Wednesday, September 4, 2013

اک نہ کرکے، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، ik na karkay, achi lagti hay, sarfraz baig




اک نہ کرکے

میں سارے بندھن توڑ کے تیرے پاس آیا
تونے سارے بندھن توڑ دیئے اک نہ کرکے

میں پہروں تیرے پاس رہا، چاہا تم سے بات کروں
تم بیٹھی فون پے بات کرو، تم رکھ سکتی تھیں اک نہ کرکے

مجھے مان تھا تم پے کتنا، تم کیا جانو، تم کیا سمجھو
میرے مان کا اپمان ہوا، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میں کتنے سپنے دیکھے تھے، اور کتنے خواب بنے تھے
میرے سارے سپنے ٹوٹ گئے، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میں اس ناری سے پریم کروں جو من مورت کی اچھی ہو
تم من مورت کی اچھی تھیں، تم نے نہ کردی ایک نہ کرکے

پردیس سے جب میں لوٹاتھا، واپس نہ جانے کا سوچاتھا
پھر واپس لوٹ آیا ہوں ، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میرے من کے اندر سے ہر پل اک آواز یہ آئے
تم اب کتنا پچھتاتی ہو صرف اپنی اس نہ کرکے

یہ اب کی کوئی بات نہیں یہ اب تو گزر ہی جائے گا
تم بعد میں بھی پچھتاؤ گی صرف اپنی اس نہ کرکے

گر بھگوان بھی سوئیم آئیں دھرتی پے مجھ کو سمجھانے
میں پھربھی نہ کردوں گا صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میں کس ناری پے وشواس کروں، سب جھوٹ لگے
میرے وشواس کا تونے گھات کیا، صرف اک نہ کرکے

تونے وعدے کتنے کرڈالے اور ایک بھی پورا کر نہ سکی
سب وعدے جھوٹے لگتے ہیں،صرف ایک تمہاری نہ کرکے

کوئی سندر ناری دیکھ کے پریم کا جب میں سوچت ہوں
میرا گیان مجھے منع کرے، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میں نے من کی بات سنی اور گیان مجھے سمجھاتا رہا
اب نہ تو میں بدھی مان رہا، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

تونے خط میں مجھ کو لکھا تھا ، تجھے اک بالک کی اِچھا ہے
وہ بالک کی اِچھا بھول گئیں، صرف اور صرف اک نہ کرکے

برسوں سے ناری پْرشوں کے ہاتھوں دھوکا کھاتی آئی ہے
میں تو ناری کارن برباد ہوا، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

مرنے کی اِچھا رہتی ہے ، مر مرکے جیاء نہیں جاتا
مر کے بھی میں مرنہ سکا، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

میرے اپنے پرائے اک تیرے کارن روٹھ گئے
میرے سنگی ساتھی چھوٹ گئے، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

اب جو کسی وعدہ کرنا سوچ سمجھ کے کرنا
پھر کوئی برباد اور ناشاد جوہوگا، صرف ایک تمہاری نہ کرکے

سرفراز بیگ۔۔۲۰۰۰۔۰۸۔۱۱ اریزو، اٹلی






No comments:

Post a Comment