Thursday, September 5, 2013

لکڑی کو دیمک، اچھی لگتی ہے، سرفراز بیگ، lakri ko demak, achi lagti hay, sarfraz baig



لکڑی کو دیمک

جس طرح لکڑی کو دیمک اور غیبت نیکیوں کو
اسی طرح کھائے جارہی ہے مجھے میری تنہائی اور تیرا غم

گیلی لکڑی کی طرح دن رات سلگتا رہتا ہوں
اور اسی طرح سلگتے ہی میرا نکل جائے گا دم

اپنی صبحیں، شامیں اور کچھ راتیں جو تیرے نام کردی تھیں
اب ان کو یاد کروں تو آنکھیں ہوجاتی ہیں نم

اب تک جتنی عمر بتائی اس کا میں نے حساب کیا
گناہوں کا پلڑا بھاری ہے، نیکیاں ہیں اس میں کم

اپنی چھوٹی عزت کی خاطر اوروں کو نیچا دکھلاتے ہیں
چپ ان کی بتلاتی ہے، ان کو نظروں میں گر جاتے ہیں ہم

مال و متاع کے لالچ میں ساری عمر گنواں ڈالی
یادِ الہی ،یاد آئی، جب ہاتھ میں آئی لاٹھی، اور کمر میں آیا خم

تیرے یاد بھلانے کو میں نے مہہ کا سہارا لیا
ساقی شاید بھول گیا، مہہ کے بدلے لایا جامِ جم

سرفراز بیگ ۲۰۰۲۔۰۵۔۲۴ اریزو اٹلی

No comments:

Post a Comment