے جانا، سراب تھی وہ

کتنے لوگ مرگئے اِس زمیں کے لیئے
دو گز زمیں ملی ، باقی سراب تھی وہ

پتھر کی مورت کو پوجتے رہے تا عمر
گِر کے ٹوٹ گئی، سراب تھی وہ

دنیا کی رونقوں میں اتنے محو تھے ہم
موت آئی تو جانا، سراب تھی وہ

سرفراز بیگ ۰۱۔۰۲۔۱۹۹۹ پیرس

No comments:

Post a Comment