Wednesday, September 4, 2013

میں اکثر سوچتا ہوں، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، mein aksar sochta hon, achi lagti hay, sarfraz baig




میں اکثر سوچتا ہوں

میں اکثر سوچتا ہوں
یہ ہوائیں کہاں رہتی ہیں
کہاں سے آتی ہیں اور کہاں جاتی ہیں
ان کے رنگ کیسے ہوتے ہیں
کیا ہم ان کو قید کرسکتے ہیں؟ نہیں
پتوں سرسراہٹ بتاتی ہے
ہوا آئی تھی اور چلی گئی
ہماری محسوسات نے اس کو ہوا کا نام دیا

میں اکثر سوچتا ہوں
یہ پیار کیا چیز ہے
کب اور کیسے ہوجاتا ہے
اک کا رنگ کیسا ہوتا ہے
کیا ہم اک کی پیمائش کرسکتے ہیں؟ نہیں
میٹھا میٹھا درد اور تڑپ ہمیں بتاتا ہے
ہم کسی کے پیار کی آگ میں جل رہے ہیں
ہماری محسوسات نے اس کو پیار کا نام دیا

میں اکثر سوچتا ہوں
یہ غم کہاں رہتا ہے
یہ کب شروع ہوتا اور ختم ہوجاتا ہے
اس کا کرب کیسا ہوتا ہے
کیا ہم غم کا تول کرسکتے ہیں؟ نہیں
ہمارا حزن و ملال، رنج و الم ہمیں بتاتا ہے
ہمارا دل کسی غم میں مبتلاء ہے
ہماری محسوسات نے اس کو غم کا نام دیا

میں اکثر سوچتا ہوں
خوشی کا مسکن کدھر ہے
کب محسوس ہوتی ہے اور کب اختتام پذیر ہوتی ہے
کیا خوشی کا کوئی پیراہن ہوتا ہے
کیا اس کی کوئی شبیہہ ہوتی ہے؟ نہیں
ہمارے دل کی مسرتیں ہمیں احساس دلاتی ہیں
ہمارا دل کسی خوشی سے مچل رہا ہے
ہماری محسوسات نے اس کو خوشی کا نام دیا

میں اکثر سوچتا ہوں
ُٓ پانی کیا ہے
پانی کی پیدائش اور موت کیسے ہوتی ہے
کیا پانی کا کوئی اپنا رنگ ہوتا ہے
کیا پانی کو ہم اپنی مٹھی میں قید کرسکتے ہیں؟ نہیں
ہمارے ہاتھ کا گیلا پن ہمیں بتاتا ہے
پانی ٹھنڈا، گرم اور یخبستہ ہے

میں اکثر سوچتا ہوں
خیال کہاں سے آتے ہیں
کیاہم خیالات کو خود لاتے ہیں یا خود سے آتے ہیں
کیا خیالات کوئی جامہ زیب تن کیئے ہوتے ہیں
کیا تپائی پے پڑی ہوئی کسی چیز کو ہم خیال کہہ سکتے ہیں؟ نہیں
خیال کا تعلق تو تخیل و تصورات سے ہے
اچانک کسی بات کا خیال آتے ہی ہمیں خیال کا پتا لگا
ہماری محسوسات نے اس کے آنے کو خیال کا نام دیا

میں اکثر سوچتا ہوں
خدا کیاہے
وہ کہاں رہتا ہے اور اسے کس نے بنایا ہے
وہ نظر نہیں آتا۔وہ ہے بھی یا نہیں؟
کیا وہ سات آسمانوں کے اوپر رہتا ہے؟ نہیں
ہمارے دل ،دماغ اور خیالات کی طرح وہ نظر نہیں آتا
لیکن وہ ہر جگہ موجود ہے۔بِنا دکھائی دیئے
ہمارے خیالات اور تصورات کے آنے نے اس کو خدا کا نام دیا

سرفراز بیگ ۱۵۔۰۷۔۱۹۹۹ تا۰۹۔۰۸۔۱۹۹۹ راولپنڈی




No comments:

Post a Comment