Wednesday, September 4, 2013

woh, achi lagti hay, sarfraz baig, وہ، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



وہ

لامبی کالی زلفوں سے گزرتی مانگ
جیسے درختوں کی قطار میں سڑک
گورے بدن پے دوڑتی رگیں
جیسے سمندر کا گہرا نیلا پانی
چہرے پے اتنی سادگی اور معصومیت
جیسے رحمان بابا کی شاعری
اور چلتے ہوئے کمر ایسے بل کھائے
جیسے گھاس پے سانپ چلے
اتنی ذہین و فطین و فرزانہ
جیسے عصرِ حاضر کا کوئی فلسفی
اتنی مترنم و لوچ دار آواز
جیسے کسی وادی میں جلترنگ بجے

سرفراز بیگ۔ ۱۹۹۹۔۰۲۔۲۱ پیرس



No comments:

Post a Comment