Thursday, September 5, 2013

پہلے بھی کہیں دیکھا ہے، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، pehlay bhi kahin dekha hay, achi lagti hay, sarfraz baig





پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

آپ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے
آپ بھی تو کہتے ہیں کہ آپ کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

یہ ناز ،یہ انداز، یہ جادو ،یہ ادائیں، یہ چاند سا چہرہ
اتنے عناصر کو اکھٹا، پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

بچپن سے لڑکپن، لڑکپن سے جوانی اور جوانی پے شباب
عشق کے آتش کو یوں بڑھتے ، پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

کھلتی ہوئی رنگت، آنکھوں میں شرارت، گالوں پے لالی
ایسا معصوم سا چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

زلفیں ہیں کہ ایسے، پھیلائے تو گھٹا، لہرائے تو ناگن
گھٹاؤں میں چھپا چاند پہلے بھی کہیں دیکھا ہے


آنکھیں ہیں کہ جیسے،مہہ کے پیالے، چھلکے کہ ابھی چھلکے
دل کہتا ہے، ان مدبھری آنکھوں کو پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

ہم ہیں کہ مرے جاتے ہیں اور ان کو تو پرواہ بھی نہیں
ایسا خود غرض صنم پہلے بھی کہیں دیکھا ہے


قوموں میں، فرقوں میں، رنگوں میں،مذاھب میں بٹے لوگ
انسانیت کا اتنا بگڑا ہوا چہرہ پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

میرے دل سے جو آہ نکلی تو عالمِ افلاک سے ٹکرائی
درد کے نالے کو یوں اٹھتے ہوئے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے

سرفراز بیگ ۲۰۰۳؍۰۲؍۰۳ اریزو ، اٹلی


No comments:

Post a Comment