Wednesday, September 4, 2013

tum hi to ho, achi lagti hay, sarfraz bag تم ہی تو ہو ، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ



تم ہی تو ہو

ہر کسی کو چاہیئے
اک دیوار
جس کے سائے میں بیٹھ کے
دھوپ سے بچ کے
وہ رولے
میری وہ دیوار
تم ہی تو ہو
ہر کسی کو چاہیئے
اک تاج محل
جس کو دل میں بسا کے
وہ اپنے محبوب کو یاد کرے
اور خود کو محظوظ کرے
میرا وہ تاج محل
تم ہی تو ہو
ہر کسی کو چاہیئے
اک ہم راز
جس کے پاس وہ گھنٹوں بیٹھ کے
راز ونیاز کی باتیں کرے
اور دل کے بوجھ کو ہلکا کرے
میری وہ ہم راز
تم ہی تو ہو
ہر کسی کو چاہیئے
اک جانے من
جس کی یاد میں وہ غزلیں لکھے
اور اشعار کی کتابیں پڑھے
اور تشبیہات کے نئے باب بنے
میری وہ من کی جان
تم ہی تو ہو
ہر کسی کو چاہیئے
اک دیوی
جس کی وہ سچے دل سے پرستش کرے
اور سب منتیں اور مرادیں اس سے مانگے
اور اس کی چرنوں میں دیئے جلائے
میری وہ دیوی
تم ہی تو ہو
ہر کسی کو چاہیئے
اک منزلِ مقصود
جس کی تلاش میں وہ دنیا میں آتا ہے
اور برسوں بھٹکتا رہتا ہے
کسی کو ملتی ہے اور کسی کو نہیں
میری وہ منزلِ مقصود
تم ہی تو ہو

سرفراز بیگ ۔۱۹۹۹۔۱۰۔۲۰ راولپنڈی


No comments:

Post a Comment