Wednesday, September 4, 2013

tum say milkar, achi lagti hay, sarfraz baig, تم سے مل کر، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ


تم سے مل کر

میں تو پردیس گیا تھا اب آیا ہوں ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۱
اب جانے کو دل نہیں کرتا، تم سے مل کر

تیرے لیئے افسانے اور غزلیں لکھیں
افسانے، غزلیں پھیکی لگیں، تم سے مل کر

میں تو کڑی دھوپ میں چل رہا تھا
وہ دھوپ چھاؤں لگے، تم سے مل کر

تیری تصویر سے کتنی باتیں کرتا تھا
ساری باتیں بھول گیا ہوں، تم سے مل کر

تم سے ملنے کو کتنا تڑپا کرتا تھا
میری تڑپ بڑھ جاتی ہے، تم سے مل کر

کل ہم دونوں چاند کو دیکھ رہے تھے
چاند بھی کتنا ماند لگا ، تم سے مل کر

تم مجھ سے کتنا پیار کرت ہو
میں نے یہ جانا، تم سے مل کر

سپنوں میں تم کو دیکھا کرتا تھا
سپنے سارے سچ نکلے ،تم سے مل کر

زندگی بے معنی سی لگتی تھی ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۳
اب جینے کو دل کرتا ہے، تم سے مل کر

جب تنہا ہوتا ہوں رولیتا ہوں
ظاہر ہنستا رہتا ہوں، تم سے مل کر

اتنے برسوں بعد ملے ہیں
برسوں کی باتیں کرنی ہیں، تم سے مل کر

میری اندر کتنی اغلاط تھیں پہلے ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۵
اْن کی اصلاح ہوئی، تم سے مل کر

جب بھی میں حالات سے گھبراتا ہوں
میری ہمت بندھ جاتی ہے، تم سے مل کر

جب بھی میرے پاس بیٹھ کے روتی ہو
میری آنکھ بھی نم ہوجائے، تم سے مل کر

نہ دیکھوں تم کو ، توخدشات میں گِھر جاؤں
خدشے سارے مٹ جائیں تم سے مل کر
سرفراز بیگ ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۱ تا ۱۹۹۹۔۱۱۔۰۵ راولپنڈی


No comments:

Post a Comment