Thursday, September 5, 2013

woh jis ki yad mein, achi lagti hay, sarfraz baig, وہ جس کی یاد میں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ


وہ جس کی یاد میں

وہ جس کی یاد میں میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں
وہ بھی میری یاد میں آبدیدہ ہوتا ہوگاکہ نہیں

وہ جس کو یاد کرکے میں راتوں کو سو نہیں سکتا
وہ بھی میری یاد میں راتوں کو سوتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کی آواز میرے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہے
وہ بھی میری باتوں سے محظوظ ہوتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کی یاد میں ،میں آجکل چپ چپ سا رہتا ہوں
وہ بھی مجھ کو یاد کرکے گم سم سا رہتا ہوگا کہ نہیں


وہ جس کے ساتھ بیتی ہوئی چاند راتیں مجھ کو یاد آتی ہیں
وہ بھی ان چاند راتوں کو یاد کرتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کا ہر کام کرنے میں مجھ کو راحت ملتی تھی
وہ بھی اس راحت کی شدت کو محسوس کرتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس سے دن بھر لڑکے میں پھر من جاتاتھا
جانے اس کے روٹھنے پے اب کوئی مناتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کو دیکھ کر مجھے اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوتا تھا
وہ بھی زیست کی ان منزلوں سے گزرتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کے پیار میں ، میں دن رات سلگتا رہتا ہوں
اس کو بھی میرا پیار تڑپاتا اور ستاتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کے فون پے مصروف رہنے پے میں ناراض رہتا تھا
وہ اب بھی فون پے اتنا مصروف رہتا ہوگا کہ نہیں

کبھی ہم آٹا گوندھے تھیں کبھی ہم پیاز کاٹے تھیں
وہ اب ان کاموں میں میرے وجود کو محسوس کرتا ہوگا کہ نہیں

وہ دن بھر اس سے پیار بھری میٹھی میٹھی باتیں کرنا
وہ ان پیار بھری میٹھی باتوں کو یاد کرتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کی یاد میں یاد کرتے اس کو میری انگلی کٹ گئی
وہ بھی میری انگلی کے کٹنے کے درد کومحسوس کرتا ہوگا کہ نہیں

پھر جب اپنی انگلی پے پٹی باندھی، اس کی یاد آئی
اس کی انگلی پے پٹی میں نے باندھی تھی، اس کو یاد ہوگا کہ نہیں

وہ جب بیمار تھی، میرے کندھے پے ہاتھ رکھ کے گھر گئی تھی
اس کو میرے شانے کا وہ سہارا یاد ہوگا کہ نہیں

وہ چل نہیں سکتی تھی، کم بولتی تھی اور نہ کپڑے بدلتی تھی
اس کو وہ نقاہت، کم گوئی اور بد نظمی یاد ہوگی کہ نہیں

وہ جس کی ایک پل کی جدائی کا میں تصور نہیں کرسکتا تھا
وہ مجھ کو بھول کر بھی ہر پل یاد کرتا ہوگا کہ نہیں

اپنے سینے پے دونوں ہاتھ رکھے اک دن وہ سو رہی تھی
جیسے کوئی اپسراء محوِ خواب ہو، اس کو یہ یاد بھی ہوگا کہ نہیں

درزی کا اس کو چھونا مجھے بالکل اچھا نہ لگا
اس کو میرے ساتھ درزی کے پاس جانا یاد ہوگا کہ نہیں

وہ میرے نمبر پے بَز دے کر رسیور رکھ دیتی تھی
میں جھٹ سے رنگ کرتا تھا، اس کو یہ یادہوگا کہ نہیں

جب ہم ملکر رقص کرتے تھے ہاتھوں میں ہاتھوں ڈالے
وہ جھینپ جاتی تھی، وہ جھینپنا اس کو یاد ہوگا کہ نہیں

میرے ہونٹوں پے اس کے چومنے کی مٹھاس اب بھی باقی ہے
اس کے ہونٹوں پے یہ مٹھاس اب بھی ہوگی کہ نہیں

اس کو سینے سے لگانا اور گرم سانسوں کو محسوس کرنا
اس کی سانسیں رک رک جاتی تھیں، اس کو یہ یاد ہوگا کہ نہیں

وہ جس کو یاد کرکے مجھے سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے
مجھ کو یاد کرکے اس کا موسم بھی بدلتا ہوگا کہ نہیں

کبھی اس کی مالش کرنا اور کبھی اس کے بازو دبانا
اس کو میرے ہاتھوں کا لمس اب بھی یاد ہوگا کہ نہیں

وہ جس کے ساتھ رہ کے میں نے کچھ اچھی باتیں سیکھ لی تھیں
اس کو وہ ٹوکنا اور سمجھانا یاد بھی ہوگا کہ نہیں

اس کے ساتھ بیتی ہوئی باتیں یاد کرکے میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں
اس کی بھی آنکھیں ان باتوں کو یاد کرکے بھرآتی ہوں گی کہ نہیں

وینس کی پانی گلیوں میں گنڈولے کے ہر ہچکولے پے
میرے دل نے تم کو یاد کیا، تم کو بھی یہ محسوس ہوتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کو پیروجا کی آڑھی ترچھی سڑکوں پے میں نے یاد کیا
وہ بھی سوات کے مرغزاروں میں مجھ کو یاد کرتا ہوگا کہ نہیں

وہ جس کو میں رافیلو کی باپردہ تصویر دیکھ کر یاد کرتا ہوں
وہ بھی دوپٹہ اوڑھتے یہ محسوس کرتی ہوگی کہ نہیں

وہ جس کو فیرینزے کے پیاتزے میں نے یاد کیا تھا
وہ بھی کسی باغ میں جاکے مجھ کو یاد کرتی ہوگی کہ نہیں

وہ جس کی تصویر دیکھ کر میں سارے دکھ بھول جاتا ہوں
وہ بھی میری تصویر دیکھ کر دکھ بھول جاتا ہوگا کہ نہیں

سرفراز بیگ ۔ ۲۰۰۰۔۱۱۔۱۳ اریزو اٹلی




No comments:

Post a Comment