Thursday, September 5, 2013

pehli dafa usay dekha to esa laga, achi lagti hay, sarfraz baig, پہلی دفعہ اسے دیکھا تو، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ




پہلی دفعہ اسے دیکھا

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا
جیسے سؤرگ سے کوئی اپسرا زمیں پر آگئی ہو
انگاروں کی طرح دھکتی کاکلوں میں پرندوں کے پر سجائے
ان گنت دل دل پھینک عاشقوں کا قتل کرنے آگئی ہو

پہلی دفعہ اسے دیکھا ایسا لگا
جیسے رنگ برنگی تتلیاں آنکھوں کے سامنے رقص کررہی ہوں
پنکھڑی جیسے ہونٹوں پے مسکراہٹ بکھیرے تو
جیسے دور دور باغوں میں کلیاں کھل گئی ہوں

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا
جیسے پتھر کا کوئی صنم، مہبوت ہوکر دیکھتا ہو
جیسے سوئے ہوئے محل میں شہزادی نے
جادو کی چھڑی سے سب کو گہری نیند سے جگادیا ہو

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا
جیسے شہر کے گلستانوں کے تمام پھول کھل گئے ہوں
اور سارا شہر ان کی خوشبوؤ سے معطر ہوگیا ہو
اور شہر کے مکین اس خوشبوؤ سے مدہوش ہوگئے ہوں

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا
جیسے چلچلاتی دھوپ میں ٹھنڈی ہوا جھونکا چھوگیاہو
جیسے خزاں کے موسم میں چپکے سے بہار آگئی ہو
جیسے بن بادل برسات ہوگئی ہو

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا
جیسے دور کسی وادی میں شفاف جھرنا بہتا ہو
جیسے جھیل کے صاف پانی میں رنگین مچھلیاں تیرتی نظر آتی ہوں
جیسے قطار اندر قطار کنول کے پھول کھل کر مسکرا رہے ہوں

پہلی دفعہ اسے دیکھا تو ایسا لگا

مندرجہ بالا نظم ونٹرتھور کے بازار میں اچانک ملنے والی لڑکی ڈینس (DENISE) سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے۔ اس کا بالوں میں پرندوں کا پر سجانا بہت ہی سندر اور دل موہ لینے والا منظر تھا

سرفراز بیگ۔۔۲۰۰۲۔۰۸۔۰۴ ونٹر تھور، سوٹزرلینڈ


No comments:

Post a Comment