Thursday, September 5, 2013

dastan nikli, achi lagti hay, sarfraz baig, داستاں نکلی، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ


داستاں نکلی

میں یہ سمجھتا تھا کہ میری زندگی میں حکایتیں بہت ہیں
کھولی جو اس نے زندگی کی کتاب تو داستاں نکلی

مجھے توایسا لگتا کہ ہم انساں نہیں داستانیں ہیں
سنی جو چند داستانیں تو اپنی زندگی آساں نکلی

میں یہ سمجھتا تھا کہ میرے ملک کی سیاست ننگی ہے
یہ تو یورپ کے ایوانوں میں بھی عریاں نکلی

میں جس کی خوبصورتی پے مرمٹا، برباد ہوا
بڑی بیوفا تھی وہ، وفا کی بزم میں بدنماں نکلی


کسی کو چہرہ، کسی کو بال، کسی کو آنکھیں، کسی کو چال اچھی لگی
میں نے اس کے دل میں جھانکا تو درد کا جہاں نکلی

ہم اپنے ہی عشق اور مایوسیوں میں گم تھے
جب ہوش آیا تو دیکھا دنیا کہاں سے کہاں نکلی

کبھی باپ، کبھی بیٹا، کبھی شوہر، کبھی بھائی کی عزت
وقت پڑنے پر عورت کے منہ سے ہاں نکلی

سرفراز بیگ۔۲۰۰۳۔۰۱۔۲۶ اریزو، اٹلی




No comments:

Post a Comment