Thursday, September 5, 2013

مجھے تم سے نفرت تو نہیں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، mujhay tum say nafrat to nahi, achi lagti hay, sarfraz baig




مجھے تم سے نفرت تو نہیں

مجھے تم سے نفرت تو نہیں، پر محبت بھی نہیں
پہلے جیسی نہ کوئی بات اور ملنے کی حسرت بھی نہیں

پہلے جتنی تڑپ ، جتنی کسک تھی دل میں
ایسا لگتا ہے کہ پتھر ہوں، اب وہ چاہت بھی نہیں

مجھے اک مبہم سی جو امید تھی ،اک آس تھی
جب سے ٹوٹی ہے وہ امید، دل کو راحت بھی نہیں

’’وہ جہاں بھی گیا لوٹا تو میرے پاس آیا‘‘
لوٹ کے تیرے پاس آؤں ایسی فطرت بھی نہیں

میرے خوابوں کا کیاخون، میرے ارمان بھی توڑے
میری داد رسی کرے کون، ایسی تو کوئی عدالت بھی نہیں

تم بڑے لوگ ہو بڑی شان ہے تمھاری
میں تو ہوں خانہ بدوش، چھوٹی سی تجارت بھی نہیں

شمع کی طرح جل کے میں نے اندھیرے میں اجالا کیا
اب ہوا راکھ ، اب اندھیرے سے عداوت بھی نہیں

اپنے ہاتھوں سے تقدیر کے پنوں کو سنوارنا چاہا
ایسے بکھرے ہیں کہ کسی سے شکایت بھی نہیں

تھا کوئی وقت کہ ہر کوئی مشتاق تھا ملنے کے لیئے
اب برا وقت ہے، اب کسی کی نظرِ عنایت بھی نہیں

جس شہر میں ہر لب پے میرے افسانے تھے
بدلا جو نصاب تو میرے بارے میں کوئی حکایت بھی نہیں

بھلے وقت تھے، باؤ جی، صاحب، مسٹر ،سر لایا
ایسی مادہ پرستی ہے کہ ذرا سی رعایت بھی نہیں

سرفراز بیگ اور بیوئل ،ونٹرتھور ۲۰۰۲؍۰۸؍۱۷ سوئٹزرلینڈ
...........................................................................


No comments:

Post a Comment