Wednesday, September 4, 2013

لہریں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، lehrein, achi lagti hay, sarfraz baig



لہریں

سمندر کے کنارے جو میں بیٹھا
میں نے اک عجب منظر دیکھا
کہ اک لہر دوسری لہر سے
سرگوشیاں کررہی تھی
اور یہ پیغام
وہ نیلے پانیوں سے لائی تھی
کیونکہ ان نیلے پانیوں کے کنارے
کوئی شخص ان لہروں سے
محوِ گفتگو ہے
اور اپنا دل کا حال بیان کرتا ہے
اور اپنے محبوب کو لہروں کے ذریعے
دل کا حال پہنچاتا ہے
جاننا چاہیئے گا
وہ لہریں کیا سرگوشیاں کرتی ہیں
ہر لہر دوسری لہر کو بتاتی ہے
اور یہ خبر کنارے تک آتی ہے
جس کو میں سنتا ہوں
کچھ اس طرح
اے لہرومیرے محبوب کو کہہ دو
گر تواداس ہے، میں بھی غمزدہ ہوں
گر تیری مسکان چھن گئی، میرے بھی تبسم کھو گئے
گر تیری رنگینیاں گئیں، میری زندگی بے رنگ ہوئی
گر تو منتظر ہے، میری آنکھیں پتھر ہوگئیں
گر تو عشق کرتا ہے، میرا بھی پیار کم نہیں
کچھ اس طرح سے
گریہ کرتے میں نے لہروں کو سنا
میں نے لہروں کو سرگوشیاں کرتے سنا
سمندر کے کنارے جو میں بیٹھا

سرفراز بیگ۔۱۹۹۹۔۰۲۔۲۲ پیرس








No comments:

Post a Comment