Wednesday, September 4, 2013

achi lagti hay, achi lagti hay, sarfraz baig, اچھی لگتی ہے، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




اچھی لگتی ہے

سانولی سندر ناری مجھ کو اچھی لگتی ہے ۱۹۹۹۔۱۰۔۲۳
اِٹھلاتی بل کھاتی ناری اچھی لگتی ہے

ہنستی ہے وہ ایسے،جیسے جلترنگ بجے
ہنستی اور کھلکھلاتی اچھی لگتی ہے

کبھی وہ کھولے کبھی وہ باندھے اپنے بال
لیکن بکھرے بالوں میں اچھی لگتی ہے

جب بولے تو گالوں پے ڈمپل سے پڑیں
چْپ ہوجائے پھر بھی اچھی لگتی ہے

سوال کرتی آنکھیں، چہرہ کھلی کتاب
مجھ کو تو یہ شاہکار غزل اچھی لگتی ہے

کانْوں میں نہ بندے نہ تار ہیں
وہ بن زیور کے بھی اچھی لگتی ہے

پنکھڑی جیسے ہونٹ، موتی جیسے دانت
جب منہ کھولے کتنی اچھی لگتی ہے

صحرا کی ریت میں لہروں جیسی کالر بون
اور اس پے پیاری گردن اچھی لگتی ہے

اْس کے سینے کے زیر و بم متناسب
اْن پے کالی انگیاء اچھی لگتی ہے

گورے گورے بازو اور مہین مہین بال
جب ان کو صاف کرے اچھی لگتی ہے

پیاری پیاری انگلیاں، پیارے پیارے ہاتھ
ہاتھوں سے جب لِکھتی ہے،اچھی لگتی ہے

اْس کو یہ کہنا ہے، ’’کیا کہناہے ؟‘‘
وہ جب یہ کہتی ہے ، اچھی لگتی ہے

گورے پاؤں میں اونچی ایڑھی کی جوتی
وہ تو ننگے پاؤں بھی اچھی لگتی ہے

کل اْس کے پیروں سے کھیل رہا تھا میں
اْس کو میری گدگداہٹ اچھی لگتی ہے

غصے میں جب آئے، تیور بدل سے جائیں
وہ نالاں ہو یا برھم، اچھی لگتی ہے

نت نئے انداز کے پیراہن پہنے
مجھے تو میلے کپڑوں میں بھی اچھی لگتی ہے

ہم دونوں ناراض بھی ہوجاتے ہیں اکثر ۱۹۹۹۔۱۰۔۲۴
لیکن وہ ناراض بھی ہو اچھی لگتی ہے

اْس کے چلنے کا انداز بہت ہی سندر
اور جب رْک جائے ،اچھی لگتی ہے

یہ لڑکی اک لڑکے کو ٹوٹ کے چاہتی ہے
حالانکہ سب لڑکوں بالوں کو اچھی لگتی ہے

ہر محفل کی جان وہ بن جاتی ہے
جانے کیا باتیں کرتی ہے اچھی لگتی ہے

بات کرے وہ ایسے، جیسے پیر و بزرگ
بچوں جیسی باتیں کرے تو اچھی لگتی ہے

میں اس کو اچھا لگتا ہوں،وہ یہ کہتی ہے
جب وہ یہ کہتی ہے،اچھی لگتی ہے

اپنے اندر کتنے راز چھپائے بیٹھی ہے
مجھ کو یہ ہمراز سی لڑکی اچھی لگتی ہے

پیاسی مٹی پے بارش کے پہلے قطرے
تیرے بدن کی سوندھی خوشبو اچھی لگتی ہے

اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے ہیں
اْس کی آنکھوں سے رم جھم، اچھی لگتی ہے

ہونٹوں سے جب ہونٹ مل جاتے ہیں
بڑی دیر تک ان کی مٹھاس اچھی لگتی ہے

جب اْس کو سینے سے لگالوں تو
پھر اْس کے سینے کی دھک دھک اچھی لگتی ہے

قدرت نے یہ شاہکار بنایا فرصت میں
اْس کو بھی اپنی یہ تخلیق اچھی لگتی ہے

سرفراز بیگ ۱۹۹۹۔۱۰۔۲۳ تا ۱۹۹۹۔۱۰۔۲۴ راولپنڈی

No comments:

Post a Comment