Thursday, September 5, 2013

hotay hein, achi lagti hay, sarfraz baig, ہوتے ہیں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




ہوتے ہیں

جلتی بلتی گلیوں میں ، بازاروں میں گھوم کے دیکھو
اندھیری گلیاں اور مٹی کے گھر بھی ہوتے ہیں

کچھ لوگ تو اچھے کپڑوں میں ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں
اور کتنے لوگ اسی شہر میں بھوکے پیٹ بھی سوتے ہیں

پھٹے پرانے کپڑوں والے لوگوں پے کیوں ہنستے ہو
تم کیا جانو ان میں کچھ سادھو سنت بھی ہوتے ہیں

دنیا کی گہما گہمی میں لوگوں میں رہ کر ہنستے ہیں
جب سارا عالم سوتا ہے، ہم راتوں کو اٹھ کے روتے ہیں

افسانے اور ناول لکھنے والے لفظوں سے من موہ لیتے ہیں
اور شاعر ان لفظوں سے گیان کی مالا پروتے ہیں

ونچی نے جب مونا لیزا بنائی تھی، اسے کیا تھا پتا
ان پیاری مسکراہٹوں میں غم بھی چھپے ہوتے ہیں

سنگ مرمر کا تاج محل پتھر کی غزل تو لگتا ہے
لیکن اس کے دیوار و در جنتا کی افلاس کو روتے ہیں


اس مادہ پرست دنیا میں جو بھی سچا پیار کرے
ایسے لوگ یا عاشق یا دیوانے ہوتے ہیں

رام، رحیم، رومیلو اور رامسیس سب ایک ہیں
پھر ہم کیوں ہندو، مسلمان اور کرسٹان ہوتے ہیں

یہ دنیا تو جھوٹ وفریب کی بستی ہے
سچ کی راہ پے چلنے والے چند لوگ ہی ہوتے ہیں

لوگوں کے دل کی دھڑکن دھک دھک کرتی ہے
میرے دل کی ہر دھڑکن میں تیرے نام ہی ہوتے ہیں

میں خود کو دنیامیں اتنا گم کرلیتا ہوں
لیکن میرے من میں پھر بھی تیرے خیال ہی ہوتے ہیں

بھولی صورت والوں سے دھوکا مت کھانا
بھولی صورت والے اکثر دھوکے باز بھی ہوتے ہیں

کچھ لوگ تو بن سوچے ہی پیار کی قسمیں کھاتے ہیں
اور وقت آنے پر اپنی مجبوری کا رونا روتے ہیں

پیار بھی کوئی کھیل ہے یارو جو ہرکوئی کھیلے
اس میں جھوٹ، فریب، دکھ اور غم ہوتے ہیں

بڑے بڑے ایوانوں میں انسانی حقوق کی بات کریں
ان کے لیئے یہ کھیل ہے ورنہ دل کے کالے ہوتے ہیں

دنیا میں کچھ ٹھگ ہیں یارو، ویٹو کی طاقت والے
اقوامِ متحدہ کے ایسے اوچھے قانون بھی ہوتے ہیں

کچھ لوگ تو سچا پیار کریں اور وعدے سچ سمجھتے ہیں
لوگوں سے کھلواڑ کریں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں

سرفراز بیگ۔۔۲۰۰۰۔۱۱۔۳۰ فلورنس ، اٹلی

No comments:

Post a Comment